میرا میانوالی

منورعلی ملک کے جنوری 2019 کےفیس بک پرخطوط

Image result for new year

—–عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —–
آپ سب کو نیا سال مبارک
رب کریم آپ سب کو بے حساب خوشیاں عطا فرمائے

بشکریہ-منورعلی ملک– 1جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

ملازمت کے دوران میں 20 سال تک پروفیسر محمد سلیم احسن کے ھمراہ ان کے موٹر سائیکل پر کالج آتا جاتا رھا – میانوالی پر ابھی موٹرسائیکلوں کی یلغار نہیں ھوئی تھی – اکا دکا لوگوں کے پاس ویسپا سکوٹر یا یاماھا موٹرسائیکل ھوتا تھا – کالج شہر سے دوتین میل دور تھا ، میں سائیکل لینے کا سوچ رھا تھا ، مگر سلیم بھائی نے کہا “ لالا چھوڑو، میرے موٹر سائیکل پہ آتے جاتے رھیں گے “-

اس دن کے بعد میری ملازمت کے آخری دن تک تقریبا 20 سال ھم دونوں ایک ساتھ کالج آتے جاتے رھے – دونوں ھم مزاج بھی تھے ، شاعر بھی – بڑی مزے کی سنگت تھی ھماری-میں گھر سے تیار ھوکر سلیم بھائی کے ھاں آجاتا – چائے کا دور چلتا – یہ چائے سلیم بھائی خود بناتے تھے – ان کی اھلیہ پی اے ایف کالج کے سکول سیکشن کی ھیڈمسٹریس تھیں – وہ ھم سے پہلے اپنے کالج چلی جاتی تھیں – چائے پی کر ھم کالج روانہ ھو جاتے –

ابتدا میں سلیم صاحب کے پاس ھونڈا -110 موٹر سائیکل تھا – بعد میں کہیں سے لال رنگ کا ویسپا سکوٹر لے آئے – شہر میں اس رنگ اور ماڈل کا یہ واحد سکوٹر تھا – بہت وفادار چیز ھے – میں اس سکوٹر کو لالا کہا کرتا تھا – پچھلے ھفتے سلیم بھائی اسی پر سوار ھماری گلی سے گذرے تو مجھے دیکھ کر رک گئے – میں نے سکوٹر کی طرف اشارہ کرکے کہا “ لالا ابھی ٹھیک چل رھا ھے ؟ “
سلیم بھائی نے ھنس کر کہا “ بالکل ٹھیک ٹھاک “ –

جناب سلیم احسن سے میرا تعلق دوستی سے آگے بھائی چارے جیسا ھے – ان کی اھلیہ اور بچے میرے سٹوڈنٹ بھی رھے ، اس لیے ان کے گھر میں میں اپنے گھر کی طرح بلاتکلف آجا سکتا ھوں – ملازمت کا دور ختم ھؤا ، مگر ھمارا تعلق بدستور برقرار ھے – کبھی کبھار مل بیٹھ کر جوانی کی یادیں تازہ کر لیتے ھیں —————————————— رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 2 جنوری  2019

————شوق —————–


پتر ، صرف ایک بال کھیلنے دو

بشکریہ-منورعلی ملک– 2 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

اللہ کے فضل سے گورنمنٹ کالج میانوالی میں بیس سال سروس کے دوران اپنے تمام پروفیسرساتھیوں کا اعتماد اور تعاون مجھے حاصل رھا – بہت خوشگوار ماحول تھا – نظریاتی اختلافات کے باوجود تما م پروفیسر صاحبان بھائیوں کی طرح مل جل کر رھتے تھے – سب میرے دوست تھے – مگر بے تکلف دوستی چار حضرات سے تھی – سلیم احسن صاحب کے علاوہ غلام سرور خان نیازی ، بیالوجی کے پروفیسر لالا فاروق ، اور لائبریرین حاجی محمد اسلم خان نیازی میرے وہ دوست تھے جن پہ مجھے ھمیشہ مان رھا ، اور انہوں نے ھمیشہ میرا مان برقرار رکھا – ان تما م دوستوں کے بارے میں الگ الگ ایک سے زائد پوسٹس ایک دوسال پہلے لکھ چکا ھوں

 وہ تمام پوسٹس 786mianwali.com پر دستیاب ھیں -فی الحال ان دوستوں کے بارے میں ایک ایک تعارفی پوسٹ لکھوں گا – پروفیسرمحمد سلیم احسن صاحب کا ذکر کل ھو چکا – آج پروفیسر غلام سرور خان نیازی کا تذکرہ ھونا تھا ، مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لیپ ٹاپ کی بیٹری اجازت نہیں دے رھی – اس لیے یہ قصہ انشآءاللہ کل لکھ سکوں گا ————– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 3 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈ ماسٹر تھا ایک دن محکمہ فیملی پلاننگ کی سفید جیپ سکول میں وارد ھوئی – فیملی پلاننگ آفیسر نے اپنا تعارف کراتے ھوئے کہا “ میرا نام غلام سرور خان ھے – شہباز خیل کا رھنے والا ھوں – آج سرکاری دورے پر ٹھٹھی شہر آیا تو کسی نے بتایا آپ نے حال ھی میں ایم اے انگلش کیا ھے- میں بھی ایم اے انگلش کرنا چاھتا ھوں ، اس سلسلے میں آپ سے مشورہ کرنا ھے “-

میں نے کتابوں کے نام اور دوسری ضروری باتیں بتادیں – بہت خوش ھوئے – کہنے لگے “ بڑی ھمت کاکام ھے – ساٹھ کتابیں بنتی ھیں ، مگر میں چھوڑوں گا نہیں – یہ کتابیں ملتی کہاں سے ھیں ؟“میں نے کہا بیشتر کتابیں گورنمنٹ کالج میانوالی کی لائبریری سے دستیاب ھیں – لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی بہت اچھے آدمی ھیں – بہت تعاون کرتے ھیں – ان سے مل لیں – جو کتابیں وھاں نہ مل سکیں کتاب محل پبلشرز اردوبازار لاھور سے منگوا لیں“-

چائے کا دور چلا – ادھر دھر کی کچھ باتیں ھوئیں ، اور سرور خان واپس چلے گئے –

یہ تھی ھماری پہلی ملاقات – کیا خبر تھی کہ یہ ملاقات عمر بھر کی رفاقت کا پیش خیمہ ھے —–
شوق , ھمت اور محنت کے طفیل سرورخان صاحب نے اگلے ھی سال ایم اے انگلش کر لیا – پھر لیکچرر کی حیثیت میں ان کاتقرر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ، میرا گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ھوگیا – پانچ سال بعد میں بھی گورنمنت کالج میانوالی آگیا – یوں ھمارا تعلق بیس سال کی رفاقت بن گیا –

سرورخان انگریزی زبان و ادب کے بہترین ٹیچر، بہت اچھے مقرر، بہت سادہ اور بے تکلف انسان ھیں – ھماری دوستی اللہ کے فضل سے کبھی کسی طوفاں سے آشنا نہ ھوئی – محبت کا دریا مسلسل یکساں رفتار سے آج تک رواں دواں ھے – سرورخان صاحب بہت عرصہ سے تعمیر ملت پبلک سکول میں پرنسپل ھیں – کبھی کبھار ملاقات ھوتی رھتی ھے- اللہ سلامت رکھے ان کی محبت میرا سرمایہ ھے ——————————— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 4 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

بیالوجی کے پروفیسر محمد فاروق المعروف لالا فاروق سے میرا تعلق اس زمانے سے ھے جب ھم دونوں ساتویں کلاس میں گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل میں پڑھتے تھے – میرے والد محترم ملک محمد اکبرعلی وھاں ھیڈماسٹر تھے- تقریبا ایک سال بعد والد صاحب وھاں سے ٹرانسفرھو کر پنڈی چلے گئے تو میں واپس داؤدخیل آگیا –
میرے ساتویں کے کلاس فیلوز میں سے نجیب اللہ ھاشمی ، عطامحمد ھرایا ، عبدالرزاق خان نیازی عرف کالا خان ، سید امداد حسین بخاری اور چوھدری یعقوب علی میرے قریب ترین دوست تھے — لالا فاروق اس زمانے میں مجھ سے دور ھی رھے – جب ھم دونوں پروفیسر بن گئے تو ایک دن لالا نے کہا “میں بھی تمہارا کلاس فیلو تھا – میں نے کہا “ اس وقت تو تم مجھ سے کبھی نہیں ملے “
لالا نے بچوں کی طرح معصومیت سے جواب دیا “ یارتم ھیڈماسٹر صاحب کے بیٹے تھے ، مجھے ڈر تھا کہ میں نے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی تو تم ٹیچرز کوبتا کر میری پٹائی کروادوگے“-بچوں جیسی یہی معصومیت آج بھی لالا فاروق کی شخصیت کا نمایاں وصف ھے – گورنمنٹ کالج میانوالی میں ھم دونوں بیس سال اکٹھے رھے- میں بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب (Tea Club) کا ممبر بھی تھا – لالا سے روزانہ ملاقات ھوتی تھی — ھم دونوں کی آپس میں گفتگو پروفیسروں والی نہیں ساتویں کلاس کے سٹوڈنٹس والی ھوتی تھی – بالکل سادہ اور بے تکلف – ھمارے دوسرے ساتھی پروفیسر صاحبان ھماری اس بات چیت سے بہت محظوظ ھوتے تھے – لالا اور میں آج بھی ملیں تو ھماری گفتگو کا انداز یہی ھوتا ھے-

پروفیسر فاروق صاحب مجھ سے صرف ایک دن پہلے ریٹائر ھوئے – بیالوجی کے زبردست ٹیچر اورشعبہ کے سربراہ بھی تھے- اللہ سلامت رکھے میرے بہت پیارے بھائی ھیں —————————————– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 5 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

پروفیسر سرور نیازی صاحب کی طرح حاجی محمداسلم خان نیازی سے بھی میرا تعارف اس زمانے میں ھؤا جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹرتھا – ایک دن میرے آٹھویں کلاس کے ایک سٹوڈنٹ محمد آصف خان کےھمراہ ایک بزرگ (اس وقت یہ صاحب ماشآءاللہ جوان تھے ، میں بھی) سکول میں تشریف لائے- بزرگ نے اپنا تعارف کراتے ھوئے کہا “ میرا نام محمد اسلم خان غلبلی ھے – میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں لائبریرین اور آصف خان کا ماموں ھوں – اگر آپ کو کتابیں پڑھنے کا شوق ھو تو آصف خان کو بتا دیا کریں ، میں کتابیں آپ کو بھجوا دیا کروں گا “-اللہ مسبب الاسباب ھے – میں ان دنوں ایم اے انگلش کرنے کا ارداہ باندھ رھا تھا – فکر تھی کتابیں کہاں سے لوں گا – اسلم خان صاحب سے اپنی اس تشویش کا ذکر کیا تو کہنے لگے “ میرا خیال ھے ایم اے انگلش کی بیشتر کتابیں ھماری لائبریری میں موجود ھوں گی – آپ مجھے لسٹ دے دیں ، میں آصف کے ھاتھ کتابیں بھجوا دوں گا – جب تک ضرورت ھو اپنے پاس رکھیں – جو کتابیں ھمارے ھاں نہ ملیں ، وہ میں لاھور سے منگوا لوں گا

اللہ اکبر – پہلی ھی ملاقات میں اتنی زبردست آفر–!!!!
حاجی صاحب ( محمداسلم خان ) نے اپنا وعدہ حرف بہ حرف پورا کیا – اگر یہ نہ ھوتے تو ٹھٹھی جیسی جگہ پر بیٹھ کرمیں ایم اے انگلش کہاں کر سکتاتھا –

جب میں لیکچرر بن کر گورنمنٹ کالج میانوالی آگیا تو لائبریری میں اکثر آنا جانا رھتا تھا – میری کتاب دوستی حاجی صاحب سے دائمی دوستی کاوسیلہ بن گئی —

ایک دوسال پہلے ان کے بارے میں دوچار مفصل پوسٹس لکھی تھیں – ان سے وابستہ یادیں اتنی زیادہ اور اتنی دلچسپ ھیں کہ ایک پوسٹ میں سمیٹنا مشکل ھے – اس لیے کچھ باتیں انشآءاللہ کل لکھوں گا ————— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 8 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

فرض شناسی میں حاجی صاحب ( ًمحمداسلم خان نیازی ، لائبریرین ) اپنی مثال آپ ھیں – بیس سال میں ایک دن بھی چھٹی نہیں لی – کالج کے مقررہ وقت سے ایک آدھ گھنٹہ پہلے کالج پہنچ جاتے تھے- لائبریری میں نہ خود اونچی آواز میں بولتے نہ سٹوڈنٹس کو بولنے دیتے- انہیں کبھی فارغ بیٹھے نہ دیکھا –

حاجی صاحب سے میری دوستی نہیں یاری ھے – ھر قسم کے رسمی تکلفات سے آزاد – 
ھرسال کالج کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے ھم دونوں لاھورجایا کرتے تھے – ھمارا قیام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ھوٹل پہ ھوتا تھا – یہ ھوٹل نہیں گیسٹ ھاؤس تھا ، کیونکہ یہاں کھانا نہیں بنتا تھا – کھانا ھم ساتھ والے شیراز ھوٹل سے کھاتے تھے- صبح ناشتے میں حضرت تو سری پائے نوش فرماتے ، میں سری پائے دیکھ بھی نہیں سکتا – میں دہی پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کرتا تھا – دوپہر کا کھانا جہاں نصیب ھوتا وھاں کھا لیتے- کتابوں کی تلاش میں اردو بازار، انارکلی کے پبلشرز یونائیٹڈ، مال روڈ کے بک سنٹر ، فیروزسنز وغیرہ ، لوئر مال پہ سنگ میل پبلشرز ، ٹمپل روڈ (مزنگ) میں نگارشات پبلشرز ۔ بک مارک پہ حاضری دیتے – چار پانچ میل کا یہ سارا سفر ھم پیدل طے کیا کرتے تھے – سفر کا پتہ ھی نہیں چلتا تھا ، بچوں کی طرح ھاتھ میں ھاتھ ڈالے ، ھنستے ھنساتے کہاں سے کہاں جا پہنچتے تھے- اپنے کام کی کتابوں کی تلاش آسان کام نہیں، مگر ھمارے لیے دربدرپھرنا مشکل نہ تھا -حاجی صآحب کہتے تھے یار اوپر سے ایک لیٹر آیا تھا – کہتے ھیں لائبریری کے لیے ناول نہ خریدے جائیں – میں کہتا “ لیٹر کی ایسی تیسی – میں نے کالج میں انگلش لٹریچر پڑھانا ھے – ناول نہ لوں توکچی پہلی کی کتابیں ، پرانے اخبار اور ردی کاغذ خریدنے کے لیے تو یہاں نہیں آتے – ناول خریدنے پہ کوئی اعتراض کرے گا تو جواب میں دوں گا “ – حاجی صآحب ھنس کر مان جاتے – 

لاھور کے ان دوروں کی بہت سی حسین یادیں میری دوسال پہلے کی پوسٹس میں محفوظ ھیں – اللہ حاجی صآحب کو سلامت رکھے ، میرے ماضی کے ایک حسین باب کا عنوان ھیں ——

رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 9 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

کالج بلیٹن (خبرنامہ) کی اشاعت گورنمنٹ کالج میانوالی کی ایک بہت خوبصورت روایت تھی – بڑے سایز کے چار صفحات پرمشتمل خبرنامہ ھر پندرھوٰ یں دن شائع ھوتا تھا – پروفیسرمحمد سلیم احسن اس کے ایڈیٹر تھے ، میں ان کا معاون –

اس روایت کی بنیاد پرنسپل ، پروفیسرچوھدری محمد نواز صاحب نے رکھی تھی – موصوف گورنمنٹ کالج لاھور سے یہاں پرنسپل متعین ھو کر آئے تھے – بہت قابل ، ذھین اور محنتی ماھر تعلیم تھے – گورنمنٹ کالج میانوالی میں میری آمد سے چند ماہ پہلے یہاں سےٹرانسفر ھو کر لاھور واپس چلے گئے – ایک دوسال یہاں رھے ، مگرکالج کو بہت سی اچھی روایات دے گئے – ان کے دور میں تقریبات کا بھی بہت زوروشور رھا – کھیلوں کو بھی بہت فروغ ملا – ان سرگرمیوں پر کالج کے فنڈز دل کھول کر خرچ کرتے تھے – کہا کرتے تھے یہ بچوں کا پیسہ ھے ، بنک میں گلنے سڑنے کی بجائے یہ پیسہ بچوں پر خرچ ھونا چاھیے -کالج بلیٹن بھی پروفیسر چوھدری محمد نواز کی قائم کی ھوئی ایک کارآمد روایت تھا – چار صفحے کے اس خبرنامے میں سٹوڈنٹس کی معلومات میں اضافے اور ان کی ادبی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت کچھ ھوتا تھا – اداریہ سلیم بھائی ( پروفیسرمحمدسلیم احسن ) لکھتے تھے – تعلیمی سال کے آغاز پر نئے آنے والے طلبہ کو خوش آمدید اور سال کے آخر میں فارغ ھو کر جانے والوں کو الوداع کہا جاتا تھا – کچھ نصیحت آموز باتیں بھی ادارئیے کا حصہ ھوتی تھیں –
کالج کا ٹائیم ٹیبل اور امتحانات کی ڈیٹ شیٹ بھی خبرنامے میں شائع ھوتی تھی – کالج میں ھونے والی تقریبات کی رپورٹس اور دوسری اھم خبروں کے علاوہ سٹوڈنٹس کے ارسال کردہ لطیفے اور ایک آدھ غزل بھی خبرنامے کی زینت ھوتی تھی – ایک دو سٹوڈنٹ بھی ھمارے معاون تھے – خبریں وھی لکھتے تھے –
خبرنامہ میانوالی پرنٹنگ پریس سے شائع ھوتا تھا – اس سلسلے میں میں اور سلیم بھائی ھر ھفتے ایک آدھ بار پریس آتے جاتے تھے –
خبرنامے کی ایک کاپی ھر سٹوڈنٹ کو ملتی تھی – کالج لائبریری میں شاید اب بھی کچھ کاپیاں پڑی ھوں –

بہت اچھی روایت تھی مگر ————————-
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 10 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

ایسا کیوں ھوتا ھے — ؟؟؟
ان بابا جی سے کسی نے کہا : بابا جی آپ کے بچے نہیں ھیں ؟
بابا جی نے کہا : تین بیٹے ھیں ، ماشآءاللہ تینوں اچھے عہدوں پر فائز ھیں –


پوچھنے والے نے کہا : بابا جی پھر آپ یہ کام کیوں کررھے ھیں ؟ –
بابا جی نے آنسو چھپانے کے لیے منہ دوسری طرف پھیر کر کہا :” یہ تو ——- میں صحتمند رھنے کے لیے کررھا ھوں” ———— اپنے والدین کا بہت خیال رکھیے کہ اللہ کی عدالت میں سب سے سخت احتساب اسی معاملے کا ھوگا ، اور اللہ قیامت کا پابند نہیں ، اس دنیا میں بھی احتساب کر سکتا ھے –

بشکریہ-منورعلی ملک-10جنوری  2019

سبحان اللہ ————— میرا میانوالی


کندیاں میں دریا کے پار پہاڑ کے پیچھے سورج غروب ھونے کا منظر

بشکریہ-منورعلی ملک– 11جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

بحمداللہ ھمارا فیس بک کا سفر اب چوتھے سال میں داخٰل ھو چکا ھے – میں تو فیس بک کو بچوں کا فضول مشغلہ سمجھ کر بہت عرصہ اس سے گریزاں رھا – میرے بیٹے پروفیسر محمداکرم علی نے میرا فیس بک اکاؤنٹ پانچ سات سال پہلے بنا دیا تھا – مگر میں نے اسے کبھی ھاتھ نہیں لگایا تھا –

پھر یوں ھوا کہ صحت کے بعض مسائل , بالخصؤص سماعت کے مسئلے کی وجہ سے میں نے پڑھانا چھوڑ دیا – انہی مسائل کی وجہ سے دوستوں کے ھاں آنا جانا بھی بہت کم رہ گیا – تنہائی اور محرومی کااحساس خاصآ اذیت ناک ھوتا ھے – مگراللہ کے فضل سے مجھے اس احساس سے جلد ھی نجات مل گئی -اکرم بیٹے نے میری تنہائی کا علاج فیس بک تجویز کرکے مجھے لینووو کا لیپ ٹاپ لا کر دیا ، اور کہا “ابو ، فیس بک اتنی فضول چیز نہیں جتنی آپ سمجھتے ھیں – دنیا بھرمیں پھیلے ھوئے آپ کے ھزاروں سٹوڈنٹس اور چاھنے والے آپ سے ملنے کی حسرت دل میں لیے بٰیٹھے ھیں – فیس بک پہ وہ لوگ آپ کو خوش آمدید کہیں گے – اچھی خاصی رونق لگ جائے گی آپ کے ارد گرد ”

جولائی 2015 میں فیس بک کی دنیا میں وارد ھؤا تو پتہ چلا کہ بیٹے نے بالکل درست کہا تھا – رونق لگتے دیر ھی نہ لگی – 5000 فیس بک فرینڈز تو ایک دوماہ میں ھی پورے ھوگئے – فیس بک والوں نے کہا اس سے زیادہ فرینڈز کی گنجائش نشتہ ، تو لوگ فالوورز کی راہ سے آنے لگے – آج اس وقت تک فالوورز کی تعداد 6757 ھو گئی ھے – پانچ سات کا اضافہ روزانہ ھو رھا ھے –

میرے فیس بک فرینڈز اور فالوورز میں زیادہ تعداد میرے سابق سٹوڈنٹس اور لالا عیسی خیلوی کے حوالے سے میرے چاھنے والوں کی ھے – خاصی بڑی تعداد میں سکولوں اور کالجوں کے بچے بھی میرے ھمسفر ھیں – اتنے لوگوں کی محبت اللہ کا بہت بڑاانعام ھے – جتنا شکر ادا کروں کم ھے – سفر بہت اچھا کٹ رھاھے – جب تک رب کو منظور ھؤا یہ سفر جاری رھے گا – اللہ کرے دو طرفہ دعاؤں کا یہ سلسلہ دیر تک چلتا رھے-
– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 12 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

فیس بک کی دنیا میں آکر ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کیا یہاں کوئی میرا ھم عمر دوست یا آشنا بھی ھے یا اکیلا میں ھی پرائی شادی میں بن بلایا مہمان تو نہیں بن گیا –
اپنے دو بہت پیارے ھم عمر دوست سرراہ چلتے چلتے مل گئے – ایک تو میرے عیسی خیل کے رفیق کار پروفیسر اشرف علی کلیار تھے – عربی کے پروفیسر تھے ، اس لیے ان کی زیادہ تر پوسٹس عربی میں ھوتی تھیں ، خیر اتنی عربی ھم بھی جانتے تھے کہ ان کی لکھی ھوئی قیمتی باتیں سمجھ لیتے تھے – سیاسی طنز نگاری میں بھی ان کا ایک اپنا انداز تھا – کبھی کبھار اپنے کلچر کے حوالے سے بھی دلچسپ باتیں لکھ دیتے تھے – دو تین سال بعد خدا جانے کیوں فیس بک سے غائب ھوگئے – بہت سوشل اور متحرک آدمی ھیں – کسی اور انجمن میں شمع انجمن بن گئے ھوں گے میرے دوسرے دوست اپنے انداز کے اکلوتے شاعر ، بہت معروف افسانہ نگار ، بے حد مقبول براڈکاسٹر ظفر خان نیازی تھے – بہت خوبصؤرت نثر میں طویل اور دلچسپ معلوماتی پوسٹس لکھتے تھے – مجھ سے خصوصی محبت اس لیے کرتے تھے کہ میں بھی ان کی طرح داؤدخیلوی ھوں – میری پوسٹس پر بہت پیارے کمنٹس دیتے رھتے تھے – انہی کی خواھش پر میں نے داؤدخٰیل کے بارے میں مسلسل بہت سی پوسٹس لکھیں – بچپن کے بعد ظفرخان کو داؤدخٰیل میں رھنا نصیب نہ ھؤا ، ان کے دل میں کئی حسرتٰیں تھیں – مجھ سے جتنا ھوسکا ان کی حسرتوں کی تکمیل کاکام اپنے قلم سے کرتا رھا – بہت دعائیں دیتے تھے – پچھلے سال ایک صبح اچانک فون پر ریڈیوپاکستان میانولی کے آفتاب خان نے بتایا کہ ظفرخان اب اس دنیا میں نہیں رھے – ان کی کمی آج بھی محسوس ھوتی ھے –
اک آفتاب تھا جو تہہ خاک سو گیا
رھے نام اللہ کا –
بشکریہ-منورعلی ملک–13 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

فیس بک کا کلچر تبدیل کر کے اسے معلومات اور رھنمائی کا ذریعہ بنانے کا آغاز مرحوم ظفرخان نیازی اور پروفیسر اشرف علی کلیار صاحب نے کیا – پھر میں بھی اس کارخیر میں حصہ ڈالنے لگا –

اب تو ماشآءاللہ اچھا لکھنے والوں کی ایک ٹیم یہ کام کر رھی ھے – اس ٹیم کے سب سے مقبول قلمکار ڈاکٹرحنیف نیازی ھیں – وہ انسانی رشتوں کے تقدس، تحفظ اور ذمہ داریوں کی باتیں بہت دلنشیں انداز میں کرتے ھیں – بہت مؤثر اندازمیں استاد شاگرد ، والدین اور اولاد جیسے نازک رشتوں کی نزاکتوں کا احساس دلاتے ھیں – ان کا ذاتی کردار نوجوان نسل کے لیے رول ماڈل ھے عصمت گل خٹک سینیئرصحافی بھی ھیں بہت اچھے شاعر بھی – فیس بک پر سیاسی اور سماجی رویوں ، منافقتوں اور حماقتوں کی نشان دہی بہت مؤثر انداز میں کررھے ھیں – شروع میں میری طرح یہ بھی فیس بک سے کچھ الرجک تھے – پذیرائی ملی تو سمجھ گئے کہ لوگوں کو میری تحریروں کی ضرورت ھے – اب تقریبا باقاعدہ لکھ رھے ھیں –

وقاراحمدملک بہت اچھے افسانہ نگار اور بہت اچھے ٹیچر ھیں – ان کی تحریریں بھی بہت دلکش اور مقبول ھیں – انگریزی اور اردوادب کے بارے میں قیمتی معلومات فراھم کرتے رھتے ھیں –

جن ھم قلم ، ھم قدم دوستوں کی پکچرز مل سکیں ان کا ذکر آج ھؤا – دوچار دوستوں کا ذکر باقی ھے ، وہ انشآءاللہ کل –
میرے لیے یہ خوشی کی بات بھی ھے ، فخر کی بھی ، کہ میانوالی کے نوجوانوں نے فیس بک کا کلچر تبدیل کر دیا ، اور اب اس کی تزئین و آرائش میں مشغول ھیں –
رھے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک– 14جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

بے حساب شکر ھے اس رب کریم کا جس نے لکھنے کی صلاحیت اور موقع عطا کیا – اپ تک تقریبا 1200 پوسٹس لکھ چکا ھوں – سب سے زیادہ پذیرائی پرانے کلچر کے حوالے سے لکھی گئی پوسٹس کو ملی – لوگ اپنے آباؤاجداد کی سادگی، صبروقناعت، خودداری ، غیرتمندی , مہمان نوازی اور دوسری اچھی روایات کے بارے میں پڑھ کر بہت خوش ھوتے ھیں –

کلچر ھی کے ضمن میں میں نے پچاس ساٹھ سال پہلے کے رسم و رواج ، بول چال, اھم شخصیات ، لوک گیتوں , پسندیدہ کھانوں ، لباس اور جوتوں ( فرمے والی کھیڑی) ، خود رو جنگلی پھلوں ( بیر، پیلو ، ڈیہلے وغیرہ ) اور سادہ دیہاتی مٹھائیوں ( ریوڑی ، ٹانگری ، مرنڈے وغیرہ) کے بارے میں بھی پوسٹس لکھی ھیں ، جو بہت پسند کی گئیں >کچھ پوسٹس اپنے بچپن کے بارے میں بھی لکھیں – ایک سلسلہ “ فیس بک سے دوستی “ کے عنوان سے اپنے ابتدائی فیس بک فرینڈز کے تعارف کا بھی شروع کیا – اس میں تقریبا تیس چالیس دوستوں کا تعارف شامل تھا

اکتوبر 2018 سے اپنی داستان حیات لکھ رھا ھوں ، درمیان میں کبھی کبھار کوئی اھم موضؤع آجاتا ھے تو اس پر بھی لکھ دیتا ھوں – داستان حیات اور کلچر کے بارے میں ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ھے – آپ کی دعا چاھیئے کہ یہ سب کچھ لکھ سکوں —– ان پوسٹس کا کوئی اور فائدہ ھو نہ ھو ، اتنا ضرور ھے کہ کچھ دیر کے لیے آپ اپنی تمام پریشانیاں بھول کر ایک ایسی دنیا میں پہچ جاتے ھیں ، جہاں سادگی ، سکون اور راحت کا احساس آپ کے سب غم بھلا دیتا ھے –

میری اب تک کی تمام پوسٹس کو اگر کتاب کی شکل دی جائے تو تقریبا چار چار سو صفحے کی تین کتابیں بن سکتی ھیں – اللہ ھمت اور توفیق عطا کردے تو یہ کام بھی ضرور کروں گا – امید ھے کہ یہ کتابیں خآصی مقبول ھوں گی –
ایک اچھی بات یہ ھے کہ میری تقریبا تین سال کی تمام پوسٹس ھمارے ایک مہربان ساتھی (شیربہادرخان نیازی) نے  786mianwali.com میں محفوظ کر لی ھیں – اس لیے کتاب مرتب کرتے وقت پوسٹس تلاش کرنا مشکل نہ ھوگا –
– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 16جنوری  2019

متاں اسے گڈی تے آ جاوے

Image may contain: train, sky and outdoor
داؤدخیل کی حدود میں داخل ھوتی ھوئی ٹرین

میرا میانوالی—————-

میرے موبائیل فون پر روزانہ فجر کے وقت میرے دو مہربانوں کا ایک ایک میسیج آتا ھے – ان میں سے ایک مہربان دوست پنجاب یونیورسٹی کے چوھدری محمد انور ھیں – ان کا میسیج قرآن حکیم کی کسی آیت یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی حدیث مبارکہ کا مفہوم ھوتا ھے

دوسرا میسیج میانوالی کے معروف صحافی ایچ کے نیازی کا ھوتا ھے – ایچ کے نیازی صآحب کے میسیج عام طور پر کسی قول حکمت یا خوبصورت دعا کے روپ میں ھوتے ھیں – یہ میسیج پڑھ کر دل میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی ھے – بہت سی الجھنیں دور ھو جاتی ھیں ، زندگی خوبصؤرت لگنے لگتی ھے – لوگ محبت کے قابل نظر آتے ھیں – اپنی غلطیوں پر ندامت اور دوسروں کی غلطیاں معاف کرنے کی ھمت نصیب ھوتی ھے -ایچ کے نیازی صاحب میانوالی کی جانی پہچانی شخصیت ھیں – سینیئر صحافی ھیں – صحافت میں بھی یہ ایمان افروز اور حیات آموز باتیں لکھتے ھیں – میرے موبائیل فون پر آئے ھوئے ، ایچ کے نیازی کے یہ چند تازہ میسیج دیکھیے –

١، اپنے اپنے ظرف کی بات ھے ، کچھ لوگ عزت ملنے پر جھک جاتے ھیں ، کچھ دوسروں کو جھکانے میں لگ جاتے ھیں –

٢، ظرف وسیع ھوتو تعلق کو موت نہیں آتی –
٣، لوگوں کے ساتھ رویہ ان کے کردار کے مطابق نہیں بلکہ اپنی تربیت کے مطابق رکھو،

٤، کوشش کرو کہ مرنے سے پہلے ھی اللہ کو پیارے ھو جاؤ –

٥ ، جس معاشرے میں بے حسی عام ھو جائے وھاں کسی اور عذاب کی ضرورت نہیں رھتی –

حال ھی میں میں نے ایچ کے نیازی کو مشورہ دیا ھے کہ اقوال زریں کے اس خزانے کو کتاب کی شکل میں منظرعام پر لے آئیں – اس کتاب کو پڑھ کر بہت سے لوگوں کی زندگی سدھر سکتی ھے – یوں یہ کتاب آپ کا صدقہء جاریہ بن جائے گی –
آ ج کی بات کا اختتام ایچ کے نیازی کی بھیجی ھوئی یہ دعا ھم سب کے لیے
” اللہ سے دعا ھے کہ جیسے جیسے سورج چڑھتا جائے آپ کی خوشیاں بڑھتی جائیں ، اور ڈھلتا ھؤا سورج آپ کا ھر دکھ مٹاتا جائے ” –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 19جنوری  2019

میرا میانوالی————–

یہ وطن کی محبت ھی تھی جو ایک ھندو ( مشہورافسانہ نگار ھرچرن چاولہ ) کو 50 سال بعد دنیا کے آخری کونے (ناروے) سے کھینچ کر داؤدخیل لے آئی – ھرچرن چاولہ داؤدخٰیل کے رھنے والے تھے – ان کی دادی اماں شہبازخٰیل کے ایک ھندو گھرانے سے تھیں –

 

قیام پاکستان کے وقت چاولہ کا خاندان انڈیا منتقل ھو گیا – ھرچرن چاولہ ریلوے میں ملازم ھوگئے – افسانہ نگار کی حیثیت میں بہت مشہور ھوئے – ریٹائرمنٹ کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی ایک لائبریری کے لائبریرین مقرر ھوئے -ایک دفعہ انڈیا واپس آئے تو وطن کی مٹی کی کشش انہیں میانوالی لے آئی -ان کی فرمائش پر ھم ( میں اور پروفیسرمحمد سلیم احسن ) انہیں داؤدخیل لے گئے – سب سے پہلے ریلوے سٹیشن جا کر چاولہ نے ریلوے ریسٹ ھاؤس کے سامنے وہ کوارٹر دیکھا جہاں ان کا بچپن گذرا تھا – صحن کی مٹی کو بوسہ دے کر کچھ مٹی ایک لفافے میں ڈال کرجیب میں رکھ لی – والدین کو یاد کر کے روتے رھے – ان کے والد ریلوے میں ڈاک بابو ھؤا کرتے تھے
ریلوے سٹیشن سے رخصت ھوکر داؤدخیل سکول پہنچے – درو دیوار کو بوسے دیتے رھے – سکول کا گھنٹہ اب بھی وھی تھا جو چاولہ کے بچپن میں ھؤا کرتا تھا ، یہ ریلوے لائین کا دوفٹ لمبا ٹکڑا تھا – بہت سریلی اور گونج دار آواز تھی اس کی – پورے شہر میں سنائی دیتی تھی- چاولہ نے گھنٹے کو چوما ، بجایا او ر اس کے ساتھ کچھ پکچرز بنوائیں –

محلہ لمے خٰیل کے چاچا اکبر خان بچپن میں چاولہ کے آئیڈیل تھے – چاولہ نے ان سے ملنے کی خواھش کا اظہار کیا ، تو اتفاق سے اسی وقت چاچا اکبرخان ادھر سے گذرے – ھم نے انہیں روک کر کہا آپ کا ایک مہمان آپ کا منتظر ھے –
چاچا اکبر خان نے چاولہ کو غورسے دیکھا ، آنسو روکتے ھوئے بڑی مشکل سے اتنا کہہ سکے
“ چرن ایں ؟؟؟؟ “
پھر چاولہ اور وہ گلے مل کر رونے لگے ، ھماری انکھیں بھی بھیگ گئیں –

چاولہ اسی شام واپس چلے گئے — کچھ عرصہ بعد سنا وہ اب اس دنیا میں نہیں رھے-

چاولہ نے داؤدخیل کے اس آخری دورے کی مفصل داستان اپنی کتاب “ تم کو دیکھیں “ میں بہت مؤثر انداز میں لکھی ھے –
رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک– 20 جنوری  2019

میرا میانوالی—————

میرے بڑے بھائی مرحوم ملک محمدانورعلی گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل کے ھیڈماسٹر تھے – انہیں ادب کے مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ ھرماہ تمام ادبی رسالے ( نقوش ، سویرا، ادب لطیف وغیرہ ) اپنی جیب سے خریدتے تھے –

ایک دفعہ ادب لطیف میں “دوسہ“ کے عنوان سے ایک کہانی شائع ھوئی – یہ کہانی بھائی جان نے سکول کے تمام سٹاف کو پڑھ کر سنائی – ھم سب حیران رہ گئے کہ یہ کہانی حرف بہ حرف داؤدخٰیل کے چاچا دوست محمد خان المعروف دوسہ کی داستان حیات تھی- ھم سب لوگ چاچا دوسہ کو اچھی طرح جانتے تھے ، جو واقعات کہانی میں بیان ھوئے وہ بھی ھم سب کو معلوم تھے – لکھنے والے ھرچرن چاولہ کوھم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا – نام سے اتنا اندازہ ھوگیا کہ ھندوھے- اور یہ بھی کہ کوئی اپنا آدمی ھے ، ورنہ داؤدخیل کی گلیوں ، محلوں اور قبیلوں کے بارے میں باھر کے لوگوں کو کیا خبر بھائی جان نے وہ کہانی چاچا دوسہ کو پڑھ کر سنائی تو چاچا دوسہ بہت دیر تک زاروقطار روتے رھے ، کیونکہ یہ ان کی جوانی کی داستان تھی ، اور اب چاچا دوسہ دونوں بازؤوں سے محروم بوڑھے آدمی تھے – خاندانی عداوت کی بنا پر ان کے دشمنوں نے جوانی ھی میں ان کے دونوں بازو کاٹ دیئے تھے- چاچا دوسہ نے کہانی لکھنے والے کا نام سن کر کہا “ لکھنے والا ریلوے کے بابو کیول رام کا بیٹا ھرچرن ھوگا – میں ان کی فیملی کو اچھی طرح جانتا ھوں – بہت اچھے لوگ تھے – محلہ لمے خیل میں رھتے تھے – پاکستان بنا تو یہاں سے ھندوستان چلے گئے – ھرچرن اس وقت دس پندرہ سال کا تھا – کہیں ملے تو اسے میرا سلام کہنا –
بھائی جان نے رسالے کے ایڈیٹر کو خط لکھ کر ھرچرن چاولہ کا پتہ منگوایا ، اور چاچا دوسہ کے سلام سمیت داؤدخیل کی بہت سی اھم باتیں ایک مفصل خط میں لکھ کر خط ڈاک سے بھیج دیا – چاولہ اس وقت دلی میں رھتے تھے –

خط ملا تو چاولہ کی عید ھو گئی – داؤدخیل تواس کے خوابوں کا شہرتھا – بچپن وھیں گذرا – ھر گلی اپنی گلی , ھر گھر اپنا گھر تھا-
چند دن بعد چاولہ کے دو خط ایک ھی لفافے میں بھائی جان کے پتے پر موصول ھوئے – دوسرا خط چاچا دوسہ کے نام تھا – چاولہ کے الفاظ ، لفظ نہیں ، آنسو تھے — اتنے ھی آنسو چاچا دوسہ نے وہ خط سنتے ھوئے بہائے — پھر خطوط کا ایک طویل سلسلہ بہت عرصہ تک چلتا رھا – ایک لفافے میں دو خط ادھر سے جاتے ، دو ادھر سے آتے رھے – یہ سلسلہ تب ختم ھؤا جب پہلے چاچا دوسہ اور پھر بھائی جان اس دنیا سے رخصت ھوگئے —- رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–21 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

ھمارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے “ الفقرفخری“ ( مجھے اپنی غریبی پر فخر ھے ) ———————————–

کیا اچھا دور تھا ھمارے بچپن کا جب لوگ غریب مگر مطمئن ، صحتمند اور نرم دل تھے – بجلی ، پنکھے – اے سی , فریج ، ٹی وی ، کچھ بھی نہ تھا ، مگر لوگ خود بھی خوش رھتے ، دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے->ماچس جیسی معمولی سی چیز بھی عام نہ تھی – لوگ رات کے کھانے کے لیے بنائی ھوئی آگ کے دوچار انگارے چولھے کے اندر بنے ھوئے ایک چھوٹے سے گڑھے میں ڈال کر گڑھے کو راکھ سے بھر دیتے تھے – انگارے بدستور دہکتے رھتے – صبح راکھ ھٹا کر انگارے باھر نکالتے اور ان پر چند تنکے یا خشک پتے رکھ کر پھونک مارتے تو آگ بھڑک اٹھتی تھی – اسی آگ پر ناشتہ بنتا

ناشتہ کیا تھا ، توے پر بنی ھوئی , خالص ( کیمیائی کھاد سے پاک ) گندم کی چنگی تکڑی روٹی گھی سے چپڑ کر لسی کے ساتھ کھا لیتے تھے – اس انتہائی سادہ خوراک میں اتنی توانائی ھوتی تھی کہ دوپہر کے کھانے کی حاجت ھی نہ رھتی – ظہر کے وقت تازہ بھنے ھوئے چنے کھا لیتے تھے – اسے “پچھائیں“ کہتے تھے –

سکولوں کے بچے دوپہر کو کچھ کھانا چاھتے تو گھی شکر، چوری ، یا پساھؤا نمک مرچ گرم گھی میں ڈال کر سالن کی طرح روٹی کے ساتھ کھا لیتے تھے –

سالن صرف شام کو بنتا تھا – دال ، سبزی یا بڑے گوشت کا سادہ سا سالن ھوتا تھا ، لیکن ان سادہ لوح دیہاتی خواتین کے ھاتھ میں اتنی برکت تھی کہ جو چیز بھی بناتیں کھانے کا مزا آجاتا-

یہ تھی غریبی کی زندگی – لالچ ، جھوٹ ، منافقت سے پاک – لوگ صرف اپنا نہیں ، دوسروں کا بھی خیال رکھتے تھے – سالن کا تبادلہ تو عام تھا – خواتین ایک دوسرے سے پوچھتیں ، “ آج کیا بنایا ھے “ — کبھی یوں بھی ھوتا کہ کوئی خاتون دال کی پلیٹ لے کر ساتھ والے گھر میں جاتی اور کہتی “ ماسی ۔ اے گھنو چا تے پالک نی پلیٹ میکوڈئیو , جو او مردود ڈال نی کھاندا “
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ– رھے نام اللہ کا-

بشکریہ-منورعلی ملک– 22 جنوری  2019

–ھیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات

بشکریہ-منورعلی ملک–23 جنوری  2019

میرا میانوالی ————————

ماضی کی یادوں کو کریدتے ھوئے بہت سی دلچسپ رویات یاد آ جاتی ھیں –

آج ذکر ھے “ مانگ کا حلوہ “ کا – 
“مانگ“ کو ونگار بھی کہتے ھیں – ونگار لفظ بیگار کی بگڑی ھوئی شکل ھے – بیگارو وہ کام ھوتا ھے جو بڑے زمیندار اپنے مزارعوں سے زبردستی لیتے ھیں – اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں ھوتا مانگ میں جبر نہیں ھوتا – لوگ اپنی خوشی سے اپنے دوستوں ، رشتہ داروں کی فصل کی کٹائی کا کام کرتے ھیں – داؤدخیل میں یہ ایک باقاعدہ رسم تھی – کاشتکار اپنا کام جلد سمیٹنے کے لیے ایک دن مقررہ کر کے دوستوں رشتہ داروں سے گندم کی فصل کی کٹائی کا کام کرواتے تھے – اس کام میں صرف مرد حصہ لیتے تھے –

فصل کاٹنے کے بعد مانگیوں ( کام کرنے والوں) کو مخصؤص قسم کا حلوہ چیلنج کے طور پر کھلایا جاتا تھا – جو آدمی پیٹ بھر کر کھانے کے بعد ھاتھ کھڑے کر دیتا اس کا مذاق اڑایا جاتا – اس طرح رفتہ رفتہ سب سے ھاتھ کھڑے کرواکر مذاق اڑایا جاتا تھا –

مانگ کا حلوہ کھانا آسان کام نہ تھا – اس حلوے میں دیسی گندم کا آٹا ۔ خالص دیسی گھی اور سرخ پشاوری گڑ برابرمقدار میں ڈالا جاتا تھا – مانگ سے ایک دن پہلے ایک ڈیڑھ من آٹا پانی میں بھگو کر دودھی بنائی جاتی – پھر مانگ والے دن گڑ اور گھی کا شیرہ بنا کر دودھی اس میں ڈال کر حلوہ بنا لیتے تھے –
گھی اتنا زیادہ ھوتا تھا کہ نوالہ اٹھاتے ھوئے پانی کی ظرح الگلیوں سے ٹپکتا رھتا تھا – حلوہ پیتل کی بڑی بڑی پراتوں میں ڈال کر لایا جاتا – پرات میں جو گھی بچ جاتا وہ مانگی حضرات پانی کی طرح پی لیتے تھے , کیونکہ پرات خالی کرنے کی شرط ھوتی تھی – یہ لوگ حلوہ کھانے کے لیے باقاعدہ تیار ھو کر آتے تھے – صبح ناشتہ بھی نہیں کرتے تھے – بلکہ کام کے دوران پیاس لگتی تو پانی بھی نہیں پیتے تھے کہ پیٹ میں حلوے کی گنجائش کم نہ پڑجائے –

دن بھر جان توڑ کر کام کرنے کے بعد میزبان سے کہتے “ ھاں بھئی ، تیار ھاؤ “ ؟؟؟ —- مطلب یہ کہ حلوہ تیار ھے ؟ –

اس کے بعد کھانے کا منظر بڑا دلچسپ ھوتا تھا – اصول یہ تھا کہ حلوہ منہ میں ڈال کر چبانا نہیں ، کیونکہ چبانے سے حلوہ کم کھایا جاتا ھے – حلوے کے بڑے بڑے نوالے منہ میں ڈال کر ویسے ھی نگل لیتے تھے – کھانے کے دوران میزبان اور مہمانوں کے درمیان پیار بھری گالیوں کا تبادلہ بھی جاری رھتا –

حلوہ اتنا زیادہ ھوتا تھا کہ مہمانوں کے جانے کے بعد بھی بچ جاتا تھا ، اس میں سے کچھ اپنے لیے رکھ کر باقی آس پاس کے گھروں میں بانٹ دیا جاتا – تعاون کی بہت خوبصورت رسم تھی – اب پتہ نہیں اس کی جگہ کیا ھوتا ھے ؟-

گذرگیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ——————————————- رھے نام اللہ کا

میرا میانوالی—————-

ھمارے جگر ناصر خان ( ناصرفوٹوز،میانوالی) روزانہ فیس بک کی وساطت سے کے ایل سہگل ، محمد رفیع ، طلعت محمود، مکیش ، سی ایچ آتما، جگجیت، لتا منگیشکر ، آشا ، شمشاد بیگم ، ملکہ ترنم نورجہاں وغیرہ کے فلمی ، غیر فلمی نغموں کی ویڈیوکلپس بھیج کر ھمارے موسیقی کے ذوق کو چھیڑتے رھتے ھیں – بہت سی خوبصورت یادیں ان گیتوں اور گلوکاروں سے وابستہ ھیں –

میں تییسری کلاس میں پڑھتا تھا تو ھمارے چچا ملک برکت علی میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کے لیے کولمبیا کمپنی کا گراموفون اور کچھ فلمی نغموں کے ریکارڈ ( توے) لے آئے – مجھے موسیقی سننے کا شوق تو بہت تھا ، مگر بھائی جان کے گراموفون کو ھاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی — میں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا کہ مجھے بھی ایسا ھی گراموفون چاھیئے – اللہ جنت میں اعلی مقام عطاکرے امی کی منہ بولی بہن محترمہ عالم خاتوں (دیدے عالو) کو ، انہوں نے اپنے بھائی مشہورریڈیوسنگر گلستان خان نیازی کا گراموفون لا کر مجھے دے دیا – اس کے ساتھ کچھ ریکارڈ بھی تھے ————– نورجہاں اور سریندر کی آواز میں سدا بہار گیت “آواز دے کہاں ھے “ —- نورجہاں اورمحمد رفیع کا امر گیت “ یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ھے “ —– محمد رفیع کا “ اک دل کے ٹکڑے ھزار ھوئے“ اور چند دوسرے مقبول گیتوں کے ریکارڈ – میں دن بھر گراموفون پہ یہ گیت باربار سنتا رھتا تھا – سمجھ تو ککھ نہیں آتی تھی ، بس دھنیں اور آوازیں اچھی لگتی تھیں موسیقی کا یہ شوق بچپن سے میرا ھمسفر ھے – اب بھی پوسٹس لکھتے ھوئے کوئی نہ کوئی پرانا گیت گنگناتا رھتا ھوں – کچھ عرصہ سے عابدہ پروین کا دلکش گیت —– “ دل سوچ سمجھ کے لاویں دکھڑے عمراں دے “ —– چل رھا ھے – یہ گیت میں جب سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں پڑھتا تھا تو دربار داتا صآحب کے قریب ایک ھوٹل پر سنا کرتا تھا – اب خدا جانے یہ پھر کیوں سر پہ سوار ھو گیا –

————————————- رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک– 24 جنوری  2019

اپنا پرانا شعر —————
عمر بھر انتظار کرنا ھے
راستے میں بٹھا گیا کوئی

میرا میانوالی—————-

بچپن میں شرارتیں سب لوگ کرتے ھیں – عام طور پر ان شرارتوں سے نقصان کسی دوسرے کا ھوتا ھے – مگر اپنی قسمت ایسی کھوٹی تھی کہ جب بھی شرارت کی نقصان اپنا ھی ھؤا – ایک آدھ دفعہ تو ڈاکٹروں نے موت کے منہ سے زبردستی کھینچ کر نکالا –
میں تین چارسال کا تھا – ایک دن گھر آتے ھوئے رستے میں ناخن کے برابر نیلے رنگ کا شیشے کا ٹکڑا پڑا ھؤآ دیکھا – بہت خوبصورت لگا – جیب میں ڈال کر گھر آگیا –
دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھا تو میں نے وہ نیلے رنگ کی چیز پانی کے کٹورے میں ڈال دی – یہ دیکھ کر بہت خوش ھؤا کہ پانی کا رنگ بھی نیلا ھونے لگا – مگر اس نیلے پانی کے دو ھی گھونٹ پیئے تو پیٹ میں شدید درد اٹھا اور سر چکرانے لگا – گھر والے بہت پریشان ھوئے – اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے گئے – نیلے شیشے کا ٹکڑا بھی ساتھ لے گئے -ڈاکٹر صاحب نے وہ شیشے کا ٹکڑا دیکھ کر کہا “اف اللہ “ !!!! یہ تو نیلا تھوتھا (کاپر سلفیٹ) ھے – یہ انتہائی مہلک زھر ھے – آپ لوگ دوچار منٹ دیر سے آتے تو یہ بچہ مر چکا ھوتا –

پھر ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک دوا پلائی – دوا پیتےھی نیلے رنگ کی قے آنے لگی – ڈاکٹر صاحب نے کہا “شکر کریں ، یہ بچ گیا – اگرقے نہ آتی تو چند منٹ بعد اس نے مر جانا تھا “-
ڈاکٹر صاحب نے کچھ اور دوائیں اور ھدایات دے کر ھمیں فارغ کر دیا –

بہت مہنگی پڑی یہ شرارت – تین چار دن بستر سے نہ اٹھ سکا – جب ھم ھسپتال گئے تو گھر میں امی نے روروکر براحال کر لیا – جب انہیں پتہ چلا کہ میں بچ گیاھوں ، تو فورا گڑ کی بوری منگوا کر محلے کے لوگوں میں بانٹ دی –
گذرگیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ——————————— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–25 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

1980 میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں تقرر سے پہلے میانوالی شہر کے بارے میں میری معلومات بہت محدود تھیں ، کیونکہ داؤدخیل سے میٹرک کرنے کے بعد میں نے بقیہ تعلیم گارڈن کالج راولپنڈی میں مکمل کی – واپس آکر پہلے داؤدخیل سکول میں انگلش ٹیچر رھا ، پھر بی ایڈ کے لیے لاھور چلا گیا -لاھور سے واپس آکر پہلے چند ماہ مکڑوال پھر ٹھٹھی سکول متعین ھؤا – جب ھیڈماسٹر تھا تو سرکاری امور کے سلسلے میں کبھی کبھار میانوالی آنا پڑتا تھا – مگر یہ آمدورفت بھی صرف ایجوکیشن آفس (موجودہ ڈسٹرکٹ کونسل آفس) تک محدود رھی – شہر میں لالافیض اللہ خان نیازی ( شیرمان ٰخٰیل) سے دوستی کے باعث بلوخٰیل روڈ کی پہچان بھی بن گئی – بس یہ تھا میانوالی شہر کے بارے میں میرا ٹوٹل علم – گلیوں ، محلوں ، قبیلوں کے بارے میں میں بالکل کچھ نہیں جانتا تھا-کیا خبر تھی کہ میری بقیہ زندگی زیادہ تر اسی شہر میں بسر ھوگی – میں یہاں ایک اجنبی کی حیثیت میں وارد ھؤا ، مگر میانوالی نے مجھے یوں اپنا لیا جیسے یہی میرا آبائی شہر ھو – اب اس شہر کا نقشہ میرے لیے ھاتھ کی ھتھیلی کی طرح بالکل واضح ھے – ھر گلی ، محلے ، قبیلے اور بازار میں میرے جاننے اور چاھنے والے موجود ھیں
یہی اس شہر کی سب سے بڑی خوبی ھے – اللہ آباد رکھے ، بہت مسافر نواز شہر ھے – میں تو خیر ھوں بھی اسی ضلع کا رھنے والا ، دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں کو بھی میانوالی شہر یوں سینے سے لگا لیتا ھے کہ یہاں گذرا ھؤا وقت انہیں اپنی زندگی کا سنہرا دور لگتا ھے – اللہ کے فضل سے بہت سی اچھی روایات یہاں اب بھی زندہ و سلامت ھیں –
– رھے نام اللہ کا-
بشکریہ-منورعلی ملک–26 جنوری  2019

مگر میرے دیس کی سرمی کی اپنی الگ شان ھے

بشکریہ-منورعلی ملک–26 جنوری  2019

میں کس کے ھاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

قوم کی بیٹی ، سانحہ ساھیوال کا شکار ، 13 سالہ اریبہ ، جسے صرف اس لیے قتل کردیا گیا کہ یہ موقع کی گواہ تھی –


پکچر میں اریبہ موت سے چند روز قبل سکول میں انعام حاصل کرتے ھوئے –

میرا میانوالی—————-

(میرا میانوالی کے عنوان سے پوسٹس لکھنے کا آغاز میں نے 6 جنوری 2016 سے کیا – آئیے دیکھیں تین سال پہلے آج کے دن 29 جنورئ 2016 کی پوسٹ) :–

ایک دن میں گھنڈ ؤالی وانڈھی ( میانوالی شہر) میں اپنی بیٹی کے گھر سے واپس آرھا تھا – اچانک سڑک کے دوسری جانب مخالف سمت میں جانے والی ایک کار سڑک کراس کر کے میرے سامنے آ کھڑی ھوئی – گاڑی میرے سابق سٹوڈنٹ عارف خان نیازی کی تھی – عارف خان نے گاڑی سے اتر کر مجھے سلام کیا ، اور کہا سر، کہاں جارھے ھیں ؟ جہاں جانا ھے بتائیں ، میں آپ کو لے جاتا ھوں “

میں نے بتایا کہ میں اپنی خوشی سے پیدل چل رھا ھوں – گھر قریب ھی ھے – پھر میں نے پوچھا بیٹا کہاں ھوتے ھیں آپ ؟

عارف خان نے کہا “ سر، میں آج کل راولپنڈی میں سول جج ھوں “-

میں حیران ھؤا کہ میں نے تو سڑک کے دوسری طرف عارف خان کو جاتے ھوئے دیکھا بھی نہیں تھا ، اگر عارف خان چاھتے تو آنکھ بچا کر نکل جاتے- یا اگر میں دیکھ بھی لیتا تو گاڑی میں سے سلام کر کے گذر جاتے – لیکن ٹیچر کا احترام ھم میانوالی کے لوگوں کے خون میں شامل ھے – بحمداللہ عارف خان نے اپنے خون کی لاج رکھ لی –
یہ ھے ھمارے میانوالی کی تابندہ روایات میں سے ایک روایت – ایسی ھی خوبصورت روایات کی وجہ سے ھم میانوالی کے لوگوں کو وکھری ٹائیپ کے لوگ سمجھا جاتا ھے –
–رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 28 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں ھدایت اللہ خان نیازی نے بتایا کہ عارف خان ان دنوں بیمارھیں – میں تو یہ کمنٹ پڑھنے کے بعد عارف خان کی صحتیابی کے لیے مسلسل دعا کر ھی رھا ھوں , آپ لوگوں سے بھی گذارش ھے , دعاکریں کہ اللہ انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے —


کل والی پوسٹ کے تسلسل میں اسی قسم کا ایک اور واقعہ یاد آرھا ھے -ایک دن میں داؤدخیل کی ایک گلی سے گذررھا تھا – قصاب کی دکان پر میرے آٹھویں کلاس کے ٹیچر ، ماسٹر رب نواز خان کھڑے تھے— مجھے دیکھتے ھی آواز دی “ منور، ادھر آؤ “
میں نے قریب جا کر سلام کیا تو ماسٹر صاحب نے گوشت کا شاپر مجھے پکڑاتے ھوئے کہا “ بیٹا ، ٰیہ گوشت میرے گھر پہچادو“-

کیا بتاؤں ، کتنی خوشی ھوئی ماسٹر صآحب کا حکم سن کر – وہ جانتے تھے کہ میں اب پروفیسر ھوں ، تین چار بچوں کا باپ بھی – لیکن ان کی نظر میں میں اب بھی وھی آٹھویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – اپنے استاد محترم کا یہ مان اور اعتماد میرے لیے باعث فخر تھا –

میں گوشت کا شاپر لے کر جارھا تھا تو راستے میں میرا ایک سٹوڈنٹ ملا – اس نے پوچھا “سر کدھر جارھے ھیں “
میں نے بتایا کہ ماسٹر رب نواز خان کے حکم کی تعمیل کے لیے جارھا ھوں تو اس نے کہا “ سر‘ شاپر مھے دے دیں ، میں پہنچا دوں گا -“

میں نے کہا “ نہیں بیٹا ، استاد محترم کی خدمت کا یہ اعزاز میں کسی اور کو نہیں دے سکتا – مجھے یہ اعزاز شاید پھر کبھی نصیب نہ ھو“-

استاد محترم کے حکم کی تعمیل کر کے جو خوشی اس دن ھوئی دوبارہ نہیں مل سکتی ، کیونکہ ماسٹر رب نوازخان اب اس دنیا میں موجود نہیں –
— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک–29 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

بھاری بھرکم گیلے سفید کمبل جیسی دھند ، بارش ، شدید سردی – ایسے موسم میں لکھنے پڑھنے کاکام کیا ھوگا – بس حاضری لگوانے والی صورت حال ھے –
موسموں کو خدا جانے کیا ھو گیا ھے – ھر موسم غصے میں لا ل پیلا – گرمی ھوتو ماحول تندور بن جاتا ھے – سردی ھو تو جسم شل ، ٹھنڈی یخ ھوا جسم پر چاقو کی طرح لگتی ھے –
کیا اچھا زمانہ تھا جب ھر موسم کا اپنا دورانیہ ، اپنا مزاج ھوتا تھا – لوگ ان موسموں کے عادی ھؤا کرتے تھے – سردی ، گرمی دونوں قابل برداشت ھوتی تھیں – چٹے ان پڑھ لوگ بھی موسموں کا مزاج جانتے تھے – ان کے اندازے اور پیشین گوئیاں بالکل درست ھوتی تھیں – “چچالی آلا بدل “ شمال مغرب سے گہرے سیاہ رنگ کا بادل جب بھی اٹھتا جل تھل ایک کر دیتا – اب پتہ نہیں وہ کہاں ھوتا ھے – دوتین سال سے نظر نہیں آیا –

زمینداروں کے حساب سے آج کی تاریخ 18 مانہہ ھے – مانہہ کو اردو میں ماگھ کہتے ھیں – مانہہ کے تیسرے ھفتے سے سردی کا زور ٹوٹنے لگتا تھا – اسی وجہ سے پرانے زمانے میں کہا کرتے تھے
ادھ مانہہ تے بھگل بانہہ
مطلب یہ کہ آدھا مانہہ گذر جائے تو سردی اتنی کم ھو جاتی ھے کہ کمبل یا شال بوجھ لگتی ھے ، راہ چلتے لوگ اس بوجھ کو جسم کے گرد لپیٹنے کی بجائے اتار کر کندھے پر ڈال لیتے ھیں –

آج ادھ مانہہ سے بھی تین دن اوپر ھو گئے ، مگر سردی ھے کہ جانے کا نام بھی نہیں لیتی – یہ پوسٹ لکھتے وقت بھی ھم نے دو سویٹر اور ایک جیکٹ پہن رکھی ھے — آتے جاتے موسم تو ھمارے یار ھؤا کرتے تھے ، ھر موسم کے آنے کا انتظار کیا جاتا تھا – تیاریاں کی جاتی تھیں ، اب تو اللہ معاف کرے – – – – – –
— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 30 جنوری  2019

میرا میانوالی—————-

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کا بھائی مسعود میری بی اے کی کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – ایک دفعہ میرے چند پروفیسردوستوں نے کہا ھمیں جیل کی سیر کروائیں – میں نے مسعود سے بات کرلی –

دوسرے دن ھم جیل پہنچے – ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ھماری خوب آؤبھگت کی – پر تکلف چائے پینے کے بعد ھم لوگ ڈپٹی صاحب کی قیادت میں جیل میں داخل ھوئے – بہت وسیع و عریض جیل ھے – ایک بڑے ھال میں قیدیوں کو قالین بناتے دیکھا – ڈپٹی صاحب نے بتایا کہ یہاں سکولوں کے ٹاٹ اور مساجد کے لیے صفیں بھی بنتی ھیں – قالین سازی کا کام بہت باکمال تھا – یہ سب چیزیں مارکیٹ میں مناسب قیمت پر فروخت ھوتی ھیں – ایک حصے میں فرنیچر بھی بنتے دیکھا -مسجد کے قریب سے گذرے تو ایک قیدی ھمارے پیچھے چل پڑا – میں نے مڑ کر دیکھا تو میرے قریب آکر کہنے لگا “ سرجی ، ھم نے مسجد تو بنوالی ھے – کچھ پیسے سرکار نے دیئے تھے ، کچھ ھم نے اپنے طور پر جمع کیے – مزدوری کاکام بھی ھم نے خود ھی کیا – مسجد تو بن گئی مگر اس کے دروازے اور کھڑکیاں ابھی لگانی ھیں – آگے سردی کا موسم آرھا ھے – آپ صاحب سے کہیں کہ مسجد کی کھڑکیاں اور دروازے جلد لگوا دیں – پیسے ھم نے جمع کر لیے ھیں”

میں نے محمود صآحب ( ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ) سے بات کی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ اسی ھفتے یہ کام کروا دیں گے – قیدی یہ سن کر بہت خوش ھؤا ، اور ھم سے ھاتھ ملا کر واپس چلا گیا-

میانوالی جیل تاریخی جیل ھے ، یہاں ذولفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن ٠(بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اعظم) ، مولانا مودودی ، نامور شاعر حبیب جالب ، اور پی پی پی کے بہت سے اھم رھنما بھی پابند سلاسل رھے- غازی علم الدین شہید نے بھی اپنی زندگی کے آخری لمحات اسی جیل میں بسر کیے ——-

رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 31 جنوری  2019

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top