وہ چلے گئے، میں ابھی وہیں کھڑا ہوں۔

تحریر: محمد قمر الحسن بھروں زادہ

 

            کل شام میانوالی سے واپس گھر آتے ہوئے میانوالی ٹول پلازہ پہ سات بج کر چھپن منٹ پہ میں نے امی جان کو میسج کیا کہ امی جان میں آدھے گھنٹے تک گھر پہنچ جاوں گا۔ان شاء اللہ

امی جان میسج نہیں پڑھ سکتیں لیکن سکرین پہ جیسے ہی میرا نام چمکے گا وہ فورا چونک اٹھیں گی اور اپنی بہو یا بیٹی سے پوچھیں گی کہ پڑھ کہ بتاو حسن کیا کہہ رہا ہے کب تک آئے گا؟

اہلیہ یا بہنوں کو میسج کرنے کا فی الحال کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھیں جب گھر کے کاموں سے فرصت ہو گی تب جا کر میسج پڑھیں گی۔

اندھیرا چھانے لگا تھا اور ایم ایم روڈ پہ گاڑیوں نے اپنی ہیڈ لائٹس آن کر رکھی تھیں۔

  میں جونہی کندیاں-سرگودھا ریلوےلائن کراسنگ پہ پہنچا تو سڑک کی دوسری جانب مجھے ایک نوجوان موٹر سائیکل کو کھینچتا ہوا پیدل چلتا نظر آیا۔

اسکے ساتھ ساتھ پیچھے ایک عورت بھی پیدل چل رہی تھی۔عورت کابلی برقعہ جسے عرف عام میں شٹل کاک برقعہ بھی کہتے ہیں میں ملبوس تھی۔

امی جان نے تقریبا پچیس سال یہی برقعہ پہنا ہے تو اس لیے اس برقعہ کو دیکھتے ہی خاصی انسیت ہو جاتی ہے۔البتہ اب تو امی جان گھر سے نکلتے ہوئے صرف بڑی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔

میں نے بائیک روک کر کنارے کھڑی کی اور دونوں اطراف دیکھ کر سڑک پار کر کے ان تک پہنچ گیا۔

نوجوان پسینے سے شرابور تھا اور عورت نے بھی گرمی کے مارے منہ سے برقعہ ہٹایا ہوا تھا ۔قوی گمان تھا کہ وہ نوجوان کی والدہ تھیں۔

میں نے کہا بھائی جان پٹرول چاہیے؟

اس نے کہا کہ نہیں بائیک پنکچر ہو گئی ہے۔

کہاں پنکچر ہوئی ہے؟

کندیاں موڑ۔

آپ ایک کلومیٹر پیدل چل چکے ہیں۔

کہا جی ہاں،  کیا کریں؟

جانا کہاں ہے؟

میانوالی جانا ہے۔نوجوان نے جواب دیا۔

میں نے کہا اب تو پنکچر کی دکان آپ کو نواحی گاوں ٹبی یا پھر ہیڈ پکا ملے گی۔

پانچ کلومیٹر ہیں ایسے تو بات نہیں بنے گی۔

میں نے جانا تو گھر تھا میں نے آدھے گھنٹے تک پہنچنے کا میسج بھی کر دیا تھا لیکن آپ ایسا کریں کہ پچھلے ٹائر کی ہوا والی نوزل کا رم کے ساتھ والا نٹ ڈھیلا کر لیں تاکہ ٹیوب سے نلی نا اکھڑے۔

آپ اپنی بائیک پہ جتنا ممکن ہو سکے آگے ہو کر سوار ہو جائیں اور آہستہ آہستہ چلائیں میں خالہ جان کو اپنی بائیک پہ بٹھاتا ہوں اور آپ لوگوں کو ہیڈ پکہ تک چھوڑ آتا ہوں۔اس جنگل میں مدد کا یہی طریقہ ہے۔

نوجوان نے میری طرف دیکھا اور پھر انکار کر دیا اور چلنا شروع کر دیا۔

میں نے سوچا یار کیا کروں۔

اور ان کی مدد کا کیا حل کیا جائے۔

کوئی حل ذہن میں میں نہیں آ رہا تھا۔مجھے پتا تھا کہ نوجوان اپنی والدہ کو میرے ساتھ بٹھانے سے کترا رہا ہے۔

کیا کروں۔کیا کروں۔۔۔

وہ مجھ سے دور نکل گئے تھے۔

پھر ایک حل بجلی کی مانند میرے ذہن میں چمکا۔

میں نے کہا حسن یار

وہ تم پہ اعتماد نہیں کرتے تو تم ان پہ اعتماد کر کے دیکھ لو۔

میں نے سڑک پار کی ، بائیک کو موڑا اور تیز چلا کر پھر ان تک پہنچ گیا۔

نوجوان نے مجھے دوبارہ دیکھ کر ناگواریت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جی بھائی؟

میں نے کہا کہ ایسے کر لیتے ہیں۔آپ دونوں میری بائیک پہ بیٹھ کر ہیڈ پکہ پہنچ کر میرا انتظار کرو میں آپکی بائیک لیکر آتا ہوں۔

میں یقین دلانے کے لئےاپنی بائیک سے اتر گیا۔

لیکن نوجوان کے جواب نے مجھ پہ حیرت کا پہاڑ توڑ  دیا کہ نہیں بھائی شکریہ۔

میں نے ہیلمٹ اتارا کہ وہ مجھے دیکھ لیں شاید وہ میرے چہرے پہ پھیلی معصومیت اور میری آنکھوں میں چبھے درد کو محسوس کر لیں اور مدد لینے پہ قائل ہو جائیں لیکن  وہ تو چل دیے۔ ہاں یار سچی میں چل دیے۔

میری اس پیشکش نے اسکی والدہ کو سوچنے پہ مجبور کیا لیکن نوجوان بے نیازی سے چل دیا۔

میں  پیچھے سے گڑگڑایا کہ بھائی جان رات ہے، فاصلہ زیادہ ہے میری بات مان جاو

اس نے کرختگی سے کہا بھائی تم جاو ہم چلے جائیں گے۔

پسینے سے شرابور نوجوان موٹرسائیکل کھینچے، ہانپتی ہوئی ماں کو اپنے پیچھے تیز تیز چلنے کا کہتے ہوئے پھر سےچل دیا۔

جولائی کی حبس بھری رات، تیز ہیوی ٹریفک، جنگل، آبادی سے ہر طرف سے کوسوں دور ،ہانپتی ہوئی والدہ، پنکچر موٹر سائیکل کا بوجھ بھی گرمی سے بد حال نوجوان کو مجھ پہ کسی بھی طرح سے اعتماد کرنے پہ قائل نہیں کر سکا۔

وہ چلے گئے اور میں کچھ لمحے ساکت کھڑا رہا۔حالات اس قدر بھیانک رخ اختیار کر چکے ہیں کہ پہلے پہل اجنبی کو مدد دینے کی روایت نے دم توڑا اب اجنبی سے مدد لینے کی روایت بھی آخری سانس لے رہی ہے۔

یہ بد اعتمادی کی فضا ہماری ہی پیدا کردہ ہے۔ چوری،وعدہ خلافی،دھوکہ،اغوا،نوسربازی،ڈاکہ اور بد دیانتی  جیسے ہمارے انفردای عوامل نے اجتماعی طور پہ ہمارے معاشرے کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ انہی عوامل نے ہمیں اس دوراہے پہ کھڑا کر دیا ہے کہ ہم مدد کی ہر طرح کی پیشکش کو دھوکے کے خوف سے بے اعتباری کا رویہ اپنا کر یوں چل دیتے ہیں جیسے کل وہ نوجوان اور اسکی والدہ چل دیے۔

ان ماں بیٹے کا مجھ سے مدد نہ لینا کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔یہ معاشرے میں ہمارے کردار پہ ایک زوردار طمانچہ ہے۔

یہ ہمارے نام نہاد حساس معاشرے کا پوسٹمارٹم ہے۔یہ ہماری کوتاہیوں کا نوحہ ہے۔

وہ مضطرب تھے۔ان کی بائیک پہ کوئی سامان بھی نہیں تھا۔انکے پاس چائنہ کی بائیک تھی ۔ہنڈا 125 کے ساتھ عارضی سودا کسی بھی طرح ان پہ گراں نہیں تھا۔گراں تھا تو معاشرے کی وہ دلدل تھی جس میں ہم سارے دھنس چکے ہیں۔وہ مجھے جانتے نہیں تھے۔ان کے ساتھ میرا کوئی لین دین نہیں تھا۔انکا میرے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا۔جھگڑا تھا تو ان کا معاشرے میں پھیلائی ہماری بددیانتی سے جھگڑا تھا۔

کوئی چیز آڑے نہیں آئی۔آڑے آیا تو گرتا ہوا ہمارا میعار آڑے آیا ۔ہمارے انفرادی رویوں نے ہمارے سوچنے کے اجتماعی انداز کو للکار دیا ہے۔موقع پرستی جیسی عادت نے ہمیں خود سے ادھیڑ کے رکھ دیا ہے۔ہماری آبادیاں پھیلتی جا رہی ہیں لیکن ہمارے اندر انسانیت سکڑ رہی ہے۔ہماری مشرقی اور اسلامی روایات کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔

وہ دونوں چلے گئے لیکن میں ابھی بھی وہیں کھڑا ہوں۔ہم سب ابھی بھی وہیں کھڑے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top