میرا میانوالی

منورعلی ملک کے فروری 2019 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی—————-

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ھمیں جیل کا ھر شعبہ دکھایا – سزائے موت کے قیدیوں کی کوٹھڑیاں اور پھانسی گھاٹ بھی دیکھا – بہت ھولناک جگہ ھے – خدا جانے اب تک کتنے لوگوں نے لکڑی کے اس خونخوار تختے پر پاؤں رکھا تو پھر ان کے پاؤں زمین پر کبھی نہ لگ سکے – کچھ بےگناہ لوگ ایسے بھی ھوں گے جن کے لیے یہ تختہ جنت کی دہلیز ثابت ھؤا مثلا غازی علم الدین شہید ، شاید کچھ اور لوگ بھی ھوں – اندھا قانون تو انہیں مجرم قرار دے کر سزا دے دیتا ھے ، مگر رب کریم کی عدالت سے انہیں انعام ملتا ھے-محمود صاحب ( ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ) نے ھمیں پھانسی کے طریقہء کار کی تمام تفصیلات بھی بتائیں -خاصی ھولناک معلومات تھیں –

ھم نے یہ دیکھا کہ جدھر بھی ھم جاتے ، کھڑے ھوئے یا چلتے پھرتے قیدی ھمیں دیکھتے ھی فورا بیٹھ جاتے – محمود صآحب نے بتایا جیل کا قانون یہ ھے کہ جب جیل کا کوئی افسر دورے پہ آئے تو قیدی جہاں ھو وھیں بیٹھ جائے – افسر کے سامنے کھڑا ھونا جرم ھے –

ھم لڑکوں کے احاطے میں پہنچے تو تیس چالیس لڑکوں کو ایک سائبان کے سائے میں بیٹھے دیکھا – ان میں ھمارا ایک فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ بھی تھا – وہ سگریٹ پی رھا تھا – ھمیں دیکھتے ھی اس نے سگریٹ زمین پہ گرادیا ، اور اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ھوگیا – میں نے قریب جا کر کہا “بیٹا ، پاؤں جل جائے گا “ – وہ شرما کر بولا “ سر، خیرھے ، کوئی بات نہیں “-
بچے کی سعادت مندی دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں — محمود صاحب سے بات ھوئی تو انہوں نے کہا ھم بچوں سے بہت شفقت کا سلوک کرتے ھیں – یہ سب بچے ایک آدھ ھفتے تک رھا ھوجائیں گے –
— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 1فروری 2019

میرا میانوالی—————-

کچھ عرصہ قبل سید نسیم بخاری ، محمد مظہر نیازی کے ھمراہ میرے ھاں آئے – مظہر نیازی نے بتایا کہ سید نسیم بخاری اپنی سرائیکی شاعری کا اولیں مجموعہ شائع کروانا چاھتے ھیں – اس کے بارے میں کچھ لکھنا ھے –
میں نے سمجھا نوجوان شاعر ھے ، رسمی گھسی پٹی زلف ورخسار ، اور ھجرووصال کی باتیں لکھ دی ھوں گی ، رسمی سا تعارف لکھ دوں گا – سیدنسیم بخاری اپنی کچھ غزلیں نمونہء کلام کے طور پر میرے سپرد کر کے چلے گئے –
فارغ وقت میں میں نے وہ غزلیں دیکھیں تو احساس ھؤا کہ نوجوان سہی ۔ یہ شاعر زلف و رخسار اور ھجر وفراق کا شاعر نہیں – فیض صاحب کی طرح نسیم بخاری بھی اس نظریئے کاقائل ھے کہ
اور بھی غم ھیں زمانے میں محبت کے سوا
اور یہ غم ، غم جاناں سے زیادہ اھم بھی ھیں ، پائدار بھی – رشتوں کا ٹوٹنا ، ، اقدار کی موت ۔ غریبی کی تلخیاں شاہ جی کی شاعری کے اھم موضوعات ھیں – بعض اشعار سے پتہ چلتا ھے کہ شاعر اس سے بھی آگے حیات وکائنات کے رموز کو سمجھ کر کچھ نئے انکشافات کرنا چاھتا ھے –
وقت کی عدم دستیابی کے باعث میں نے مختصر سا تعارف لکھ دیا – مگر تشنگی رہ گئی – اس کا مداوا انشاءاللہ جلد ھی ایک مفصل مضمون کی صورت میں کردوں گا ، کیونکہ نسیم بخاری تفصیلی مطالعے کے مستحق ھیں –
“کھماٹ“ کے عنوان سے سید نسیم بخاری کا اولیں شعری مجموعہ حال ھیں منظرعام پر آیا ھے – یہ کتاب سخن سرائے ملتان نے شائع کی ھے – کتاب کی آرائش بھی بہت خوبصورت ھے – شاہ جی قلم کو اپنے اسلاف کی امانت قرار دیتے ھوئے کہتے ھیں -میکوں قلم نسیم امانت ڈھئے
میڈے ظرف کوں انج ازمایا گئے

اسی وجہ سے وہ کہتے ھیں —————

اساں پڑتے سچ الویندے ھیں
تہوں لوک آھدن جذباتی ھیں

اھل ذوق ونظر کے لیے یہ کتاب بلا شبہ ایک گراں قدر تحفہ ھے –
بشکریہ-منورعلی ملک– 2 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

ھر شہر کی طرح لاھور کا بھی ایک اپنا مزاج ھے – میانوالی کی طرح یہاں کے لوگ بھی کھلے ڈلے ، مہمان نواز اور یاروں کےیارھیں – جسے ایک بار دوست کہہ دیں ، عمر بھار نبھاتے ھیں –

یہاں کے لوگوں کی ایک اور خوبی یہ ھے کہ کسی اجنبی کو اجنبیت کا احساس نہیں ھونے دیتے – یہ نہیں کہ نووارد آدمی کو باربارسرسے پاؤں تک دیکھ کر اس کی شکل و صورت ، لباس یا بول چال کا مذاق اڑائیں – بھلے آپ دھوتی باندھ کر پھرتے رھیں ۔ کوئی آپ سے یہ نہیں کہے گا “ لالا ۔ خیر تاں ھے ؟؟؟ مطلب یہ کہ لاھور کے لوگ دوسروں کے ذاتی معاملات کو نہیں چھیڑتے – اگر کسی کو کوئی مشکل درپیش ھو تو یہ نہیں دیکھتے کہ یہ شخص کہاں کا رھنے والا ھے – بلکہ غیر مشروط بھر پور تعاون کرتے ھیں –

آپ کسی سے کہیں جانے کا راستہ پوچھیں تو پہت مہذب انداز میں آپ کی مفصل رھنمائی کی جاتی ھے – یہ کبھی نہیں کہتے کہ “ سانوں کیہ پتہ ِ “ ؟

لاھوریوں کو لاھور سے بے پناہ محبت ھے – یہاں کی تاریخی عمارات ، بلکہ ھر اچھی چیز کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ھیں – یہ مشہور لطیفہ تو آپ نے بارھا سنا ھوگا کہ لاھور کا ایک آدمی خانہ ءکعبہ میں بیٹھا باربار یہ دعا کررھا تھا “ ربا ، مینوں لے چل واپس ، داتا دی نگری “-
لاھور کے لوگ بہت زندہ دل اور خوش ذوق ھیں – کھانوں کی ورائیٹی اور کوالٹی کے لحاظ سے ملک بھر میں لاھور پہلے نمبر پر ھے –

اللہ آباد رکھے، لاھور ھو یا میانوالی ، یا کے پی ، سندھ ، بلوچستان کا کوئی دورافتادہ گاؤں ، سب ھمارے اپنے ھیں ، اور کسی نہ کسی خوبی کی وجہ سے سب ھمارے لیے باعث فخر ھیں –

کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ لاھور جنت ھے – خرابیاں یہاں بھی بہت ھیں – لیکن میری عادت ھے کہ میری نظر صرف خوبیوں پر رھتی ھے- میانوالی ھو یا لاھور ، میں ھمیشہ مثبت پہلو ھی بیان کرتا ھوًں-
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 4 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

پچھلے ھفتے سید عاصم بخاری اور راحت امیر نیازی میرے ھاں تشریف لائے – میں گھر پہ موجود نہ تھا – آمد کا مقصد “راحت امیر نیازی ، شخصیت و فن “ کے عنوان سے عاصم بخاری کی حال ھی میں شائع ھوئی کتاب مجھے عنایت کرنا تھا – کتاب میرے بیٹے ارشد نے وصول کی –

راحت امیر نیازی کا میں دیرینہ مداح ھوں – بہت باھمت انسان ھیں – گذشتہ بیس پچیس سال میں میانوالی کے بے شمار اھل قلم کی کتابیں شائع کرکے انہیں دنیائے علم و ادب میں متعارف کرا چکے ھیں – یہ بہت بڑا کارخیر ھے – نئے غیر معروف لکھنے والوں کے لیے سب سے اھم مسئلہ کتاب چھپوانا ھے – یہ دریا عبور نہ کر سکنے کے باعث کئی اچھے اھل قلم کتاب چھپوانے کی حسرت دل میں لیے ، دنیا سے رخصت ھو جاتے ھیں – راحٹ امیر نیازی نے ایسے لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر نئے لوگوں کی کتابیں چھاپنے کا کام شروع کیا – نفع ھو یا نقصان ، راحت نے یہ کام کارخیر سمجھ کر شروع کیا – اور تمام تر مشکلات کے باوجود تاحال یہ کار خیر سرانجام دے رھے ھیں –
بہت بڑی بات ھے – دوسروں کو شہرت و مقبولیت کا حق دلوانے کے لیے اتنی تگ و دو کون کرتا ھے — سب لوگوں کو اپنا قد اونچا کرنے کی فکر رھتی ھے ، بھلے اس کے لیے کسی دوسرے کے کندھوں پر سوار ھی کیوں نہ ھونا پڑے –
دوسروں کو شہرت اور مقبولیت دلوانے والا درویش صفت راحت امیر نیازی مگر اپنی ذاتی نمودونمائش سے ھمیشہ گریزاں ھی رھا – بھلا ھو عاصم بخاری کا کہ راحٹ کی تخلیقی اور تنظیمی صلاحیتوں کا اعتراف نامور اھل قلم سے لکھوا کر “راحت امیر نیازی، شخصیت و فن “ کے عنوان سے ایک خوبصورت کتاب مرتب کردی – راحت کی داستان حیات عزم و ھمت کی داستان ھے – اھل علم و قلم احباب سے اس کتاب کے مطالعے کی پرزور سفارش کرنا اپنا فرض سمجھتا ھوں
رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک– 5 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

گورنمنٹ کالج میانوالی کو یہ اعزاز نصیب ھؤا کہ ملک گیر شہرت کی حامل شخصیات ٹیچر یا پرنسپل کی حیثیت میں اس کالج سے وابستہ رھیں – ان میں سرفہرست نام پروفیسر خان عبدالعلی خان کا ھے – پروفیسر عبدالعلی خان خیبر پختونخوا کے سب سے معروف سیاسی گھرانے کے چشم وچراغ تھے – وہ مشہورزمانہ سیاسی لیڈر خان عبدالغفار خان کے تین صاحبزادوں میں سب سے چھوٹے تھے – ان کے سب سے بڑے بھائی عبدالغنی خان پشتو کے معروف شاعر اور دانشور تھے – عبدالغنی خان سے چھؤٹے بھائی خان عبدالولی خان ( اے این پی کے موجودہ سربراہ اسفندیارولی خان کے والد ) اپنے والد عبدالغفار خان کے سیاسی جانشین تھے-

پروفیسر عبدالعلی خان سیاست سے ھمیشہ کنارہ کش رھے – وہ عمر بھر علم کی دنیا سے وابستہ رھے – آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد وطن واپس آئے اور اسلامیہ کالج پشاور میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا – گورنمنٹ کالج میانوالی اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں پرنسپل بھی رھے – پھر آٹھ سال تک لاھور کے ایچی سن کالج میں پرنسپل رھے – وھاں سے رٰیٹائرمنٹ کے بعد پشاور یونیورسٹی سے وابستہ ھو گئے – پشاور یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر رھے – صوبہ سرحد (کے پی ) اور مرکز میں سیکریٹری ایجوکیشن کی حیثیت میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں.خان صاحب زبردست ایڈمنسٹریٹر تھے – ان کے دور میں گورنمنٹ کالج میانوالی کا ڈسپلن بھی مثالی رھا تعلیمی معیاربھی
جب میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں پرنسپل تھا تو ایک دن ملیشیا کے شلوار سوٹ میں ملبوس ساڑھے چھ فٹ قد کے ایک بہت باوقار بزرگ ھاتھ میں بریف کیس تھامے ھمارے کالج میں تشریف لائے – اپنا تعارف کراتے ھوئے فرمایا “ میرا نام عبدالعلی خان ھے – میں وفاقی سیکریٹری ایجوکیشن ھوں – لکی مروت جارھا ھوں – سڑک کے کنارے آپ کے کالج کا بورڈ دیکھ کر ادھر آگیا کہ آپ لوگوں کو سلام کر لوں ، کیونکہ کسی زمانے میں میں بھی کالج سٹوڈنٹ ھؤا کرتا تھا “ –

ایسے ھوتے ھیں صحیح معنوں میں بڑے لوگ — !!!!!
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–6 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

پروفیسر سید محمدعالم عہد ساز شخصیت تھے – گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگلش کے پہلے لیکچرر کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا ، پرنسپل کی حیثیت میں رخصت ھوئے – تقریبا چالیس سال بعد آج بھی ان کی قائم کی ھوئی اچھی روایات اس کالج کی پہچان ھیں –


پروفیسر سید محمدعالم مشہورزمانہ علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے- قیام پاکستان کے وقت ھجرت کر کے میانوالی میں آباد ھوئے – بول چال ، لباس۔ معاشرت ، ھر لحاظ سے شائستگی کا بے مثال نمونہ تھے – مجھے تو ان کا سٹوڈنٹ ھونے کا اعزاز نصیب نہ ھو سکا ، لیکن ان کی بے شمار خوبیوں کی شہرت نے مجھے بھی ان کا غائبانہ مداح بنا دیا – ھائے محرومی کہ جب میں لیکچرر کی حیثیت میں اس کالج میں آیا تو پروفیسر صاحب اس دنیا میں بھی موجود نہ تھے –
یوں تو سارا شہر ان کے احسانات کا معترف تھا ، تاھم مجھے ان کے بارے میں زیادہ تر معلومات ان کے قریب ترین ساتھیوں ، پروفیسر سید انتصار مہدی رضوی ، پروفیسرملک سلطان محمود اعوان اور حاجی محمداسلم خان نیازی لائبریرین سے حاصل ھوئیں –
پروفیسر سید محمدعالم اتنے فیاض تھے کہ اگر کوئی دوست کہتا “ سر ، کیا عمدہ سوٹ پہنا ھے آج آپ نے “تو دوسرے دن عالم صاحب وہ سوٹ لاکر ان صاحب کو دے دیتے ، کہتے بھائی آپ کو پسند آیا ، آپ لے لیں -“
پروفیسر عالم صاحب ھاکی کے بہترین کھلاڑی بھی تھے – ڈسٹرکٹ ھاکی ایسوسی ایشن کے اھم عہدیدار رھے – مچھلی کے شکار کے بھی بہت شوقین تھے – لیکن ان سب خوبیوں سے بڑھ کر ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ انگریزی ادب کے بے مثال ٹیچر تھے- جادو تھا ان کے انداز تدریس میں – اس حوالے سے بہت پائدار اثرات چھوڑ گئے –
پروفیسرمحمد عالم کی وفات کے بعد گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایک تعزیتی مشاعرہ منعقد ھؤا – میں نے بھی اس مشاعرے میں چند قطعات کی صورت میں پروفیسرعالم صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا – اس وقت صرف یہ قطعہ یاد آ رھا ھے –

اک مسافر تھا میرے شہر میں تو
بن گیا آبروئے شہر مگر
تلخیوں سے سدا گریز کیا
پی لیا زندگی کا زھر مگر

ان کی بہت سی یادیں بہت سی باتیں ایک دوسال پہلے کچھ پوسٹس میں لکھ چکا ھوں – ایسی تاریخ ساز شخصیات کا تذکرہ بہت سے لوگوں کے لیے مشعل راہ ثابت ھو سکتا ھے – اس لیے ان کا ذکر بار بار ھوتا رھے گا –
—- رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 7 فروری 2019

مسجد بلال ، داؤدخیل ———————- 2008


بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کے ساتھ

بشکریہ-منورعلی ملک– 7 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

جب سے قلم پکڑنا سیکھا یہ عہد کیا کہ سچ اور صرف سچ ھی لکھوں گا – اس لیے کبھی اپنے ذاتی تجربات، مشاھدات اور معلومات کی حدود سے باھر قدم نہیں رکھتا – کوشش یہی رھتی ھے کہ میری تحریروں سے آپ کے علم میں بھی کچھ اضافہ ھو، اور کچھ دیر کے لیے آپ اپنے سب دکھ درد ایک طرف رکھ کر کچھ وقت ایک ایسی دنیا میں گذارلیں جہاں آپ کو سکون اور اطمینان نصیب ھو –

بہت سے لوگوں کو میرا انداز تحریر پسند ھے – خدا جانے کیوں ؟؟؟ مجھے تو کوئی ایسی بات اپنے اندازتحریر میں نظر نہیں آتی – کسی تیاری کے بغیر لکھتا ھوں – الفاظ کے انتخاب میں بھی محنت مشقت مجھ سے نہیں ھوتی – لفظ خود بخود آکر اپنی اپنی جگہ بیٹھتے جاتے ھیں – کبھی ایک لفظ کو ھٹا کر اس کی جگہ دوسرے کو نہیں بٹھایا – پھر بھی اگر میری تحریریں آپ کو اچھی لگتی ھیں, تو یہ صرف اللہ کا خاص کرم ھے ، میرا اس میں کوئی کمال نہیں موضوع چونکہ پہلے سے متعین نہیں ھوتا ، اس لیے جو جی میں آئے لکھ دیتا ھوں – دوتین ماہ اپنی داستان حیات لکھتا رھا ، پھر کچھ اور موضوعات مل گئے – داستان حیات درمیان میں چھوڑ کر ان موضوعات پر لکھ دیا – انشآءاللہ کل سے پھر داستان کو آگے بڑھاؤں گا –

 رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک– 8 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

آپ کو یاد ھوگا کہ 21 اکتوبر2018 سے میں نے آپ کو اپنی داستان حیات سنانے کا آغاز اپنے بچپن کے واقعات سے کیا تھا – میں نے کہا تھا کہ تیسری کلاس تک تو میں سخت نکما بچہ تھا ، گھر سے بستہ (سکول بیگ) لے کر نکلتا تو سکول کی بجائے محلے کے کمہار چاچا شادی بیگ کے پاس جا بیٹھتا اور انہیں مٹی کے برتن بناتے ھوئے دیکھ دیکھ کر حیران ھوتا رھتا – کبھی ریلوے سٹیشن جاکر ریلوے انجنوں کو بڑے تجسس سے دیکھتا رھتا –
چوتھی کلاس میں ماسٹر عبدالحکیم صاحب نے مار پیٹ کر مجھے اتنا اچھا سٹوڈنٹ بنا دیا کہ کلاس میں پہلے دوسرے نمبر پر آگیا – پانچویں کلاس میں ماسٹر شاہ ولی خان صاحب نے ادب کے مطالعے کی طرف راغب کیا – بچوں کے رسالے تعلیم و تربیت ، پھول ، ھدایت وغیرہ پڑھنے لگا – چھٹی کلاس میں ماسٹر گل خان نیازی صاحب ، آٹھویں میں سر ممتازحسین کاظمی صاحب اور دسویں میں راجہ الہی بخش صاحب ھیڈماسٹر نے مجھے انگریزی کا دیوانہ بنا دیا – یہی جنون بعد میں میرا ذریعہ ء معاش بھی بن گیا ، عزت کا سبب بھی میٹرک کےبعد میرے گھرکے لوگ مجھے ڈاکٹر بنانا چاھتےتھے ، مگر میں نے بغاوت کر دی اور سائنس کی بجائے آرٹس کے مضامین لے لیے – یہ کبھی نہ سوچا کہ بی اے کرنے کے بعد بنوں گا کیا – ٹیچر بننے کا تو کبھی تصور بھی ذھن میں نہ آیا – مگر قدرت نے مجھے ٹیچر ھی بنانا تھا — حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ مجھے ٹیچر ھی بننا پڑا –
کچھ عرصہ گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل میں انگلش ٹیچر رھا ، پھر بی ایڈ کے لیے سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں داخلہ لے لیا – وھاں سے فارغ ھو کر آیا تو کچھ عرصہ مکڑوال سکول میں کام کیا ، پھر ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر متعین ھؤا – ایم اے انگلش کرنے کے بعد لیکچرر کی حیثیت میں تقرر گورنمنٹ کالج عیسی خٰیل میں ھؤا – پانچ سال بعد گورنمنٹ کالج میانوالی آگیا –

تقریبا 60 پوسٹس میں یہ داستان گورنمنٹ کالج میانوالی پہچ چکی تھی – اس کالج میں اپنے شب و روز اور کچھ ساتھیوں کا ذکر ھؤا – یہ قصہ ان شآءاللہ جاری رھے گا —

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 9 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

گورنمنٹ کالج میانوالی میں میری آمد کے چند دن بعد پروفیسر سرور نیازی صاحب کا لکھا ھؤا ڈراما “بودلا“ سٹیج کرنےکی تیاریاں شروع ھوئیں – اس سے ایک سال پہلے سرورنیازی صاحب ھی کے لکھے ھوئے ڈرامے “غڑوبا“ نے خوب دھوم مچائی تھی – اس ڈرامے کی ھدایات پروفیسرمنصورالرحمن نے دی تھیں – مرکزی کردار کمر مشانی سے ھمارے سٹوڈنٹ محمد عظیم خان نے بہت خوب نبھایا تھا – “بودلا“ کے ھیرو بھی عظیم خان ھی تھے —– آہ ، اب وہ اس دنیا میں موجودنہیں – ڈرامے کے ڈائریکٹرپروفیسرمنصورالرحمن بھی اس دنیا سے رخصت ھوگئے –
—– رشیداحمدخان نیازی ( اب سینیئرایڈووکیٹ ھیں ) نے بودلا کی خالہ زاد (زیتونی مسیر) کا کردار بہت مؤثراندازمیں ادا کیا->میانوالی کی خآلص مقامی زبان میں لکھا ھؤا تین گھنٹے کا یہ نہایت دلچسپ ڈراما کالج کے ھاسٹل میں سٹیج ھؤا – ڈراما بظاھر مزاحیہ تھا ، مگر اس میں ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر بہت خوبصورت طنزیہ جملے بھی شامل تھے –

اپنے ٹیوٹوریل گروپ کے اصرار پر ایک مختصرسا (ایک گھنٹے کا) ڈراما مجھے بھی لکھنا پڑا-ًمیرے ڈرامے کا عنوان تھا “ گھرآیامہمان “ – یہ خالص مزاحیہ ڈراما اردو میں تھا – اس ڈرامے کے مرکزی کردار دوبوڑھے میاں بیوی (گلایا اور گلائی ) تھے- گلایا کا کردار مٹھہ خٹک کے مانی خان نے ادا کیاتھا اور گلائی کا کردار آپ سب کے جانے پہچانے محبوب گلوکار عطا محمد نیازی داؤدخیلوی نے بہت خوبصورتی سے نبھایا – عطا محمد نیازی اس وقت ھمارے کالج میں بی ایس سی کے سٹوڈنٹ تھے– کمال کے اداکار تھے سب کے سب بچے-

دونوں ڈرامے ایک ھی دن سٹیج کیے گئے – لوگوں نے خوب داد دی – کچھ دن کالج میں ان ڈراموں کی وجہ سے بہت رونق بنی رھی –

جانے کہاں گئے وہ دن —
—-رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 10 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے تقرر سے پہلے یہاں کے جو پروفیسر صاحبان مجھے جانتے تھے ، ان میں میرے سب سے پہلے جاننے والے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر اقبال حسین کاظمی صاحب تھے- وہ میرے بڑے بھائی ملک محمدانورعلی کے کلاس فیلوھونے کے علاوہ کچھ عرصہ داؤدخیل سکول میں ٹیچر بھی رہ چکے تھے – میں اس وقت پانچویں چھٹی کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – بڑے بھائی سے ان کی دوستی کی وجہ سے میں انہیں اپنا بڑا بھائی سمجھتا تھا – وہ میرے خاندان کے علمی پس منظر کے علاوہ مجھے شاعر کی حیثیت میں بھی جانتے تھے – اس لیے جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں ان کا رفیق کار(کولیگ) بن کر آیا تو انہوں نے کچھ اھم علمی ادبی ذمہ داریاں میرے سپرد کر دیں – مجھے کالج کی بزم اقبال کا نگران اور کالج میگزین “سہیل“ کے حصہ اردو کا ایڈیٹرمقرر کر دیا – میں نے کہا بھی کہ سر میں اردو کا نہیں ، انگلش کا پروفیسرھوں ، ھنس کر کہنے لگے “ زہادہ چالاک بننے کی کوشش مت کرو- میں جانتا ھوں، اردو میں بھی تم کسی پروفیسر سے کم نہیں حکم کی تعمیل ضروری تھی ، سو یہ سب ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں – یہی نہیں ، کالج کی تقریبات کی میزبانی (سٹیج سیکریٹری) کے فرائض بھی پروفیسرکاظمی صاحب نے میرے ذمے کر دیئے – بہت عرصہ تک میں یہ ذمہ داریاں نبھاتا رھا – جب پروفیسرمحمد فیروز شاہ صاحب کا تقرر ھمارے کالج میں ھؤا تو میں نے یہ تمام ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں ، کہ وہ ان ذمہ داریوں کے مجھ سے زیادہ اھل تھے –

گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ——————————– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 11 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

12 فروری 1940 کو داؤدخیل کے ایک معروف اعوان گھرانے میں ملک محمداکبر علی کے ھاں تیسرا بچہ پیدا ھؤا تو بچے کے ماموں ملک منظورحسین منظور نے بچے کا نام منور حسین تجویز کیا ، کیونکہ منورعلی نام کا ایک بچہ فوت ھوگیا تھا – دوبارہ کسی بچے کا وھی نام رکھنا برا شگون سمجھا جاتا تھا – مگر دادا جی نے کہا علی کے نام کو برا شگون سمجھنا نام علی کی بے ادبی ھوگا – اس لیے بچے کا نام منورعلی ھی ھوگا >پانچ بہن بھائیوں میں میرا تیسرا نمبر تھا – ایک بھائی اور بہن مجھ سے بڑے تھے – دو بھائی مجھ سے چھوٹے – سب چلے گئے – میں رہ گیا ، پتہ نہیں کیوں اور کب تک یہاں رھنا ھے – یقینا اللہ کی کوئی حکمت ھوگی بہر حال رب کریم کا شکر ھے کہ مجھے اپنے گناھوں سے توبہ اور مخلوق خدا کی خدمت کے ذریعے اپنی آخرت سنوارنے کی مہلت میسر ھے – صرف ایک خواھش ھے کہ کوئی ایک ایسا کام کر جاؤں جس سے خلق خدا مستفید ھو کر مجھے دعائیں دیتی رھے –
سوال بہت بڑا ھے مگر دینے والا بھی علی کل شیئ قدیر ھے – نہ بھی دے تو اس کی مرضی –
کجھ ڈے ناں ڈے ، تیڈی مرضی
منگتاں دا کیا زور وے سائیں
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 12 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

آج کی پوسٹ ان ساتھیوں کے نام جو بیرون ملک مقیم ھیں اور میری ھر پوسٹ کو گھر سے آیا ھؤا خط سمجھ کر بڑے شوق سے پڑھتے ، اورمجھے دعائیں دیتے ھیں –

میرے یہ بیٹے اور بیٹیاں دنیا کے ھر خطے میں موجود ھیں – ان میں سے کچھ میرے سٹوڈنٹ رہ چکے ھیں ، بہت سے لوگ لالا عیسی خیلوی کی آواز میں میرے گیتوں کے حوالے سے مجھے جانتے ھیں – کئی لوگ فیس بک کی وساطت سے مجھ سے متعارف ھوئے – 
یہ بات سو فی صد درست ھے کہ وطن کی قدر وطن سے باھر جا کر معلوم ھوتی ھے – وطن سے آنے والی ھر آواز، ھر تحریر حسین یادوں کی خوشبو سے معطر لگتی ھے – لوگ ایسی آوازوں اور تحریروں کے منتظر رھتے ھیں رب کریم ھمارے ان سب ساتھیوں کو سلامت رکھے ، ان کی دعائیں قبول فرما کران کی سب مشکلیں آسان فرمائے- فیس بک کی مہربانی کہ اس نے ھمیں رابطے کا یہ آسان وسیلہ فراھم کر دیا – اللہ ھمارے ان محبتوں اور دعاؤں کے رشتوں کو سلامت رکھے – میری پوسٹس کے سلسلے میں آپ کی کوئی فرمائش یا تجویز ھو تو سر انکھوں پر- اپنے اھل خانہ بالخصوص والدین سے ( اگروہ بفضلہ تعالی اس دنیا میں موجود ھیں ) باقاعدہ رابطہ برقرار رکھیں

جی تو چاھتا ھے آپ سب کو نام لے کر مخاطب کروں ، مگر جو نام رہ گئے ان کی دل شکنی ھوگی – اس لیے یہ پوسٹ اجتماعی طور پر آپ سب کے نام –
رھے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک– 13 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

موبائیل فون اور فیس بک وغیرہ نے رابطے کتنے آسان بنادیئے ھیں – آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ھوں ، ھر لمحہ اپنے گھروالوں اور دوستوں سے بات یا پیغامات کے ذریعے اپنے گھر ، اپنے شہر کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ھیں ، مسائل کا حل پوچھ اور بتا سکتے ھیں – اس مسلسل رابطے کا ایک منفی پہلو بھی ھے ، کہ آپ یا آپ کے اھل خانہ میں سے کوئی بیمار یا کسی وجہ سے پریشان ھو تو پریشانی کی آگ دونوں طرف بھڑک اٹھتی ھے –

تیس چالیس سال پہلے رابطے کا واحد ذریعہ خط ھؤا کرتے تھے – لوگ روزانہ ڈاکیئے (postman) کی راہ دیکھا کرتے تھے- ڈاکیے کوگلی میں آتا دیکھ کر دروازوں پر اپنے پیاروں کے خطوط کے منتظر بوڑھے ماں باپ ، اور بھائی بہنوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ھو جاتی تھیں – ڈاکیہ اگر مسکرا دیتا تو دلوں کی کلیاں کھل اٹھتی تھیں – اگرکوئی خط نہ ھوتا تو ڈاکیہ ھاتھ کے اشارے سے بتا دیتا ملازم لوگ اپنے گھر والوں کو ھر ماہ خرچ کی رقم بھی ڈاک سے (منی آرڈرکی صورت میں) بھیجا کرتےتھے – دیہات کے اکثر لوگ ان پڑھ ھوتے تھے – منی آرڈر فارم پر دستخط کی بجائے انگوٹھا لگا کر رقم وصول کیا کرتے تھے-
خط لکھوانے کے لیے مقامی سکول ماسٹر یا کسی دوچار جماعت پڑھے لکھے رشتہ دار کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا تھا – خط میں گھر کے مفصل حالات ، موسم اور فصلوں کی معلومات کے علاوہ تما م رشتہ داروں، چاچوں ، مامؤوں ۔ ماسیوں ، پھپھیوں کے نام لکھوا کر ان کی طرف سے سلام لکھوائے جاتے تھے – جس کا نام رہ جاتا وہ ناراض – منتیں کرکے معافی ملتی تھی-

خط کے ذریعے رابطہ مہینے میں ایک آدھ بار ھی ھو سکتا تھا – یہ بھی بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 14 فروری 2019

بشیردارالماھی —- قذافی سٹیڈیم ، لاھور


12 فروری 2019 ——- رات 10 بجے

میرا میانوالی—————-

فروری نے میری زندگی میں چار بار بہت اھم کردار ادا کیا ھے – ایک بار مثبت کہ میں اسی مہینے کی12 تاریخ کو اس دنیا میں وارد ھؤا – تین بار فروری نے مجھ سے ایسے سہارے چھین لیے جن کا متبادل اس دنیا میں نہ کوئی ھے نہ ھوگا –

آج میرے بہت ھی پیارے بھائی ممتاز حسین ملک کی 9 ویں برسی ھے – ان کے بارے میں کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ھوں – جتنا بھی لکھوں کم ھے – زخم سے جب بھی درد کی ٹیس اٹھے آہ تو نکلے گی ، آنسوتو بہیں گے – انسان یہ نہیں سوچ سکتا کہ بابار ایک ھی رونا رونے پر لوگ کیا کہیں گے – لوگ جو مرضی کہتے رھیں , دکھ کا احساس صرف اظہار ھی سے کچھ کم ھوسکتا ھے -ممتاز بھائی میرے بچپن اور جوانی کے ھمدم و ھمراز تھے — میرے ماموں زاد تھے , مگر مجھ سے ان کی محبت میرے سگے بھائیوں سے کم نہ تھی – بلکہ میں ھمیشہ یہ کہتا ھوں کہ ممتاز بھائی کے سینے میں قدرت نے میری امی کا دل رکھ دیا تھا – ماں کی طرح انہیں ھروقت میری بھلائی کی فکر رھتی تھی – میرے لاڈ اور ناز ھنس کر برداشت کرلیتے – میری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور مجھے شہرت و عزت دلانے میں بھائی نے بہت اھم کردار ادا کیا – سچی بات تو یہ ھے کہ اگر وہ لڑجھگڑ کر مجھے قلم پکڑنے پر مجبور نہ کرتے تو میں نہ کبھی شاعر بنتا ، نہ ادیب – ویسے ھی بے مقصد آوارہ گردی کرتے زندگی گذار دیتا – بہت سی باتیں ، بہت سی یادیں پہلے لکھ چکا ، آگے بھی لکھتا رھوں گا – 15 فروری 2010 کی صبح بھائی اچانک یہ دنیا چھوڑ کر سرحد حیات کے اس پار جا بسے –

ان کی وفات پر لکھی ھوئی اپنی نظم کا یہ شعر باربار یاد آرھا ھے –
لوگ آتے رھیں گے دنیا میں
میرا بھائی مگر نہ آئے گا
——————————————کچہ کے علاقے کا ایک دلکش منظر—————-

Image may contain: horse, sky, outdoor and nature

بشکریہ-منورعلی ملک– 15 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

ایک سال پہلے —————– اپنی 16 فروری 2018 کی پوسٹ

میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ریزلٹ تک دوتین ماہ کا وقفہ بڑا دلچسپ دور ھوتا تھا – آج کل تو لوگ داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے اکیڈ یمیوں کا رخ کرتے ھیں ، ھمارے زمانے میں نہ اکیڈ یمیاں تھیں ، نہ ھی میٹرک سے آگے پڑھنے کی استطاعت – اکثر لوگ میٹرک کا امتحان دے کر تعلیم سے ھمیشہ کے لیے فارغ ھو جاتے – کوئی چھوٹی موٹی ملازمت مل جاتی تو ٹھیک ، ورنہ کاشتکاری کے آبائی کام میں لگ جاتے تھے – میٹرک کے ریزلٹ تک بہر حال سب لوگ فارغ ھی رھتے دوتین ماہ کا یہ فارغ وقت گذارنے کے اپنے اپنے طریقے تھے – میں نے وقت گذارنے کا اپنا طریقہ خود ایجاد کرلیا – دوپہر تک دوستوں کے ساتھ رج کے آوارہ گردی کرنے کے بعد میں روزانہ خوشخطی سیکھنے کی مشق کرنے لگا- سکھانے والا کوئی نہ تھا – گھر میں اخبار نوائے وقت آتا تھا – میں اخبار کی شہ سرخی کو دیکھ کر کاغذ پر باربار اس کی نقل کیا کرتا تھا – اس زمانے میں نوائے وقت کی شہ سرخیاں پاکستان کے سب سے بڑے خطاط سید انور حسین نفیس رقم لکھا کرتے تھے – اخبار ان کی تحریر کی فوٹو بنا کر شائع کر دیتے تھے — ان کے انداز تحریر کی مسلسل دو تین ماہ نقل کر کے اللہ کے فضل سے میں بھی حسب توفیق خوشنویس بن گیا –
—– رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک– 17 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

میں بابا جی (والدصاحب) کے کمرے میں عشآء کی نماز پڑھ رھا تھا – باباجی بہت عرصہ سے بیمارتھے – تین ماہ سے وہ کوما (بیہوشی) کی حالت میں تھے –


نمازکے دوران سورہ الرحمن کی تلاوت کرتے ھوئے اچانک میری زبان لڑکھڑانے لگی – لفظ زبان پہ آکر اٹکنے لگے – صرف زبان ھی نہیں ، دل بھی جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑلیا – گھبرا کرمیں نے نماز توڑدی – نظر فورا بابا جی کی طرف گئی – ٹوٹتی سانسیں اس بات کی علامت تھیں کہ یہ بابا جی کی زندگی کا آخری لمحہ ھے – میں بابا جی کے سرھانے بیٹھ گیا اور ان کا سر اپنی گود میں لے لیا – بابا جی کی آنکھیں کھلی تھیں ، انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بس —- وہ مہربان آنکھیں ھمیشہ کے لیے بند ھو گئیں 19 فروری 1986 کو میں اس شفیق سائے سے محروم ھوگیا ، جس کی کمی آج بھی محسوس ھوتی ھے – پانچ بہن بھائیوں میں مجھے سب سے زیادہ باباجی کے قریب رھنے کا اعزاز نصیب ھؤا – وہ ماں کی طرح میرا خیال رکھتے تھے –
باباجی محکمہ تعلیم کے افسر تھے – بظاھر وہ سوفی صد صاحب بہادر قسم کے انسان تھے – عمر بھر پینٹ کوٹ اور سر پہ ھیٹ پہنتے رھے – مگر اس صاحب بہادر نے زندگی میں نہ کبھی نماز قضا کی ، نہ روزہ — دیانت اور قابلیت کی وجہ سے بابا جی پورے پنجاب میں مشہور تھے –

گورنمنٹ کالج لاھور سے فرسٹ ڈویژن میں بی اے کرنے کے بعد بابا جی نے آرمی میں کمیشن کے لیے درخواست دی – انگریز کا دور تھا – اس زمانے میں آرمی کی اعلی ملازمت کے لیے انگریز کے پروردہ زیلدار کی سفارش لازم تھی – ھمارے علاقے کے سفاک زیلدار نے حسد کی بنا پر سفارش نہ کی —– داداجی کے کہنے پر بابا جی محکمہ تعلیم سے وابستہ ھوگئے –

جب بابا جی گورنمنٹ کالج لاھورمیں پڑھتے تھے ، تواس وقت میانوالی کے تین لیجنڈز اس کالج کے سٹوڈنٹ تھے- میانوالی کے مسیحا ڈاکٹر نورمحمد خان نیازی ، ریڈیواور موسیقی کی دنیا کا بہت بڑا نام سجاد سرورنیازی اور بابا جی کلاس فیلواور بہت گہرے دوست تھے – سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ایس اے رحمان بھی ان کے کلاس فیلو اور دوست تھے –

مجاھد ملت مولانا عبدالستارخان نیازی عیسی خیل میں والد صاحب کے سٹوڈنٹ رھے- کہا کرتے تھے کہ انگریزوں کی طرح انگریزی بولنا میں نے اپنے استادمحترم ملک محمد اکبرعلی سے سیکھا –

گذرگیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 19 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

تلہ گنگ سے ملک طارق محمود اعوان کے ساتھ ایک ملاقات
میری کتاب “درد کا سفیر“ کی ترتیب و اشاعت میں ملک طارق محمود نے
اھم کردار اداکیا-

میرا میانوالی—————-

میانوالی کی جو اچھی روایات اب تک زندہ ھیں ، ان میں ایک بہت اچھی روایت احسان شناسی ھے – آپ میانوالی کے کسی آدمی کا کوئی معمولی سا کام کردیں ، وہ ھمیشہ یاد رکھے گا ، اور کسی نہ کسی طرح آپ کو اس احسان کا صلہ دینے کی کوشش ضرور کرے گا –

چند سال پہلے کی بات ھے ، میں اپنے بیٹے ارشدعلی کے ساتھ سرگودھا سے میانوالی آرھا تھا – ھم بس سٹیڈ کے ایک ھوٹل میں بیٹھے چائے پی رھے تھے تو سامنے پٹرول پمپ ہر نیوخان کمپنی کی ایک بس آکر رکی – کنڈکٹر کوئی چیز لینے کے لیے ھوٹل میں داخل ھؤا تو اس کی نظر ھم پر پڑی – وہ سیدھا ھماری طرف آیا اور سلام کر کے کہنے لگا “ سر، میانوالی جا رھے ھیں آپ ؟ “
میں نے کہا جی ھاں –
اس نے کہا “سر آپ اطمینان سے چائے پی لیں – میں آپ کا سامان بس میں رکھ کر آپ کے لیے سیٹوں کا بندوبست کرتا ھوں “
یہ کہہ کر اس نے ھمارا بیگ اٹھایا اور بس کی طرف چل دیا – میں اسے نہیں جانتا تھا ، مگر وہ مجھے جانتا تھا –
بس میں کوئی سیٹ خالی نہ تھی – اس نے دو سواریوں کو فولڈنگ سیٹوں پہ بٹھا کر ھمیں سیٹیں فراھم کر دیں –
میں نے اس نوجوان سے کہا ” بیٹا ، کیا آپ میرے سٹوڈنٹ رھے ھیں ؟”اس نے کہا “ نہیں سر، میں تقریبا ایک سال پہلے اپنے کچھ کاغذات کی تصدیق کرانے کے لیے آپ کے پاس آیا تھا – میری آپ سے کوئی واقفیت بھی نہ تھی ۔ پھر بھی آپ نے فورا میرا کام کر دیا تھا – بے شک آپ مجھے نہیں جانتے ، مگرمیں آپ کا یہ احسان کیسے بھول سکتا ھوں ؟

اللہ اکبر !!!! —– میں نے صرف کاغذات پر دستخط کرکے مہر لگا دی تھی – ایک منٹ کاکام تھا – مگر اس نوجوان نے یہ معمولی سا احسان بھی یاد رکھا، اور اس کا صلہ دینا ضروری سمجھا –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 20 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

میں داؤدخیل سے عیسی خیل جا رھا تھا – بس میں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی – میں سیٹوں کے درمیان خالی جگہ پر کھڑا ھوگیا – اسی بس سے جانا ضروری تھا کہ کالج پہنچنا تھا –
اچانک پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک صاحب اپنی سیٹ سے اٹھے اور مجھ سے کہا “سر، آپ یہاں بیٹھ جائیں “-
میں نے کہا “ جی نہیں آپ بیٹھے رھیں “ 
کہنے لگے “ سر، یہ کیسے ھو سکتا ھے ، آپ کھڑے ھوں اورمیں بیٹھا رھوں ؟ “
ان کا شکریہ ادا کر کے ان کی سیٹ پہ بیٹھتے ھوئے میں نے کہا “ میں نے آپ کو پہچانا نہیں “کہنے لگے “ سر، میرا نام سید امیر عباس نقوی ھے – میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ھوں – جب ھم آٹھویں کلاس میں تھے تو ایک دن آپ ھمارے سکول آئے تھے ، اور ھیڈماسٹر صاحب کے کہنے پر آپ نے ھمیں انگلش کی Direct and Indirect Narration پڑھائی تھی – سر ۔ آپ نے اس دن جو کچھ پڑھایا تھا ، وہ آج بھی مجھے یاد ھے” –

اللہ اللہ – ذرا سوچیئے , دس بارہ سال پہلے کی صرف آدھ گھنٹے کی تعلیم کی اتنی قدر —-!!!!!
جی ھاں ، اور کہیں ھو نہ ھو ، میانوالی میں ھوتی ھے –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 22 فروری 2019

عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ

پڑھنے لکھنے کی کچھ دوسری مصروفیات کی وجہ سے آج صبح کی پوسٹ کا ناغہ ھؤا – کل بھی ھوگا—– انشآءاللہ پرسوں صبح ملیں گے –

بشکریہ-منورعلی ملک– 23 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

پچیس تیس سال پہلے کی بات ھے داؤدخیل کی ایک خاتون پمز اسلام آباد میں زیر علاج تھیں – ڈاکٹروں نے ان کے لیے خون کا بندوبست کرنے کا کہا –

خاتون کے بھائی اس حکم کی تعمیل کے لیے ھسپتال کے بلڈبنک پہنچے – اٹک کا ایک نوجوان اس وقت بلڈ بنک میں ڈیوٹی دے رھا تھا – اسے بتایا کہ ھم میانوالی سے آئے ھیں ، اور ھمیں اپنی بہن کی جان بچانے کے لیے فلاں گروپ کا خون درکارھے – جتنے پیسے کہیں ھم دے دیتے ھیں – یا اس کے بدلے میں خون دینا ضروری ھو تو ھم کل صبح اس کا بھی بندوبست کر دیں گے -بلڈ بنک کے انچارج نوجوان نے کہا “ آپ خون لے جائیں – میں آپ سے اس کے بدلے میں نہ پیسے لوں گا ، نہ خون – کیونکہ آپ نے بتایا ھے آپ میانوالی سے آئے ھیں – اور میں جانتا ھوں کہ میانوالی کے لوگ احسان فراموش نہیں ھوتے – اس لیے میں آپ سے کچھ نہیں لوں گا “

ماشآءاللہ , میانوالی کی شہرت کا ایک پہلو یہ بھی ھے کہ ھم لوگ احسان فراموش نہیں – اللہ ھمیں اس شہرت کو برقرار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے – رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک– 25  فروری 2019

میرا میانوالی—————-

کچھ دنوں سے پھر جنگ کی باتیں ھو رھی ھیں –


جنگ کا ذکر جب بھی ھوتا ھے مجھے 1965 کی جنگ یاد آجاتی ھے — وہ جوش، ولولہ ، اتحاد ۔ قربانیاں ، دعائیں ، نعرے — اب بھی وہ مناظر یاد آتے ھیں تو دل کی دھڑکن تیز ھو جاتی ھے سکولوں کے بچوں سے لے کر مسلح افواج کے سربراھوں تک ، سب نے اس جنگ میں حصہ لیا – بچے اپنا جیب خرچ جنگ کے فنڈ میں جمع کراتے رھے – خواتین نے اپنی انگوٹھیاں اور کانوں کی بالیاں اتار کر اس فنڈ میں جمع کروادیں – محاذ جنگ پر مصروف جانباز بھائیوں اور بیٹوں کے لیے کپڑے ، بستر ، تولیے، کھانے پینے کی چیزیں ، بھنے ھوئے چنے ، مرنڈے ، ٹانگریاں خواتین اپنے ھاتھوں سے تیار کر کے محاذجنگ پر بھجواتی رھیں — صابن ، ٹوتھ پیسٹ اور مختلف قسم کے سگریٹوں کے پیکٹ بھی بھجوائے گئے – ھر فرد اپنی توفیق کے مطابق جنگ میں حصہ ڈالنے کے لیے بے تاب تھا – پوری دنیا پاکستانی قوم کا جوش و خروش دیکھ کر حیران تھی – ایک عجیب ماحول تھا ، جس نے دیکھا وھی سمجھ سکتا ھے کہ وہ ماحول کیا تھا – یوں لگتا تھا اس دنیا میں ھمیں اسی جنگ کے لیے بھیجا گیا ھے –

ریڈیو سے خبریں نشر ھوتے وقت لوگ سب کام کاج چھوڑ کر ریڈیو کے گرد جمع ھوجاتے – پاک فوج اور فضائیہ کی کامیابیوں کی خبروں پر نعرہءتکبیر—- اللہ اکبر کی صدائیں فضا میں گونج اٹھتیں – ریڈیو سے فلمی نغموں کی بجائے جنگی ترانے
عنایت حسین بھٹی کا مشہور زمانہ ترانہ ——- اے مرد مجاھد جاگ ذرا اب وقت شہادت ھے آیا –
ملکہ ءترنم نورجہاں کا پاک فضائیہ کومترنم خراج تحسین ——- میرے نغمے تمہارے لیے ھیں
مہدی حسن کا پاک افواج کو خراج عقیدت —— قوم کے مرد مجاھد تجھے کیا پیش کروں
دن رات لوگوں کے لہو کو گرماتے رھتے –

علامہ اقبال نے مرد مؤمن کے لیے کیا خوب دعا کی تھی

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

یہ جنگ شاید وھی طوفان تھی – اور اس کے مقابلے میں بپھری ھوئی قوم نے جو مناظر دکھائے ، لاکھ بھی کوشش کروں الفاظ میں بیان نہیں ھو سکتے –

گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 26  فروری 2019

میرا میانوالی—————-اللہ اکبر ————– پاک فضائیہ زندہ باد


صبح سویرے اچھی خبر — پاک فضائیہ نے پاک سرحد کی جانب بڑھتے ھوئے دو بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے –
ھماری تینوں قابل فخر مسلح افواج میں سے جنگ کے دور میں پاک فضائیہ کا کردار ھمیشہ نمایاں رھا ھے – جنگ کے دوران فضائیہ تین اھم کا م سرانجام دیتی ھے :
١۔ محاذوں پر لڑتی بری اور بحری فوج کا دشمن کے ھوائی حملوں سے تحفظ اور ان کی پیش قدمی کے لیے راہ ھموار کرنا-
٢۔ اپنے ھوائی اڈوں , تنصیبات اور شہری آبادی کی حفاظت
٣۔ دشمن کے علاقے میں جاکر اس کی بری اور فضائی قوت کی کمر توڑنا –
بحمداللہ ھماری فضائیہ نے ھمیشہ یہ تینوں فرائض باکمال انداز میں سرانجام دیئے ھیں – 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ نے اپنے سے پانچ گنا بڑی بھارتی فضائیہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا – بھارت کے پاس دنیا بھر سے جمع کیے ھوئے بہترین طیارے تھے ، اور ھمارے پاس صرف B-57 بمبار ، F-86 لڑاکا طیارے اور کچھ F-104 لڑاکا طیارے تھے- مگر اس جنگ میں ھمارے شاھینوں نے دشمن کے بے شمار طیارے چڑیوں کی طرح مار گرائے – سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے چار سیکنڈ میں چار طیارے گرا کر فضائیہ کی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا – باربار دشمن کے ھوائی اڈوں پر حملے کر کے ھماری جانباز فضائیہ نے بے حساب بھارتی طیاروں کو اڑنے سے پہلے ھی جلا کر راکھ کردیا – اس وقت کے ائیر چیف ، ائیر مارشل نورخان خود بھی کئی حملوں کی قیادت کرتے رھے –
پاک فضائیہ نے بھارت کے امرتسراور ھلواڑہ کے ھوائی اڈوں کا تو مکمل کباڑا کردیا –
کہیئے پاک فضائیہ زندہ باد ———— پاکستان پائندہ باد !!!!!
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک– 27 فروری 2019

میرا میانوالی—————-

جنگ میں پاک فضائیہ کے شاھینوں کا ایک شاندار کارنامہ ھم نے بھی دیکھا تھا – میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس (موجودہ ڈسٹرکٹ کونسل آفس) آیا ھؤا تھا – دوپہر کا وقت تھا – اچانک ھوائی حملے کے سائرن کی آواز گونج اٹھی ، اور بھارت کا ایک طیارہ انتہائی تیز رفتار سے شمال کی جانب جاتا دکھائی دیا – اسی لمحے ھمارے دو شاھین میراج طیارے گولی کی طرح تیزی سے اس کے تعاقب میں فضا میں بلند ھوئے – دشمن طیارے نے بچ نکلنے کی پوری کوشش کی ، مگر چند ھی لمحے بعد ھمارے شاھینوں نے اسے بے بس کردیا – پائلٹ نے طیارہ کوھاٹ کے قریب اتار دیا – پاک فضائیہ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا -تفتیش پر اس بھارتی پائلٹ نے بتایا کہ میں نے پی اے ایف بیس میانوالی پر حملہ کرنا تھا ، مگر ادھر پاک فضائیہ حملے کے لیے پہلے ھی تیار تھی ، تو میں نے سکندرآباد (داؤدخیل) کے کارخانوں کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا – مگر وھاں تو مجھے پہاڑ اور دریا کے سوا کچھ نظر نہ آیا ، میں دوسرا چکر لگانے لگا تو پاک فضائیہ کے طیاروں نے مجھے گھیرکر نیچے اترنے پر مجبور کر دیا

پاک افواج زندہ باد ، پاک فضائیہ پائندہ باد-

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 28 فروری 2019

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top