بے حسی اور بے رحمی کی انتہا۔۔۔

ہر طرف سے کوئی خیر کی خبر نہیں مل رہی۔چاہے میانوالی ہو یا پاکستان کا کوئی اور علاقہ سب آگ کی لپیٹ میں ہے۔کہیں بجلی کی تو کہیں گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کا برا حال ہے۔اوپر سے خدائی قدرت گرمی بھی اپنے زوروں پر آگئی ہے۔پانی کی شدید قلت سے بچوں، جوانوں اور بزرگوں کی حالت ابتر ہے۔برف کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں۔دھاڑی دار طبقہ اب دو وقت کی روٹی کمائے یا دوسری ضروریات زندگی کی آسائشوں کو پانے کے لئے سوچے۔غریب کو تو رات بھر نیند ہی نہیں آتی۔گھر میں روز فاقے، روز لڑائی جھگڑے، خودکشی کی دھمکیاں ہمارے معاشرہ کا نصیب بن گیا ہے۔ عام انسان کی سوچ تو مر ہی گئی ہے عام انسان جو کہ غربت کا مارا ہوا ہے کے نزدیک صرف دووقت کی آسان روٹی کا حصول ہے۔ اس کو کو ئی شوق نہیں کہ کون ملک کا حکمران ہے۔کیا نیٹو سپلائی بحال ہو یا ڈرون حملے بند ہوں یا نیا وزیر اعظم کون ہو گا۔آئے روز کی ہڑتالوں کی وجہ سے لوٹ مار، عمارتوں اور قیمتی اشیاء کی توڑپھوڑ معمول بن گیا ہے لیکن کسی کو اس پر فکر نہیں اور نقصان صرف غریب عوام کا ہی ہے۔ڈالر بھی ان قریب سو رنز کر لے گا اور ملکی قرضے بھی بڑھ جائیں گے۔میرے نزدیک اور میرے خیال میں اب پاکستان کا نام بھی ورلڈریکارڈ بک میں آجانا چاہیے کیوں کہ اتنی لوڈشیڈنگ اور کسی بھی ملک میں نہیں ہوتی۔اور اس کے علاوہ کسی اور ملک میں اتنے سارے جنریٹر اور یوپی ایس نہیں ہوں گے جتنے ملک پاکستان میں ہر جگہ پر موجود ہیں۔ڈگری کالج فار بوائے میانوالی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ایم اے لیول کے پرچے شروع ہیں۔وہاں پر کچھ لڑکے اور والد اپنی بہنوں اور بیٹیوں کولینے آئے ہوئے تھے۔جمعہ کا دن ہو اور پرچہ 12بجے ختم ہونا تھا اور گرمی اپنے عروج پر تھی اور بجلی بھی نہ تھی۔کالج کے گراوئڈ میں موجود ایک لڑکا جو کہ اپنی بہن کو لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہوئے ہو تو اس نے بتاکہ وہ عیسیٰ خیل سے آیا ہوا ہے ۔عیسیٰ خیل کا نام سننا تھا کہ میرا ایک دفعہ تو دماغ چکرایا کہ اتنی گرمی میں محکمہ تعلیم نے اس بچی کا امتحانی سنٹر میانوالی میں رکھ دیا ہے۔ایک اور لڑکے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ پپلاں سے آیا کھڑا ہے اسی طرح میں نے چند ایک سے اور پوچھا اور سب کا یہی جواب تھا کہ کوئی نہ کوئی شہر سے کافی دور میانوالی میں پرچے دینے کیلئے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو لائے ہوئے ہیں۔میرے کم عقل دماغ میں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا امتحانی سنٹر میانوالی لازمی بننا تھا؟ کیا عیسیٰ خیل میں کوئی ہائی سکول نہیں جہاں ان بچیوں کیلئے امتحانی سنٹر نہ بن سکے گا۔کیا ضلع میانوالی میں کوئی ایسے ہائی سکول یا کالج نہیں جہاں ان علاقوں کے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ان کے علاقوں میں امتحانی سنٹر نہ بن سکتا ہو؟ایک لڑکی کا لاہور سے کافی دور امتحانی سنٹر بنایا گیا تھا تو میڈیا والوں نے یہ بات اتنی بار چلائی کہ مجبوراً محکمہ نے غلطی تسلیم کی اور لاہور میں ہی اس کا سنٹر بنایا گیا۔پاکستان میں تعلیمی نظام کا کوئی حال نہیں جبکہ دوسرے ملکوں میں سب سے زیادہ تعلیمی نظام پر توجہ دینا اور طالبعلموں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینا مقصود ہے۔جبکہ ہمارے ہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔ایک دفعہ نتیجہ آ جاتا ہے اور سب کے سب لڑکے اور لڑکیاں فیل ہو جاتے ہیں اور جب سب طالبعلم ہڑتال کرتے ہیں تو اعلیٰ حکام نوٹس لے کر دوبارہ پرچے چیک کرنے کے احکامات کرتے ہیں اور پھر سب پاس کیے جاتے ہیں کہیں میرٹ کو نظرانداز تو کہیں کیا ۔خدا راہ اعلیٰ حکام بھی سوچیں ان کے گھر بھی طالبعلم بیٹے اور بیٹیاں ہوں گی اور ہر کسی کے پاس ذاتی سواری اور نہ ہی کسی کے پاس پبلک ٹرانسپورٹ مہیا نہیں ہوتی۔جب عیسیٰ خیل سے کوئی لڑکی صبح کے ٹائم پرچہ دینے آئے گی اور پرچہ بھی صبح نو بجے شروع ہونا ہو تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہ کتنے بجے تیاری کرتی ہو گی؟اور وہ اکیلی تو عیسیٰ خیل سے میانوالی کا سفر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کرسکتی اور اوپر سے اتنی لوڈشیڈنگ اور گرمی میں کچھ تو رحم کرو۔جب تک اس لڑکی کے ساتھ اس کا بھائی، شوہر یا والد نہ ہو وہ کیسے اتنی دور پرچہ دینے آئے گی؟اس مسئلہ پر یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ حکام کو سر جھوڑ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ہر کسی کے پاس گاڑی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ ایک دن کے لئے ایک پانچ سو سے آ ٹھ سو روپے تک کا خرچہ صرف اور صرف کرائے کی نظر کردیں۔خدا راہ اس ضمن میں میانوالی کے تعلیمی اعلیٰ حکام سے میری گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی بہتر حکمت عملی اپنائی جائے اور لڑکیوں کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں امتحانی سنٹر پر پرچے دینے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہمارے ہائی سکول یا کالج اتنے اچھے نہیں کہ ان کو امتحانی سنٹر کا درجہ نہ دیا جائے تو پھر کیا فائدہ ان سکولوں او ر کالجوں کی؟ بے حسی اور بے رحمی کی انتہا ہو گئی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top