میرا میانوالی

1979 میں رمضان المبارک سے چند روز پہلے لالا گھر آیا تو ھم سب دوست اس سے ملنے گئے- لالا نے مجھ سے کہا ‘ میرے پچھلے تین کیسٹس کے لیے تم نے کچھ لکھ کر نہیں دیا- کل میرے والیوم نمبر 14 کی ریکارڈنگ ھے- اس کے لیے ایک اچھا سا گیت لکھ دو- صبح میں نے ریکارڈنگ کے لیے فیصل آباد جانا ھے“
میں نے کہا کوشش کرتا ھوں – لالا نے کہا مجھے کوشش نہیں ، گیت چاھیے-

گیت تو اب لکھنا تھا- یہ آج ھی والی شرط کچھ مشکل لگ رھی تھی- عتیل نے کہا “آؤ، میرے ھاں چلتے ھیں ، وھاں سکون سے بیٹھ کر گیت لکھ لینا“

بات معقول تھی- عتیل کا ڈرائنگ روم گھر سے باھر ایک الگ چاردیواری میں تھا- وھاں پہنچ کر میں نے عتیل سے کہا “ اب تم یوں کرو کہ ایک تھرماس بوتل چائے کی مجھے دے دو، اور خود ایک گھنٹے کے لیے یہاں سے دفع ھو جاؤ “

عتیل نے ھنستے ھوئے میرے اس حکم کی تعمیل کر دی- جب وہ چلا گیا تو اچانک میرے ذہن میں ایک منظر سا آیا ، اور میں نے قلم اٹھا کر گیت لکھنا شروع کر دیا- وہ گیت تھا —-

سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا

تقریبا آدھ گھنٹے میں گیت مکمل ھو گیا- عتیل کے آنے تک میں عتیل کی کتابوں اور رسالوں وغیرہ سے کھیلتا رھا-

عتیل نے گیت دیکھ کر مجھ سے کہا “ یہ گیت تمھارا نام ھمیشہ زندہ رکھے گا“

میں نے کہا “ یہ میرا آخری گیت نہیں- اور نہ ھی میرا فی الحال مرنے کا پروگرام ھے- گیت جیسا بھی ھے ، اب آؤ چل کر لالا کو دے آتے ھیں-

تھرماس میں کچھ چائے بچ گئی تھی ، وہ پی کر ھم لالا کی طرف روانہ ھوگئے- —1 اپریل 2016

اناڑی ھونے کا ایک بڑا نقصا ن یہ ھوتا ھے کہ بعض اوقات ذرا سی غلطی سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ھے- میں لیپ ٹاپ پر کام کرتا ھوں- سمارٹ فون جیسی زنانہ چیز میری سمجھ میں نہیں آتی- لیپ ٹاپ پر ایک انگلی سے ٹائیپ کرتے ھوئے بعض اوقات بے خیالی میں کسی غلط بٹن پر ھاتھ جا لگنے سے سب کچھ غائب ھو جاتا ھے- آج دو دفعہ یہی ھوا- تنگ آ کر کبھی کبھی سوچتا ھوں کہ برا رونے سے چپ ھی بہتر ھے- کیوں نہ یہ پوسٹس والا سلسلہ ھی ختم کر دوں-
بہت خوبصورت پوسٹ بن رھی تھی- عیسی خیل کالج کے لیکچرر صاحبان کا تعارف لکھ رھا تھا- ایک صاحب کا لکھ لیا تھا ، دوسرے کا لکھ رھا تھا کہ پہت نہیں کیا ھوا، سب کچھ غائب ھو گیا- کل پھر کوشش کروں گا- دعا فرمائیں کہ کل یہ سانحہ نہ ھو-

آج میں یہ بتا رھا تھا کہ سرکار اردو کے جس لیکچرر سے ناراض ھوتی اسے عیسی خیل بھیج دیتی تھی- سرکار کی نظر میں عیسی خیل کی اھمیت کا یہ پہلو خاصا معنی خیز ھے- ——– باقی باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی–  8 اپریل 2016

ذکر ھو رھاتھا پروفیسر اشرف علی کلیار صاحب کا- ایک نہایت اھم بات بتانا یاد نہ رھا، وہ یہ کہ کلیار صاحب اللہ کے فضل و کرم سے گولڈ میڈلسٹ بھی ھیں- عربی میں پنجاب یونیورسٹی میں اول آنے پر یونیورسٹی سے سونے کا تمغہ ملا- میرے میانوالی کے اعزازات میں ایک یہ بھی لکھ لیجیے –

کلیار صاحب ان دنوں بندوق ، کیمرہ اور فیس بک کے میدانوں میں نت نئے کمالات دکھا رھے ھیں- بندوق سے مرغابیوں کا قلع قمع کرنے کے ساتھساتھ کیمرے سے اپنے علاقے کے حسین مناظر کی بہت خوبصورت تصویریں بنا کر فیس بک پر لگاتے رھتے ھیں- کبھی کبھیی میں ان میں سے ایک آدھ تصویر چوری کر کے اپنا کور فوٹو بنا دیتا ھوں- وہ جو سرسوں کے کھیت والاا کور فوٹو میں نے لگایا تھا، وہ انہی کی پوسٹ چرا کر بنایا تھا-

آج کل مرغابیوں کی واپسی کا موسم ھے- اس لیے ادھر زیادہ مصروف ھوں گے- دریا کے کنارے محمد رفیع کا یہ گیت الاپتے پھر رھے ھوں گے-

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں

کلیار صاحب سے کل یہ سن کر دل خوش ھو گیا کہ بحمداللہ عیسی خیل کالج کے اساتذہ آج بھی محبت اور دوستی کی وھی روایت برقرار رکھے ھوے ھیں جو 40 سال پہلے ھم نے قائم کی تھی –

کل انشاءاللہ ذکر خیر ھوگا ھمارے محترم دوست پروفیسر حسین آحمد ملک کا-10 اپریل 2016

سین احمد ملک نفسیات کے لیکچرر تھے- نفیس مزاج، خوش لباس، خوش اخلاق، خوشبودار شخصیت ھیں- کم گو مگر ملنسار- نفسیات کے پروفیسروں والی مشہور و معروف بدحواسیاں ان سے سرزد نہیں ھوتی تھیں- مثلا جرابیں دونوں ایک ھی رنگ کی پہنتے تھے- عینک لگا کر وھی عینک ڈھونڈھتے انہیں کبھی نہ دیکھا- نہایت بیدار اور ھوشمند انسان ھیں-

خوشنویس بھی ھیں ، خوش تحریر بھی- بہت خوبصورت نثر لکھتے ھیں – مگر اپنی یہ صلاحیت صرف خط لکھنے تک محدود کر رکھی ھے- کاش کچھ اور بھی لکھتے- خط و کتابت میں ان جیسا باقاعدہ انسان کبھی نہ دیکھا- ھر خط کا فی الفور مفصل اور دلچسپ جواب دیتے ھیں- آنے جانے والے خطوط کا باقاعدہ ریکارڈ ایک رجسٹر میں محفوظ کر لیتے ھیں – سرکاری خطوط کی طرح اپنے ھر خظ پر حوالہ نمبر (ریفرنس نمبر) اور تاریخ درج کرتے ھیں- انداز تحریر کے لحاظ سے ان کا ھر خط ایک ادب پارہ ھوتا ھے-

میں نے اپنی کتاب درد کا سفیر بھیجی تو اس کا ذکر کرتے ھوے حسین احمد ملک صاحب نے خط میں لکھا-

“درد کا سفیر جو بھی اٹھائے گا، کھولے گا، اور پڑھنا شروع کرے گا تو اس کتاب کا روحانی اعجازھی یہی ھےکہ وہ اسے ختم کر کے ھی چھوڑے گا- اور پھر ایک لمبی بے کلی کا شکار ھو جاے گا، جس کا مداوا اس کے پاس نہیں ھوگا“

باقی باتیں انشاءاللہ کل-11 اپریل 2016

پروفیسر حسین احمد ملک کی ایک مہربانی بہت یاد آتی ھے- موصوف کبھی کبھی گھر سے اچھا سا کھانا بنوا کر کالج میں دس مسکینوں (لیکچررز) کو کھلایا کرتے تھے-
بھابھی صاحبہ بھی نفسیات کی لیکچرر تھیں- اسی لیے میں حسین صاحب کے بچوں کو حاصلل نفسیات کہا کرتا تھا-

1980 میں عیسی خیل سے میرا ٹرانسفر بارش کا پہلا قطرہ تھا – اس کے بعد ایک ایک کر کے سب دوست وھاں سے رخصت ھو گئے- صرف پروفیسر کلیار صاحب وھاں رہ گئے کہ ان کا تو گھر ھی یہی تھا-

حسین صاحب گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی جابسے- وھاں جب شعبہ نفسیات کے صدر بنے تو کچھ عرصہ بعد اپنے عزیز ترین دوست ملک عالم شیر کی محبت نے انہیں اصغر مال کالج کے شعبہ نفسیات کی مسند صدارت سے اٹھا کر گورنمنٹ کالج نور پور تھل میں پرنسپل کی کرسی پہ جا بٹھایا- ملک علم شیر اسی علاقہ کے رھنے والے ھیں- نہیات مخلص انسان ھیں-

حسین صاحب گورنمنٹ کالج نور پور تھل ھی سے ریٹائر ھو کر اب راولپنڈی میں مقیم ھیں- ماشاءاللہ شادوآباد ھیں- کبھی کبھی یاد فرماتے رھتے ھیں- عیسی خیل میں گذرے دنوں کو یہ بھی دوسرے دوستوں کی طرح اپنی زندگی کا سنہرا دور کہتے ھیں- عجیب بات ھے کہ اس ویرانے میں گذارا ھوا وقت ھم سب کو ھماری زندگی کا سنہرا دور لگتا ھے-

انشاء اللہ کل ذکر ھوگا پروفیسر محمد سلیم احسن کا کہ وہ بھی اس زمانے میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ھمارے ساتھ ھوا کرتے تھے 12 اپریل 2016

آپ نے ایک ، میں نے دو محمد سلیم احسن دیکھے ھیں – ایک سلیم احسن وہ تھے جو نیلے رنگ کا خوبصورت تھری پیس سوٹ پہنتے تھے- اچھے خاصے صاحب بہادر قسم کے اپ ٹو ڈیٹ نوجوان تھے- اس زمانے میں موصوف گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ھمارے رفیق کار تھے- جب ھم لوگ وھاں وارد ھوئے تو یہ پہلے سے وھاں موجود تھے- تقریبا 6 ماہ ھمارے ساتھ رھے پھر وھاں سے ٹرانسفر ھوکر گورنمنٹ کالج میانوالی میں آگئے-

جتنا عرصہ عیسی خیل کالج میں رھے روزانہ بس پر میانوالی سے عیسی خیل آتے رھے- بڑی ھمت کی بات تھی ، روزانہ آنے جانے میں تقریبا دوسو کلومیٹر کا سفر ، وہ بھی بس کے ذریعے !
اس زمانے میں ان سے میری شناسائی صرف کلاسوں میں اتے جاتے ھیلو ھاے تک محدودد رھی- ٹائیم ٹیبل ھی ایسا تھا کہ بقول چچا غالب

وہ جاتا تھا کہ ھم نکلے

کلاس سے فارغ ھوتے ھی سلیم احسن صا حب فورا واپس میانوالی چلے جاتے- مل بیٹھنے کا وقت ھی کبھی نہ ملا- شاعر یہ بھی تھے ، میں بھی- لیکن نہ مجھے پتہ چل سکا یہ شاعر ھیں ، نہ انہیں معلوم ھو سکا کہ میں اور اچھے برے کاموں کے علاوہ شاعری بھی کرلیتا ھوں- میری شاعری ابھی لالا کے میکدے سے باھر نہین نکلی تھی- ان کی شاعری ابھی میانوالی کے چند مخصوص احباب کی محفلوں تک محدود تھی- 13 اپریل 2016

پروفیسر محمد سلیم احسن سے اپنے مراسم کی پوری داستان لکھوں تو درد کا سفیر جتنی ، اتنی ھی دلچسپ کتاب بن جائے، کیونکہ میانوالی میں مجھے ان کے بہت قریب رھنے کا اعزاز نصیب ھوا- میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا- مثال کے طور پہ آداب مجلس- میں خالص داؤد خیلوی تھا- اب بھی ھوں ، مگر اب بات کرتے وقت موقع محل دیکھ کر بات کرتا ھوں- ایک تو یہ سلیقہ ان سے سیکھا، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی اچھی باتیں انہوں نے مجھے سکھائیں-
مثلا یہ کہ بوڑھے بھکاری کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دیا کرو کہ اس کا اگر کوئی اور وسیلہ ھوتا تو وہ اس عمر میں ھاتھ پھیلانے کی ذلت گوارا نہ کرتا- کہا کرتے تھے کہ لالا، بڑھاپا تو آخر ھم پہ بھی آناھے (اب تو آ ھی چکا ھے) اگر ھم جوانی میں بوڑھوں کی عزت کریں تو بڑھاپے میں اللہ ھماری عزت برقرار رکھے گا-
یہ بھی ان سے سناکہ بسوں کے اڈوں اور دوسرے ایسے مقامات پر سادہ پانی بیچنے والوں سے پانیی ضرور لے لیا کرو کہ ان کے پاس بیچنے کو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ھوتا-

سلیم صاحب کا مفصل ذکر تو ھوگا گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے قیام کی داستان میں، فی الحال آئیے چلتے ھیں واپس گورنمنٹ کالج عیسی خیل-

گورنمنٹ کالج عیسی خٰیل ان دنوں اردو کے لیکچررز کے لیے اڈیالہ جیل بنا ھوا تھا- سرکار اردو کے جس لیکچرر سے بھی ناراض ھوتی اسے گورنمنٹ کالج عیسی خیل بھیج دیتی- پہلے سید افتخار حسین شیراز بخاری تھے- خدا جانے کس جرم میں معطل پھر رھے تھے- نہایت زندہ دل اور مجلس باز آدمی تھے- ھر وقت ھنستے ھنساتے رھتے تھے-

پھر بھٹو صاحب کا دور آیا تو جماعت اسلامی سے تعلق کے الزام میں ملک محمد اکرم صاحب کو سزا کے لیے بھکر سے گورنمنٹ کالج عیسی خیل بھیج دیا گیا-14 اپریل 2016

چکن کا مصالحہ بھونتے ھوے افغانی صاحب نے تقریبا ایک پاؤلہسن ( تھوم) ایک رومال میں رکھ کر ایک پوٹلی سی بنا لی- پھر اسے اچھی طرح کوٹ کر پوٹلی کو پانی میں بھگویا اور لہسن کا یہ پانی مصالحے میں نچوڑ دیا- پھر مصالحے میں گوشت بھونتے وقت ایک بار پوٹلی کو ہانی میں بھگوکر اس کا پانی گوشت کے اوپر نچوڑا اور دیگچی پر ڈھکن لگا کر اسے بند کردیا – چند منٹ بعد ایک بار پھر یہی عمل دہرا کر گوشت کو چند منٹ کے لیے دم پہ لگا دیا- بس یہی کچھ کیا افغانی صاحب نے- مگر اس سے جو چکن بنا اس کا مزا آج چالیس سال بعد بھی ھم لوگوں کو نہیں بھولا-

کچھ عرصہ بعد افغانی صاحب واپس ایم اے او کالج لاھور چلے گئے ، میں میانوالی آ گیا- باقی دوست بھی اپنے اپنے ٹھکانوں میں جا بسے –

چند سال بعد ایک دن میں اردو بازار لاھور سے گذر رھا تھا تو اچانک افغانی صاحب مل گئے- کالج سے واپس آ رھے تھے- بہت تپاک سے ملے، اور مجھے اپنے ساتھ اندرون بھاٹی گیٹ اپنے گھر لے گئے-

کچھ دیر بعد کھانالے آئے- آٹھ دس آئیٹم تھے اس کھانے میں- کھانا کھاتے ھوے بتاتے رھے کہ یہ بریانی فلاں دکان کی ھے، یہ اچار فلاں دکان کا، اور یہ جو کھیر ھے یہ فلاں دکان سے لایا ھوں- پھر کہنے لگے یہ چیزیں جو آپ آج کھا رھے ھیں ، لاھور میں بھی اور کہیں نہیں ملتیں- یہ اندرون شہر کے خاندانی کاریگروں کی بنائی ھوئی چیزیں ھیں، جو مغل بادشاھوں کے زمانے میں مشہور و معروف تھیں- ان لوگوں کے سوا کوئی اور کاریگر یہ چیزیں نہیں بنا سکتا 16 اپریل 2016

ملک محمد یوسف چھینہ اور حسین احمد ملک کی طرح کی ھمارے کالج میں ایک اور جوڑی بھی تھی – اس جوڑی کا رنگ پہلی جوڑی سے بھی زیادہ گہرا تھا- یہ جوڑی تھی عربی کے لیکچرر اشرف علی کلیار اور اسلامیات کے لیکچرر منیر حسین بھٹی کی- عربی اور اسلامیات کا فطری جوڑ اپنی جگہ ، ان دو حضرات کی دوستی اس سے آگے کی بات تھی- اکثر یہ دونوں کالج کے کسی کونے میں کھڑے رازو نیاز میں مصروف نظر آتے تھے- ظاھر ھے کہ رازونیاز کی یہ باتیں عربی اور اسلامیات کے بارے مین تو نہیں ھوتی ھوں گی- واللہ اعلم –
منیرصاحب خاصی وجیہہ شخصیت تھے- 6 فٹ سے نکلتا ھوا قد- سانولی رنگت- بھاری بھرکم آواز- دیکھنے میں سرگودھا کے زمیندار ( کسان نہیں وڈیرا) لگتے تھے- بچوں جیسی معصومیت ان کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو تھی- اشرف کلیار ان کے لیے پاسبان عقل کا کام کرتے تھے- عیسی خیل میں تو منیر صاحب کلین شیو ھوا کرتے تھے، ہچھلے دنوں کلیار صاحب نے ان کی ایک تازہ تصویر فیس بک پہ لگائی، ماشا اللہ اب تو سفید نورانی داڑھی کے ساتھ دیکھنے میں بھی اسلامیات کے پروفیسر لگتے ھیں–18  اپریل 2016

ور کوٹ کے اکبر علی رندھاوا گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں فزکس کے لیکچرر تھے- بہت سادہ اور معصوم سے السان تھے- ان کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رھا ھے- آپ بھی سن لیجیے-
ایک دن عصر کے وقت اچانک ایک دھماکے کی آواز سنائی دی، اور پورا شہر لرز اٹھا- اچھا خا صا زلزلہہ تھا-کچھ دیر بعد پھر شہر لرز اٹھا- کچھ لوگوں نے یہ افواہ اڑادی کہ یہ سب کچھ ایک مرحوم پولیس افسر کی وجہ سے ھو رھا ھے – بات قرین قیاس تھی کہ پہلا دھماکہ اور زلزلے کا جھٹکا عین اس وقت واقع ھوا جب ایک پولیس افسر کو عیسی خیل کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جا رھا تھا- کہا گیا کہ مرحوم کے گناھوں کی وجہ سے زمین اسے قبول نہیں کر رھی- بات سو فی صد جاھلانہ تھی ، کیونکہ زمین نے تو فرعون ، نمرود اور یزید جیسے لوگوں کو بھی ہضم کر لیا- یہ پولیس افسر بچارا تو خاصا شریف آدمی تھا-
کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ ھمارے گنا ھوں کی سزا ھے- زلزلوں کا سلسلہ ایک دو گھنٹے کے وقفوںں سے دوسرے دن بھی جاری رھا- شہر بھر میں خوف و ھراس کا عالم طاری ھو گیا- لوگ مسلسل توبہ استغفار اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے- مسجدوں کی رونق بڑھ گئی- راتوں کو لوگ اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ پتہ نہیں صبح زندہ و سلامت اٹھنا نصیب ھو یا نہ ھو-
تیسرے دن کالج میں رندھاوا صاحب نے اچانک یہ انکشاف کیا کہ یہ زلزلے دراصل عیسیی خیل کے قریب مٹھہ خٹک کے علاقے میں یورانیم کی تلاش کے عمل کا حصہ ھیں- سائیس دانوں کی ایک ٹیم اس مقصد کے لیے زیر زمین دھماکے کر کے یورانیم کی موجودگی کا پتہ چلانے کی کوشش میں مصروف ھے- زلزلے ان دھماکوں کا نتیجہ ھیں- رندھاوا صاحب کو یہ بات ان کے ایم ایس سی فزکس کے ایک کلاس فیلو نے بتائی تھی جو اس ٹیم کا ممبر تھا، اور صبح اچانک رندھاوا صاحب کو بازار میں ملا تھا- 

افسوس کہ یہ بات چھپ نہ سکی- لوگوں کو جلد ھی زلزلوں کی وجہ کا پتہ چل گیا- استغفار اور کلمہ طیبہ کا ورد بھول کر لوگ پھر خشوع و خضوع سے اپنے اپنے پسندیدہ گناھوں میں مشغول ھو گئے-19  اپریل 2016

پکی شاہ مردان کے محمد اکبر خان کیمسٹری کے لیکچرر تھے- عیسی خیل کالج میں تقرر کے بعد ھم پہلے جس مکان میں مکین ھوئے وہ تین کمروں پر مشتمل تھا- درمیان والا کمرہ اکبر خان کا تھا- اس کے دائیں طرف میرا اور بائیں طرف والا کمرہ ریاضی کے لیکچرر ملک عبالستار جوئیہ کا تھا-
اکبر خان بہت سیدھے سادے اور شرمیلے تھے- کچھ عرصہ بعد پی سی ایس کر کے مجسٹریٹ بنن گئے- ڈی او آر ریٹائر ھوے-
جب یہ تلہ گنگ میں مجسٹریٹ تھے ، تو ایک دن وھاں ان سے ملاقات ھوئی- ( تلہ گنگ میرےے سسرال کا شہر ھے ) – باتوں باتوں میں اکبر خان نے مجھ سے کہا “ ملک صاحب، آپ میانوالی کے سردار رفیق خان کو جانتے ھیں ؟“
میں نے کہا ‘ کیوں نہیں وہ تو میرا جگر ھے “
اکبر خان نے کہا “ آج ایس ایچ او اسے مشتبہ کے طور پر پکڑ کر لایا تھا تو میں نے کہا تھا ابھی حوالات میںں رکھو، کل دیکھ لیں گے‘
میں نے کہا میرے بھائی، دیکھنا نہیں ھے، سردار رفیق خان کو فوری طور پر باعزت بری کرنا ھے– آپ کو بتا تو دیا ھے کہ وہ میرا جگرھے‘
سردار رفیق خان میرا جگر کیسے بنا، یہ قصہ کل کی پوسٹ میں بتاؤں گا-
ریٹائر منٹ کے بعد اکبر خان کچھ عرصہ کنٹریکٹ پر نائب صوبائ محتسب رھے- وھاں سےے کنٹریکٹ ختم ھوا تو ڈسٹرکٹ پبلک سکول بھکر کے پرنسپل مقرر ھوگئے- فون پہ کبھی کبھی ان سے رابطہ رھتا ھے – بہت اچھے دوست ھیں ھمارے- اللہ انہیں خوش رکھے-20 
 اپریل 2016

اللہ بخشے ، سردار رفیق خان کو کون نہیں جانتا- وہ اپنے انداز کا اکلوتا آدمی تھا- ھر وقت ھنستا ھنساتا رھتا تھا-
ایک دفعہ ایک سٹوڈنٹ کی سفارش کے لیے میرے پاس آیا- معمولی سا کام تھا، میں نے کر دیا– بس اسی پہلی ملاقات کوسردار رفیق خان نے مستقل دوستی کا روپ دے دیا- جہاں کہیں مجھے دیکھتا، اپنی جھنڈے والی کار روک کر بڑے تپاک سے ملتا، خیر خیریت اور چائے پانی کا پوچھتا- اپنا ایک آدھ سیاسی لطیفہ سناتا اور پھر خدا حافظ کہہ کر چلا جاتا- اپنے ھر جلسے کا دعوت نامہ خود لے کر میرے پاس آتا-
ایک دن کہنے لگا، “ پروفیسر صاحب ‘ مجھے آپ سے محبت ھے، ورنہ میں پروفیسروں کو کہاں لفٹ کراتا ھوں- وہ لوگ تو مجھے کملا سمجھتے ھیں – میں جانتا ھوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ھیں ، میرے جلسوں میں آنے کے لیے آپ کو وقت نہیں ملتا، مگردعوت نامہ دے کر کم ازکم میرا ضمیر تو مطمئن ھو جاتا ھے کہ میں اپنے دوست کویاد رکھتا ھوں-

سردار رفیق خان کا سیاسی نظریہ بڑا دلچسپ تھا- ایک دن ملا تو کہنے لگا-

“لالا، دیکھو کتنی عجیب قوم ھے ھماری – امیروں کے ھاتھوں لٹنے پہ فخر کرتی ھے- کوئی غریب ان کی جیب پہ ھاتھ ڈالے تو اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیتے ھیں، اور کوئی امیر ان کے کپڑے بھی اتار لے تو یہ اس کا احسان سمجھتے ھیں- ایسی قوم – – – – ترقی کرے گی ! “

یہ کہہ کر سردار رفیق نے اپنا مخصوص قہقہہ لگایا اور خدا حافط کہہ کر اپنی گاڑی میں جا بیٹھا– 21  اپریل 2016

محمد سلیم احسن میانوالی ٹرانسفر ھو ئے تو ان کی جگہ واں بھچراں کے ملک مظفر آگئے-مگران کا تقرر عارضی تھا- جلد ھی ملازمت سے فارغ ھو کر لاھور جابسے-
پھر اصغر علی بھٹی اس خالی اسامی پر متعین ھوئے- نہایت خوبرو اور زندہ دل نوجوان تھے- آتےے ھی یوں گھل مل گئے جیسے برسوں سے ھمارے ساتھ رہ رھے ھوں- چند سال بعد ٹرانسفر ھو کر گورنمنٹ کالج گوجر خان چلے گئے- اس کے بعد ایک دن اچانک گارڈن کالج راولپنڈی میں ان سے ملاقات ھوئی تو انہوں نے بتایا کہ اب یہاں آگئے ھیں –
میں گارڈن کالج میں اپنے دوست انگلش کے پروفیسر محمد اسلم گوندل کی تلاش میں پھر رھا تھا- سٹاف روم میں گیا ،گوندل صاحب تو نہ ملے، ایک اور صاحب کمرے کے ایک کونے سے بھاگتے ھوئے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے- یہ اصغر بھٹی تھے- سرخ و سفید چہرے پر سفید ڈاڑھی کا حاشیہ بہت بھلا لگ رھا تھا- مجھے اپنے کمرے میں لے گئے- چائے منگوائی- عیسی خیل میں گذرےدنوں کو یاد کرتے رھے- دوستوں کا ذکر ھوتا رھا – پھر کہنے لگے“ملک صاحب ، کیا کمال کی ACR لکھی تھی آپ نے میری- جس پرنسپل نے بھی دیکھی مجھ سے پوچھا اتنی خوبصورت انگلش لکھنے والے صاحب کون تھے-
میں نے کہا میرے بھائی خوبیاں آپ کی تھیں ، میں نے تو صرف اپنے الفاظ میں حسب توفیق بیانن کر دیں-
گارڈن کالج سے اصغر بھٹی گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپینڈی چلے گئے، وھیں سے ریٹائر ھوو کر پنڈی ھی میں شادوآباد ھیں-23 
 اپریل 2016

لک عبالستار جوئیہ ریاضی (میتھس) کے لیکچرر تھے- میٹرک سے لے کر ایم ایس سی تک ھر امتحان میں ان کی فرسٹ دویژن تھی- شاہ پور کے قریبی چک چاوے والا کے باشندے تھے- خالص دیہاتی مزاج اور زندگی بسر کرنے کا وھی انداز انہیوں نے کبھی ترک نہ کیا- ھر وقت ھنستے ھنساتے رھتے تھے-
نہیایت سادہ بلکہ بھولے بادشاہ قسم کے انسان تھے- ان کی بادشاھت کے بہت سے دلچسپپ واقعات آئے دن دیکھنے میں آتے رھے- ایک واقعہ آپ بھی سن لیجیے-
یہ تو پہلے ایک پوسٹ میں بتا چکا ھوں کہ ملک عبالستار جوئیہ، اکبر خان اور میں ایک ھی مکان میں رھتے تھے- ایک اتوار کی صبح اٹھے تو ستار صاحب نے کہا “ میں بنوں سے جوتا خریدنے جارھا ھوں – کچھ منگوانا ھو تو بتا دیں-“ ھم نے بتایا کہ فی الحال تو کچھ نہیں منگوانا- ستار صاحب خداحافظ کہہ کر چلے گئے-
شام کے بعد واپس آئے- ھمیں نئے جوتے دکھانے کے لیے ڈبہ کھولا تو ھنس ھنس کر ھمارا براا حال ھو گیا- دونوں جوتے مختلف ڈیزائین کے تھے- رنگ تو دونوں کا ایک تھا، ڈیزائین الگ الگ تھا- جلدی میں ستار صاحب دو مختلف ڈیزائین کے جوتے ڈبے میں ڈال لائے تھے-

دوسرے دن پھر بنوں گئے اور جوتا تبدیل کرا لائے- صبح کالج میں کسی دوست نے کہا کہ یہ جوتا ان کے پاؤں میں سجتا نہیں- ستار صاحب پریشان ھوگئے، تو دوست نے کہا “کوئی بات نہیں – یہ میں لے لیتا ھوں- مگر آدھی قیمت پر“

ستار صاحب فورا رضامند ھو گئے، مگر وہ دوست تو مذاق کر رھا تھا- بعد میں ستار صاحب نے وہ جوتا کالج کے ایک ملازم کو آدھی قیمت پر دے دیا-

ستار صاحب تقریبا پانچ سال بعد عیسی خیل سے ترانسفر ھو کر گورنمنٹ کالج شاہپور چلے گئے، اور وھیں سے پرنسپل بن کر ریٹائر ھوے – آج کل اپنے گاؤں میں کاشتکاری کر رھے ھیں-

برادرمحترم پروفیسر حسین احمد ملک نے ابھی بتایا ھے کہ ستار صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج نور پور تھل میں کام کر رھے ھیں- پہلے والی غلط اطلاع کے لیے معذرت-  24  اپریل 2016

جب میں عیسی خیل میں تھا‘ تو اس وقت وھاں صرف دو ھی شاعر تھے- ایک عتیل، جن کا ذکر پہلے ھو چکا‘ دوسرے مجبور عیسی خیلوی – تلوک چند محروم اور یونس خان تو بہت پہلے اس جہان فانی سے رخصت ھو چکےتھے-

مجبورصاحب لالا عیسی خیلوی کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سے شاعری کر رھے تھے- ان کے بہت سے گیت مرحوم امتیاز خالق خان ریڈیو پاکستان راولپینڈی اور پشاور سے میانوالی کے گیت کے عنوان سے پیش کرتے رھے-

جی ھاں ، کسی زمانے میں میانوالی کے گیت نام کا ایک پروگرام ھر پندرھویں دن شام پانچ بجے ریڈیو پاکستان راولپینڈی سے نشر ھوتا تھا- یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مرحوم سجاد سرور خان نیازی نے متعارف کروایا تھا- پندرہ منٹ کے اس پروگرام میں میانوالی کے تین گلوگار نغمہ سرا ھوا کرتے تھے- عیسی خیل کے امتیاز خالق خان‘ داؤدخیل کے گلستان خان نیازی اور موسی خیل کے گل جہان خان- تینوں بہت سریلے گلوکار تھے-

امتیاز خالق عرف دادو استاد ، یونس خان اور مجبورعیسی خیلوی کا کلام گایا کرتے تھے-

“ بوچھنڑاں میں تو یار نہ کھس وے“ اور “مار نہ چھنڈیاں “ جیسے سدا بہار گیت اسی زمانے میں ریڈیو سے منظر عام پر آ کر لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن چکے تھے- مجبور صاحب کے اور بھی بہت سے گیت ریڈیو سے نشر ھو کر مقبول ھو چکے تھے-

مجبور صاحب کا ذکرانشاءاللہ کل بھی جاری رھے گا– 26  اپریل 2016

میانوالی کے گیت پروگرام ، میانوالی کی لوک ثقافت کو ملک بھر میں متعارف کرانے کی ایک مستحسن کوشش تھی ، جس کے حوالے سے سجاد سرور خان نیازی کا نام میانوالی کی تاریخ میں ضرور درج ھونا چاھیے- میانوالی کے فن کاروں کی ریڈیو تک باریابی اسی محب وطن فرزند میانوالی نے ممکن بنائی-
سجاد سرور خان نیازی خود بھی ایک سچے فن کار تھے- وہ گورنمنٹ کالج لاھور میں میرے والدد محترم کے کلاس فیلو تھے- والد صاحب ، سجاد سرور خان نیازی کا یہ کمال بھی بتایا کرتے تھے کہ نیازی صاحب ھا تھ سے ھارمونیم اور پاؤں سے طبلہ بجا کر بھی گا لیتے تھے- فن موسیقی میںں مہارت کی وجہ سے گورنمنٹ کالج کے اساتذہ بھی نیازی صاحب کی عزت کرتے تھے-
ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت میں سجاد سرور خان نیازی نے میانوالی کے گیتت کے عنوان سے پروگرام شروع کیا تو گلستان خان ، امتیاز خالق اور گل جہان خان کو ھدایت کی کہ میانوالی کے دور افتادہ دیہات کا دورہ کر کے وھاں کے مقامی لوک گیت جمع کریں- کسی شاعر دوست کو بھی ساتھ لے لیں اور ان لوک گیتوں کی نوک پلک سنوار کر یا ان دھنوں پرتازہ گیت لکھوا کر ریڈیو پر پیش کریں- اس کام کا معاوضہ ریڈیو پاکستان دے گا-
یوں امتیازخالق اپنے دوست مجبور صاحب کو ساتھ لے کر گھر سے نکلے – ان کے کندھے پہہ ھارمونیم ھوتا تھا، مجبور صاحب کی جیب میں قلم اور بغل میں رجسٹر ھوتا تھا جس میں وہ گیت لکھا کرتے تھے-27 
 اپریل 2016

مجبور صاحب اور امتیازخالق نے تحصیل عیسی خیل کے دور افتادہ دیہات کا دورہ کر کے لوک گیتوں کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر لیا- مجبور صاحب نے بعض گیتوں کی نوک پلک درست کی ، کچھ پرانی دھنوں پر نئے گیت لکھے، اور یوں میانوالی کی لوک موسیقی اور لوک شاعری کا وہ خزانہ وجود میں آیا، جو بعد میں لالا عیسی خیلوی کی پر سوزآواز میں ریکارڈ ھو کر دینا بھر میں عیسی خیل اور میانوالی کی پہچان بن گیا-
مجبورصاحب بتایا کرتے تھے کہ “ڈھولا وے چانجھلا“ کالاباغ کے علاقے کا ایک قدیمم لوک گیت ھے- اس ظرح بہت سے دوسرے گیتوں کا بھی انہیں علم تھا کہ کون سا گیت کون سے علاقے کا لوک گیت ھے-
مجبور صاحب ریلوے میں ملازم تھے- ان کی ڈیوٹی ٹرینوں میں مسافروں کے ٹکٹ چیک کرناا تھی- اس عہدے کو ریلوے کی زبان میں ایس ٹی ای، Special Ticket Examiner اور مقامی زبان میں ٹی ٹی کہا جاتا تھا- اس ڈیؤٹی کے باعث مجبور صاحب کی زندگی کا زیادہ تر حصہ زمین کی بجائے ٹرینوں میں بسر ھوا- ان کا گھر عیسی خیل سے تین چار کلومیٹر آگے بنوں روڈ کے جنوب میٰں موضع شیخ محمود والا میں واقع ھے- مگر ملازمت کے دوران شاذو نادر ھی گھر آسکتے تھے- اندازہ کیجیے کہ میرے عیسی خیل میں پانچ سال قیام کے دوران مجبور صاحب صرف تین دفعہ لالا کے ھاں آئے- گیتوں کا رجسٹر انہوں نے پہلے ھی لالا کو دے دیا تھا، کبھی کوئی نئی چیز لکھتے تو لالا کو بھیج دیا کرتے تھے- باقی باتیں انشاءاللہ کل – 28 
 اپریل 2016

ھنستے مسکراتے، ناچتے، گاتے گیت مجبور صاحب سے بہتر کوئی شاعر نہیں لکھ سکتا-
“ بودی چھنگاڑنگ ڑنگ “ اور “مار نہ چھنڈیاں چھوڑ ڈے کنگنڑاں والی بانہہ “ بظاھرر عجیب اور بے معنی سے گیت لگتے ھیں- لیکن سن کر دیکھیے تو آپ کا دماغ درست ھو جائے گا- اگر زندہ دلی کی ذرا سی رمق بھی آپ کے دل میں باقی ھوئی تو آپ اٹھ کر ناچنا شروع کر دیں گے- یہ گیت مجبور صاحب نے لکھ کر دھن سمیت لالا کو دیے تھے-
ایسے ھی اور بہت سے رقص آور گیت مجبور صاحب ھی کی تخلیق ھیں-
اداس گیتوں میں “ ایہا داغ قبر گھن ویساں نی سجنڑاں وفا کیتی“ اور دوسرے کچھ گیت بھی اپنی جگہ لاجواب ھیں- مگر بنیادی طور پہ مجبور صاحب کا اصل کمال غنائیہ شاعری ھے-
تعداد کے لحاظ سے لالا نے سب سے زیادہ گیت مجبور صاحب ھی کے گائے ھیں– مجبورصاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اکثر گیت کے ساتھ دھن بھی خود دیا کرتے تھے- یہ استاد امتیازخالق خان کی صحبت کا ثمر تھا-
اور، مجبور صاحب کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ گیت لے کر لالا کے پیچھے نہیں بھاگتے پھرتے تھے– 29 
 اپریل 2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top