اندر کی چڑیا
کہاں اڑ گئی هے

ہ چڑا جو آپ دیکهه رهے ہیں ، یہ میرا سینئر روم میٹ هے – میں جس کمرے میں پہلی بار دنیا میں آیا یہ وہاں مجھ سے پہلے موجود تھا اور وہ کمرہ اس کا مستقل بسیرا تھا ، سو ماں کی لوریوں کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی میرے کانوں میں پڑتی رہتی ۔ یہ اس کی مہربانی کہ رات کو وہ شور نہیں مچاتا تھا البتہ کسی وقت ہلکی ہلکی آہٹوں سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ سونے سے پہلے وہ اپنے اہل خانہ کو کبھی کبھی تنبیہہ کرتا رہتا ہے کہ زیادہ چوں چوں نہ کریں ، اور لوگ بھی سو رھے ہیں – میری زندگی کا یہ روم میٹ ، شاید آپ کو عام اور بھدے رنگ کا چھوٹا سا پرندہ ، چھوٹا سا چڑا لگے ۔ خود مجھ سے بھی بہت کوتاہی ہوئی ، میں نے بھی اس کی قدر نہ جانی ۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا ، یہ دنیا کا سب سے خوبصورت اور خوش آواز پرندہ ہے ۔ میں اپنے آبائی گھر میں 26 برس رہا ، یہ میرا روم میٹ رہا ، میرے بستر کے اوپر چھت کی کڑیوں میں اس کا گھونسلہ رہا جہاں اس کا مکمل پریوار رہتا تھا ، بچے جوان ہوتے تو ساتھ ایک آدھ گھونسلہ بن جاتا تھا لیکن جلد هی چڑیوں میں ساس بہو والا جهگڑا شروع ھو جاتا ، اور بات تو تکار سے باہم گتھم گتھا ھونے تک آ پہنچتی – اور کبھی کبھار وہ لڑتے لڑتے نیچے ہم پر آ گرتے اور ہم انہیں پکڑ لیتے ۔ ان کے ننھے دل دھک دھک کر رہے ہوتے اور وہ خوفزدہ نظروں سے دیکھتے ۔۔ ہم انہیں چھوڑ دیتے اور پھر ایک جوڑا کمرے میں سے نکل کر باہر بیری پر یا دیوار کے کسی سوراخ میں جگہ بناتا ۔ یہ بھی ممکن ہے بوڑھا جوڑا نکل جاتا ہو کیونکہ نیچر میں طاقت کا اصول چلتا ہے ۔ لیکن کمرے میں ہمیں وہی چڑا لگتا ۔۔۔
ہارنے والا جوڑا جلد باہر صحن کی کھلی فضا میں آ کر بیریوں میں ٹھکانہ بنا لیتا ۔ خود میں نے بھی نئے جہانوں کی تلاش میں وہ کمرہ بلکہ وہہ گھر بھی چھوڑ دیا ۔ کوتاہی یہ ہوئی کہ نادرا کے ب فارم میں گھر والوں نے میرا نام تو فیملی میمبرز میں درج کرا دیا لیکن اس چڑے اور اس کے بچوں کا نام لکھانا بھول گئے ۔ وقت کی بے رحم رفتار میں مجھ سے میرا آبائی گھر چھوٹ گیا اور وہاں تالہ لگ گیا ۔ میرا اس علاقے سے گزر ہو تو میں اس گھر میں جانا تو کیا بچپن کی گلی کو بھی نہیں دیکھتا ، منہ دوسری طرف پھیر کر گزر جاتا ہوں ۔ مجھے معلوم ہے میں نے ادھر دیکھا تو پتھر کا ہو جاؤں گا ، سو مجھے معلوم نہیں میری زندگی کا پہلا ساتھی اور اس کا گھرانہ کہاں اور کس حال میں ہے ۔ لیکن اتنا اندازہ ہے کہ یہ بھی اس ویرآن گھر میں سے دکھ کے مارے نہیں رہ سکا ہوگا ۔ دن بھر تو مجھے دیگر آوازیں گھیرے رہتی ہیں لیکن رات سونے سے پہلے اور صبح جاگنے پر میں وہ چہچہے بہت مس کرتا ہوں – میں نے اس محرومی پر کئی شعر بهی کہے ہیں – ایک فوری طور یاد آرہا هے شاید اس سے آپ کو اندازہ ھو جائے ، مجھ سے کیا کچھ کھو گیا ھے :
صبح دم آتی هے چڑیا کی کہاں سے آواز
کھویا ریتا هوں اسی عقدہء لاینحل میں
مجھ سے میرے بچپن کی لوریاں بھی کھو گئی ہیں ، بس ماں کا مہربان چہرہ یاد رہ گیا ہے میں بچوں کے سامنے رو بھی نہیں سکتا کہ وہہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ ایسے بابا لوگوں کی مائیں بھی تھیں جو ان کو یاد آیئں تو ان کے اندر ہی اندر بارش ہوتی رہتی ہے ۔ اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کھو جائے تو ماں کی لوری بھولنے لگتی ھے –
میں محسوس کرتا ہوں کہ اب میرے اندر وہ چہچہاتی چڑیاں مرتی جارہی ہیں ، اس لئے میرے اندر بهی سناٹا چھاتا جا رہا ہے –
جب شاعرہ کہتی ہے
میرا بچپن ، میری گڑیاں لا دے
تو میرا یہ کہنے کو جی چاہتا ہے
میرا بچپن ، میری چڑیاں لا دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفقات چوہدری لکھتے ہیں ، کیا وہی ایک چڑا آپ کا 26 سال تک روم میٹ رہا —
سوال بہت دلچسپ ہے شفقات چوہدری صاحب لیکن آپ نے غور نہیں کیا میں نے تو لکھا ہے کہ وہ مجھ سے پہلے تھا اور ابب تک اسے ڈھونڈ رہا ہوں ، آپ کا سوال تو یہ بنتا تها کہ کب سے تها اور اب وہ کتنے سو برس کا ہے ۔ سوچیئے گا جب حضرت آدم زمین پر آئے تو ان کے استقبال کیلئے یہاں چرند پرند پہلے سے موجود تھے کہ نہیں ۔
پوسٹ لکھتے وقت جب دو چڑیوں کی لڑائی تک میں پہنچا تو وہاں بات بہت طویل ہو سکتی تھی ۔ کہ کس طرح وہ لڑتے لڑتےے نیچے ہم پر آ گرتے اور ہم انہیں پکڑ لیتے ۔ ان کے ننھے دل دھک دھک کر رہے ہوتے اور وہ خوفزدہ نظروں سے دیکھتے ۔۔ ہم انہیں چھوڑ دیتے اور پھر ایک جوڑا کمرے میں سے نکل کر باہر بیری پر یا دیوار کے کسی سوراخ میں جگہ بناتا ۔ یہ بھی ممکن ہے بوڑھا جوڑا نکل جاتا ہو کیونکہ نیچر میں طاقت کا اصول چلتا ہے ۔ لیکن کمرے میں ہمیں وہی چڑا لگتا ۔۔۔
تو اصل بات تو ، میرے دوست ، علامتی ہے ۔ یہ چھوٹے بڑے جانور اور پرندے ہمارے خلیفتہ الارض ہونے کی حیثیتت میں ہم پر خالق کی طرف سے تحفے امانت ہیں ۔
کتاب زندگی کی یہ مقدس آیتیں ہیں
ہرن چینل چکارے تتلیاں جگنو پرندے
اور اب ہمارے بدلتے طرز زندگی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔ اور خود ہم بھی پریشان ہیں ۔۔۔ چڑیوں اور پرندوںں کی چہچہاہٹ نہ ہونے سے کیا ھوتا ھے اس کا اندازہ مجھے ایک آرٹیکل سے ھوا – لیبیا کے کسی علاقے میں ایک پاکستانی پروفیسر تعینات ہوا تو وہاں اسے عجیب سناٹا محسوس ہوا – وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ یہاں کے صحرائی ماحول میں چڑیاں سروائیو نہیں کر سکتیں – سو چڑیاں نہ ہونے سے یہ غیر معمولی سناٹا ہے –
میں محسوس کرتا ہوں کہ اب ہمارے اندر کی وہ چہچہاتی چڑیاں مرتی جارہی ہیں ، اس لئے ہمارے سینے کے صحراوں میںں بهی سناٹا چھاتا جا رہا ہے –
تنویر اقبال پوچھ رھے ہیں
نیازی صاحب کیا آپ کے روم میٹ چڑے چڑیا نے مل کرکبهی کهچڑی بهی پکائ….
یہ الگ کھچڑی پکانے والی کہانی بعد میں آئ , وہ چڑیاں کمبائنڈ فیملی سسٹم میں گھر کی فرد ہوتی تھیں , جو کچھ گھر میں پکتا وہیی ان کا کھاجا تھا اور ہمارے ہاں ان دنوں چاول اور کھچڑی یا تو بیمار کیلۓ یا پھر دعوت اور تہوار کے موقع پر پکتے تھے – زیادہ تر گندم کی روٹی پر گزارا تها – ھمارے علاقے میں کھاد کے بغیر دیسی گندم کا دانہ کتنا خوبصورت اور اس کا ذائقہ کتنا لذیذ تھا ، یہ نئی نسل سوچ ہی نہیں سکتی – دوپہر کے وقت تنوروں پر پکتی روٹی کی مہکار چند مسحور کن خوشبووں میں سے ایک ھے جو کتنے گهروں تک پھیل جاتی تھی – اور اس گندم کا ایک روپے کا چار کلو آٹا میں نے اپنے لڑکپن میں خریدا ھے – اب مارکیٹ میں جو فلور ملز سے میں اور آپ آٹا لے رھے هیں اس کی قیمت تو اپنی جگہ ، اس کے خالص ھونے پر آپ کو کتنا یقین ھے- میں اس ایک چڑیا کے کھونے میں جانے کیا کچھ کھو چکا هوں –
سید غلام حسین جعفری میری طرح سینئر سیٹیزن اور ریڈیو پاکستان کے سینئر انجنئیرز میں سے ہیں ، کہتے ہیں :–
چڑے کی ہمسائگی کا تذکرہ پڑھکر بہت لطف آیا اور مجھے بچپنے میں اماں کی سنائ ہوئ چڑیا چڑے کی کہانی یاد آ گئ جس میں چڑیاا دال کا دانہ لاتی ہے اور چڑا چاول کا دانہ لا کر دونوں کھچڑی پکاتے ہیں ۔ اس سے بہتر ساتھ رہنے اور محبت کا درس دینے کاطریقہ نہیں ہوسکتا جو پرانے زمانے میں اپنایاجاتا تھا – مجھے بھی پرندوں سےبڑا پیار ہے ، آ ج بھی اپنے ٹیرس پر دانہ ڈالتا ہوں اور الگ سے مٹی کے برتن میں پانی رکھ دیتا ہوں لیکن اس کو کیا کیجیےکہ پڑوس میں جو صاحب رہتے ہیں ان کے درختوں پر کووں کا بسیرا رہتا ہےجو ان بیچاری چڑیوں کو نہ دانہ کھانے دیتے ہیں اور نہ پانی پینے دیتے ہیں ، طاقت کے زور پر کمزور پرندوں کو بھگا دیتے ہیں – میں کبھی سوچتا ہوں کہ کیا آخر صرف طاقتور کو ہی زندہ رہنے کا حق ھے ؟
عرض یہ هے کہ پرندوں ، جانوروں یا دیگر غیر انسانی جاندار و غیر جاندار کو کردار بنا کر کہانی کہنا Fable کہلاتا ہے — اسے آپ حکایت کہہ سکتے ہیں ۔ یہ آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے کی صنف ہے اور سب سے مشہور ایسپ کی کہانیاں ہیں ۔ ایسپ 500 قبل مسیح میں گزرا ہے ، پیاسا کوا ، لالچی کتا عقلمند بکریاں وغیرہ سبھی ایسپ کی ہی فیبل ہیں ۔ انسان کی حرمت کو قائم رکھنے کیلئے کہانی کا تھیم جانوروں پرندوں وغیرہ کے پردے میں بیان کیا جاتا تھا ، یہ کہنا کہ ایک شخص لالچی تھا یا چور تھا، انسانیت کی توہین سمجھی جاتی تھی اور سبق آموزی کیلئے یہ بہت خوبصورت زریعہء اظہار تھا ۔ مجھے خوشی ہے پرندوں سے محبت آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ یہ کمزور مخلوق اللہ پاک کی طرف سے اس دھرتی کا حسن تو ہیں ، ہمارے پاس اس کی امانت بھی ہیں ۔ آپ جب پرندوں کو دانہ ڈالتے ہیں تو اس میں کووں کا حصہ بھی رکھا کیجیئے . ویسے چھوٹے پرندے بھی ان سے اپنا حصہ لے ہی لیتے ہیں ۔ ان میں لوٹ کھسوٹ کا وہ نظام نہیں جو انسانوں نے اپنے اندر کمزور کیلئے روا رکھا ہے –
اب ذرا اس پوسٹ کی بات ھو جائے –
حقیقت یہ هے کہ میں نے میانوالی کا آبائی گھر چهٹنے پر ذاتی نوحہ لکھا تھا اور اسے لکهتے وقت رو دیا تها – یہ پوسٹ آج سےے تقریبا” ڈیرھ برس پہلے آپ ڈیٹ کی تھی اور اسے قند مکرر کے طور پر دوستوں کے کمنٹس کے ساتھ آپ ڈیٹ کیا هے –
مجھے خوشی ھے کہ پروفیسر منور علی ملک جیسے صاحب علم و بصیرت اس پوسٹ کے بارے میں لکھا ھے :—
Marvelous.
Reminds me of Keats’s Ode to a Nightingale andd Shelley’s To a Skylark. But those two poets have over-intellectualized the two birds. You, like Wordsworth, hold up a mirror to Nature.
بہت شکریہ ملک صاحب آپ کے ان محبت بهرے کلمات نے اس تحریر کی قدر وقیمت بڑھا دی ھے –
بہت شکریہ

ظفر خان نیازی –21 اپریل2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top