منورعلی ملک کےدسمبر -2021 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی ———————–

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ ایک مجلس میں لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرما رہے تھے : اللہ سے جو کچھ مانگنا ہو رات کے پچھلے پہر مانگا کرو کیونکہ اُس وقت اللہ کی رحمت کادروازہ کھُلا ہوتا ہے – “
ایک ضعیف العمر دیہاتی خاتون نے اُٹھ کر کہا “ یا حضرت ، اللہ کی رحمت کا دروازہ کبھی بند بھی ہوتا ہے؟“
خاتون کی بات سُن کر خواجہ حسن بصری رو پڑے اور کہا “ لوگو، دیکھو، یہ عورت اللہ کو مُجھ سے زیادہ جانتی ہے – واقعی اللہ کی رحمت کا دروازہ کبھی بند تو ہوتا ہی نہیں “ آپ بار بار یہ جُملہ دُہرا کر روتے رہے –
بات ضرورت اور یقین کی ہے – اگر واقعی آپ کی زندگی موت کا مسئلہ ہو تو دعا فورا قبول ہوتی ہے – ہم ہر بات کو زندگی موت کا مسئلہ سمجھ لیتے ہیں ، لیکن دعا تب فورا قبول ہوتی ہے جب مسئلہ واقعی زندگی موت کا ہو –
ایک شخص ایک ولی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا “ حضرت ، میں بہت غریب ہوں ، میرے لیئے دعا فرمائیں – ولی اللہ نے کہا “جب تمہارے گھر میں کھانے کو کُچھ نہ ہو ، بچے رو رو کر کھانا مانگ رہے ہوں اُس وقت تمہاری دعا میری دعا سے زیادہ مؤثر ہوگی “ –
ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ اللہ کو مانتے تو ہیں ، لیکن اپنے مسائل اپنی عقل ، طاقت یا دولت سے حل کرنا چاپتے ہیں – لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عقل ، طاقت اور دولت سے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا – اُس وقت مدد کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے کی بجائے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا دیں تو کام بن جاتا ہے –
شاید کہ اُتر جائے ترے دِل میں مری بات——————— رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک-1دسمبر -2021

میرا میانوالی–

ایک شاعر نے کہا تھا ————
اُسے کہنا دسمبر آگیا ھے
درد سے لبریز یہ سادہ سا پیغام تِیر کی طرح دل میں آُتر جاتا ہے —-
دسمبر عام طور پر اُداسی اور تنہائی کا مہینہ سمجھا جاتا ہے – اِس مہینے میں تنہائی کا احساس کُچھ زیادہ ہوتا ہے – انسان اپنوں میں رہنا چاہتا ہے – اب تو موبائیل فون نے اپنوں سے فوری رابطے کی سہولت مہیا کر کے کافی حد تک تنہائی کا مداوا کر دیا ہے – اس سے پہلے دسمبر اپنوں سے دُور مقیم لوگوں کو خاصا بھاری لگتا تھا –
کُچھ لوگ کہتے ہیں دسمبر عاشقوں پر بھاری ہوتا ہے —– عاشق تو خیر سال کے بارہ مہینے ذلیل و خوار ہی رہتے ہیں ، جب تک عشق کا بھُوت سر پہ سوار رہے روتے دھوتے رہتے ہیں —- دسمبر میں تنہائی کا احساس سب لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے – اللہ جانے کیا بات ہے – ؟؟؟؟
بچپن میں ہمیں تو دسمبر بہت پیارا لگتا تھا – سکُول دسمبر کے آخری دس دِن بند رہتے تھے – خُوب عیاشیاں کرتے تھے ہم لوگ –
حضرت عیسی علیہ السلام Christ کی پیدائش کے حوالے سے ان چُھٹیوں کو کرسمس کی چُھٹیاں Christmas Holidays کہا جاتا تھا — ہمارے ہاں انہیں بڑے دِنوں کی چُھٹیاں کہا جاتا تھا – بڑے دن اِس لیئے کہتے تھے کہ 22 دسمبر سال کا سب سے چھوٹا دِن گُذرنے کے بعد دِن بتدریج بڑے ہونے لگتے ہیں –
عیسائیوں کی نظر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا مہینہ ہونے کی وجہ سے دسمبر خیرو برکت کا مہینہ ہے – شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے Hamlet کا ایک کردار کہتا ہے ، اس مبارک مہینے میں آسمان سے کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا – جِن ، بھُوت چڑیلیں سب بے بس ہو جاتے ہیں – جادُو ٹُونے کام نہیں کرتے –
دسمبر میں سفر سے حتی الوسع گُریز کرنا چاہیئے – سفر ضروری ہو تو حسبِ توفیق صدقے کے طور پر کسی مستحق غریب انسان کو کُچھ دے دینا چاہیئے کیونکہ صدقہ مُصیبتوں سے بچا لیتا ھے –
میری زندگی میں دسمبر اس لحاظ سے بھی اہم رہا کہ لیکچرر کی حیثیٹ میں میری ملازمت کا آغاز 30 دسمبر سے ہؤا – پانچ سال بعد میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر گورنمنٹ کالج میانوالی میں حاضر بھی 30 دسمبر کو ہوا –
دو اور واقعات کا ذکر 15 دسمبر کے بعد متعلقہ تاریخوں کو کروں گا – تب تک دوسرے موضوعات پر بات چلتی رہے گی –
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-2دسمبر -2021
یادیں ۔۔۔۔۔۔۔ 2 دسمبر 2019
اساں کی کی ویس وٹائے یار تیرے ملنڑیں نوں ۔۔۔۔
خانہ کعبہ کے باھر کبوتروں سے باتیں

میرا میانوالی–

جیسا کہ پہلے بتایا تھا میں اپنی پوسٹ کا موضوع پہلے سے طے نہیں کر لیتا – جو بات ذہن میں آجائے لکھ دیتا ہوں – ابھی چند منٹ پہلے ناشتہ کرتے ہوئے 35 / 40 سال پہلے کی ایک محفل یاد آگئی – یہ محفل ہر رات سات سے دس بجے تک محلہ زادے خیل میں میانوالی کے منفرد گلوکار ایوب نیازی کی بیٹھک پر منعقد ہوتی تھی – پروفیسر محمد سلیم احسن اس محفل کے مستقل رُکن تھے – اُن کے ساتھ میں نے بھی جانا شروع کردیا –
لالا عیسی خیلوی کے میکدے کی طرح یہ بھی بہت دلچسپ محفل تھی – ایوب نیازی اور معروف موسیقار استاد امیرحسین امیر کے علاوہ میانوالی سے لالا شیرمحمد زرگر المعروف لالا شیرایا ، شیرمان خیل قبیلے کے زندہ دِل ، صاحبِ ذوق نوجوان محمد افضل خان اور ہمارے شاعر دوست تاج ممحمد تاج ، خوشاب کے دلچسپ مزاج شاعر ندیم حیدر بلوچ بھی اس محفل کے مستقل ساتھی تھے – ندیم حیدر بلوچ ایکسائیز انسپکٹر کی حیثیت میں میانوالی متعین تھے – سرائیکی کے بہت اچھے گیت نگار تھے –
پی اے ایف کالُونی سے عبید عُرف مُنا اور سید محمد عبداللہ شاہ تونسوی بھی اس محفل کے مستقل رُکن تھے – مُنا اور شاہ جی دونوں پی اے ایف میں ملازمت سے منسلک تھے –
آواز اور انداز دونوں لحاظ سے ایوب نیازی منفرد گلوکار ہیں – شہرت اور مقبُولیت کے باوجود ایوب نیازی نے گلُوکاری کو ذریعہ ء معاش نہ بنایا – درویش مزاج انسان ہیں ، بس شوقیہ گلُوکاری تک محدود رہے – اس محفل سے بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں – عظیم شاعر محسن نقوی کے اعزاز میں ہم نے یہاں ایک خصوصی استقبالیہ نشست کا اہتمام بھی کیا تھا – معروف شاعر قائم نقوی تو کئی مرتبہ ایوب نیازی کی محفل میں شریک ہوئے —
منصورآفاق کا گھر بھی یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر تھا ، مگر منصور آفاق آس زمانے میں کُندیاں کے نوجوان اہلِ قلم کی ایک محفل میں شمعِ محفل بنے ہوئے تھے – کُندیاں سے محمد افضل عاجز ، عطاءاللہ شاہین , ظفراقبال برق اور سلیم مروت کے علاوہ میانوالی سے میرے بیٹے مظہر علی ملک اور سابق ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان نیازی بھی منصور کی اس محفل کے رُکن تھے – یہ محفل کندیاں ریلوے سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں منعقد ہوتی تھی –
ایوب نیازی کی محفل کا ذکر ایک آدھ بار پہلے بھی کر چکا ہوں – آج تو صرف اس محفل میں شریک دوستوں کو یاد کرنا تھا – باقی لوگ تو بفضلہ تعالی اِس دُنیا میں تاحال موجُود ہیں – ندیم حیدر بلوچ اور تاج محمد تاج عدم آباد جابسے –
———————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-4 دسمبر -2021
منور علی ملک کی پوسٹ پر تبصرے
سر ۔اس محفل میں اور کندیاں میں بھی میں نے بھی مظہر علی ملک کے ساتھ کئ بار شرکت کی ۔۔یہ تصویر بھی ایوب نیازی کے گھر کی ھے جس میں اس وقت کے نوجوان گلوکار شفا اللہ روکھڑی اور ایک اور شوقیہ گلوگار جو ماڑی انڈس سے ائے تھے گلستان خان کے بیٹے طارق نیازی کو بھی دیکھا جا سکتا ھے
برادر من. طارق نیازی کہاں ہیں آج کل؟ بہت نادر تصویر شئیر کرائی. میں ماڑی انڈس میں انہیں بارہا سن چکا ہوں. یہ گلستان نیازی کے صاحبزادے تھے، جن کے بارے استاد گرامی Munawar Ali Malik کافی لکھ جکے. طارق نیازی نے اس دور میں ایک گیت گایا تھا بدقسمتی سے وہ گیت دوبارہ سماعت نواز نہ ہو سکا. ” وے اڈ ونج کاواں… تے ڈسیں میڈے ڈھول کوں پیڑ کلیجے… نکلن ہاواں”.. اتفاق سے میرا بچپن ان گے گھر بہت گزرا. کیوں کہ ان کا (طارق) ایک بھائی فاروق میرا کلاس فیلو تھا.
آپ نے کیا شاندار گلوکار کا ذکر چھیڑا ہے. میرے پسندیدہ ترین گلوکار ایوب نیازی نے بعض ایسے گیت گائے جنہیں میں آج تک فراموش نہیں کرسکا. انہوں نے ہمارے لڑکپن میں ایک گیت گایا تھا جو ماما فاروق کا لکھا ہوا تھا، “چھلا میڈے کول ماہی گھڑا پئی وجاندی آں… پلے پلے مٹھے مٹھے گیت تیڈے گاندی آں”. میں اج بھی یہ گیت ڈھونڈ رہا، شاکر خان سے خصوصی گزارش کی تھی کہ ایوب سے یہ گیت لے دے لیکن نہیں ملا. جن دنوں کندیاں کی محافل زوروں پر تھیں میں چشمہ بیراج میڑک کا طالب علم تھا. ان محافل کا چشم دید گواہ ہوں. ان محفلوں میں سعید عابد، اصغر حسین اصغر اور عثمان بھی قابل ذکر ہیں. “ایویں پے لوک ڈھدن دھمی دا چانڑاں.. تسے دے نین جیویں خالی گلاس کوں” یہ اصغر تھا اور سعید عابد کو دیکھیے ” کئی وار چڑھ چکی ھن ہنجواں دے کھاریاں تے… متنڑن توں سمجھیں سانول اکھیاں کنواریاں ھن” سعید اردو میں بھی کمال اشعار لکھتے. کاش میں سب یہاں لکھ پاتا. میرے دل کے تار کو آپ نے آج چھیڑ دیا سو اتنا لکھ گیا ہوں. گراں بار ہو تو معذرت استاد مکرم.

میرا میانوالی–

کیا اچھے دن تھے ——— فیس بک کی محفل میں آمد کے بعد میں تقریبا دو سال روزانہ تین پوسٹس لکھتا رہا – صبح تقریبا دس بجے “میرآ میانوالی“ کے عنوان سے اپنے تجربات اور مشاہدات کی باتیں لکھتا تھا ، سہ پہرتین بجے “فیس بُک سے دوستی“ کے عنوان سے ابتدائی دور کے فیس بُک فرینڈز میں سے روزانہ کسی ایک کا تعارف لکھا کرتا تھا اور شام 7-6 بجے ایک پوسٹ انگلش میں لکھنا روزمرہ کا معمول رہا – تعارف صرف اُن دوستوں کا لکھنا ممکن تھا جنھیں میں اچھی طرح جانتا تھا – ان میں میرے کُچھ سابق سٹوڈنٹ ، رفقائے کار (کولیگز) اور کُچھ فیس بُک کی وساطت سے قریبی ساتھی تھے –
کُچھ عرصہ بعد مصروفیات کی وجہ سے تعارف والی پوسٹس کا سلسلہ ختم کرنا پڑا – تاہم صبح کی پوسٹ اور شام 7-6 بجے انگلش میں پوسٹ روزانہ لکھتا رہا –
اکتوبر 2019 میں اہلیہ کے علاج کے لیئے اسلام آباد منتقل ہوناپڑا – علاج تقریبا چھ ماہ جاری رہا – مصروفیات بہت بڑھ گئیں تو میں نے شام کو انگلش کی پوسٹ لکھنا بھی ترک کردیا – صرف “میرا میانوالی“ کے عنوان سے صبح کی پوسٹ لکھتا رہا – دن میں کم ازکم ایک پوسٹ لکھنا ضروری تھا کیونکہ مجھے اہلیہ کی صحت کے لیئے دعاؤں کی بہت ضرورت تھی –
30 اپریل 2020 کو تقدیر جیت گئی ، انسان ہار گیا – دل بُجھ سا گیا – زیادہ کام کرنا ممکن نہ رہا – اب صرف دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیئے روزانہ صبح آپ کی محفل میں حاضری لگوا لیتا ہوں – انگلش پوسٹس کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کو جی بہت چاہتا ہے کیونکہ انگلش لکھنے کا اپنا الگ لُطف ہے – اب تو دن اتنے چھوٹے ہیں کہ 7 بجے عشاء کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے – دن ذرا بڑے ہوں تو انگلش پوسٹس بھی باقاعدہ لکھنے کا ارادہ ہے –———————– رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-5دسمبر -2021

میرا میانوالی–

کل بیٹے محمد اکرم علی کے ہمراہ لاہور پہنچے – لاہور میں ان کے ہاں آنا جانا ہوتا رہتا ہے – اب کی بار آنے کی ایک خاص وجہ تھی جو بعد میں بتاؤں گا – حسبِ معمول لاہور میں کُچھ دن قیام رہے گا – لاہور سے بھی آپ سے رابطہ ان شآءاللہ برقرار رہے گا – پہلے بھی جب کبھی لاہور آتا ہوں حسبِ معمول روزانہ رابطہ رہتا ہے – بلکہ فیس بُک پر آپ سے دوستی کا آغاز بھی ( 2015 میں) لاہور ہی سے ہوا –
اب کُچھ دن لاہور کی باتیں ہوں گی – واقعی لہور لہور اے (لاہور بے مثال شہر ہے ) – لہوریئے تو یہ بھی کہتے ہیں جِنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ اس دُنیا میں آیا ہی نہیں) – یہ بھی سُنا ہے کہ لاہور کے ایک بزرگ حج کے لیئے گئے تو خانہ ءکعبہ میں یہ دعا کر رہے تھے کہ “ ربا ، لے چل مینوں داتا دی نگری“- ( اے میرے رب مجھے داتا صاحب کے شہر لاہور لے جا)-
لاہور اور میانوالی کے لوگوں میں کئی باتیں مشترک ہیں – یہاں کے لوگ بھی میانوالی کے لوگوں کی طرح دلیر ، زندہ دِل اور مہمان نواز ہیں – لڑنے بھڑنے میں بھی شیر ہیں —– اجنبی لوگوں سے بھی بھرپُور تعاون کرتے ہیں – میانوالی والوں کے برعکس یہ لوگ دُوسروں کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے – کوئی جس حال میں بھی پھر رہا ہو یہ اُس کا مذاق نہیں اُڑاتے – کوئی جو کُچھ پہن لے یا کُچھ بھی نہ پہنے یہاں چل جاتا ہے –
مقدار اور معیار کے لحاظ سے کھانے میں لاہور پاکستان کیا ، دُنیا بھر میں نمبر ون شہر سمجھا جاتا ہے – جو انگریز ملازمت کے دوران یہاں رہے اُنہوں نے بھی اپنی کتابوں میں لاہور کے کھانوں کی بہت تعریف کی – یہ جو باہر سے کرکٹ کے کھلاڑی آتے ہیں وہ بھی لکشمی چوک اور گوالمنڈی کے کھابوں کے شیدائی بن جاتے ہیں – میانوالی کے لوگوں کی طرح خامیاں بھی بہت ہیں لاہور کے لوگوں میں – مگر کسی کی خامیوں کا ذکر کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا – اگر لوگوں کی خامیوں کو نظرانداز کر کے صرف خُوبیوں پر نظر رکھی جائے تو یہ دُنیا جنت بن سکتی ہے –
———————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-7دسمبر -2021

میرا میانوالی–

الحمدللہ الکریم۔
بیٹے محمد اکرم علی ملک کو رب کریم نے اپنی رحمت سے نوازا ھے۔ اکرم بیٹے نے اپنی مرحومہ امی سے محبت و عقیدت کو جاوداں بنانے کے لیئے بچی کا نام اس کی دادی اماں کے نام پر سعیدہ خانم رکھا ھے۔ یہ منی سی سعیدہ خانم سب اہل خانہ کی آنکھوں کا تارا ھے۔
ہماری لخت جگر سعیدہ خانم کے لیئے بہت سی دعائیں۔بشکریہ-منورعلی ملک-9دسمبر -2021
عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ،
میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کی نوزائیدہ بچی سعیدہ خانم کی تعارفی پوسٹ پر آپ لوگوں کا اظہار مسرت اور نیک تمناؤں کا اظہار لائق صد تحسین ھے۔ رب کریم آپ سب کو بے حساب عزت اور خوشیاں عطا فرمائے۔۔۔۔۔ ننھی سعیدہ ، اس کے ابو محمد اکرم علی ملک اور ہم سب کی طرف سے آپ سب کا بہت شکریہ ۔ مزید دعاوں کی درخواست ھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔ منور علی ملک ۔۔۔۔۔۔بشکریہ-منورعلی ملک-10دسمبر -2021

میرا میانوالی–

لاھور سے اپنا تعارف اُس وقت ہوا جب ہم بی ایڈ کلاس میں داخلہ لینے کے لیئے یہاں آئے – میٹرک کے بعد بقیہ تعلیم تو میں نے گارڈن کالج راولپنڈی سے حاصل کی – بی اے کے بعد بی ایڈ میں داخلہ لاھور کے سنٹرل ٹریننگ کالج، لوئر مال
, میں ہوا – میرے کزن ممتازحسین ملک میرے ہم سفر بھی تھے ، بی ایڈ میں کلاس فیلو بھی – میرے بابا جی نے سیکریٹیرئیٹ میں اپنے کسی کام سے آنا تھا – وہ بھی ہمارے ہمراہ تھے –
اس زمانے میں سڑک کے راستے میانوالی سے لاہور تک سفر اچھی خاصی خجل خواری ہوا کرتا تھا – سرگودھا پہنچ کر چنیوٹ ، پنڈی بھٹیاں ، خانقاہ ڈوگراں ، شیخوپورہ سے ہوکر شاہدرہ میں راوی کاپُل کراس کر کے لاہور میں داخل ہوتے تھے – آٹھ دس گھنٹے کا سفر بنتا تھا –
ہم شام تقریبا 8 بجے لاہور پہنچے –
سرکلر روڈ پر نعمت کدہ آُس زمانے میں کھانا کھانے کے لیئے شرفاء کی پہلی ترجیح ہوا کرتا تھا – وہاں کھانا کھایا – رہائش کا بندوبست ممتاز بھائی کے دوست پیرزادہ محمد علی کے ہاں اسلامیہ کالج سول لائینز کے کریسنٹ ہاسٹل میں تھا – پیرزادہ صاحب ایم اے اُردو کے سٹوڈنٹ تھے – بہت دبنگ نوجوان تھے – انہوں نے ہاسٹل کی بالائی منزل پر اپنے کمرے کے ساتھ دوتین اور کمروں پر بھی قبضہ کر رکھا تھا – ان میں سے ایک کمرہ ہمارے لیئے وقف کردیا – ہم نے تو ایک رات ہی رہنا تھا – پیرزادہ نے ہماری خُوب خاطر تواضع کی – یہ بھی کہا کہ سنٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لینے کے بعد ہم اِسی ہاسٹل میں رہیں – مگر ہم نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ رہائش ٹریننگ کالج ہی کے ہاسٹل میں ہوگی –
ممتاز بھائی نے بی اے تک تعلیم گوجرانوالہ سے حاصل کی تھی ، جہاں اُن کے والدِ محترم ایک سکول کے پرنسپل تھے – گوجرانوالہ چونکہ لاہور کے قریب ہے ، اس لیے ممتاز بھائی نے اس قرب سے پُورا پُورا فائدہ اُٹھا کر لاہور میں بہت سے دوست بنالیئے تھے – اُن کے لیئے لاہور دیکھا بھالا ، جانا پہچانا شہر تھا – میں پہلی بار لاہور آیا تھا –
آج کے لاہور کے مقابلے میں اُس دور کا لاہور خاصا چھوٹا شہر تھا – آبادی آج کے نصف سے بھی کم ، خاصا کُشادہ اور صاف ستھرا شہر تھا –
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-11 دسمبر -2021

میرا میانوالی–

اگلی صبح سنٹرل ٹریننگ کالج میں داخلے کے لیئے انٹرویو تھا – انٹرویو بورڈ کالج کے پرنسپل پروفیسر اے جی بٹ ، وائس پرنسپل پروفیسر ایس اے ہارون اور چند سینیئر پروفیسر صاحبان پر مشتمل تھا – پرنسپل صاحب اور وائس پرنسپل صاحب کسی زمانے میں میرے بابا جی کے کولیگ رہ چکے تھے –
انٹرویو کے لیئے میرا نام پکارا گیا تو میں کمرے میں داخل ہوا – جونہی اندر قدم رکھا وائس پرنسپل صاحب برس پڑے – کہنے لگے “ اے مسٹر ، آپ نے سلام کیوں نہیں کیا ؟ کیا آپ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے ، یا آپ خود غیر مسلم ہیں – باھر جائیں ، اور واپس آکر السلام علیکم کہیں ، پھر آپ انٹرویو دے سکتے ہیں ، ورنہ نہیں –
اس اثنا میں پرنسپل صاحب نے اُمیدواروں کی لسٹ میں میرے نام کے ساتھ باباجی کا نام دیکھ لیا تھا – انہوں نے وائس پرنسپل صاحب سے کہا “ ہارون صاحب ، ایہہ ملک اکبر دا پُتر ای- ایہدے پیو نے افسراں نُوں سلام کدی نئیں سی کیتا ، ایہہ کیوں کرے گا -؟ ۔۔۔۔۔ پھر مُجھ سے کہا “ آجا کاکا ، آجا “ –
میں سلام کر کے پرنسپل صاحب کے سامنے والی کُرسی پہ بیٹھ گیا – پرنسپل صاحب نے کہا :
So, you are Malik Akbar Ali’s son
میں نے کہا Yes, Sir
پرنسپل صاحب نے بابا جی ہی کے بارے میں پُوچھا : How’s the good old man
میں نے کہا He’s fine, Sir
پھر پرنسپل صاحب انٹرویو بورڈ کے دُوسرے ممبران کو بابا جی کے بارے میں بتانے لگے کہ قابلیت اور دیانت داری کے لحاظ سے ملک محمد اکبرعلی پُورے پنجاب میں مشہور تھے ۔۔۔۔۔
مجھ سے کہا “ Young man, you are selected . Say my Salaam to your father.
بس یہ تھا ہمارا انٹرویو –———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک13دسمبر -2021

میرا میانوالی–

سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور کی بی ایڈ کلاس میں میانوالی سے ہم دس بارہ لوگ تھے – داؤدخیل سے ممتاز بھائی اور میں ، موسی خیل اور گرد و نواح سے لالُو نورخان قتالی خیل، عظیم خان ، ملک رب نواز ، میانوالی شہر سے مخدوم عبدالرزاق اور ملک مشتاق، کُندیاں سے ملک عطاءاللہ ، کالاباغ سے کرم اللہ پراچہ ، پپلاں سے ملک محمد خان اور افغانی صاحب اور بھکر سے ملک غلام حسین ( بھکر اُس زمانے میں ضلع میانوالی کی تحصیل ہوا کرتا تھا ، الگ ضلع بعد میں بنا) –
ان دس بارہ جوانوں میں سے ممتاز بھائی ، لالُو نورخان قتالی خیل ، کرم اللہ پراچہ اور میں پکے لفنٹر تھے – آوارہ گردی ، ہنسنا ہنسانا اور شرارتیں کرنا ہماری فطرت میں شامل تھا —- زیادہ ذہین بچے اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں – پڑھنے لکھنے کے معاملات میں ہم کبھی سیریس نہ ہوئے – اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے پروفیسر شمشاد لودھی صاحب نے ایک دن لیکچر کے دوران کلاس سے کہہ دیا “ آپ نے بی ایڈ میں داخلہ لے لیا – اب آپ جو کُچھ بھی کرتے پھریں ہم آپ کو بی ایڈ کی ڈگری (سند) دے کر رہیں گے – آپ یہاں سے بھاگ بھی جائیں تو ہم آپ کی بی ایڈ کی ڈگری آپ کے گھر کے پتے پر بھجوا دیں گے“-
پروفیسر صاحب کی زبان سے “عام معافی” کے اس اعلان کے بعد ہم پڑھنے لکھنے سے بے نیاز نہ ہوتے تو اور کیا کرتے ؟ باقی لوگوں نے تو پروفیسرصاحب کی بات کو مذاق سمجھا ، مگر میانوالی کے ہم چار لفنٹر نوجوانوں نے پروفیسر صاحب کی بات پلے باندھ لی – ہمارے بقیہ میانوالیئن دوست دُوسرے لڑکوں کی طرح پڑھاکُو ہی رہے – یہ الگ بات کہ tests اور امٹحانوں میں ہم پھر بھی اُن سے زیادہ نمبر لیتے رہے – انگریزی میں اللہ کے فضل سے میں اپنی کلاس میں سب سے نمایاں تھا ، اُردو میں بھائی ممتاز – ہم نے ٹریننگ کالج میں تو اردو اور انگریزی میں کُچھ نہ سیکھا بلکہ پہلے ہی سے لائق تھے – پتہ نہیں کیوں ؟ — کرم اللہ پراچہ اور لالُو نورخان دُوسرے مضامین میں خاصی دسترس رکھتے تھے – امتحانوں سے دو چار دن پہلے ہم چاروں اپنا اپنا علم شیئر کر کے گذارہ چلا لیتے تھے –
بالآخر وہی ہوا جو پروفیسر شمشاد لودھی صاحب نے کہا تھا – فائینل امتحان دے کر ہم کالج سے فارغ ہوگئے – دوتین ماہ بعد داؤدخیل میں میرے گھر کے پتے پر پروفیسر محمد اسحاق جلالپوری صاحب کا خط موصول ہوا ، لکھا تھا —— برادرِ عزیز ، السلام علیکم ، بالآخر بی ایڈ نے آپ کو قبُول کر ہی لیا – امتحان میں کامیابی مبارک –
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-15   دسمبر -2021

ٹُر گیا ڈھولا رونق مُک گئی گلیاں دی
16 دسمبر 1987
میں تقریبا بارہ بجے کالج سے واپس آیا – کُچھ دیر بعد ہمارے کالج کے آفس سپرنٹنڈنٹ حاجی حبیب الرحمن خان نے آکر بتایا کہ وہ کالج سے واپس آرہے تھے تو کچہری کے نہر پُل پر لوگوں کا ہجوًم دیکھ کر رُک گئے – دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ داؤدخیل جانے والی ایک ویگن نہر میں گِر گئی ہے – کسی نے بتایا بڑے ملک صاحب (میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی ) بھی آُس ویگن میں سوار تھے – اللہ رحم کرے ، ہوسکتا ہے یہ محض ایک افواہ ہو، پھر بھی آپ کو بتانا ضروری تھا –
ذہن نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، کیونکہ بھائی جان جب بھی میانوالی آتے ہمارے ہاں ضرور آیا کرتے تھے –
ذہن تو اس بات پر یقین کرنے سے مُنکر رہا ، مگر دِل نے بتادیا کہ ہمارا گھر اُجڑچکا ھے – خُون کی کشش سمجھیں یا کُچھ اور ، لگتا تھا دِل میں تِیر سا آلگا – میں زاروقطار رونے لگا – گھر والے دوڑتے آئے – پُوچھا کیا ہؤا – میں نے بات بتائی – اُنہوں نے کہا آپ پریشان نہ ہوں ممکن ہے افواہ ہی ہو – مگر میں نے کہا دِل جھُوٹ نہیں بولتا – میرا بھائی اب اِس دُنیا میں نہیں رہا —- ہمت نہ پڑی کہ نہر کے پُل پر جا کر مصدقہ معلومات حاصل کر لُوں – میں اُس روشن چہرے کو بے نُور نہیں دیکھ سکتا تھا – کُچھ دیر بعد مصدقہ اطلاع بھی موصول ہوگئی – ہم فورا داؤدخیل روانہ ہو گئے –
سارا شہر ہماری چوک پر جمع ہو چُکا تھا – جنازہ اُٹھنے سے پہلے لمے خیل قبیلہ کے سربراہ چاچا سردار خان نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا
“ داؤدخیل والو، ہمارا شہر اُجڑ گیا – ہمارا سردار ہمیشہ کے لییے ہم سے جُدا ہوگیا – سکول میں ہیڈماسٹر آتے جاتے رہیں گے ، مگر ملک انور ——- “ شدتِ غم سے چاچا سردار خان روپڑے ، باقی سب لوگ بھی دھاڑیں مار کر رونے لگے –
کیا بتاؤں میرا بھائی کیا تھا – مردانہ وجاہت ، شرافت اور قابلیت میں وہ اپنی مثال آپ تھا – میرا غم ایک دردناک نظم کی صُورت میں میری زباں پر آیا – یہ نظم چند قطعات پر مشتمل تھی – ایک قطعہ یہ تھا ——————- :
خُوبرُو نوجوان انور سا
اب کہاں شہر میں ملے گا تُجھے
آسماں پر اُسے تلاش نہ کر
چاند اب نہر میں ملے گا تُجھے
صرف میں نہیں ، سب لوگ کہتے تھے کہ ملک محمد انورعلی جیسا حسین و جمیل انسان شہر بھر میں کوئی نہیں – چاچا مقرب خان نے کہا “ جس گلی سے انور گُزرتا وہ گلی بھی خُوبصورت لگتی تھی “-
میری نظم کا آخری شعر تھا ——————
لوگ آتے رہیں گے دُنیا میں
میرا بھائی مگر نہ آئے گا
———————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-16دسمبر -2021

میرا میانوالی–

کل کی پوسٹ میں بھائی جان محمد انور علی ملک کی ناگہاں وفات کا ذکر ہوا ، آج اُن کا ذرا تفصیلی تعارف –
بھائی جان ہم پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے – ہمارے باباجی کسی زمانے میں دریاخان (ضلع بھکر) میں ایجوکیشن آفیسر رہے – وہاں کے لوگ بڑے بھائیوں کو اَدہ یا ادا کہتے تھے اور بڑی بہن کو “اَنگاں“ کہتے تھے – ہم نے بھی بچپن میں اَدا اور اَنگاں کہنا شروع کیا تو پھر ساری عمر اُنہیں اَدا اور انگاں ہی کہتے رہے –
بھائی جان انور مُجھ سے دس سال بڑے تھے – اُنہوں نے میٹرک ہائی سکول بھاگٹانواالہ ضلع سرگودہا سے پاس کیا – بھاگٹانوالہ میں ہمارے مامُوں جان ملک منظور حسین منظور ہیڈماسٹر تھے- اُس زمانے میں داؤدخیل کا سکول مڈل سکول ہوا کرتا تھا، اس لییے میٹرک کی تعلیم کے لیئے لوگوں کو داؤدخٰیل سے باہر جانا پڑتا تھا – بھاگٹانوالہ سکول میں داؤدخیل سے دو اور نوجوا ن بھائی فتح خان نیکُوخیل اور بھائی محمد شریف خان شریف خیل بھی بھائی جان انور کے کلاس فیلو رہے –
میٹرک کے بعد بھائی جان نے ایف اے گورنمنٹ کالج سرگودہا سے کیِا – انہی دِنوں بابا جی گورنمنٹ ہائی سکول اٹک کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے تو بھائی جان کو ساتھ لے جاکر گورنمنٹ کالج اٹک میں داخل کروادیا –
دو سال بعد بھائی جان نے بی اے کرلیا تو بابا جی نے اپناٹرانسفر گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کروا کر بھائی جان کو اُسی سکول میں انگلش ٹیچر لگوادیا – بابا جی دوسال بعد وہاں سے پنڈی ٹرانسفر ہوگئے – بھائی جان نے سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ایڈ کیا – (بی ایڈ کو اُس زمانے میں بی ٹی کہتے تھے)- بی ایڈ کرنے کے بعد بھائی جان کا پہلا تقرر گورنمنٹ ہائی سکول کمر مشانی میں ہوا – چندماہ بعد وہاں سے ٹرانسفر ہو کر گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل آگئے – ایک دوسال بعد اسی سکول میں ہیڈماسٹر متعین ہوئے – تقریبا 30 سال یہاں ہیڈماسٹر رہنے کے بعد اپنے دیرینہ دوست غلام مرتضی خان کو سہولت دینے کے لیئے انہیں داؤدخٰیل سکول کا ہیڈماسٹر مقرر کروا کے خود ہائی سکول پائی خیل چلے گئے – ملازمت کے صرف دوتین سال باقی تھے ، مگر موت نے ریٹائرمنٹ تک پہنچنے کی مہلت نہ دی –
حُسنِ اخلاق اور مروت کی وجہ سے لوگ ان کا دِل و جان سے احترام کرتے تھے – اُن کی شخصیت میں ایک خاص وقار تھا ، جس کے باعث اُن کی ہر بات مانی جاتی تھی – دادا جی ملک مبارک علی کے بعد ہماری چوک (بیٹھک) کو بھائی جان نے آخر دم تک آباد رکھا – چاچا ہدایت خان نمبردار ، سید ذاکر شاہ بخاری , چاچا مقرب خان بہرام خٰیل ، ماسٹر نواب خان ، غلام مصطفے خان خانے خیل اور اُن کے بھائی غلام حسین خان ، اُن کے کزن عزیز خان ، ماسٹر محًمد حسین آزاد ، بہادرخان فوجی ، بھائی فتح خان نیکُو خیل ، ہمارے چچا ملک محمد صفدر علی ، ہمارے کزن محمد عظیم ہاشمی اور بھائی ریاست علی ملک بھائی جان انور کے مستقل ہم نشیں تھے – آہ آج اُن میں سے ایک بھی اس دنیا میں موجود نہیں – ایک ایک کرکے سب رخصت ہوگئے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
——————— رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک-17  دسمبر -2021

میرا میانوالی–

جا او یار حوالے رب دے۔۔۔۔۔
اپنے بہت پیارے ساتھی ملک عبدالستار کی وفات کی خبر میرے لیئے ایک المناک سانحہ ھے۔ یا اللہ رحم ، ایسے مخلص لوگوں کی تو اس غم نصیب دنیا کو بہت ضرورت ھے۔
۔ملک عبدالستار گورنمنٹ کالج میانوالی میں بہت عرصہ کلرک، سینیئر کلرک اور پھر ہیڈ کلرک رہے۔۔۔۔۔ میری ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے مجھ سے کہنے لگے ، سر، آپ اپنی ریٹائرمنٹ کے کاغذات کی تیاری کے لیے اکاونٹس آفس یا ایجوکیشن آفس بالکل نہ جائیں۔ ہماری غیرت کو یہ گوارا نہیں کہ ہمارے ہوتے ھوئے آپ دفتروں کے چکر لگاتے رہیں۔ آپ سے کاغذات پر دستخط کروا کر آپ کا پینشن کیس میں خود follow کروں گا۔ یوں ملک عبدالستار نے مہینوں کا کام چند دن میں مکمل کرواکے میری پینشن منظور کروا دی۔
بہت سی خوبصورت یادیں ہیں ان کی مگر شدت غم سے فی الحال لکھنا ممکن نہیں۔ ان سے آخری ملاقات پچھلے سال میری اہلیہ کی وفات پر تعزیت کے سلسلے میں ھوئی۔
اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے—بشکریہ-منورعلی ملک-22دسمبر -2021

میرا میانوالی–

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ھوئی حیران ،
اے قائداعظم ترا احسان ھے احسان

بشکریہ-منورعلی ملک25 دسمبر -2021

میرا میانوالی–

…………………………………….
تری دنیا میں ربِ دوجہاں ایسا بھی ہوتا ہے
.کراچی میں لاوارث لوگوں کی پناہ گاہ ایدھی ہوم میں ایک ستر سالہ بزرگ کی ایک صحافی سے گفتگو پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں – گفتگو کُچھ یوں تھی –
صحافی : بابا جی آپ کب سے یہاں رہ رہے ہیں ؟
باباجی : دس سال سے
صحافی : اِس سے پہلے کہاں رہتے تھے ؟
باباجی : بھائی کے گھر میں رہتا تھا – پھر بھائی نے گھر کرائے پر دے دیا اور مجھے یہاں لاکر چھوڑ گیا –
صحافی : آپ کا بھائی خود کہاں رہتا ہے ؟
بابا جی : برطانیہ میں –
صحافی : آپ کے بچے بھی ہوں گے –
بابا جی : تین بیٹے ، ایک بیٹی …. بیٹی شادی شُدہ ہے – بیٹے برطانیہ میں رہتے ہیں ٠
صحافی : آپ کے بیٹے تو آپ کی خیر خبر لیتے رہتے ہوں گے ؟
بابا جی (آنسو چھپانے کے لیئے منہ پھیر کر ) : —- نہیں –
———————————————————
اب ہوگا یہ کہ جب بابا جی اپنی زندگی کے دن پُورے کرکے فوت ہو جائیں گے تو ایدھی ہوم کے ملازمین ان کے کفن دفن کا بندوبست کر کے سپرد خاک کردیں گے ——بشکریہ-منورعلی ملک-29   دسمبر -2021

میرا میانوالی–

لاہور میں لوئرمال روڈ کے کنارے ضلع کچہری اور کربلا گامے شاہ کے درمیان واقع سنٹرل ٹریننگ کالج ہماری بہت سی حسین یادوں کا امین ہے –
داخلہ ملنے کے بعد مجھے اور ممتاز بھائی کو نئے ہاسٹل کا کمرہ نمر 101 الاٹ ہوا – یہ کمرہ بالائی منزل کا پہلا کمرہ تھا – اس کی پچھلی کھڑکی کربلا گامے شاہ کے صحن میں کھُلتی تھی – ہمارے باقی ساتھی ، لالُو نُور خان قتالی خیل اور عظیم خان وغیرہ پرانے ہاسٹل میں رہتے تھے – نئے ہاسٹل کی بالائی منزل پر میرے اور ممتاز بھائی کے علاوہ میانوالی سے کرم اللہ پراچہ اور ملک مشتاق کمرہ نمبر 107 میں رہتے تھے –
ہاسٹل میں ہماری آمد کے چند دِن بعد چیف پریفیکٹ Chief Prefect کا انتخاب ہوا – چیف پریفیکٹ بڑا اہم عہدہ تھا – ہاسٹل کے انتظامی معاملات میں سپرنٹنڈنٹ کے بعد سب سے بااختیار عہدہ چیف پریفیکٹ کا تھا – انتخاب کا طریقہ کار یہ تھا کہ تمام سٹوڈنٹس پر مشتمل اجلاس سے خطاب میں ہر اُمیدوار اپنا تعارف اور ہاسٹل کے انتظامی امُور کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کرتا تھا – پانچ چھ اُمیدوار میدان میں اُترے – ان میں ممتاز بھائی بھی شامل تھے – گھن گرج والی آواز ، بولنے میں دریا کی سی روانی ، اور لہجے میں دریا جیسا اُتار چڑھاؤ ، جس موضوع پر بھی بولتے مجمع پر چھا جاتے تھے – یہاں بھی یہی ہوا …. تقریبا تین سو سٹوڈنٹس کا مجمع تھا – سب اُمیدواروں کا خطاب بہت مؤثر تھا ۔ مگر ممتاز بھائی کی بات ہی کچھ اور تھی – انتخاب کا اعلان ہوا تو 90 فی صد سٹوڈنٹس نے ممتاز بھائی کے حق میں ہاتھ اُٹھا کر انتخاب کا فیصلہ سُنادیا –
ممتازبھائی بھاری اکثریت سے چیف پریفیکٹ منتخب ہو گئے ، اور ہاسٹل کے درودیوار ” میانوالی زندہ باد” کے نعروں سے گُونج اُٹھے –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-30 دسمبر -2021

 

 

 

 

 

 

میرا میانوالی–الوداع 2021   

ابھی تیری رخصتی میں چند گھنٹے باقی ہیں۔ایک آخری مہربانی کرجا۔ منی بجٹ اور شوکت ترین کو اپنے ساتھ لے جا۔

Welcome 2022
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
۔منور علی ملک۔

 

بشکریہ-منورعلی ملک-31دسمبر -2021

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top