IT IS GENERALLY AGREED THAT LANGUAGE AND CULTURE ARE CLOSELY RELATED. LANGUAGE CAN BE VIEWED AS A VERBAL EXPRESSION OF CULTURE. IT IS USED TO MAINTAIN AND CONVEY CULTURE AND CULTURAL TIES. LANGUAGE PROVIDES US WITH MANY OF THE CATEGORIES WE USE FOR EXPRESSION OF OUR THOUGHTS, SO IT IS THEREFORE NATURAL TO ASSUME THAT OUR THINKING IS INFLUENCED BY THE LANGUAGE WHICH WE USE.

IN THIS SECTION OF MIANWALIAN CULTURE DETAILS ABOUT LANGUAGES SPOKEN IN VARIOUS PARTS OF MIANWALI WILL BE MENTIONED .

THE PRINCIPAL MOTHER TONGUE OF THE DISTRICT IS PUNJABI . THE OTHER IMPORTANT LANGUAGES SPOKEN IN THE DISTRICT ARE SARAIKI , URDU AND PUSHTU. ACCORDING TO THE 1998 CENSUS OF PAKISTAN, THE DISTRICT MIANWALI HAD A POPULATION OF 1,057,000, OF WHICH 21% RESIDED IN URBAN SETTLEMENTS.

THE  LANGUAGES  SPOKEN IN MIANWALI DISTRICT ARE , PUNJABI  (74% OF THE POPULATION), SARAIKI  (12%), PASHTO  (10%) AND URDU  (3.5%) LANGUAGE

THOUGH MIANWALI IS CLAIMED AN INTEGRAL PART OF SERAIKI SPEAKING BELT BY THE SERAIKI LANGUAGE ACTIVISTS BUT PUNJABI-SERAIKI DIVISION SEEMS TO HOLD LITTLE INFLUENCE ON COMMON PEOPLE IN THIS DISTRICT. AWANS, JATS,GHAKKARS WITH VARIOUS SUBCLANS LIVING IN MIANWALI AND KHUSHAB ALWAYS ASSOCIATE THEMSELVES WITH PUNJABI IDENTITY. WHILE NIAZIS ASSOCIATE THEMSELVES WITH SERAIKI IDENTITY. ACCORDING TO 1998 CENSUS THREE FOURTH (74  PERCENT) OF THE POPULATION NAMED THEIR SPOKEN LANGUAGE AS PUNJABI WHILE ONLY 12 PER CENT ANSWERED THAT THEY SPEAK SERAIKI.

INHABITANTS OF MIANWALI DISTRICT SPEAK A GREAT VARIETY OF PUNJABI DIALECTS.

JANDALI/ROHI (CENTRAL PARTS OF THE DISTRICT),AWANKARI (NORTHERN PARTS),SHAPURI (EASTERN PARTS),THALOCHI (SOUTHERN PARTS IN DESERT AREAS),MAJHI OR STANDARD (SIZABLE POPULATION IN CITIES),OTHER LANGUAGES INCLUDE:

PASHTO WHICH IS ALSO SPOKEN BY SIZABLE POPULATION IN THE KPK PROVINCE BORDER AREAS AND IN THE CITIES. KHATTAK TRIBES, CHAPRI, BHANGI KHEL, SULTAN KHEL, MAKARWAL AND BANI AFGHAN ARE BILINGUAL AND PASHTO IS THEIR PRIMARY LANGUAGE BUT THEY CAN EASILY COMMUNICATE IN PUNJABI AS WELL.

URDU IS MOTHER TONGUE OF FEW PEOPLE BUT BEING NATIONAL LANGUAGE IS SPOKEN AND UNDERSTOOD BY THE SIZEABLE POPULATION.

ENGLISH IS ALSO UNDERSTOOD AND SPOKEN BY FEW, MAINLY EDUCATED ELITE.

 زبان کے لحاظ سے ضلع میانوالی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے-
1۔ پشتون بیلٹ جس کی زبان پشتو ھے
2۔ اعوان بیلٹ ، جہاں پوٹھوھاری زبان بولی جاتی ھے-
3۔ عیسی خیل سے پپلاں تک کے علاقے کی زبان جو میانوالین سرائیکی کہلا سکتی ھے- یاد رھے کہ یہ زبان جنوبی پنجاب کی سرائیکی سے کچھ مختلف ھے، کیونکہ اس میں پشتو، ھندکو اور پوٹھوھاری کے الفاظ بھی شامل ھیں- اس لیے میں اسے میانوالین سرائیکی کہتا ھوں-

دریائے سندھ کے دائیں جانب پہاڑی علاقے میں مٹھہ خٹک، مکڑوال، ملاخیل، گلاخیل، زیڑی، ٹولہ منگ علی، کوٹکی، چاپری ، ٹولہ بانگی خیل ، تبی سر، کالاباغ ، ککڑانوالہ اورکئی اور چھوٹی چھوٹی آبادیاں ھیں- کالاباغ اور ککڑانوالہ کے سوا باقی تمام آبادیوں کی زبان پشتو ھے- تبی سر سے چند کلومیٹر شمال میں خیبرپختونخوا کی سرحد ھے- کالاباغ سے ایک سڑک ادھر سے ھو کر کوھاٹ جاتی ھے- ضلع میانوالی کے اس علاقے کا ایک اپنا کلچر ھے- بہت بہادر، مہمان نواز اور دوست نواز لوگ ھیں-

ماڑی شہر سے آگے پہاڑی علاقے کی آبادی میں بنی افغاناں، اینواں، خیرآباد، سونکاں، سوانس ، غنڈی، بوری خیل اور چھدرو کا کچھ علاقہ پہاڑ کے مغربی پہلومیں اور چکڑالہ ، تھمے والی کے علاقے کی بہت سی بستیاں پہاڑ کے مشرقی پہلو میں واقع ھیں- اس تمام علاقے میں میانوالی کی عام زبان بولی جاتی ھے- پہاڑ کے پار چکڑالہ وغیرہ کے علاقے میں ضلع اٹک اور چکوال کی پوٹھوھاری زبان بولتے ھیں-

ضلع میانوالی کا پہاڑی علاقہ عیسی خیل کے قریب مٹھہ خٹک نامی گاؤں سے شروع ھوکر کالاباغ کے جنوب مشرق میں ککڑانوالہ تک پھیلا ھؤا ھے- ککڑانوالہ سے دریا ئے سندھ پہاڑ کو کاٹ دیتا ھے- مگر دریا کے جنوبی کنارے پر ماڑی شہر سے یہ سلسلہ پھر چل نکلتا ھے-

میں جانتا ھوں کہ زبان میں ھر چند کلومیٹر کے بعد کچھ فرق ضرور آجاتا ھے- بلکہ آپ یہ سن کر حیران ھوں گے کہ داؤدخیل شہر کے شمالی (اتلا شہر) اور جنوبی حصے (تلواں شہر ) کی زبان میں بھی معمولی سا فرق ھے- جنوبی حصے کے لوگ “ او آیا ھئی“ کہتے ھیں اور شمالی حصے کے لوگ “ او آیا ھا “ کہتے ھیں –

کسی بھی زبان پر بحث کرتے وقت یاد رکھنا چاھیے کہ دریاؤں کی طرح زبانیں بھی صدیوں سے رواں دواں ھیں- مختلف علاقوں کے لوگوں کے آپس میں میل ملاپ سے ھر زبان میں نئے الفاظ شامل ھوتے رھتے ھیں- جیسے ھماری زبان میں انگریزی کے سینکڑوں الفاظ آگئے ھیں، اور ابھی یہ سلسلہ جاری ھے- سوشل میڈیا نے اس عمل کوبہت تیز کر دیا ھے- اسی طرح ھماری زبانوں کے کئی الفاظ انگلش میں شامل ھوئے- ان کے بارے میں انشاءاللہ بعد میں بتاؤں گا- فی الحال ذکر ھو رھا ھے ضلع میانوالی کی زبان کا-

یہاں کی سرائیکی زبان میں عربی ، فارسی اور انگریزی کے علاوہ ھندی، ھندکو(ھزارہ وغیرہ کے علاقے کی زبان) اور اردو کے بے شمار الفاظ بھی شامل ھیں- پشتون علاقے کے لوگ صوبہ پنجاب کی ھرزبان کو ھندکو کہتے تھے،

کمر مشانی سے لے کر کوٹ چاندنہ اور پھرداؤدخیل سے جنوب مشرق میں سوانس غنڈی وغیرہ، اور جنوب مغرب میں تری خیل ، بلکہ روکھڑی تک میں ایک ھی زبان بولی جاتی ھے- کچھ مقامی الفاظ ھر گاؤں اور شہر میں ھوتے ھیں، لیکن مجموعی طور پراس تمام علاقے کی زبان ایک ھے- جس کی پہچان یہ ھے کہ کریندا، کردا اور لکھیندا ، لکھدا کی بجائے اس علاقے کے لوگ کرینا اور لکھینا بولتے ھیں- واللہ اعلم یہ فرق کیوں ھے، مگر ھے ضرور-

کالا باغ، ماڑی انڈس اور کندیاں کی زبان دوسرے علاقوں کی زبان سے کچھ مختلف ھے-

میانوالی شہر اور اس کے نواحی دیہات شہبازخیل، وتہ خیل، سہراب والا، بٹیاں ، جھامبرہ ، گلمیری وغیرہ کی زبان ایک ھے- معمولی سے فرق کے ساتھ موسی خیل اور چھدرو کے علاقے میں بھی یہی زبان بولی جاتی ھے-

واں بھچراں، شادیہ وغیرہ کی زبان میں خوشاب ، سرگودھا کی زبان کا اثر واضح نظر آتا ھے- مثلا اس علاقے کے لوگ “ کریندا، لکھیندا کی بجائے کریں دا ، لکھیں دا kareenda , likheenda اور مینوں کی نجائے مین men بولتے ھیں – اسی طرح کئی اور الفاظ بھی خوشاب سرگودھا کی زبان کے وھاں  بولے جاتے ھیں-

تحصیل میانوالی کا جو علاقہ پہاڑ کے پار واقع ھے وہ مسان سے لے کر نمل تک پھیلا ھؤا ھے- یہ تمام علاقہ اعوان بیلٹ کہلاتا ھے، کیونکہ یہاں آبادی کی غالب اکثریت اعوان ھے- اس علاقے کی زبان اور کلچر ضلع اٹک اور چکوال سے زیادہ مشابہہ ھے- اس کا تفصیلی ذکر انشاءاللہ کل ھوگا-
مسان سے نمل تک کا علاقہ اعوان بیلٹ (پٹی) کہلاتا ھے- یہ بیلٹ دراصل اعوان کاری (اعوان وسیب ) کا ایک حصہ ھے- اعوان کاری کا اصل مرکز ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیب تھا- وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ھؤا تو اعوان کاری اٹک، تلہ گنگ ، چکوال، ضلع میانوالی کے اس علاقے، اور ضلع خوشاب کی وادی سون سکیسرتک پھیل گئی- ویسے تو ضلع جہلم اورسیالکوٹ میں بھی بہت سے اعوان بستے ھیں، بلکہ اب تو پورے پاکساتن میں ھر جگہ موجود ھیں، لیکن ان کی اکثریت اعوان کاری ھی میں آباد ھے-
اعوان کاری کی اپنی زبان اور کلچر ھے- یہ زبان پوٹھوھارکے خطے کی زبان ھے جو جہلم سے راولپنڈی تک پھیلا ھؤا ھے- جہلم اور پنڈی کی پوٹھوھاری زبان میں کشمیری زبان کے الفاظ بھی بکثرت استعمال ھوتے ھیں- ضلع میانوالی کی اعوان بیلٹ میں میانوالی کی سرائیکی زبان کا اثربھی نظرآتا ھے، مگر مجموعی طور پر اعوان بیلٹ کی زبان میانوالی کی زبان سے خاصی مختلف ھے- یہ زبان چکڑالہ، تھمے والی، رکھی کلری ڈھوک برتھال، ڈھوک علی خان ، نمل اور اس علاقے کے کئی دوسرے چھوٹے بڑے دیہات میں بولی جاتی ھے- اس کے نمایاں خدوخال یہ ھیں-
ھم ، اساں —– اسی
ھمارا ، ساڈا —– سڈا (sidda)
آپ کا ، تہاڈا —— سڈا (sudda)
اسے، اس نوں —- اساں (usaan)
مجھے ، میکو، میکوں، یا مینوں —– ماں- ایسی بہت سی اور مثالیں بھی ھیں،

تحصیل پپلاں کی زبان بنیادی طور پر تو ضلع بھکر کی سرائیکی ھے- مگر یہاں دلچسپ صورت حال یہ ھے کہ پپلاں شہر اور تحصیل کی تقریبا نصف آبادی ھمارے وہ بھائی ھیں جو قیام پاکستان کے وقت یہاں آکر آباد ھوئے- ان میں اردو بولنے والے بھی ھیں ، رانگڑ زبان والے راجپوت بھی، مشرقی پنجاب کی پنجابی بولنے والے پنجابی بھی – پپلاں کے گردونواح میں واقع چکوک اور ھرنولی میں زیادہ تر یہی لوگ آباد ھیں– علووالی، حافظ والا، ڈب بلوچاں , جوئیانوالہ، ھرنولی ، بھمب، تحصیل پپلاں کے مشہور قصبے ھیں-

کالاباغ دریائے سندھ کے راستے کشمیر سے کراچی تک جاری رھنے والی تجارت کے راستے میں ایک اھم سٹیشن تھا- ھر علاقےکے تاجر یہاں آتے جاتے تھے- یوں یہاں کی زبان میں بہت سے دوسرے علاقوں کی زبانوں کے الفاظ بھی گھل مل گئے-

کالاباغ کاریگروں کا شہر ھے-کالاباغ ھمیشہ ایک اھم کاروباری مرکز رھاھے- اب بھی گردو نواح کے علاقوں سے لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے کالاباغ آتے ھیں- جس زمانے میں دریائے سندھ کشمیر سے کراچی تک کشتیوں کا موٹروے ھؤاکرتا تھا، ھر علاقے کے تاجر یہاں آتے جاتے رھتے تھے- اس طرح کالاباغ کی زبان میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ھوگئے جو ضلع میانوالی میں کالاباغ کے سوا اور کہیں سننے میں نہیں آتے-

کالاباغ پشتون بیلٹ کی سرحد پر واقع ھے- ا س لیے یہاں پشتونوں کی آمدورفت مسلسل رھتی ھے- کچھ تو یہیں آباد ھوگئے- کاروباری سرگرمیوں میں بھی پشتونوں کا حصہ نمایاں نظر آتا ھے- پشتون علاقے کے مخصوص جنگلی پھل پیلو۔ گرگرے اور جنگلی انجیرصرف کالاباغ بازار ھی میں ملتے ھیں- کالاباغ کے مقامی دکاندار بھی پشتو روانی سے بول سکتے ھیں-

کالاباغ کی تجارت میں پراچہ قبیلہ سرفہرست رھاھے- یہ قبیلہ صدیوں پہلے مکھڈ (ضلع اٹک) سے ھجرت کر کے یہاں آباد ھؤا- اس لیے ان کی زبان میں پوٹھوھاری الفاظ بہت نمایاں ھیں- امان اللہ اینڈ سنز کی یہاں بہت سی دکانیں تھیں- مٹی کاتیل ، صابن ، لیور برادرز کی مصنوعات، ڈالڈا گھی وغیرہ کی ڈسٹریبیوشن کاکام یہی کرتے تھے- سیشنری اور ادویات کاکاروبار بھی پراچہ فیملی ھی کے لوگ کرتے تھے- جب بغوچی محاذ کی تحریک شروع ھوئی تو پراچہ فیملی کے زیادہ تر لوگ ڈیرہ غازی خان اور فیصل آباد منتقل ھو گئے- بشکریہ – منورعلی ملک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top