منورعلی ملک کےاگست 2018 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی ———-

ڈاکٹر سید اسحاق یاد آ رھے ھیں – تیس پینتیس سال سکندرآباد ھاؤسنگ کالونی ھسپتال میں ایم ایس (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) رھے- بہت نفیس مزاج ، خوش اطوار اور خوش لباس شخصیت تھے – زبردست فزیشن تھے- ھمارے فیملی ڈاکٹر بھی تھے- ان کے ھوتے ھوئے ھمیں کسی بھی دوسرے ڈاکٹر کے پاس نہ جانا پڑا – درست تشخیص اور مؤثر علاج ان کا کمال تھا –
سکندرآباد فیکٹریز کے ملازمین کا علاج تو سرکاری کھاتے میں مفت ھوتا تھا ، ھم لوگوں سے وہ تشخیص کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے ، دوائیں بازار سے لینی پڑتی تھیں – ھسپتال کے اوقات کے بعد عصر سے مغرب تک گھر پہ پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے تھے – فیس صرف ایک سو روپیہ –

ایک دفعہ اپنے داؤدخیل والے گھر میں دوپہر کا کھانا کھاتے ھوئے اچانک میرے دل کی دھڑکن بے تحاشا تیز ھونے لگی – ایک عزیز کے ساتھ سکندرآباد ھسپتال پہنچا – ڈسپنسر سجادحسین شاہ نے بتایا ڈاکٹر صاحب کسی کام سے فیکٹری گئے ھیں کچھ دیربعد آجائیں گے – سجاد حسین شاہ صاحب نے میرے دل کی دھڑکن چیک کی 136 تھی ، استغفراللہ ، صحتمند دل کی دھڑکن تو 72 ھوتی ھے-
چند منٹ بعد ڈاکٹر اسحاق شاہ صاحب آگئے – چیک اپ کے بعد انہوں نے مجھے ایک گولی Inderal 10mg پانی کے ساتھ پلائی – دس منٹ بعد دل کی دھڑکن نارمل ھو گئی –
میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب ، مسئلہ کیا تھا-
♥️ ڈاکٹر صآحب نے مسکرا کر کہا “ ملک صآحب ، میں آپ کو دل کا مریض نہیں بنانا چاھتا – دل اپنی ضرورت کے مطابق کبھی تیز کبھی آھستہ ھوتا رھتا ھے، اس بچارے کو اپنا کام کرنے دیا کریں – یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے دل کو انسان کی جان کا محافظ بنایا ھے- یہ آپ کی جان بچانے کے لیے کبھی تیز ، کبھی سست چل کر پورا زور لگاتا ھے- اگر آپ دل کے مریض نہیں ھیں تو دل کے بارے میں فکر نہ کیا کریں – دل کی رفتار کبھی بہت زیادہ گڑبڑ ھونے لگے تو یہی ایک گولی کھا لیا کریں ، اللہ خیر کرے گا -“ –

ڈاکٹر سید اسحاق ھسپتال کے اوقات کار کے دوران بھی ھر گھنٹہ بعد ایک کپ چائے چائے اور ایک سگریٹ پیا کرتے تھے- مگر چائے اور سگریٹ دونوں اعلی قسم کے ھوتے تھے-

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب بہت عرصہ سکندرآباد میں رھے- پھر اپنے بچوں کے ھاں بیرون ملک چلے گئے – ایک آدھ سال پہلے تقریبا نوے سال کی عمر میں وھیں جاں بحق ھوئے –
—- رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 1 اگست 2018

میرا میانوالی ———————-
گھر میں پانی کے لیے نئی موٹر لگوا رھے ھیں – ان حالات میں انسان پوسٹ کیا لکھ سکتا ھے- پرانی موٹر ناکارہ ھوگئی تھی – موٹر اور پمپ نئے ھوں یا پرانے، ان کا پانی صرف نہانے دھونے اور برتن دھونے کے لیے استعمال ھو سکتا ھے ، پینے کے قابل نہیں ھوتا- کمیٹی کا واٹر سپلائی سسٹم ھمارے محلے میں جو پانی سپلائی کرتا ھے ، اس میں صاف پانی سے زیادہ سیوریج ( نالیوں ) کا پانی ھوتا ھے- چالیس پچاس سال پرانے پائیپ گل سڑ کر جگہ جگہ سے لیک کرنے لگے ھیں – انجینیئروں اور ٹھیکیداروں کی مہربانی سے یہ پائیپ سیوریج سسٹم میں سے گذرتے ھیں – اللہ رحم کرے – ھم پینے کا پانی نہر کے کنارے لگے ھوئے ھینڈ پمپس سے منگواتے ھیں –
ھمارے داؤدخیل میں بھی بلکہ پورے پاکستان میں یہی حال ھے- حکومتیں آتی جاتی رھتی ھیں ، اس اھم مسئلے پر آج تک تو کسی نے توجہ نہیں دی – اللہ کرے نئی حکومت کچھ کردے – ھم صرف دعا ھی کر سکتے ھیں ، باقی کام سرکارکے ذمے-
رھے نام اللہ کا —
بشکریہ-منورعلی ملک- 2 اگست 2018

میرا میانوالی ———————-

کیا اچھا زمانہ تھا جب میانوالی ، داؤدخیل ، کالاباغ وغیرہ سے لاھور، پنڈی یا ملتان جانے کے لیے لوگ ٹرین سے سفر کو ترجیح دیتے تھے- میانوالی سے پنڈی سڑک کے راستے تلہ گنگ ، فتح جنگ وغہرہ سے ھو کر جانا پڑتا تھا – مگر ایک تو پھٹیچر اوور لوڈڈ بسوں میں سائیکل کی رفتار سے سفر کاعذاب، دوسری مصیبت یہ کہ میانوالی سے کوئی بس ڈائریکٹ پنڈی نہیں جاتی تھی – تلہ گنگ سے دوسری بس پہ بیٹھنا پڑتا تھا – ان بسوں کے آنے جانے کا کوئی خاص وقت بھی مقرر نہ تھا – جب تک بس سواریوں سے نکونک بھر نہ جاتی ، چلنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا تھا –
اس اذیت ناک تجربے سے بچنے کے لیے لوگ ٹرین پہ سفر کو ترجیح دیتے تھے- سفر ذرا زیادہ لمبا ، مگر نسبتا آرام دہ تھا-
آج بسوں کی جگہ تیزرفتار ائیرکنڈیشنڈ کوچزموٹروے کے راستے تین چار گھنٹے میں پنڈی پہنچا دیتی ھیں – ٹرین کم ازکم پانچ گھنٹے لیتی تھی ، مگر فرق یہ تھا کہ تیزرفتارائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں سفر کرنے کے باوجود ھم لوگ سکون سے محروم ھیں ، ٹرین سے سفر کرنے والے سادہ دل غریب لوگ سکون قلب کی دولت سے مالامال تھے-
میانوالی سے لاھور اور ملتان جانے کے لیے بھی کوئی ڈائریکٹ بس سروس نہیں تھی- اس لیے اکثر لوگ ٹرین سے سفر کرتے تھے- لاھور سے ماڑی انڈس ٹرین اور ملتان سے پشاور آنے جانے والی دو ٹریننیں ایک نعمت تھیں – آبادی کم تھی، کاروبار بھی کم اس لیے ٹرینوں میں مسافروں کا ھجوم نہیں ھوتا تھا – رات بھر مزے سے سونے کی جگہ بھی آسانی سے مل جاتی تھی –
—— رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک- 3 اگست 2018

میرا میانوالی———————\

آئیے آج میرے ساتھ میانوالی سے راولپنڈی تک ٹرین کا سفر کیجیے – یہ ملتان سے پنڈی جانے والی وہ ٹرین ھے جوصبح تقریبا ٩ بجے میانوالی پہنچتی تھی – سفر چار پانچ گھنٹے کا ھے لیکن سفر کی کہانی ایک دو دن لے گی ، کیونکہ اور بھی بہت سے کام مجھے کرنے ھیں –

میانوالی سے بیرولی ، سمندوالا ، پائی خیل اور ڈھیر امیدعلی شاہ کے ریلوے سٹیشنوں پر ایک آدھ منٹ رکنے کے بعد لیجیے ، ھم میرے شہر داؤدخیل پہنچ گئے – داؤدخیل کا ریلوے سٹیشن جنکشن کہلاتاھے – جنکشن وہ سٹیشن ھوتا ھے جہاں ایک سے زیادہ سمتوں میں گاڑیاں آتی جاتی ھوں – داؤدخیل سے ایک ریلوے لائین تو سیدھی شمال کو ماڑی انڈس جاتی ھے – دوسری مشرق کو سکندرآباد ھاؤسنگ کالونی کے قریب سے گذرتی ھوئی پہاڑ کے ایک درے میں داخل ھوتی ھے – پہاڑی علاقے کا یہ سفر تقریبا ساٹھ ستر کلومیٹر آگے جا کر جنڈ پہ ختم ھوتا ھے –
داؤدخٰیل سے پنڈی کی جانب پہلا ریلوے سٹیشن مسان ھے- یہ قیام پاکستان سے بھی پہلے کا بہت پرانا ریلوے سٹیشن ھے – سٹیشن ریلوے لائین کے دائین طرف پانچ سات فٹ کی بلندی پر واقع ھے – ٹرین میں بیٹھے ھوئے تو یہ نظر بھی نہیں آتا – یہاں سے جنڈ تک لائین کے دائیں (جنوب) میں اعوان کاری (اعوان آبادی) کا علاقہ ھے جو جنوب میں چکڑالہ سے سکیسر تک محیط ھے – ریلوے لایئن کے بائیں طرف کچھ پشتون آبادی ھے ، بقیہ ضلع اٹک کی مسان سے چل کرھم سوھاں برج پہنچے ھیں ، دریائے سوھاں کا بہت لمبا اور اونچا پل ، نیچے کبھی سکون سے کبھی جوش و خروش سے بہتا ھؤا دریا ، دونوں کناروں پر پہاڑی سلسلہ – بہت خوبصورت منظرھے ——— رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک- 4 اگست 2018

میرا میانوالی

تعزمن تشآء ———- اللہ جس کو چاھے عزت دےدے

پکچر میں جو نوجوان اپنے والدین کے درمیان بیٹھا آپ دیکھ رھے ھیں اس کو جرمنی کی ایک یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی ( PhD ) میں داخلے کے لیے منتخب کر لیا ھے – یہ نوجوان سندھ دھرتی کے محروم قحط زدہ علاقے تھر پارکر کا باشندہ ھے – اس کے والد چرواھا ( بھیڑ بکریاں چرانا ) کا کام کرتے ھیں – الحمدللہ اپنی پاک سرزمین کے دورفتادہ ، پس ماندہ دیہات میں ایسے کئی قیمتی ھیرے موجود ھیں – ھمیں ایسے بچوں پر فخر کرنا چاھیے اور ان کی قدر کرنی چاھیے ، پاکستان زندہ باد –♥️-بشکریہ-منورعلی ملک- 4 اگست 2018

میرا میانوالی-اپنا پرانا شعر ———————————
فروخت کرتے ھوئے اس نے یہ نہیں سوچا
کہ کتنی چاہ سے اس نے مجھے خریدا تھا

میرا میانوالی

پرسوں صبح کی پوسٹ میں ھم ٹرین کے ذریعے میانوالی سے پنڈی جاتے ھوئے سوھاں برج ریلوے سٹیشن پہنچے تھے – آیئے اب آگے چلتے ھیں –
انجرا ، چھب ، اچھڑی، جھمٹ ، سے گذر کر ٹرین جنڈ ریلوے سٹیشن پہنچی ھے- یہاں شاہ جی کے ٹی سٹال سے چائے پینا میرے بچپن کا مشغلہ ھے ۔ جب میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ، تو ھر ماہ داؤدخیل آتے جاتے یہاں چائے ضرورپیا کرتا تھا – اب شاہ جی تو اس دنیا میں نہیں رھے ، ان کی جگہ جو بھی ھے ————- توں نئیں تے تیریاں یاداں


جنڈ جنکشن سٹیشن ھے – یہاں سے ایک ریلوے لائین کوھاٹ کو جاتی ھے- ادھر سے بھی گاڑیاں آتی جاتی ھیں – میانوالی سے پنڈی جانے والی ریلوے لائین تین سٹیشن آگے جاکر بسال ریلوے سٹیشن پر دوشاخوں میں تقسیم ھو جاتی ھے- ایک شاخ تو سیدھی فتح جنگ سے ھوتی ھوئی پنڈی جاتی ھے- دوسری اٹک سے ھو کر —->ملتان سے پنڈی جانے والی ٹرینیں اٹک سے ھو کر جاتی تھیں – ایک ڈیڑھ گھنٹہ زائد وقت لگتا تھا ، اس لیے زیادہ تر لوگ جنڈ سے پنڈی کی بس پہ بیٹھ جاتے تھے
جنڈ شہر میں جانے کا اتفاق تو نہیں ھوآ ، پھر بھی اس علاقے سے مجھے بہت پیارھے – جنڈ کے مرحوم سید فیض الحسن بخاری میانوالی میں بہت عرصہ ایجوکیشن آفیسر رھے- بہت مہربان افسر تھے-
جنڈ سے دوتین کلومیٹر شمال مغرب میں میرے سسرالی رشتہ داروں کی بستی “زیارت“ ھے – یہ لوگ بھی بخاری سادات ھیں – کبھی کبھی آنا جانا ھوتا رھتا ھے –
—رھے نام اللہ کا
اچھی خبر ———————-♥️
اسلام آباد سے پبلشر نے خبردی ھے کہ میری کتاب “درد کا سفیر“ کا تیسرا ایڈیشن ان شآءاللہ اگلے ھفتے منظر عام پر آجائے گا – اب کی بار کتاب کا ٹائیٹل یہ پکچر ھوگی جو آپ اس پوسٹ میں دیکھ رھے ھیں –

بشکریہ-منورعلی ملک- 6 اگست 2018

میرا میانوالی-

جنڈ پہنچنے سے پہلے ٹرین انجرا اور جنڈ کے درمیان پانچ چھ پہاڑی سرنگوں سے گذرتی ھے- پکی اینٹوں سے بنی ھوئی یہ محراب نما سرنگیں خاصی لمبی ھیں –

گاڑی جب سرنگ میں داخل ھوتی ھے تو اچانک بم دھماکے جیسی آواز سے انسان سہم جاتا ھے – یہ آواز دراصل سرنگ میں گاڑی کی آواز کی گونج ھوتی ھے جو اصل آواز سے کئی گنا بلند اور خاصی ھولناک ھوتی ھے – سرنگ چونکہ تاریک ھوتی ھے اس لیے سرنگ میں داخل ھونے سے پہلے ٹرین کا گارڈ / ڈرائیور گاڑی کے اندر کی تمام روشنیاں آن کر دیتا ھے- اس سے بچوں اور خواتین کو کچھ حوصلہ تو ملتا ھے ، مگر ان کی چیخ پکار پھر بھی گاڑی سرنگ سے باھر آنے تک جاری رھتی ھے-
اس راہ سے پہلی بارگذرنے والوں کی حالت تو خاصی پتلی ھو جاتی ھے – جو لوگ پہلے اس راہ سے گذر چکے ھوں وہ ذھنی طور پر اس آزمائش کے لیے تیار ھوتے ھیں – پھر بھی اچانک دھماکے سے لرز ضرور جاتے ھیں
ھمارے عزیز شاھد اشرف کلیار اٹک میں رھتے ھیں ، گھر ان کا عیسی خیل کے قریب کلور میں ھے – کل ان کا پیغام موصول ھؤا کہ جنڈ ریلوے سٹیشن کی چائے اب تو انتہائی ناقص ھوتی ھے- کام کرنے والے ناقص ھوں تو چیزیں ناقص ھی بنتی ھیں – میں تو شاہ جی کے ٹی سٹال کی چائے کا رسیا تھا ، کیا خوشبودار خوش ذائقہ چائے ھوتی تھی -!!! شاہ جی تو گذر گئے ، اب پتہ نہیں کون لوگ ان کی جگہ بیٹھے ھیں – کبھی ادھر سے گذرا تو ان سے بات کروں گا- رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک- 7 اگست 2018

میرا میانوالی

اسداللہ خان ، وقاراحمد ملک اور کچھ دوسرے دوستوں نے جنڈ ریلوے سٹیشن کے پکوڑوں کی طرف متوجہ کرتے ھوئے یاد دلایا کہ جنڈ ریلوے سٹیشن کی شہرت کا اصل سبب تو وہ انتہائی لذیذ گرماگرم پکوڑے تھے جو ھاتھوں ھاتھ بکتے تھے-
بالکل درست کہا ان دوستوں نے – لیکن میری بدنصیبی سمجھیے یا نالائقی ، کہ بارھا یہاں سے گذرنے کے باوجود میں وہ پکوڑے کبھی نہ کھا سکا – اپنا اپنا مزاج ھوتا ھے، میں بچپن ھی سے میٹھی چیزوں کا رسیا تھا – نمکین چیزیں کھا تو لیتا تھا ، مگر ان سے مجھے کوئی خاص دلچسپی کبھی نہ رھی- گھر میں میری پسند کا سالن نہ بنتا تو میں رولا کر دیتا ، امی فورا خالص گھی میں شکر ڈال کر مجھے کھلا دیتیں ، کبھی سیمیاں (سویاں) کبھی حلوہ ، کبھی چوری ، مجھے بس یہی پرندوں والی خوراک اچھی لگتی تھی –
جنڈ سٹیشن پر میری توجہ کا مرکز شاہ جی کا ٹی سٹال اس لیے بھی تھا کہ وھاں چائے کے علاوہ کیک ، پیسٹری اور کریم رول بھی دستیاب ھوتے تھے-
جنڈ سے تین چار سٹیشن آگے بسال جنکشن سے ایک ریلوئے لائین اٹک سے ھوتی ھوئی پنڈی ، پشاور وغیرہ کو جاتی ھے- اس راستے سے بھی کئی دفعہ آنا جانا ھؤا- سراسر پہاڑی علاقہ ھے – اس راہ پر مزید آٹھ سرنگوں سے گذرنا پڑتا ھے- کالاچٹا پہاڑ خاصا پرا اسرار اور ھبیتناک علاقہ ھے – سنا ھے جھاڑیوں کے اس وسیع و عریض جنگل میں شیر اور چیتے بھی رھتے ھیں –
اٹک ریلوے سٹیشن بہت اھم جنکشن ھے – یہاں سے پنڈی ، پشاور، ملتان آنے جانے والی گاڑیوں کے انجن بھی تبدیل ھوتے ھیں – حسن ابدال ، واہ ، ٹیکسلا وغیرہ سے گذر کر ٹرین کا سفر بالآخر پنڈی پہنچ کر ختم ھوتاھے-
——— رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک- 8 اگست 2018

میرا میانوالی——————-

میانوالی سے پنڈی تک ٹرین کا سفر کل ھم نے بسال سے براستہ اٹک طے کیا تھا –

جیسا کہ پہلے میں نے بتادیا تھا ، بسال سے ایک سیدھا اور مختصر راستہ وہ ریلوے لائین ھے جو فتح جنگ کا راستہ کہلاتی ھے- فتح جنگ ضلع اٹک میں ایک اھم قصبہ ھے – اس کی اھمیت کی ایک وجہ یہ بھی ھے کہ میانوالی ، سرگودھا ، خوشاب ، بھکر، ملتان وغیرہ سے پنڈی آنا جانا ٹرین سے ھو یا سڑک کے راستے , فتح جنگ سے ضرور گذرنا پڑتا تھا- موٹروے نے فتح جنگ کا پتہ کاٹ دیا – اب میانوالی ، سرگودھا وغیرہ کی گاڑیاں بلکسر سے موٹروے کی راہ لیتی ھیں
ٹرین دومیل ، فتح جنگ ، حطار ،قطبال , ترنول ، گولڑہ سے ھوتی ھوئی پنڈی پہنچتی تھی- یہ سارا راستہ تقریبا میدانی ھے- ویران سا علاقہ تھا ، اب شاید آباد ھو گیا ھو-“>راستے میں ایک ویران سی جگہ پر ٹرین اچانک رکی تو سب لوگ حیرا ن پریشان ھوئے کہ یہ پتہ نہیں کیا ھؤا – دیکھا تو ڈرائیور اور اس کا معاون ٹرین سے اتر کر کچھ دور بیٹھے ایک درویش بابا کو کھانا پیش کر رھے تھے- جب تک وہ بابا جی زندہ رھے ، ھرٹرین کے ڈرائیور اور ان کے معاون بابا جی کے لیے کھانا لاتے رھے- باباجی کھانے کے علاوہ اور کوئی نذرانہ نہیں لیتے تھے- کھانا بھی بس ایک روٹی اور دال – آبادی سے کوسوں دور ویرانے میں اور کسی چیز کی ضرورت ھی کیا تھی – مجبورا کچھ نہ کچھ کھانا تو پڑتا ھے- واللہ خٰیرالرازقین – اللہ نے ان کے کھانے کا یوں بندوبست کر دیا کہ کھانے کے وقت پہ ادھر سے گذرتی ٹرینوں کے ڈرائیور جنڈ، بسال یا پنڈی سے ان کے لیے کھانا لے آتے تھے–
رھے نام اللہ کا–

بشکریہ-منورعلی ملک-9 اگست 2018

میرا میانوالی-یادیں

30 جولائی 2017


اپنے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کے ساتھ-ایوبیہ —— نتھیا گلی کی طرح ایوبیہ بھی ضلع ایبٹ آباد میں شامل ھے
یہ علاقہ 1975 میں ضلع ایبٹ آباد میں شامل ھؤا – پہلے تحصیل مری کا حصہ تھا-یہاں ایک بہت بڑا نیشنل پارک ھے جس میں درندے بھی پائے جاتے ھیں –چیئرلفٹ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رھتی ھے-ھر سال مری کے دورے میں ھم یہاں بھی آتے ھیں – بہت دلکش جگہ ھے-

بشکریہ-منورعلی ملک- 9 اگست 2018

میرا میانوالی ————–

راولپنڈی ریلوے سٹیشن سے میری بے شمار یادیں وابستہ ھیں – داؤدخیل سے پنڈی آنے کا براہ راست ذریعہ ٹرین ھی تھی – سڑک کے راستے ، پہلے میانوالی ، وھاں سے دوسری بس پہ تلہ گنگ ، وھاں سے تیسری بس پہ پنڈی ، سات آٹھ گھنٹے کی خواری سے بچنے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ داؤدخیل سے پنڈی جانے والی کسی ٹرین پہ بیٹھ جائیں اور پانچ گھنٹے کے آرام دہ سفر کے بعد پنڈی پہنچ جائیں – میں گارڈن کالج پنڈی کا سٹوڈنٹ تھا تو ھرماہ ٹرین سے ھی داؤدخیل آتا جاتا رھا – بہت مزے کا سفر ھوتا تھا –
پنڈی ریلوے سٹیشن مجھے تو لاھور ریلوے سٹیشن سے بھی اچھا لگتا ھے- لاھور کا سٹیشن توسمندر ھے (کسی سے سنا تھا کہ ایشیا کا سب سے بڑا ریلوے سٹیشن ھے – واللہ اعلم ) – مجھے پنڈی شاید اس لیے زیادہ پسند ھے کہ اس سے میرا تعارف کچی جوانی کے دور میں ھؤا- اس دور کی یادیں انمٹ ھوتی ھیں -لاھور کی تو بات ھی اور ھے, مگر پنڈی بھی خاصا بڑا سٹیشن ھے- تمام اھم میل اور ایکسپریس گاڑیاں یہاں سے ھو کر پشاور لاھور اور کراچی جاتی ھیں – ھر وقت رونق لگی رھتی ھے-

اس سٹیشن کے پانچ پلیٹ فارم ھیں – بہت صاف ستھرا اور خوبصورت ریلوے سٹیشن ھے- کم بخت انگریزوں نے کمال کر دیا اس دور کے بنے ھوئے ریلوے سٹیشن باوقار اور پائدارعمارات ھیں – شاید اس لیے کہ انگریز انجینیئروں کو پیسے سے نفرت تھی- بےوقوف لوگ تھے – ٹھیکیداروں سے ایک ٹکہ بھی رشوت نہیں لیتے تھے- کام خود بھی ڈٹ کر کرتے تھے ، ٹھیکیداروں کا بھی ناک میں دم کیے رکھتے تھے- پاکستان بنا تو بچارے ٹھکیداروں کو اطمینان کا سانس نصیب ھؤا – انجینیئر اور وزیر بھی اپنے لوگ آگئے ، مل جل کر کھانے پینے کا مزا ھی اور ھوتا ھے-
بات بہت دور نکل گئی ، پنڈی ریلوے سٹیشن کے ریفریشمنٹ روم کا ذکر وقاراحمد ملک کے ناول “رات ، ریل ،ریستوراں “ میں بھی ھے- میرا تو یہ محبوب ٹھکانہ ھؤا کرتا تھا
بہت پر سکون جگہ ھے— اللہ آباد رکھے، پنڈی سٹیشن آج بھی میرے من میں آباد ھے— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک-10  اگست 2018

میرا میانوالی-احتساب —————————–

عزیز ساتھیو ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ‘

پرانے ساتھی جانتے ھیں کہ کبھی کبھی میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا رھتا ھوں – میری پوسٹس کے حوالے سے کوئی تجویز، مشورہ ، فرمائش ، شکوہ یا شکایت ؟؟؟ 
ان شآءاللہ آپ کے مشوروں پر عمل اور فرمائشوں کی تکمیل کی پوری کوشش کروں گا –
ایک گذارش کرنا ضروری سمجھتا ھوں – آپ جانتے ھیں کہ یہ ایک ٹیچر کی فیس بک ھے ، اس لیے سیاسی یا غیراخلاقی کمنٹس سے گریز کریں –

آپ سب کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 10 اگست 2018

میرا میانوالی

عجیب احتساب ھؤا ————————— !!!!!!

میری جیب خالی ھونے کی بجائے دامن دعاؤں کے رنگارنگ مہکتے پھولوں سے بھر گیا – اللہ تعالی آپ سب کو بے حساب عزت دے ، آپ کی یہی محبت مجھے مسلسل لکھتے رھنے پر مجبور کرتی ھے- کبھی طبیعت خراب بھی ھو تو صبح کی پوسٹ بہر حال لکھ دیتا ھوں -شاید پہلے بھی کبھی کہا تھا کہ صحت ، بالخصوص سماعت کے مسائل کی وجہ سے میں نے 2010 میں پڑھانا چھوڑ دیا تھا – پڑھنا پڑھانا ھی میری زندگی تھا- بہت اداس رھتا تھا – رب کریم کا خاص کرم کہ اس نے مجھے فیس بک کی شکل میں ایک وسیع وعریض کلاس فراھم کر دی – یہ کلاس پاکستان سے امریکہ تک پھیلی ھوئی ھے – اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اور آپ کا بہت شکریہ کہ میری محرومی کی تلافی ھو گئی پوسٹ لکھتے وقت ایک عجیب سا سکون و اطمینان محسوس ھوتا ھے – تقریبا ویسا ھی ،جیسا کالج میں کلاس کو پڑھاتے ھوئے محسوس ھوتا تھا –

سات دوستوں نے تجاویز اور مشورے بھی دئیے ھیں – آپ کی سب تجاویز اور مشورے سرآنکھوں پر- ان شآءاللہ کل کی پوسٹ میں ان تجاویز اورمشوروں کے جواب دوں گا ——— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 11 اگست 2018

میرا میانوالی ————————–

پرسوں کی پوسٹ میں میں نے اپنے احتساب کی پشکش کے علاوہ آپ دوستوں سے تجاویز اور مشورے بھی طلب کیے تھے- کچھ دوستوں نے اس مطالبے کا جواب دیا تھا –

عبدالعزیز صاحب نے مشورہ دیا کہ میں لالا عیسی خیلوی کے گیت نگاروں کا تعارف لکھوں- عبدالعزیز صاحب ، وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا زندگی سے یہی گلہ ھے مجھے
توبہت دیر سے ملا ھے مجھے

لالا کے تمام گیت نگاروں کا تعارف پچھلے سال الگ الگ پوسٹس کی صورت میں لکھ چکا ھوں – وہ تمام پوسٹس آپ 786miamwali.com پہ ملاحظہ فرما سکتے ھیں –

علی رضا صاحب کی فرمائش ھے کہ پوسٹس زیادہ ھونی چاھیئں- علی رضا صاحب روزانہ ایک پوسٹ اردو کی ایک انگلش کی لکھتا ھوں- فارغ وقت مل جائے تو کبھی ایک زائد پوسٹ بھی تصویر یا اپنے کسی شعر کی صورت میں لگا دیتا ھوں- فرصت کی بات ھے – مل جائے تو آپ لوگوں کی خاطر کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ھوں-

حافظ بلال صاحب کہتے ھیں کہ پوسٹس ذرا طویل ھونی چاھیئیں – حافظ بلال صاحب ، بہت مہربانی کہ آپ میری پوسٹس شوق سے پڑھتے ھیں – کوشش کروں گا کہ زیادہ لکھوں – وعدہ تو نہیں کر سکتا ، کیونکہ جہاں بات مکمل ھوجائے ، پوسٹ اس سے آگے نہیں جاسکتی-

خالد کاظمی صاحب نے گورنمنٹ کالج میانولی کے حوالے سے یادیں لکھنے کی فرمائش کی ھے – خالد کاظمی صآحب ، اس موضوع پہ بہت کچھ لکھ چکا ھوں ، بہت کچھ اور بھی لکھنا چاھتا ھوں – دعا کریں – ان شآءاللہ جلد یہ سلسلہ شروع کروں گا-

قمر بھروں زادہ نے یاد دلایاکہ کمنٹس کا جواب نہ سہی ، لائیک کی شکل میں ری ایکشن تو دینا پڑتا ھے- قمر بیٹا ، بہت ممنون ھوں . کہ آپ نے ایک اھم اخلاقی فرض یاد دلادیا – ان شآءاللہ اب نہیں بھولوں گا –

فضل رحمن صاحب نے مشورہ دیا ھے کہ آج کے نظام تعلیم اور انگریزوں کے دیے ھوئے نظام تعلیم کا موازنہ کیا جائے – فضل رحمن صاحب ، بہت اھم مشورہ ھے آپ کا – بہت شکریہ ، ان شآءاللہ اس موضوع پہ جلد لکھوں گا – یہ تو میری پسند کا موضوع ھے ، کہ میں نے دونوں نظام بہت قریب سے دیکھے ھیں – رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 12 اگست 2018

میرا میانوالی

بابا جی —
یوم آزادی کی نسبت سے ، آئیے ان بابا جی کو بھی یاد کر لیں ، جن کی ان تھک محنت سے ھمیں آزادی نصیب ھوئی –


جب بابا جی ( قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ ) پاکستان کے گورنرجنرل (صدرمملکت) تھے تو ایک دن کراچی میں کہیں جاتے ھوئے ریلوے پھاٹک بند ھونے کی وجہ سے ان کی گاڑی کو رکنا پڑا –
بابا جی کے ھمراہ صرف سیکورٹی کی ایک ھی گاڑی ھوتی تھی- سیکیورٹی افسر نے ریلوے پھاٹک کے انچارج ملازم سے کہہ کر پھاٹک کھلوا دیا –
باباجی نے کہا “پھاٹک کیوں کھلوایا؟“
سیکیورٹی افسر نے کہا “سر، اس لیے کہ آپ کو یہاں انتظار کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑے – ٹرین تو کچھ دیر بعد یہاں سے گذرے گی “-
بابا جی نے کہا “ قانون کیا کہتا ھے ؟“
افسر نے کہا “ سر، قانون تو یہ ھےکہ پھاٹک گاڑی گذرنے کے بعد ھی کھل سکتا ھے “
بابا جی نے سیکیورٹئ افسر کو ڈانٹ کر کہا “ جاؤ ، اور پھاٹک فورا بند کروا دو- اگر میں ھی قانون کی خلاف ورزی کروں ، تو لوگ قانون پر کیوں عمل کریں گے“-
بشکریہ-منورعلی ملک- 12 اگست 2018

میرا میانوالی/ میرا داؤدخیل —————–

کچھ عرصہ پہلے داؤدخیل سے ایک بچے کا میسیج فیس بک سے موصول ھؤا – میسیج کے ساتھ ایک پکچر بھی تھی – میسیج میں لکھا تھا “سر جی ، اگر آپ داؤدخیل کے مرحوم ممدایا نائی کو جانتے ھوں تو پلیز ان کے بارے میں ایک پوسٹ لکھ دیں – وہ میرے دادا جی تھے-
“اگر ممدایا نائی کو جانتے ھوں“ —— بچے کے یہ الفاظ پڑھ کر میں مسکرادیا – ممدایا کو مجھ سے بہتر کون جانتا ھوگا – ھم پانچ دوستوں کا گروپ ھؤا کرتا تھا – میرے علاوہ بھائی عبداللہ خان برتھے خیل ، مقدرخان سمال خیل ، غلام مصطفی خان سالار اور ممدایا اس گروپ کے رکن تھے- ھم سارا دن احسان اللہ خان کے ھوٹل پر بیٹھ کر گپیں اور قہقہے لگایا کرتے تھے- ممدایا عمر میں ھم سے دوچار سال سینیئر تھے – بہت زندہ دل انسان ھر وقت ھنستے ھنساتے رھتے تھے – ممدایا کا جان دار قہقہہ دور تک سنائی دیتا تھا ——- کیا اچھا زمانہ تھا -1ممدایا تعلیم یافتہ نہ تھے – والد (چاچامحمدعظیم) کے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے تھے

ممدایا جیسا خوش لباس آدمی داؤدخیل میں کم ھی نظر آتا تھا – دوگھوڑا بوسکی کی قمیص ، جاپانی لٹھے کی سفید شلوار ، کالا باغ کی بنی ھوئے سپیشل فرمے والی براؤن کھیڑی ‘ تلوارمارکہ مونچھ ، سر پہ سفید آرکنڈی کی پگڑی ھاتھ میں بید کی نفیس سی چھڑی ، جس کے ایک سرے پر چاندی کا مٹھا لگاھؤاتھا ، کالر میں نفاست سے فولڈ کیا ھؤا کاٹن کا رومال ، بہت رئیسانہ ٹور تھی ھمارے یار کی – ممدایا جدھرسے گذرتا لوگ رک کر دیکھا کرتے تھے- بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھا ، سب سے پیار کرتا تھا اور سب لوگ اس سے پیار کرتے تھے-

ممدایا نے زندگی بھر نہ کوئی کام کیا نہ سیکھا ، چاچا عظیم کہا کرتے تھے ، ایک ھی بیٹا ھے ، کچھ نہ بھی کرے تو میری کمائی اس کے لیے عمر بھر کافی ھوگی – میں نے کچھ زمین بھی لے رکھی ھے – مشکل وقت میں اس کے کام آئے گی –

احسان کا ھوٹل پہلے بھائی محمدعبداللہ خان برتھے خیل کا تھا – بعد میں انہوں نے اپنے بھانجے احسان کو دے دیا – احسان والا ھوٹل آج بھی آباد ھے – مگر ھماری محفل چار پانچ سال ھی چل سکی ، پھر سب لوگ کسی نہ کسی کام میں لگ گئے – ممدایا ویسے کے ویسے ھی رھے- عبداللہ خان سے تو ملاقات ھوتی رھتی ھے- ایک دوسال پہلے مقدر خان سے بھی ملاقات ھوئی تھی- غلام مصطفی خان کو پھر نہیں دیکھا – اللہ کرے خیریت سے ھوں – داؤدخٰیل میں میرا آنا جانا بہت کم رھا ، ممدایا سے پھر کبھی ملاقات نہ ھو سکی – سنا تھا ، گھر والوں سے نہیں بنتی ، پھرصلح ھوگئی – کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ ممدایا اس دنیا سے رخصت ھوگئے – اتنا زندہ دل آدمی مر کیسے گیا ؟ — بہر حال کل من علیہا فان -گذرگیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 13 اگست 2018

میرا میانوالی-درد کا سفیر منظرعام پر —————-


بحمداللہ ، آج میری کتاب “دردکاسفیر“ کا تیسرا ایڈیشن منظر عام پر آگیا ھے – اسلام آباد/ پنڈی سے باھر کے لوگ اپنے شہر کے کسی بک سیلر سے کہہ کر منگوا سکتے ھیں –
مزید تفصیلات ان شآءاللہ پبلشر سے بات کر کے کل بتاؤں گا-

بشکریہ-منورعلی ملک- 14  اگست 2018

میرا میانوالی—–

” درد کا سفیر” کا آغاز اس محفل سے ھوتا ھے جو آج سے 45 سال پہلے عیسی خیل میں لالا عیسی خیلوی کے پرانے گھر میں ھررات برپا ھوتی تھی – ھم نے اس کمرے کا نام “میکدہ“ رکھا ھؤا تھا – یہ وہ زمانہ تھا جب لالا کی کوئی کیسٹ منظر عام پر نہیں آئی تھی – وہ اپنے من کی لگن سے ھر رات تین چار گھنٹے نغمہ سرائی کرتا تھا – اس محفل میں لالا کے سامعین لالاکے ھم پانچ سات دوست ھوتے تھے-
اس داستان کا پہلا صفحہ ملاحظہ کیجیئے –


———- رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 15 اگست 2018

میرا میانوالی—————

کل “دردکا سفیر“ سے جو صفحہ شیئر کیا تھا ، آج اس سے اگلا صفحہ دیکھیے –
یہاں ایک بات بتادوں کہ میں اس طرح ایک ایک صفحہ کر کے پوری کتاب شیئر نہیں کر سکتا- پبلشر کا اعتراض ھے کہ اگر اس طرح ھؤا تو کتاب کون خریدے گا – اس نے جو پیسے خرچ کیے ھیں وہ بھی واپس نہیں آئیں گے-
دوسری بات یہ بھی ھے کہ میں اپنی مرضی سے کام کرنے کا عادی ھوں – کسی ایک موضوع کا پابند نہیں رہ سکتا – – کبھی کبھاردس پندرہ دن میں ایک آدھ صفحہ “درد کا سفیر“ کا بھی پوسٹ کر دیا کروں گا –
—————————- رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک- 16 اگست 2018

میرا میانوالی-

سجناں تیرے بناں —————-
تعارف کی تو اس نام کو کوئی ضرورت نہیں ، کہ لاکھوں دلوں میں بستا ھے- مقصد استاد نصرت فتح علی خان کو خراج عقیدت پیش کرنا ، اور ان کے لیے دعائے مغفرت طلب کرنا ھے ، کیونکہ آج ان کی برسی ھے –

استاد نصرت فتح علی خان 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد کے ایک معروف قوال گھرانے میں پیدا ھوئے – سنا ھے یہ گھرانہ 600 سال سے قوالی کے فن سے وابستہ تھا-نصرت کے والد کا یہ خیال تھا کہ قوالوں کی معاشرے میں عزت نہیں ھوتی ، اس لیے وہ نصرت کو ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاھتے تھے- مگر قدرت نے نصرت جی کے لیے بےحساب عزت اور عالمگیر شہرت قوالی ھی کے کھاتے میں لکھ دی تھی – انہوں نے فن کی تربیت اپنے چچا مبارک علی خان اور سلامت علی خان سے حاصل کی – عوام کے سامنے اپنے فن کا مظاھرہ پہلی بار سولہ برس کی عمر میں والد کے چہلم کے موقع پر کیا –

نصرت صرف قوال ھی نہیں اعلی پائے کے گلوکار بھی تھے- آواز میں ذرا سی خراش تھی، مگر نصرت نے اس خامی کو بھی خوبی بنا دیا – گائیکی کا انداز ایسا تھا کہ لفظ بولتےتھے- عجیب جادو تھا نصرت جی کی گائیکی میں- دنیا بھر میں ان کی آواز کے کروڑوں مداح آج بھی موجود ھیں – اس حوالے سے دنیا بھر کی سیر بھی کر چکے تھے-
صحت کے مسائل بچپن ھی سے رھتے تھے – 16 اگست 1997 کو 48 برس کی عمر میں اس دارفانی سے رخصت ھو گئے – جھنگ روڈ فیصل آباد کے قبرستان ، المعروف کبوتراں والا قبرستان میں آسودہ تہ خاک ھیں – اللہ مغفرت ورحمت نصیب فرمائے-
یوں تو نصرت جی کا ھرگیت اور قوالی اپنی مثال آپ ھے ، میری خاص پسند یہ تین چیزیں ھیں –
١۔ وھی خدا ھے
٢۔ دم ھمہ دم علی علی ( یہ فارسی منقبت / قوالی میں لاھور آتے جاتے ھوئے اکرم بیٹے کی گاڑی میں ضرور سنتا ھوں )-
٣، سانوں اک پل چین نہ آوے سجناں تیرے بناں
– رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 16  اگست 2018

میرا میانوالی———–

لالا رحمت ( چوھدری رحمت علی ) وہ شخصیت ھیں جس نے کیسیٹس کے ذریعے لالا عیسی خیلوی کو دنیا بھر میں متعارف کرایا- صرف لالا ھی نہیں ، استاد نصرت فتح علی خان ، منصور علی ملنگی، عطامحمد خان داؤدخیلوی ، اور بے شماردوسرے مشہورومقبول گلوکاروں کو منظرعام پرلانے کا اعزازبھی لالا رحمت کے حصے میں آیا — لالا عیسی خیلوی سے رحمت بھائی کی پہلی ملاقات اور لالا کی ریکارڈنگ کی داستان میری کتاب “دردکاسفیر“ میں شامل ھے –

گلوکاروں کی وساطت سے بہت سے شاعر بھی دنیا بھر میں مقبول ھوئے، یونس خان، مجبورعیسی خیلوی ، ناطق نیازی، اظہرنیازی ، فاروق روکھڑی ، ملک آڈھا خان ، ملک سونا خان بے وس ، بری نظامی ، منشی منظور اوربہت سے مقبول عام شاعروں کو بھی رحمت بھائی نے معتارف کرایا -امرتسر سے ھجرت کرکے فیصل آباد میں آباد ھونے والے چوھدری رحمت علی نے 1949 میں “رحمت گاراموفون ھاؤس“ کے نام سے فیصل آباد کے امین پور بازار میں گراموفون ریکارڈز کی خرید وفروخت کا ادارہ قائم کیا – بعد میں یہی ادارہ پاکستان کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا آڈیوکیسیٹ ریکارڈنگ کا ادارہ بن گیا –

تقریبا تیس سال تک دنیا بھر میں یہ ادارہ مشہورومعروف رھا – نصرت فتح علی خان اور لالاعیسی خیلوی اور دوسرے اھم گلوکاروں کے کیسیٹ ھرماہ منظرعام پر آتے رھے- پھر کیسیٹ کی جگہ یو ایس بی نے لے لی ، گلوکاری نے بیٹھ کر گانے کی بجائے بھاگ دوڑ اور اچھل کود کی شکل اختیار کرلی ،ریکارڈنگ ، سٹوڈیوز کی بجائے پہاڑوں پر اور دریاؤں کے کنارے ھونے لگی , تو یہ عظیم الشان ادارہ رفتہ رفتہ ختم ھو گیا-

لالا رحمت زبردست مہمان نواز اور خوش اخلاق انسان تھے- کئی دفعہ ان کے ھاں انے جانے کا اتفاق ھؤا ، بہت محبت کرتے تھے سب شاعروں اور گلوکاروں سے – ھمیں تو وہ لالا ھی کہتے تھے ، اور بھائیوں جیسا پیار کرتے تھے – میلاد کی بہت بڑی بڑی محفلیں منعقد کیا کرتے تھے- یہ ان کا شوق نہیں ، عشق تھا –
ان سے آخری ملاقات میانوالی میں لیاقت ( وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس) کے بھائی کی شادی میں ھوئی – کچھ عرصہ بعد خبرملی کہ لالاجی یہ دنیا چھوڑ کر ملک عدم جابسے –

اللہ لالا رحمت کو اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے – کلچر کی ترویج و تہذیب میں ان کا کردار یادگار رھے گا –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 17 اگست 2018

میرا میانوالی——————

رحمت گراموفون اور اس کے بانی چوھدری رحمت علی کا ذکر چھڑا تو ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا –

لالا عیسی خیلوی اور میں لالا رحمت کے مہمان تھے- ھمارا قیام رحمت گراموفون کی بالائی منزل پر ایک آراستہ و پیراستہ کمرے میں تھا – صبح ھم ناشتہ کر رھے تھے تو منصورعلی ملنگی تشریف لے آئے ، وہ گذشتہ رات فیصل آباد شہر میں کسی شادی کی تقریب میں اپنے فن کا مظاھرہ کر کے آئے تھے – یہ دور لالا اور منصورملنگی دونوں کے عروج کا دور تھا – ناشتہ ھو چکا تو منصور کے ایک ساتھی نے ایک گٹھڑی کھول کر قالین پر انڈیل دی – مختلف مالیت کے نوٹوں کا قالین پر ڈھیر لگ گیا – پھر وہ آدمی ان نوٹوں کو گننے میں مشغول ھو گیا –
لالا نے ھنس کر منصور سے کہا — یہ ساری کمائی “ لگیاں انج ناں تروڑ“ کی ھے – ؟ ( لگیاں انج ناں توڑ اس زمانے میں منصور کا مقبول ترین گیت تھا )منصورنے کہا “جی ھاں
لالا نے مسکرا کر کہا “یار ، میں بھی تمہیں سننے کے لیے اس تقریب میں آنا چاھتا تھا ، مگر کچھ مہمان آگئے ، اس وجہ سے نہ آسکا “

“منصورنے ھاتھ جوڑ کر کہا “ بس کر یار، توں میڈے اے چار پیسے وی نی ڈیکھ سگدا – ؟ توں اس فنکشن اچ آ ویندا تاں میکوں کون سنے ھا -؟“

منصور علی ملنگی ضلع جھنگ کے قصبے کوٹ شاکر کے رھنے والے تھے – بہت مقبول لوک فن کا ر تھے – لالا اور منصور ایک ساتھ میدان میں آئے – لالا کے پہلے چار کیسیٹوں کے ساتھ منصور کے بھی دوکیسیٹ ( اک پھل موتیے دا مار کے جگا —– اور—- خان گھڑا ڈے بند وے خاناں) منظر عام پر آئے – کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے منصور بہت پریشان رھتے تھے – بالآخر یہی پریشانیاں جان لیوا ثابت ھوئیں ، اور آج سے چند سال پہلے منصور بسترخاک پر جا سوئے – حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا –
رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 18  اگست 2018

میرا میانوالی———-
پچھلے ھفتے کئی دوستوں نے نامور شاعر ملک آڈھا خان کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کی – یہ سب غالبا نئے دوست ھیں ، کیونکہ میں ایک دوسال پہلے آڈھا خان سمیت ان تمام سینیئر شعراء کے بارے میں لکھ چکا ھوں ، جو لالاعیسی خیلوی کی وساطت سے مشہورونامورھوئے – بہر حال دوستوں کی خواھش کے احترام میں ایک بار پھر ذکر ھے میرے محترم بھائی ، ملک آڈھا خان کا –

ملک آڈھاخان قائدآباد کے نطقال قبیلے کے چشم و چراغ تھے- سکول ٹیچر ریٹائر ھوئے – شعرکہنے کی صلاحیت رب کریم کی عنایت تھی – ڈوھڑے کے بے ًمثال شاعر تھے->ضلع خوشاب میں ڈوھڑا لکھنے کی بہت مضبوط روایت ھمیشہ رھی ھے- ملک آڈھا خان کے ھم عصر ڈوھڑا نگاروں میں مرحوم منورراں، ملک شیر محمد مغموم ، عطا محمد عباسی اور بہت سے دوسرے نامور لوگ شامل تھے – مگر قدرت نے لازوال شہرت اور مقبولیت جیسی ملک آڈھا خان کو عطا کر دی کسی او ر کو نصیب نہ ھوئی – دنیا بھر میں آڈھا خان کی پہچان اورشہرت کاوسیلہ لالاعیسی خیلوی کی آواز بنی

ملک آڈھا خان نے ھر موضوع پر ڈوھڑے لکھے ، مگر ھجرو فراق کے موضوع پر لکھنے میں ان کا انداز اپنی مثال آپ تھا – رحمت گراموفون کمپنی نے سسی کی داستان درد پرمبنی آڈھا خان کے ڈوھڑوں پرمشتمل دو کیسیٹ ریلیزکیے تو ملک بھرمیں دھوم مچ گئی – ان کیسیٹس کی خاص بات یہ تھی کہ واقعات کا بیان آڈھا خان کی اپنی آوازمیں ھے ، واقعات سے متعلقہ آڈھا خان کے لکھے ھوئے ڈوھڑے لالا کی آواز میں –

آڈھا خان ڈوھڑوں کے علاوہ اردو اور سرائیکی میں غزلیں اور گیت بھی بہت خوب لکھتے تھے- ان کے کلام میں الفاظ کا انتخاب لاجواب ھوتاتھا- ان کا ایک ھی مجموعہءکلام منظر پر آسکا – بہت خوبصورت شاعری ھے اس کتاب میں –

ملک آڈھا خان سراپا محبت انسان تھے- بہت نفیس مزاج ، شائستہ ، درویش منش انسان تھے- بہت سی حسین یادیں چھوڑ گئے – ان سے آخری ملاقات قائدآباد میں ھمارے محترم دوست پروفیسر عطاءاللہ کھوکھرکے ھاں ھوئی – بہت اصرار کرتے رھے کہ “اج ٹک پو، سویرے لگا ونجیں جانی “ – مگرمیانوالی میں کچھ اھم مصروفیات کی وجہ سے میرا فورا واپس آنا ضروری تھا ، اس لیے بادل ناخواستہ اجازت لے کرواپس آگیا – کیا خبر تھی کہ —–
اب کے ھم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اللہ جواررحمت میں جگہ دے ، ھمارے بہت پیارے دوست اور قیمتی انسان تھے-
– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 19 اگست 2018

میرا میانوالی ————–

فیس بک پر مختلف لوگوں کی پوسٹس دیکھتے ھوئے نظرایک پکچر پہ آکر رک گئی – اور
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
پکچر تھی میرے بہت پیارے بھائی ، معروف ماھر تعلیم فیض اللہ خان شیرمان خیل کی – ان کے صاحبزادے ڈاکٹراحمد حسن خان نے اپنی فیس بک پہ پوسٹ کر رکھی تھی – 
فیض اللہ خان نیازی اس زمانے میں پائی خیل سکول میں ھیڈماسٹر تھے ، جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا- اس پیشہ ورانہ حوالے سے ایک دو ملاقاتوں کے بعد ھمارا تعلق عمر بھر کی دوستی بن گیا ، کیونکہ مزاج ھم دونوں کا ایک تھا – ھم دونوں تکلفات سے ماورا تھے – ایک دوسرے کو “آپ“ یا “تم“ کی بجائے “تو“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے- مل کر زوردار قہقہے لگایا کرتے تھے- فیض اللہ خان بڑے معصوم انداز میں بہت دلچسپ باتیں سنایا کرتے تھے – بہت دبنگ انسان تھے ، یاروں کے یار – مگر دوستی دیکھ بھال کر کرتے تھے-
بہت سی خوبصورت یادیں ذھن میں ھیں ، مگر یہ دکھ لکھنے نہیں دیتا کہ اب ان سے کبھی ملاقات نہیں ھو سکے گی – اللہ میرے محترم بھائی کو اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے – بہت پیارے انسان تھے-
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک- 20 اگست 2018

میرا میانوالی————————-

دلزیب نیازی نے ایک پکچر بھیجی ھے ، اور پوچھا ھے کہ یہ کب اور کہاں بنی – پکچر میں میرے بائیں طرف لالا اور دائیں طرف لالا کے ایک مقامی دوست طارق خان بیٹھے ھیں –

یہ پکچر 20 دسمبر 2006 کو عیسی خیل میں لالا عیسی خیلوی کے گھر میں بنی – اس شام لالا نے میرے بیٹے محمداکرم علی ملک کی شادی کی خوشی میں ھمیں اپنے ھاں کھانے کی دعوت دی تھی- شادی نومبر کے آخری ھفتے میں ھوئی تو اس وقت لالا بیرون ملک گئے ھوئے تھے – واپس آئے تو مبارک دینے کے لیے ھمارے ھاں آئے اور کہا “بیٹے کی شادی اور ولیمہ تو ھو چکا ، سنیچر کی شام ایک چھوٹا سا ولیمہ میری طرف سے بھی قبول فرمائیں “میرے ساتھ اکرم بیٹے کے علاوہ مواز والا کے ادریس خان نیازی اور ان کے ایک دوست بھی تھے- ھم شام کے قریب عیسی خیل پہنچے – کھانے کا زبردست اھتمام کیا تھا لا لا نے – کھانے کے بعد مقامی دوست چلے گئے تو لالا ھارمونیم اور ایک بہت نفیس قسم کا شیشیے کا بنا ھؤا حقہ اٹھا لائے – بہت مزیدارذائقہ تھا اس حقے کے تمباکو کا – ھارمونیم پر جو کارروائی ھوئی وہ اپنی جگہ ، مجھے تو اس حقے کا لطف نہیں بھولتا – یہ قصہ “درد کا سفیر“ کے تیسرے اٰیڈیشن میں بھی شامل ھے

کچھ عرصہ بعد پھر میں وھاں گیا تو لالا سے پوچھا “حقہ کدھر ھے ؟“
لالا نے بتایا کہ وہ توٹوٹ گیا – میں نے کہا یہ تو زیادتی ھے – اگلی دفعہ میں آؤں تو حقہ ادھر سامنے میز پر ھونا چاھیے – لالا نے وعدہ تو کر لیا ، اب کبھی وھاں جانا ھؤا تو پتہ چلے گا کہ وعدہ سچا تھا یا جھوٹا –
— رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 21 اگست 2018

میرا میانوالی-عیدالاضحی مبارک ———————–


ان ھمسایوں کا خاص خیال رکھیں جو قربانی نہیں کرسکے

بشکریہ-منورعلی ملک- 21 اگست 2018

آپ نے بھی عید اس طرح منائی ھے ؟ ———— عید مبارک

میرا میانوالی-عزیز ساتھیو ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکا تہ‘—————————–

فیس بک میسینجر اور موبائیل فون سے بے شمار دوستوں نے عید مبارک کے پیغامات بھیجے ھیں – فردا فردا جواب دینا ممکن نہیں – ان سب دوستوں کو تہ دل سے عید مبارک کی دعا-
میرے 5000 فیس بک فرینڈز اور 6292 فالورز میں سے بقیہ لوگوں کو بھی عید مبارک –
اللہ ھم سب کے گھروں اور ھماری اس محفل کو آباد رکھے ، اور ھم یونہی آپس میں خوشیاں شیئر کرتے رھیں♥️ ——– —بشکریہ-منورعلی ملک- 22  اگست 2018

میرا میانوالی-شعر میرا ، آرائش عدنان احمد ملک – لاھور

بشکریہ-منورعلی ملک- 27 اگست 2018

میرا میانوالی-اپنا شعر —————————-
رھا نہ دوست کوئی ، ایک مہرباں توھے
رھی نہ سر پہ جو دستار ، آسماں تو ھے

بشکریہ-منورعلی ملک- 28 اگست 2018

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top