MERA MIANWALI JULY 2019

منورعلی ملک کےجولائی 2019 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی—————-

ھم نے مڈل (آٹھویں کلاس) کا امتحان گورنمنٹ ھائی سکول موچھ میں دیا تھا – ھماری تیس پینتیس لڑکوں کی کلاس ماسٹر رب نوازخان (مرحوم) کی قیادت میں کوٹ بیلیاں ، بستی شاہ گل محمد سے ھوتی ھوئی تقریبا ّعصر کے وقت موچھ پہنچی- سامان اونٹوں پر لدا تھا – سب لوگوں نے یہ سفر پیدل طے کیا – میں چونکہ ماسٹر صآحب کے استاد محترم مولوی مبارک علی کا پوتا تھا ، اس لیے مجھے اونٹ پر سوار ھونے کا اعزاز عطا ھؤا –

ھماری کلاس آٹھ دس دن محلہ خانجی خیل کے دکان دار چاچا محمد خان کے ھاں مقیم رھی – دووسیع کمروں پر مشتمل یہ اچھا خاصا مکان ھمارے لیے وقف تھا – موچھ ھائی سکول کے ھیڈماسٹرنذر حسین شاہ ھاشمی (معروف صحافی زبیر شاہ کے والد تھے) – بے خبری کا دور تھا – ماسٹر صاحب نے ھماری آمدو رفت سکول تک ھی محدود رکھی –

جب میں خود ٹیچر بنا تو موچھ میں اکثر آنا جاتا رھا – ھیڈماسٹر سید رسول شاہ کاظمی میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے بہت قریبی دوست تھے – اساتذہ ء کرام میں سے عبدالکریم خان تاج صاحب ، عالم خان صاحب ۔ امیر عبداللہ خان صاحب ، عطا محمد خان صاحب اور عبدالغنی خان صاحب میرے بہت مہربان دوست تھے- موچھ سکول کے سابق پرنسپل مجید اللہ خان میرے بی ایڈ کے کلاس فیلو تھے – بہت دبنگ انسان اور اچھے منتظم تھے- بزرگ شاعر ۔ مؤرخ اور ماھر تعلیم حمیداللہ خان ضیاء بھی میرے بہت محترم دوست تھے-

موچھ سے میری جذباتی وابستگی کی ایک وجہ یہ بھی ھے کہ میرے استاد محترم سید ممتاز حسین شاہ کاظمی اور میرے محترم بھائی پروفیسر اقبال حسین کاظمی بھی موچھ کے رھنے والے تھے –

عالم خان صاحب کے صاحبزادے لطیف اللہ خان آزاد ایڈووکیٹ گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے سٹوڈنٹ رھے – ان کے علاوہ بھی موچھ سے بے شمار نوجوان گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے سٹوڈنٹ تھے – نام یاد نہیں آرھے ، اللہ سب کو سلامت رکھے –

تعلیم کے لحاظ سے موچھ ھمیشہ ضلع میانوالی میں نمایاں رھا ھے – ڈاکٹرعطاءاللہ خان غالبا موچھ کے پہلے ڈاکٹر تھے- میرے محترم دوست ، نامورفزیشن ڈاکٹر عبدالرؤف خان اور کئی دوسرے ڈاکٹر صاحبان موچھ سے تعلق رکھتے ھیں – بہت سے پروفیسرزاور وکلاء بھی موچھ نے ملک وقوم کو دیئے ھیں –

بچیوں کی تعلیم میں تو کسی زمانے میں موچھ میانوالی سے بھی آگے تھا – ضلع میانوالی کی پہلی خاتون ڈاکٹر ھونے کا اعزاز محترمہ ڈاکٹر ساجدہ غلام رسول خان نیازی کو نصیب ھوا- ضلع میانوالی کے اکثر سکولوں میں خواتین ٹیچرز موچھ کی ھوتی تھیں – موچھ میں بچیوں کی تعلیم کا رواج برپا کرنے میں یہاں کے بزرگ غلام عباس خان المعروف خان جی نے بہت اھم کردار ادا کیا – ان کے نام سے منسوب عباسیہ سکول ان کی یادگار ھے – انہیں موچھ کا سرسید احمد خان کہنا بے جا نہ ھوگا –

پاک فوج میں بھی موچھ نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ھیں – جنرل رفیع اللہ خان ، میجر حامد خان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ پاک فوج میں قابل قدر خدمات سرانجام دیتے رھے –

موچھ کے اساتذہ ء کرام یوں تو سب میرے دوست تھے ، تاھم ان میں مرحوم عبدالغنی خان صاحب کو مجھ سے قلبی لگاؤ تھا – بے حد مہربان تھے – جب الصفہ سکول میانوالی کے پرنسپل تھے تو میں اپنے پوتے علی بیٹا (محمدعلی ملک ) کو ان کے سکول میں داخل کرانے کے لیے گیا – بہت خوش ھوئے ، کہنے لگے “ملک صاحب، یہ تو ھمارے لیے ایک اعزاز ھے کہ آپ کا بچہ ھمارے سکول کا سٹوڈنٹ ھو“-

آہ —- آج دنیا میں نہ علی بیٹا ھے ، نہ محترم غنی خان صاحب — رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک–1جولائی2019

السلام علیکم! سب سے پہلے تو شکریہ کہ آپ نے میری درخواست پر ایک بار پھر موچھ کو موضوع بحث بنایا۔ تاہم میری درخواست کے بعد پے درپے فرمائشوں کا سلسلہ دیکھ کر مجھے اپنی فرمائش پر افسوس بھی ہوا کہ جس قدر فرمائشیں آنا شروع ہو گئی ہیں تو انھیں آپ کے لیے پورا کرنا بہت مشکل تھا۔
میں اس پوسٹ پر تفصیلی کمنٹ کرنا چاہتا تھا اور تفصیلی تحریر میں عموما لیپ ٹاپ پر لکھتا ہوں اور میرا آج کا سارا دن گھر سے باہر دوستوں میں رہا۔جن اساتذہ کا آپ نے ذکر کیا ان میں سے عالم خان صاحب کے ایک بیٹے لطیف اللہ خآن آزاد کا آپ نے تعارف کرادیا میں آپ کو ان کے بقیہ تن بیٹوں کا بھی بتا دوں۔ ایک کرنل ریٹائرڈ صفی اللہ خان ہیں وہ ان دنوں راولپنڈی ہوتے ہیں۔ ایک ضلع کی معروف سیاسی شخصیت مولوی عظمت اللہ خان ہیں جو 2015 کے بلدیاتی الیکشن میں موچھ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ اور ایک زبیر خان ہیں جو ہوٹلنگ کا بزنس کرتے ہیں۔جس چاچا محمد خان دکاندار کی آپ بات کر رہے انھیں میں پہچان نہیں سکا۔ والد صاحب سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا ورنہ ان سے پوچھ لیتا۔اگر امیر عبد اللہ خان سے مراد امیر عبد اللہ خان مانجھی خیل ہیں تو وہ بھی ان دنوں ریٹائرڈ ہیں اور ان کا ایک بیٹا عمران احمد خان نیسکام میں ایڈمن آفیسر ہیں اور ایک بیٹا مجید اللہ خان پی سی ایس کرنے کے بعد اچھی پوسٹ پر ہیں۔

عبدالغنی خان کا نام آپ نے لیا۔۔۔۔ ان پر کیا لکھا جائے ویسے کتنا حسین اتفاق ہے کہ آج آپ کی پوسٹ سے قبل میں عبدالغنی خآن پر لکھا ایک مضمون کل کی اشاعت کے لیے نوائے شرر کو ارسال کر چکا تھا۔

یقیناً آپ کا پوتا محمد علی ملک اور عبدالغنی خان ان شااللہ جنتوں میں ہی ہوں گے کہ عبدالغنی خان خود ایک درویش تھے اور محمد علی ملک ایک درویش کا پوتا تھا۔ اور جس مورخ اور محقق حمید اللہ خان ضیا اسلام پوری کا ذکر آپ نے کیا میں ان کا ایک شعر آپ کو سنا دیتا ہوں:

کھلے کجو پھو جنگل میں وہ کس کے کام آتا ہے
جو اس کا حال ہوتا ہے وہ صادق مجھ پہ آتا ہے
ایسا ہی ایک شعر میرے استادِ محترم مظہر نیازی صاحب کا بھی یاد آرہا:

نور سے دور سیہ رات میں زندہ رہنا کتنا مشکل ہے مضافات میں زندہ       Mujeeb Ullah KhanNiazi

رہنا-

اس فقير کے والد صاحب کو اعزاز حاصل ھیکہ وہ موچھ ھائ سکول سے ھائ سکول کی سند حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے ۱۹۲۹ میں پیدا ھوئے اور شائید ۱۹٤٦ میں پاس ھوئے۔
گورئمنٹ ھائ سکول میانوالی پڑھ رھے تھے کہ اپنی والد صاحب جو کہ اس وقت گرداور تھے ریونیو میں کے دوست جو کہ ھیڈ ماسٹر تھی کی ریکویسٹ پر موچھ ھائ سکول کے ھاسٹل میں رھائش رکھی اور وھیں سے اعزاز حاصل کیا-Farhan Saleem Ahmed Khan

-بشکریہ-منورعلی ملک–1جولائی2019

ملاقاتیں —————-
سرائیکی کے معروف شاعر ضیاء انجان سرائیکی کے ساتھ


ضیاء صاحب میانوالی کے ھیں ، آج کل لیہ میں مقیم ھیں -بشکریہ-منورعلی ملک–1جولائی2019

میرا میانوالی—————-

اپنے اپنے شہروں کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کرنے والے ساتھیوں کی اطلاع کے لیے عرض ھے کہ وہ گوگل میں MERA MIANWALI ٹائیپ کر کے میری اپریل 2017 سے اکتوبر2017 تک کی پوسٹس دیکھ لیں ، ان میں کڑی خیسورسے واں بھچراں تک کے بارے میں پوسٹس موجود ھیں – درمیان میں کہیں کہیں ایک آدھ پوسٹ کسی دوسرے موضوع کے بارے میں بھی ھے ، جو اس وقت لکھنا میرے لیے ضروری تھا –

یہ سہولت ھمیں ھمارے مہربان ساتھی ، عیسی خیل کے شیر بہادر خان نیازی نے فراھم کی ھے —-انہوں نے اپنی ویب سائیٹ 786mianwali.com پر میری 2016 سے جون 2018 تک کی تمام پوسٹس یکجا کردی ھیں – اللہ انہیں بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے – آج کل وہ کچھ مصروف ھیں ، بہت دنوں سے رابطہ نہیں ھؤا – اللہ ان کا حامی و ناصر ھو -یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ میں نے اپنے ضلع کے صرف ان شہروں کے بارے میں لکھا ھے ، جہاں جانے یا رھنے کا مجھے موقع نصیب ھؤا— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک–2 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

آج لکھنا تو کچھ اور چاھتا تھا ، مگر کل کی پوسٹ پر وسیم سبطین کا کمنٹ —–

“گوانڈھیاں دا خیال کڈاں کریسو، سر جی ؟“— دیکھ کر سوچا کہ واقعی ان گوانڈھیوں کے بارے میں تو میں نے کبھی لکھا ھی نہیں – اس لیے ان کا حق اپنا فرض سمجھ کر آج ھی ادا کرنا ضروری سمجھا -وسیم سبطین میرے بہت پیارے بیٹے ھیں – پاک آرمی سے وابستہ ھیں – مجھ سے ان کا تعارف تقریبا چار سال پہلے فیس بک کی وساطت سے ھؤا – وسیم سبطین ، لالا عیسی خیلوی کے چاھنے والوں میں سرفہرست ھیں – لالا کے تمام گیتوں کا مکمل ریکارڈ ان کے پاس موجود ھے – بہت خوبصورت انداز میں گیت آراستہ کر کے فیس بک پہ بھی لگاتے رھتے ھیں – میرے محترم بھائی ملک سونا خان بے وس کے معتقد ھیں — وسیم کی فرمائش پہ ھمارا آج کا موضوع ھے —- چکوال
چکوال غازیوں اور شہیدوں کی سرزمین ھے – کئی شہید ، غازی اور حاضر سروس اعلی فوجی افسران چکوال ھی نے قوم کو دیئے
بھارت کے سابق وزیر اعظم منموھن سنگھ بھی چکوال سے تھے – ماضی کے مشہورزمانہ انڈین موسیقار مدن موھن بھی چکوال کے رھنے والے تھے – ھماری پاک فضائیہ کے بے مثال سربراہ ائیرمارشل نور خان بھی ضلع چکوال سے تھے-

ادب میں کرنل محمد خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں – ان کی پہلی کتاب “بجنگ آمد“ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے – اھل قلم کی فہرست اتنی طویل ھے کہ کچھ اور لکھنے کی جگہ ھی باقی نہیں بچے گی –

چکوال کے ایازامیر بین الاقوامی معیار کے صحافی ھیں – انگلش ، اردو ، دونوں میں بہت خوب لکھتے ھیں-

میرے چکوال کے دوستوں میں مرحوم پروفیسر نثار جمیل ، پروفیسراقبال شاہ صاحب اور قاضی غلام مرتضٰی سرفہرست ھیں – قاضی صاحب میرے بی ایڈ کے کلاس فیلو تھے – چکوال کے نواحی گاؤں مرید کے رھنے والے ھیں – بہت عرصہ ھیڈماسٹر اور ایجوکیشن آفیسر رھے – اب اپنے بچوں کے ساتھ پنڈی میں مقیم ھیں –

چکوال کے ایک اور نواحی گاؤں سے مختار نامی نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آتے رھتے تھے – بہت اچھے گلوکار تھے – پتہ نہیں آج کل کہاں ھیں ، اللہ سلامت رکھے
افتخارحیدر نامی نوجوان میرے اولیں فیس بک فرینڈزمیں سے تھے – بہت عرصہ سے رابطہ نہیں ھؤا – جہاں بھی ھیں ، اللہ ان کا حامی و ناصر ھو-

چکوال سے میرا ایک اور نازک سا رشتہ یہ بھی ھے کہ چکوال میرے سسرال کا ضلع ھے – میرے سسرال تلہ گنگ کے ھیں –

چکوال کی تاریخ اور ادب کے میدانوں میں سابق ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی خدمات ناقابل فراموش ھیں- ڈاکٹر صاحب نے بہت محنت سے چکوال کی تاریخ کے بارے میں معلومات جمع کر کے چکوال کے مستند اھل قلم سے تاریخ چکوال کے نام سے ضخیم کتاب مرتب کروائی – یہ بہت بڑی علمی خدمت ھے ، جو ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی جیسا صاحب جنوں ھی سرانجام دے سکتا ھے – چکوال کے مختلف تاریخی مقامات کا تعارف بھی ڈاکٹر صاحب نے سنگ مرمر کی تختیوں پر کندہ کروا کے مقررہ مقامات پر نصب کروادیا-

لکھنے کو بہت کچھ ھے ، مگر

بہت طویل کہانی ھے پھر کبھی اے دوست——-

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–3 جولائی2019

میرے داؤدخیل سے ایک تحفہ


عطاء سویٹس کی مشہورومعروف برفی
مرسلہ عدنان ھاشمی ۔ عطاء سویٹس داؤدخیل

میرا میانوالی—————-

دل بہت دکھتا ھے جب کبھی یہ خیال آتا ھے کہ میں نے اپنی شاعری کو کبھی اھمیت نہیں دی – حالانکہ دنیا نے تو میری شاعری کو اتنی اھمیت دی ھے کہ دنیا کے ھرخطے میں میری شاعری کے چاھنے والے موجود ھیں -میرے 5000 فیس بک فرینڈز اور7273 فالوورز میں سے کم ازکم70 / 80 فی صد میری شاعری کی راہ سے میری زندگی میں داخل ھوئے – لیکن یہاں میں “سچی ڈس وے ڈھولا“ اور “ ساوی موراکین“ وغیرہ والی شاعری کی بات نہیں کر رھا ، بلکہ آج ذکر ھے میری اردو شاعری کا – فیس بک پر ک<بھی کبھار ایک آدھ شعر سے زیادہ میں نے اپنی شاعری کا تعارف کبھی نہیں کرایا – حالانکہ میری اصل شاعری تو یہی ھے-غالب کو یہ شکوہ رھا کہ لوگ ان کی اردو شاعری کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے ھیں ، مگر فارسی شاعری کو کوئی لفٹ ھی نہیں کراتا ، حالانکہ اصل چیز تو میری فارسی شاعری ھے – اقبال کی بھی تقریبا 3/4 شاعری فارسی میں ھے – کتنے لوگ ھیں جنہوں نے اقبال کی وہ شاعری دیکھی ھے – ؟؟؟

غالب اور اقبال تو خیر بڑے لوگ تھے – یہاں بات اپنی شاعری کی ھورھی ھے کہ میری سرائیکی شاعری سے تو ایک زمانہ آشناھے ، (بہت سا کریڈٹ لالا عیسی خیلوی کو جاتا ھے ،جنہوں نے میری شاعری کو دنیا بھر میں متعارف کرادیا -اللہ انہیں سلامت رکھے ) ، مگر میری اردو شاعری بہت کم لوگوں نے دیکھی سنی ھے – مجھے لوگوں سے گلہ نہیں ، جب میں نے خود کبھی اس کا نام بھی نہیں لیا تو لوگوں کا اس میں کیا قصور –

بہر حال اب کوشش کروں گا کہ دوتین پوسٹس میں اپنی اردو شاعری سے بھی آپ کو متعارف کرا دوں – مجھے واہ واہ کا لالچ نہیں – وہ تو میری نثری پوسٹس پر بہت ھورھی ھے –

پرندہ کسی کو سنانے کے لئے اور واہ واہ سننے کے لے لیے نہیں گاتا – بس رب نے ایک صلاحیت عطا کردی ھے – کبھی کبھی من کی موج میں آکر گانے لگتا ھے – کچھ ایسا ھی معاملہ اپنی شاعری کا ھے – میں منجھی پیڑھی ٹھونکنے والی زبردستی کی شاعری نہیں کرتا – بات دل سے نکلتی ھے تو قلم سے لکھ دیتا ھوں –

یہ تذکرہ ان شآءاللہ دو تین دن چلے گا –
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک-4 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

لفظ ‘شہر‘ مختلف حوالوں سے میری اردو شاعری میں باربار آیاھے – پیش خدمت ھیں آپ کے کام کے

کچھ شعر ———-
شہر آباد رھے ، آپ سدا شاد رھیں
میں مسافر ھوں، مجھےاورکہیں جانا ھے
——————————————
اداس ھیں درودیوار تو خطا کس کی
تمہارے کہنے پہ میں نے وہ شہرچھوڑاتھا
——————————————
کہنا ، تیرے بعد وطن پردیس ھؤا ھے
شہر وھی ھے، لوگ پرائے، اس سے کہنا
——————————————
وہ شہر چھوڑنا مشکل تھا کچھ حوالوں سے
وگرنہ شہر سے آگے سفر تو آساں تھا
—————————————–
خیر ھو دل ناداں ، اب یہ غم بھی سہنا ھے
اس سے بھی نہیں ملنا ، شہر میں بھی رھنا ھے
——————————————
میرے اور بہت سے اشعارمیں بھی شہر کا ذکر آیا ھے – مثلا طنزیہ انداز کے یہ شعر دیکھیے:
اب یہ پتھر سمیٹ کے رکھ لو
شہر سے جارھے ھیں دیوانے
——————————————-
کیوں چراغاں کی فکر کرتے ھو
شہر جلتا ھؤا نہیں دیکھا ؟؟؟
——————————————–
میں کیوں جاتا ھوں ویرانوں کو واپس ؟؟
یہ پوچھو شہر کی آب و ھوا سے
——————————————–
کئی اور اشعار بھی شہر کے حوالے سے ھیں ، مگر وہ اکثر دوستوں کے سروں کے اوپر سے گذر جائیں گے- اس لیے میں آپ کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاھتا –
– رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک-

-یادیں ——-

ھم رہ گئے ھماری جوانی گذر گئی
پکچر بشکریہ طارق عباس صاحب

میرا میانوالی—————-

ھمارے یار مجیب اللہ خان نیازی کو پنگے لینے کا بہت شوق ھے – کہتے ھیں بے شک آپ ھمیں شہر کے حوالے سے اپنے اوکھے شعر بھی سنائیں – کمر مشانی سے ھمارے پیارے ساتھی حبیب اللہ خان نے بھی ان کی تائید کی – سو لیجیے حاضر ھیں شہر کے حوالے سے میرے کچھ اوکھے شعر – ان میں سے پہلا شعر وہ ھے جس پر ڈاکٹراجمل نیازی جھوم جھوم کر مجھے داد دیا کرتے تھے :– باقی شعر انہوں نے سنے نہیں ، ورنہ ابھی تک جھوم رھے ھوتے :

کبھی جسے تو نے شہر کی آبرو کہا تھا
تری گلی میں وہ اب غریب الدیارکیوں ھے؟؟؟
—————–
تمام شہر کی پلکوں پہ جل رھے تھے چراغ
فقیر شہر کے اٹھنے پہ جشن عام ھؤا
——————————————–
ھوا کا شور سنا تو تڑپ کے اس نے کہا
وہ شہر چھوڑ چکا ، پھر یہ شور کیساھے؟؟؟
——————————————–
شہر نہ چھوڑیں اب دیوانے
شہر کے اندر ھیں ویرانے
——————————————–
دل کی بات سنی اس نے دیوانے کی
شہر سے اچھی تھی قسمت ویرانے کی
——————————————–
اس وقت صرف یہی شعر یاد آرھے ھیں – اور اب آخر میں اپنا ایک آسان شعر آپ سب کے لیے :
وہ ایک شخص جو ناراض ھم سے رھتا تھا
ھمارے بعد بھرے شہر میں اکیلا تھا
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک–6 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

میرے بہت پیارے بیٹے ڈاکٹراشفاق احمد نے میرا ایک بہت پرانا شعر یاد دلا دیا ، شعر یہ ھے
ضمیر اب کسی کا بھی زندہ نہیں
مرے شہر میں اب مساوات ھے
یہ شعر میں نے اس دور میں لکھا تھا ، جب ھر طرف مساوات کے نعرے لگ رھے تھے کہ ریاست امیر ، غریب سب سے یکساں سلوک کرے گی ، مگر ھؤا کچھ بھی نہیں -اس قسم کے اکا دکا سیاسی شعر بھی میری شاعری میں کبھی کبھی وارد ھو جاتے ھیں – 2008 میں مشرف کے آخری دنوں میں ایک غزل ھوئی تھی – اس کے یہ شعر دیکھیے :———

حاصل نہ ھؤا کچھ بھی مسافر کو سفر سے
رھزن ھی گذرتے رھے اس راہگذر سے

اک سانپ گیا ، اس کی جگہ دوسرا آیا
ڈر لگنے لگا اب تو پرندوں کو شجر سے

برسات کی حسرت ھی رھی اب کے برس بھی
بادل جو اٹھے بھی تو سمندر ھی پہ برسے

ھوتی رھی شب بھر بھی یہاں خون کی بارش
بارود کی بو آتی ھے آثار سحر سے

ظالم کو سزا ظلم کی کیا خوب ملی ھے
اب گھرسے نکلتا نہیں مظلوم کے ڈر سے
کسی دور میں یہ بھی کہا تھا ——-

سر کے ساتھ مرے سر کی قیمت بھی لے لو
میرے قتل کا حاکم سے انعام نہ لینا

سیاست میرا موضؤّع نہیں – دل جب بہت دکھتا ھے تو دکھ اشعار کا روپ دھار لیتا ھے –
جاگیردارانہ نظام کے حوالے سے اپنا ایک پرانا شعر یہ بھی تھا ————————
خدا سے بھی اس کے عدل کا نرخ پوچھ لیتے
غریب ھمسائے کی زمیں تو خرید لی ھے

 رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک-7 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

اکثر لوگ مجھ سے کہتے ھیں آپ اپنی شاعری میں تخلص / نام کیوں استعمال نہیں کرتے – غزل کے مقطع (آخری شعر) میں تخلص یا نام استعمال کرنا ایک دیرینہ روایت ھے ، جو آج تک چل رھی ھے – مگر کچھ شاعر اس روایت پر عمل نہیں بھی کرتے – اقبال نے بھی کچھ غزلوں میں تخلص استعمال نہیں کیا – کوئی اچھا سمجھے یا برا، میرا ایک اپنا نظریہ ھے – میں محض تخلص ٹھونکنے کے لیے غزل میں خواہ مخواہ ایک شعر کا اضافہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا –

میں نے اپنی پوری شاعری میں صرف چار پانچ بار تخلص استعمال کیا ھے ، وہ بھی صرف اس لیے کہ تخلص کے بغیر بات نہیں بنتی تھی – وہ شعر یہ ھیں ————–توڑ کر مجھ سے تعلق ، اس نے دنیا سے کہا
اک “منور“ چاھیے ، اس کو بھلانے کے لیے
———————————————-
کیا ھؤا ، تیری غزل میں اب وہ شوخی کیوں نہیں ؟
لوگ پوچھیں گے ، منور سوچتا رہ جائے گا
————————————————
مسرتیں بانٹتا تھا جو شخص شہر بھر میں
اسی منور کو دیکھ کر آج رو پڑا ھوں
————————————————
کبھی منور کو دیکھ کر تو نے یہ بھی سوچا
یہ شخص لٹ کر بھی اس قدر با وقار کیوں ھے؟
————————————————-
ان سے روٹھا ھے منور جنہیں پروا ھی نہیں
اپنے اللہ سے روٹھے تو ولی ھو جائے
————————————————-
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک-8 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

مرحوم ظفر خان نیازی جب ریڈیوپاکستان اسلام آباد میں سینیئر پروڈیوسر تھے (بعد میں ڈائریکٹر ریٹائر ھوئے) انہوں نے میری غزل المعروف “اس سے کہنا“ میرے بیٹے مظہر علی ملک (علی عمران) کی آوازمیں ریڈیو کے لیے ریکارڈ کی – یہ غزل بحمداللہ بے حد مقبول ھوئی – سامعین کی فرمائش پر ریڈیو سے باربار نشر ھوتی رھی –

ایک دن میں ظفرخان سے ملنے ریڈیو پاکستان ان کے دفتر پہنچا تو ظفرخان نے ایک خط مجھے دکھایا – یہ خط چکوال سے ایک بزرگ نے بھیجا تھا – انہوں نے لکھا :

” خان صاحب ، میں آپ کے ھفتہ وار ریڈیو پروگرام کا دیرینہ مداح ھوں – آپ سے ایک گذارش ھے کہ “اس سے کہنا “ والی غزل ریڈیو پہ نہ لگایا کریں – شاعر نے اس غزل میں اتنا درد بھر دیا ھے کہ مجھ سے برداشت نہیں ھوتا- پلیز یہ غزل ریڈیو پہ نہ لگایا کریں “——————
آج اسی غزل کے چند شعر ، جو مجھے یاد آسکے ، آپ بھی دیکھ لیں – :

شام ھوئی ، پنچھی لوٹ آئے ، اس سے کہنا
ھم بیٹھے ھیں آس لگائے ، اس سے کہنا

کہنا ۔ تیرے بعد وطن پردیس ھؤا ھے
شہر وھی ھے لوگ پرائے ، اس سے کہنا

ھم کو خبر ھے ، موسم گل نے جانا بھی ھے
جا کر ھم کو بھول نہ جائے ، اس سے کہنا

اس کے کہنے پر ھم نے تو صبر کیا ھے
اپنے دل کو بھی سمجھائے ، اس سے کہنا

دریا نے رخ بدلا تو اک گاؤں اجڑا
مل نہ سکے پھر دو ھمسائے ، اس سے کہنا

شعر میرا ، آرائش ، قدرت اللہ خان نیازی

بشکریہ-منورعلی ملک–9 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

یہ جو پچھلے چند دن سے میں اپنی اردو شاعری آپ کی خدمت میں پیش کر رھا ھوں ، اس کا مقصد اپنی تعریف کرنا، سننا نہیں ، صرف یہ بتانا ھے کہ میرے رب کا مجھ پہ ایک یہ بھی خصوصی کرم ھے – میری شاعری ھو یا نثر، اردو ھو یا انگریزی سب کچھ اسی رب کریم کا احسان ھے ، ورنہ میں تو جب اس دنیا میں آیا کسی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تھا –
الحمد للہ میرے لیے یہ اعزاز بھی کچھ کم نہیں کہ میرا پہلا شعر نعت کا تھا – جیسے ناصر کاظمی نے کہا تھا
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
نعت مچلتے جذبوں اور بھیگتی آنکھوں کی شاعری ھے – جب بھی نعت لکھی آنسو روک نہ سکا – ڈوبتے دل کو سہارا ملا ، دکھ جاتا رھا ، اپنی ایک نعت کا شعر ھے

مرے سر پہ بھی ھاتھ ھے اب کسی کا ، مرے پاؤں میں بھی ھے زنجیر نسبت
تحفظ مجھے بھی ملا ھے کسی کا ، مجھے رنج و غم سے بچایا گیا ھے

نعت سے میری محبت کی بنیادی وجہ یہ ھے کہ بچپن میں جب کبھی میں بیمار ھوتا ، میری امی سرائیکی کی ایک نعت پڑھ کر مجھ پہ دم کرتی رھتی تھیں – یہی بات میرے اس نعتیہ شعر کی بنیاد بنی ————-

یہ آغوش مادر کا فیضان ھے، میں کسی اور کو رھنما کیسے مانوں
مری تربیت ھی کچھ ایسی ھوئی ھے ، مجھے ایک ھی در دکھایا گیا ھے

اپنی نعتیہ شاعر ی کے بارے میں کچھ باتیں ان شآءاللہ کل ھوں گی -رھے نام اللہ کا —

بشکریہ-منورعلی ملک-10 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

ایک منظر—————–
فجر کا وقت —– ماڑی انڈس سکول کے سامنے دریا کا کنارہ —– پل کے پار کالا باغ شہر کا دلکش منظر—–صبح کی معطرفرحت بخش ھوا — اچانک دل بھر آیا ، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ان کے ساتھ ھی زباں پہ نعت کا یہ پہلا شعر وارد ھؤا —
یہ تیرا چہرہ ، یہ تیری زلفیں ، یہ صبح آقا ، یہ شام آقا
درود آقا ، سلام آقا ، سلام خیر الانام آقا

دل میں ٹھنڈ سی پڑ گئی ، آنسو بہتے رھے اور شعر وارد ھوتے رھے – دس پندر منٹ میں فقیر کی جھولی بھر گئی – نعت مکمل ھو گئی – واپس آکر لکھ لی –
دوسرا منظر ———————-
ساون کا مہینہ —- شام ھونے کو —– ھلکی ھلکی بارش —– میانوالی سے تلہ گنگ جاتے ھوئے ھماری گاڑی نمل کالج کے قریب سے گذر کر پہاڑسے اترنے لگی تو اچانک یہ خیال آیا کہ کاش یہ سفر مدینے کا ھوتا – اس خیال کے ساتھ ھی آنکھیں بھیگنے لگیں اور نعت کا یہ پہلا شعر وارد ھؤا ———-

آنکھیں بھی برستی ھیں ، ساون کا مہینہ بھی
ھے شام بھی ھونے کو ، اور دور مدینہ بھی

پھر اس کے بعد آنکھیں برستی رھیں ، اور شعر وارد ھوتے رھے – دندہ شاہ بلاول پہنچنے تک نعت مکمل ھو چکی تھی –

تیسرا منظر ———————
میں لاھور میں تھا — واں بھچراں سے میرے انتہائی مہربان دوست حاجی احمد نواز بھچر صاحب کی فون کال موصول ھوئی – کہنے لگے ————–
“ ملک صاحب ، مبارک ھو – آپ کی نعت قبول ھو گئی – میں ابھی دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پہ حاضری دے کر آیا ھوں – جوں ھی روضہ ء اطہر کے سامنے پہنچا ، اچانک آپ کی نعت کا یہ شعر زباں پہ آگیا ————–
بے طلب اتنا ملا مجھ کو کہ اب کیا مانگوں
ااب تو آقا تری رحمت سے حیا آتی ھے
میں باربار یہ شعر پڑھتا اور روتا رھا ، یوں لگتا تھا یہ شعر مجھ سے بار بار پڑھوایا جا رھا ھے – “

حاجی صاحب کی بات سن کر میں بھی کچھ دیر روتا رھا – سمجھ میں نہیں آتا کیا کہوں – ایسی نعت کہنے کی توفیق اس خطاکار انسان پر رب کریم کا خاص احسان ھے –

مرحوم کوثر نیازی کا شعر یاد آ رھا ھے ——

جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی مری اوقات نہیں
یہ تو کرم ھے ان کا وگرنہ ، مجھ میں تو ایسی بات نہیں
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک-11 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

سرائیکی شاعری کا تو میں نے کبھی سوچا ھی نہ تھا – یہ کام توجب میں عیسی خیل کالج میں تقرر کے بعد لالاعیسی خیلوی کی محفل کا مستقل رکن بنا تو لالا کی فرمائش پر کرنا پڑا – دو چار گیت پرانی انڈین فلمی دھنوں پر لکھے – کچھ لالا کے کہنے پر بہت پرانے لوک گیتوں کو نئے انداز میں لکھا ( ساوی موراکین ، چن کتھاں گذاری ایئی رات ، بے درد ڈھولا ، سن جانی وغیرہ ) کچھ گیت اپنی مرضی سے لکھے ( سچی ڈس وے ڈھولا، رت ولی پکھؤاں دے جوڑے آگئے ، نت دل کوں آھدا ھاں کل ماھی آسی ، ولدے پکھیاں آنڑں ڈسایا وغیرہ) بہت سے گیت لکھے ، تقریبا چالیس پچاس ھوں گے – صحیح تعداد یاد نہیں -میرے تمام گیت اداس گیت ھیں ، ھجرکے دکھ ، محرومیاں اور شکوے میری سرائیکی شاعری کے مستقل موضوعات ھیں – دریائے سندھ کے پانی کا اثر ھے یا کچھ اور ، محبوب کی خوشامد ، زلف و رخسار کی تعریفیں میں کبھی نہ کر سکا – عشق میں بھی غیرت کا دامن ھاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا – اپنا ایک اردو شعر یاد آرھا ھے
آپ سے پہلے بھی لوگ آتے رھے ، جاتے رھے
دل کا دروازہ کھلا ھے آنے جانے کے لیے

لالا کے جذبات کا خیال رکھتے ھوئے سرائیکی شاعری میں ھاتھ ذرا ھلکا رکھا ، لیکن لالا کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ خوشامد والی شاعری میں نہیں کروں گا –

میرے سرائیکی گیت صرف عشق و محبت کے معاملات کی ترجمانی ھی نہیں کرتے ، دکھ کوئی بھی ھو ، جوان بٰیٹے یا بھائی کی بے وقت موت کا دکھ ھو یا کسی بچے کو کھلونا گم ھونے کا دکھ ، میری شاعری ھردکھی انسان سے مخاطب ھوتی ھے – بحمداللہ اسی لیےیہ شاعری ھر طبقے میں مقبول ھوئی -رھے نام اللہ کا – بشکریہ-منورعلی ملک-12 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

اپنے لکھے ھوئے گیتوں میں میرا سب سے پسندیدہ گیت ھے ————
ولدے پکھیاں آنڑں ڈسایا
تیڈے ولنڑں داویلا آیا ————- توں نئیں آیااس گیت کی ریکارڈنگ کے وقت میں بھی لاھور میں لالا کے سٹوڈیو میں موجود تھا – اس گیت کے الفاظ کی طرح اس کی دھن میں بھی بے پناہ درد ھے –
یہ گیت ان اجڑی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں اور بیواؤں کی ترجمانی کرتا ھے ، جن کے بیٹے، بھائی ، والد یا شوھر عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ھو گئے – اس گیت کے یہ بول —–

سنجھے گھروچ عمر گذر گئی
کملی راھواں ڈیہدی مر گئی
غیراں آنڑں جنازہ چایا ———— توں نئیں آیا

لکھتے ھوئے میں بھی آنسو نہ روک سکا – گاتے ھوئے لالا پر جو گذری ھوگی ، اسی سے پوچھیں –

جب یہ کیسیٹ مارکیٹ میں آیا تو میری ایم اے کی ایک سٹوڈنٹ نے ایک دن مجھ سے کہا ——————————–
“سر آپ کے توں نئیں آیا والے گیت کا کیسیٹ میں نے توڑ پھوڑ کر پھینک دیا ھے “

میں نے کہا “بیٹا ، وہ کیوں ؟“

کہنے لگیں “سر، میری امی یہ گیت سن کر بہت روتی تھیں – صرف امی ھی نہیں اڑوس پڑوس کی دو چار اور خواتین بھی آجاتی تھیں — کسی کا جوان بھائی فوت ھوگیا تھا ، کسی کا بیٹا ، کسی کا شوھر- وہ سب بار بار یہ گیت سن کر زاروقطار روتی رھتی تھیں – تنگ آکر میں نے وہ کیسیٹ ھی ضائع کردیا-“

اپنی اپنی پسند ھوتی ھے – مجھے بہر حال اپنے لکھے ھوئے تمام گیتوں میں سب سے زیادہ یہی اچھا لگتا ھے – آپ کی پسند کوئی اور ھو تو وہ آپ کو مبارک –
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک-13 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

بحمداللہ تعالی ھمارا فیس بک کا سفر پانچویں سال میں داخل ھو رھا ھے – میرا فیس بک اکاؤنٹ تو میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک نے بہت پہلے بنا دیا تھا – مگر اپنے دل کو اس گلی میں قدم رکھنا پسند نہ تھا – میں سمجھتا تھا یہ بچوں کا شغل ھے ، کچی پکی باتیں ، رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے ھوئے اشعار اور فلمی مناظر کی پکچرز کے سوا اس میں کیا ملے گا –

لیکن جب اکرم بیٹے کے بار بار اصرار پر بالآخرجولائی 2015 میں اس گلی میں قدم رکھا تو دیکھا کہ اپنا اندازہ سو فی صد غلط تھا – یہ تو بہت پیارے ، صاحب ذوق ، دوست نواز لوگوں کی محفل ھے جس میں شرکت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں – بلکہ یہاں تو بزرگوں کو اپنے گھر جیسا احترام ملتا ھے – لوگ بات سنتے بھی ھیں ، مانتے بھی ھیں – عمر کے حوالے سے تو اللہ کے فضل سے ویسےبھی مجھے کبھی کوئی کمپلیکس نہیں رھا – ٹیچر کی حیثیت میں ساری زندگی بچوں اور نوجوانوں میں گذاری ھے – ان کی بات سمجھنا یا انہیں اپنی بات سمجھانا میرے لیے کبھی مسئلہ نہیں رھا – اس وقت بھی میرے فیس بک فرینڈز اور فالوورز میں بہت سے سکولوں کے بچے بھی شامل ھیں -میرے بہت سے سابق سٹوڈنٹ بھی میری آمد کے منتظر تھے – ان میں سے سب سے پہلے حاجی اکرام اللہ خان اور ظفر نیازی سے ملاقات ھوئی – پھر وھی ھؤا جو ایک شاعر نے کہا تھا —
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا –

فیس بک پراپنے کچھ ھم عمر دوستوں سے بھی ملاقات ھوگئی – مرحوم ظفر خان نیازی ، پروفیسرمحمدسلیم احسن، پروفیسر اشرف علی کلیار، پروفیسر حسین احمد ملک اور کچھ دوسرے دوستوں نے مجھے ویلکم کہا –
میں نے پہلے ایک آدھ پوسٹ انگلش میں لکھی ، پھر اکرم بیٹے نے اردو میں لکھنا سکھا دیا – لوگوں سے اتنی محبت اور دعائیں ملیں کہ میں ادھر ھی کا ھو کر رہ گیا – اللہ کے فضل سے بہت اچھی محفل چل رھی ھے – اللہ اس محفل کو آباد اور آپ سب کو شاد رکھے-
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک-14 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

ان چار سال میں میں نے جو کچھ لکھا ، اس میں زیادہ تر پوسٹس میانوالی کے کلچر کے بارے میں ھیں – کلچر کے بارے میں جو کچھ لکھا اس کی تفصیل یہ ھے :

1. قیام پاکستان سے پہلے کے ھندومسلم مشترکہ کلچر کی یادیں
2. معیشت —- بارانی زمینوں پر کاشتکاری فصلوں کی کاشت ، پیسوں کی بجائے اناج کے بدلے چیزوں کی خریدوفروخت –
3. تہوار ، عیدالفطر، عیدالاضحی ، عید میلاد
4. میلے —– میلہ شاہ گل حسن ، کمر مشانی کا سوموار کا میلہ ، عیسی خیل کا منگل وار کا میلہ –
5. محرم کی عزاداری
6. گھریلو صنعتیں —– کالاباغ میں تیار ھونے والا لوھے کا سامان ، دستی پنکھے ، جوتے –
7. کھڈی کا کپڑا
8. شادی بیاہ کی رسمیں
9. بٹیر بازی
10. تازی کتوں کے ساتھ خرگوش کا شکار
11. کنؤاں کلچر
12. نہر میں نہانے کا رواج
13. سیر گاھیں —- جناح بیراج ، چشمہ بیراج، نمل جھیل
14. مکڑوال کی کوئلے کی کانیں
15. کھیل —- والی بال ، کبڈی
16. لوک موسیقی — استاد امتیاز خالق ، گلستان خان نیازی (داؤدخیل) ، گل جہان خان (موسی خیل ) ، عطامحمد سنار(کمر مشانی) شفیع اختر وتہ خیلوی ، ایوب نیازی ، گل تری خیلوی ، شرافت تری خیلوی ، عطا محمد خان داؤدخیلوی ، شفاءاللہ خان روکھڑی, اور ھم سب کے محبوب لالا عطاءاللہ خان عیسی خیلوی-
17. سرائیکی گیت نگار —— مرحوم یونس خان ، مجبورعیسی خیلوی ، عتیل عیسی خیلوی ، ناطق نیازی ، اظہر نیازی ، فاروق روکھڑی ، ملک آڈھاخان ، محترم بھائی ملک سونا خان بے وس ، مظہر نیازی ، صابربھریوں –
مزید تفصیلات انشآءاللہ کل –
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک–5 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

لیجنڈز کی سرزمین میانوالی کا ایک بہت بڑا نام –


حکیم عبدالرحیم خان اپنے کمال تشخیص و علاج کی وجہ سے ملک بھر میں مشہورومعروف تھے – آج جو کام الٹرا ساؤنڈ ، ایکسرے اور سی ٹی سکین سے لیا جاتا ھے وہ حکیم عبدالرحیم خان اپنے دائیں ھاتھ کی انگلیوں ، آنکھوں اور دماغ کی مدد سے کردیا کرتے تھے – مریض کو بیماری کی تشخیص کے لیے ٹیسٹوں پر ھزاروں روپے خرچ نہیں کرنے پڑتے تھے – ان کی تشخیص سو فی صد درست ھوتی تھی – علاج بہت سادہ – مین بازار میانوالی میں ملک عبدالرحمن کا مسلم میڈیکل ھال حکیم صاحب کے نسخے کے مطابق دوائیں فراھم کرتا تھا – ملک بھر سے لوگ علاج کے لیے حکیم صاحب کے پاس آتے تھے –

حکیم عبدالرحیم خان میانوالی کے مردم خیز قبیلہ خنکی خیل کے معروف و معزز بزرگ تھے – صوم و صلوات کے سخت پابند ، توھم پرستی کے سخت مخالف – مزاج اتنا جلالی تھا کہ اپنے قبیلے کے لوگ بھی ان سے ڈرتے تھے- طب و حکمت میں ان کا کوئی ثانی نہ دیکھا نہ سنا –
میرے چچا حکیم ملک محمد اصغر علی طبیہ کالج دہلی میں حکیم عبدالرحیم خان کے کلاس فیلوبھی تھے ، بہت گہرے دوست بھی – مشہور زمانہ حکیم محمد اجمل خان کے نام سے موسوم یہ طبیہ کالج برصغیر کا سب سے بڑا طبیہ کالج تھا-

چچا تیس سال کی عمر میں بیمار پڑگئے – علاج کروانے سے صاف انکار کر دیا – کہا میں حکیم ھوں ، مجھے اپنے مرض کا علم ھے – دنیا کی کوئی دوا میری جان نہیں بچا سکتی – آپ لوگ اب بس میری اگلی منزلوں کی آسانی کے لیے دعا کریں –

دادا جی نے رقعہ بھیج کر حکیم عندالرحیم خان سے مشورہ طلب کیا – حکیم صاحب کسی کے گھر نہیں جاتے تھے ، مگر قریبی دوست کا معاملہ تھا ، فورا داؤدخیل تشریف لے آئے –

چچا جی حکیم صاحب کو دیکھ کر مسکرائے – انہیں قریب آنے کا اشارہ کیا – حکیم صاحب کے کان میں کوئی بات کہی – حکیم صاحب اٹھ کھڑے ھوئے – ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، دادا جی سے کہا
“ ملک ٹھیک کہتا ھے – اس کی تشخیص سو فیصد درست ھے – معاملہ دواؤں سے آگے کا ھے – بس آج کادن ھے – دعا کرتے رھیں “-

حکیم صاحب کمرے سے باھر آئے تو آہ بھر کر دادا جی سے کہنے لگے “ اگر دنیا میں کوئی دوسرا حکیم عبدالرحیم خان ھوتا تو وہ ملک محمد اصغر علی ھوتا ، مگر اللہ کی مرضی “
چچا جی اسی رات کے پچھلے پہر اس دنیا سے رخصت ھوگئے –
کئی سال بعد ایک رشتہ دار خاتون کے ساتھ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ھونے کا موقع نصیب ھؤا – جب میں نے بتایا کہ میں ملک اصغر علی کا بھتیجا بھی ھوں ، داماد بھی ، تو حکیم صاحب نے بہت شفقت کا سلو ک کیا – مریضہ کو فورا بلا کر علاج تجویز کردیا ——
حکیم صاحب اب اس دنیا میں نہیں ۔ مگر تاریخ میں ان کا نام زندہ ء جاوید رھے گا –

اک آفتاب تھا جو تہہ خاک سو گیا
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک-16 جولائی2019

میرا میانوالی ————————–

وہ محفلیں جو اجڑگئیں ——-
دیہات میں مساجد کا ایک اپنا دلچسپ کلچر ھؤا کرتا تھا – پانچ سات مستقل بزرگ نمازی خوب رونق لگائے رکھتے تھے – عموما امام صاحب بھی انہی میں سے ایک ھوتے تھے – مغرب کی نماز کے سوا باقی تمام نمازوں کے بعد مسجد میں ان بزرگوں کی محفل برپا ھوتی تھی – مقامی حالات اور قومی سیاست پر تبصرے ھوتے – آپس میں دلچسپ چھیڑ چھاڑ، ھنسی مزاح ، سب کچھ مسجد ھی میں ھوتا – وجہ یہ تھی کہ سب کاشتکار لوگ تھے – سال میں تقریبا نو دس مہینے فارغ رھتے تھے – گھر کے کام گھر کے باقی لوگ کرتے رھتے – بزرگ اپنی محفل بازیوں میں لگے رھتے- کچھ لوگ سارا دن چونکوں میں بیٹھ کر گپیں لگاتے رھتے
چونک“ یا چوک , جاگیرداروں کے ڈیروں کی طرح ایک اجتماعی بیٹھک ھوتی تھی ، جہاں محلے کے بزرگ بیٹھ کر گپیں لگاتے ۔ اور چھوٹے موٹے تنازعات کے فیصلے بھی وھیں ھوآکرتے تھے – ھمارے محلے میں ھمارے دادا جی مولوی مبارک علی کی چونک مولوی جی صاحب والی چونک کہلاتی تھی – داداعالم خان مشانی، چاچا ھدایت اللہ خان نمبردار ۔ ماسٹر نواب خان ، ان کے بھائی ماسٹر درازخان اور سہراب خان ، ماسٹر محمد حسین آزاد ، میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی ، چچا ملک محمدصفدرعلی ،ھمارے کزن محمد عظیم ھاشمی ، چاچا مقرب خان بہرام خیل ، ان کے صاحبزادے بہادر خان المعروف فوجی ، عبدالعزیزخان خانے خیل ، غلام حسین خان شنے خیل ، ان کے بھائی غلام مصطفی خان ، ذاکر شاہ بخاری اس بیٹھک کے ابتدائی دور کے رکن تھے — ان میں سے ایک بھی اب اس دنیا میں موجود نہیں – جہاں ھیں رب کریم ان سب کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے-
چونک کی مفصل داستان اور ان بزرگوں کا مفصل تعارف دوتین سال پہلے دوتین پوسٹس میں لکھ چکا ھوں –
محلہ علاؤل خیل میں سید غلام عباس کی چونک ، محلہ داؤخیل میں حقداد خان نمبر دار کی چونک ، اتلے شہر میں کچھ اور چونکیں بھی ھؤا کرتی تھیں-

کیا زمانہ تھا ، لوگ روزانہ مل بیٹھتے تھے – آپس میں دکھ سکھ بانٹتے تھے – اب تو کسی کے پاس اتنا وقت ھی نہیں کہ کسی محفل میں بیٹھ کر دل کا بوجھ ھلکا کر سکے –
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-17 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

پوسٹ میں شامل پکچر , پرسوں داؤدخیل سے ظفراللہ جمالی نے بھیجی – یہ پکچر دیکھ کر—————-
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں آنکھیں نم ھو گئیں –

پکچر ھے آج سے پچاس سال پہلے کے مشہورومعروف ریڈیو سنگر گلستان خان نیازی کی جنہیں میں ماموں کہتا تھا – یہ قبیلہ امیرے خیل کے اسی خاندان سے تھے جس میں میرا بچپن گذرا – تین بھائی تھے ، ماموں امیر قلم خان ، ماموں گلستان خان اور ماموں عطاءاللہ خان -اب ان میں سے کوئی بھی اس دنیا میں موجود نہیں- اللہ سب کی مغفرت فرما کر اپنی رحمت خاص کا سایہ نصیب فرمائے جب میں تین چار سال کا تھا توایک دن ماموں کے داؤدخیل والے گھر میں بیٹھا ان کے ھارمونیم سے کھیل رھا تھا – بجانا تو آتا نہیں تھا ، ویسے ھی ھارمونیم کی ٹاں ٹاں سن کر خوش ھورھا تھا – اتنے میں ماموں گلستان خان آگئے – ان دنوں وہ ریڈیو پاکستان پشاور سے وابستہ تھے – مجھے ھارمونیم سے کھیلتے دیکھا تو ھنس کر کہنے لگے “کیا ھورھا ھے؟“
میں نے کہا “بس ویسے ھی ھارمونیم مجھے اچھا لگتا ھے “ماموں نے ھارمونیم اپنے سامنے رکھا اور مسکرا کر کہا “ کیا سنوگے؟“
میں نے کہا “ یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیاھے“ -محمد رفیع اور نورجہاں کا یہ گیت اس زمانے میں بہت مقبول تھا –

ماموں نے ھارمونیم پر اس گیت کی دھن چھیڑ کر گیت گانا شروع کیا – میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رھی – کیا کمال کی آواز تھی – ھوبہو محمدرفیع جیسی –

گیت سنا کر کہنے لگے “اس طرح گایا بھی کرو – یہ ھارمونیم تمہارے لیے ادھر گھر ھی میں پڑا رھے گا – میرے پاس دوسرا ھے “-

ماموں گلستان خان ریڈیو کی ملازمت سے ریٹائر ھو کر انگلینڈ چلے گئے – چند سال بعد واپس آ کر ماڑی انڈس میں مقیمم ھوگئے – اپنے فن کا ورثہ انہوں نے اپنے دو بیٹوں جاوید اور طارق کو منتقل کر دیا – جاوید جوانی ھی میں اللہ کو پیارے ھو گئے – طارق نیازی غزل کے بہت اچھے گلوکار ھیں –

زندگی کے آخری پندرہ بیس برس کا زیادہ وقت ماموں نے محلے کی مسجد میں بسر کیا – خوبصورت داڑھی بھی رکھ لی تھی – بہت نیک اور خوش اخلاق انسان تھے – بہت سی حسین یادیں چھوڑ گئے –
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-18 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

چونک یا چوک جاگیرداروں کے ڈیرے کی طرح اجتماعی بیٹھک ھوتی تھی ، جہاں بیٹھ کر محلے کے بزرگ دن بھر گپیں لگاتے تھے –

ھمارے داداجی مولوی ملک مبارک علی المعروف مولوی جی صاحب کے زمانے میں ھماری چونک میں صرف گپ بازی ھی نہیں ،کچھ مثبت ، فلاحی کام بھی ھوتے تھے – چھوٹے موٹے تنازعات کے فیصلے بھی یہیں ھوتے تھے – داداجی ، چاچا ھدایت اللہ خان نمبردار اور دادا عالم خان مشانی اس عوامی عدالت کے جج تھے- ان کا فیصلہ چونکہ غیر جانبدارانہ انصاف پر مبنی ھوتا تھا اس لیے اس کی خلاف ورزی کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا- ویسے بھی لوگ جانتے تھے کہ اگر یہ فیصلہ نہ مانا تو معاملہ تھانے کچہری میں جائے گا – پیسہ بھی خرچ ھوگا ، بہت سا وقت بھی ضائع ھوگا ، دھکے بھی کھانے پڑیں گے اس زمانے میں چونک کے مستقل ارکان میں ماسٹرنواب خان ، ماسٹر ممریز خان، ماسٹر رب نواز خان اور ماسٹر شاہ ولی خان بھی شامل تھے – یہ سب دادا جی کے سابق سٹوڈنٹ بھی تھے ، بعد میں میرے ٹیچر بھی رھے – ان تمام پڑھے لکھے لوگوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ھوئے ، لوگ اپنے خط پڑھوانے لکھوانے کا کام بھی ان سے لیتے تھے –

دادا جی بنک کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے- لوگ اپنی نقد رقم ان کے پاس امانت رکھواتے تھے- دادا جی کا بنک لکڑی کا بنا ھؤا خوبصورت بکس تھا – امانتوں کی رقم ، اور حساب کتاب کی کاپی اس بکس میں رھتی تھی – بکس کے تالے کی چابی دادا اپنی جیب میں رکھتے تھے –

چونک پر یہ تمام خدمات فی سبیل اللہ مفت سرانجام دی جاتی تھیں – انہی خدمات کے سبب آج ساٹھ سال بعد بھی ان بزرگوں کا نام اور احترام باقی ھے –

گذرگیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-19 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

جھوکاں تھیسن آباد ول

لوجی ، ماڑی انڈس ٹرین بھی بالآخر بحال ھوگئی – اس کے بغیر ھمارا کلچر ادھورا سا لگتا تھا – جب سے ھوش سنبھالا یہ ٹرین سورج کی طرح بلاناغہ صبح شام آتی جاتی دیکھی – میانوالی کے لوگ اسے “لہورآلی گڈی“ کہتے تھے- کچھ پڑھے لکھے لوگ لاھور ٹرین ، کچھ ماڑی انڈس ٹرین بھی کہتے تھے -یہ ٹرین قیام پاکستان سے بھی پہلے انگریز حکومت نے چلائی تھی – بے شمار لوگ اس سے مستفید ھوتے تھے –

کسی زمانے میں میانوالی سے لاھور تک ڈائریکٹ سفر کی یہی ایک سہولت ھؤا کرتی تھی – بسیں تو دو تین جگہ بدلنی پڑتی تھیں ، اس لیے لوگ ٹرین سے سفر کو ترجیح دیتے تھے – تاجر سامان خریدنے کے لیے لاھور اور فیصل آباد اس ٹرین سے جاتے تھے – کندیاں سے میانوالی کالج کے سٹوڈنٹ ، ٹیچرز ، سرکاری ملازمین ، سکندرآباد فیکٹریز کے ملازمین بھی روزانہ اس ٹرین سے آتے جاتے تھے – ھمارے سابق پرنسپل مرحؤم پروفیسر ملک محمد انور میکن صاحب ملازمت کے تیس پینتیس سال کندیاں سے روزانہ اسی ٹرین ُُپر آتے رھے –

یہ ٹرین تقریبا پانچ بجے شام ماڑی انڈس سے روانہ ھوتی تھی اور صبح چھ سات بجے لاھور پہچتی تھی – لوگ مزے سے رات بھر سوئے رھتے تھے- سانگلہ ھل سے آگے یہ ٹرین “باؤٹرین“ (بابوٹرین) کہلاتی تھی ، کیونکہ سانگلہ ھل سے شیخوپورہ تک کے تمام ملازمین (زیادہ تردفتروں کے کلرک بابو) اسی ٹرین سے لاھور آتے جاتے تھے – خاصا رش ھو جاتا تھا –

کپتان وزیراعظم کا بہت شکریہ کہ انہوں نے تقریبا پندرہ سال کے تعطل کو توڑ کر یہ رونقیں پھر بحال کردیں —- کلچرکی ٹوٹی ھوئی زنجیر کی ایک گمشدہ کڑی اپنی جگہ پر واپس آگئی—– مؤرخ کا قلم پھر سے رواں ھو گیا – مبارکاں–!!!!رھے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک-20 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

ایک چونک چاچا گھیبہ سنار کی بھی تھی – یہاں بٹیر باز حضرات بیٹھتے تھے – چاچا گھیبہ خود تو سنار کا کام کرتے تھے ، ان کے ایک دو بیٹے بٹیروں کا شکار بھی کرتے تھے ، بٹیر بازی بھی –Image may contain: one or more people, people sitting and indoor

چاچا گھیبہ کی چونک پر شہر کے سینیئر بٹیر باز ، غلام مصتفی خان شنے خیل ، ماسٹر دراز خان ، ھمارے کزن لالا محمد عظیم ھاشمی وغیرہ بیٹھتے تھے – موچھ سے چاچا خان نام کے ایک بزرگ بٹیر باز بھی اس محفل کے رکن تھے – بٹیر باز کبھی خالی ھاتھ نہیں رھتا ، جہاں بھی جائے بٹیر اس کے ھاتھ میں ضرور ھوتا ھے – بٹیر کو ھاتھ میں پکڑنے کا بھی ایک خاص انداز ھوتا ھے -<ھر مہینے کے آخر میں نہر کے کنارے بٹیروں کی “پڑی“ pirri ھوتی تھی ، جس میں داؤدخیل کے علاوہ کالاباغ ، پائی خیل ، موچھ ، سوانس ، روکھڑی وغیرہ کے بٹیر باز حصہ لیتے تھے – بٹیروں کی لڑائی پر بازیاں لگتی تھیں – جیتنے والے کو دوچار ھزار روپے مل جاتے تھے – ایک وقت میں دوبٹیروں کی لڑائی ھوتی تھی ، اس کے بعد دوسری جوڑی میدان میں آجاتی تھی – دن بھر یہ دھندا جاری رھتا تھا – اس کے بعد مہینہ بھر بٹیر باز اپنے اپنے اڈوں پر بیٹھ کر اس دن کی لڑائی پر تبصرے کرتے رھتےتھے-

ان بزرگوں کو دیکھ کر بچے بھی چھوٹی موٹی بٹیر بازی کر لیتے تھے – اس میں پیسوں کا لین دن تو نہیں ھوتا تھا ، بس دل پشوری ھو جاتا تھا – بچپن میں یہ شغل ھم بھی کرتے رھے – یہ داستانیں دو تین سال پہلے لکھ چکا ھوں – کیا زمانہ تھا – اب تو بہت عرصہ سے بٹیرکہیں دیکھا بھی نہیں –
رھے نام اللہ کا-

بشکریہ-منورعلی ملک-21 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

مسجد کلچر کے لحاظ سے آج کا دور ماضی سے بہتر ھے – آج مساجد میں ماشآءاللہ نوجوان بڑی تعداد میں نظر آتے ھیں – ھمارے بچپن کے دور میں صرف پچاس سال سے زائد عمر کے دس بارہ بزرگ ھی مسجدوں میں پانچ وقت باقاعدہ حاضری دیتے تھے- نماز میں ایک صف بھی بمشکل بنتی تھی – جمعہ کےدن تعداد کچھ زیادہ ھوجاتی تھی ، کہ کچھ لوگ جمعہ کی نماز ھی ادا کرتے تھے- مساجد کی تعداد کم تھی ، سہولتیں بھی برائے نام – زیادہ گرمی اور سردی میں اکثر لوگ گھر پر ھی نمازیں ادا کر لیتے تھے- لیکن ان کی تعداد بھی بہت کم تھی – اللہ معاف کرے باقاعدہ نمازی اس زمانے میں بہت کم ھوتے تھے-علم بھی بہت کم تھا – نمازوں کی امامت محلے ھی کے کوئی بزرگ کرلیتے تھے – نماز۔ وضو، نکاح ، جنازہ ، روزہ وغیرہ کے بارے میں معلومات “پکی روٹی “ نامی فقہ کی کتاب سے حاصل کی جاتی تھیں – مولوی غلام رسول کی لکھی ھوئی یہ کتاب اردو ، پنجابی دونوں زبانوں میں دستیاب تھی – خاصی مستند کتاب تھی –

آج بحمداللہ مساجد میں اے سی ، ھیٹر ، گیزر، پانی ، سب کچھ دستیاب ھے – اس زمانے میں بجلی گیس کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا – وضو اور نہانے کے لیے ھینڈ پمپ سے مٹی کے بنے ھوئے کوزوں میں پانی بھرنا پڑتا تھا – رات کو روشنی کے لیے کڑوے تیل سے جلنے والا مٹی کا بنا ھؤا دیا ھوتا تھا –

ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آج مساجد تو نمازیوں سے لبالب بھری ھوتی ھیں ،لیکن لوگ دل کے سکون سے محروم کیوں ھیں ؟؟؟-

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-22 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

ھمارے محلہ مبارک آباد کی جامع مسجد قبیلہ شکورخیل کے بزرگوں نے اپنی ذاتی زمین پر بنائی ، اس لیے یہ جامع مسجد شکور خیل کہلاتی ھے- ان چار بزرگ شکورخیل بھائیوں (چاچامظفرخان ، حاجی محمد عبداللہ خان ، چاچا عالم خان اور چاچا محمد نواز خان) میں سے ایک بھائی حاجی محمد عبداللہ خان المعروف حاجی صاحب جب تک اس دنیا میں رھے اس مسجد میں نمازوں کی امامت کے فرائض سرانجام دیتے رھے –
حاجی صاحب سکول کی تعلیم تو حاصل نہ کر سکے مگر دین کی بنیادی تعلیم اپنے شوق سے محلہ امیرے خیل کی مسجد کے امام مولوی امام الدین قریشی صاحب سے حاصل کرچکے تھے – قرآن حکیم کی بہت سی سورتیں ، اور بعض سورتوں میں سے منتخب آیات انہیں زبانی یاد تھیں – وضو، نماز ، روزہ ، کے بارے میں بھی خاصی معلومات رکھتے تھے-حاجی صآحب بہت سادہ اور زندہ دل انسان تھے – مسجد کا ماحول بہت خوشگوار رھتا تھا – سب سادہ لوگ تھے ، ھنسنے ھنسانے کی نت نئی باتیں دکھنے سننے میں آتی تھیں –

ایک دفعہ عشآء کی نماز پڑھاتے ھوئے حاجی صاحب سورہ الرحمن کی ایک آیت بھول گئے – میں پہلی صف میں ان کے پیچھے کھڑا تھا – میں نے یاد دہانی کے لیے وہ آیت بلند آواز میں پڑھ دی (نماز باجماعت میں اس طرح تصحیح کی اجازت ھے) –
حاجی صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا ، پھر بھول گئے – میں نے پھر بتا دیا – جب تیسری بار پڑھنے لگے تو دوسری صف میں کھڑے چاچا احمدخان بہرام خیل نے کہا :
“ یار ، ھنڑں اے ڈراما مکاؤ ھا ، میں زمین کو پانڑیں لاؤنڑں ونجڑااں اے“-

چاچا احمد خان کی اس معصوم مداخلت پر سب لوگ ھنس پڑے – نماز دوبارہ پڑھنی پڑی –

یہ واقعہ غالبا دو تین سال پہلے بھی لکھا تھا ، اب مسجد کلچر کا ذکر چھڑا ھے تو یہ اور چند دوسرے واقعات دوبارہ لکھنا ضروری سمجھا – ویسے بھی پچھلے سال کے دوران دو ھزار سے زائد لوگ ھمارے ھمسفر بنے – ان کے لیے یہ واقعات دلچسپی سے خالی نہ ھوں گے –
رھے نام اللہ کا ——

میرا میانوالی—————-

حاجی صاحب عمر میں مجھ سے تیس چالیس سال بڑے تھے ، مگر میری اور ان کی دوستی آٹھ دس سال کے بچوں جیسی معصوم اور بے تکلف دوستی تھی – بعض اوقات حاجی صاحب کسی بات پر نمازیوں سے ناراض ھو جاتے تو کہتے “بھائی اپنا بندوبست کر لو – میں آئندہ نمازوں کی امامت نہیں کروں گا “-
ان کے اس اعلان کے باوجود میں اگلی نماز سے پہلے ان سے لڑجھگڑ کر انہیں واپس لے آتا تھا –

ایک دن میں عشآء کی نماز سے کچھ دیر پہلے گیا تو نمازیوں نے بتایا کہ آج حاجی صاحب سخت ناراض ھو کرگئے ھیں – اب وہ ھرگز نمازوں کی امامت نہیں کریں گے-

میں نے ان کے بڑے بٰیٹے محمد خان (مولوی بھرا) سے کہا آپ جا کر لے آئیں – مولوی بھائی نے کہا بہت مشکل ھے – وہ آپ کے سوا کسی کی بات ھی نہیں سنتے- آپ ھی کوشش کریں – ھے تو مشکل مگر شاید مان جائیں –

میں حاجی صاحب کے گھر پہنچا- صحن میں چارپائی پر بیٹھے تھے — میں نے کہا “یار، یہ کیا تماشہ بنارکھا ھے آپ نے ، چلیں میرے ساتھ “-

حاجی صاحب نے کہا “ ھرگز نہیں – میں نے پکا فیصلہ کر لیا ھے“-

میں نے کہا “ یار میری خاطر مان جاؤ“

حاجی صاحب نے کہا “ جو کہو مان لوں گا ،مگر یہ بات نہیں مانوں گا“-

اللہ جنت میں اعلی مقام عطا کرے ھماری اماں جی (حاجی صاحب کی اھلیہ ) کو ، انہوں نے حاجی صاحب سے کہا “ ھمیں تو کہتے ھو منور میرا بیٹا ھے – اب یہ آگیا ھے تو نخرے مت کرو ۔ چلے جاؤ ااس کے ساتھ“-

حاجی صاحب نے کہا “ مجھے پہلے ھی پتہ تھا ، مجھے لے کر ھی جائے گا یہ بے ایمان – لاؤ کھانا لے آؤ ، کھانا کھا کر چلتے ھیں “-

کھانا کھا کر ھم بچوں کی طرح ھاتھ میں ھاتھ ڈالے ھنستے ھنساتے مسجد آ پہنچے-

بھائی محمد زمان خان رب زئی نے کہا “ کمال ھے ۔ آپ کی بات مان گئے “

میں نے کہا کمال نہیں تھوڑی سی بد معاشی دکھانی پڑتی ھے –

حاجی صاحب نے ھنس کر کہا “تم تو ھو ڈھیٹ اور بے شرم – کوئی دوسرا میرے ساتھ بد معاشی کر کے تو دیکھے“-

آہ —– !!!!! بہت دور جا بسے ھو یار ،– اللہ آپ کو اپنی رحمت خاص سے مالا مال رکھے

بشکریہ-منورعلی ملک–24 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

ایک دن حاجی صاحب بیمارتھے، مغرب کی نماز کی امامت کے لیے نہ آسکے – مسجد میں تیس پینتیس بزرگ بیٹھے تھے – ایک صاحب نے اذان دی – چاچا عمرحیات خان نے کہا “ آج حاجی صاحب نہیں ھیں ، سب لوگ الگ الگ نماز پڑھ لیں – “

میں نے کہا حاجی صاحب نہیں تو آپ میں سے کوئی اور صاحب کھڑے ھو جائیں -ایک بزرگ نے کہا “ ھم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے“-
میں نے کہا فلاں بھائی امامت کرا دیں –

ایک اور بزرگ نے کہا “ وہ دیو بندی ھے – ھم اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے“-

مجھے غصہ آ گیا میں نے کہا “ کیا آپ نے رسول اکرم علیہ السلام کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ جہاں دو مسلمان بھی اکٹھے ھوں ، ان میں سے ایک امامت کرادے – الگ الگ نماز نہ پڑھیں – آپ تیس پینتیس لوگ مسجد میں بیٹھے ھیں ، اور کہتے ھیں الگ الگ نماز پڑھیں گے – اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کر کے پڑھی ھوئی نماز کیسے قبول ھوگی- ھوسکتا ھے یہی نماز قیامت کے دن آپ کو الٹا لٹکوا دے — میں عمر میں آپ سے چھوٹا ھوں – داڑھی بھی نہیں رکھی ، مگر میں اپنے نبی کے حکم کی خلاف ورزی ھوتے نہیں دیکھ سکتا — نماز کی امامت میں کرنے لگا ھوں – جس کا دل مانے میرے پیچھے کھڑا ھو جائے ، کوئی بھی نہ آئے تو میری طرف سے حکم کی تعمیل ھو جائے گی –

یہ کہہ کر میں امامت کے مصلے پر کھڑا ھو گیا ، اللہ کے فضل سے دیوبندی ، بریلوی سب میرے پیچھے کھڑے ھو گئے ، اور میں نے نماز کی امامت کرادی-

دوستو، میں کوئی مولوی یا عالم نہیں – گنہگار انسان ھوں – ساری عمر کافروں کی زبان (انگریزی) پڑھا کر رزق کماتا رھا ، مگر مسلمان جتنا بھی گنہگار ھو ، جب رسول اکرم کا حکم سامنے آجائے آنکھیں جھک جاتی ھیں – بس اتنی سی بات تھی ، جس پر دیوبندی بریلوی سب ایک صف میں کھڑے ھو گئے ——- رھے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک–25 جولائی2019

—————-ملاقاتیں ——————Image may contain: 2 people, beard and indoor
کندیاں کے نوجوان سرائیکی شاعر سید رسول صید
اپنا تازہ شعری مجموعہ “تیڈے باجھوں“
مجھے عنایت کرتے ھوئے –
سید رسول صید , محمد محمود احمد ھاشمی (مرحوم) کے شاگرد
اور بہت اچھے شاعر ھیں –
Picture by Afzal Baloch.

میرا میانوالی—————-

رب کریم نے نماز کی امامت کا اعزاز مجھے کئی بارعطا کیا- دوتین سال پہلے میانوالی پریس کلب میں ایک ادبی تقریب کے دوران نماز عشآء کا وقت ھؤا تو پروفیسر رئیس احمد عرشی صاحب اور میں نماز کے لیے قریبی مسجد میں گئے – یہ مسجد کسی محلے کی نہیں ، سرراہ واقع ھے – آتے جاتے لوگ یہاں نماز ادا کر لیتے ھیں – دن کو تو نزدیک کی دکانوں اور دفتروں سے چند لوگ نماز کے لیے آجاتے ھیں ، عشآء اور فجر کے وقت یہ تقریبا خالی رھتی ھے –

ھم پہنچے تو دوتین نوجوان وضو کر رھے تھے – ان سے پوچھا تو معلوم ھؤا یہاں اس وقت باقاعدہ باجماعت نماز نہیں ھوتی – میں نے عرشی صاحب سے کہا ، کم ازکم آج تو باجماعت نماز ھونی چاھیے – آپ نماز پڑھا دیں – عرشی صاحب نے دھکا دے کر مجھے آگے کھڑا کردیا – ذمہ داری جب سر پہ آجائے تو نبھانی پڑتی ھے -یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ھے کہ ایسے موقعوں پر پیچھے نہ ھٹیں – یہ نہ دیکھیں کہ آپ کتنے گنہگار ھیں – جب اللہ نے یہ اعزاز عطا کردیا تو اس کو نبھائیں – حکم کی تعمیل ضروری ھے ، خامیاں اللہ نظرانداز کر دیتا ھے —————— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک–26 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

الحمدللہ ، آج ساون کی بارش میانوالی کو بھی نصیب ھوگئی – اس مہینے کے آغاز سے ملک بھر میں بارش کا سلسلہ شروع ھؤا ، مگر اللہ تعالی کی میرٹ لسٹ میں ھمارا نمبر شاید بہت نیچے ھے — ھر طرف بارشیں ھوتی رھیں ، میانوالی شہر کے اردگرد ، کندیاں ، واں بھچراں ، داؤدخیل کو بھی رحمتوں کی اس برسات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ملتا رھا ، مگر میانوالی میں آسمان آگ یا مٹی (آندھیاں) برساتا رھا- یاد نہیں کہ ایسی خشک اور سخت گرمی پہلے کبھی دیکھی ھو- اب کی بار ایسی گرمی کیوں ؟ سوچنے کی بات ھے-ماحولیات کے ماھرین بتاتے ھیں کہ گرمی کا یہ عذاب پوری دنیا میں آھستہ آھستہ نازل ھو رھا ھے – کچھ ھمارے گناھوں کی سزا ، کچھ ھمارے کرتوتوں کا صلہ — شجر کاری نہیں ھو رھی ، گاڑیوں , اینٹوں کے بھٹوں اور کارخانوں کا دھؤاں ھوا میں زھر گھول رھا ھے – اس دھوئیں کی وجہ سے فضا میں گرمی بڑھ رھی ھے — جب ھوا تندور کی طرح تپ رھی ھو , تو بادل رکنےکی بجائے آگے نکل جاتے ھیں – یہ سائنس کی باتیں سب لوگ جانتے ھیں ، مگر سائنس کی ھدایات پر عمل کرنے کی زحمت ھم سے نہیں ھوتی ، نتیجہ وھی ھے جو ھم دیکھ رھے ھیں – اب یہ حال ھے تو آگے اللہ جانے کیا ھوگا –
زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ھم دوچار سال میں اس عذاب کی شدت کو خاصی حد تک کم کر سکتے ھیں – کم ازکم اتنا تو ضرور کرنا چاھیے –
گناھوں میں بھی ھاتھ ھلکا رکھنا ھوگا —- آگے آپ کی مرضی- رھے نام اللہ کا ——-

بشکریہ-منورعلی ملک–27 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں ڈاکٹر حنیف نیازی نے کہا میانوالی میں کینسرکا مرض تیزی سے پھیل رھا ھے – اس کی وجہ کیا ھو سکتی ھے ؟ ھمارے گناہ ؟؟ آلودگی ؟؟؟ ناقص غذا ؟؟؟؟ یا چشمہ نیوکلیرکمپلیکس کے تابکاری اثرات ؟؟؟؟

میرے خیال میں یہ گناھوں کی سزا تو نہیں ھوسکتی – ورنہ بڑے بڑے پھنے خان گنہگار ھٹے کٹے صحت مند ، سر اٹھائے قہقہے لگاتے نظر نہ آتے – رب العزت کا نظام عدل و انصاف ایسا کمزور نہیں کہ پٹواری اور پولیس کے سپاھی کو گرفتارکر لیا جائے ، تحصیلدار اور ایس پی پر ھاتھ نہ ڈالا جائے -آلودگی اور ناقص غذا بلاشبہ کینسر کے اھم اسباب ھیں – جشمہ نیوکلیئر کمپلیکس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا – عالمی قواعدوضوابط کے مطابق تو تابکاری اثرات پر مکمل کنٹرول ضروری ھے – اس معاملے میں متعلقہ انجییئر حضرات کا فرض ھے کہ وہ حفاظتی انتظامات سو فیصد درست رکھیں اور عوام کو یقین دہانی کرائیں کہ اٰیٹمی تنصیبات سے مضراثرات کا اخراج ناممکن ھے –
ھم تو بس اتنا جانتے ھیں کہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک ھم نے کینسر کا نام بھی نہیں سناتھا – یہ وہ دور تھا جب پینے کو صاف شفاف تازہ پانی ، کھانے کو کیمیائی فرٹیلائیزرز سے پاک پھل ، سبزیاں اور اناج میسر تھا – کھانے میں صرف اور صرف خالص دیسی گھی استعمال ھوتا تھا – بناسپتی گھی کو ھمارے علاقے میں “گندا گھیو“ (گندا گھی) کہتے تھے – غریب غربا لوگ یہ گھی دکان سے خرید کر لاتے تو بھی چھپ چھپا کر ، کہ کوئی دیکھ لے تو کہےگا : تم اتنے غریب ھو کہ گندا گھی کھاتے ھو ؟

موضوع بہت اھم ھے ، اس پر ابھی بہت کچھ کہنا ھے – باقی باتیں انشآءاللہ کل –
رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک–28 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

کینسر پر بحث میں حقنوازخان داؤدخیل ، جاوید خان اختر , ملک ثناءاللہ ، ھمایوں گل شاد ، فاروق عادل ، ذکاءاللہ ، ملک رفیق کھوکھر، صبار نقوی نورنگہ ، سعید خان ، علی خان پائی خیل ، ملک عارف وسیم سبطین ، اور کفایت خان نے بہت کارآمد معلومات فراھم کیں – ان سب ددستوں کا بہت شکریہ – کفایت خان نے مسئلے کے ایک اور پہلو کی نشان دہی کی ھے – اس پر بحث ان شآءاللہ کل یا پرسوں ھوگی – آئیے دیکھیں کہ کینسر ھے کیا ؟

سائنس کی باریکیوں میں الجھے بغیر سادہ ترین الفاظ میں کینسر جسم کے اندر ایک ایسی کیمیائی تبدیلی ھے جسے جسم قبول نہیں کرتا ، اور وہ پھوڑے ، یا گلٹی کی صورت میں نمودار ھو جاتی ھے – ھم جو کچھ کھاتے پیتے ھیں اس میں سے یہ تبدیلی لانے والے عناصر اس تبدیلی کو خوراک مہیا کرتے رھتے ھیں ، اور وہ مسلسل پھلتی پھولتی رھتی ھے- خون اورپانی میں مل کریہ زھر پورے جسم میں آھستہ آھستہ جذب ھوتا رھتا ھے، اور خون یا گوشت اس کی وجہ سے گلتا سڑتا رھتا ھے-جسم کی کیمسٹری میں یہ ھولناک تبدیلی غذا، پانی یا ھوا کے مضر اجزا سے وجود میں آتی ھے – فضا میں موجود تابکاری اثرات بھی اس کا سبب بن سکتے ھیں – وہ تو ھمارے کنٹرول میں نہیں ، غذآ ، پانی اور ھوا کی راہ سے آنے والے مضر اثرات کے اسباب مختصرا یہ ھیں

١۔ پھلوں سبزیوں اور اناج میں کیمیائی کھاد کے مضر اثرات

٢۔ پانی میں موجود آلودگیاں –

٣۔ ھوا میں دھوئیں ، گردوغبار اور گیسوں کی ملاوٹ-

٤، اینٹی بایوٹک دوائیں – یاد رھے کہ اینٹی بایوٹک دوائیں مرض کے جراثیم کو تو ختم کر دیتی ھیں لیکن جسم کے اندر ھونے والے مسلسل کیمیائی عمل کا توازن تباہ و برباد کر دیتی ھیں -حتی الوسع ان سے گریز کیا جائے ، یا کم سے کم مقدار استعمال کی جائے – ڈاکٹر صاحبان جو کہتے رھیں ان کی مرضی –

٥، کھانے پینے کی چیزوں کے لیے پلاسٹک بیگ کا استعمال –

کینسر کے کئی اسباب اور بھی ھوں گے – کچھ میں نے بتا دیئے ،کچھ آپ بتادیں – یہ بحث ان شآءاللہ جاری رھے گی  رھے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک-29 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

لوگ آتے رھیں گے دنیا میں
Image may contain: 1 person, indoorمیرا بھائی مگر نہ آئے گاشہزاد ھوٹل میانوالی کے بانی امان اللہ خان نیازی بھی یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جابسے – محبت ، وفا ، مہمان نوازی اور دوستداری کی بے مثال روایات کا امین یہ شخص ایک سرسبز سایہ دار درخت تھا ، جس کے سائے میں پیار محبت کی ایک دنیا آباد تھی – وہ خود تو اس دنیا سے چلاگیا مگر اس کی محنت کا ثمر اور محبت کی خوشبو لا فانی ھے – امان اللہ خان کی شخصیت پورے خاندان پر اس قدر حاوی تھی کہ اس کی خوبیاں اس کے بھائیوں اور بیٹوں کی شخصیت کا بھی امتیاز بن گئیں –

امان اللہ خان سے میری پہلی ملاقات آج سے تقریبا تیس سال قبل شہزاد ھوٹل میں ھوئی – امان اللہ خان نے کراچی میں کیرج کا ٹھیکہ لینے کے لیے انگریزی میں ایک لیٹر لکھوانا تھا – ان کے بھائی حفیظ اللہ خان شعروادب کے حوالے سے مجھے جانتے تھے – ان کے کہنے پر امان اللہ خان نے گاڑی بھیج کر مجھے بلوالیا – میں نے لیٹر لکھ دیا – دس پندرہ منٹ کی اس ملاقات کو امان اللہ خان نے عمربھر کی دوستی میں تبدیل کردیا – بلکہ دوستی سے بھی ایک قدم آگے وہ مجھے لالا کہتے تھے-

کچھ عرصہ بعد ایک اور کام سے لیٹرلکھوا کر کہا “ یار، کمال ھے ، آپ مجھ سے باتیں بھی کرتے رھتے ھیں ، اور اسی دوران انگریزی میں لیٹر بھی لکھ لیتے ھیں ، مزا آگیا “-
میں نے کہا “لالا ، اللہ کا فضل ھے – آپ کی محبت میں دونوں کام ایک ساتھ ھو جاتے ھیں “-

جب بھی ملے ھمیشہ بہت پیار سے ملے – شہزاد ھوٹل ادبی تقریبات کا مرکز بھی تھا – اس سلسلے میں وھاں آنا جانا رھتا تھا –

میرے بیٹے محمد اکرم علی ملک کی شادی کے موقع پر لڑکوں نے کہا موسیقی کی محفل شہزاد ھوٹل میں ھونی چاھیے – میں نے امان اللہ خا ن سے فون پر کہا “لالا ھمیں محفل موسیقی کے لیے کل رات شہزاد ھوٹل کا ھال چاھیے – اخراجات جتنے بھی ھوں میں ادا کر دوں گا “

امان اللہ خان نے کہا “ یار خدا سے ڈرو – مٰیں نے ھوٹل بھائیوں سے پیسے وصول کرنے کےلیے نہیں بنایا – آپ کا اپنا ھوٹل ھے – مجھے بس فنکشن کا وقت بتادیں “
میں نے کہا رات دس بجے کے بعد –
امان اللہ خان نے کہا “ٹھیک ھے ، کل رات دس بجے سے صبح تک ھال آپ کا ھؤا – صرف ھال ھی نہیں ، ھوٹل کا سٹاف بھی آپ کی خدمت کے لیے وھاں موجود رھے گا“-
امان اللہ خان میرے مرحوم بھائی ممتاز حسین ملک کے بھی بہت پیارے دوست تھے – جب بھی ملاقات ھوتی ان کا ذکر کرتے رھتے تھے –

مجھے امان اللہ خان کے اس دنیا سے رخصت ھونے کا علم کل شام ھؤا ٠سن کر دل پہ جو گذری میں ھی جانتا ھوں – شام کے بعد تعزیت کے لیے گیا، ان کے دونؤن صاحبزادے ، بھائی ، کزن پروفیسر عطاءاللہ خان نیازی ، بھانجے عارف خان نیازی وھاں موجود تھے – وھی محبت کی خوشبؤ ان سب کے دلوں سے پھوٹ رھی تھی – یوں لگتا تھا امان اللہ خان یہیں کہیں آس پاس موجود ھیں – آنسو روکنا مشکل ھو رھا تھا حمیرخان سے ان کی پکچر لی , اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس آگیا – اب ان شآءاللہ کسی دن قبر پہ جا کر بھائی سے ملاقات کر لوں گا –
اللہ کریم انہیں اپنی رحمت کی امان میں رکھے———— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–30 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

صبح اخبار میں محمد رفیع کی برسی کی خبر دیکھ کر میں نے ًان کے بارے میں پوسٹ لکھ دی – اس پوسٹ پر کمنٹ میں ایک دوست نے یاد دلایا کہ جناب آج مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا برتھ ڈے بھی ھے – سچ کہتا ھوں شرمندگی ھوئی کہ اتنی بڑی محسن قوم شخصیت کو یاد کرنا بھول گیا –

Image may contain: 1 person, closeupفاطمہ جناح وہ شخصیت ھیں جن کے بارے میں قائداعظم نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ پاکستان میں نے اور فاطی نے مل کر بنایا تھا – (قائداعظم بہن کو پیار سے فاطی کہتے تھے)-
محترمہ فاطمہ جناح ڈینٹل سرجن تھیں – جب قائد اعظم کی اھلیہ فوت ھوگئیں تو محترمہ اپنا کلینک ختم کر کے مستقل طور پر بھائی کے ھاں منتقل ھو گئیں – قائداعظم نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ میری بہن میرے ساتھ نہ ھوتیں تو میری بیماری مجھے اتنا عرصہ جینے نہ دیتی-
>قائداعظم جیسے اصول پسند انسان کے ساتھ رھنا آسان نہ تھا – طویل بیماری کی وجہ سے ان کا مزاج کچھ چڑچڑا بھی ھو گیا تھا – مگر محترمہ فاطمہ جناح نے بڑے صبر وتحمل سے زندگی بھر بھائی کا ساتھ دیا -بھائی کی وفات کے بعد انہوں نے قائداعظم کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ، جس میں قائداعظم کی بے بسی کے عالم میں موت کے ذمہ داروں کے نام بھی تھے – بہت بڑے بڑے نام تھے – اس لیے اس کتاب کو شائع نہ ھونے دیا گیا – تقریبا چالیس سال بعد وہ کتاب شائع بھی ھوئی تو اس میں سے بہت سی اھم باتیں غائب تھیں –
قوم کے اصرار پر محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف الیکشن بھی لڑا ، ان پر طرح طرح کے بیہودہ الزام لگا کر انہیں پیچھے ھٹنے پر مجبور کیا گیا ،انہیں غدار اور انڈیا کا ایجنٹ بھی کہا گیا , مگر وہ اپنے عزم پر قائم رھیں – پھر الیکشن میں جھرلو پھیر کر انہیں ھرا دیا گیا –
محترمہ فاطمہ جناح کی موت بھی بہت پراسرار انداز میں ھوئی – ان کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی ھؤا ۔ مگر ———–

آئیے مل کر دعا کریں کہ رب کریم اس عظیم خاتون رھنما کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے-

نوٹ : محمد رفیع کے بارے میں پوسٹ احتراما ٹائیم لائین سے ھٹا دی ھے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کا ذکر مناسب نہ تھا — رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک–31 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

بشکریہ-منورعلی ملک–28 جولائی2019

میرا میانوالی—————-

بشکریہ-منورعلی ملک–28 جولائی2019

-بشکریہ-منورعلی ملک-ظفر خان نیازی – مئی، اپریل، مارچ، جون، جولائی، اگست، مارچ، نومبر، اکتوبر، دسمبر، فروری، جنوری، ستمبر،-بشکریہ-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top