اے میرے صاحب

ستمبر  2016

ملک کے معروف موسیقار زولفقار علی ہمارے بہت پیارے ہیں لمحہ موجود میں وہ بہت اہم موسیقار ہیں انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے ک بہت برے دور میں بھی انہھوں نے بہت خوبصورت میوزک کے زریعے فلم انڈسٹری کو اپنے پاوں پہ کھڑے ہونے کا موقعہ دیا
ہم نے ان کے ساتھ ایک فلم میدان میں بطور شاعر کام کیا انفرادی طور پہ بھی کچھ کا م کیا
آجکل ہم ان کے ساتھ بہت اہم پراجیکٹ پہ کام کر رہے


کام کرتے ہوے چند تصاویر پیش خدمت ہے ہیں–3ستمبر  2016

اے میرے صاحب

حضرت سلیم شہزاد کی زنبیل سے نکلنے والی چند تصاویر جن کی وجہ سے وہ ہمیں بلیک میل کرکے مہنگے مہنگے کھانے کھاتے رہے ہیں گزشتہ رات ہم نے انہیں اچھا سا کھانا کھلایا اور پھر ان سے یہ تصاویر نکلوائیں


اب زرا آپ بتاییے ک ان تصاویر میں کون سی ایسی بات ہے جسکی وجہ سے وہ کم بخت ہمیں بلیک میل کرتا رہا ہے؟—5ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہمارے مرشد پاک حضرت مظہر قیوم. ر……
ایک ایسی روحانی شخصیت جن کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی دل کی کیفیت بل جاتی تھی
میرا رب ان کے درجات بلند کرے آمیں-ستمبر  2016

اے میرے صاحب

شفااللہ خان روکھڑی کا البم مکمل ہو گیا ہے گزشتہ کئی دنوں سے ان کے البم پہ کام ہو رہا تھا شفا اللہ خان روکھڑی کو مطمعن کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے وہ شاعری اور موسیقی کے معاملے میں بہت حساسں ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کے شاعری اور موسیقی کے انتخاب کے دوران اپنی روایتی موسیقی کے انگ کو بھی مد نظر رکھا جاے اور ایسے میوزک اور شاعری سے گریز کیا جاے جو کسی بھی حوالے سے ہماری روایات کے خلاف ہے ان کی راے ہے کے جو میوزک اور شاعری جسموں میں ھنگام پیدا کردے وہ ہمارے معاشرے کے لیے ناسور ہے اور جس موسیقی سے دلوں میں گداز اور سوز پیدا ہو جاے وہ ہمارے معاشرے کے لیے قطعی طور پر مضر نہیں ہے ان کا خیال ہے کہ ہماری بقا اور مضبوطی اپنے انگ اور رنگ میں ہے-ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہم کوشش کرتے ہیں کے نیے ٹیلنٹ کو بھی سامنے لا یَا جاے اور ان کے فن کو نکھارنے میں ان کی مدد کی جاے ہم نے بھت سے ایسے نوجوانوں کے ساتھ کا کیا ہے جنہوں نے ملکی سطح پر بہت نام کمایا بعض علاقائی سطح پر بہت مقبول ہوے
حقیقت یہ ہے کے آج کا نوجوان بہت ٹیلنڈڈ ہے اس کے اندر بہت طاقت اور آگے بڑھنے کا جنون ہے مگر اس کا مطلب یہہ نہیں ہے ک اسے رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے
سینئر کا تجربہ اور نوجوان نسل کا جنون کسی فنی ایٹم بم سے کم نہیں ہے اور اس وقت ہمیں ثقافتی ہتھیاروں کی بھی ضرورتت ہے جو ہمارے دشمنوں کے گھروں تک مار کرتے ہوے ان کے دلوں کو تسخیرِ کرے
یوں تو بہت سے نوجوانوں کا نام لیا جا سکتا ہے لیکن سراییکی گائیکی کے حوالے سے عطاء اللہ عیسی خیلوی کے بیٹے سانول کوو بھی سب سے پہلے ایک پروفیشنل سنگر کے طور پر ہم نے متعارف کرایا اور عطا صاحب کے ساتھ ایک گیت میں الاپ کے زریعے ان کے فن کو آزمایا
اتفاق کی بات ہے کے لمحہ موجود کے معتبر سرائیکی گلوکار شفااللہ خان روکھڑی صاحب کے بیٹے زیشان روکھڑی کو بھیی ہم نے ہی مائیک پہ کھڑا کیا ان کے گیتوں کو آپ نے قبول کیا
اب ان کے مزید گیت ریکارڈ کیے ہیں زیشان اپنے والد کی طرح بہت سوز اور سر کے ساتھ گاتے ہیں اور ان کی گائیکی میں انن کے والد کی خوشبو پھیلتی نظر آتی ہے

زیر نظر تصویر میں ہم شفااللہ خان روکھڑی صاحب زیشان روکھڑی اور ہمارے ملک کے بہت بڑے میوزیشن کی بورڈ پلیر عمران صاحب بھی موجود ہیں–8ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہم عطاء اللہ عیسی خیلوی صاحب کو اپنی گفتگو اور تحریر کا موضوع نہیں بنانا چاہتے
مگر ہمارے اور ان کے بہت قریبی دوست عصمت گل خٹک باقاعدہ پوسٹ لکھ لکھ کے ہمارے منہ پہ مارتے رہتے ہیںں کے ہم ان کی سیاست کے بارے لکھیں مگر ہم خاموش رہتے ہیں حالانکہ ایک کالم نگار کے طور پہ ہم سیاست کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہتے ہیں
ہم اپنے کالموں میں عمران خان کی سیاست پہ لکھتے رہتے ہیں اور بعض سیاسی معاملات میں ان پر تنقید بھی کرتے ہیں مگر ہمم عطا صاحب کی سیاست کے حوالے سے سے خاموش رہتے ہیں


اب ہمارے بہت عزیز نجف بلوچ نے قسم دی ہے کے ہم ان کے سیاست مین رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے کچھ لکھیں تو ہم اپنے احباب سے پو چھتے ہیں کے ہم اس بکھیڑے میں پڑیں کے نہیں؟—10 ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہم عطاء اللہ عیسی خیلوی صاحب کو اپنی گفتگو اور تحریر کا موضوع نہیں بنانا چاہتے

مگر ہمارے اور ان کے بہت قریبی دوست عصمت گل خٹک باقاعدہ پوسٹ لکھ لکھ کے ہمارے منہ پہ مارتے رہتے ہیں کے ہم ان کی سیاست کے بارے لکھیں مگر ہم خاموش رہتے ہیں حالانکہ ایک کالم نگار کے طور پہ ہم سیاست کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہتے ہیں

ہم اپنے کالموں میں عمران خان کی سیاست پہ لکھتے رہتے ہیں اور بعض سیاسی معاملات میں ان پر تنقید بھی کرتے ہیں مگر ہم عطا صاحب کی سیاست کے حوالے سے سے خاموش رہتے ہیں

اب ہمارے بہت عزیز نجف بلوچ نے قسم دی ہے کے ہم ان کے سیاست مین رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے کچھ لکھیں تو ہم اپنے احباب سے پو چھتے ہیں کے ہم اس بکھیڑے میں پڑیں کے نہیں؟–10ستمبر  2016

اے میرے صاحب

چھوٹی عید پہ ہمیں کیا فکر ہوتی تھی اس کے بارے میں ہم پہلے بتا چکے ہیں مگر بڑی عید پہ ہمیں ایسی کوی فکر نہیں ہوتی تھی کے جس کی وجہ. سے ہماری ماں کی آنسو نکلتے اور ہمارے ابا کو کہنا پڑتا کے
. مارا ما نوں تنگ نا کیتا کرو


دراصل ابا جیسے تیسے کر کے ایک بکری کا بچہ خرید لیا کرتے تھے اور قربانی کے نام پہ سارا سال ہماری آنکھوں کے سامنے رہتا مگر جونہی قربانی کے دن قریب آتے اس بکرے کی اہمیت بڑھ جاتی ہم تینوں بھای اپنے اپنے طور پر بکرے کی ملکیت کے دعوے دار بن جاتے جب جھگڑا بہت بڑھ جاتا تو پھر کیس اماں کی عدالت مین جاتا اماں بڑے غور سے ہمارا کیس سنتیں اور فیصلہ سناتی کے
پہلے کناں نوں ہتھ لاو
ہم ڈرتے ڈرتے کانوں کو ہاتھ لگاتے تو اماں کہتی
بکرا اللہ دے ناں دا ہے تے تہاڈے چوں کوی مالک کونی
ہم بکرے کی ملکیت سے دستبردار ہو جاتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات درست کر لیتے
عید سے چند دن پہلے ہم بکرے کی بہت دیکھ بھال کرتے مجھ سے چھوٹے ناصر بھای تو حاجی کے. کھو.. سے چوری چوریی گاجریں چرا کے لے آتے بکرا گاجریں سونگھ کے کھانے سے انکار کر دیتا تو وہ اماں سے پوچھتا
اماں بکرا گاجراں کیوں نیں کھاندا؟
اماں پیار سے اس کے گال پہ میٹھا سا طمانچہ لگاتی اور کہتی
بھیڑا توں جو چوری دیاں گاجراں کھوینداں ایں اللہ دا بکرا چوری دے شیے کیجے کھاوے؟
اماں کی اس تنبیہ کے بعد ناصر بھی چوری سے باز آجاتے مگر بہانے بہانے سے بکرے کو کھو کی طرف لے جاتے بکراا دوچار گاجریں کھاتا تو چاچا حاجی آواز لگاتا
بعض آون ناصر بعض آونج
ناصر بہت دھیمے سے جواب دیتا چاچا بکرا اللہ دا اے
چاچا حاجی مسکراتے ہوے کہھتا
بچڑہ لگام تاں تیڈے ہتھ اچ ہے کے نیں؟
عید سے چند پہلے بکرے کو مہندی لگا جاتی بکرے کو باندھنے کے لییے بہت خوبصورت رسی بنای جاتی اور تھوڑی تھوڑیی نمائش بھی کی جاتی ساتھ دوستوں کو دعوت دی جاتی کے قربانی کے دن آ کے گوشت لے جانا اور پھر جب بکرا قربان کیا جاتا تو ہم لوگ باقاعدہ رو پڑتے.
اماں ہمیں سمجھاتی کے بیٹے رونے کی ضرورت نہیں بکرا تو اللہ کا تھا سو اللہ کو دے دیا ہے
ان دنوں زمانے کا چلن ایسا نہیں تھا جیسے اب ہے
اب قربانی کا جذبہ کم اور نمائش زیادہ ہو گیی ہے چھوٹے شہروں تو خیر ابھی پرانی روایت باقی ہے مگر بڑے شہروں میںں نمائش زیادہ ہو گیی ہے اکثر لوگ بہت قیمتی قیمتی بکرے خرید کے ان کی باقاعدہ نمائش لگاتے ہیں یہ لوگ تیس چالیس لاکھ کے بکرے خرید کے گھر سے باہر باندھ دیتے ہیں روزانہ رات کو باقاعدہ ڈھول باجے والے بل ے جاتے ہیں جو ساری رات بھگنڑے دالتے رہتے ہیں بعض بد بخت تو ہیخڑے بلا کے باقاعدہ ڈانس پروگرام بھی کراتے ہیں اور ان پروگرام میں ایم پی اور اہم این اے تک بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہیں
مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کے کے کسی عالم دین نے اس فعل کی مذمت کی ہو یا اسے قربانی کے نام پر ایک جاہلانہ رسم قرار دیا ہو البتہہ ہر نماز کے بعد کھالیں اپنے مدرسے کے لییے ضرور مانگتے ہیں
ہم قربانی کے جانور کی نمائش کے خلاف نہیں ہیں لیکن ایک ایسا عمل کے جس کی وجہ سے عام غریب لوگوں کے اندرر احساس محرومی بڑہے اور غریب بچے اپنے ماں باپ سے پوچھنا شروع کر دییں کے
ہم قربانی کب کرییں گے اور بچارے ماں باپ آنسو پونچھتے ہوے کہیں
جب اللہ توفیق دے گا
گزارش یہ ہے کے آپ قربانی کے جانور کی نمائش کریں لیکن فیشن شو نا بنائیں بلکہ قربانی کے مفہوم کو سمجھنے کی کوششش کرییں غریبوں مسکینوں کا خیال کرییں
ایک غریب آدمی جو قربانی کا جانور نہیں خرید سکتا اسے اور اس کے بچوں کو احساس محرومی کا شکار نا ہونے دییں اپنے قیمتیی جانوروں کو ڈھول تماشے لگاکے عوام کو نا دکھائیں قربانی اللہ کے لیے ہے
اور اللہ دیکھ رہا ہے
وہ تمام احباب جنہیں اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے انہیں عید کے دن ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے جو سارا سال عیدد قربان کا انتظار کرتے ہیں کے عید اے گی تو ہم بھی گوشت کھائیں گے
تمام احباب کو عید مبارک–
12ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہمارے بعض احباب تو بلکل بچوں کی طرح ہیں ضد پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں اور اگر کہھا جاے کے یار زرا مصروف ہیں تو باقاعدہ بگڑ جاتے ہیں اور نجانے کیا کیا سنا دیتے ہیں
اب ایک صاحب بیرون ملک سے ضد پکڑے بیٹھے ہیں کے فلاں گانا تو سناو ہزار منت کی کے بھای سنا دییں گے مگر مجال ہے جوو ہماری سنیں دے میسج پہ میسج دے میسج پہ میسج ہمارا تو موبائل ہی زخمی کر دیا ہے اب ب دباتے ہیں تو ہ آجاتا ہے ہ دباتے ہیں تو ن اجاتا ہے
کوی اک مصیبت ہے
لو تم تو سنو… زخمی دل…. صاحب—12ستمبر  2016

اے میرے صاحب

جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ریڈیو اور بائیسکل خریدنے کا شوق پیدا ہوا مگر دونوں چیزیں خریدنے کی طاقت نہیں تھی مگر اپنا شوق پورا کرنے کے لییے ہم نے بہت محنت کی اور دونوں چیزیں خریدنے کے قابل ہو گیے
اس زمانے میں ریڈیو اور بائیسکل کو بہت سجا کے رکھا جاتا تھا ہم نے سائیکل پر خاص توجہ دی اسے طرح طرح کے سنگھار سےے سجایا ایک چیز جو اس کے سامنے کی
لائیٹ تھی وہ لینے کے لییے ہم کندیاں سے میانوالی گئیے اور وہ بھی سائیکل پہ سائیکل پہ لائٹ لگانے کا فائدہ یہ ہوا کے ابب رات کے وقت آسانی رہتی تھی اتوار والے دن سائیکل کو باقاعدہ نہر پہ لے جا کے نہلایا جاتا تھا اور پھر اسے تیل سے چمکانے کے بعد آرام سے ایک کونے میں کھڑا کردیا جاتا تھا اتوار کا دن سائیکل کے آرام کا دن ہوتا تھا ہارن بھی ہم.نے. بھونپو.. لگایا ہوا تھا سو آواز سے پتہ چل جاتا تھا کے ہم آرہے ہیں
البتہ بزرگ حضرات. بھو نپو. کی آواز سے چڑتے تھے ادھر ہم. بھاں.. کرتے ادھر سے آواز آتی.. تیڈیی تاں………………………..
اچھا زمانہ تھا ہم.. تیڈی تاں………… سن کے بھی آگے نکل جاتے تھے اور اگر کسی دن جوانی کے جوش میں کسیی بزرگ کے آگے زبان کھولتے تو گھر آتے ہی ابا میاں… ہاتھ میں جوتی پکڑتے اور ساتھ ہی دس بارہ بار تیڈی تاں..بھی سنا دیتے
اس دوران ایک آدھ جوتی ہمارے سائیکل کے سر پر پڑجاتی تو ہم برا سامنہ بنا کے کہتے
ابا شودھے سائیکل دا کہڑا قصور اے..
مگر ابا ہماری سنی ان سنی کرتے ہوے بھونپو اتارنے کا حکم دے دیتے ہم رونے لگ جاتے تو اماں ابا کو سمجھاتی
اچھا ہن پرے کر


آج صبح گھر سے باہر کھڑے تھے کے دور گلی میں ایک سائیکل سوار نظر آیا ہمیں اپنا زمانہ یاد آگیا سائیکل والا نوجوان قریب آیا تو ہم نے اسے سائیکل روکنے کا اشارہ کیا وہ رکا تو ہم نے اس سے سائیکل
مانگی اور سوار ہو’گیے اور پوری گلی کا چکر لگایا تو ہمارے ایک دوست نے چند تصاویر بنا ڈالیں
جو کے آپ کے حضور پیش کر رہے ہیں
اور ہاں پھر بعد ایک عدد موٹر سائیکل پہ بھی ہاتھ سیدھے کیے–
14ستمبر  2016

پارٹ 1

اے میرے صاحب

شاعر معاشرے کا نباض اور مشاعرے معاشرے کی زینت ہوتے ہیں مشاعرے صرف شاعروں کے لیے ہی نہیں عوام کے لییے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں ہم نے جس زمانے میں شاعری کا آغاز کیا اس زمانے مشاعروں کا عام رواج تھا اور ہر خاص عام بہت دلچسپی لیتے تھے یہ مشاعرے نہ صرف لوگوں کو تفریح مہیا کرتے تھے بلکہ لوگوں کے ذھن بھی بدلتے تھے سوچ میں نکھار آتا تھا اور دل محبت کے ساز پر دھڑکتے تھے

آپ نے کبھی سوچا کے جن دنوں اس ملک میں مشاعرے اور اپنے کلچر کی نمائندگی کرنے والا میوزک عام تھا ان دنوں محبت بھی عام تھی مگر جو نہی شاعری اور میوزک کو ایک عام چیز سمجھتے ہوے اسے طرح طرح کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہمارا معاشرہ طرح طرح کے تضادات میں الجھ گیا محبت پیار بھای چارا سب کچھ ختم ہو گیا اور اس وقت ہم درد سے بھری ہوی قوم کے طور پر وقت کے پنجے میں سسک رہے ہیں

سوال اٹھایا جا سکتا ہے کے کیا محض شاعری اور میوزک کے زریعے معاشرے میں تبدیلی لای جاسکتی ہے؟

جواب یہ ہے کے اگر تبدیلی نہیں بھی لای جاسکتی تو کم سے کم اس کے زریعے.. ظالمانہ اور سنگدلانہ سوچ کو مارا جاسکتا ہے

ہمارے صوفیا نے اس خطے میں شاعری اور موسیقی کے زریعے ہر طرح کے منفی رویوں کو شکست دی ہم اب بھی منفی رویوں کو شکست دے سکتے ہیں

گزشتہ رات ہم کروڑ تھے ہمارے عزیز دوست محمد ظہیر احمد ظہیر کے ساتھ ایک شام کا اہتمام تھا سو میانوالی سے مفتی عمران نسیم بخاری مظہر نیازی شاہد بخاری ندیم بخاری اختر مجاز اور سلیم شہزاد ہمارے ساتھ تھے سلیم شہزاد نے پورے سفر میں خاصا پریشان کیا ان کا دعوٰی تھا کے وہ اس علاقے کے ایک ایک انچ سے وہ واقف ہیں اور ایک ایک انچ پہ انہوں جو بھی دعوی کیا غلط نکلا ایک دوبار تو ہم نے فیصلہ کیا کے اسے یہیں پر اتار دیا جاے مگر مصیبت یہ تھی کے راستے کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے ایک علاقے سے گزرے تو اس نے کہھا یہھاں سے کروڑ صرف بائیس میل ہے مگر تھوڑی دیر بعد تختی لکھی نظر ای یہھاں سے کروڑ بتیس میل ہے ہم نے سلیم سے کہا تختی پہ لکھا ہے کے کروڑ بتیس میل ہے وہ شرمندہ ہونے کے بجاے کہنے لگا تم عجیب آدمی ہو ایک انسان سے زیادہ پھتر کی تختی کو سچا ثابت کر رہے ہو—16ستمبر  2016

پارٹ2

اے میرے صاحب
سلیم شہزاد بضدتھے کے یہاں سے کروڑ بائیس میل ہے جبکہ سڑک کنارے لگی تختیاں چیخ چیخ کے کچھ اور کہھ رہی تھیںں ہمیں بہت غصہ آیا قریب تھا کے ہم سلیم شہزاد کو ایک جڑ دیتے مظہر نیازی کا فون آیا کے صاحب شام یعنی دولہا میاں کا باقی میک اپ تو مکمل ہو گیا ہے مگر وہ سرخی لگانے سے انکاری ہے ہم نے کہھا کوی بات نہیں ہونٹ لال کرنے ہیں سرخی نہیں لگانے دیتا تو تمباکو والا تیز کھتے والا پان کھلادو ہونٹ لال ہو جایں گے اس گفتگو کے دوران اچانک ایک چرواہا بکریاں ہانکتے ہوے نظر آیا ہم نے مفتی عمران صاحب سے گاڑی روکنے کی درخواست کی اور اتر کے چرواہے کے پاس چلے گیے سلیم شہزاد بھی ہمارے پیچھے آگیا ہم نے چرواہے کو سلام کیا اور پوچھا
چاچا اتھوں کروڑ کتنے میل اے؟
اس نے مسکراتے ہوے کہھا
.. پتر لیلے باک اے..
ہم نے حیران ہو کے پوچھا
لیلے باک ہے؟
بزرگ مسکرایا اور کہھا
پتر توں شہری بابو لگدایں تیکوں لیلے باک دا کیا پتہ
اور پھر اس نے سلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہھا
توں سمجھا اینکوں لیلے باک دے بارے
اور پھر اپنی. ڈانگ، بکریوں کی طرف کھڑے کرتے ہوے زور سے
اچ اچ اچ اچ…….. کخ کخ کخ…. اچ اچ اچ
ان الفاظ کے سنتے ہی تمام بکریاں سڑک ایک کنارے ہو گییں
ہم نے سلیم شہزاد سے پوچھا اس لیلے باک کا مطلب ہے؟
اس نے بہت سنجیدگی کے ساتھ کہھا لیلے باک کا مطلب ہے کروڑ یہاں سے
. بائیس میل ہے.
ہم خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیے مفتی عمران صاحب نے ماحول بدلنے کے لیے صوفیانہ کلام کی ایک سی ڈی لگای اورر پٹھانے خان کی آواز گونجی
چھینڑاں انج چھینڑیندا یار
اس کلام نے اپنا اثر دکھایا اور ہم پٹھانے خان کی آواز کلام میں کھو گیے کوی دس میل کے قریب سفر کیا تھا ک اچانک ایکک تختی نظر ای
کروڑ بائیس میل
ہم نے سلیم شہزاد کی طرف دیکھا تو کم بخت نے منہ کھول کے کہھا
پڑھ لو کروڑ بائیس میل ہے
ہم نے کہھا تم پچھلے دس میل بھی گنو
مگر اس نے کہھا حقیقی تختی ہے باقی تختیاں یہھاں کے لوگوں نے انگریز دشمنی میں خود لکھ کے لگای ہوی ہیں ہم کچھ کہناا چاہتے تھے کے ندیم بخاری کا فون آیا اور کہنے لگا کے دولہا کی حالت خراب ہونے لگی ہے ہم نے کہھا کیا ہوا اسنے بتایا تمباکو والے پان نے اثر دکھانا شروع کر دیا ہے اور وہ بضد ہے ک تم لوگ مجھے اغواء کر کے کہھا لے جا رہے ہو اور اس نے بہل تھانے فون کر کے اطلاع کر دی ہے کے کچھ لوگ مجھے اغواء کر کے کروڑ لے جا رہے ہیں
یہ ایک نیی مصیبت تھی ہم جونہی تھانہ بہل کی حدود میں داخل ہوے پولیس کی گاڑی میں بیٹھے اہلکاروں نے ہمیں رکنےے کا اشارہ کیا ہم نے پریشانی کے عالم میں بریک لگای تو پولیس والوں نے ہمیں–18ستمبر  2016

پارٹ 3

اے میرے صاحب

باوجود اس کے ک مفتی عمران خان جیسی ایک بابرکت شخصیت ہمارے ساتھ تھی ہم نے احتیاطی طور پہ اپنا شناختی کارڈ نکالنے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا مگر پولیس کے نوجوان نے ہمیں کہا ک آپ گاڑی میں تشریف رکھیے اور دائیں طرف مڑ جاییں انسپکٹر عبدالقیوم خان نیازی صاحب شدت سے آپ کے منتظر ہیں ہم تھانے کی طرف مڑے تو یار دلدار قیوم خان ہمارے منتظر تھے انہھوں نے بہت محبت سے ہمیں اپنے گھر کے ڑرایینگ روم میں بٹھایا اور بہت پرتکلف چاے اور دیگر لوازمات کے ساتھ ہماری تو اضع کی ان کے ساتھ ایک گھنٹے تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا پرانیی یادوں کو نیے زاییقے سے دہرایا گیا ہم نے جب احباب کو بتایا ک ایک زمانے میں موصوف بطور ادکار سکرین کا حصہ رہےے ہیں اور میانوالی سے تعلق رکھنے والے پہلے شخص ہیں جو بطور ادکار ایک سیریل میں ہیرو کے طور آے اس انکشاف پہ مظہر نیازی اور اختر مجاز نے پوچھا عاجز بھای ان اداکاری کا ٹیلنٹ کیسا تھا ہم نے کہھا اداکار بہت اچھے تھے لیکن کم بخت حسین ایسا تھا ک
اس کا ڈرامہ تو مشہور ہو ہی گیا مگر ساتھ ہی نازنینوں کے ساتھ بھی مشہور ہونے لگا اور بات ابا تک پہنچ گیی بس پھر وہی ہوا جو اکثرر کے ساتھ ہوتا ہے
قیوم خان سے اجازت لے کے ہم کروڑ روانہ ہوے عزیزم ظفر عدم اپنے دوستوں آصف اور دیگر کے ساتھ ہمارےے استقبال کے لییےموجود تھے
پنڈال شہریوں کی بہت بڑی تعداد سے بھرا ہوا تھا سراییکی وسیب کے بہت بڑے شاعر ڈاکٹر اشو لال فقیر بھی موجود تھےے ان سے مل کے بہت خوشی ہوی ان کی درویشانہ شخصیت نے بہت متاثر کیا اور پھر ہمیں اس وقت بہت خوشی ہوی جب انہھوں نے سراییکی زبان کے فروغ کے حوالے سے نہ صرف ہماری تعریف کی بلکہ اپنے صدارتی خطاب میں بھی ہمیں اپنی محبت سے نوازا سلیم شہزاد کے لییے بھی انہھوں نے بہت محبت کا اظہار کیا
محمد ظہیر احمد ظہیر اور مخمور قلندری کے حوالے سے بھی یہ بات نمایاں طور پہ کہی گیی کے غزل اور نظم کے حوالے سےے دونوں نوجوان شاعر اپنی زبان کے لییے بہت اہمیت اختیار کرتے جاتے ہیں
مشاعرے میں بھی بہت سے شعراء نے بہت خوبصورت کلام پیش کیا جو بلا شک شبہ بہت اعلی معیار کا تھا مشاعرے کےے دوران ہمارے پیارے مومن مولای اچانک اے اور ہم باغ باغ ہو گییے محمد ظہیر احمد ظہیر اس وقت بہت خوش ہوے جب بھورل ملنگ تشریف لاے بھورل ملنگ نے ایک سانس میں دس سے پندرہ دوھڑہ سناے تو ہم نے ان کو اس فن پر بہت داد دی بعد میں جب ان سے تعارف ہوا تو انہھوں نے پوچھا
میکوں کر نیں ساڑ کے کولا تئیں لکھا اے
ہم نے کہھا جی قبلہ میں لکھا اے
انہھوں اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ مارتے ہوے کہھا
میکوں اتھاں لگدا اے اتھاں لگدا اے
اور پھر ہم سے بہت محبت کی مگر محمد ظہیر احمد کچھ کچھ اداس لگ رہے تھے
اس تقریب کے دوران محسوس ہوا ک سراییکی وسیب کے لوگ شعرادب کے حوالے سے بہت چاھت رکھتے ہیںں اور شعروسخن کی محفلوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں جسکا ثبوت ان کا شام سات بجے سے رات تین بجے تک ہال میں موجود رہنا ہے
ادبی تقریبات کے حوالے سے وزیراعلٰی پنجاب سے گزارش ہے کے وہ موسیقی اور شاعری کے حوالے سے منعقدہہ تقریبات کے لییے اجازت کے عمل کو آسان بنائیں اس طرح کی محفلوں کے انعقاد سے معاشرے میں اچھی سوچ پیدا ہوتی ہے مگر افسوس کی بات ہے ک بعض اوقات اجازت کے نام پر ہمارے شاعروں ادیبوں اور گلوکاروں کوبہت پریشان کیا جاتا ہے جو کے اچھی بات نہیں ہے
اہل کروڑ کوں لکھ لکھ سلام-
19ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہم لاہور پہنچ چکے ہیں سفر بہت اچھا رہا اس بار ہم نے الصبح سفر کا آغاز کیا تو یہ تجربہ بہت اچھا رہا سڑک پہ ٹریفک کا دباؤ بہت کم تھا سو صورت حال وہی تھی…….

سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے

البتہ کہیں نہ کہیں کوی گدھا اچانک سڑک کے درمیان اکڑ کے کھڑا ہو جاتا اور پھر بہت مشکل سے ادھر ادھر ہوتا مگر کہیں کہیں بکریاں بھی سڑک کے درمیان آ جاتیں لیکن چرواہے کی ایک آواز پہ فوراً سڑک کے درمیان سے ہٹ جاتییں ہمارے ساتھ ہمارے بیٹے علی بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے اس نے کہھا پاپا کتنا فرق ہے گدھے اور بکری کے ذھن میں، 

میں نے اسے سمجھایا کے انسان بھی اگر زرا زرا سی بات پہ ضدکرتے ہوے.. اکڑنا.چھوڑدے اور ایک لمحے کے لییے اپنے مزاج میں بکری کے اس وصف کو شامل کر دے تو زندگی کی سڑک پر کوی تصادم نہ ہو ہر ایک شخص سکون سے سڑک پر چلتے ہوے اپنی منزل پر پہنچ جاے

بہرحال یہ بات تو ویسے ہی درمیان میں آگیی

دراصل ہم اپنے دوستوں کو بتانا چاہتے ہیں کے ہم نے اسلام آباد انا تھا مگر اب ہم مزید کچھ دن لاہور رہیں گے کیونکہ لاہور میں ابھی کام باقی ہے کچھ دوستوں کے ٹریک بن چکے ہیں اور ووکل باقی ہے شفااللہ خان روکھڑی کا ویڈیو شوٹ باقی ہے ایک سرائیکی فلم کے گانے ریکارڈ کرنے ہیں

ملک کے معروف موسیقار زولفقار علی عطرے کا کچھ کا م باقی ہے دو تین اور دوستوں کا کام بھی باقی ہے اسلام آباد کے دوستوں سے فلحال معذرت

انشاءاللہ بہت جلد ان کے ساتھ ملاقات ہوگی—20ستمبر  2016

اے میرے صاحب

آج ایک عجیب بات درپیش ہے اور آپ کی مدد کی ضرورت ہے ہمارے بڑے بیٹے عدنان صاحب نے ایک بلکل نیا موبائل خریدا ہے ہم نے کہھا موبائل. تو بہت زبردست ہے اس نے کہھا ابو یہ. موبائل ایسی تصویر بناتا ہے کے سبحان اللہ

آو آپ کی تصاویر بناوں

ہم نے کہھا ایک منٹ ہم زرا شیو کر لیں

اس نے کہھا اس موبائل کی خوبی یہ ہے ک اگر شیو بڑھی ہوی ہو تو ایسا نظر آتا ہے ک جیسے شیو کی ہوی ہے

ہم بہت حیران ہوے اور تصویریں بنوانے لگے مگر جب تصاویر دیکھیں تو شیو بڑھی ہوی تھی

ہم نے کہھا یہ کیا یہ تو شیو نظر آرہی ہے؟

اس نے کہھا یہی تو بات ہے آپ کو شیو نظر آرہی ہے لیکن آپ کے دوست دیکھیں گے تو

شیو نظر نہیں اے گی

ہم نے کہھا یہ کیسے ممکن ہے؟

اس نے کہھا آپ تصاویر پوسٹ کر کے دیکھ لیں اور اپنے دوستوں سے پوچھ لیں

ہم نے کہھا چلو دیکھ لیتے ہیں

تو میرے مہربان دوستو کیا ہماری شیو بڑھی. ہوی نظر آرہی ہے؟—21ستمبر  2016

اے میرے صاحب

تیں توں وچھڑے تیں توں بعد وطن توں وچھڑے
مل ناں سگے چھیکڑی وار پتن توں وچھڑے

عشق زمیں تو چا کے ساکوں چن تے کھڑیا
تاراں پای پھیٹی تے ونج چن تے وچھڑے

ہکے ما دے جاے انجو انج تھی موئے
پہلے دھن توں بعد اچ کملے زن تو وچھڑے

گنڑں گنڑں میڈیاں انگلاں وچ کڑول پو گیے ھن
یاد وی نئیں جو ہا سے کیڑے سن توں وچھڑے
سوں چا ڈیندا ں کیئں کپڑے کوں ہتھ لاون دی
جیڑے ڈہینہ دے ہاں تیڈے بو چھنڑں توں وچھڑے—22 ستمبر  2016

اے میرے صاحب

آج ثناءاللہ خان المعروف شنو خان جو عطاء اللہ عیسی خیلوی صاحب کے چھوٹے بھای ہیں فیس بک پہ ان کی تصویر دیکھی تو بہت کچھ یاد آگیا

شنو خان بہت درویش اور محبت سے بھرے ہوے آدمی ہیں بہت باادب اور نفیس انسان ہیں ہمیں وہ بڑے بھای کا احترام دیتے ہیں وہ بہت کم خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت کم اپنے آبائی گاوں سے باہر نکلتے ہیں آجکل وہ پنڈی میں مقیم ہیں ہم جب عطاء صاحب کے ساتھ ہوتے تھے تو کبھی کبھی وہ لاہور آیا کرتے تھے مگر بمشکل دو چار دن رہتے اور پھر واپس چلے جاتے
ہمارے ساتھ وہ بہت گپ شپ لگاتے تھے ہم جب پچھلے دنوں اسلام آباد میں تھے تو وہ ہمارے پاس تشریف لاے اورر پورا دن ہم ایک دوسرے کے ساتھ دل کی باتیں کرتے رہے شنو خان بہت خوددار اور انا پرست انسان ہیں
ان کے بارے بہت کچھ لکھنے کو دل چا رہا ہے جو ہم آیندہ کسی پوسٹ میں ضرور لکھیں گے
جیتے رہو شنو خان آپ کی تصاویر دیکھ کے بہت کچھ یاد آگیا
کیونکہ مجھے یاد ہے وہ زرازرا—
23ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہم اس وقت اسلام آباد میں سلیم شہزاد کے گھر پہ قابض ہیں ہم صبح مختلف لوکیشن پر گییے بعض جگہ اجازت کا معاملہ درپیش ہے
سلیم شہزاد صاحب ابھی آتا ہوں کہھ کے نجانے کس کے ساتھ نکل چکے ہیں ان کی فریج میں سواے برف کے کچھ بھیی نہیں ہے البتہ ان کا ایک مرغا آنگن میں میں کہرام مچا ے پھرتا ہے کیوں نا اس پہ
تکبیر پڑھ دی جاے,؟
کسی کے پاس چھری ہو گی؟—
25 ستمبر  2016

اے میرے صاحب

کل کسی نہیں کہھا

اپنی مونچھوں والی تصویر تو دکھاو

ہم نے کہھا

مدت ہوی ہے یار کو مہماں کیئے ہوے

مگر وہ بضد تھے کے دکھاو اور ہر حال میں دکھاو

ہم نے کھا بہت مشکل کام پہلے. مونچھ بڑھانی. پڑے گی پھر انہیں کالا کرنا پڑے گا

یہ تو اچھا خاصا خرچے والا کام ہے

مگر وہ بضد تھے کے

دکھاو دکھاو دکھاو

اتفاق کی بات ہے کے آج پرانے رسالے نکالے تو ملتان سے شائع ہونے والا.. سراییکی ادب. کا ایک شمارہ ہاتھ لگ گیا دیکھا جس میں ہماری ایک تصویر موجود تھی سو فوراً

خیال آیا ک ان صاحب کی فرمائیش پوری کر دی جاے

آپ خواتین حضرات سے گزارش ہے ک لائیک یا کومنٹ میں یہ نا لکھ دینا

.. اف اللہ آپ تو بڑے بدماش لگتے ہو……… یہ تصویر 1982کی ہے–27ستمبر  2016

 

اے میرے صاحب

اکھیاں کوں ھنجوواں دے سنگ پرنا چھوڑاے
دل دے بھار کوں آخر دل تو لاہ چھوڑاے

کتنے تائیں خوف دی ڈل اچ جیندا میں
حوصلہ کر کے خوف کوں کل دفنا چھوڑاے–28ستمبر  2016

اے میرے صاحب

زیر نظر تصویر ایک عام سی تصویر ہے مگر اس تصویر کے پیچھے تصویر کے ساتھ جڑا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے
یہ تصویر عطاء صاحب اور میڈم نور جہاں کی ہے عطا صاحب چاہتے تھے کے ہم یہ تصویر اپنے آفس میں لگائیں انہوں نےے تصویر فریم کرکے ہمارے سپرد کردی ہم نے سوچا ابھی فارغ ہو کے لگا دیں گے مگر کام میں الجھنے کی وجہ سے بھول گییے عطا صاحب روزانہ ہمارے کمرے میں آتے دیوار دیکھتے اور خاموشی سے واپس چلے جاتے
تین چار دن بعد انہھوں نے کہھا.. افضل عاجز.. صاحب آپ کو ایک تصویر دی تھی؟
ہم نے شرمندگی ظاہر کرتے ہوے کہھا ہم. بھول گیے تھے آج لگاتے ہیں یہ کہھ کے جب ہم نے دراز کھولی تو تصویرر کافریم ٹوٹ چکا تھا
ہم نے حیات خان کو تصویر فریم کرنے کے لیے بھیجھا تو یہ خبر عطاء صاحب کو بھی پہنچ گئی عطا صاحب جب اپنی مونچھ پکڑڑ لیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے
کے
. خان بھابھاہے.
حیات خان فریم شدہ تصویر مجھ سے آنکھ بچا کے عطاء صاحب کے پاس لے گیا
بس پھر کیا دیکھتا ہوں کے عطاء صاحب
کیل اور ہتھوڑی لیے میرے کمرے میں آگیے اور تصویر لگانے لگے مگر ان کا نشانہ چوکا
اور ہتھوڑی ان کی انگلی میں ایسی لگی کے
بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا
میڈی انگلی گئی
انگلی خاصی زخمی ہو گیی اور وہ کئی دن تکلیف میں رہے
مگر ہم روزانہ انہیں چھیڑتے ہوے کہتے
دیوار پہ ایک تصویر لگوانی ہے لگا دو گے
وہ ایک موٹی سی.. دعا.. دیتے اور ہم قہقہے لگا کے اپنے کمرے میں اجاتے–
29ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ایک تو ہم نے ایک مشاعرے کے سلسلے میں ہندوستان جانا تھا مگر اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کے ہم وہاں نہیں جائیں گے
جیسا کے آپ احباب جانتے ہیں کے ہندوستان کے وزیراعظم نے پاکستان کے خلاف زبانی حملوں کے بعد ان کیی طرف سے محدود سطح کا زمینی حملہ بھی کیا ہے جس میں ہمارے دو جوان وطن پہ قربان ہو گییے ہیں مگر انہھوں نے دشمن کے عزائم کو اپنے خون سے نا کام بنادیا ہم سمجھتے ہیں کے ہندوستان میں بھی امن کے ساتھ جینے والے لوگ موجود ہیں وہاںں کے لوگ بھی جنگ کی تباہی کو سمجھتے
ہیں مگر نیندر مودی ایک ایسا شخص ہے جس نے ایک ایسی دہشت گرد تنظیم سے تربیت حاصل کی ہے جو مسلم دشمنی میںں بہت آگے ہے
ہندوستان کے عوام کی بدقسمتی ہے کے وہ ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کر چکے ہیں جو تشدد اور خون ریزی کو پسند کرتا ہےے اور اپنی قوم کو جنگ کے شعلوں میں دھکیلنا چاہتا ہے
مگر ہم پاکستانی امن کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں ہم نے کبھی بھی ہندوستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھا بلکہ ان کےے جارحانہ عزائم کے سامنے صرف اپنا دفاع کیا ہے
ہم سمجھتے ہیں کے ہم ایک بار پھر ہندوستان کے جارحانہ عمل کے سامنے ہیں
اور یہ ایک تشویشناک بات ہے
سو اب ہمیں بھی ایک قوم کے طور پہ اپنے عزم کو بلند کرنا چاہیے بطور قوم لازم ہے کے ہم کسی ایسے عمل کا حصہ نا بنیں جس سےے ہمارے کسی بھی دشمن کو فائدہ پہنچے سو ہم ہر اس شیے کو نظر انداز کرییں جس سے ہمارے دشمن کو سیاسی سماجی ثقافتی یا معاشی فائدہ پہنچے ہمارے ان فنکاروں کو واپس پاکستان آجانا چاہیے جو اس وقت ہندوستان میں موجود ہیں یہ فنکار اگر وہاں کی انڈسٹری کے اہم ہیں تو ان کی واپسی ان کے لییے نقصان دہ ہوگی اور اگر یہ آرٹسٹ وہاں غیر اہم ہیں تو پھر انہیں اپنے ملک میں کوشش کرنی چاہیے
کل 30ستمبر ہے اور عمران خان نے راییونذ کی طرف مارچ کرنا مارچ کرنا ان کا حق ہے مگر موجودہ حالات کا تقاضا ہے کےے وہ اپنے مارچ کو مختصر رکھیں اور نواز شریف کے حوالے سے جو بھی کہنا چاہتے ہیں اسے زیادہ طول نا دییں اور عمران خان کو چاہیے کے وہ شیخ رشید جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھولنا نا بنیں ایسے لوگ مشکل وقت میں اپنے دوست کو آگ میں جھونک دیا کرتے ہیں
نواز شریف کو بھی عمران سے رابطہ کر کے انہیں ملکی حالات اور سرحدی معاملات پہ اعتماد میں لینا چاہیے
نواز شریف کو چاہیے کے وہ فوراً قوم سے خطاب کرتے ہوئے قوم کواعتماد میں لیں چ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کا مشترکہہ اجلاس بھی جلد بلانا چاہے
ہمیں مودی تک یہ پیغام پہنچانا چاہیے کے
اس پرچم کے ساے تلے ہم ایک ہیں–
29ستمبر  2016

اے میرے صاحب

ہندوستان سے جہاں منفی آوازیں سنای دے رہیں ہیں وہاں مثبت آوازیں بھی سنای دے رہیں ہیں ہمیں دونوں آوازوں پر اپنا ردعمل بہت خوبصورت انداز میں ظاہر کرنا چاہیے
شاہ. رخ خان جو کے بلاشبہ بہت بڑے اداکار ہیں انہھوں نے اپنی فوج کے جوانوں کو سیلوٹ کیا ہے اور ان کی بہادری پہہ خراج تحسین پیش کیا ہے انہیں اپنے ملک کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوے یہ بھی پوچھنا چاہیے آخر کیا وجہ ہے ک تم ہمیشہ رات کے اندھیرے میں چھپ کے وار کرنے میں شیر ہو دن کے اجالے میں للکار کے وار کرنےسے کیوں گھبراتے ہو؟
اور کیا وجہ ہے کے ہمارے دشمن پاکستان کا سپاہی دن کے اجالے میں سینے پہ گولیاں کھاتے ہوے جان دے دے دیتاا ہے
ایک آواز ادکار سلیمان خان کی بھی سنای دی ہے اس نے بہت بہادری کے ساتھ پاکستان کے فنکاروں کا دفاع کرتےے ہوے کہھا ہے
پاکستان سےجو فنکار ہمارے ملک آتے ہیں وہ دہشت گرد نہیں ہیں وہ ہمارے قانون کی پابندی کرتے ہوےے باقاعدہ. ویزہ حاصل کرتے ہیں جو چھان بین کے بعد دیا جاتا ہے
سلیمان خان نے بہت دلیری کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے جس پر ہمیں اپنا مثبت موقف ضرور سامنے لانا چاہیےے تاکہ ہندوستان کے عوام تک بھی ہماری آواز پہنچے اور وہاں سے مزید مثبت آوازیں بلند ہوں اور مودی کے پرتشددت نظریات کو نقصان پہنچے–
30ستمبر  2016

No shortCode found

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top