منورعلی ملک کے جنوری 2021 کےفیس بک پرخطوط

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Welcome 2021

بشکریہ-منورعلی ملک- 1 جنوری 2021

میرا میانوالی

خوش آمدید —– 2021

جمعہ کے مبارک دن سے آغاز ——-
بظاہر تو بہت مبارک سال ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو کتنا بدل سکتے ہیں – اگر ہم یہی رہے تو حال بھی یہی رہے گا –
صبر ، تحمل ، دیانت، محنت ، سب سے محبت ، سب کی خیرخواہی —– کہناآسان ، کرنا مشکل —– لیکن اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ انفرادی اور قومی سطح پر حالات کی بہتری کے لیئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ، تو پھر یہ سب کچھ کرنا آسان ہے – اللہ کریم ہم سب کو یہ سب کچھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے – یہ نہ ہوا تو کچھ بھی نہیں بدلے گا –
جمعہ کے دن ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے جب رب کریم سے جو کچھ مانگیں مل جاتا ہے – اس لیے اس دن جتنا ہوسکے اپنے رب کی طرف متوجہ رہیں –
جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو ، کیونکہ جمعہ کے دن درود میرے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں –
اپنا بہت پرانا شعر یاد آرہا ہے ————————-
رحمت کا در کُھلا تو رہا اور کُچھ نہ یاد
میں نے خدا سے مانگ لی اپنے وطن کی خیر
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 1 جنوری 2021

میرا میانوالی

ہم داؤدخیل اور گردونواح کے لوگ اسے “ہیڈ آلا پُل “ کہتے تھے –
ذکر ہے داؤدخیل کے شمال مغرب میں واقع جناح بیراج کا – اس پُل کا سرکاری نام جناح بیراج ہیڈورکس Jinnah Barrage Headworks تھا – لوگوں نے اپنی سہولت کے لیئے اسے ہیڈآلاپُل کہنا شروع کردیا- میانوالی / داؤدخیل سے عیسی خیل جانے والی ٹریفک اسی پل سے گذرتی ہے –
جناح بیراج برطانوی حکومت نے عین جنگ عظیم دوم 1939- 1945 کے دوران تعمیر کیا – قیام پاکستان کے بعد اسے بابائے قوم محمدعلی جناح سے منسوب کرکے جناح بیراج کا نام دے دیا گیا – یہ پل نہر تھل پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے بنایا گیا تھا – اس نہر سے بھکر، خوشاب ، لیہ اور مظفرگڑھ کے اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے –
ہیڈآلے پُل کی تعمیر داؤدخیل کی معیشت اور کلچر میں تبدیلی کا آغاز تھی – اس سے پہلے داؤدخیل ایک بالکل سادہ سا گاؤں تھا – پل کی تعمیر سے ایک طرف تو لوگوں کو روزگار ملنے لگا ، دوسری طرف شہروں سے آنے والے ملازمین سے میل جول کی وجہ سے یہاں کی زبان، رہن سہن اور لباس میں شہری اثرات نمودار ہونے لگے – پل کی تعمیر سے پہلے داؤدخیل میں دودھ بیچنا گناہ (اللہ تعالی کی ناشکری) سمجھا جاتا تھا – ہر گھر میں اپنی ضرورت کا دودھ حاصل کرنے کے لیے ایک دو گائیں ھوتی تھیں – چائے کا رواج نہیں تھا ، گھر کا دودھ دہی ، لسی ، مکھن ، گھی وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا – پُل کی تعمیر کے ساتھ ہی یہاں محکمہ نہر کے دفاتر اور نہر کالونی بن گئی تو یہاں مقیم لوگ داؤدخیل کے لوگوں سے دودھ خریدنے لگے- دودھ کے پیسے ملنے لگے تو کئی لوگوں نے دودھ بیچنے کا کاروبار شروع کر دیا – مرغیاں انڈے بیچنے کا کاروبار بھی اسی زمانے میں شروع ہوا ، ورنہ اس سے پہلے لوگ مرغیاں اپنی ضرورت کے لیے پالتے تھے –
داؤدخیل کے ایک بزرگ چاچا محمد نواز خان المعروف چاچا وازُو اس حوالے سے ایک گیت بھی شادی بیاہ کے موقعوں پر گایا کرتے تھے ، جس کے بول کچھ یوں تھے :
اللہ سوہنڑاں بند ناں کریں ہا ہیڈ والے روزگار کو —–( اے اللہ کریم ہیڈ والے روزگار کو بند نہ کرنا)
خاصا لمبا گیت تھا ، اس میں ہلکا پھلکا طنزو مزاح بھی تھا – یہ گیت جناح بیراج کی تعمیر سے داؤدخیل کی معیشت اور کلچر میں تبدیلیوں کی داستان تھا – چاچا وازُو کے ساتھ ہی ان کا یہ گیت بھی دنیا سے رخصت ہو گیا ————–
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ==—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 6 جنوری 2021

میرا میانوالی

گرمی کی چھٹیوں میں ہمارے بزرگ جناح بیراج پر پِکنِک منایا کرتے تھے – اس پکنک میں بھائی فتح خان نیکوخیل (سالار) ہمارے میزبان ہوا کرتے تھے – بھائی فتح خان میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے قریب ترین دوست تھے ، انہیں دوست لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہا ہے ، سچی بات یہ ہے وہ دوست نہیں ہمارے بھائی تھے – محکمہ نہر میں اکاؤنٹنٹ تھے – محکمہ نہر کرپشن میں سرکاری محکموں میں دوسرے تیسرے نمبر پر تھا ، مگر بھائی فتح خان نے انتہائی اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود کبھی ایک پیسہ بھی رشوت نہیں لی تھی – اسی لیئے محکمے کے سب لوگ ان کا بہت احترام کرتے تھے –
ہماری پکنک کا بندوبست جناح بیراج کے جنوبی سرے پر محکمہ نہر کے ریسٹ ہاؤس میں ہوتا تھا – ریسٹ ہاؤس کے سب ملازم ہماری خدمت پر مامور ہوتے تھے – کھانے کا کچھ سامان ہم گھر سے ساتھ لے جاتے تھے – روٹی اور حلوہ بھائی فتح خان فراہم کر دیتے تھے –
کھانا ریسٹ ہاؤس کے سامنے ، دریا کے کنارے ٹاہلی (شیشم) کے درختوں میں گھرے ہوئے لان میں بیٹھ کر کھایا جاتا تھا –
ہمارے قافلے میں ہمارے باباجی، ملک محمداکبرعلی، ماموں جان ملک منظورحسین منظور ، ہمارے چچا ملک محمد صفدر علی ، بھائی جان ملک محمد انورعلی ، ماموں جان کے صاحبزادے ملک اعجاز حسین ، ملک اقبال حسین، ملک ممتازحسین ، چاچا ہدایت خان نمبردار ، ماسٹر نواب خان ، بھائی محمدعظیم ہاشمی ، میں اور میرے کزن ملک ریاست علی شامل ہوتے تھے –
کھانے سے پہلے بزرگ تو کچھ دیر دریا میں نہالیتے ، ہم بچہ لوگوں کو دریا میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی – خیر ہم کون سا نہانے کے لیے جاتے تھے ، ہم تو مرغی کے سالن اور حلوے کے لالچ میں قافلے کے ساتھ لٹک جاتے تھے —– جتنی دیر بزرگ دریا میں نہاتے رہتے ہم تینوں، (ممتاز بھائی، ریاست بھائی اور میں) بگلوں کی طرح دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی پر اترتے بگلوں ، ٹٹیریوں ، ککُوہوں اور ٹوکوں وغیرہ کو دیکھ کر دل بہلاتے رہتے –
جن لوگوں کا اس پوسٹ میں ذکر ہؤا ان میں سے صرف میں اس وقت دنیا میں موجود ہوں –
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 7 جنوری 2021

میرا میانوالی

اس موسم میں کسی بھی شہر یا گاؤں سے نکلیں تو حد نظر تک زمین پر سرسوں کے زرد پھولوں کی چادر بچھی ہوئی دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے – فضا میں ان پھولوں کی ہلکی سی مہک دل و دماغ کو ترو تازہ کر دیتی ہے –
سرسوں کو ہم داؤدخیل کے لوگ سرہیوں کہتے تھے ، دوسرے علاقوں کے لوگ اسے سَرمی کہتے ہیں – آج کل ہم بھی سَِرمی ہی کہتے ہیں – لیکن ہمارے بچپن کے دور کی بارانی یا چاہی زمین کی پاک صاف سرہیوں اور آج کی کیمیائی کھاد والی سرمی میں بہت فرق ہے – پھولوں کا رنگ تو وہی ہے مگر خوشبو اور تاثیر مختلف –
سرسوں کی کچی کونپل کو گندل کہتے ہیں – یہ کونپلیں ساگ کے طور پر بہت مزیدار پکتی ہیں —– “گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئی“ کے عنوان سے ایک فلمی گیت بھی ہؤا کرتا تھا – گندلوں کا ساگ، مکھن اور مکئی کی روٹی خالص دیہاتی کھانا ہے ، جو فیشن کے طور پر آج کل بڑے شہروں کے ممی ڈیڈی کلچر والے لوگ بھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں –
گندلاں دا ساگ اور مکھن کی حد تک تو بات درست ہے مگر مکئی کی روٹی کھانا یا کھلانا سراسر زیادتی ہے – بچپن میں ایک آدھ بار کھائی تھی ، مجھے تو ذرا بھی اچھی نہیں لگی –
سرسوں کا خالص تیل اب تو نایاب ہے ، لوگ طرح طرح کے ہیئرکنڈیشنرز استعمال کر کے بالوں کو بنا سنوار لیتے ہیں – ایک زمانہ وہ تھا جب خواتین صابن کی جگہ پہاڑی مٹی سے سردھو کر سرپہ صرف سرسوں کا تیل لگایا کرتی تھیں اور اس کے نتیجے میں ان کے نرم و ملائم سیاہ بال دوتین فٹ سے کم لمبے نہیں ہوتے تھے – آج کل ٹی وی پر مختلف قسم کے شیمپوز کی تشہیر دیکھ کر ہم مسکرا دیتے ہیں ، کہ کہاں اتنا تکلف اور کہاں صرف سرسوں کا تیل – ادھر کروڑوں روپے اشتہاروں پر خرچ کیے جاتے ہیں اور ادھر چار آنے ( 1/4 روپیہ) میں کوک کی بوتل جتنی بڑی بوتل چاچااولیا یا حاجی کالا کی دکان سے لبالب بھروا لیتے تھے، جو مہینہ بھر کے لیے کافی ہوتی تھی –
سرسوں ہمارے کلچر کی بہت خوبصورت خوشبودار علامت ہے – جب بھی دل ذرا اداس ہو باہر نکل جائیی سرسوں کے کھیتوں میں ، دل خوش اور دماغ تازہ ہو جائے گا – کسی زمانے میں میں نے ایک گیت بھی لکھا تھا ، جس کے ابتدائی بول کچھ یوں تھے :
ول وطناں تے ماہی ، سرمی تھی گئی ساوی پیلی
ول آ وطناں تے ، پردیس نوں لا تیِلی
یہ گیت سلیم ہاشمی نے بہت خوبصورت انداز میں گایا تھا – ریکارڈنگ یاد نہیں کس کمپنی کی تھی-
——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 8 جنوری 2021

میرا میانوالی

سرسوں کے بیج سے تیل نکالنے کے لیے دیہات میں کولہُو استعمال ہوتا تھا – ہماری زبان میں کولہُو “گھانڑِیں“ کہلاتا تھا –
کولہُو قصائیوں (قصابوں) کے گھروں میں ہوتا تھا – لوگ سرسوں کا بیج اور خالی بوتلیں لے کر وہاں جاتے اور وہاں سے سرسوں کاتیل نکلوانے کے علاوہ “کھل“ بھی لے آتے تھے – تیل نکلنے کے بعد پسا ہوا خشک بیج “کھل“ کہلاتا تھا – یہ دودھ دینے والے مویشیوں کی پسندیدہ خوراک تھی – نانیاں دادیاں بتاتی تھیں کہ اس سے دودھ کا مایہ (چکنائی) بڑھتا ہے – یعنی دودھ سے مکھن ، گھی وغیرہ زیادہ نکلتا ہے –
کولہو مصالحہ کوٹنے کے ہاون دستہ ( دَوری ڈنڈا) جیسی چیز تھا – یہ لکڑی کا دوتین فٹ چوڑا بھاری بھرکم پیالہ سا ہوتا تھا جس میں سرسوں کا بیج بھر کر لکڑی کے بھاری بھرکم لٹھ کو گھمانے سے سرسوں کا تیل نکل کر ایک سوراخ کے راستے ٹین کے ڈبے میں جمع ہوتا تھا – اس ڈبے سے تیل بوتلوں میں بھر لیا جاتا تھا – بھاری بھرکم لٹھ گھمانے کا کام بیل سے لیا جاتا تھا ، بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی تاکہ وہ ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اپنے کام میں لگا رہے – بیل دائرے میں گھومتا رہتا ، اور سرسوں کا بیج تیل اور کھل کی صورت اختیار کرتا رہتا تھا –
اردو کا محاورہ “کولہو کا بیل” اس شخص کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو اپنے کام کے علاوہ کچھ بھی نہ جانتا ہو –
ہمارے محلے میں چاچا سلطان احمد قصاب کے گھر میں کولہو تھا – بچپن میں ہم وہاں جا کر کولہو سے تیل نکلتا دیکھ کر حیران ہوتے رہتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————– رہے نام اللہ کا—بشکریہ-منورعلی ملک- 9 جنوری 2021

میرا میانوالی

کل رات ١١ بجے سے ملک بھر میں بجلی بند ہے – اللہ خیر کرے –
اللہ کا شکر ہے گھر میں یو پی ایس لگا ہوا ہے ، فجر کی نماز ادا ہو گئی – سوشل میڈیا پہ نظر ڈالی تو ملک کے ہر کونے سے یہی خبر دیکھنے کو ملی کہ بجلی غائب ہے –
محکمے کے وفاقی وزیر عمرایوب خان کا ٹویٹ تھا کہ بجلی کی فریکوئنسی (پتہ نہیں یہ کیا ہوتی ہے، اور کیوں ہوتی ہے؟؟؟) اچانک 50 سے 0 ہو گئی ، فی الحال سرکار بھی صرف دعا ہی کر سکتی ہے — فرمایا ہم فی الحال تربیلا کو چلانے کی “کوشش“ کر رہے ہیں – “کوشش“ تو 2 سال سے مہنگائی پر قابو پانے کی بھی ہو رہی ہے ، مگر چینی کی قیمت اس ہفتے پھر بڑھ رہی ہے – گھی نے بھی ایک لمبی چھلانگ لگا دی ہے – ابھی پتہ نہیں اور کیاکیا ہونے جا رہا ہے –
آج کل بجلی کی بندش کے بعد سب سے بڑا خدشہ فون کی چارجنگ ختم ہونے کا ہوتا ہے – سوشل میڈیا پر سب لوگ یہی رونا رو رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ کچھ لوگوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ ملک کا کیا بنے گا – اللہ کے بندو جس ملک کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر نے میٹرک تک سائنس پڑھی ہو ، اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ھے —- فکر کی بجائے صرف دعا کرتے رہیں ، انکھیں ، کان اور ناک کھلے رکھیں – کچھ نہ کچھ ہوتا رہے گا-
—————– رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک- 10 جنوری 2021

میرا میانوالی

دوچار دن چِٹکا (سردیوں کی خوشگوار دھوپ) رہا – لگتا تھا کہ سردی بالآخر رخصت ہو رہی ہے – یہ یاد نہ رہا کہ سردی یوں شرافت سے نہیں جاتی – جاتے جاتے اچانک واپس لوٹ آتی ہے جیسے کچھ کہنا بھول گئی تھی –
آج صبح آنکھ کھلی تو میانوالی دھند کی لپیٹ میں تھا – دھند میں اندھا دھند سردی پڑتی ہے – اس وقت یہاں یہی حال ہے – پچھلے دوچار دنوں میں درجہءحرارت 8-10 سے نکل کر 15- 20 کی اوسط پہ آگیا تھا – مگرآج صبح پھر 4 تھا – ہم پھر بھی خوش قسمت ہیں ، ملک کے اکثرعلاقوں میں تو کئی دن سے دھند کی خبریں آ رہی ہیں – پرسوں رات لاھور-اسلام آباد موٹروے لاھور سے پنڈی بھٹیاں (تقریبا 100 کلومیٹر) بند تھا – دوسری اکثر شاہراہوں کا بھی یہی حال تھا –
ہوا میں موجود پانی کے بخارات جب برف کے ذرات میں تبدیل ہو جائیں تو ایک غبار سا بن جاتا ہے – یہی غبار دھند کہلاتا ہے – اب تو اردو کے لفظ دھند کی جگہ انگلش کا لفظ فوگ fog بھی عام استعمال ہوتا ہے – اردو میں اسے کُہر بھی کہتے ہیں –
ہمارے بچپن کے دور میں اسے کُہیِڑ کہتے تھے – لیکن کُہِیڑ نہ تو آج کل کی دھند کی طرح گاڑھی ہوتی تھی ، نہ ہی اتنی شدید سرد – ہلکا سفید دھواں سا ایک آدھ گھنٹہ رہتا تھا ، جو سورج نکلتے ہی غائب ہو جاتا تھا – مطلب یہ کہ قدرت اس بے سروسامانی کے دور میں لوگوں پر بہت مہربان تھی – ان کے تن پر نہ تو مناسب گرم کپڑے ہوتے تھے ، نہ سفر کے لیئے گاڑیاں – سیدھے سادے ایمان دار لوگ تھے ، اس لیے قدرت مہربان تھی – سردی ، گرمی کی یہ انتہا اس دور میں نہ تھی جو آج کل دیکھنے میں آتی ہے –
—————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 11 جنوری 2021

میرا میانوالی

ایک دن اپنی پوسٹ پر ایک کمنٹ تھا ——– ملک صاحب ، اوساکا (جاپان) سے مرغوب حسین طاہر سلام عرض کرتا ہوں –
پروفیسر مرغوب حسین طاہر کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں شعبہءاردو کے پروفیسر رہے – بہت شائستہ اور شیریں سخن نوجوان تھے – گھر لاہور میں تھا – یہاں سے لاہور کے کسی کالج میں ٹرانسفر ہوئے تو کچھ عرصہ بعد پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج سے وابستہ ہو گئے – اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں اردو ، فارسی ، عربی اور دوسری ایشیائی زبانوں کی اعلی تعلیم کا مرکزی ادارہ ہے – یہاں کچھ یورپی زبانیں ، فرانسیسی ، جرمن وغیرہ بھی پڑھائی جاتی ہیں – اس ادارے کا ٹیچر ہونا بہت بڑا اعزاز ہے –
ایک دن اردو بازار جاتے ہوئے سرراہ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا صاحب اورئینٹل کالج میں شعبہ ء اردو کی زینت ہیں – پی ایچ ڈی کر کے اب ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر کہلاتے ہیں –
پوسٹ پر کمنٹ سے پتہ چلا کہ اب جاپان کی اوساکا یونیورسٹی میں پروفیسر کے منصب پر فائز ہیں – بہت سی خوبصورت یادیں ان کی ذات سے وابستہ ہیں – بہت اچھے شاعر ہیں – ان کی نعت کا یہ شعر اکثر گنگناتا رہتا ہوں :
یہ نہیں ان سے رابطہ کم ہے
ہاں مگر میرا حوصلہ کم ہے
اللہ سلامت رکھے ، اگر گھر آئے ہوئے ہوں تو ان شآءاللہ فروری مارچ میں ان سے ملاقات کی کوشش کروں گا –
——————– رہے نام اللہ کا —

بشکریہ-منورعلی ملک- 12 جنوری 2021

 

 

 

میرا میانوالی

میانوالی ریلوے سٹیشن ہماری سیر گاہ ہؤا کرتا تھا – پروفیسر محمد سلیم احسن ، مرحوم چوہدری مختاراحمد (الیکٹرک سٹور والے ) , مہرزمان خان ہزارے خیل اور میں ہر شام سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 کے دو چار چکر لگایا کرتے تھے – چوہدری مختار کا گھٹنوں کے درد کا مسئلہ تھا ، انہیں ڈاکٹر نے شام کے بعد واک (پیدل چلنے ) کا مشورہ دیا تھا – ان کے ساتھ ہماری واک بھی ہو جاتی تھی – پلیٹ فارم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اچھا خاصا فاصلہ بنتا ہے – یہ فاصلہ دوچار بار طے کرنے سے اچھی خاصی ورزش ہو جاتی تھی –
پلیٹ فارم نمبر 2 کے پھیرے مکمل کرنے کے بعد ہم پلیٹ فارم نمبر 1 پر ٹی اسٹال سے چائے بھی ضرور پیتے تھے – ٹی اسٹال والا ہمیں جانتا تھا ، بڑی سپیشل چائے بناتا تھا ہمارے لیئے – ہم اسٹال کے سامنے بنچ پر بیٹھ کر چائے پیا کرتے تھے –
ایک دفعہ مجبورعیسی خیلوی صاحب سے بھی یہاں ملاقات ہوئی تھی – موصوف ریلوے میں ٹکٹ چیکر تھے – اس دن میں اکیلا پلیٹ فارم پر پھر رہا تھا – مجبورصاحب ایک ٹرین کے ساتھ جا رہے تھے – میں نے کہا “ آئیں ، چائے پی لیں“ –
ہم چائے پی چکے تو ٹی اسٹال والے نے چائے کے پیسے لینے سے انکار کر دیا – میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی ، مجبورصآحب ہنس کر بولے “ ملک صاحب ، ریلوے کی حدود میں میزبان ہم ہوتے ہیں – آپ پاکستان کے کسی بھی ریلوے سٹیشن پر چلے جائیں ، اگر ریلوے کی وردی میں ملبوس کوئی ملازم آپ کے ساتھ ہو تو آپ کو چائے مفت ملے گی “-
لالا عیسی خیلوی بھی ایک دفعہ ہماری تلاش میں سٹیشن پر آئے تھے – منصورآفاق بھی جب کبھی میانوالی آتے ، ہمارے ساتھ سٹیشن کے پھیرے لگایا کرتے تھے –
کیا اچھا زمانہ تھا – اب تو سٹیشن پر آوارہ کتے یا “جہاز“ پھرتے نظر آتے ہیں –
——————— رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک- 13 جنوری 2021

میرا میانوالی

لو جی ——- لگ گئی کسی کی نظر ۔۔۔۔۔۔
سردی جاتے جاتے ایک بار پھر پوری شدت سے لوٹ آئی ۔۔۔۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ سردی شرافت سے نہیں جاتی – پرسوں کی اچھی خاصی جسم کی ٹکور کرنے والی دھوپ دیکھ کر سب خوش تھے کہ سردی بس اب چلی گئی – ایک مقامی اخبار نے بھی یہ خوش خبری صفحہء اول کی زینت بنادی – سردی اپنی توہین برداشت نہ کر سکی اور زوروشور سے واپس آگئی – صبح اٹھے تو صحن پانی پانی ہوا کھڑا تھا – رات کے پچھلے پہر زمین کا درجہ ء حرارت اتنا کم ہوگیا کہ دھند پانی کی شکل میں زمین پر بہنے لگی –
اللہ کا شکر ہے کہ انسان وہ عظیم مخلوق ہے جو ہر قسم کا موسم برداشت کر لیتی ہے – وہ لوگ بھی تو ہیں جو سیاچین پر برف میں بیٹھے ہیں – بلکہ صرف بیٹھے ہی نہیں چل پھر بھی رہے ہیں کام بھی کر رہے ہیں – وہاں پانی بھی نہیں ہوتا – برف کو آگ پر پگھلا کر پانی بنا لیتے ہیں –
سیاچین والے تو خیر مجبوری سے بیٹھے ہیں ، کمال ان منچلوں کا ہے جو اس شدید سردی میں مری اور گلیات جا کر سنوفال (برفباری) سے لطف اندوز ہوتے ہیں – جیب گرم ہو تو کیسی سردی ٠ گرم لباس، گرم گاڑیاں ، گرما گرم کھانے –
وہ لوگ بھی ہیں جو اس سردی میں سحری کے وقت دریا میں اتر کر مچھلی کا شکار کرتے ہیں – ہمارے داؤدخٰیل کے کچھ بزرگ “ڈھانگے“ سے مچھلی کا شکار کرتے تھے – ڈھانگہ ٹوکری کی طرح ہوتا ہے – پانی میں اتر کر اسے پانی میں ڈبو کر نکالیں تو دوچار چھوٹی موٹی مچھلیاں ہاتھ لگ جاتی ہیں – اس طریقے سے مچھلی کا شکار پانی کے اندر کھڑے ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے – سردی سے بچنے کے لیئے پشاوری گڑ جیبوں میں بھر کر لے جاتے تھے – پانی میں اترنے سے پہلے گڑ کی ایک دو روڑیاں کھالیتے تھے –
سردی کا سو فی صد کامیاب علاج “ گُجھی“ کہلاتا تھا – — “ گُجھی“ مچھلی کے انڈوں کو کہتے تھے ، باجرے کے دانے جتنے سینکڑوں انڈوں کے گچھے مچھلی کے پیٹ میں موجود ہوتے ہیں – انہیں گرم توے پر بھون کر کھایا جاتا تھا – بچپن میں ایک آدھ بار گجھی ہم نے بھی کھائی ہے – بہت مزیدار چیز ہوتی ہے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 14 جنوری 2021

میرا میانوالی

سردی سے ہاتھ پاؤں سُن ہو رہے ہوں تو لکھنے کا مُوڈ کیسے بن سکتا ہے –
میرا میانوالی ایسا تو نہ تھا –
دن کے 12 بجنے والے ہیں ، دُھند اور سورج کے درمیان گھمسان کی جنگ صبح سے جاری ہے – دُھند برفیلی ہو ا کی مسلسل فائرنگ کر رہی ہے – ہم بس سورج کے حق میں دعا ہی کر سکتے ہیں –
کچھ اور کام بھی کرنے ہیں ، اس لیے آج کی حاضری کے طور پر یہی مختصر سی تحریر کافی سمجھیں – پُرانے زمانے میں خط کا اختتام یوں ہوتا تھا :
تھوڑے لکھے کو بہتا سمجھنا اور خط کا جواب جلدی دینا – سب پڑھنے سننے والوں کو سلام کہہ دینا –
———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 15جنوری 2021

میرا میانوالی

الحمدللہ ، آج تو ٹھیک ٹھاک چِٹکا نکلا ہوا ہے —- بہت پیاری سنہری دھوپ ، ہوا بھی بالکل ساکن –
آج کل گیس کی لوڈشیڈنگ 6 بجے شام سے6 بجے صبح تک ہو رہی ہے —
کیا اچھا زمانہ تھا جب گیس کا نام و نشاں بھی نہ تھا – کمرے کے سنٹر میں لئی کی لکڑیوں کی آگ کے شعلے سروں سے اونچے جارہے ہوتے تھے – گھر کے سب لوگ آگ کے گرد رات گئے تک بیٹھے رہتے تھے –
لئی کی لکڑیاں کچے کے لوگ اونٹوں پر لاد کر لاتے تھے – لئی کا درخت نہیں جھاڑیاں ہوتی ہیں ، جنھیں ہمارے ہاں “جھانبے“ کہتے تھے – لئی “بھار“ کے حساب سے بکتی تھی – اونٹ پر لدا ہؤا جھانبوں کا گٹھا “بھار“ کہلاتا تھا – ایک بھار دو تین روپے میں ملتا تھا ، دوچار بھار ہم ہر ہفتے خرید لیتے تھے – لئی کی آگ کی تپش بہت تیز ہوتی ہے – آگ جلانے کے لیے بھی زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا ، لئی فورا آگ پکڑ لیتی ہے – سبز جھاڑیاں بھی دھڑادھڑ جلتی ہیں –
ایک اور زبردست لکڑی پہاڑ کے دامن میں رہنے والے لوگ لایا کرتے تھے – سیاہ رنگ کی اس لکڑی کو “سنڑسنڑاں“ کہتے تھے – اس کی آگ کا شعلہ میگنیشیئمم Magnesium کی آگ کی طرح چِٹا سفید ہوتا تھا – سنڑسنڑاں پٹرول کی طرح فورا آگ پکڑ لیتا تھا – اس کی آگ دھؤاں بھی بالکل نہیں چھوڑتی تھی –
سنڑسنڑاں بھی لئی کی طرح جھاڑیوں کی صورت میں ہوتا تھا – اس کا رنگ بالکل سیاہ ، مگر شعلہ سفید ہوتا تھا – سنڑسنڑیں کے بھار زبروخٰیل قبیلے کے ایک بزرگ اپنی پیٹھ پر لاد کر لایا کرتے تھے –
آگ تاپنے کا ایک کلچر تھا ، ایک لطف تھا ، وہ مزے اب کہاں –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
—————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 16 جنوری 2021

میرا میانوالی

کہتے ہیں سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کی جائے ، اتنی زیادہ لگتی ہے – بندے کو ڈھیٹ ہونا چاہیئے – چلیں یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں –
کل کے چِٹکے کی کسر آج کی دُھند نے پوری کردی ہے – آج کی دُھند پہلے سے کہیں زیادہ گاڑھی ہے – برفیلی ہوا بھی آج زیادہ منہ زور ہے – صبح سات بجے کی خبروں میں بتا رہے تھے کہ لاہور/ اسلام آباد موٹروے سالم بند ہے – ملک کی باقی شاہراہوں کا بھی یہی حال ہے –
گیس بھی رات بھر غائب رہتی ہے – لیکن پھر بھی ہم نے گھبرانا نہیں ہے –
یا اللہ رحم —– اس شدید دھند اور سردی میں مزدوروں کو کام بھی نہیں ملے گا – مریضوں کا کیا حال ہوگا – اللہ ہی بہتر جانتا ہے – بہر حال وہ رحمن و رحیم ہے – انسان کو کانٹا بھی چُبھے تو کسی نہ کسی صورت میں اُس کا بھی صلہ ضرور ملتا ہے – شُکر ہے اس نے موسموں کا نظام انسانوں کے اختیار میں نہیں دیا ، ورنہ ہم موسموں کی تبدیلی کے لیئے بھی امریکہ آگے ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہوتے –
چلتے چلتے ناصر کاظمی کا شعر یاد آگیا ——————–
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 17 جنوری 2021

 

 

 

 

میرا میانوالی

اب تو جنوری فروری مارچ وغیرہ سے حساب لگایا جاتا ہے ، ہمارے بچپن کے دور میں ماہ و سال کا حساب دیسی کیلنڈر کے مطابق ہوتا تھا – اس کیلنڈر کے مطابق سال کا آغاز موسم بہار سے ہوتا تھا – مہینوں کے نام اور ترتیب یوں تھی :
چیتر
وساکھ
جیٹھ
ہاڑ
ساونڑں
بدھریوں
اسیوں
کتیوں
منگھر
پوہ
مانہہ
پھگن
ماہ و سال کا یہ حساب دراصل بکرمی (ہندی) کیلنڈر تھا – اس کے مطابق آج 6 مانہہ 2077 ہے – یہ کیلنڈر آج کے رائج الوقت جنوری فروری والے کیلنڈر سے تقریبا 50 سال آگے ہے – اس کے حساب سے سال 366 دن کا ہوتا ہے – 6 مہینے 30 دن کے ، 6 مہینے 31 دن کے – ہر ماہ کا آغاز انگریزی مہینے کے وسط سے ہوتا ہے –
یہ حساب کتاب ہمیں مشکل لگتا ہے ، مگر چِٹے ان پڑھ دیہاتیوں کو فر فر یاد ہوتا تھا – مثلا کوئی بزرگ آج کے دن کی تاریخ پوچھنا چاہتے تو کہتے
“ اج ڈیکھاں مانہہ دی کِتویں اے ؟“
جواب ہوتا “ مانہہ نی چھیں““
اس موضوع پر کچھ مزید باتیں ان شآءاللہ کل –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 18 جنوری 2021

میرا میانوالی

دیسی مہینوں کے حوالے سے مقامی دانش folk wisdom پر مبنی ًبہت سے محاورے، کہاوتیں اور کام کی باتیں بھی تھیں – مثلا موجودہ مہینے (مانہہ) کے حوالے سے کہتے تھے “ ادھ مانہہ تے بھگل بانہہ“ ( مانہہ آدھا گذر جائے تو گرم لباس بوجھ بن جاتا ہے )
چیتر کے بارے میں کہا کرتے تھے “ وسے چیتر، نہ کَھل اماوے نہ کھیتر“
( چیت میں بارش ہو تو گندم اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ نہ کھلواڑوں میں سماسکتی ہے نہ کھیتوں میں)
اسی طرح ایک کہاوت ہوا کرتی تھی “ جیٹھ ہاڑ سمیئے ، ساونڑں بدھریوں دھایئے ، تے اسیوں کتیوں تھوڑا کھایئے ، وت کیوں طبیب توں پچھنڑں جایئے“
( جیٹھ ہاڑ کے مہینوں میں زیادہ سوئیں۔ ساونڑں بدھریوں میں زیادہ سے زیادہ نہائیں اور اسیوں کتیوں میں کم کھائیں تو سال بھر کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی)
اس کہاوت کی زبان ضلع میانوالی کی زبان سے کچھ مختلف ہے ، شاید پنجاب کے کسی اور علاقے سے ہمارے ہاں وارد ہوئی تھی –
اس قسم کے اقوال زریں لوگوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے سے اخذ کررکھے تھے – یوں سمجھ لیجئے کہ ان لوگوں کی ایک اپنی سائنس تھی – چِٹے ان پڑھ ہونے کے باوجود ان کے اندازے سو فی صد درست ہوتے تھے – وہ لوگ سادہ تو تھے مگر بےوقوف نہ تھے – ہم سے زیادہ سمجھدار ، دیانت دار ، دلیر اور فراخ دل تھے –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
——————— رہے نام اللہ کا —

بشکریہ-منورعلی ملک- 19 جنوری 2021

 

 

 

میرا میانوالی

اللہ کا لاکھ شکر —- موسم بالآخر کسی کنارے لگ ہی گیا –
تین دن سے مسلسل دھوپ —— آنکھیں ترس گئی تھیں دھوپ دیکھنے کو – اب اگر بادل اور بارش آ بھی جائیں تو ایک آدھ دن کے مہمان ہی ہوں گے –
روزانہ اس وقت پوسٹ لکھتے ہوئے جو جیکٹ پہنی ہوتی تھی ، آج اس کی ضرورت نہیں پڑی – بزرگ کہا کرتے تھے “ادھ مانہہ تے بَھگُل بانہہ ( مانہہ کا مہینہ آدھا گذر جائے تو گرم لباس بوجھ لگتا ہے )- ابھی ادھ مانہہ میں چار دن باقی ہیں ، ان شآءاللہ تین چار دن بعد موسم مکمل کروٹ بدل لے گا – بہار آئے گی – یہ الگ بات کہ
ترے بغیر جو اب کے بہار گذرے گی
بہت اداس ، بہت سوگوار گذرے گی
سردی کا زور ختم ہوتے ہی لوگ چلنا پھرنا شروع کر دیتے تھے – گندم کی فصل کاٹنے کے لوازمات کی دیکھ بھال شروع ہو جاتی تھی – لوہاروں کے ہاں جاکر ڈاتریوں (درانتیوں) کے دانت تیز کروائے جاتے – درکھانوں سے ترینگل اور کراہیوں وغیرہ کی مرمت کرائی جاتی – نئی ڈاتریاں خریدنے کے لیے کالاباغ کے پھیرے لگائے جاتے – ہر طرف اچھی خاصی رونق دیکھنے میں آتی تھی –
روس کی جھیلوں کی جانب واپسی کے سفر پر سندھ سے آنے والی کونجیں اور مرغابیاں آسمان پر محوپرواز نظرآتیں – وہ ایک آدھ دن جناح بیراج کی مہمان نوازی سے مستفید ہو کر تربیلا کی سمت روانہ ہوجاتی تھیں –
پرندوں کا روٹین تو اب بھی وہی رہے گا ، انسانوں کے روٹین بہت بدل گئے – کلچر ، مصروفیات ، مشاغل ، سب کچھ بدل گیا – شاعر نے کہا تھا
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
——————- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 21 جنوری 2021

میرا میانوالی

مہمانوں کو ابھی رخصت کیا ہے –
مہمان ایک ہو یا زیادہ ، رخصت کرنے کے بعد دل کے اندر ایک عجیب سی اداسی اور ویرانی محسوس ہوتی ہے – جوش ملیح آبادی نے ایسے مواقع کی لاجواب منظر کشی کی ہے – کہتے ہیں گھر اس طرح ویران نظرآتا ہے جیسے دیہات کے ریلوے سٹیشنوں پر ٹرین گذر جانے کے بعد ایک سوگوار سی ویرانی چھا جاتی ہے –
جن لوگوں نے یہ منظر کبھی دیکھا ہو وہ اس بات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں – ہم نے تو یہ منظر اپنے بچپن میں داؤدخیل کے ریلوے سٹیشن پر کئی بار دیکھا ہے – ہر سال گرمی کی چھٹیاں گذارنے کے بعد جب ہمارے ماموں جان کی فیملی داؤدخیل سے رخصت ہوتی تو سٹیشن پر ٹرین آتے ہی میرے ہم عمر ماموں زاد ممتاز بھائی اور میں گلے مل کر زاروقطار رویا کرتے تھے – اس چیخ پکار سے تنگ آکر ہمارے بزرگ ہمیں مارپیٹ کر بڑی مشکل سے چُپ کرواتے تھے-
اب تو موبائیل فون کا دور ہے مہمان اور میزبان ہر پل رابطے میں رہتے ہیں —— اب فلاں جگہ پہنچے ہیں ، فلاں ہوٹل سے چائے پی رہے ہیں – اب فلاں جگہ سے گذر رہے ہیں —– تنہائی کا وہ احساس اب نہیں ہوتا جو موبائیل فون کی آمد سے پہلے ہوتا تھا – انسان سوچتا رہتا تھا ، پتہ نہیں اب کہاں پہنچے ہیں ، کس حال میں ہیں – دوچار دن بعد ڈاک کے ذریعے خط آتا تو تسلی ہو جاتی تھی کہ شکر ہے خیریت سے پہچ گئے –
وقت تو بدل جاتا ہے ، مگر انسانی فطرت نہیں بدلتی – موبائیل فون کی سہولت کے باوجود کسی کو رخصت کرتے وقت انسان لمحہ بھر کے لیے اداس ضرور ہوتا ہے –
آج کی حاضری کے طور پہ یہی کافی سمجھیں ، ان شآءاللہ کل ملیں گے –
—————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 23جنوری 2021

میرا میانوالی

لاہور والے اسے ماڑی انڈس کہتے تھے ، ہم لہور آلی گَڈی –
ذکر ہے اس ٹرین کا جو روزانہ لاہور سے ماڑی انڈس آتی جاتی تھی – کسی زمانے میں ضلع میانوالی سے لاہور آمدورفت کا یہ اکلوتا وسیلہ ہؤا کرتی تھی – تاجر لوگ اسی ٹرین سے لاہور آتے جاتے تھے – فیصل آباد آمدورفت بھی اسی ٹرین سے ہوتی تھی – میانوالی اور کندیاں سے داؤدخیل کی فیکٹریز کے سینکڑوں ملازم اسی ٹرین کے ذریعے آتے جاتے تھے – روزانہ آیک ساتھ آنے جانے کیوجہ سے ان لوگوں کی ایک اپنی کمیونٹی بن گئی تھی –
گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق پرنسپل مرحوم ملک محمد انور میکن تقریبا 30 سال اسی ٹرین سے فیکٹری ملازمیں کے ساتھ روزانہ آتے جاتے رہے —- مین بازار میانوالی میں ملک ثناءاللہ کی دکان سے اپنی سائیکل لے کر کالج آتے جاتے تھے – جب اپنی گاڑی لے لی پھر بھی ٹرین سے ہی آتے جاتے رہے – کار ان کا صاحبزادہ سرفراز استعمال کرتا رہا – سرفراز بی اے کا سٹوڈنٹ تھا – روزانہ کار پر میرے گھر پہ آکر انگلش پڑھتا تھا – پھر اسی کار پہ ہم کالج جایا کرتے تھے – راستے میں اکثر سائیکل پر جاتے ہوئے ملک انور صاحب کو کراس کرتے – کیا درویش انسان تھا –
ایک دن میں نے کہا “ سر، اپنی گاڑی سے آجایا کریں “
ہنس کر کہنے لگے “یار ، میرے ٹرین والے ساتھی مجھے کار پہ نہیں آنے دیتے – کئی سال سے ہم لوگ روزانہ ایک ساتھ آتے جاتے ہیں – ایک بہت پیارا ماحول سا بن گیا ہے ہم لوگوں کا – وہ گپ بازی ، وہ چھیڑچھاڑ ، ہنسی مذاق ، میں کیسے چھوڑ دوں؟“
ماڑی انڈس ٹرین آتے جاتے آدھ گھنٹہ کندیاں ریلوے سیشن پر رکتی تھی – یہاں ٹرین کا انجن تبدیل ہوتا تھا — ٰ ٹرین لاہور اور ماڑی انڈس دونوں طرف سے شام 5 بجے روانہ ہوتی اور صبح تقریبا 7 بجے منزل مقصود پر پہنچتی تھی –
————— رہے نام اللہ کا —-

شکریہ-منورعلی ملک- 24 جنوری 2021

 

میرا میانوالی

ماڑی انڈس ٹرین قیام پاکستان سے بھی پہلے انگریزحکومت نے جاری کی تھی – ضلع میانوالی کی ڈاک (خط ، پارسل وغیرہ) بھی یہی گاڑی لاتی تھی – اخبارات بھی اسی گاڑی کے ذریعے یہاں پہنچتے تھے –
سرگودھا سٹیشن پربھی یہ ٹرین دس پندرہ منٹ رکتی تھی – سرگودہا سے آگے چک جھمرہ سٹیشن سے سیدھا لاہور جانے کی بجائے یہ دائیں ہاتھ مڑ کر پہلے فیصل آباد جاتی تھی – وہاں اس کا انجن تبدیل ہوتا تھا – تقریبا آدھا گھنٹہ فیصل آباد رکنے کے بعد یہ واپس چک جھمرہ آکر لاہور کا رخ کرتی تھی –
شیخوپورہ پہنچ کر یہ ٹرین “باوُ ٹرین“ (بابُوٹرین) کہلاتی تھی کیونکہ لاہور کے مختلف دفتروں میں کام کرنے والے بابُوؤں (کلرکوں) کی روزانہ آمدورفت بھی اسی ٹرین سے ہوتی تھی – وہاں ٹرین میں سفر کرنے والوں کی تعداد یکلخت بڑھ جاتی تھی –
واپسی پر بھی ماڑی انڈس ٹرین فیصل آباد سے ہو کر آتی تھی – کپڑے کے تاجروں کے لیے یہ بڑی سہولت تھی – داؤدخیل / میانوالی میں اپنے پیاروں کے خطوط کا انتظار کرنے والے بھی اس ٹرین کی آمد کے منتظر رہتے تھے –
عیدالفطر کے تیسرے دن ماڑی انڈس میں شاہ گل حسن کے میلے پر جانے والے لوگوں کے ہجوم میں ٹرین نظر بھی نہیں آتی تھی ، چھت ، پائدان ، انجن تک سے لوگ مکھیوں کی طرح چمٹے ہوتے تھے –
———————– رہے نام اللہ کا —

 

بشکریہ-منورعلی ملک- 25جنوری 2021

 

میرا میانوالی

ٹرین کا سفر بہت دلچسپ ہوتا تھا – لمبے سفر پہ جانے والے لوگ کھانا گھر سے بنوا کر ساتھ لے جاتے تھے – کھانا معمول سے کچھ زیادہ بنوایا جاتا تھا تاکہ ٹرین میں دائیں بائیں بیٹھے ہمسفروں کو بھی کھانے میں شریک کیا جاسکے –چلتی ٹرین میں جب کھانے کا وقت ہوتا سِیٹ پر دسترخوان بچھا کر کھا لیتے تھے – کھانا گھر سے لے جانے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ پیسے بچ جاتے تھے ، دوسری وجہ یہ کہ عام طور پر سٹیشنوں پر معیاری کھانا نہیں ملتا تھا –
چائے کے شوقین لوگ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹی سٹال سے چائے پی لیتے تھے – عام طور پر ان ٹی سٹالز پر اچھی چائے ملتی تھی – لیکن کندیاں سٹیشن کا ٹی سٹال پورے علاقے میں بدنام تھا – گھر میں کبھی اچھی چائے نہ بنتی تو لوگ کہا کرتے تھے “ اے کُندیاں ٹیشن آلی چاہ میں ناں پی سگدا -“
پتہ نہیں اس زمانے میں کندیاں سٹیشن کا ٹی سٹال کون چلاتا تھا ۔۔؟؟؟؟
ہمارے بچپن کے دور میں چائے بہت کم لوگ پیتے تھے – دیہات میں اکثر لوگ اس کے نام سے بھی ناآشنا تھے – انگریز سرکار نے چائے کو متعارف کرانے کے لیئے جو مہم چلائی اس کے تحت ہر ریلوے سٹیشن پر ٹی سٹال کے سامنے نیلے رنگ کے بورڈ پر سفید حروف میں چائے کے فوائد لکھے ہوتے تھے – مثلا
1۔ چائے پیاس بجھاتی ہے
2۔ جسم کو طاقت دیتی ہے
3۔ گرمی میں جسم کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے –
4۔ سردی کے اثر کو کم کرتی ہے
5۔ جسم کو چست اور دماغ کو تازہ رکھتی ہے
اسی قسم کے کچھ اور فضائل بھی لکھے ہوتے تھے –
ٹرین کے سفر میں نئی دوستیاں بھی بنتی تھیں – ایک دوسرے کا ڈاک کا پتہ لے کر خط و کتابت بھی ہوتی تھی –
مرحوم محمد رفیع کا ایک اداس گیت یاد آرہا ہے ، اس گیت کے بول کچھ یوں تھے:
جیون کے سفر میں راہی
ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
اور دے جاتے ہیں یادیں
تنہائی میں تڑپانے کو
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 26 جنوری 2021

میرا میانوالی

ماڑی انڈس اور کُندیاں کے درمیان ایک ٹرین چلتی تھی – دو ڈبوں کی اس مختصر سی ٹرین کو “چَھٹُل“ کہتے تھے – انگلش کے لفظ shuttle شَٹل کو سادہ لوح دیہاتی چَھٹُل بولتے تھے – مختصر فاصلے کی باقاعدہ آنے جانے والی ٹرین کو انگلش میں شٹل ٹرین shuttle train کہتے ہیں – ہمارے علاقے میں یہی ایک شٹل ٹرین تھی – بعد میں یہاں کے لوگوں نے اسے چھٹل کی بجائے “ڈَبے“ کا نام دے دیا –
ڈبے صبح 9 بجے ماڑی انڈس سے روانہ ہو کر تقریبا 11 بجے کندیاں پہنچتے تھے – وہاں سے ایک بجے واپس روانہ ہو کر 3 بجے ماڑی انڈس پہنچتے تھے – کالاباغ ، ماڑی انڈس ، داؤدخیل ، پائی خیل کے لوگوں کے لیئے میانوالی آمدورفت کی یہ بہت بڑی سہولت تھی –
پشاور سے ملتان جانےوالی ایک ٹرین بھی لاہور ٹرین سے دس پندرہ منٹ آگے پیچھے داؤدخیل پہنچتی تھی – اسے ہم “ملتان آلی گڈی“ کہتے تھے – بعد میں پشاور سے ملتان جانے والی ایک اور ٹرین کا اضافہ بھی ہوگیا – پشتو کے بزرگ شاعر مرحوم خوشحال خان خٹک کے نام سے موسوم یہ ٹرین خوشحال ایکسپریس کہلاتی تھی – یہ رات تقریبا 10 / 11 بجے میانوالی پہنچتی تھی ، یہ ٹرین غالبا اب بھی چل رہی ہے –
ہمارے علاقے میں ریلوے کا تقریبا صفایا ہو چکا ہے – سٹیشن ویران پڑے ہیں – وہ رونقیں ، چہل پہل سب کچھ خواب و خیال ہو گیا – کہتے ہیں ریلوے کی بربادی کا بڑا سبب ٹرانسپورٹ مافیا ہے- واللہ اعلم بالصواب –
——————– رہے نام اللہ کا —–

میرا میانوالی

کل شام اچانک خبر ملی کہ بھائی عبداللہ خان ربزئی بھی یہ دنیا چھوڑ کر سرحدِ حیات کے اُس پار جا بسے – اللہ مغفرت فرما کر بلنددرجات عطا فرمائے ، ہمارے بہت پیارے دوست تھے – داؤدخیل میں ہمارے محلہ کی مسجد شکورخیل کے قریب جرنیلی سڑک پر ان کا حفیظ جنرل سٹور اس محلے کا پہلا جنرل سٹور تھا –
میں جب بھی داؤدخیل جاتا Everyday Milk اور سگریٹ بھائی عبداللہ خان ہی سے خریدتا تھا – بہت مخلص انسان تھے – بہت محبت کرتے تھے – میرے لیے چائے منگواتے ، اور کچھ دیر ہم گپ شپ لگا لیتے تھے – کسی دکان پر بیٹھنا میں مناسب نہیں سمجھتا ، مگر بھائی عبداللہ خان کی محبت مجھے کچھ دیر کے لیے حفیظ جنرل سٹور پہ رکنے پر مجبور کر دیتی تھی – ان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں چند لمحے ان کے پاس بیٹھوں –
یہاں ایک اور عبداللہ خان ربزئی سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی – یہ تھے عبداللہ خان ولد نورباز خان – جوانی میں کبڈی کے بہترین کھلاڑی اور میرے ماموں زاد ملک اقبال حسین کے نہایت قریبی دوست تھے –
حفیظ جنرل سٹور والے بھائی عبداللہ خان کے والد ریلوے میں ملازم تھے ، اس لیئے عبداللہ خان کا بچپن کالاباغ ریلوے سٹیشن کی کالونی میں گذرا – کالاباغ ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد داؤدخیل کی ایک فیکٹری میں ملازم ہوگئے – ان کا آبائی گھر ہمارے گھر کے شمال میں تھا – بعد میں عبداللہ خان نے وہ گھر بیچ کر اسی محلے میں جرنیلی سڑک کے قریب اچھا خاصا وسیع و عریض گھر بنالیا – فیکٹری سے ریٹائر منٹ کے بعد حفیظ جنرل سٹور ہی ان کا ذریعہء معاش بن گیا – کچھ عرصہ پہلے تک چند دوستوں کے ساتھ دن کے پچھلے پہر بیڈمنٹن بھی کھیلا کرتے تھے – اپنے اس شوق کی تسکین کے لیئے دکان کے پیچھے بیڈمنٹن کورٹ (گراونڈ) بھی بنایا ہوا تھا –
بہت نفیس مزاج اور خوش ذوق انسان تھے – دکان پر ڈبل روٹی کے سائیز کا ننھامنا ٹی وی بھی رکھا ہوا تھا ، جس پر ہر وقت کوئی نہ کوئی نیوز چینل چل رہا ہوتا تھا –
اس ماہ کے آغاز میں ہم داؤدخیل گئے تو عبداللہ خان کا جنرل سٹور بند تھا ، میں نے سمجھا ویسے ہی بند ہے – بعد میں پتہ چلا عبداللہ خان بیمار تھے – گُردوں کا مسئلہ تھا جو بعد میں جان لیوا ثابت ہؤا – بہت پیارے انسان تھے – بہت یادآئیں گے –
کُچھ ایسے بھی اُٹھ جائیں گے اس دنیا سے جن کو
ہم ڈھونڈنے نکلیں گے مگر پا نہ سکیں گے
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 28 جنوری 2021

میرا میانوالی

ٹرین پر داؤدخیل ، میانوالی سے پنڈی جانے کے دو راستے ہیں – ایک جنڈ سے براستہ فتح جنگ، دوسرا بسال سے براستہ اٹک – صبح آٹھ بجے کے قریب ملتان سے پنڈی جانے والی ٹرین داؤدخیل سے روانہ ہوتی تھی – یہ ٹرین فتح جنگ کے راستے ، گولڑا شریف ریلوے سٹیشن سے ہوتی ہوئی تین چار بجے پنڈی پہنچتی تھی – ملتان سے پنڈی کی ایک ٹرین ماڑی انڈس سے ہوکر صبح چار بجے داؤدخیل سے اٹک کے راستے پنڈی جاتی تھی – بعد میں اس کی جگہ ماڑی انڈس سے پنڈی جانے والی ریل کار آگئی –
جنڈ سٹیشن پر ٹرین دو چار منٹ رکتی تھی – اس سٹیشن کے پکوڑے بہت مشہور تھے – شاہ جی کے ٹی سٹال کی چائے بھی بہت عمدہ ہوتی تھی – ساتھ کھانے کو کیک پیس ، پیسٹریاں وغیرہ بھی دستیاب تھیں –
اٹک کے راستے جانے والی ٹرین جنڈ سے آگے جا کر بسال سے اٹک کا رخ کرتی تھی – بسال اور اٹک کے درمیان پہاڑوں میں بہت سی سرنگیں ہیں – بہت ہراسرار جنگل سا ریلوے لائین کے دونوں طرف پہاڑ کی ڈھلوانوں پر میلوں تک پھیلا ہوا ہے – بہت دہشتناک جنگل ہوا کرتا تھا ، اب پتہ نہیں کیا حال ہے – لوگ کہتے تھے اس جنگل میں شیر اور چیتے بھی رہتے ہیں –
اٹک ریلوے سٹیشن بہت خوبصورت ہے – اس کا محل وقوع بھی نہایت دلکش ہے – یہاں ٹرین تقریبا آدھا گھنٹہ رکتی تھی – ٹی سٹالز پر کھانے پینے کو بہت کچھ مل جاتا تھا – یہاں ٹرین کا انجن بھی تبدیل ہوتا تھا –
اب تو افرا تفری کا زمانہ ہے – لوگ جلد از جلد منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں – کئی لوگ جلدبازی میں وقت سے پہلے آخری منزل پر بھی پہنچ جاتے ہیں – سفر کو زحمت سمجھا جاتا ہے – کہتے ہیں ٹرین کے سفر میں وقت ضائع ہوتا پے – مگر ٹرین کے سفر کا ایک اپنا لطف تھا ، سفر میں بھی گھر جیسا ماحول ملتا تھا —– سفر کے وہ سب مزے خواب و خیال ہو گئے-
—————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 30 جنوری 2021

میرا میانوالی

31 جنوری میری 40 سالہ سروس کا آخری دن تھا – پرنسپل ملک محمد انور میکن اور بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر محمد فاروق صاحب المعروف لالا فاروق مجھ سے ایک دن پہلے ریٹائر ہو چکے تھے – الوداعی تقریبات کا سلسلہ نومبر سے جاری تھا – بہت یادگار تقریبات تھیں – ان تقریبات کا ذکر ذرا جذباتی سا ہے ، پوری روداد لکھنا مشکل ہے –
آج کے دن تقریبا 12 بجے ریٹائرمنٹ کے کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد اپنا وہ سفر جو 40 سال قبل گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل میں انگلش ٹیچر کی حیثیت میں شروع ہوا تھا بخیر و خوبی ختم ہؤا – رب کریم کا خصوصی فضل
و کرم ساتھ رہا – سینکڑوں ساتھیوں اور ہزاروں بچوں سے بے حساب عزت اور محبت ہر قدم پر ملتی رہی –
سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ تو ہو گئی لیکن وہ جو میں اکثر کہا کرتا ہوں ٹیچر ، ڈاکٹر اور وکیل کبھی ریٹائرنہیں ہوتے – جب تک سانس باقی رہے کسی نہ کسی صورت میں لوگوں کے کام آتے رہتے ہیں – میں پہلے بھی ٹیچر تھا ، آج بھی ہوں – فیس بک میرا کلاس روم ہے – اتنا وسیع کلاس روم کہ سعودی عرب ، برطانیہ ، فرانس ، آسٹریلیا ، کینیڈا اور امریکہ میں بیٹھے ہوئے بے شمار پاکستانی بچے روزانہ میری کلاس اٹینڈ کرتے ہیں – میری باتیں پڑھ سن کر خوش ہوتے ہیں ، مجھےدعائیں دیتے ہیں – اللہ کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے – الحمدللہ الکریم –
—————– رہے نام اللہ کا —-

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top