میانوالی میں بسنے والا میانوالی مِٹنے نا پائے.
تحریر: محمد قمر الحسن بھروں زادہ
میانوالی جہاں جھامبرہ، پہوڑانوالہ، سندھ کنارے، شہباز خیل، سہراب والا اور بٹیاں کی درمیانی آبادی کا نام ہے وہیں اسکی حدود شادیہ، ترگڑانوالہ، ٹبہ مہربان شاہ، چشمہ، کُنڈل، درہ تنگ، شکردرہ، مسان اور فخر آباد سے بھی شروع ہو جاتی ہیں۔لیکن ان جغرافیائی حدود کے علاوہ میانوالی ایک مکمل روایات اور جذبات کا نام بھی ہے۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں ایک میانوالی وہ ہے جس میں ہم سب بستے ہیں اور ایک میانوالی وہ ہے جو ہمارے دلوں میں بستا ہے۔
میانوالی سے باہر یہاں کے لوگ میانوالین کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور پھر ان کی مثال یک جان دو قالب کی سی ہوتی ہے۔
میانوالی کی جغرافیائی حدود تو مکمل محفوظ ہیں بلکہ وہاں حفاظتی چیک پوسٹس اور مکمل حد بندی کی واضح نشاندہی موجود ہے اور کسی اور ضلع کی حدود کے تجاوز کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور اسکی حفاظت صوبائی اداروں کے ذمہ ہے لیکن میانوالی کے اندر بسنے والا میانوالی جو مکمل تاریخ، روایات، غیرت، صاف گوئی، وسائل ، مسائل اور رُجحان کا منبع ہے وہ دن بدن پریشان حال دکھائی دیتا ہے اور اسکو بچانے کی تگ و دو ہمارے ذمہ ہے۔
میانوالی کے لوگ پڑھ لکھ کر کسی اچھے منصب پہ پہنچ کر اپنے میانوالی میں رہ کر نوجوانوں کے لئے تحریک بننے کی بجائے دوسرے شہروں میں مستقل سکونت اختیار کر رہے ہیں۔میانوالی کے خوشحال اور سرمایہ دار لوگ اپنا سرمایہ میانوالی کی بجائے دوسرے علاقوں میں لگا رہے ہیں۔یہی سرمایہ کاری اپنے ہی ضلع میں کی جائے تو علاقے میں بڑھتی بے روزگاری کو بھی کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے تو وہیں معاشرے کی بہتری کے لئے نئے دہانے بھی کھولے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حنیف نیازی میانوالی ایجوکیشن فنڈ کے لئے میانوالی کے خوشحال بیٹوں اور بیٹیوں کو پکار رہے ہیں تاکہ میانوالی کے طلباء و طالبات کو پاکستان کے پڑھے لکھے ہنر مند چہرے کا حصہ بنایا جا سکے لیکن ان کی پکار پہ لبیک کہنے والے ابھی گِنے چُنے ہیں۔ میانوالی کی زرخیز اور انتہائی قابل زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی نذر ہو رہی ہے اور میانوالی کے اپنے ہی بیٹے ہی اس زمین کو اپنے وقتی مفاد کی خاطر سستے داموں میں فروخت کر رہے ہیں۔باقی اضلاع سے موازنہ کیا جائے تو وہاں جہاں زمین کے اندر پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں وہاں کی نسبت بہت ہی زیادہ کم قیمت پہ میانوالی کی وہ زمین فروخت ہو رہی ہے جسکے نیچے صاف پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں اور اس میں کندیاں، خانقاہ سراجیہ، پپلاں اور گردونواح کے اپنے لوگ سب سے آگے ہیں۔بجائے بنجر بیکار زمینیں مہنگی بیچی جاتیں قابل زرخیز اور زرعی زمین سستے داموں بیچی جا رہی ہے۔
ذوالفقار خان جہاں داؤدخیل اور اسکے گردونواح میں پرائیویٹ سیمنٹ فیکٹریوں کے قبضے میں موجود لوگوں کی متاثر ہونے والی زمین کو واگزار کرنے کی بات کر رہے ہیں وہیں لوکل آبادیوں کے لئے سیمنٹ انڈسٹری میں کوٹہ کو فعال کرنے کے لئے قلم سے جنگ لڑ رہے ہیں تو وہیں داؤدخیل اور گردونواح میں آلودہ پانی کی وجہ سے گردے کی بیماریاں روٹین بنتی جا رہی ہیں۔حالیہ سی پیک روٹ میں دریائے سندھ پہ بننے والے نئے پل میں مقامی آبادی کے لئے راستہ رکھنے کے لئے تاکہ میانوالی اور عیسی خیل کے درمیان فاصلے مٹائے جا سکیں، مطیع اللہ خان مجاہد کی آواز کی ضرب کانوں میں پڑ رہی ہے تو وہیں ابراہیم خٹک اور زاہد عباس کا قلم خٹک بیلٹ اور بنی افغان کے لوگوں کے پینے کے صاف پانی کے لئے خون کے آنسو بہا رہا ہے۔
کچہ کالو کا پورا گاؤں پنجاب اور فیسکو سے بجلی کنکشن کے لئے سسک رہا ہے تو عطاء محمد شاد تلوکر یونین کونسل کھولہ میں رورل ہیلتھ سنٹر اور ہسپتال اور دیگر ضروری سہولیات کے لئے اپنی زمین اور حتی کہ مکان تک دینے کے لئے بیقرار ہیں۔
کالاباغ ڈیم کا ملکی منصوبہ جہاں زیرِالتواء پڑا ہے وہیں شیر شاہ سوری روڈ جو جرنیلی روڈ سے معروف ہے وہ کندیاں سے لیکر علووالی تک کسی کلوز کوریڈور کے ذریعے کُھلنے کا منتظر ہے۔
خادمِ موچھ مولوی عظمت اللہ خان کے پاس کسانوں کے مسائل کے انبار موجود ہیں تو وہیں پانی کی اپر لفٹ سکیمیں کسی نا کسی تنازعے کا شکار رہتی ہیں حالانکہ دنیا میں بہتے پانی کی ہی طاقت سے پانی کو اوپر منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔
تھانہ چکڑالہ کے لوگ تحصیل کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں تو انھیں میانوالی سے نکال کر داؤدخیل میں شامل کرنے کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔اور داؤدخیل تحصیل کا پلندہ بھی ابھی کاغذات میں کہیں دب چکا ہے۔
ملک سعید نٹال شادیہ کے ڈیرہ جات کے لئے حقوق مانگ رہے ہیں تو ہرنولی کا سارا زرخیز تھل سفیدے کے جنگل میں تبدیل ہو رہا ہے اور زیر زمین پانی کا لیول خطرناک حد تک گرنے جا رہا ہے۔
یونین کونسل گجرات جو لمبائی اور چوڑائی کے حساب سے براعظم امریکہ کے ملک چِلی سے مماثلت رکھتی ہے کو ابھی تک تعلیم کی مکمل سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
جہاں قتل و غارت کا بدنما دھبہ ہم اپنے چہرے سے ابھی تک نہیں مٹا سکے وہیں حالیہ وانڈھی گھنڈ میں ہونے والا ایک کم سن طالبہ سے قانون کے رکھوالوں کی اجتماعی زیادتی کا واقعہ سننے میں آیا ہے۔اسطرح کے واقعات کی تو ہمارے میانوالی کے غیرت مند معاشرے میں سرے سے گنجائش بھی نہیں ہے اور اگر اس سانپ کا سر بِل سے نکلتے ہی نہ کچلا گیا تو اسکا زہر ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کر جائے گا۔
سوامی، پاکستان نیشنل سوسائٹی،سانجھ اور موساز جہاں معاشرے میں بہتری کے لئے کام کر رہی ہیں وہیں علاقائی لیول پہ میانوالی فرسٹ چینل اور موجود کئی تنظیمیں اور سینکڑوں لوگ بھی شعور اجاگر کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔
چاپری جیسے علاقوں میں پولیس نوجوانوں کا منشیات فروشوں کے تعاقب میں شہید ہو جانا قابل افسوس ہے وہیں میانوالی کے دامن پہ منشیات اور نا جائز اسلحہ کی سمگلنگ کے لئے گیٹ وے کے طور پہ استعمال ہونے کا داغ بھی صاف کرنا باقی ہے۔
جہاں ہمارے بچے غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے سکول اور تعلیم چھوڑ رہے ہیں وہیں گلوکار، اور کھسرے ایک ایک پروگرام سے لاکھوں کما رہے ہیں۔
جہاں میانوالی کے شاعر حضرات سرائیکی بیلٹ میں بالخصوص اور پنجاب میں بالعموم اپنا لوہا منوا رہے ہیں وہیں میانوالی کی اپنی اصل زبان کونسی ہے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔
علووالی اور دوآبہ کے قصبے پہ دریائے سندھ کے کٹاو کی تلوار لٹکی ہوئی ہے تو وہیں چشمہ میگا پروجیکٹ کے متاثرین بھکر اور جوہر آباد کی کچہریوں میں اپنی الاٹ شدہ زمینوں کی قانونی ملکیت حاصل کرنے کے لئے خوار ہو رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف میانوالی ابھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قانونی صفحوں میں جگہ نہیں لے پائی جبکہ چوبیس سو طالبعلموں نے اپنے مستقبل کی توقعات لگا رکھی ہیں۔
جناح بیراج سے چشمہ بیراج تک ہزاروں ایکڑ زمین ملکی و ضلعی وسائل میں اضافے کی بجائے لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ اور وجہ عناد بنی ہوئی ہے۔
کالاباغ کی نمک کی کانوں میں غریب مزدوروں کا استحصال جاری ہے تو کوٹ چاندنہ اور اسکے گردونواح میں جوے کا دھندا عروج پہ ہے۔
غنڈی، سوانس اور بھریوں والا میں واٹر سپلائی سکیمیں مسئلہ کر جاتی ہیں تو کہیں سرے سے ایسی سکیمیں ہی موجود نہیں۔
عمرہ کرنے والے بزرگ، عورتوں اور تمام لوگوں کو بائیو میٹرک ویریفیکشن کے لئے جہاں جوہر آباد جانا پڑتا ہے تو وہیں بہتر اور بروقت علاج کے لئے اسلام آباد اور راولپنڈی۔
میانوالی بہت خوبصورت ہے یہاں مسلکی رواداری بھی ہے اور نسلی رواداری بھی۔ اور ہمارے انداز، احساسات، جذبات اور روایات سے چھلکنے والا میانوالی اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے اور اسی وجہ سے ہم پاکستان بھر میں ممتاز ہیں اور اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔لیکن اب جدید دور ہے ہم صرف روایات اور عادات کے سہارے زیادہ عرصہ اپنی پہچان اور امتیازی حیثیت برقرار نہیں رکھ پائیں گے ہمیں اپنے بارے میں خود سوچنا پڑے گا۔
سر ظفر نیازی کا یہ مشورہ بہت قیمتی ہے کہ میانوالی کے اچھے لوگوں کو اپنے تئیں اچھا کام کرنے کے ساتھ ساتھ آپس میں مل بیٹھنا ہو گا اور انفرادی کے ساتھ اجتماعی طور پر پہ بھی فعال ہونا ہو گا۔ہمیں اپنے مسائل سے آگاہ ہونا ہو گا اور اپنے مسائل کی ضلعی، صوبائی اور وفاق لیول پہ نشاندہی کرنا ہو گی اور انکے ممکنہ حل بھی پیش کرنا ہوں گے وہیں اپنے وسائل کی حفاظت بھی یقینی بنانا ہو گی ۔
میانوالی کی دھرتی کو میانوالی کے اچھے بیٹوں کی ضرورت ہے چاہے وہ استاد ہیں یا ڈاکٹر، چاہے وہ سرکاری ملازمین ہیں یا کاروباری حضرات چاہے وہ شاعر ہیں یا ادیب، چاہے وہ قانون کے رکھوالے ہیں یا سیاستدان چاہے وہ میانوالی میں مقیم ہیں یا میانوالی سے باہر انھیں میانوالی کی تقدیر کے فیصلوں کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینا ہو گی۔
ہمارے باہمت نوجوانوں کو کسی کا آلہ کار بننے کی بجائے اپنے لئے، اپنے خاندان کے لئے، اپنے میانوالی کے لئے اور اپنے پاکستان کے لئے میدانِ عمل میں اترنا ہو گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top