اس پوسٹ کی کہانی

میں جانے کن خیالوں میں فیس بک کی نیوز فیڈ دیکھ رہا تھا اور دوستوں کی جنرل پوسٹ پڑھ ریا تھا کہ میرے سامنے میری ہی ایک پرانی پوسٹ آئی جو میانوالی کے پردہ سسٹم اور گھر کے اندرونی میکنزم کے بارے میں هے – میری عادت هے ، وقت ملے تو میں پرانی تحریروں کو نظر ثانی کی غرض سے دیکھتا رہتا ہوں – نوک پلک سنوارنے کا ایک خیال یوں بھی آتا هے کہ شاید ان تحریروں کے مجموعے کو کبهی شائع کردوں – کچھ دوست مستقل سوال کرتے ہیں کہ کیا ان تحریروں پر مبنی میری کوئی کتاب هے – فیس بک پر آنے سے پہلے ہی میری پانچ کتابیں تو شائع ہو چکی ہیں اور دو تین مسودے تیار شکل میں بهی ہیں – پاکستان میں ادب کی کتاب اکثر و بیشتر خود ہی چھاپنا پڑتی هے جس کی کثیر تعداد تو تحفے میں ہی بٹ جاتی هے – لیکن نفع نقصان کا سوچا جائے تو کوئی شاعری ہی کیوں کرے ، اتوار بازار میں آلو پیاز کا ٹھیلا ہی کیوں نہ لگا لے – لیکن جب یہ پہلے نہ ہو سکا تو اب کیسے ہو – سو ممکن ہوا تو پرانی روایت ہی نبھائی جائے گی اور نفع نقصان سے بالا تر ہو کر کتاب ہی چهاپی جائے گی – سو اس کو ایڈیٹ کرنے کے موڈ میں میری بے دهیانی میں جانے کیا بٹن دب گیا کہ وہی شٹل کاک برقعے کی تصویر میری پروفائل پک بن کر آپ لوڈ ہو گئی – اپنی وال پر اپنی ڈسپلے پک میں خود کو برقعے میں دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ فیس بک کے دوست کیا سوچیں گے – سوچتے ہوں گے کہ آخر یہ نیازی صاحب اس عمر میں کیا کر بیٹهے ہیں کہ مولوی عبدالعزیز کی طرح برقعے میں نکل کهڑے ہوئے ہیں – اور مولوی صاحب تو پھر بھی اتنے ایڈوانس ضرور نکلے کہ شٹل کاک کی جگہ ماڈرن اور وہ بھی کالا برقعہ پہنے ہوئے تھے – تو میں کیا جواب دوں گا کہ ترقی کی دوڑ میں میں شٹل کاک برقعہ پہن کیوں دوڑ رہا ہوں – ایک خیال آیا چلو برقعے والی پک چلنے دو – کوئی پوچهے گا تو بے نیازی سے کہہ دوں گا کہ محبوب کی پک هے – لوگ ایسے محبوب سے بہت متاثر اور خوش ہوں گے کہ آج کے محبوب تو اتنے بے باک ہوگئے ہیں کہ عاشق کو بعض اوقات کہنا پڑتا هے ، شرم کرو ، حیا کرو ، آخر حیا بھی کوئی چیز ہوتی هے – اور محبوب بہت سنجیدگی سے پوچھتا هے ، وہ کیا چیز ہوتی هے – بہرحال اس طرح کی مشہوری کمپنی کو بہت فائدہ دیتی هے – لالہ عطااللە عیسی خیلوی کے سفر فن کے آغاز پر ان کی ایسی ہی دبے دبے عشق کی دبی دبی داستان بہت مشہور ہوئی تھی اور لالہ کی یہ کہانی کوئٹہ بلوچستان تک جا پہنچی تھی – کئی ایسے لوگ بھی اس ناکام عشق کی ہمدردی میں لالہ کی درد بھری تانیں اور کرلاتی پکاریں بہت شوق سے سنتے تهے جن کو سرائیکی کی الف بے نہیں آتی تھی – میں ان دنوں وہاں تھا اور وہاں دو ایک خواتین نے تو نیازی ہونے کے ناطے سے ہمدردی میں مجھے بھی حوصلہ افزا تسلیاں دی تهیں – کئی ایک نے تو لالہ کا فون نمبر تک مانگا تھا – ان دنوں میں ٹیلی فون بھی پڑوسی کے گھر میں جا کر کرنا پڑتا تھا اور ساری داستان تو پڑوسی سن لیتے تھے اور بہت خوش ہوتے تھے کی آخر ان کا ٹیلی فون کسی کار خیر میں کام آیا – کیا کیجئیے ، لوگ بے چارے سچا عشق کرنا چاہتے ہیں – خود نہیں کر سکتے تو دوسروں کے عشق کا سن کر بہت خوش ہوتے ہیں – عشق کرنا ان کیلئے اس لئے مشکل ہوتا یے کہ کہیں محبوب نہیں ملتا ، کہیں عشق کا تیسرا ضروری کردار یعنی رقیب نہیں ملتا اور عشق ، عشق بننے سے پہلے شادی میں ڈھل کر اپنی عمر فانی کو پینچ جاتا هے – گریا عشق کی کامیابی اور کامرانی کیلئے اس کا ناکام ہونا بہت ضروری هے – سوچا اس طرح عشق کی جهوٹی سچی کہانی فائدہ دے سکتی هے کہ ہماری شاعری کی دکان خوب چل پڑے گی – لیکن ایک تو ڈهلی جوانی کا خیال آیا جو اب کچھ زیادہ ہی ڈهلک گئی هے – ممکن هے کوئی امیتا بچن کی طرح ہمیں بهی اس عمر میں ہیرو تسلیم کر لے لیکن پهر وہی ہماری روایتی بزدلی آڑے آگئی جس کے طفیل ہماری زندگی ابھی تک عافیت سے ہی گزر رہی هے اور اب جو مڑ کر دیکھتے ہیں تو لگتا هے ، اپنے ہر محبوب کی شادی کا کسی اور سے ہونے کے موقع پر ہمارا ہر بار یہ اعلان کہ —مولوی صاحب !!! یہ شادی ہو سکتی هے — اچھا فیصلہ ثابت ہوا ہے –
بات پروفائل پر برقعے کی پک سے چلی تھی – انہی خیالوں میں مجھے اپنی جو پک پہلے نظر آئی ، جلدی سے آپ لوڈ کر دی –
آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے اسے لائیک کیا – کچھ فرینڈز نے میری صحت کے بارے میں بھی کہا – ان کی آبزرویشنن درست هے – یہ پک پچھلے سال کی هے اور اس وقت میں بیماری کی حالت میں تھا اور اس وقت میرا وزن آدھا رہ گیا تھا – اب میں بہتر ہوں اور اللە کے کرم خاص سے میرا وزن بهی بحال ہو گیا هے –
کچھ دنوں کے بعد انشااللہ تازہ پک اپ لوڈ کر دوں گا ، اگرچہ اب عمر کے اس حصے میں سب تصویریں اور سب کی تصویریںں ایک جیسی ہو جاتی ہیں ، لیکن یہ فیس بک هے ، فیس کیسا ہی ہو ، بک تو کرنا ہی پڑتا هے اور فرینڈز کے ڈوق اور وضع داری کا امتحان لینا ہی پڑتا هے —
بہت شکریہ —

ظفر خان نیازی28 اکتوبر 2015

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top