میرا میانوالی

منورعلی ملک کے مارچ 2019 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی—————-

1965 اور 1971 کی جنگ کے وقت پاکستان اور بھارت کے پاس ایٹمی توانائی نہ تھی – اس لیے نقصان بہت کم ھؤا – اب دونوں ملک ایٹمی قوت ھیں ، اس لیے جنگ دونوں کو بہت مہنگی پڑ سکتی ھے –

دنیا کی تاریخ میں اب تک ایٹم بم صرف دو دفعہ استعمال ھؤا – پہلا ایٹم بم دوسری عالمی جنگ کے دوران 6 اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے شہر ھیروشیما پر گرایا – اس بم سے 70000 لوگ فوری طور پر ھلاک ھوگئے – زخمیوں کے مرنے سے اگلے چند ماہ میں ھلاک ھونے والوں کی تعداد 166000 ھو گئی – لاکھوں لوگ ھاتھ ، پاؤں ۔ انکھوں سے معذور ھوگئے – اس بم سے درجہ ء حرارت یکلخت 4000 تک جا پہنچا – عمارتیں جل کر راکھ ھو گئیں – لوھے کے گارڈر بھی پگھل کر پانی کی طرح بہہ گئے اس تباھی کے صرف تین دن بعد امریکہ نے جاپان ھی کے شہر ناگاساکی کو نشانہ بنایا – اس دھماکے سے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں 35000 لوگ ھلاک ھوئے – یہ بم ھیروشیما پر گرائے گئے بم سے زیادہ طاقتور تھا – مگر ناگا ساکی کی آبادی دور دور تک بکھری ھوئی تھی – بعد میں اس بم سے ھلاکتوں کی تعداد بھی لاکھوں تک جا پہنچی-

ایٹم بم کا دھماکہ گاڑھے دھوئیں کے بادل جیسا ھوتا ھے – اس بادل سے آگ برستی ھے – صرف دھؤاں بھی جہاں لگے وھاں آگ بھڑک اٹھتی ھے – دھماکے کے بعد بھی کئی سال تک تابکاری اثرات فضا میں موجود رھتے ھیں ، اور ان سے لوگ کینسر اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ھو کر مرتے رھتے ھیں –
اب تو ایٹمی میزائیل بھی بن گئے ھیں جن سے دشمن ملک کے ھر شہر کو نشانہ بنایا جا سکتا ھے –

اسی لیے ھمارے وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ھے کہ دو ایٹمی قوتوں کو جنگ کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاھیے ، کیونکہ خدانخواستہ جنگ ھوئی تو دونوں طرف کچھ نہیں بچے گا – اللہ کرے جنگ کو روکنے کی کوششیں بارآور ثابت ھوں –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 1  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-1971 کی جنگ میں جنگ کم، سیاست زیادہ تھی – مشرقی پاکستان کے لوگوں کی محرومیوں کو بنیاد بنا کر پاکستان مخالف سیاسی لیڈروں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کو پاکستان سے متنفر کر دیا تھا – مذاکرات سے مشرقی پاکستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے حکومت نے طاقت کے استعمال سے احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی – بھارت اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ھوئے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی حمایت کے بہانے بغاوت کو ھوا دینے لگا –
ا
ب صورت حال یہ تھی کہ پاک فوج کے مقابلے میں ایک طرف اپنی ھی قوم (مشرقی پاکستان کے لوگ ) صف آرا تھی ، دوسری طرف بھارت نے مغربی پاکستان کو بھی جنگ میں الجھا دیا – اندر اور باھر سے دوطرفہ تصادم میں فوج کیا کر سکتی تھی – المیہ یہ بھی تھا کہ مشرقی پاکستان میں ائیر فورس بھی برائے نام تھی – اس لیے بھارت کی فضائیہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کو مسلسل نشانہ بناتی رھی – قصور فوجی قیادت کا بھی تھا ، سیاسی قیادت کا بھی –
1970 کے الیکشن میں اکثریت کی بنا پر اگر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے دی جاتی ۔ تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سوال ھی پیدا نہ ھوتا- مگر اس وقت کی فوجی اور سیاسی قیادت کو یہ منظور نہ تھا – 1971 کی جنگ اسی صورت حال کا نتیجہ تھی – اس جنگ کے بارے میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمودالرحمن کی سربراھی میں جو تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا تھا اس کی رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیں آئی –
اس جنگ کا سبق یہ ھے کہ جنگ میں سیاست شامل ھو جائے تو نتیجہ شکست ھی ھوتا ھے —————————————–رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک– 2  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

ایک نیک مشورہ —————- کتابیں پڑھا کریں ، کیونکہ پڑھنے سے

1۔ معلومات میں اضافہ ھوتا ھے ، اور کئی مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ھے –
2۔ ا کردار تبدیل ھوتا ھے – اپنی خامیوں کا پتہ چلتا ھے ، اور ان کی اصلاح کا موقع ملتا ھے –
3۔ جذبات کی تہذیب ھوتی ھے – غصہ، نفرت، حسد جیسے منفی جذبات کے نقصانات کا اندازہ ھوتا ھے
4۔ مشکلات کا سامنا کرنے کی ھمت نصیب ھوتی ھے –
5۔ بول چال ، تحریر میں شائستگی آجاتی ھے –
6۔ شخصیت میں نکھار اور وقار آجاتا ھے ان فوائد کے حصول کے لیے مختار مسعود کی کتاب آوازدوست ، قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی شہاب نامہ ، ممتازمفتی کی ُ بیتی علی پور کا ایلی میری نظر میں بہترین کتابیں ھیں – ان کے علاوہ بھی بے شمار اچھی کتابیں ھیں واصف علی واصف ,اشفاق احمد ، بانوقدسیہ ، عبداللہ حسین اور مستنصر حسین تارڑ کی جو کتاب مل جائے، ضرور پڑھیں –
آج کے لیے اتناھی کافی سمجھیں – باقی باتیں ان شآءاللہ کل –
رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک– 3  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

ناول اور افسانے کی بجائے آج کے دور میں لوگ آپ بیتی اور سفرنامہ زیادہ شوق سے پڑھتے ھیں – اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ھے کہ لوگ قصے کہانیوں کی بجائے سچی باتیں سننا پڑھنا چاھتے ھیں – آپ بیتی میں تھوڑا بہت مرچ مسالہ ھو بھی تو واقعات بہر حال حقیقی ھوتے ھیں –
اردو ادب میں قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی شہاب نامہ اور ممتاز مفتی کی علی پور کا ایلی کے علاوہ احسان دانش کی آپ بیتی جہان دانش اور میرزا ادیب کی آپ بیتی مٹی کا دیا بھی بہت معروف و مقبول ھیں – غریبی ، محرومیوں اور عزم و ھمت کی یہ داستانیں پڑھتے ھوئے آنکھیں بار بار بھیگ جاتی ھیں – کیا عظیم لوگ تھے !!!
احسان دانش شاعر مزدور کہلاتے ھیں کیونکہ ایک تو ان کی شاعری میں مزدور طبقے کے مسائل کا بہت ذکر ھے دوسری اور زیادہ اھم بات یہ کہ احسان دانش خود بھی بہت عرصہ مزدوری کرتے رھے – غریبی کی وجہ سے سکول جانا نصیب نہ ھؤا – گھرپر ھی اردو ، فارسی عربی پڑھ کر پڑھنا لکھنا سیکھ لیا – خوبصورت شاعری اور دل میں اتر جانے والی مترنم آواز کی وجہ سے مشاعروں میں بہت مقبول ھوئے – کتنے دکھ کی بات ھے کہ رات بھر مشاعروں میں واہ واہ وصول کرنے والا یہ نوجوان صبح ھوتے ھی بیلچہ اور تغاری یا چونے کی بالٹی اور کوچی (برش) لے کر مزدوری کی تلاش میں نکل جاتا – لاھور کی بہت سی عمارتوں کی تعمیر میں اس عظیم شاعر نے مزدور کا کردار ادا کیا کیونکہ اس کا کوئی اور ذریعہ ءمعاش نہیں تھا –
( پوسٹ نامکمل ھے – ایک ضروری کام سے باھر جانا ھے – باقی باتیں انشآءاللہ کل لکھوں گا )——————————–

رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک– 4  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

Ehsan Danish: Wiki Biography and Books Details

احسان دانش درویش صفت انسان تھے – سالہاسال مزدوری کر کے تھوڑی سی رقم بچالی تو مزنگ (لاھور) میں مکتبہ ء دانش کے نام سے کتابوں کی دکان بنا لی – ملک کے تمام مشہورومعروف ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ھوتا تھا ، کچھ پیسے ادھر سے مل جاتے تھے – کچھ آمدنی مشاعروں میں شرکت سے ھو جاتی تھی – اسی سادگی اور درویشی میں عمربسر کردی –
مقام یہ تھا کہ فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، ناصر کاظمی جیسے لوگ بھی ان کا احترام کرتے اور ان کے ھاں آتے جاتے تھے – زبان کے معاملے میں ان کا مشورہ سند سمجھا جاتا تھا – نظم ، نثر دونوں میں ان کا انداز تحریر منفرد تھا – ادب کی تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھے –
ایک دفعہ انجمن فروغ اردو کے مشاعرے میں امجد اسلام امجد اور عطاءالحق قاسمی وغیرہ کے ھمراہ جناب احسان دانش بھی میانوالی تشریف لائے تھے – اسی دور میں حکومت نے سوروپے کے نوٹ پر قائداعظم کی تصویر لگائی تھی – جناب دانش نے میانوالی کے مشاعرے میں “سو کا نوٹ“ کے عنوان سے ایک دلگداز نظم پڑھی تھی ، جس کا ایک مصرع یہ تھاکیا اسی تصویر سے رشوت بھی لی ، دی جائے گی ؟

میرزاادیب لاھور میں داتا صاحب کے نواحی علاقے کے باسی تھے – والد مزدور تھے – بہت اذیت ناک غریبی کے باوجود مہربان ماں نے محنت مزدوری کرکے اپنے لال کو بی اے تک تعلیم دلوائی – تعلیم سے فارغ ھو کردلاورخان (میرزاادیب) ادب سے وابستہ ھو گئے – ادب لطیف اور کئی دوسرے اھم ادبی رسائل کے ایڈیٹر رھے – ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے لکھے ھوئے بہت سے ڈرامے بے حد مقبول ھوئے – ڈراما نگاری کے حوالے سے میرزا ادیب اردو ادب کی تاریخ میں ایک اھم نام ھیں –

گذرگیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ——————————- رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 5  مارچ 2019

میرا میانوالی

—————-یادیں —————–
انگلش ڈیپارٹمنٹ ، گورنمنٹ کالج میانوالی


پروفیسر طاھر جہان نیازی ، پروفیسر سرورخان نیازی ، پرنسپل ملک محمد انور میکن، ھیڈ آف انگلش یپارٹمنٹ ، پروفیسر سلطان محمود اعوان اور میں
پروفیسر ملک محمدانورمیکن ، پروفیسر سلطان محموداعوان اور پیچھے کھڑے سٹوڈنٹس کے درمیان کھڑے فصیح السلام اب اس دنیا میں موجود نہیں – فصیح ھمارے کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد سی ایس پی افسر ھوگئے تھے -بشکریہ-منورعلی ملک– 5 مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

یادیں تحریر کرنے میں ترتیب قائم رکھنا مشکل ھوتا ھے – اچانک کوئی آواز، تصویر یا خبر انسان کو کوئی پرانا عشق، شوق یا دلچسپی یاد دلاکر بھولی بسری راھوں پر چلنے پر مجبور کر دیتی ھے –

کل رات ٹی وی کے ایک پروگرام میں لیجنڈ گلوکار محمد رفیع کی پکچر دیکھ کر بہت سی یادیں تازہ ھوگئیں –
جب ھم نے ھوش سنبھالا اس وقت محمد رفیع برصغیر پاک و ھند کے مقبول ترین گلوکار تھے – اگرچہ وہ زمانہ طلعت محمود اور مکیش جیسے بڑے گلوکاروں کےبھی عروج کا دور تھا ، مگر عوام میں مقبولیت کے لحاظ سے پہلے نمبر پر محمد رفیع ھی تھے -آواز اور لہجے کو گیت کے مزاج کے عین مطابق برتنا محمد رفیع ھی کا کمال تھا – یہ کمال اللہ کی خآص عنایت تھا – نہ پہلے نہ بعد میں کسی کو یہ کمال نصیب ھؤا – کیا بتاؤں محمد رفیع کیا تھے – یو ٹیوب پر ان کے گیت سن کر خود ھی فیصلہ کر لیں کہ وہ کیاتھے –

لالا عیسی خیلوی نے بھی گلوکاری کا آغاز محمد رفیع ھی کی کاپی کرنے سے کیا – محمد رفیع کے گیت ——————————-
کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم میرے کیا ھو
مجھے لے چلو آج پھراس گلی میں جہاں پہلےپہلے یہ دل لڑکھڑایا
اور
یاد میں تیری جاگ جاگ کے ھم رات بھر کروٹیں بدلتے ھیں

لالا ھرشام میکدے کی محفلوں میں ھمیں سنایا کرتے تھے ————

محمد رفیع کے بارے میں بہت پیاری بات ایک دوست نے بتا ئی – انہوں نے کہا جب بھارت کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ دینے کے لیے محمد رفیع کو سٹیج پر بلاتے ھوئے سٹیج سیکریٹری نے کہا
Now I request Mr Rafi to come and receive his award
تو محمد رفیع بگڑ گئے – سٹیج پر آکر مہمان خصوصی ( انڈیا کےصدر) کو مخاطب کر کے کہا ———
‘جناب صدر ، میں نے سالہا سال آپ کے ملک میں موسیقی کی خدمت کی ھے – آج اس کا صلہ یہ مل رھاھے کہ میرے نام سے لفظ محمد ھٹا دیا گیا – میں رفیع نہیں محمد رفیع ھوں -نہیں چاھیے مجھے آپ کا ایوارڈ – میرے لیے نام کے ساتھ محمد ھی سب سے بڑا ایوارڈ ھے ” –
صدرمملکت نے معذرت کر کے محمد رفیع کوایوارڈ لینے پر آمادہ کرلیا –
– رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک– 7  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

سفر سے زیاہ سفر کی تیاریاں مشکل ھوتی ھیں – بہت سے کام یکلخت یاد آ جاتے ھیں – انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ھے – فلاں سے ملنا ھے ، یہ چیز لینی ھے ، فلاں جگہ جانا ھے – اس تمام تر سوچ بچار اور بھاگ دوڑ کے باوجود کئی کام رہ جاتے ھیں – وجہ یہ ھے کہ ھم وقت پر کام کرتے نہیں – اس لیے وقت رخصت سب کچھ کرنا پڑتا ھے –

تقریبا ایک ماہ لاھورمیں رھنے کےبعد اب میانوالی واپسی کی تیاریاں ھو رھی ھیں – اسی مصروفیت کی وجہ سے فیس بک پہ حاضری میں بھی ھیرا پھیری ھو رھی ھے – ان شآءاللہ منگل (12 مارچ) سے حسب معمول روزانہ ملاقات ممکن ھوگی – دعاؤں میں یاد رکھیں –
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک–10  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

بحمداللہ سفر بخیرتمام ھؤا ———
موٹروے بھی کیا نعمت ھے – اب تو سفر ، سفر لگتا ھی نہیں – چار پانچ گھنٹوں میں انسان لاھور سے میانوالی ، یا میانوالی سے لاھور پہنچ جاتا ھے -ھم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ھے جب میانوالی سے لاھور کوئی ڈائریکٹ بس نہیں جاتی تھی – لوگ سرگودھا جاکر لاھور کی بس پہ سوار ھوتے اور لالیاں ، ربوہ، چنیوٹ ، پنڈی بھٹیاں ، خانقاہ ڈوگراں ، شیخوپورہ وغیرہ سے گذر کرشاھدرہ سے لاھور میں داخل ھوتے — اس سفر میں کم ازکم نو دس گھنٹے لگ جاتے تھے– شاھی مسجد کے قریب بس سے اتر کر کسی تا نگے میں بیٹھ کر منزل مقصود پر پہنچتے تھے – ابھی رکشا کا دور شروع نہیں ھؤا تھا ، اس لیے لاھور کی سڑکوں پر تانگوں کا راج ھؤا کرتا تھا – تانگہ صرف ایک سواری نہیں ، ایک پورا کلچر تھا جس سے کئی گیتوں اور کہانیوں نے جنم لیا – اب وہ گیت اور کہانیاں سب یاد ماضی ھو گئے – تانگوں کی جگہ رکشوں نے سنبھال لی – پھر موٹر سائیکلوں کا سیلاب آگیا – اب تو کاروں کی تعداد موٹرسائیکلوں سے زیادہ ھو گئی ھے – سہولتیں بے حساب ، سفر آسان , مگر زندگی پھر بھی مشکل – اب سب کچھ میسر ھے ، پھر بھی کئی کام نامکمل رہ جاتے ھیں کہ وقت نہیں ملتا – ترقی کے اس سفر کی اگلی منزل رب جانے کیا ھوگی ————————– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 12  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

لاھور کسی زمانے میں مغل شہنشاھوں کا شہر ھؤا کرتا تھا – اس دور کی یادگاریں شاھی مسجد، شاھی قلعہ ، شالامار باغ ، مقبرہ ء جہانگیر اور مقبرہ ء نورجہاں کی صورت میں اب بھی موجود ھیں – پھر سکھا شاھی کا دور آیا – مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاھی مسجد اور شاھی قلعہ کے درمیان حضوری باغ نام کا خوبصورت باغ بنوایا – سوچنے کی بات ھے پوری کائنات میں سکھوں کو صرف پنجاب پر ھی حکومت کرنا نصیب ھؤا – کچھ لوگ کہتے ھیں اس کی وجہ یہ ھے کہ پنجاب نے ھمیشہ تبدیلی کا خیرمقدم کیا ھے – واللہ اعلم –
ان تاریخی حوالوں کی اھمیت اپنی جگہ ، میں آج کے لاھور میں اس لاھور کو miss کرتا ھوں جو مولانا ظفرعلی خان ، شورش کاشمیری ، مولانا عبدالستار خان نیازی ، فیض احمد فیض ، احدم ندیم قاسمی ، سعادت حسن منٹو ، ناصر کاظمی ، ساغر صدیقی ، میرزاادیب ، احسان دانش اور حبیب جالب کا لاھور تھا – مولانا ظفر علی خان کا اخبار “زمیندار“ ملک کا سب سے بڑا اخبارتھا – اس میں شائع ھونے والی تحریروں کی گونج سے سلطنت برطانیہ کا تخت لرزاں رھتا تھا – شورش کاشمیری قلم اور زبان دونوں کے بادشاہ تھے – ان کا ھفت روزہ اخبار چٹان بھی خاصا زلزلہ خیز اخبار تھا – مولانا ظفرعلی خان ، شورش کاشمیری اور مولانا عبدالستارخان نیازی ، یہ تینوں صحافت اور سیاست کے وہ مجاھد تھے جن سے ھر حکومت خائف رھتی تھی –

حبیب جالب بھی اسی صف کے آدمی تھے – صدرایوب کے دور عروج میں پکار اٹھے————————-
بیس گھرانے ھیں آباد
اور کروڑوں ھیں ناشاد
صدرایوب زندہ باد
بارھا جیل گئے – بھٹوصاحب نے اعلی سرکاری عہدوں کی پیشکش کی ، جالب نے ٹھکرا دی – محترمہ بے نظیر کی حکومت آئی تو ان سے بھی نہ بنی – اسی دور میں کہا —
وھی حالات ھیں فقیروں کے
دن پھرے ھیں فقط وزیروں کے

ھر بلاول ھے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ھیں بے نظیروں کے

کل (12مارچ) حبیب جالب کی چھبیسویں برسی تھی – چاھتا ھوں لاھور کی ان تمام شخصیات کے بارے میں لکھوں جن کے نام اوپر لکھ دیئے – مگریہ علم کی باتیں ھیں ، کون پڑھے گا ، کون پسند کرے گا ؟
—– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 13 مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

بہت سے دوستوں کی فرمائش ھے کہ کل کی پوسٹ میں میں نے علم و ادب کی جن بلند پایہ شخصیات کے نام لکھے تھے ان سب کے بارے میں الگ الگ قدرے تفصیل سے لکھا جائے –
حوصلہ افزائی اور محبت کا شکریہ —– احسان دانش اور میرزا ادیب کے بارے میں تو چند دن پہلے لکھ چکا ھوں – ایک دو سال پہلے مولانا عبدالستارخان نیازی اور ساغر صدیقی کے بارے میں بھی لکھا تھا – ان دو شخصیات کے بارے میں اسی ھفتے دوبارہ لکھ دوں گا –
آج شورش کاشمیری کے بارے میں لکھنے لگا تو خیال آیا کہ شورش صاحب سے پہلے ان کے پیرومرشد کا ذکر بھی ضروری ھے جن کے دست فیض نے شورش جیسی کھردری , دبنگ شخصیت کو تراش کر بے مثال صحافی شاعر اور مقرر بنا دیا -“>ذکر ھے تاریخ ساز دینی و سیاسی شخصیت سید عطاءاللہ شاہ بخاری المعروف شاہ جی کا – شاہ جی بیسویں صدی کے سب سے بڑے خطیب تھے – اک عجیب جادوتھا ان کی آواز ۔ الفاظ اور انداز بیان میں – بجلی کا کرنٹ بھر دیتے تھے مجمع میں –

انگریرحکومت باربار جیل بھیجتی رھی ، مگر شاہ جی انگریزوں کی مخالفت سے کبھی باز نہ آئے – تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں بھی ان کی خدمات تاریخ کا ایک روشن باب ھیں –آج صرف شاہ جی کی تلاوت قرآن کے حوالے سے دو واقعات پیش خدمت ھیں –

شاہ جی روزانہ صبح سویرے ایک آدھ گھنٹہ بلند آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کیا کرتے تھے – ایک دفعہ جیل میں تلاوت کر رھے تھے تو ھندوسپرنٹنڈنٹ جیل نے ھاتھ جوڑ کر کہا
” شاہ جی ، خدا کے لیے بس کیجیے ، میں آدھ گھنٹہ سے آپ کیی تلاوت سنتے ھوئے رو رھا ھوں -“

دوسرا واقعہ گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق پرنسپل ، پروفیسر سید محمد عالم نے سنایا – انہوں نے بتایا کہ جب ھم علی گڑھ کالج کے سٹوڈنٹ تھے تو ایک دفعہ وھاں نماز عشاءکے بعد شاہ جی نے ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا – نظریاتی مخالفت کی وجہ سے علی گڑھ کے سٹوڈنٹ ان کا جلسہ ناکام بنانے کے لیے “نہیں سنیں گے ، نہیں سنیں گے“ کے نعرے لگانے لگے –
شاہ جی خاموش کھڑے یہ بد تمیزی بڑے تحمل سے برداشت کرتے رھے – جب نعرے لگانے والے تھک گئے تو شاہ جی نے کہا “ قرآن سنوگے ؟ “کون انکار کرتا — شاہ جی نے قرآن کریم کی چند آیات پڑھیں – مجمع پر سناٹا طاری ھو گیا – اس کے بعد شاہ جی نے ان آیات کے حوالے سے خطاب شروع کیا تو فجر کی اذان تک سامعین ایک نشے میں سرشار سنتے رھے-
شاہ جی 1961 میں اس دنیا سے رخصت ھوئے – مزار (ان کی وصیت کے مطابق کچی قبر) ملتان میں ھے -اللہ اکبر —- اک آسمان تھا جو تہہ خاک سو گیا–

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–14 مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

بے باک صحافی ، نڈرخطیب اور مقبول و معروف شاعر آغا شورش کاشمیری لاھور کے ایک کشمیری گھرانے کے چشم وچراغ تھے – اصل نام عبدالکریم ، قلمی نام شورش کاشمیری تھا – خطابت کی تربیت سیدعطاءاللہ شاہ بخاری سے حاصل کی ، صحافت میں مولانا ظفر علی خان کے شاگرد تھے – اپنے پیرومرشد سیدعطاءاللہ شاہ بخاری کی تحریک احرارالاسلام سے وابستہ ھوگئے – تحریک احرارالاسلام برصغیر کی آزادی اور اسلام کے نفاذ کی تحریک تھی –

انگریزوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ تحریک احرارالاسلام نے انگریزوں کی تخلیق کردہ جماعت احمدیہ (مرزائیت) کو بھی نشانہ بنایا – اسی تحریک کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں ذوالفقارعلی بھٹونے مرزائیوں کو کافرقرار دینے کی شق آئین میں شامل کی “شورش نے زبان اور قلم دونوں سےتلوار کاکام لیا – بہت شعلہ بیان مقرر تھے – آواز میں شیر جیسی گھن گرج ، الفاظ میں تلوار جیسی کاٹ – سٹیج پر آتے ھی مجمع کے دل اپنی مٹھی میں لے لیتے – حکومت مخالف خطابت اور صحافت کی بنا پر بار بار جیل جاتے رھے- قید کے دنوں کی داستان پر مبنی ان کی کتاب “پس دیوارزنداں “ اپنے زمانے کی مقبول ترین کتاب تھی –

شورش کی دوسری اھم ترین کتاب “اس بازارمیں “ بہت جراءت مندانہ ادبی کارنامہ تھی – یہ کتاب حالات سے مجبور لاوارث ، بے سہارا جسم فروش عورتوں (طوائفوں) کے حالات زندگی کی درد ناک داستان ھے – شورش نے اس کتاب کے لیے معلومات لاھور کی ھیرا منڈی میں طوائفوں سے براہ راست ملاقاتیں کر کے حاصل کیں – کتاب کیا ھے ، اس بے حس معاشرے کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ھے – ھیرا منڈی مفلسی اور لاوارثی کا شکار مظلوم عورتوں کا پنجرہ ھے ، جس سے کوئی پرندہ زندہ باھر نہیں نکل سکتا –

شورش نے نظم و نثر کی تقریبا پندرہ کتابیں لکھیں – ان کا ھفت روزہ اخبار “چٹان“ عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کا ترجمان تھا – شورش کی تحریروں سے اقتدار کے ایوانوں کے درودیوار پر لرزہ طاری رھتا تھا –

شورش اپنے انداز کے بہت اچھے شاعر بھی تھے – غزل کی بجائے قومی اور سماجی موضوعات پر نظمیں لکھتے تھے – ان کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ان کے یہ شعر ملاحظہ کیجیے :
خدا نے شعلہ بیانی مجھے عطا کی ھے
عوام سوئے ھوئے ھیں ۔ انہیں جگاؤں گا
مرا قلم مرے جمہور کی امانت ھے
میں اپنے فرض کو ھر حال میں نبھاؤں گا
—————————————–
ھم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آھنی زنجیریں تھیں
شورش اب اس دنیا میں موجود نہیں ، مگران کا ذکر لاھور کی سیاسی و سماجی تاریخ کا ایک چشم کشا باب ھے ——————————– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 15   مارچ 2019

اپنا پرانا شعر ————————
اس نے کہا تم کو کھو دینا مجبوری ھے یار
کچھ پانے کی خاطر کچھ تو کھونا پڑتا ھے

میرا میانوالی—————-

آج ذکر ھے علامہ اقبال کے بعد بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض کا – نورجہاں کی آواز میں ان کی لاجواب نظم ——
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
تو آپ سب نے یقینا سنی ھوگی ، اس لیے ان کا ذکر آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ھوگا -فیض احمد فیض سیالکوٹ کے ایک معزز قریشی گھرانے میں اس دنیا میں وارد ھوئے – ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے مشن سکول سے حاصل کی – پنجاب یونیورسٹی سے عربی اور انگلش میں ایم اے کیا – ایم اے او کالج امرتسر میں انگلش کے لیکچرر رھے – پھر لاھور آکر ھیلے کالج آف کامرس میں کچھ عرصہ لیکچرر رھنے کے بعد آرمی میں لیفٹننٹ بھرتی ھو گئے – کرنل ریٹائر ھوئے
بہت عرصہ پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار “پاکستان ٹائیمز “ کے چیف ایڈیٹر بھی رھے – اھل قلم کی مشہورومعروف ترقی پسند تحریک کے قائدین میں شمار ھوتے تھے – ساحرلدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، سیف ، علی عباس حسینی جیسے قد آور اھل قلم بھی انہیں اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے – احمد فراز کی شاعری میں فیض کا رنگ صاف دکھائی دیتا ھے-

فیض کی شاعری دوقسم کی ھے- ان کی نظریاتی شاعری مظلوم اور محروم لوگوں کی ترجمان ھے – غم جاناں کی شاعر ی میں محبت کے حوالے سے دل میں اتر جانے والی باتیں ملتی ھیں ، جنھیں پڑھ کر ایک میٹھا سا درد دل میں اتر جاتا ھے – یہ شعر دیکھیے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
————————————
کس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ھے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ھاتھ
——————————————-

نظریاتی جدوجہد کی وجہ سے فیض کئی سال جیل میں بھی رھے – وہ عالمی امن کے داعی تھے – اس سلسلے میں ان کی قلمی خدمات کے صلے میں روس کی حکومت نے انہیں سب سے بڑا ایوارڈ لینن پرائیز بھی دیا-

فیض جیسی ھمہ گیر شخصیت کا تعارف ایک پوسٹ میں نہیں سما سکتا – مگر آپ ھر روز نئی چیز چاھتے ھیں ، اس لیے اتنا ھی کافی سمجھیں –
— رھےنام اللہ کا- بشکریہ-منورعلی ملک– 16  مارچ 2019

میرا میانوالی———–

—–اللہ اکبر —————— نیوزی لینڈ
کل نمازجمعہ کے دوران 49 نمازیوں کی شہادت کے باوجود
مغرب کی نماز میں اتنے لوگ مسجدوں میں آئے کہ مسجدیں بھر گئیں
اور بقیہ لوگوں نے مسجد کے باھر سڑک پر نماز ادا کی-

بشکریہ-منورعلی ملک– 16  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

سانحہ ء نیوزی لینڈ کے حوالے سے کل ایک مسجد کی پکچر پوسٹ کی تو ایک واقعہ یاد آگیا جو بہت عرصہ پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا –

مغل شہنشاہ اورنگذیب کے دور میں ایک ریاست کے راجہ (حکمران) نے بغاوت کردی – بغاوت کو کچلنے کے لیے شہنشاہ بہت بڑی فوج لے کر اس ریاست کے دارالحکومت پہنچے – راجہ اپنی فوج کے ساتھ ایک قلعے میں محصور ھو گیا نماز کا وقت ھوا تو اورنگذیب کی فوج نماز کے لیے صف آرا ھوئی —- ادھر قلعے کی فصیل پر ایک مورچے میں بیٹھے ھوئے تیرانداز نے تیر چلایا جو نماز کی امامت کرنے والے صاحب کی گردن میں پیوست ھو گیا ، اور وہ موقع پر ھی شہید ھوگئے –

ڈسپلن دیکھیے —- نماز کے لیے صف آرا فوج میں کوئی افراتفری نہ پھیلی ٠ صفیں اسی طرح برقرار رھیں – اگلی صف سے ایک اور صآحب نکل کر نماز کی امامت کرنے لگے – مورچے میں بیٹھے ھوئے تیرانداز نے دوسرا تیر پھینکا – یہ صاحب بھی شہید ھو گئے ، تو ایک تیسرا آدمی پہلی صف سے نکل کر نماز کی امامت کے لیے کھڑا ھو گیا –

تیرانداز تیسرا تیر کمان میں چڑھانے لگا تو راجہ بھاگتا ھؤا آیا اور کہا
“خبردار! تیر نہ چلانا – شہنشاہ اورنگذیب خود نماز کی امامت کر رھے ھیں – “ –گذرگیاوہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–17  مارچ 2019

یادیں —– 2 سال پہلے کی پوسٹ


اپنا شعر، اپناقلم- 18  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

الحمدللہ الکریم ————— آج صبح فیس بک نے خبردی ھے کہ میری پوسٹس کو پانچ لاکھ ساٹھ ھزار (560000) لائیکس (likes) کا اعزاز نصیب ھؤا ھے – اس اعزاز کے لیے رب کریم کا شکرگذار اور آپ سب کا ممنون ھوں – اللہ تعالی ھماری اس دوستی کو ھم سب کے لیے باعث خیرو برکت بنائے –
——- رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 19  مارچ 2019

میرا میانوالی————–فالوورز کے نام ———————-

عزیز فالوورز ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ –
بہت ممنون ھوں کہ فرینڈز کے کھاتے میں گنجائش نہ ھونے کے باوجود آپ نے میرا ھمسفر بننا ضروری سمجھا —- کل صبح فیس بک نے بتایا کہ آپ کی تعداد 7000 ھوگئی ھے – آج صبح اس وقت 7003 ھے -فرینڈز اور فالوورز کا فرق تو فیس بک نے رکھا ھؤا ھے ، میری نظر میں آپ سب برابرھیں ، کہ سب میری تحریریں شوق سے پڑھتے اور مجھے دعاؤں سے نوازتے ھیں

میں نہیں جانتا کہ آپ سے میرا تعارف کیسے ھؤا – فرینڈز تو مجھے بہت پہلے سے جانتے ھیں – کچھ میرے سٹوڈنٹس رھے ، کچھ لالاعیسی خیلوی کی آؤاز میں میرے گیتوں کے حوالے سے مجھے جانتے تھے — آپ میں سے اکثر ایسے ھیں جو کسی بھی حیثیت میں مجھے جانتے نہیں تھے – بس فیس بک پر میری تحریریں اچھی لگیں تو میرے ھمسفر بن گئے –
کوشش کروں گا کہ یہ سفر آپ کے لیے دلچسپ بھی ھو ، مفید بھی – اللہ آپ سب کو سلامت رکھے –
—– رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 20  مارچ 2019میرا پاکستان میری جنت ——- وزیرستان کا ایک منظر

میرا میانوالی—————-

کل صبح ارادہ کیا کہ آج ( 22 مارچ کو) اس موضوع پر لکھوں گا – شام کو اسی موضوع پر اپنے جگر ظفر نیازی کی دل کو چھولینے والی پوسٹ دیکھ کر خیال آیا کہ میں اس سے بہتر کیا لکھ سکوں گا – مگر پھر یہ سوچا کہ اچھی بات کی تشہیر جتنی بھی زیادہ ھو آج کے معاشرے کی ضرورت ھے – چار لوگ اور بھی پڑھ لیں گے-

ذکر ھے سانحہ ء نیوزی لینڈ کے حوالے سے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن (Jacinda Ardern) کا —-
دل خوش ھؤگیا اور آنکھیں بھیگ گئیں جب اس محترم خاتون کو سیاہ ماتمی لباس میں شہداء کے اھل خانہ کو گلے لگا کرتعزیت کرتے دیکھا -اس موقع پر انہوں نے شہداء کے اھل خانہ کی ھرطرح سے مدد کی یقین دہانی بھی کرائی – صرف یہی نہیں اس دلیر وزیرا اعظم نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بغض کی موجودہ فضا کی پروا نہ کرتے ھوئے یہ اعلان بھی کیا کہ نماز جمعہ کی اذان سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ھوگی – اور خواتین جمعہ کے احترام میں اسلامی روایت کے مطابق سر پہ دوپٹہ یا سکارف اوڑھ لیں گی –
ایک اخباری نمائندے نے اس سانحہ کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے اسلام دشمن بیان کا ذکر کیا تو محترمہ جیسنڈا نے کہا میرے لیے اپنے عوام کا مفاد ٹرمپ سے زیادہ اھم ھے – ٹرمپ جو کہتے رھیں مجھے اس کی کوئی پروا نہیں-نیوزی لینڈ میں خطرناک خودکار ھتھیاروں پر پابندی کا قانون زیر غور ھے – کل ایک اخبار میں پکچر دیکھی کہ پابندی کا قانون منظور ھوے سے پہلے ھی سینکڑوں افراد نے اسلحہ تھانوں میں جمع کرادیا – تھانوں میں اسلحے کے ڈھیر لگ گئے ھیں . اور یہ سلسلہ ابھی جاری ھے –

ذرا غور کریں تو اس واقعے میں بہت سے سبق ھمارے لیے بھی ھیں ، ھمارے حکمرانوں کے لیے بھی – حکمران عمل کریں نہ کریں ، آپ سے جو کچھ ھو سکے وہ تو کرتے رھیں – نفرتوں اور تعصبات کی جگہ محبت کو شعار بنائیں – سب سے محبت کریں تو یہ دنیا آپ کے لیے جنت بن سکتی ھے —- رھے نام اللہ کا—

(نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن (Jacinda Ardern) شہدا کے اھل خانہ سے تعزیت کرتے ھوئے)-

بشکریہ-منورعلی ملک– 22  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

تقریبات کا موسم ھے – کل ٢٣ مارچ کے حوالے سے ٹھٹی شریف کے دی سٹیزن فاؤنڈیشن سکول میں یوم پاکستان اور تقسیم انعامات کی تقریب میں مہمان خصوصیت کی حیثیت میں شرکت کی –

دی سٹیزن فاؤنڈیشن ٹھٹھی کے ڈرھال برادران کے قائم کردہ رفاھی اداروں کے سلسلے کی ایک کڑی ھے – ڈرھال برادران ( ملک رفیع اللہ، ملک شفیع اللہ، ملک مطیع اللہ) میرے اس زمانے کے سٹوڈنٹ ھیں جب میں گورنمنٹ ھائی سکول ٹھٹھی میں ھیڈماسٹر تھا – تینوں بھائی بہت لائق تھے، اس لیے میرے بہت قریب رھے – رفیع اللہ اور شفیع اللہ کسٹمز کے محکمہ میں اعلی عہدوں پر فائز ھیں —– وہ جو علامہ اقبال نے داغ صاحب کے حوالے سے کہا تھا>آنکھ طائرکی نشیمن پر رھی پروازمیں

ڈرھال بردارن کراچی میں سکونت کے باوجود اپنے آبائی گاؤں ٹھٹھی کے غریب عوام کی فلاح وبہبود کے لیے دن رات کوشاں ھیں – تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ان کی خدمات سے اس چھوٹے سے گمنام کاؤں کی تقدیر بہت تیزی سے بدل رھی ھے – ان کے بنائے ھوئے ادارے صدقہ ء جاریہ کی حیثیت میں ٹھٹھی کی تاریخ کا ایک زریں باب ھیں – رب کریم ان محب وطن نوجوانوں کو اس خدمت کا اجر عظیم عطا فرمائے-

تقریب سے اس ادارے کے سرپرست اعلی ملک شفیع اللہ کا محبت بھرا خطاب حاصل تقریب تھا – یہاں اپنے علاقے کے دو ارکان صوبائی اسمبلی امین اللہ خان نیازی اور ملک احمد خان بھچر سے بھی ملاقات ھوئی – یہ دیکھ کر خوشی ھوئی کہ یہ دونوں سیاسی رھنما اس علاقے کی فلاح و ترقی کے لیے پرعزم ھیں – مطیع اللہ ملک بھی تحریک انصاف کے اھم مقامی قائدین میں شمار ھوتے ھیں –

نوجوان ڈاکٹر اور ماھر تعلیم ڈاکٹر حنیف نیازی اور ان کے دست راست پروفیسر شاکر خان بھی زینت محفل تھے – مقاصد کے اشتراک کی بنا پر ڈرھال بردارن اور ان کا ایک دوسرے کے قریب رھنا خیر کی بشارت ھے –

تقریب میں حسب معمول بہت سی پکچرز بنیں ۔ تاھم میری نظر میں سب سے اھم پکچر یہ ھے جو اس سکول کے بچوں نے مجھے گفٹ کی – وھی پکچر اس پوسٹ کی زینت ھے – گتے کے خوبصورت براؤن فولڈر میں سجی ھوئی یہ تصویر مجھے تقریب کے اختتام پر تین چارسال کی ایک بچی نے لاکردی -Thank you, sweet kids. May ALLAH Richly Bless you all.
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–24  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

کل وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس کے ما لک لیاقت علی خان کے صاحبزادے محمدعلی ساجد خان کی خانہ آبادی کی تقریب میں شرکت بے حساب مسرت کا باعث بنی- لیاقت خان گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے اولیں سٹوڈنٹس میں سے ھیں – یہ میرے ان سٹوڈنٹس میں سے ھیں جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ھیں – ان سے پیار کا ایک بہت خوبصورت رشتہ گذشتہ چالیس سال سے برقرار ھے – ان کے تمام بھائی کوثر ، شوکت، ظفر رمضان وغیرہ بھی مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز ھیں –

ماشآءاللہ بہت شاندار تقریب تھی – محبت کرنے والوں کا اتنا بڑا اجتماع قسمت سے ھی بنتا ھے – میرے دیرینہ احباب پروفیسرمحمد سلیم احسن ، مہرزمان خان ھزارے خیل ، کے علاوہ نامور گلوکار عطا محمد نیازی داؤدخیلوی ، موٹروے پولیس افسر سردارامیر اعظم خان ، شعراء میں سے ملک الشعراء ملک سونا خان بےوس ، ان کے صآحبزادے ملک شہباز, مظہر نیازی ، نذیر یاد، صابر بھریوں اور شعرونغمہ کی دنیا کے اور بھی بہت سے خوبصورت لوگوں سے مدتوں بعد ملاقات کا یہ موقع بلاشبہ ایک یادگار موقع تھا – یہ بھی میرے بہت پیارے بیٹے ھیں

خلوص اور محبت کا جو زمزم میانوالی میں بہہ رھا ھے،پیار کے پیاسوں کے لیے رب کریم کی بہت بڑی نعمت ھے –

اللہ تعالی ھمارے پیارے بیٹے محمدعلی ساجد خان کو شاد و آباد رکھے ، اس کی شادی نے ھماری زندگی میں چند بہت خوشگوار لمحوں کا اضافہ کردیا – یہ یادگار محفل مدتوں یاد رھے گی –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 25  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

بیروں کا موسم آگیا –
جب بھی یہ موسم آتا ھے ریاست بھائی بہت یاد آتے ھیں – ملک ریاست علی میرے کزن تھے- عمر مین مجھ سے ایک آدھ سال بڑے تھے – بچپن میں اس موسم میں ھم ایک تیسرے کزن طالب حسین شاہ کو ساتھ لے کر بیروں کے شکار پہ جایا کرتے تھے –
داؤدخیل میں ھمارے گھر سے تقریبا ایک کلومیٹر مشرق میں ریلوے لائین سے پہاڑ کے دامن تک کاعلاقہ تھل کہلاتا تھا – اس علاقے میں بیری کے چند بھاری بھرکم درخت تھے جو بیروں سے لدے رھتے تھے – رات کے پچھلے پہر جو تیز ھوا شمال مشرق سے آتی تھی اس سے ڈھیروں بیر درختوں سے گرتے تو زمین لال سرخ ھوجاتی تھی — صبح سویرے جا کر ھم وہ بیر جھولیوں میں بھر لاتے تھے – ھر بیری کے بیروں کا رنگ ۔ خوشبو اور ذائقہ منفرد ھوتا تھا – بعض بیریوں کے پیلے اور سبز بیر بھی میٹھے ھوتے تھے-<>ریاست بھائی درختوں پر چڑھنے کے ماھر تھے- دیکھتے ھی دیکھتے درخت کی چوٹی تک جا پہنچتے تھے – نہ گرنے کا خوف ، نہ کانٹوں کی پروا ۔ اوپر جاکر درخت کی شاخوں کو ھلاتے تو زمین پر بیروں کی بارش برسنے لگتی تھی – ایک دفعہ تو بیر اتنے زیادہ ھو گئے کہ جھولیاں بھرنے کے بعد بھی بہت سے بیر بچ گئے – انہیں چھوڑ کر جانے کو دل نہیں مانتا تھا —
طالب شاہ نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ نہیں – یہ کہہ کر شاہ جی نے شلوار اتاری ۔ اس کے دونوں پائینچے باندھ کر اس میں بیر بھر دیئے اور گٹو کی طرح کندھے پر ڈال کر چل دیے — چار پانچ سال کے بچوں کا شلوار کے بغیر پھرنا دیہات میں کوئی تعجب کی بات نہ تھا – اس لیے کسی نے اعتراض نہ کیا – سب ھماری اس نرالی ترکیب کو دیکھ کر ھنستے رھے-

بیر ھم تین برابر حصوں میں تقسیم کیا کرتے تھے – البتہ ریاست بھائی کو کچھ زیادہ بیر کانٹے چبھنے کے معاوضے (کنڈے پڑاوی) کے طورپہ دینا ضروری تھا –

محمد رفیع کے ایک بہت پیارے گیت کے بول یاد آ رھے ھیں ——–

کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

 رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 26  مارچ 2019

میرا میانوالی——-

———مقصد اپنی نمائش نہیں ۔ یہ ایک گفٹ ھے جو ترگ کے ٹیچر
ظہور احمد صاحب نے مجھے بھیجا ھے – ان کی محبت اور کمال خطاطی کو سلام –

بشکریہ-منورعلی ملک– 26  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

بیروں کے علاوہ یہ موسم چنے کی فصل کا بھی موسم عروج ھوتا ھے – چنا ویسے تو تھل ( ریتلی زمین) کی فصل ھے، مگرھمارے داؤدخیل کے تھل میں بھی تھوڑا بہت چنا کاشت ھوتا تھا – چنا بہت کارآمد فصل ھے – اناج کے علاوہ اس کے سبز پتے ساگ کے طور بھی ( پلی دا ساگ) پکائے جاتے ھیں – پلی داساگ بہت لذیذ سالن ھوتا ھے- چنے کی پھلیوں میں سے سبز چنے نکال کر کچے بھی کھائے جاتے ھیں – ان سے بہت مزیدار سالن بھی بنتا ھے – چنے کی سبز پھلیوں کو ڈڈے کہتے تھے – شاید اب بھی کہتے ھوں -بچپن میں ھم ایک واردات کیا کرتے تھے جسے تراڑا کہتے تھے – چنے کے پودوں کو اگ پر بھوننے کاعمل تراڑا کہلاتا ھے – بھنی ھوئی پھلیوں میں سے گرما گرم دانے نکال کر کھانے کا ایک اپنا مزا ھوتا ھے

تراڑا لوگ گھروں میں بھی بناتے تھے – مگر ھمارا تراڑا واردات ھی ھوتا تھا کیونکہ یہ ھم کسی کھیت سے چوری کیے ھوئے پودوں سے بناتے تھے (امید ھے اللہ تعالی یہ ننھی منی وارداتیں معاف کر دے گا) – گھر والوں کو چوری کی خبر ھوجاتی تو مارپٹائی کا خدشہ تھا – اس لیے ھم گھر کے پچھواڑے میدان کے کسی کونے میں منہ کالا کرلیتے تھے – منہ کالا اس لیے کہ راکھ میں سے چنے کی پھلیاں چن کر ان سے دانے نکال کر کھاتے ھوئے ھاتھ اور منہ تو کالے ھو ھی جاتے تھے-

پہلی دفعہ ھم تین چار کزن یہ واردات کر کے آئے تو کالے ھاتھ کالے منہ چوری کے گواہ بن گئے – ٹھیک ٹھاک بے عزتی ھوئی – پھر ھم سیانے ھو گئے – واردات کے بعد کسی کنوئیں پر جا کر منہ ھاتھ اچھی طرح دھونے کے بعد اچھے بچے بن کر گھر واپس پہچنتے تھے-
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 27  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ھے ——–

اخبار کی طرح کیا فیس بک پوسٹ کی زندگی بھی صرف ایک دن ھوتی ھے ؟ کیا لوگ واہ واہ کرنے کے بعد بھول جاتے ھیں کہ لکھنے والے نے کل کیا کہا تھا ؟<ایسا ھونا تو نہیں چاھیے – اگر پوسٹ میں جان ھو تو وہ پڑھنے والے کے دل کو ضرور چھوتی ھے —- اسے ماضی کی اچھی روایات یاد دلا کر اپنے حال سے موازنہ کرنے اور مستقبل کا لائحہ ء عمل مرتب کرنے کی دعوت دیتی ھے – اس لیے لکھنے والوں کو چاھیے کہ ایک دن کی واہ واہ سے خوش ھونے کے بعد اپنی پوسٹس کو ردی کی ٹوکری میں نہ ڈال دیں ، بلکہ انہیں کتابوں کی شکل میں مرتب کر کے چھپوادیں – تاکہ جو لوگ یہ پوسٹس پڑھ چکے ان کے علاوہ دوسرے لوگ ، بلکہ آئندہ نسیلں بھی مستفید ھوتی رھیں –
کتاب چھپوانا آسان کام نہیں ، مگر نیت نیک ھو تو اللہ وسائل مہیا کر دیتا ھے – اپنا تو یہی ایمان ، یہی نیت ھے – کوشش میں کررھا ھوں ، دعا آپ کرتے رھیں کہ زندگی کی اداس ، تاریک راھوں پر آنے والوں کے لیے کچھ چراغ روشن کر جاؤں –

الحمدللہ، پوسٹس لکھنے کا سلسلہ اب چوتھے سال میں داخل ھو چکا ھے – بہت سے موضوعات ذھن میں ھیں – بعض اوقات دوتین سال پہلے کی پوسٹس کے موضوع پر ایک بار پھر ، نئے انداز میں لکھ دیتا ھوں ، کہ جولوگ پہلے یہ پوسٹس نہ پڑھ سکے وہ بھی پڑھ لیں – شاید کچھ لوگ لکھنے کا فن یا جینے کا ھنر ان پوسٹس سے سیکھ لیں –
وماعلینا الا البلاغ ——

رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 28  مارچ 2019

میرا میانوالی—————-

کنؤاں کلچر بھی ھمارے ھاں تو کب کا ختم ھو گیا – اب اگر کوئی تیڈے کھوہ تے آئی آں والا گیت سنے توسمجھ ھی نہ سکے گا کہ یہ کھوہ کیا بلاھے –

کنؤاں جسے ھماری زبان میں کھو khoo کہتے ھیں بارانی علاقوں میں آبپاشی کا ذریعہ ھؤا کرتا تھا – انگلش میں اس کا نام Persian Wheel اس کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ کنؤاں ایرانیوں کی ایجاد تھا –

جن لوگوں نے کنؤاں نہیں دیکھا انہیں تو کنوئیں کے اس بیان کی ککھ سمجھ نہیں آئی ھوگی – اس لیے پکچر بھی دے دی ھے – پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو آپ کی قسمت –
کنؤاں محض آبپاشی کا ذریعہ ھی نہیں ۔ ھمارے کلچر کا ایک مکمل باب تھا – گھروں میں پینے کے لیے پانی بھی کنوئیں سے گھڑوں مین بھر کر لاتے تھے- بچپن میں ھم نہاتے بھی کنوئیں پر تھے – کنوئیں سے بہت سی رومانوی (عشق و محبت) کی داستانیں بھی وابستہ تھیں –

یہ قصہ بھی سنا تھا کہ ھیر کنوئیں سے پانی لینے گئی تو رانجھا وھاں پھر رھا تھا – ھیر نے کہا ذرا کنواں گھیڑدو(چلادو) – یہ کوئی آسان کام نہ تھا – دو بیلوں یا ایک اونٹ کا کام تھا – مگر حکم تھا – رانجھے نے بہر حال تعمیل کرنی تھی – اس نے پورا زور لگا کر کنوئیں کی مشینری کو گھمانا شروع کیا – ھیر پانی بھر کر چلی گئی ، مگر یہ پاگل پھر بھی کام میں لگا رھا ، کیونکہ رکنے کا حکم ملتا تو رکتا – بالآخر تھکاوٹ سے بیہوش ھو کر گر پڑا —– واللہ اعلم —-

رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک–30  مارچ 2019

میرا میانوالی- —-

— کالاباغ -بشکریہ ارشد ندیم عظیم خیل

بشکریہ-منورعلی ملک– 31  مارچ 2019

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top