گالی کا تحفہ

محترم
آپ نے میانوالی گزٹ کا حوالہ دیا ہے جو انگریزوں کے دور میں انگریزی سرکاری کارندوں کی سہولت کیلئےے انگریزوں کا لکها تها – انگریزوں کے مطابق تو میانوالی کے نیازی ، انتہائ بے اعتبار اور ‘ نیازی بہ بد راضی ‘ ہیں — ہندوستان کے لوگوں کو جانچنے کا انگریزوں کا اپنا پیمانہ تها اور وہ اپنے افادی پہلو سے بات کرتے تهے – اور ان کو پٹھان عوام نہ تو کبهی پسند اور نہ ہی راس آئے — اس کی ایک ظاہری وجہ میں آپ کے گوش گزار کردوں –
پہلی جنگ عظیم میں انگریزی افواج میں میانوالی کے لوگوں پر مشتمل ایک رسالہ عرب علاقوں میں تها جس نےے مقدس مقامات پر فائرنگ سے انکار کر دیا تها – اس واقعے کے بعد نیازیوں پر انگلش سرکار کی نوکری بند کر دی گئ تهی ، ان ہی دنوں میں کچه لوگوں نے سرکاری ملازمت کیلئے اپنی زات برادری تک تبدیل کر ڈالی تهی –
خان بہادر سلطان خان سہراب خیل ، جس نے یتیمی سے اپنی زندگی کا آغاز کیا تها ، ان پڑہ ہونے کے باوجود انگریز سرکار کا اعتمادد حاصل کر کے آنریری میجسٹریٹ بنا تها – چند ماہ تک کی سزا تک کا اختیار ان کو حاصل تها – اپنے قبیلے کے ایک جوان کو جو ملزم کی حیثیت سے ان کے سامنے پیش ہوا تها ، سلطان خان صاحب نے سزا سنانے کے بعد پولیس کو کہا تها کہ یہ میرا عزیز ہے ، جیل جاتے ہوئے اسے چهاوں چهاوں لے کر جانا – یہ چهاں چهاں تے والا فقرہ وہاں اب ضرب المثل بن چکا ہے – یہی خان بہادر سلطان خان نیازیوں کے چهوٹے سے سرسید احمد خان ثابت ہوئے اور میانوالی کے خوانین پر سے انگریز سرکار کی نوکری کی پابندی ختم کرائ – یہ باتیں مختلف بزرگوں خاص طور پر محمد اکبر خان خنکی خیل سے سنی ہیں جو غازی علم دین شہید کے اہل خاندان کے میزبان تهے ، اور وہ خان بہادر سلطان خان اعزازی مجسٹریٹ کے اعزازی سیکریٹری کے طور پر کام کرتے تهے —
جنگ عظیم دوم کے موقع پر جب انگریزوں کو شمالی جانب سے روس کے آنے کا خطرہ ہوا تو انگریز ڈپٹی کمشنر میانوالی نےے سلطان خان کو بلایا اور پوچها کہ اگر ہماری جگہ یہاں روس آگیا تو تم لوگوں کا کیا رد عمل ہوگا –
خان بہادر سلطان خان نے کہا کہ آپ کی بستر بوریا باندھنے میں مدد کر کے بہت پیار سے آپ کو گاڑی پر بٹهائیں گے اور اگلےے اسٹیشن پر جا کر روس کا استقبال کر لیں گے کیونکہ ہم غلاموں کا تو صرف مالک ہی تبدیل ہوگا، ہمیں اور کیا فرق پڑے گا – یہ بات بهی وہاں ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے –
انگریز ڈپٹی کمشنر کے ذکر سے ایک بات یاد آگئی ، آزادی سے قبل کچه مسلم آفیسرز بهی ضلع میانوالی کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیںں ، جن میں احمد حسن خان بهی شامل ہیں – ان کی میانوالی میں پوسٹنگ ہی ، ان کی ایک صاحبزادی شوکت خانم کی ڈاکٹر عظیم خان شیر مان خیل کے صاحبزادے انجنیئر اکرام اللہ خان نیازی سے جو کہ عمران خان کے والدین ہیں ، شادی کی بنیاد ثابت ہوئ – اور جب زرداری جیسے لوگوں کو طعنہ دینے کیلئے اور کچه نہ ملے تو اسے طنزا” عمران خان نیازی کہتے ہیں —
سو کسی کی طرف سے ہم لوگوں کو نیازی یا میانوالی کا ہونے کی گالی کا تحفہ کوئ نئ بات نہیں ہے —
جنجوعہ صاحب آپ نے خان بہادر سلطان خان مرحوم کے بارے میں مزید معلومات کا لکھا ہے اور مجھے افسوس ہے کہہ میانوالی کی ایک اتنی اہم شخصیت جسے آپ نیازیوں کا چھوٹا سا سرسید احمد خان کہہ سکتے ہیں میرے پاس بہت ہی کم معلومات ہیں ۔ ان کا گھر میانوالی شہر کےاولیں ، گرلز ہائی اسکول کی مغربی دیوار کے ساتھ متصل اور اکبریہ مسجد کے عین سامنے تھا ، میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ اٹھارویں صدی کے اختتام پر قائم ہونے والے اس پہلے گرلز اسکول کیلئے زمین ان کا عطیہ تھی یا زادہ خیل قبیلے کے افراد کا ۔ ان کے اکلوتے صاحبزادے اقبال خان مرحوم میانوالی سے لاہور شفٹ ہو گئے تھے ، کبھی کبھار وہ میانوالی آتے تو اس وقت کے پرانے لوگ انہیں بہت گرم جوشی سے ملتے تھے ۔ مزید معلومات محترم حمید اختر خان نیازی صاحب ، ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری بتا سکتے ہیں وہ ان کے قریبی عزیز ہیں اور دانشور بهی ، اور سوشل ورک کا بهی گہرا ادراک رکھتے ہیں ۔ میں عتیق خان صاحب شیر مان خیل جرنلسٹ سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کے بارے تحقیق کریں وہ غالبا” اسی محلے کے مکین ہیں ۔
ایک دلچسپ کہاوت البتہ میں شئیر کروں گا ۔ جیسا کہ میں نے ابتدائیے میں عرض کیا ہے کہ سلطان خان صاحب بچپنن لڑکپن میں یتیم ہو گئے تھے تو انہیں ایک نمبردار نے اپنے ہاں ٹھہرا لیا تھا لیکن ان کا سلوک کچھ مشفقانہ نہیں تھا ۔
قسمت کا کھیل دیکھئیے کہ وہی نمبردار صاحب اور ان کی بیوی اپنی آخری عمر میں اتنے مفلوک الحال ہو گئے تھے کہ انہیںں خان بہادر سلطان خان کی کفالت میں آنا پڑا تھا جو اس وقت تک آنریریری مجسٹریٹ اور درجنوں مربع زمین کے مالک بن چکے تھے ۔ محمد اکبر خان جنکی خیل بتاتے تھے کہ اس عروج و زوال کو یاد کر کے کبھی کبھی سلطان خان اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے تھے —
عجب تیری قدرت عجب تیرے کھیل
گنجی کے سر پر چمبیلی کا تیل
خان بہادر کے ٹائیٹل کے بارے میں بھی عرض کر دوں –
انگریز سرکار کی خدمات کے عوض مسلمانوں کیلئے خآن بہادر کا تمغہ تھا ، ہندوؤں کیلئے یہی تمغہ رائے بہادر اور سکھوںں کیلئے سردار بہادر کے ٹائیٹل سے تھا ۔ جنوبی ہند میں اسے راؤ بہادر بھی کہا جاتا تھا ۔ اس سے کمتر ٹائیٹل ، خان صاحب ، رائے صاحب اور سردار صاحب تھے – یہ غلامی کی دور کی نشانی ہے لیکن ابھی تک ان گھرانوں کے لوگ اپنے بزرگوں کے ٹائیٹل پر فخر کرتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں جاگیروں اور بڑی زمینداری کے مالک یہی لوگ بن گئے تھے –
Atique Khan. . Bahadur Janjua. Aamir Niazi.. Aman Ullah Khan Niazi. Parween Zahid. Shehnaz Khan.
( دوستوں کے کمنٹس آپ ضرور دیکهیئے گا ، کچه مزید گوشے شاید آپ کی نظر سے پہلی بار گزریں )

ظفر خان نیازی – 23 اگست2015

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top