AE MERE SAHIB OCTOBER 2016

اے میرے صاحب   – اکتوبر 2016

اے میرے صاحب
 Image may contain: 1 person, sitting

اے میرے صاحب
غم حسین میں رونا بھی اک سعادت ہے
اگر ہو روح بھی شامل تو پھر عبادت ہے   – 2  اکتوبر   2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, hat and closeup

محرم کا چاند نظر آگیا ہے فکر حسینت سے وابستہ تمام انسانوں کو زکر حسین کے یہ ایام مبارک ہوں مبارک اس لییے کے یہ. ایام درحقیقت انسان کی شخصی روحانی آزادی کے ایام ہیں اگر حسین خاموش رہتے تو خیر کی خوشبو دم توڑ دیتی اور یزیدیت کا زہر ہماری. روح میں اتر جاتا جو اب ہمارے اس پاس موجود رہتا ہے
ہم جب چھوٹے تھے تو محرم کا چاند ابھی پہاڑوں کی آغوش میں یا پھراسمان کے بازوئوں میں ہوتا تھا کے ماحول پہ افسردگی چھا جایا کرتی تھی ہر ایک شخص اپنے اپنے انداز میں زکر حسین کرتا نظر آتا کوی غم حسین میں اپنی پلکوں پہ ساون سجا لیتا تو کوی اپنے ہاتھوں کو اپنی چھاتی پہ مارتے ہوے زکر حسین کا وظیفہ مکمل کرتا تھا مگر دل سب کے مسافران کربلا کے غم میں بےقرار ہوتے تھے اعتراض نام کی کوی شیئے نہیں ہوتی تھی اعتراف کی کی فضا میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ مطمعن ہوتا تھا ہمارے شہر میں ان دنوں دو اما بارگاییں تھیں ایک پرانے شہر میں اور ایک بازار کے پاس
جہاں مجالس ہوا کرتیں تھیں اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ایرانیوں کے چند خیمے تھے یہ. مزدور پیشہ لوگ تھےے تقریباً چالیس پچاس کے قریب خاندان تھے محرم کے ایام میں یہ مجالس کا اہتمام کیا کرتے تھے ہم بچے تھے مگر ان کی مجالس میں ضرور جاتے تھے فارسی زبان ہم نہیں جانتے تھے مگر ان کے لب ولہجے سےاندازہ ہوجاتا تھا کے مقرر اس وقت میدان کربلا کے کس منظر کو پیش کر رہا ہے مجلس کے اختتام پہ. یہ لوگ لنگر بھی تقسیم کرتے تھے جو بہت لذیذ ہوتا تھا
شہر والی امام بارگاہ میں رش زیادہ ہوتا تھا زاکر بہت اچھا ہوا کرتا تھا دوران تقریر وہ یہ. جملہ زور کہتا تھا
اے میرے شیعہ اور سنی بھائیو صلوات پڑہو محمد وآل محمد پہ
سب لوگ اس محبت سے صلوات پڑہتے کے زبان
دل ایک ہوجاتے اور حقیقت بھی یہی ہے کے ان دنوں دل توڑنے نہیں جوڑنے کا رواج تھا
یہ زاکر صاحب ایک خاص مقام پہ پہنچتے تو پھر ایک نوحہ پڑہتے تھے
.. گئیے پھل شگناں دے رل شگناں کملاے
یہ نوحہ دلوں کے لیے جنجر کا کام کرتا کیا شیعہ کیا سنی ہر ایک اپنا دل نکال کے تصوراتی اور روحانی طور پر امام حسینن کے قدموں میں رکھ دیتا بعض لوگ شدت غم سے بہوش ہوجاتے وہ زمیں پر تڑپتے رھتے اور ساتھ کہتے رہتے
شاہ حسین واہ حسین واہ حسین شاہ حسین
اور پھر مجلس کا اختتام ہو جاتا
شہر کی امام بارہ میں بھی بہت رش ہوتا تھا یہھاں سادات کے گھر تھے لوگ ان کے ہاں ضرور جاتے اور ایسا لگتا تھا کےے جیسے ابھی ابھی واقعہ کربلا پیش آیا ہے اور امت آل نبی اولاد علی کے خاندان کے گھروں جاکے اپنی صفائی دے رہی ہے کے ہم لعنت بھیجتے ہیں یزید پلیت پر اور سلام بھیجتے ہیں آل رسول پر
ان دنوں بہت بھای چارہ تھا اختلاف تھے مگر حسین پر سب کا اتفاق تھا دسویں محرم کو اہل سنت کے اجتماع میں ایک معززز سید سیاہ کپڑے پہن کے اختتام تک بیھٹا رہتا تھا اور اس طرح ایک معزز سنی عالم شیعہ حضرات کی مجلس میں موجود ہوتا تھا یہ برداشت اور محبت کا زمانہ تھا
مگر اب ماحول بدل گیا ہے بہت مختصر مگر ایک منفی سوچ نے ہمیں بہت سخت دل بنادیا ہے ہمیں اپنے دلوں کو نرم کرنےے کی ضرورت ہے ہمیں اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے ہمیں مشترک پہ ایک دوسرے کے ساتھ جینا چاہیے اور.. مختلف.. پہ زور نہیں دینا چاہیے
ایک عجیب بات بتانا چاہتا ہو ں میرا ایک دوست ہے ایک دن میں ایک امام بارگاہ میں گیا تو وہ گیٹ پہ بندوق لیے سیکورٹیی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا مجھے بہت حیرت ہوی تو پوچھا تم ادہر کدہر؟
تم تو……………
اس نے پرنم آنکھوں سے کہھا
کیا کسی عیسائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کے وہ مولا حسین سے محبت کرے؟  3  اکتوبر   2016

Image may contain: 1 person

اے میرے صاحب

No automatic alt text available.
آج فیس بک کی تلاشی لیتے ہوے اچانک اپنے بہت پیارے دوست اور بہت خوب صورت شاعر جناب تنویر حسین فیاض صاحب کی پوسٹ کردہ یہ تصویر نظر سے گزری تو ہم رک گئے اور سوچنے لگے کے بادلوں میں یہ گھوڑ سوار کون ہے یا بادلوں کو یہ شکل کس نے دی ایک تو یہ کے کسی ذہین نے اپنی کارہ گری سے یہ فن پارہ بنایا ہے اور اگر یہ. کسی انسان کے دماغ کا کمال نہیں تو پھر بادلوں نے یہ شکل کیسے از خود کیسے اختیار کرلی پھر یہ خیال آیا کے یہ قدرت کے فن کا ایک نمونہ ہو سکتا ہے کے وہ مالک ارض سما بھی روزانہ اپنا کوی نہ کوی رنگ دکھاتا رہتا ہے
یہ. سوچ کے ہم دوبارہ پوسٹ کیے اظہاریہ کی. طرف گییے کے ممکن ہے انہھوں نے کچھ لکھا ہو
مگر انہھوں نے بھی ایک سوالیہ نشان کے ساتھ پوسٹ کی ہے
ہم یہ نہیں کہھتے ک آپ اس تصویر کو بہت متبرک اور محترم سمجھتے ہوے چومنا شروع کردیں مگر یہ فن پارہ لائیقق تعریف تو بہرحال ہے
آئیے زرا ذھن لڑاییے اور بنانے والے فنکار تک پہنچنے کی کوشش کییج = 
6  اکتوبر  2016

؛ے میرے صاحب

Image may contain: 1 person
ہماری بلبل پیاری بلبل جناب معظم عباس سپرا نے نشاندہی کی ہے بعض لوگوں نے ہمارےنام کی فیک آی ڈی بنای ہوی ہیں اور ظاہر کے یہ لوگ ان کے زریعے منفی مواد پوسٹ کرتے ہیں جو کے غیر اخلاقی عمل ہے
ہم ایسے لوگوں کا راستہ بند نہیں کرسکتے نہ کسی منفی ذھن کو آسانی کے ساتھ مثبت بنایا جاسکتا ہے فیس بک ایک سمندرر کی طرح ہے اور اس میں جہاں انسانی. دل ودماغ کے لئیےصحت مند آبی مخلوق موجود ہے وہاں گندے جوہڑوں میں پلنے والے شیطانی جانور بھی موجود ہیں جو اپنے شر کو مختلف طریقوں سے فیس بک پر پھیلا تے رہتے ہیں
ہم اپنے ساتھ جڑے ہوئے احباب کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ محتاط رہیں اور کسی منفی پوسٹ یا رابطے کو آگے بڑھانے سےے پہلے ہم سے رابطہ ضرور کرییں 03312910101 میرا رب آپ کو عزت دے اور مزید عزت دے آمیںن –

اے میرے صاحب

ابھی جب اللہ نے جمعہ شریف پڑہنے کی توفیق عطا فرمای گھر آے تو ہمارے بیٹے

عدنان صاحب ایک نیے موبائل کی تعریف کر رہے تھے ہم نے کہھا اس موبائل میں بھی کوی کمال ہے

اس نے کہھا بابا اس کا کمال یہ ہے کے بندہ جیسا ہوتا ہے ویسا نظر آتا ہے آئیے آپ کو کمال دکھاتے ہیں

تو آپ بھی دانی کے موبائل کا کمال ملاحظہ فرمائیں

دیکھنے میں کیا ہرج ہے؟   7  اکتوبر  2016

Image may contain: 1 person, closeupImage may contain: 1 personImage may contain: 1 person, standing

اے میرے صاحب
ہمارے بہت پیارے دوست اور تحریک انصاف کے ضلعی صدر ایم این اے جناب امجد علی خان نے آج میانوالی میں ایک اہم.. پارٹی اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں ہماری شرکت پہ بہت زور دیا گیا ہے امجد علی خان کے ساتھ ہمارے بہت قریبی مراسم ہیں ان کے بابا ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ ہماری بہت. طویل سیاسی رفاقت رہی امجد علی خان نے اپنی اسی سیاسی رفاقت کو مد نظر رکھتے ہوے ہمیں تحریک انصاف میانوالی کے کلچر ونگ کا سیکرٹری نامزد کیا ہے جو کہ ہمارے لیے عزت کی بات ہے
آج ہم نے اجلاس میں شرکت کرنی تھی مگر پہلے سے طے شدہ ایک انتہائی نجی مصروفیات کی وجہ سے باوجود کوشش کے شریک نہیں ہو سکیں گے مگر ہم اجلاس میں کیے گییے تمام فیصلوں کے پابند ہوں گے
بہت سے احباب نے ہم سے یہ..کروڑ.. روپے کا سوال کیا ہے کے ہم نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟
ہم انشاءاللہ جلد اس سوال کا جواب دییں گے
ہم بطور سیکرٹری کلچر ونگ کو مضبوط بنائیں گے جو کے نہ صرف میانوالی بلکہ پورے پاکستان میں ایک مثالی تنظیمم ہوگی اس سلسلے میں احباب سے مشاورت جا ری

ہم جناب امجد علی خان اور ان کے مشاورت کاروں کے بہت مشکور ہیں

اور عمران کے قافلے میں شامل ہونے پر بہت خوش ہیں

اے میرے صاحب
پاکستان اور پاکستان سے باہر کے مہربان دوست ہمارے پی ٹی آی میانوالی کے کلچرل ونگ کے سیکرٹری بننے پر جہھاںں خوش ہیں وہاں ان کی یہ راے بھی ہے کے یہ عہدہ ہماری شخصیت سے میل نہیں کھاتا ہمیں بڑے عہدے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا
یہ احباب کی راے ہے
مگر اس کے برعکس ہماری راے یہ ہے کے سیاسی طور ہم ابھی نوآموز ہیں ہماری سیاسی خدمات سے ہی ہمارے قد کاٹھھ میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ہمارا سیاسی کردار ہی ہمارے مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے
سو اس حوالے سے احباب کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
محبتوں کا شکریہ –
8  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب
جناب حضرت امام حسن وحسین. ع…….. کے مراتب بہت عظیم الشان ہیں ان کے مراتب کے بیان میں نہ صرف یہ کےے احادیث مبارکہ موجود ہیں بلکہ بہت مستند روایات بھی تاریخ اسلام میں بہت نمایاں ہیں ان دونوں شخصیات کا پہلا شرف یہ کے یہ نواسہ رسول ہیں دوسرا شرف یہ کے رسول اللہ.ص نے انہیں اپنے بیٹے قرار دیا تیسرا شرف یہ کے یہ جناب حضرت علی کرم اللہ وجہ کے فرزند ہیں جن کے بارے میں فرمایا رسول اللہ ص……
نے کے علی کے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے چھوتا شرف یہ کے یہ رسول اللہ.. ص.. کی جان جگر بیٹی کے بیٹے ہیں
ان دونوں شہزادوں کے حوالے سے دیگر حوالوں کوبھی لکھا جاسکتا ہے مگر یہ جو چند شرف بیان کیے ہیں یہ شرف بھیی ایسے ہیں ک ازل سے ابد تک مثال ڈھونڈنا محال ہے
دونوں شہزادوں کا بچپن گود رسول اللہ. ص… میں گزرا آپ کے بچپن کے واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے یہ اپنےے نانا کے ساتھ کتنا پیار کرتے تھے اور نانا کا پیار بھی کتنا انمول تھا
ایک دن جناب امام حسین کھیلتے کھیلتے مسجد میں آگیے رسول اللہ. ص.. منبر پہ خطبہ جمعہ پڑھ رہے تھے خطبہ کےے حوالے سے حکم یہ ہے کے اسے ایسے سنو کے جیسے نماز پڑھ رہے ہو
رسول اللہ.. ص.. نے دیکھا ک امام حسین چلتے چلتے گر پڑتے ہیں آپ خطبہ جمعہ کو چھوڑتے ہوے منبر سے نیچے اترےے اور جناب امام حسین کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور پھر دوبارہ خطبہ پڑھنے لگے یہ ایک محبت سے بھرا ہوا عجیب منظر تھا مگر پیغام یہ تھا کے حسین کی محبت میں معمولات کو چند لمحوں کے لیے ترک کر دینا بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ ہے
جناب امام حسین جب یزید کے خلاف میدان میں اترے تو مقصد اقتدار کا حصول نہیں تھا اگر اقتدار ان کی منزل ہوتا تو پھر وہہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ میدان میں اترتے اور سب سے پہلے اس زمین پر قبضہ کرتے جہاں وہ رہتے تھے مگر ان کا مقصد امت کی رہنمائی اور یزید کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا تھا مگر یزید نے ایک مختصر قافلے کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور اپنے عمل سے تاریخ انسانی میں اپنے نام کے ساتھ لفظ. پلید.. کا اضافہ کرا لیا
کتنی حیرت کی بات ہے کے کربلا میں یزید کی. فتح کو کوی بھی زی شعور فتح ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور امام حسینن کو فاتح کربلا سمجھتے ہیں
کیوں؟
اس لیے کے جسم کو فنا ہونا ہے مگر ایک اچھی سوچ انسانیت کا درد اور حق کے پرچم کو ہمیشہ بلند رہنا ہے
یہی وجہ ہے پرچم حسین بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور جہاں بھی ظالم اور مظلوم کا ٹکراؤ ہوتا ہے مظلوم کو پرچمم حسین کے ساے میں ہی پناہ ملتی ہے
حسین صرف ہمارا امام نہیں ہے
دنیا بھر کے مظلوموں کا امام ہے
سلام اے حسین ابن علی سلام    
9 اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, sitting
ماہ محرم الحرام کی بہت اہمیت ہے ایک تو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور پھر مختلف واقعات کی وجہ سے بھی بہت اہم ہے
اللہ کریم نے جن چار ماہ کو حرمت والے ماہ کا اعزاز بخشا ہے محرم الحرام بھی ان میں شامل ہے
زمانہ جاہلیت میں بھی محرم الحرام کا بہت احترام تھا اس ماہ میں تلواریں رکھ دی جاتیں تھیں اور اگر کوی دشمن بھی گھرر آجاتا تو جان کی امان اور معافی دے دی جاتی تھی
گویا یزید پلید نے نہ صرف یہ کے اسلام کے حکم کی خلاف ورزی کی بلکہ عرب کی سابقہ تاریخ کو بھی داغدار کرڈالا جس پہ اس کے آباد اجداد بھی عمل کرتے تھے
محرم کی دس تاریخ جسے یوم عاشورہ بھی کہھا جاتا ہے آس دن جو عظیم واقعات پیش اے ان میں
1حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوے
2 حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوی
3 حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے
4حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود سے نجات حاصل ہوی
5حضرت موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل لوفر عون کی غلامی سے نجات ملی
6اسی تاریخ دریائے نیل کو عبور کیا گیا
7مصر کا بادشاہ فرعون بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہوے دریا نیل میں غرق ہوا
8حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی. دن آسمانوں پر اٹھاے گییے
9حضرت ایوب علیہ السلام اسی دن شفا دی گیی
10حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا
1 1 حضرت داؤد علیہ السلام کوتاج بخشا گیا
1 2 حضرت سلیمان علیہ السلام کو جن وانس پہ حکومت عطا ہوی
13اسی دن پہلی بارش برسی
14اسی دن ربالعزت عرش پہ تشریف لاے
اسی دن کربلا معلی میں آل رسول کے خون سے قیامت ڈھائی گیی اور قیامت بھی یوم عاشور کے دن ہوگی
ان واقعات کی روشنی میں دیکھا جاے تو یوم عاشور کا دن درحقیقت رب کے حضور گریہ کا دن ہے سو کوشش کیجے گاا کے دس محرم کو اللہ کو راضی کرنے کے لیے کوی کام کیا جاے اور کچھ نہیں تو کسی یتیم کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اس کی کفالت کا ارادہ باندھا جاے   

اے میرے صاحب

تمام احباب محبت سے گزارش ہے کے نو دس محرم الحرام کے احترام ایسی پوسٹ لگانے سے گریز کریں جس سے کسی کی دل آزاری ہو اور فرقہ واریت کو ہوا ملے یہ دن درحقیقت بہت با برکت ہیں اور سوگوار بھی سانحہ کربلا کے حقیقی پس منظر کی روشنی میں ایک دوسرے کی کردار سازی کیجے درحقیقت امام حسین کے مقاصد کیا تھے خاندان اور اپنی جان کا نذرانہ دینے کا
کا مقصد کیا تھا
کوی بھی شخص امام حسین کو کس انداز میں خراج تحسین پیش کرتا ہے اسے آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے دیجے اردگردد کے ماحول پر نظر رکھیے دشمن کو موقعہ نہ دیجے
پاکستان کے حالات کا تقاضہ ہے کے ہم اپنی حفاظت کا خود بندوبست کریں دشمن وار کرتے ہوے کسی مسلک کی پرواہ نہیںں کرتا اس کا مسلک ظلم ہے سو ہم سب کو ظالم کا راستہ روکنا ہے

Image may contain: 2 people, people smiling, text

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, hat
ایک دوست نے پوچھا
اے میرے صاحب
حسین کا نام کب تک زندہ رہے گا
ہم نے کہھا آخری یزید کے انجام تک
اس نے پوچھا
جب آخری یزید بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا پھر
ہم نے کہھا
پھر حسینت کا سورج چمکے گا
اور
اسکی ایک ایک کرن سے آواز آے گی
شاہ حسین بادشا حسین
مقرر پوچھا
کیا دوبارہ کوی حسین آے گا
ہم نے کہھا نہیں اب صرف حسین کے غلام آییں گے
پوچھا
حسین نے میدان کربلا میں لاشے اٹھاے مگر روے کیوں نہیں
ہم نے کہھا
اس لیے کے امام کے منصب کا تقاظہ تھا کے وہ ثابت قدم رہیں
پھر سوال اٹھایا
امام نے کوی معجزہ کیوں نہیں دکھایا
ہم نے کہھا
اٹھارہ سال کے بیٹے کی لاش کو اٹھاتے ہوے
الحمدللہ
اور
معصوم بیٹے کے حلق میں تیر لگتے ہوے بھی کہنا
میں راضی ہوں تجھ پہ اے میرے رب
سوال کرنے والے نے کہھا
میں حسین سے عشق کرنا چاہتا ہوں کوی راستہ؟
ہم نے کہھا حق کا راستہ تجھے عشق حسین کی منزل تک پہنچا سکتا ہے
اس نے پوچھا

حق کہھاں ہے

ہم نے کہھا قرآن حق ہے نبی کی زات حق ہے حسین کی نماز حق ہے اور حق یہ ہے کے میرا رب حق ہے اور حسین حق کا نشان ہے

وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا

سلام یا حسین ابن علی سلام  —  11  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

ویسے تو آج کے دن کے بہت سے فضائل ہیں اور بہت سے اعمال ہیں جن کے کرنے سے دینی دنیاوی روحانی جسمانی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر ایک بہت اہم عمل یہ بھی ہے ک عاشورہ کے دن اگر گھر والوں پر وسعت کی جاے تو تمام سال رزق کی کمی. نہیں ہوتی مطلب آج کے دن اگر اپنی استطاعت کے مطابق گھر والوں پہ کچھ زیادہ خرچ کر دیا جاے تو رزق کے معاملات میں آسانی پیدا ہوتی ہے
میرے خیال میں
آپ بھی اگر یہ. تجربہ کریں تو
تو کوی حرج نہیں
اور ایک مزید عمل کسی یتیم کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوے اس کی دلجوئی بھی بہت بابرکت عمل ہے
اللہ کریم آپ کی تو فیقات میں اضافہ فرمائے آمین  –  
12  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 3 people, sunglasses and text
زرا احسان خان نیازی کا یہ فن تو دیکھو  –

اے میرے صاحب
سیاست کو اگر رومان بنا لیا جائے تو پھر
. بھاویں ہجر تے بھاویں وصال ہووے
وکھو وکھ دوہاں دیاں لزتاں نیں..
کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے
لیکن سیاست کو اگر دوکان سمجھ لیا جاے تو پھر تو پھر سیاست میں آپ کا حقیقی مقام
مرزا صاحبہ..
کے عشق جیسا ہے
دنیا میں جن لوگوں نے سیاست کو اپنا رومان بنایا عوام کی محبت کو اپنا ارمان بنایا انصاف کو اپنا ایمان بنایا وہ ایک مثال کیی طرح ہیں
بابا ے قوم نے سیاست کو اپنا رومان بنایا
ان کی محبوبہ ایک آزاد ملک تھا سو انہھوں نے ایک آزاد ملک کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنایا ان کا جزبہ سچا تھا سوو وہ کامیاب ہوے
کتنی عجیب بات ہے کے بابا قوم کو اردو نہیں آتی تھی مگر قوم ان کی بات سمجھتی تھی اور پورے دھیان کے ساتھ ان کیی بات سنتی تھی
بابا ے قوم کو بھی نہ صرف انگریز سرکار
اور ہندو قوم کی مخالفت کا سامنا تھا بلکہ بڑے بڑے مذہبی رہنما ان کے خلاف تھے اور انہیں کافر اعظم تک کہتے تھے مگرر بابا ے قوم اپنے مقصد کے حصول کے لیے ڈٹے رہے
اس وقت بہت سے نمایاں مسلم رہنما نے بھی کہھا کے
پاکستان کے قیام کی بات ایک پاگل پن ہے
عجیب بات ہے کے عمران خان کو بھی پاگل خان کہھ کے ان کا مزاق اڑایا جاتا ہے
پھر بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کے جو شخص اپنی ازواجی زندگی کو کامیاب نہیں بنا سکتا وہ ملک کیسے چلاے گا؟
دلچسپ بات یہ ہے پاکستان کے خالق بابا ے قوم کو بھی ازواجی اور نجی زندگی میں ایسے ہی حالات کا سامنا تھا مگرر انہھوں
اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا عزم برقرار رکھا
عمران خان بھی ایک نیا پاکستان چاہتا ہے
ایک ایسا پاکستان جو انصاف کا نشان ہو
بطور انسان عمران خان میں بہت سی خامیاں ہوسکتی ہیں مگر ایک سیاستدان کے طور اس کا موقف پاکستان کے عوام کےے دلوں کا ترجمان ہے
مثال کے طور پہ اگر وہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے مثال کے طور پہ اگر وہہ چور کو چور کہتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے
اب 300اکتبور کے مارچ کو ایک غیر جمہوری فیصلہ کہھا جا رہا ہے

Image may contain: 2 people, sunglasses and text
سوال یہ ہے کے پی پی پی کے دور میں نواز شریف نے حکومت کے خلاف جو مارچ کیا وہ کیا تھا؟
محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف جو مارچ کیے وہ کیا تھے؟
نواز شریف اگر ایک چیف جسٹس کی بحالی کے لیے سڑکوں پہ ایں تو جمہوریت مظبوط ہوتی ہے لیکن عمران خان اگرر کرپشن کے خلاف مارچ کرییں تو جمہوریت کمزور ہوتی ہے
کیوں؟   
13  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

جمعہ مبارک ہو

جمعہ شریف روز عید کی طرح ہے اس دن کی بہت فضیلت ہے حکم ہے کے اس دن بہت صاف ستھرے ہو جاو اور پورے ظاہری باطنی اہتمام کے ساتھ رب سے ملاقات کے لیے مسجد کا رخ کرو

جمعہ شریف کے روحانی ہی نہیں سیاسی سماجی اور ثقافتی پہلو بھی ہیں یہ دن رب سے ملاقات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کا بھی ہے ایک ہی وقت میں محلے کے سبھی لوگ ایک چھت کے نیچے اکٹھے ہوتے ہیں ایک دوسرے. کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوکے دوریاں ختم کی جاتی ہیں اور ایک. دوسرے کے حال احوال کی بھی خبر ہو جاتی ہے

ہم جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے کام کاج کی طرف بھی جا سکتے ہیں اور اگر وقت ہو تو محلے کے کسی مریض کی عیادت. بھی. کرسکتے ہیں اور پھر ایسے بزرگ جو بیمار ہیں اور گھر سے باہر نہیں جاسکتے ان کی زندگی ایک کمرے تک محدود ہو گیی ہے اگر ان کے گھر والوں سے اجازت لے کے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا جاے تو یہ بھی ایک نیک کام ہے

ہم اپنے بچوں کو کسی پارک میں لے جا کے ان کی دلجوئی کرسکتے ہیں ہم اپنی ماں بہن بیٹی بیوی کو بھی ساتھ لے جاسکتے ہیں

اکثر خواتین صبح سے شام تک خدمت میں مصروف رہتی ہیں ناشتے سے لیکر جوتی پالش کرنے تک ہر کام کرتیں ہیں ایک دن کے لیے اس کے کام میں ہاتھ بٹایا جاسکتا ہے

چولہا جلا کے دیا جا سکتا ہے سبزی کا ٹنے. میں مدد کی جاسکتی ہے اور اگر مردانگی کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیا جاے تو گھر کی صفائی بھی کی جاسکتی ہے

بیوی کو اس کے میکے لے جایا جا سکتا ہے

بیٹی کے گھر جایا جا سکتا ہے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر جا کے ان کے ساتھ وقت گزارا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے ذہنی طور پہ خود کو آمادہ کرنا ضروری ہے لمحہ موجود میں اسکی ضرورت بھی ہے ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے مگر ہم بہت مصروف ہیں ہم پیسے لگا کے خوشیاں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تھوڑا وقت نکال کے فطری خوشیاں حاصل کرنے سے بھا گتے ہیں ایک آپ ہی نہیں ہم بھی ایسے ہی ہیں

سو ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور ہمارے ایک کا بدلنا درحقیقت پورے خاندان کا بدلنا ہے

تو اس کی ابتدا کسی نہ کسی کو تو کرنی ہوگی  -14  اکتوبر  2016

Image may contain: 1 person, standing

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, sunglasses

ہمارے بچے عدنان ارسلان اور علی جب محفل سجا کے بیٹھتے ہیں تو پھر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں محرم کے ایام خاص طور پر شہداءے کربلا کے حوالے سے اس بار بہت گفتگو رہی ہم نے اپنے بچوں کو ایسا ماحول دیا ہے کے جس کے زریعے گھر میں مکالمے کا سلسلہ چلتا رہے اور ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے رہیں ہماری گفتگو میں ہماری بیگم بھی شامل ہوتیں ہیں جو.. پکی روٹی.. کے مضامین کے زریعے بہت گہرے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہ کچھ ارشاد فرماتی رہتی ہیں مگر ہم ان کے مضامین سنانے سے پہلے انہیں چاے کے کپ کی فرمایش کر دیتے ہیں ہماری فرمایش پر وہ بہت بگڑتی ہیں اور ساتھ ہی کہتی ہیں کے ایک تو آپ ایاز صادق کی طرح کوی مناسب بات سنتے ہی نہیں میں نے آج بچوں کو بہت اہم بات سمجھانی تھی مگر تمہاری چاے کچھ سانس لینے دے تو؟
دراصل ہمارے بچے پکی روٹی کے مضامین کے مقابلے میں فیس بک کے مضامین سامنے لاتے ہیں جو ظاہر ہے پکیی روٹی کے مضامین سے بہت آگے ہیں
اس عشرے میں ہم نے ایک یہ بات بہت شدت کے ساتھ محسوس کی کے رسول اللہ..ص..کے اہل بیت کے ساتھ بہرحالل ناانصافیاں ہویں ان کے ساتھ بہت زیادتیاں
کی گئیں ان کے مقام. مرتبے کو تسلیم نہ کیا گیا اور ہر ممکن طریقے سے انہیں اذیت کے ماحول میں رکھا گیا یہ لوگ ایسےے ہر گز نہ تھے جیساےسلوک امت نے ان کے ساتھ کیا
مجھے حیرت ہوتی ہے کے تمام امام کسی نہ کسی سازش کے تحت شہید کیے جاتے رہے
مجھے اس بات پہ بھی حیرت ہوتی ہے کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اورحضرت علی کرمم ےوجہہ
سب شہید ہوے اور قاتل بھی مسلمان تھے
اس سے ایک بات تو واضح ہے کے اسلام کی ابتدا سے ایک.. فسادی گروہ..موجود تھا جو بظاہر مسلمان لیکن اندر سے… کفر… پہ قائم تھا اور اب بھی یہ گروہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے مگر؟
ایک بات یہ بھی کے ہم مسلمان جو اپنے دین سے محبت کرتے ہیں اپنی دینی اور روحانی. شخصیات سے پیار کرتے ہیںں لیکن اپنے پیار کے اظہار میں بعض اوقات بہت عجیب و غریب انداز اپناتے ہیں
مثال کے طور پہ دسویں محرم کو اچانک علی نے مجھے کہھا
بابا چاند دیکھو میں نے مسکراتے ہوے کہھا
میرے چاند تو تم ہو
اس نے کہھا بابا مزاق چھوڑو زرا غور سے چاند کی طرف دیکھو

میں نے کہھا چاند بہت خوبصورت ہے اور
روزانہ کی طرح بڑی اماں چرخہ کات رہی مگر یہ سمجھ نہیں آتی کے دھاگہ کدھر کرتی ہے؟
مگر علی بہت سنجیدہ تھا اس نے کہھا بابا
چاند پہ یا حسین لکھا نظر آرہا ہے آپ غور سے دیکھو
مجھے بہت حیرت ہوی میں نے پوچھا تم کیسے کہتے ہو کے یا حسین لکھا نظر آرہا ہے
اس نے کہھا
بابا فیس بک پہ میسج آیا ہے اور میرے دوست بھی میسج کر رہے ہیں آپ غور تو کرو علی کے اصرار پہ میں نے ایک بارر پھر چاند کی طرف نظر دوڑا ی مگر ناکام رہا اس دوران ہماری بیگم بھی چھت پہ تشریف لے آئیں اور ٹھیک تین منٹ بعد فتوی جاری کر دیا کے نام لکھا نظر آرہا ہے حالانکہ دس قدم کے فاصلے سے انہیں ہم بھی کم نظر آتے ہیں
معماملہ بہت سنجیدہ تھا سو اب ہمارے درمیان گفتگو شروع ہو گیی
میں نے کہھا
کیا چاند میرے رسول کے کندھوں سے زیادہ عظیم ہے؟
کیا چاند میرے رسول کی بیٹی کی گود سے زیادہ اہم ہے؟
میں نے پوچھا
امام حسین ہمارے کردار میں نظر کیوں نہیں آتا؟
ان کی سیرت ہماری سیرت میں نظر کیوں نہیں آتی
ان کا صبر ہماری بے صبری میں نظر کیوں نہیں آتا
ان کی نماز ہماری نماز میں اور اور ان کے سجدے ہمارے سجدوں میں نظر کیوں نہیں اتے
ان کا بہادر جزبہ ہمارے جذبوں میں نظر کیوں نہیں آتا ظالم کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوے ڈٹ جانے کا عزم ہمارے عزمم میں نظر کیوں نہیں آتا؟
علی بہت غور سے سنتا رہا
میں نے اسے سمجھایا اس بات کی کوی اہمیت نہیں کے ان کا نام چاند پہ نظر آر رہا ہے اصل بات یہ ہے کے ان کا کردارر ہمارے کردار میں نظر آرہا ہے کے نہیں؟

Image may contain: 3 people, people smiling, text

فیصلہ خاص جمہوری ہے

دھرنا بہت ضروری ہے

قوم کا اب یہ نعرہ ہے

ان کی مدت پوری ہے  –    15  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

Image may contain: one or more people and people standing
ایک اور یادگار گروپ فوٹو
بطور خاص محمدظہیر احمد کے لیے
یہ بوجھ کے دکھاو؟

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person

ہم لکھنے پڑھنے میں سلسلہ قاسمیہ یعنی عطا الحق قاسمی صاحب سے تعلق رکھتے ہیں آپ انہیں ہمارا شیخ بھی کہھ سکتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کے وہ ایک دلیر اور بہادر آدمی ہیں اپنی بات کہنے کا نہ صرف ہنر رکھتے ہیں بلکہ لکھتے ہوے جان. تلی. پہ بھی رکھتے ہیں

ہم پوری دیانت داری کے ساتھ یہ بھی سمجھتے ہیں کے بہت خود دار انا پرست

وطن پرست اور جمہوریت پرست بھی ہیں

یاروں کے تو ایسے یار ہے ہیں کے اس حوالے سے ان کا نام.. سرگی.. ویلے لیے جانے کے قابل ہے

وہ نواز شریف کے دوست ہیں دونوں کا بچپن اور جوانی ایک ساتھ گزرا بلکہ عطاء صاحب کی شادی پر سب سے زیادہ بھنگڑے نواز شریف اور شہباز شریف نے ڈالے ان کے والد محترم بھی عطاء صاحب کی شادی میں شریک ہوے سو نواز شریف کے ساتھ ان کی محبت کی ایک وجہ بچپن کا یارانہ بھی ہوسکتا ہے مگر یارانہ تو ہمارا بھی ان کے ساتھ ہے ہمارے بارے میں تو انہھوں کبھی. کچھ نہیں لکھا

تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کے وہ دوستی سے زیادہ اپنے نظریات کے اسیر ہیں اور

اسی نظریاتی نسبت نے انہیں نواز شریف کے قریب کر رکھا ہے

آپ میں سے کوی یہ بھی کہھ سکتا ہے کہ

عطاء صاحب نظریات کے نہیں اپنے مفادات کے اسیر ہیں

مگر ہم اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ جن دنوں پنجاب میں گورنر بنانے کا فیصلہ ہونا تھا ان دنوں ہم نے ایک کالم میں عطاء صاحب کو گورنر پنجاب بنانے کا مطالبہ کیا تھا کالم کے شائع ہوتے ہی انہھوں نے فون کر کے اپنے آفس بلایا اور انتہائی پر تکلف چاے پلاتے ہوے ایسی بے تکلفی سے ہماری.. اتر چھنڈ.. کی کے ہم اچھے خاصے ذلیل و خوار سے لگنے لگے

اصرار ان کا یہ تھا کے میں اپنے موجودہ منصب پہ ٹھیک ہوں اور کسی ایسے منصب کی خواہش نہیں ہے جو مجھے قید تنہائی میں لے جاے

عطاء صاحب آجکل ہمارے قائد عمران خان کے طرز سیاست پہ بہت تنقید کر رہے ہیں

گزشتہ روز انہھوں نے عمران خان کے حوالے سے لکھا کے وہ ایک خود پرست انسان ہیں

مگر……

میرا خیال ہے کے ہم میں سے ہر ایک کچھ نہ کچھ خود پرست ضرور ہے اور ایسا ہونا عیب کی بات نہیں ہے عیب کی بات یہ ہے کے انسان خود پرستی میں مخلوق خدا کو

اپنے پاوں تلے روندنا شروع کردے جبکہ عمران خان تو ایسا خود پرست ہے کے جس نے انسان پرستی کی اعلیٰ مثال قایم کرتے ہوے ایک بہت بڑا ہسپتال بنایا ہے اور اب پاکستان کے چاروں صوبوں میں بھی بنانے کی کوشش کر رہا ہے اللہ کرے میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی ایسی کسی خود پرستی میں مبتلا ہوں تاکہ انسان پرستی کا کوی عملی نمونہ بھی نظر آے

آجکل عمران خان حکومت کے خلاف سڑکوں پہ ہیں اور میرے پیارے شیخ کو اس پہ بھی اعتراض ہے

حالانکہ کسی شخص کو اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر آنے کا پورا حق ہے مثال کے طور پہ میاں نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ہمیشہ سڑکوں پہ رہے ابھی سابقہ حکومت کے خلاف بھی وہ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکلے وہ اسلام آباد پر یلغار کا ارادہ رکھتے تھے مگر ابھی شاہدرہ تک پہنچے تھے کے ان کے

. دوست. نے ان کی مشکل کو آسان بنادیا

سوال یہ ہے کے اگر میاں نواز شریف چیف جسٹس کی بحالی کے لیے سڑکوں پہ نکلیں تو جمہوریت زندہ باد اور اگر عمران خان

کرپشن کے خاتمے اور پانامہ کے معاملے پر

مارچ کرے تو خود پرست

اے میرے سلسلہ قاسمیہ کے شیخ

میرا رب آپ کو عزت دے اور مزید عزت دے آمیںن

 نوٹ.. احباب سے گزارش ہے کے وہ اس پوسٹ پہ کومنٹ کرتے ہوے ہمارے پیارے عطاء الحق قاسمی صاحب کے حوالے سے

ذاتی سطح کے تبصرے سے گریز کریں

عطاء الحق قاسمی صاحب ہمارے بہت محترم دوست ہیں  –

اے میرے صاحب

Image may contain: 4 people, people smiling

اختر مجاز کی زنبیل میں سے نکلی ایک تصویر
ان میں دو شاعر اور ایک شاعر کے ساتھ ساتھ اینکر بھی ہیں  16  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

سراییکی زبان کے معروف ممتاز شاعراور

.. ماڑا ہے تاں ماڑا سہی یار جو ہے
کیوں ڈھولے دا گلہ کراں
میں تاں لکھ واری بسمہ اللہ کراں
جیسے لازوال گیتوں کے خالق اعجاز تشنہ صاحب بہت بیمار ہیں اور ان کی حالت انتہائی تشویشناک ناک ہے احبابب سےدرخواست ہے کے ان کی صحبت یابی کے لیے دعا کریں
وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ ہے کے وہ سراییکی زبان کے اس عظیم شاعر کا علاج سرکاری. سطح پر کرانے کا بندوبستت کریں وہ ایک عرصے سے زاتی سطح پر اور دوستوں کے تعاون سے علاج کروا رہے ہیں مگر حکومتی سطح پر ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا ان کی حالت بہت تشویشناک ہے
حکومت پنجاب ان کے علاج کے فوری اقدامات کرے   –  
17  اکتوبر  2016

جناب وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف صاحب

Image may contain: 1 person, sitting

ہم جانتے ہیں کے کرکٹ کے جنون نے آپ کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے اور آپ کا زیادہ وقت کرکٹ کھیلنے یا پھر کرکٹ سمجھنے میں صرف ہو رہا ہے اور آپکی کابینہ کے ارکان بھی آجکل صرف اور صرف کرکٹ کے رموز جاننےاورکرکٹرز کے ریکارڈ یاد کرنے میں مصروف ہیں اور جو ایک آدھ وزیر فارغ ہوتا ہے وہ آپ سے پہلے گراؤنڈ میں پہنچ جاتا ہے کے پچ کو آپکی مرضی کے مطابق بنوا سکے شاہد یہی وجہ ہے کے اب آپ کو لاہور کے حالات کی ہی خبر نہیں ہوتی سراییکی وسیب کے حالات کے بارے میںآپ کوی کیا خبر ہو گی؟
ہم حیران ہیں گورنر پنجاب جن کا زیادہ وقت گورنر ہاوس کے کمرے گننے میں گزرتا ہے اور کبھی کبھار کسی فائل پہہ دستخط کرنے کی زحمت بھی کرنی پڑتی ہے عجیب بات ہے کے سرائیکی وسیب کے نمائندے کے طور پہ وہ سراییکی کے ایک نامور شاعر اعجاز تشنہ کی بیماری سے ابھی تک آگاہ نہیں ہیں
الیکٹرانک میڈیا جو میرا کی سرخی سے لیکر کسی مارکیٹ میں ان کی شاپنگ پر
بریکنگ نیوز دے دیتا ہے وہ میڈیا سراییکی وسیب کے ایک عظیم شاعر کی بیماری کے حوالے سے ایک سطری خبر چلانےے پر تیار نہیں ہے
جناب وزیر آعلی پنجاب صاحب سراییکی وسیب کا یہ غریب شاعر بستر علالت پر آپ کا منتظر ہے
آپ شاعروں ادیبوں کے لیے مختص فنڈ کے زریعے ان کے علاج معالجہ کا بندوبست کریں ان کے لواحقین بہت پریشان ہیںں اور ان میں اتنی سکت بھی نہیں ہے کے وہ اس عظیم شاعر کی چارپائی لاہور لاکے گورنر ہاوس یا پھر وزیر اعلی ہاوس کے دروازے پہ رکھ ایک بیمار شاعر کے علاج کا مطالبہ کر سکیں
اس حوالے سےوزیر اعلی پنجاب اگر بکھر سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے انعام اللہ نیازی کی خدمات حاصل کریں تو انعامم اللہ نیازی صاحب انہیں شاعر کے حالات سے آگاہ کر سکتے ہیں
اگر؟
انعام اللہ نیازی صاحب یا ان کا کوی دوست یوسٹ پڑھ رہا ہے تو اپنا کردار ادا کرے
یہ سیاسی نہیں بلکہ ایک خالص انسانی مسئلہ ہے ایک عظیم شاعر کی زندگی کا مسئلہ ہے
اور اس سلسلے میں بکھر سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اور ایم این اے بھی اپنا کردار ادا کریں
یہ مطالبہ میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اور ایم این سے بھی کیا جا سکتا ہے مگر ان کا تعلق پی ٹی آی سے ہےے پنجاب حکومت ان کی کب سنے گی,؟
میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے عبیداللہ شادی خیل سے بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے مگر انہیں سمجھاے گا کون کے
شاعر بھی معاشرے کے اہم لوگ ہوتے ہیں
اور ان کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں
جو پورے کرنے پڑتے ہیں
مقرر عرض ہے کے سرائیکی وسیب کے عظیم مگر غریب شاعر کو نظر انداز نہ کیا جاے – 17  اکتوبر   2016

افسوس…………… صدافسوس……… ہزارصدافسوس…………………………. سراییکی وسیب کا روشن دماغ چراغ بسترعلالت پہ شفا کی طلب میں آہستہ آہستہ بجھنے کے سفر پہ ہے وہ دماغ کے جس نے اس دھرتی پہ محبت کے شعروں کی بارش برساے رکھی وہ دماغ کے جس نے محبت کے فروغ کے لیے اپنے جسم و جاں کے خون کو جلایا وہ شاعر کے جس نے قلم کے ہتھیار سے نفرت کے خلاف قلمی جہاد کیا وہ شاعر کے جس کے شب روز اس دھرتی کے چہرے کو اجلانے میں صرف ہوے
افسوس……. صدافسوس…….. ہزار صد افسوس……………………………………… کے آج وہ شاعر درد کی تصویر بنے خود ایک نوحہ بن کے بیماری کے ہاتھوں میں اپنی غربت کا سینہ پیٹ رہا ہے
حکمران ابھی تک سراییکی وسیب کے اس عظیم مگر غریب شاعر کے حالت سے بے خبر ہیں وزیر اطلاعات کے جوو زمانے کی خبر رکھتے ہیں اعجاز تشنہ کی حالت سے بے خبر ہیں
کیوں….؟
اس لیے کے وہ ایک مظلوم قوم کا نمائندہ ہے ایک ایسی قوم کا جس قوم کے پاس طاقت تو ہے مگر قیادت نہیں ہے ایک ایسیی قوم کا جو سمجھتی ہے کے ان کے حقوق مارے جارہے ہیں مگر اپنے حقوق کے حصول کے لیے اجتماعی جدوجہد سے غافل ہے
کہھاں ہے یوسف رضا گیلانی کہھاں ہے جمشید دستی کہھاں ہیں سراییکی وسیب کے وہ نمائندے جو مظلوم قوم کے نام پہ
اپنا قد بڑھاتے ہیں
اس مشکل وقت میں ایک ہی شخص اپنے محسن کے ساتھ کھڑا ہے اور گزشتہ دوسال سے خاموشی کے ساتھ اپنے محسن کےے خاندان کو سہارا دیے ہوے ہے شفااللہ خان روکھڑی جو اس وقت بھی اپنے محسن کے ساتھ ساتھ ہے
اعجاز تشنہ دماغ کی مہلک بیماری میں مبتلا ہے اس کے لیے بہت بڑی سطح کے علاج کی ضرورت ہے جو صرفف حکومتی سطح کے تعاون سے ممکن ہے
اس لیے حکومت سے تعاون کی اپیل کی ہے
بدقسمتی سے اعجاز تشنہ سرایکی وسیب
کا غریب شاعر ہے جسکی آہ بکا اسلام آباد اور لاہور تک سنای تو دیتی ہے مگر حکمرانوں کو سمجھ نہی آتی
کیا کوی ہے
جو کے پی کے کے وزیراعلٰی سے درخواست کرے کے پنجاب کا ایک غریب شاعر آپ کی توجہ کا طلب گار ہے؟
کوی ہے…… کوی ہے……. کوی ہے…؟    
17  اکتوبر  2016

Image may contain: one or more people and people sitting

کچھ احباب نے رابطہ کرتے ہوے اعجاز تشنہ صاحب کی مدد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور اس سلسلے وہ مجھے زمہ داری سونپنا چاہتے ہیں مگر میں کسی بھی امانت داری کے لیے خود اہل نہیں سمجھتا
اس سلسلے پنجاب پولیس کے آفیسر عبدالقیوم خان تعینات بہل بہت اہل آدمی ہیں میری گزارش پہ انہھوں امانت کا بار اٹھانےے اور حقدار تک پہنچانے کی درخواست قبول کر لی ہے
میں شکر گزار ہوں ہزارہ کے بہت مقبول گلوکار شکیل اعوان صاحب کا جنہھوں نے اس سلسلے تعاون کی پہل کی ہے
اس حوالے سے آپ اس نمبر پہ رابطہ کر سکتے ہیں  03006003585    —  17  اکتوبر  2016

اعجاز تشنہ

Image may contain: 1 person, outdoor

جب صحت یاب تھے

اور اب

بیماری نے سب کچھ چھین لیا

نہ وہ شوخیاں نہ قہقہے نہ وہ رنگ نہ وہ روپ

کسی نے کیا خوب لکھا تھا

اے غربت تیکوں چیر گھتاں میڈے لکھاں دے سجنڑں ونجاے نی

میڈی عزت وقار تے شہرت دے سرعام جنازے چاے نی   –  17  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

بہت کم احباب جانتے ہیں کے اعجاز تشنہ صاحب کچھ عرصہ پاکستان آرمی میں مادر وطن کی خدمت کرتے رہے ہیں ان کی شخصیت کے کی دلچسپ پہلو ہیں مثال کے طور پہ انہیں چاے پینے کا بہت شوق ہے اور پاکستان کے کس شہر کی کس ہوٹل پہ اچھی چاے ملتی ہے انہیں معلوم ہے سفر کے دوران ہر ایک گھنٹے بعد چاے کے ہوٹل پہ. بریک نہ لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کے
آپ نے اعجاز تشنہ کے سر پہ ظلم کا پہاڑ گرایا ہے جن دنوں ہم اکٹھے ہوتے تو وہ مطمعن رہتے کے اب ہر پونے گھنٹے بعدد چاے آجائے گی
مجھے اکثر کہتے جو شاعر ہر گھنٹے بعد چاے کی طلب محسوس نہیں کرتا مجھے اس کے شاعر ہونے پہ شک رہتا ہے میں اس سے پوچھتا یہ کیا فلسفہ ہے
وہ مسکراتے ہوے کہھتا استاد محترم دس روٹیاں کھا کے شعر نہیں نکلتے کچھ اور نکلتا ہے مگر تیز پتی کی چاے پینے سےے لکھ پتی شعر نکلتے ہیں
اعجاز تشنہ کو مہنگے مہنگے موبائل رکھنے کا بھی شوق ہے مارکیٹ میں جب بھی نیا ماڈل آتا وہ خرید لیتا ہے شفااللہ خانن روکھڑی مجھے اکثر کہتا کے اس کو سمجھاو یہ کیا شوق پال رکھا ہے اسنے بہت نقصان کرتا ہے اپنے پیسوں کا
دراصل اعجاز کرتا یہ تھا کے شام کو اس نے بیس ہزار کا موبائل خریدا صبح کسی نے بتایا مارکیٹ میں نیا ماڈل آیا ہے بسس تشنہ صاحب نے اپنا موبائل اونے پونے داموں بیچ کے نیا ماڈل خرید کے ہی دم لیا
تشنہ کو اداکاری کا بھی بہت جنون ہے کسی زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری
میں بھی رہا کسی ایک آدھ فلم میں کام بھی کیا اور وہ کہھا کرتا ہے بس شاعری نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا ورنہ میں اج
فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنا چکا ہوتا مجھے یاد ہے جب ہم شفااللہ خان روکھڑی کے ایک ویڈیو شوٹ کے لیے نور پور تھلل گیے تو اعجاز تشنہ کو بھی ایک رول دیا
یہ رول پنوں کے بھای کا تھا سو سین کے مطابق اعجاز تشنہ نے بہت دور سے بھاگ کے انا تھا لو کیشن صحرا کی تھی اورر ہم فاصلہ بھی کچھ زیادہ رکھ دیا یونٹ کے لوگوں اور ڈائریکٹر ادریس عادل کے ذھن میں شرارت سوجھی تو انہھوں نے اعجاز تشنہ سے کہھا سین میں رنگ بھرنے کے لیے ضروری ہے کے آپ فلاں درخت کے پاس سے بھاگ کے آو
اعجاز تشنہ نے ایک نظر میری طرف اور دوسری نظر ادریس عادل پہ ڈالتے ہوے پریشانی کے عالم کہھا…………………..
نوٹ…. احباب سے دعا کی اپیل ہے  –   
18  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 2 people, outdoor

اعجاز تشنہ صاحب کے حوالے سے ہم نے پوسٹ لگای تو شدت کے ساتھ احساس ہوا کے بہت سے احباب کے دل شدت غم سے بھر گیے احباب نے ایک شاعر کے لیے جس کرب کے ساتھ اپنی راے کا اظہار کیا اس پر ہم احباب کے بہت مشکور ہیں بعض احباب نے بسترمرگ پہ پڑے شاعر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوے بعض گلوکاروں کا نام لے لے کے ان پر.تبرہ..بھی بھیجا بعض احباب کی خواہش ہے ہم عطاء اللہ عیسی خیلوی سے لیکر شفااللہ خان روکھڑی اور احمد نواز چھینہ سے لیکر شرافت تری خیلوی ندیم لونے والے تک پر تبرہ.. بھیجیں مگر…… ہم ان میں سے کسی پر تبرہ کیوں بھیجیں؟
ایک مریض کے کندھے پر بندوق رکھ کے کیوں چلائیں؟
یہ سب لوگ اعجاز تشنہ کی بیماری سے آگاہ ہیں ان کی مالی حالات سے بھی آگاہ ہیں ان کے ساتھ جو ان کی خدمات ہیں سبب جانتے ہیں بات احساس کی ہے انسانیت کے درد کی ہے جو درد یا خدمت کی اہمیت کو سمجھتا ہے وہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے
مثال کے طور پر ہمارے دوست ہیں عبدالقیوم خان انسپکٹر پنجاب پولیس عبدالقیوم خان نہ شاعر ہیں نہ گلوکار ہیں نہ موسیقارر ہیں مگر اعجاز کے حوالے سے بہت دکھی ہیں سو وہ ان کے پاس گیے ان کے خاندان کی دلجوئی کی متعلقہ ڈاکٹرز کے ساتھ رابطہ کیا جہاں تک ممکن تھا مدد کی
سو ان حالات میں ہر ایک کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے معاملہ صرف مریض کا نہیں ہے اس کے خاندان کا بھی ہے بچیوں اورر بچوں کا بھی ہے جو اگر سب مل کے حل کریں تو اچھی بات ہے
مریض کی حالت تشویشناک ہے دوا کے ساتھ ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہے سو ہمیں ہر ایک سے تعاون کی درخواست کرنیی چاہے جو تھوڑی بہت کر رہا ہے اسکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو نہیں کر رہے انہیں بھی احساس دلایا جاے
جو کرے اس کا بھی بھلا جو نہ کرے اس کا بھی بھلا   
18  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب
احباب سے گزارش ہے کے وہ آج رات نوز چینل اب تک پہ اعجاز تشنہ کے حوالے سے ایک خصوصی پروگرام ان کےےے خبرنامہ میں ضرور دیکھیں اس حوالے سے چینل کے تمام سٹاف اور عزیزم مرید عباس کے تعاون کا شکر گزار ہوں   19 اکتوبر  2016

Image may contain: 4 people, people standing and outdoor

Image may contain: 2 people, people sitting, beard and outdoor

 اے میرے صاحب

قصور شہر کی بہت اہمیت ہے یہ انڈیا کے سینے پر آباد ہے یعنی سرحد کے بہت قریب ہے ساتھ ہی گنڈا سنگھ باڈر وہاں کے کسی گھر کی چھت پہ چڑھ کے اگر دیکھا جاے تو دوسری طرف انڈین گاوں نوشہرہ کے گھر اور مکین صاف نظر آتے ہیں پاکستان کا کوی الہڑ نوجوان کسی دن چھت پہ چڑھ کے ہوا خوری کرے تو دوسری طرف سے کوی الہڑ دوشیزہ دل پشوری کرنے کے لیے چھت پہ ضرو چڑھتی ہے اور اگر کسی دن کوی البیلا نوجوان بانسری کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوے اسکی ہوک کو کوک بناے تو وہاں کی دوشیزائیں اپنے بال بکھیرے بے ساختہ پکار اٹھتی ہیں…….. کس نے بجای ہے یہ بانسریا

مورا دھڑکن لا گا جیا را

یا پھر

سن ونجلی دی مٹھٹری تان وے

تو ہونٹوں پہ آہی جاتا ہے

ایسی صورتحال سے نالاں وہاں کے قیدو دل لوگ مندر کی گھنٹیاں بجا کے دوشیزاوں کو ہوش میں لاتے ہیں

بچارے مودی کو کیا پتہ کے سرحد کے آر پار کے عام لوگ جنگ سے نہیں محبت سے رہنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کے فضاؤں میں بارود نہیں محبت کے گیت اپنی خوشبو بکھیریں مگر مودی کا کیا ہے اس کا تو وہی حال کے

.. ونج او دھیا راوی نہ کوی ونجیں نہ کوی آوی…………………………………………….. دم کا دم ہے نہ کوی دھوکا نہ کوی غم ہے ایک بیوی تھی جو ایک مندر کے رحم کرم پہ ہے……. جنگ سے تو وہ نفرت کرتے ہیں جن کے بچے ہوتے ہیں سو وہ نہ کسی کے بچے مرتے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے بچے جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں

قصور کے ارد گرد زیادہ تر میوات قبائل آباد ہیں بہت محنت کش اور وطن سے محبت کر نےوالے لوگ ہیں زمانہ امن میں اپنی دھرتی کے سینے سے سونا نکالتے رہتے ہیں تاحد نگاہ سونے جیسی فصلیں ان کی محنتوں کے ماہیے گاتی نظر آتی ہیں زمانہ. جنگ میں یہی ہاتھ فوجی جوانوں کے ساتھ دشمن کے دانت دوڑتے نظر آتے ہیں

قصور شہر نے بہت آعلی شخصیات کو جنم دیا بابا بھلے شاہ اسی دھرتی کا نور ہے کلاسیکل گائیک استاد بڑے غلام علی خان

گلوکارہ میڈم نور جہاں افشاں بیگم بھی اسی شہر کی ہیں ادکار یوسف خان مرحوم بھی یہاں کے تھے سابق وزیر اعظم زولفقار علی بھٹو کو اسی شہر کے احمد رضا خان قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں پھانسی چڑھایا گیا احمد رضا قصوری خوش ہیں کے ان کے والد کو سزا ملی مگر اکثریت کی راے ہے انہیں ناحق عدالتی حکم کے تحت سزا دی گئی احمد رضا قصوری کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کے جنرل مشرف کی بے جا حمایت کی وجہ سے ان کے ساتھی وکلا نے ان کا منہ کالا کر دیا تھا ان کے چہرے سے وہ کالا رنگ تو کب کا دھل چکا مگر ایک عامر کی محبت کا کالا داغ اب بھی چمکتا دمکتا نظر آتا ہے

قصور جاتے ہوے اردگرد کا ماحول بہت خوبصورت تھا ماحول سے متاثر مفتی عمران نے کھا

کیوں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوے میں تصویریں بنانے کے سلسلے اپنا ہاتھ سیدھا کر لوں ہم نے کہھا

کس پہ کرو گے

کہنے لگے آپ پہ تجربہ کر لیتے ہیں ہم نے کہھا کوی بات نہیں بس زرا مجھے پگڑی باندھ لینے دو

اور پھر

کاام شروع    19 اکتوبر  201

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, night
کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو جب سڑکوں پہ نکلنے کو کہھا جاتا ہے تو پھر درحقیقت یہ دن سیاسی کارکنوںں کےے لیے بہار کے دن ہوتے ہیں اور ساتھ امتحان کے بھی ایک سچا سیاسی کارکن امتحان کے ان دنوں میں اپنے نظریات اور پارٹی کے مقاصد کے لیے ہر طرح کے حالات کے لیے خود کو تیار کرتا ھے وہ سب سے پہلے خود کو منظم کرتا ہے اپنے ذھن کو اپنی پارٹی کے مقاصد کے استعمال کرتا ہے پارٹی کے اندرونی تضادات پسند و ناپسند کو ایک طرف رکھتے ہوے ایک اجتماعی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتا ہے کسی بھی بڑی سیاسی جماعت میں کبھی بھی سبھی لوگ پسندیدہ نہیں ہوتے مگر ایک ساتھ چلنا پڑتا ہے حتی کے ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی پارٹی کے پرچم تلے ہم ایک ہیں کی عملی تصویر بن جاتے ہیں
پاکستان میں احتجاجی سیاست کا اگر جائزہ لیا جاے تو بلاشبہ پیپلزپارٹی کے کارکن کا کردار بہت نمایاں نظر آتا ہے اسس پارٹیی کے کارکن اپنی ایک شاندار تاریخ رکھتے ہیں اس پارٹی پہ سب سے مشکل وقت ضیاء الحق کی آمریت کے دن تھے مگر پارٹی کارکنوں نے ان دنوں ایسے ایسے سیاسی معرکے سرانجام دیے کے جن پر نہ صرف پارٹی بلکہ دیگر سیاسی کارکنوں کے لیے بہت کشش ہے مگر بدقسمتی سے اس وقت اس پارٹی کے کارکن پارٹی قیادت کے ساتھ کٹ چکے ہیں ان کارکنوں کو امید تھی کے پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف عام آدمی کے مسائل حل کرے گی بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاے گی مگر جب انہوں نے دیکھا کے پارٹی قیادت کا مشن کچھ اور ہے تو وہ بدل ہو کے بیٹھ گیے سو اس وقت یہ پارٹی آہستہ آہستہ سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہوتی جا رہی ہے پارٹی کے کارکن اب پارٹی کے ساتھ
چلنے پر آمادہ نہیں ہیں یہ ایک افسوسناک بات ہے کے طویل سیاسی ریاضت سے مالا مال سیاسی کارکن ملکی سیاست سےےے لاتعلق ہو گیے ہیں بلاول بھٹو زرداری ایک نوجوان ہیں اب انہیں آگے لایا جارہا ہے مگر ابھی بطور سیاسی رہنما ہی نہیں بطور سیاسی کارکن بھی تربیت کی ضرورت ہے
ان کا ابھی تک کا وقت وزیر اعظم ہاوس یا پھرلندن جیسے پرآسائسش شہر میں گزرا ہے وہ نہ کبھی ریل میں سوار ہوے ہیںںں اور نہ کبھی سڑکوں پہ خوار ہوے ہیں محض اپنی مرحومہ والدہ کے نام اور نانا کے نام پروہ اب اپنی سیاست کو کامیاب نہیں بنا سکتے انہیں سب سے پہلے اپنی پارٹی کے نام کے ساتھ جڑے اپنے والد کے نام کو ہٹانا پڑے گا
جماعت اسلامی کے کارکن بھی بلاشبہ بہت محنتی اور منظم ہیں گو اپنی محدود تعداد کی وجہ سے وہ کوی بڑی تبدیلی نہیںں لاا سکتے مگر کسی بھی اجتماعی سیاسی تحریک میں ان کے کارکن بہت نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں
مسلم لیگ کے کا کارکن بھی بہت جوشیلے ہیں مگر جنرل مشرف کے دور میں جب پارٹی پر مشکل وقت آیا تو کارکن کچھھھ زیادہ کارکردگی نہ دکھا سکے محترمہ کلثوم نواز شریف کی قیادت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ نہ کر سکے اور میاں نواز شریف کو جلا وطن ہونا پڑا اور پھر ان کی واپسی تب ممکن ہوی جب عوامی جدوجہد کی باگ دوڑ محترمہ بے ظہیر بھٹو کے ہاتھ میں آی اور انہھوں نے عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی زرائع استعمال کرتے ہوے وطن واپسی کی راہموار کی
اس وقت تحریک انصاف کے کارکن پورے عروج پر ہیں وہ پارٹی کے مفادات کے لیے ہر طرح کی جدوجہد میں بہت سختتت جاں ثابت ہورہے ہیں گزشتہ چند سالوں سے یہ کارکن
وقفے وقفے سے سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور گزشتہ دھرنے کے دوران انہھوں نے بہت قربانیاں دیں
ان کارکنوں کو ایک بار پھر اسلام آباد کا بلاوا آیا ہے مگر اس بار ان سیاسی کارکنوں کو تنہا اپنا زور دکھانا پڑے گا انہیںںں اپنی قوت کو بڑھانا پڑے گا اسلام آباد کی طرف جانے والے راستے طرح طرح کی رکاوٹوں سے بھرے ہوے ہوں گے انہیں ان راستوں کو آسان بنا نا ہو گا اپنی ہمت ذہانت اور سیاسی دانش دکھانی ہو گی او راس بار انہیں اپنی بقا کی جنگ کا سامنا ہے اسلام آباد اور ان کے درمیان دیوار چین رکاوٹ ہوگی اس دیوار کو پار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کے انہھوں نے اپنے حصے کا پہلا کا م مکمل کر لیا ہے  
 20 اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

Image may contain: one or more people, flower, plant and nature
……………. جمعہ مبارک………………………. آہستہ آہستہ گرمی پہ سردی غالب آتی جارہی ہے سو پارک کی رونق بھیی بڑھتی جارہی ہے صبح واک کرتے ہوے بہت سے خواتین حضرات ہاتھوں میں تسبیحاں پکڑے حالت حاظرہ پر گفتگو کرتے ہوے تسبیح کے دانے بھی گراتے رہتے ہیں یہ گفتگو زیادہ تر حالت حاظرہ پہ ہوتی ہے جو زیادہ تر کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کے.. اس ملک کا کچھ نہیں بننے والا….. نوازشریف نے تو بلکل ہی بیڑے غرق کر دیے ہیں……. اب عمران خان اگر آجائے تو کچھ تبدیلی بھی آے………. مگر اسے آنے جو نہیں دیتے….جب بھی باہر نکلتا ہے سارے اس کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں اب تو طاہرالقادری بھی نواز شریف. کے ساتھ مل گیا ہے… زرا جماعت اسلامی کو دیکھو وہ بھی تعاون نہیں کر رہی..تم دیکھنا اس بار کچھ ہو کے رہے گا.وغیرہ وغیرہ…………….. یہ تمام خواتین و حضرات اس طرح کی گفتگو کرتے تسبیحاں پڑھتے پڑھتے پارک پہنچ جاتے ہیں پارک کا منظر بہت دلچسپ ہوتا ہے ان میں سے بعض بزرگ تو پارک میں پہنچتے ہی کسی نہ کسی بنچ پہ جا کے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر بیٹھے بیٹھے گپ شپ کرتے رہتے ہیں یہھاں ان کی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی ہے ٹریک پہ دوڑتے بھاگتے خواتین وحضرات کے بارے میں ایسی ایسی.. قیامت خیز… گفتگو کرتے ہیں کے جس بنچ پہ بیٹھے ہوتے ہیں وہ شرم سے لرزنے لگتا ہے اور یہ اٹھتے تب ہیں جب بنچ کے باقاعدہ.. کڑاکے.. نکلنے شروع ہوجاتے ہیں جب یہ اٹھتے ہیں تو بنچ باقاعدہ الحمدللہ پڑھتا ہے
منگل والا دن ہمارے لیے خاصا تکلیف کا باعث بنتا ہے جونہی گھر سے نکلتے ہیں صدقات کے مختلف نمونے سڑکوں پہہہ بکھرے نظر آتے ہیں کہیں کالی ککڑی.. کہیں انڈے کہیں دال ماش کہیں بیچ چوراہے کے ہنڈیا پڑی ہوی ملتی ہے یہ سب کچھ صدقے کے طور پہ سڑکوں پہ پھینکا جاتاہے
یہ ایک عجیب اور افسوسناک بات ہے نجانے کون لوگوں کو یہ الٹے سیدھے راستے پہ لگاتا ہے
یہ سب کچھ صدقے کے معیار کے خلاف ہے
اور اس طرح کے صدقات اللہ کے ہیں قبول نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ کی مخلوق کے ساتھ صراصر زیادتی ہے کیونکہ ایکک توو حلال چیزوں کو ضایع کیا جاتا ہے دوسرا ماحول کو بھی گندہ کیا جاتا ہے آجکل ہر جگہ گوشت کے نام پر چھچھڑے بیچنے والے نظر آتے ہیں یہ لوگ قصاب سے چھچھڑے لا کے ان پر لال رنگ ڈال کے گوشت کے نام پر بیچتے ہیں اور اکثر لوگ ان سے چھچھڑے لے کے سر پہ پھیرنے کے بعد سڑک پر پھنک دیتے ہیں یہ اتنے گندے اور باسی چھچھڑے ہوتے ہیں کے پرندے انہیں کھانا تو کیا سونگھنا بھی گوارا نہیں کرتے مگر معصوم لوگ اس بات پر توجہ نہیں دیتے
ہم حیران ہیں کے حکومت نے ان لوگوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور یہ چھچھڑے فروش ٹولیوں کی شکل میں سڑکوںںں پر گند پھیلانے میں مصروف ہیں مگر انہیں روکنے والا کوی نہیں
صدقے کے حوالے سے ہمارے علماء کرام کو چاہیے کے وہ لوگوں کو سمجھایں کے صدقہ اللہ کریم کے ہاں ایک پسنددہہ عملل ہے لیکن اس کے کچھ آداب ہیں اگر وہ پورے نہ کیے جایں تو صدقہ نہیں ہوتا
ایک تو صدقے کے لیے لازم ہے کے صدقہ کسی بہت ہی پیاری چیز کیا دیا جاے یوں راہ چلتے چھچھڑے سر سے وارنےےے سے بلائیں دور نہیں ہوتیں بلائیں تب دور ہوتی ہیں جب اللہ کے ساتھ پورے اخلاص کا معماملہ بنایا جاے…………………………… آپ کالی ککڑی سڑک پر پھینکنے کے بجاے اسے کسی مستحق کے گھر بجھوا سکتے ہیں… آپ کچھ فروٹ لے کے ہسپتال میں کسی مریض کو دے سکتے ہیں….. ….. آپ کسی یتیم کی مدد کرسکتے ہیں…………اپ کسی غریب بچی کے جہیز کے لیے کچھ خرید کے دے سکتے ہیں……………………… گزارش یہ ہے کے ماحول کو خراب نہ کریں
اور صدقات کی اہمیت کو سمجھیں  – 
 21 اکتوبر  2016

اے میرے صاحب…………..

Image may contain: 1 person, closeup

عصمت گل خٹک کو ہم اپنا بچپن کا دوست اس لیے نہیں کہھ سکتے کے جب ان سے ملاقات ہوی تو وہ. دو کپڑوں.. میں تھے اور ہم تین کپڑوں یعنی کندھے پہ.. دھوتی.. رکھتے تھے بزرگ کہھا کرتے تھے کے مرد کے بھی تین کپڑے ضروری ہیں سو اس کے جو فائدے بتاتے تھے ایک عرصے تک ہم وہ فائدے اٹھاتے رہے –

عصمت گل خٹک پہاڑوں کے بیٹے ہیں سو اکثر معاملات میں پہاڑ بنے نظر آتے ہیں شروع شروع میں ہم عصمت کو خٹک پٹھان نہیں سمجھتے تھے ہم سوچتے تھے کے وہ پٹھان ہو ہی نہیں سکتا جو نسوار نہ رکھے مگر آہستہ آہستہ سمجھ ایی کےےے پٹھان کے لیے نسوار نہیں کردار ضروری ہے

عصمت سے پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوی اور پہلی ملاقات میں ہی انہھوں نے ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر ایک عرصے تک ایسی ہی نظر سے دیکھا بہت دیر بعد ان کی نظر.. کمزور.. ہوی تو انہھوں نے پیار سے دیکھنا شروع کر دیا اب خدا جانے اس کا سبب نظر کی کمزوری ہے یاان کی نا سمجھی

عصمت کو موسیقی سے بہت لگاو ہے سراییکی موسیقی سرعام سنتا ہے مگر پشتو موسیقی اپنے بیڈ روم میں سنتا ہے

کیونکہ پشتو موسیقی سنتے ہوے اس کے اندر کا خٹک بے قابو ہو جاتا ہے اور جب تک وہ گھر کے تین چار درجن برتن نہ توڑے وہ سمجھتا ہے حق ڈانس خٹک ادا نہیں ہوا سو جس دن وہ اپنے بیڈروم کارروازہ بند کرتادکھای دے ہماری بھابھی سمجھ جاتی ہے کے آج پھر خٹک صاحب پہ.. خٹک.. آے ہوے ہیں

عصمت ایک زمانے میں شاعر بھی تھا اور مشاعروں میں شریک ہو کے اپنا سکہ جمانے کی کوشش کرتا تھا وہ بطور شاعر سکہ جماتے جماتے اچانک صحافت کی طرف نکل گیا اور اس شعبے میں کامیاب ٹھہرا

عصمت لکھتے ہوے خوف خلق کے بجاے حق صحافت کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے سو اپنی اس کوشش میں وہ عوام الناس میں تو محبوب سمجھا جاتا ہے مگر خواص میں بہت.. معیوب.. سمجھا جاتا ہے اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے بعض لوگ اسے..قلم چھٹ.. بھی کہھتے ہیں سو ان کی قلم کے رنگ ڈھنگ آپ دیکھتے رہتے ہیں کوشش وہ کرتے ہیں کے لوگوں کے ذہنوں سے سے زنگ اتارا جاے سو زنگ اتارتے اتارتے بعض اوقات کوی … زنگ زدہ.. ان پہ کیچڑ بھی پھینک دیتا ہے مگر چونکہ نیک نمازی آدمی ہیں سو اللہ انہیں کیچڑ پھینکنے یا پھینکوانیں والے کا حساب برابر کر دیتا ہے

عصمت کو کھانے اور کھلانے کا بہت شوق ہے سو وہ آے روز کھانے کا کوی نہ کوی بہانہ ڈھونڈنا رہتا ہے کھانا کھاتے ہوے اسے پسینہ بہت آتا ہے پہلا پسینہ وہ اپنے رومال سے پونچھتا ہے دوسرا اور تیسرا چوتھا اور پانچواں پسینہ کسی نہ کسی دوست کے رومال سے لیکن جب میزبان کے رومال سے پسینہ پونچھے تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کے موصوف کھانے کے درمیان میں پہنچ چکے ہیں

عصمت کے کسی دوست کی شادی ہو تو سب سے بڑی فکر یہ ہوتی ہے کے

.. شالا عصمت نوں رجا گھناں………………

عصمت گل کے حوالے سے سے اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر کچھ باتیں چوراہے میں کرنے والی نہیں ہوتیں

جیتے رہو  —    22 اکتوبر  2016

اے میرے صاحب
احباب اعجاز تشنہ صاحب کے حوالے سے

بہت پوچھ رہے ہیں تو اس حوالے سے عرض ہے کے انکی طبیعیت ابھی مسلسل خراب ہے وہ بات چیت کے قابل نہین ہیں باوجود کوشش کے سرکاری سطح پر ان کے علاج کی کوی صورت نظر نہیں آتی شفااللہ خان روکھڑی صاحب اپنے طور پہ خدمت میں مصروف ہیں باقی کسی جانب سے تادم تحریر تعاون کی کوی آواز سنای نہیں دے رہی احباب سے دعا کی درخواست ہے  –  22 اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

معروف شعراء اسد خان…. محمد ظہیر احمد….. سلیم شہزاد……….. اور ان معصوم شعراء کو سازشوں کی راہ پہ لگانے والے منیر آے منیر جو الطاف حسین کی طرح بیرون ملک بیٹھ کے انہیں ہمارے خلاف بھڑکانے رھتے ہیں نے یک زبان ہو کے پوچھا ہے……………………………………………………….. اے لنگی کتھوں ماری ہیی؟………………….. ان کی خدمت میں عرض ہے ہمیں یہ لنگی معروف شاعر مفتی عمران خان صاحب نے عطا فرمای ہے اور الحمد للہ نماز جمعہ پڑھنے کے بعد خاص طور پہ آپ تین لوگوں کو جلانے کے لیے پوسٹ کی ہے…………………… اور اپنے احباب محبت سے گزارش ک…………………… زرا دیکھو توImage may contain: 1 person, sitting

Image may contain: 1 person, standing

21  اکتوبر  2016

میانوالی کی غیرت مند دھرتی کا بیٹا عمران خان واحد لیڈر ہے جو لٹیرے اور کرپٹ حکمرانوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے انصاف کے نظام کے لیے ہم ان کے ساتھ ہیں ۔
کلچرل ونگ کی تنظم سازی کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے جلدمکمل کر لیں گے ۔ 23  اکتوبر   2016

اے میرے صاحب

ہمیں ہمارے موکلین…………………………………نے بتایا ہے کے سلیم شہزاد…. اسد خان……. محمد ظہیر احمد…….. اور منیر اے احمد……… تینوں ہمارے خلاف بہت خاموشی سے سازش کا جال بن رہے ہیں…………….. منیر صاحب کچھ پڑھ پڑھ کے پھونک رہے ہیں جسکی وجہ سے ہم اس وقت کھانسی اور نزلے کی لپیٹ میں ہیں گو ڈاکٹر کا اصرار ہے کے موسم کی تبدیلی کی وجہ سے آجکل نزلہ زکام کھانسی عام ہے سو ایک تو مریض کو چاہیے کے وہ اپنا منہ ڈھانپ کے رکھے تاکہ گھر کے دوسرے لوگ بیماری کا شکار نہ ہوں گو کے ہم نئی دلہن کی طرح چہرے چھپاے ایک کونے میں پڑے ہیں مگر ہمیں ایسا لگتا ہے کے چہرہ. دکھای کے طور پر ہماری بیگم بھی کھانسی کی زد میں آ چکیں ہیں سو ہم نے بیگم سے کہھ دیا ہے کے اگر آپ بار بار.. دلہن.. کا چہرہ دیکھیں گی تو کھانسی تو آے گی………….. بہرحال ڈاکٹر کی راے اپنی جگہ مگر یہ کیسے ممکن ہے کے ہم بیماری کے پیچھے موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جادو ٹونے کے شک سے باہر آجائیں…………Image may contain: 1 person, standing, outdoor and nature

سو
آپ احباب سے دعا کی درخواست ہے میڈیسن لے رہے ہیں اگر کسی کے پاس جادو کے توڑ کا کوی منتر جنتر ہے تو بتااا دیجے  24
 اکتوبر  2016

Image may contain: 1 person, text

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person

اخلاقی طور پہ وزیر اعلی بلوچستان اور امن امان قائم رکھنے کے زمداران کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے مگر اس کے لیے جس بہادری اور اعلی اخلاقی اقدار کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں نہیں پای جاتی
دہشت گرد اپنے پسندیدہ وقت اور ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی پلاننگ میں ہمیشہ کامیاب نظر آتے ہیں مگر ان کا راستہہہ روکنے والے ادارے مسلسل ناکام نظر آرہے ہیں بلوچستان پر وقفے وقفے سے دہشت گرد حملے کرر ہے ہیں اور ہمارے سویلین پولیس اور فوج کے جوان خون کا نذرانہ دیتے چلے آرہے ہیں
کیا…..
ان شہیدوں کے خون کا نذرانہ دینے پر وزیر اعلی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خراج تحسین پیش کرتے ہوے اپنے اپنےےے استعفی کا اعلان کرسکتے ہیں؟
قوم منتظر ہے بطور..خراج… ان کے مستعفی ہونے کے اعلان کی
………………………….. نوٹ زکام اپنے عروج پر ہے مگر شہداء ے کوئٹہ نے لکھنے پر مجبور کر دیا  —  
 25  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب
……………. الحمداللہ… …………………. ہم اس بات پہ کامل یقین رکھتے ہیں کے میرا رب ہی……….. . . …. ……….. … مختیار آعلی ہے وہ بے مثل و بے مثال ہے وہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ہے اگر مجھ سے کوی پوچھے کے بندے کے اللہ پہ کتنے حق ہیں تو میں کہھوں گا بندے کے اللہ پہ اتنے حق ہیں کے انگلیوں پہ گنے نہیں جا سکتے مگر اللہ بندے پہ صرف ایک حق چاہتا ہے اور وہ حق ہے اسے… لا شریک ماننے کا………. یعنی اللہ انسان کے ہر برے عمل کو معاف کردیتا ہے مگر اسے یہ بلکل پسند نہیں کے کسی کو اسکا شریک سمجھا جاے وہ اپنے ساتھ کسی بھی قسم کی شرکت برداشت نہیں کرتا
مجھے بچپن سے اولیاکرام اور صوفیا کے ساتھ بہت عقیدت ہے ہمارے شہر سے باہر ایک دربار ہے…. میاں اللہہہ فقیر…………… یہ دربار مٹی کی ایک قبر پہ مشتمل تھا قبر کے ارد گرد جھاڑیاں تھیں ان جھاڑیوں کے اندر قبر تھی اب ایک مختصر کمرہ اور چھوٹی سی مسجد بھی ہے………….. میں اکثر ادہر آجاتا اور شام تک موجود رہتا
یہ مجھے یاد نہیں کے کچھ پڑھتا بھی تھا یا نہیں البتہ اتنا یاد ہے خاموشی سے بیٹھا رہتا تھا میرے علاوہ بھی اکثر لوگ یہھاںںں آتے تھے دعا مانگتے اور پھر.. میٹھا روٹہ…….بھی بانٹتے تھے کچھ لوگ چنے اور گڑ بھی تقسیم کرتے تھے……………………… جمعرات کے دن لوگ زیادہ آتے تھے اور سارا دن انا جانا لگا رہتا تھا مجھے یاد نہیں کے میں نے بھی کبھی کوی منت مانی تھی یا نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ جب کبھی اداس ہوتا تو میرے پاوں دربار کی طرف مڑ جاتے دربار اور میرے گھر کا فاصلہ تین سے چار میل کا ہوگا جو میں پیدل طے کرتا تھا…..
.. میاں اللہ فقیر… کون تھے کہھاں سے آے اس کے بارے مجھے معلوم نہیں ہوسکا…..
میاں اللہ فقیر…. کے علاوہ نور محمد گھنجیرہ کا مزار مبارک بھی میرے لیے بہت کشش رکھتا تھا ان کا مزار مبارک بہتتت خوبصورت انداز میں بنا یا گیا تھا مجھے یاد ہے ایک بار مزار کے رنگ روغن میں میں نے بھی حصہ لیا تھا
یہھاں بھی جمعرات کو بہت رش ہوتا تھا ان کا میلہ بھی بہت مشہور تھا جو مارچ کے مہینے میں.. چیت..کے دنوں میں لگتااا تھا اور پورے مہنے لگا رہتا تھا خاص طور پہ پہلی اور آخری جمعرات پہ ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے میلے میں عوامی دلچسپی کا بھی بہت سامان ہوتا تھا کھانے پینے سے سے لیکر کبڈی اور عوامی ٹھیٹر بھی موجو د ہوتے تھے
اس میلے میں وہ خواتین حضرات جن پر جن ہوتے تھے ان کے جن نکالنے کا بھی اہتمام ہوتا تھا جن نکالنے کے لیے ایککک کمرہ تھا اور اس میں ایک کالا سا بندہ ڈھول بجاتے ہوے
.. خیر ہووی شیرایا لاڈلا…………………گاتا رہتا تھا یہ دراصل جن کو خوش کرنے کے لیے ایک گیت تھا جس کے باقییی بول یاد نہیں رہے گاتا رہتا تھا اور جن پہ
جن ہوتے تھے وہ بیٹھے بیٹھے اپنے سر کو دھمال کے انداز میں دائیں سے بائیں جھٹکتے تھے اور پھر زیادہ جوش کییی صورت میں وہ باقاعدہ کھڑے ہو کے دھمال ڈالتے اور پھر یکدم پر سکون ہو جاتے ایک بزرگ جو موجود ہوتے تھے وہ پھر جنات کے ساتھ مکالمہ کرتے ان بزرگ کا جنات کے ساتھ مکالمہ بہت دلچسپ ہوتا تھا.. …………………………………. بزرگ….. تمہارا نام کیا ہے؟
جن…. نہیں بتاونگا
بزرگ…. نام بتانا پڑے گا
جن نہیں بتاونگا
بزرگ… اچھا یہ بتاو کس مذہب سے ہو
جن……. نہیں بتاو نگا
بزرگ.. اس کا مطلب ہے تم بد مزہب ہو ایسے نہیں بتاو گے
یہ کہنے کے بعد وہ بزرگ ایک شخص کو حکم دیتے جاو اور لوہا گرم کر کے لے آو
حکم سنتے ہی ایک شخص سرخ انگارے کی طرح جلتا ہو لوہے کا ایک ٹکڑا لے آتا یہ منظر دیکھنے والے سہم جاتے وہہہ بزرگ حکم دیتے–  

Image may contain: 1 person, night

… جناب عالی…

اسلام آباد کا ایوان اعلی لرز ر ہا ہے نہتی اور پر امن خواتین پر تشدد ایک شرمناک عمل ہے جو چند خواتین کے اجتماع پر تشدد پہ اتر آے وہ لاکھوں کے اجتماع کا سامنا کیسے کرے گی حکومت دفعہ 144
کے پردے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے مگر لاکھوں کارکن انہیں چھپنے نہیں دیں گے حکومت وقت سے پہلےے اپنے اوسان خطا کر چکی ہے… 27  اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

Image may contain: 1 person, sunglasses

السلام علیکم

ہم اس عمل کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں حالانکہ یہ عمل درحقیقت ایک دعا ہے جو ہم ایک دوسرے کو دیتے ہیں مگر اس عمل کو کوی خاص اہمیت نہیں دیتے اور عمومی طور پہ سستی اور لاپرواہی کرتے ہیں اور یوں جہاں خود دعا سے محروم ہو جاتے ہیں وہاں اپنے بہت پیارے دوستوں کو بھی دعا سے محروم کر دیتے ہیں بعض لوگ دس کلو کا سر ہلا کے نجانے قریب سے گزرتے ہوے کیا کہھ جاتے ہیں مگر ایک چھٹانک کی زبان سے اسلام علیکم کہنا گوارا نہیں کرتے
بعض لوگ محض اس لیے سلام میں پہل نہیں کرتے کے اس طرح وہ چھوٹے آدمی لگیں گے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جووو سلام کرنے والے کا مزاق اڑاتے ہیں بعض دوست تو ایک دوسرے کو دیکھتے ہی بہت بڑی گالی نکال کے حال احوال پوچھتے ہیں یہ سب نا سمجھی کی بات ہیں……………….
سلام درحقیقت اللہ ربالعزت کانام ہے اور اس کا مطلب سلامتی ہے یہ اسم اپنے اندر شفا کے ساتھ ساتھ تسخیر کے اثرات بھییی رکھتا ہے آپ راہ چلتے ہوے ہر شخص کے ساتھ سلام کا انداز اختیار کیجئے چند دنوں بعد بہت سے لوگ آپ کے ساتھ محبت کرتے نظر ایں گے وہ احباب جو بیماریوں اور تنگ دستی کا شکار ہیں ور سلام کو رواج دیں ان کے لیے شفا اور آسانیاں پیدا ہونا شروع ہو جایں گی مگر شرط یہ ہے کے یہ عمل اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہوے اور ہر شخص کے لیے ہو یعنی اسے بھی سلام کہھو جسے جانتے ہو اور اسے بھی سلام کریں جسے آپ نہیں جانتے اس حوالے سے یہ بتانا ضروری ہے کے کے ایک شخص کو نبی کریم نے فرمایا……….
تم دو کام کیا کرو……………………………..
1کثرت سلام
2بھوکوں کو کھانا
یہ عمل تمیں اللہ کی مہربانیوں سے محروم نہیں رہنے دے گا
………………. جمعہ مبارک………….
 28 اکتوبر  2016

………….. جناب عالی……………….

Image may contain: 1 person, night

….. حکومت اپنی.. میڈیا بلبل.. کو بکرے کے گھاٹ اتارنے کا غصہ پی ٹی آی کے کارکنوں پہ نہ اتارے………………………………………..……
بلکہ باوظو ہو کے پورے اخلاص کے ساتھ
اپنی قربانی کا اہتمام کرے تاکہ قربانی قبول ہو……………………………………..

اے میرے صاحب…………………………………….

Image may contain: sky and outdoorImage may contain: 1 person

میں سنڑیاں اے…. رات دے پچھلے پہار……. جیڑا خواب آوے………… او سچ ہونداے…….
میں…… ڈٹھا ہے…… میڈا سانول سائیں… میڈا ناں چینداے…. تے. رونداے……….

. اس پچھیا تے… اونکوں ڈسیا میں… حالت نیں بدلے میرے………. ………………… …

اسے آر میڈے. گھر بکھ تے ڈکھدے… ہن شام صباحییں پھیرے………………………

میڈے گھر دیاں کندھاں… کچیاں ہن……

میڈا کوٹھا…….اج وی چوہنداے.. 30 اکتوبر  2016

…………. جناب عالی……………………… حکومت اپنی.. میڈیا بلبل.. کو بکرے کے گھاٹ اتارنے کا غصہ پی ٹی آی کے کارکنوں پہ نہ اتارے……………………………………………..

بلکہ باوظو ہو کے پورے اخلاص کے ساتھ

اپنی قربانی کا اہتمام کرے تاکہ قربانی قبول ہو………………. 30 اکتوبر  2016

اے میرے صاحب

No automatic alt text available.

Image may contain: text

…………… جناب عالی …………………

Image may contain: 1 person, text

یہ کیسی جمہوریت ہے؟

جس میں ایک صوبائی وزیر اعلٰی کو بھی دوسرے صوبے میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینا پڑتی ہے

یہ کیسی جمہوریت ہے؟

جس میں صوبائی وزراء صوبائی اپوزیشن لیڈر ایم این اے ایم پی ایز کو بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں گرفتار کیا جارہا ہے

یہ کون سی جمہوریت ہے کے جس میں

اس وقت ہزاروں سیاسی کارکن ملک کے مختلف حصوں سے اسلام باد جانے کے لیے نامعلوم راستوں کے زریعے سفر کر رہے ہیں

کیونکہ معلوم راستوں پہ ناکے اور پولیس گردی عروج پہ پے

ایسا رویہ تو آمریت میں بھی نہیں اپنایا گیا

اے میرے صاحب

جناب اختر شمار صاحب ہمارے بہت پیارے دوست ہیں ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں بطور شاعر ان کے نام ومقام سے ہر ایک آگاہ ہے ان کی ایک نظم………….. سڑک پہ آو…………………. آپکی خدمت میں پیش ہے
ارادہ ہے کے اسے کمپوز کرکے کسی اچھی آواز میں ریکارڈ کیا جاے فلحال آپ اسے پڑھ –

No automatic alt text available.

……………. جناب عالی………………………….
راستہ دشوار
کارکن تیار
حکومتی دیوار
کرنی ہے پار…. ہو کے ہشیار.. چل میرے یار.   31 اکتوبر  2016ا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top