میرا میانوالی

منورعلی ملک کے جولائی 2020 کےفیس بک پرخطوط

یادیں —————— ھارمونیم ، حقہ اور ھم —- 2006
آج کچھ اور مصروفیات کی وجہ سے پوسٹ نہیں لکھ سکتا – اس پکچر کو آج کی حاضری سمجھ لیں –
—————————- رہے نام اللہ کا ———————————بشکریہ-منورعلی ملک- 1جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

اکثر ریلوے سٹیشن انگریزوں کے دور کے بنے ہوئے ہیں – شاندار ، مضبوط عمارتیں ، بھاری بھرکم آرام دہ فرنیچر ان عمارتوں کی پہچان ہے – بڑے سٹیشنوں کی تو شان ہی الگ ہے – لاہور اور پنڈی کے سٹیشن حسن اور وسعت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں –
سٹیشن دو قسم کے ہیں ، عام سٹیشن اور جنکشن سٹیشن – جنکشن سٹیشن وہ ہیں جہاں مختلف سمتوں سے آنے والی دو یا دوسے زائد ریلوے لائینز ملتی ہیں – ھمارا داؤدخیل کا سٹیشن جنکشن ہے کیونکہ یہاں سے میانوالی کو جانے والی ریلوے لائین کے علاوہ ایک ریلوے لائین اٹک ، پنڈی ، پشاور وغیرہ کو بھی جاتی ہے – کندیاں کا ریلوے سٹیشن بھی جنکشن ہے کیونکہ وہاں سے ایک لائین ملتان کو دوسری سرگودہا لاہور کو جاتی ہے – جنکشن بڑے سٹیشن ہوتے ہیں ، دن میں کئی گاڑیاں آتی جاتی ہیں ، اس لیے وہاں ہر وقت رونق لگی رہتی ہے – عام سٹیشنوں سے دن میں ایک آدھ گاڑی گذرتی ہے ، اس لیے وہاں عجیب سی اداسی اور ویرانی چھائی رہتی ہے – اسی حوالے سے جوش ملیح آبادی نے کہا تھا :
لے گئے وہ ساتھ اپنے ، گھر کی ساری رونقیں
دل کا یہ عالم ہے ان کے روٹھ کر جانے کے بعد
جس طرح دیہات کے اسٹیشنوں پر دن ڈھلے
اک سکوت مضمحل گاڑی گذر جانے کے بعد
بچپن میں میں اور میرے کزن غلام حبیب ہا شمی دن کا زیادہ تر حصہ داؤدخیل کے ریلوے سٹیشن پر آتی جاتی گاڑیاں دیکھنے میں صرف کرتے تھے – بس ایک شوق تھا ، ورنہ شہر سے ایک ڈیڑھ میل دور سٹیشن پر جانے کا کوئی تک تو نہیں بنتا تھا – اس آوارہ گردی پر کئی دفعہ گھر والوں سے مار بھی کھائی – ہمارے چچا جی مرحوم ملک محمد صفدر علی ہم دونوں کو ٹیشن آلے کتے کہا کرتے تھے ——– کیا خوبصورت زمانہ تھا –
——————————————– رہے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 1جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

الحمد للہ ————– حق بہ حق دار رسید
میانوالی کے لیے ایک اور اعزاز —————–
نوجوان سرائیکی شاعر محمد ظہیراحمد مہاروی کے تازہ شعری مجموعے “ الآء “ کو اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ کا مستحق قرار دے دیا گیا-
یہ سب سے بڑا قومی ایوارڈ بہت کڑی شرائط پر نمایاں کارکردگی کی بنا پر دیا جاتا ہے –
بہت سخت مقابلہ ھوتا ہے – ملک بھرسے آئی ہوئی کتابوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نامور اھل علم و قلم کا ایک بورڈ کرتا ہے – محمد ظہیراحمد سے پہلے یہ ایوارڈ پروفیسرمحمد سلیم احسن کی کتاب “جکھڑجھولے“ کو آج سے تقریبا 30 سال قبل ملا تھا –
گلوکاری کے میدان میں حسن کارکردگی پر یہ ایوارڈ لالا عیسی خیلوی ، اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مقالہ نگاری پر یہ ایوارڈ مرحوم پروفیسر ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی کے حصے میں آیا تھا –
پروفیسرمحمد سلیم احسن ، لالاعیسی خیلوی اور ڈاکٹر غلام سرورخان نیازی —– ان لیجنڈ لوگوں کی فہرست میں شمولیت بھی اپنی جگہ بہت بڑا ایوارڈ ھے – محمد ظہیراحمد میانوالی میں یہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں سب سے کم عمر ہیں –
ظہیر کا یہ اعزاز پورے ضلع میانوالی کا اعزازھے – یہاں کی نوجوان نسل کے شعراء میں ظہیر کا انداز سخن سب سے الگ اور زیادہ مؤثر ہے – وہ جو غالب نے کہا تھا
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
کچھ ایسی ہی بات ادھر بھی ہے ——————
ظہیر بیٹا ، دل کی گہرائیوں سے مبارک باد – رب کریم آپ کوبے حساب کامیابیاں عطا فرمائے-
————————————— رہے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک- 3 جولائی 2020

اپنا پرانا شعر    ————–
ان سے ملنے پہ بھی لوگوں نے بنائیں باتیں
اور اب ان سے نہ ملنے پہ بھی رسوائی

میرا میانوالی —————————

کسی زمانے میں میں نے کہا تھا —————
نت میں نویں گل تے دل کوں ولینداں
آج کل اپنے اسی قول پر عمل کر رہا ہوں – وجہ آپ جانتے ہیں –

اب کسی موضوع پر مسلسل پوسٹس لکھنے کی بجائے جو جی میں آئے لکھ دیتا ہوں – پہلے صرف آپ کے لیے لکھتا تھا اب اپنے لیے بھی لکھتا ہوں – روزانہ صبح کسی نئی سمت میں نکل جاتا ہوں – کبھی ماضی کے قصے ، کبھی حال کی باتیں ، کبھی اخبار کی کسی خبر پہ تبصرہ —— تھک تو نہیں جاتے اس بے سمت سفر میں آپ لوگ —— ؟؟؟؟؟
لالا ھررات زیادہ تر گیت اور ڈوھڑے راگ بھیرویں میں گاتا تھا —- مجھے اور ماسٹر وزیر کو بھیرویں ذرا بھی اچھی نہیں لگتی تھی – جب لالا بھیرویں کا گیت شروع کرتا ہم دونوں صحن میں بیٹھ کر بڑبڑاتے رھتے ، ایویں ای بور کر رہا ھے – بھیرویں بھی کوئی راگ ہے –
شروع میں ہم نے احتجاج کیا تو لالا نے بڑے نخرے سے کہا —————– “بھائی صاحب ، جس کے لیے گاتا ہوں ، بھیرویں اسے اچھی لگتی ہے “-
ماسٹر وزیر نے کہا “بھیرویں اسے اچھی لگتی ہے تو ہارمونیم اٹھاؤ اور اسی کو جا کر سناؤ ، ہمیں کیوں پریشان کرتے ہو ؟ “
اس بات پرلالا سمیت سب دوستوں نے زبردست قہقہہ لگایا –
اس بات کا کم از کم اتنا اثر ہوا کہ لالا ہماری پسند پر جوگ اور پہاڑی کےگیت (کرکرمنتاں سجن دیاں اور کالا شاہ بدلا وغیرہ ) بھی روزانہ گانے لگا –
———————————————– رہے نام اللہ کا—بشکریہ-منورعلی ملک- 4 جولائی 2020

 

میرا میانوالی —————————

گھڑا ہمارے کلچر کا ایک خوبصورت مظہر ہے – یہ کمہار لوگ مقامی مٹی سے بناتے ہیں – ہر علاقے کی مٹی کی اپنی تاثیر ہوتی ہے – ہمارے علاقے میں عیسی خیل کے گھڑے بہت مشہور رہے ہیں – ان میں پانی جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور مسلسل ٹھنڈا ہوتا رہتا ہے –
اب تو فریج آگئے ہیں ، لوگ فریج کا ٹھنڈا پانی استعمال کرتے ہیں – گھڑا اب ممی ڈیڈی کلچروالے امیر گھرانوں کے ڈرائنگ رومز میں کلچر سمبل کے طور پر رکھا نظر آتا ہے – اس میں پانی نہیں ڈالتے بس ڈیکوریشن پیس کے طور پہ استعمال کرتے ہیں –
گھڑے کے حوالے سے کئی محاورے بھی ہیں – مثلا بہت تیز بارش کو گھڑے بوڑ مینہ کہتے ہیں – ایک محاورہ ہے ٹھڈا گھڑا آپنڑیں آپ کو چھاں تے رکھویندا اے – مطلب یہ کہ جس انسان میں کوئی خوبی ہو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں –
گھڑے کے حوالے سے کئی لوک گیت بھی ہیں – مجبورعیسی خیلوی صاحب کا گیت —– گھڑا پئی بھرینی آں لالا کی آواز میں بہت مقبول ہؤا –
جوڑی بٹ ناں چائی کر گھڑیاں دی
لالا عیسی خیلوی کا سب سے لچا لفنگا گیت ہے – پتہ نہیں یہ کس نے لکھا ، لالا کو یہ گیت استاد امتیاز خالق سے ملا تھا – ظلم یہ ہؤا کہ رحمت گراموفون کے کیسیٹ والیوم 5 میں اس گیت کے ساتھ میرا نام لکھ دیا گیا – یہ لالا کی شرارت تھی – جب لالا کے پہلے چار والیوم ریکارڈ ہوئے تو میں نے لالا سے کہا تھا کہ میرے کسی گیت کے ساتھ میرا نام نہ لکھوانا – لوگ کیا کہیں گے انگریزی کا پروفیسر سرائیکی میں گیت لکھتا ہے – لالا نے پہلے چار والیومز میں تومیرے کسی گیت کے ساتھ میرا نام نہ لکھوایا ، اس منحوس گیت کے ساتھ میرا نام لکھوا دیا جسے سنتے ہوئے بھی مجھے تو شرم آتی ہے – شکر ہے لوگ مجھے جانتے ہیں ،اس لیے اکثر لوگوں نے خود ہی اندازہ لگا لیا کہ یہ میرا گیت نہیں ہو سکتا – اس لیے میں نے بھی لالا سے اس حرکت پر زیادہ لڑائی جھگڑا نہیں کیا –
——————————————– رہے نام اللہ کا —

بشکریہ-منورعلی ملک- 5 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

آج کی پکچر ————– پٹرول کی نایابی کا ایک حل یہ بھی ھے –

بشکریہ-منورعلی ملک- 6 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

رزق میں برکت ہوتی تھی – کھانے پینے کی ہر چیز اپنے ہاتھوں کی حق حلال کمائی ہوتی تھی – اپنے کھیت کی دیسی گندم ، کیمیائی کھاد کے زہریلے اثرات سے پاک – گندم دو طرح کی ہوتی تھی ، دیسی اور ولائیتی ، دیسی گندم سرخی مائل رنگ کی ہوتی تھی ، اس لیے اسے رتٰی (لال) کنڑک کہتے تھے – ولایتی گندم کا دانہ اور آٹا سفید رنگ کا ہوتا تھا ، اس لیے یہ چٹی (سفید) کنڑک کہلاتی تھی —
تازہ روٹی کی اپنی خوشبو ہوتی تھی ، اپنا ذائقہ — روٹی ٹھنڈی بھی ہوتی تو پھولوں کی طرح نرم رہتی تھی – کسی سالن کے بغیر ، روکھی روٹی کھانے کا ایک الگ مزا ہوتا تھا –
سو فیصد خالص دودھ ، گھی ، مکھن بھی اپنے گھر کی گائے یا بھینس کا ہوتا تھا – ان مویشیوٰں کی خوراک بھی سو فیصد خالص قدرتی گھاس ہوتی تھی – آج کل تو دیسی دودھ ، گھی کے ذائقے میں بھی کیمیائی کھاد کی ملاوٹ محسوس ہوتی ہے کیونکہ چارہ ،برسیم وغیرہ کیمیائی کھاد کی پیداوار ہوتا ہے –
آبادی اب کی نسبت بہت کم تھی ، اس لیے بارانی زمین کی کم پیداوار بھی کافی ہوتی تھی- دولت کی حرص کا نام و نشان تک نہ تھا ، لوگ اپنی حالت پر صبر ، شکر کرتے تھے – جسمانی محنت اور خالص خوراک کی وجہ سے لوگوں کی صحت بھی قابل رشک ہوتی تھی – رزق حلال کی وجہ سے دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————————————— رہے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک-7 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

داؤدخیل میں فروٹ کی کوئی دکان نہ تھی – اس موسم میں خربوزہ ، تربوز (ھدوانڑاں) اور تازہ کھجور کریانے کی دکانوں پر مل جاتی تھی – ہمارے علاقے میں ٹولے کا خربوزہ بہت مشہور و مقبول تھا – کیا عجیب نعمت تھی رب کی – اس کی دلکش مست خوشبو راہ چلتے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی – ذائقے میں شہد جیسا میٹھا، شکل وصورت میں منفرد – ہلکے زرد رنگ کے لمبوترے خربوزے کے علاوہ سبز اور زرد رنگ کے گول خربوزے بھی ہوتے تھے – ذائقے میں ایک سے بڑھ کر ایک –
یہ خربوزے ٹولے کے خربوزے اس لیے کہلاتے تھے کہ ابتدا میں یہ ہمارے ضلع کے پشتون علاقہ ٹولہ بانگی خیل اور ٹولہ منگ علی سے آتے تھے – وہ لوگ ان کا بیج شاید افغانستان سے لائے تھے – ٹولہ سے یہ خربوزے کالاباغ ، داؤدخٰیل ، کمر مشانی آتے تھے – بعد میں داؤدخٰیل کچہ کے گاؤں گندہ (موجودہ نام توحید آباد) میں بھی ٹولے کا خربوزہ وسیع پیمانے پر کاشت ہونے لگا – داؤدخیل میں یہ خربوزہ زیادہ تر توحید آباد ہی سے آتا تھا – شاید اب بھی آتا ہو-
بچپن میں ہمیں ہمارے گھر کے لوگ خربوزہ کھا نے کے بعد پانی نہیں پینے دیتے تھے – کہتے تھے اس سے ہیضہ ہو جاتا ہے – واللہ اعلم –
خربوزہ کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ نبیءاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسندیدہ پھل ہے –
تربوز ہمارے ہاں اچھا نہیں ملتا تھا ، موٹے بیج والا ہلکے سبز رنگ کا گہرے سبز رنگ کی دھاریوں والا تربوز کنؤوں پر کاشت ہوتا تھا – چار پانچ میں سے ایک آدھ کام کا نکلتا تھا ، باقی تین چار چٹے سفید بالکل بے ذائقہ – لوگ کنؤؤں پر جا کر ہی خریدتے تھے – چاقو سے تربوز کا ایک آدھ ٹکڑا کاٹ کر چیک کر لیتے تھے کہ سرخ ہے یا سفید – لیکن کنؤوں والے ایک آدھ بار سے زیادہ یہ سہولت نہیں دیتے تھے –
آج کل ہمارے علاقے میں منکیرہ (ضلع بھکر) کے خربوزوں اور بھاری بھرکم بہت میٹھے تربوزوں کی دھوم ہے – یہ تربوز پتہ نہیں کہاں سے آتے ہیں – اندر سے گہرے لال سرخ ، اور شرطیہ میٹھے – یہ پاکستان میں ہر جگہ ملتے ہیں –
————————————————– رہے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 8 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

چشمہ بیراج کے پار ڈی آئی خان (ڈیرہ اسمعیل خان) جاتے ہوئے بلوٹ کے نواح میں سڑک کے کنارے ڈھکی نام کا چھوٹا سا گاؤں اعلی قسم کی کھجور کا مرکز ھے – ویسے تو یہاں کئی قسم کی کھجور پیدا ھوتی ہے – المدینہ نامی تجارتی ادارے کا دعوے ہے کہ ان کے ہاں 24 قسم کی کھجور دستیاب ہے – عراق ، ایران اور سعودی عرب کی کھجور کی ھر ورائیٹی بھی ان کے ہاں ملتی ہے – لیکن ڈھکی کی مقامی کھجور ڈھکی سپیشل سائز ، رنگت اور ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے – اک عجب تاثیر رکھی ہے رب کریم نے اس ویران علاقے کی مٹی میں —– ڈھکی سپیشل کی تعریف الفاظ میں ناممکن ہے – کبھی چکھ کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ اللہ کریم کی کتنی بڑی نعمت ہے – یہ کھجور دیر سے پکتی ہے ، عام طور پر اگست کے آخر یا ستمبر کے اوائل میں دستیاب ہوتی ہے –
ریٹائرمنٹ سے پہلے ہم پروفیسرصاحبان کا ایک گروپ ہرسال پروفیسر لالا فاروق صاحب کی گاڑی میں میانوالی سے ڈھکی جایا کرتا تھا – یہ گروپ میرے اور لالا فاروق کے علاوہ پروفیسرمحمد سلیم احسن، پروفیسر مقصود صاحب اور پروفیسر پیر اقبال شاہ صاحب (مرحوم) پر مشتمل تھا – ایک آدھ بار پروفیسر سرور خان صاحب بھی ہمارے ہمسفر تھے –
ڈھکی میں ہماری منزل شاہجہان کی کھوڑی ھؤا کرتی تھی – کھوڑی دوچار کنال کا احاطہ ہوتا ہے جس میں کھجور پکنے کے مراحل طے ہوتے ہیں – دھوپ میں چٹائیوں پر مختلف قسم کی کھجور الگ الگ بچھی ہوتی ہے – جو کھجور پک جاتی ہے ، اسے ایک سائبان کے سائے میں ذخیرہ کردیا جاتا ہے – خرید و فروخت سائبان میں کی جاتی ہے – شاہ جہان کی کھوڑی کے باہر مہمانوں کے لیے ایک چھپر بھی تھا ، بہت مہمان نواز تھے شاہجہان خان – بہت زبردست چائے پانی بھی پلاتے تھے – مال بھی صاٍف ستھرا اور مناسب رعایت پر دیتے تھے –
بڑی مدت بعد اس سال پھر ڈھکی جانے کا ارادہ بن رہا ہے ان شآءاللہ —- اللہ کرے ہمارے دوست شاہجہان زندہ و سلامت ہوں تو سیدھے انہی کے پاس جائیں گے – وہ نہ ملے تو کسی اور کھوڑی سے معاملات طے کر لیں گے –——————————————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 9 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

کنؤاں کلچر بھی ختم ہؤا ——-
کنؤاں پینے کے پانی کے علاوہ نہانے دھونے اور کاشتکاری کے لیے بھی پانی کی فراہمی کا وسیلہ ہؤا کرتا تھا – کنوئیں کو اردو میں کنواں ، فارسی میں چاہ ، انگریزی میں Persian wheel اور ہماری زبان میں کھو khoo کہتے تھے – اس کے انگریزی نام سے پتہ چلتا ہے کہ کنواں ایران کی ایجاد ہے –

داؤدخیل میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 15 کنوئیں تھے – ان میں سے دوتین ھندؤوں کی ملکیت تھے ، باقی مختلف قبیلوں ، شکورخیل ، رب زئی ، خانے خیل ۔ شنے خیل ، بہرام خیل وغیرہ سے منسوب تھے –
کنوئیں کی ساری مشینری لکڑی کی ہوتی تھی – کھارا، چکلی ، لیٹنڑں ، کانجنڑں – پڑچھا ، بیڑ ، کتا ، اڈ ، گادی ، ماہل ، لوٹے اس مشینری کی مختلف پارٹس تھے – ان کے بارے میں آپ کو بتاؤں بھی تو آپ سمجھ نہیں سکیں گے ، صرف ان کے نام ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھا – کنؤاں چلانے کے لیے بیل یا اونٹ power کاکام دیتے تھے –
بعد میں لوہے کی مشینری آگئی اور لکڑی کی مشینری کا رواج جاتا رہا –
کنؤاں آبادی اور سر سبزی کی علامت تھا – بارانی علاقے میں یہ ایک نعمت سمجھا جاتا تھا – کیونکہ بارش کے پانی سے تو سال میں صرف گندم کی فصل ہی پل سکتی تھی – کنوئیں کا پانی حسب ضرورت کسی بھی وقت استعمال ہو سکتا تھا – سبزیوں اور چارے کی کاشت کنوئیں کے پانی سے ہی ممکن تھی-
اب نہر اور ٹیوب ویل سے آبپاشی ہوتی ہے – پیداوار تو زیادہ ہوتی ہے لیکن وہ رونقیں جو کنوئیں سے منسوب تھیں ، اب وہ نہیں رہیں –
اب کوئی —- تیڈے کھو تے آئی آں —- کہے تو کون سمجھے گا کہ قصہ کیا تھا –
—————————————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 10 جولائی 2020

میرا میانوالی —————

کمپیوٹر اور موبائیل فون نے محکمہ ڈاک کا کام تقریبا ٹھپ کردیا – کیا زمانہ تھا جب رابطے کا ذریعہ صرف ڈاک سے بھیجے گئے خط ہؤا کرتے تھے – لوگ دوسرے شہروں میں رہنے والے دوستوں ، رشتہ داروں کو خط لکھ کریا لکھوا کر محکمہ ڈاک کے لفافے میں ڈال کر ڈاک خانہ (پوسٹ آفس) کے سامنے لگے ہوئے لال رنگ کے لیٹر بکس میں ڈال دیتے – عام طور پر خط دوتین دن میں منزل مقصود پر پہنچتا تھا – اتنے ہی دن خط کا جواب پہنچنے میں لگتے تھے- لوگ اپنی گلی میں ڈاکیئے کی آمد کے منتظر رہتے تھے – ڈاکیے کو آتے دیکھ کر ہی دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں – کانپتے ہاتھوں سے خط وصول کر کے فورا پڑھا یا پڑھوایا جاتا –
زیادہ مسئلہ ان پڑھ لوگوں کا ہوتا تھا – دیہات میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوتے تھے – عام طور پر لوگ سکول جاکر ٹیچرز سے خط پڑھواتے اور لکھواتے تھے – سکول کے بچوں سے بھی یہ کام لیا جاتا تھا – جب میں تیسری کلاس میں پہنچا تو محلے کی اکثر بزرگ خواتین اپنے بیٹوں بیٹیوں کے نام خط لکھوانے کے لیے میری خدمات سے استفادہ کرنے لگیں –
ماسی گل بختے نام کی ایک خاتون میری امی کی سہیلی تھیں – ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کے نام خط لکھوایا – ان کی بیٹی کراچی میں رہتی تھیں ، داماد محمد خان کراچی پولیس میں ملازم تھے – ماسی بہت غصے میں تھیں ، جوجو گالیاں بولتی گئیں میں ویسی کی ویسی ہی لکھتا گیا –
کچھ دن بعد ان کی بیٹی اور داماد واپس داؤدخیل آئے تو ان کے داماد مجھ سے مل کر بہت ہنسے ، کہنے لگے جوان کمال کردیا تم نے , ماسی کی ایک ایک گالی صحیح سالم ہم تک پہنچا دی –
———————————————- رہے نام اللہ کا————-بشکریہ-منورعلی ملک- 12 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

جب میں داؤدخیل سکول میں انگلش ٹیچر تھا ، ایک دن ڈاکیا سکول کی ڈاک لایا تو اس نے ایک خط ہمیں دکھا کر کہا جو نام اس خط پر لکھا ہے اس نام کا کوئی آدمی شہر میں نہیں ملا – اس خط کا کیا کروں –
ھمارے ساتھی انگلش ٹیچر غلام مرتضی خان نے کہا ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے، خط کھول کر دیکھ لیتے ہیں ، شاید کچھ اتا پتہ چل جائے –
ہم نے خط کھول کر دیکھا ، قبائیلی علاقے کی کسی خاتون کا خط تھا ، اپنے شوھر کے نام – خط کا پہلا جملہ یوں تھا :
تم جیسا داؤس آج تک پیدا نہیں ہؤا- کدھر مرگیا ہے تم – 3 مہینے سے تم نے ایک پیسہ نہیں بھیجا – تم ——— آگے لمبی لمبی گالیاں تھیں ، اب یاد نہیں کون کون سی گالیاں تھیں ، یاد آ بھی جائیں تو لکھ نہیں سکوں گا –
مرتضی خان نے خط پڑھ کر سنایا تو ڈاکیا بھی ہنس پڑا –
مسئلے کا ممکن حل ہم نے ڈاکیے کو یہ بتایا کہ خط اپنے پاس رکھیں ، شاید اس کا مالک اس کا پوچھنے کے لیے پوسٹ آفس آنکلے – لیکن یہ اندازہ بھی غلط نکلا- خط کا کوئی وارث ہمارے شہر میں نہ نکلا –
—————————————————- رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 13 جولائی2020

میرا میانوالی —————————

خط پرپتہ لکھا ہوا تھا ——-
پروفیسر منورصاحب
گورنمنٹ کالج میانوالی
کھول کر دیکھا تو دن میں تارے نظر آگئے – سردی کا موسم تھا ، پھر بھی پسینہ آگیا –
یہ خط چار صفحے کا بھرپور ، والہانہ love letter تھا –
لکھا تھا ——————
آپ بہت بے وفا ہیں ، میں مرجاؤں گی ، آپ کے بغیر ایک منٹ نہیں رہ سکتی ، وغیرہ ۔ وغیرہ ، وغیرہ ، وغیرہ —–
یا اللہ خیر —– پانچ جوان بچوں کے باپ کے ساتھ ایسا والہانہ عشق —— لاحول ولا قوہ الا باللہ-
پھر سوچا میں کیا کر سکتا ہوں ، جو ہوگا دیکھا جائے گا ، فی الحال تو جاکر اپنی بی اے کی کلاس کو انگلش پڑھانی ہے –
خط پھاڑ کر پھینکنے لگا تو یاد آیا کالج میں منور نام کے ایک اور پروفیسر صاحب بھی ہیں – 6 فٹ قد کے،گھنگھریالے بالوں والے نوجوان ، یہ واردات یقینا ان کے ساتھ ہو رہی ہوگی – ان کی تلاش میں نکلا تو برآمدے میں مل گئے – میں نے صورت حال بتائی تو شرما کر بولے “ سر، کوئی بات نہیں ، یہ خط میرا ہی ہوگا “
یہ کہہ کر وہ خط اطمینان سے پڑھنے کے لیے کسی گوشہ ء تنہائی کی تلاش میں نکل گئے ، اور میں نے اطمینان کا گہرا سانس لے کر کلاس کی راہ لی ، راستے میں کالج آفس والوں کو بتا دیا کہ جس خط پر میرا پورا نام منورعلی ملک لکھا ہو صرف وہی خط مجھے بھیجا کریں ، منورصاحب نام کے بقیہ خطوط دوسرے منورصاحب کو دے دیا کریں ، انہیں بہت ضرورت رہتی ہے اپنے نام خطوط کی –
——————————————– رہے نام اللہ کا—بشکریہ-منورعلی ملک- 14 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

سالگرہ مبارک —– 1
بحمداللہ ہمارا فیس بک کا سفر آج چھٹے سال میں داخل ہو رہا ہے –
اس سفر کا آغاز2015 میں ہوا تھا – میں نے یہ سفر اپنی خوشی سے شروع نہیں کیا تھا ، بلکہ اچانک کسی نے دھکا دے کر مجھے اس سفر پہ رواں دواں کردیا –
میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی کا اصرار تھا کہ آپ فیس بک پہ پوسٹس لکھنا شروع کریں – میں فیس بک کو بچوں کا شغل سمجھ کر گریز کرتا رہا – اکرم بیٹا میرا فیس بک پیج بنا کر کبھی کبھار میری شاعری میں سے کچھ نہ کچھ پوسٹ کرنے لگے – لوگوں کا رسپانس دیکھ کر حیران رہ گئے ، میرے ہزاروں سٹوڈنٹس ، احباب ، لالا عیسی خیلوی کے حوالے سے میرے ہزاروں چاہنے والے میرے فیس بک فرینڈز بن گئے – بہت خوبصورت کمنٹس آنے لگے –
ایک دن اکرم بیٹے نے یہ سب کچھ مجھے دکھا کر کہا “ ابو، یہ دیکھیں ، آپ کے کتنے چاہنے والے دنیا کے کونے کونے سے آپ کو کتنے پیار سے روزانہ یاد کررہے ہیں – اب پلیز آپ براہ راست خود ان سے بات کیا کریں “-
صرف یہی نہیں ، اکرم بیٹے نے اس کام کے لیے مجھے Lenovo کا خوبصورت لیپ ٹاپ بھی لا کر دے دیا – اور فیس بک کے کام کے بارے میں بنیادی معلومات بھی فراہم کر دیں –
میں نے فیس بک پہ پہلی پوسٹ انگلش میں لکھی ، کیونکہ ابھی مجھے اردو میں ٹائیپ کرنا نہیں آتا تھا – چند دن بعد یہ کام بھی سیکھ لیا تو روزانہ ایک پوسٹ اردو ، ایک انگلش میں لکھنے لگا – انگلش تو خیر بہت کم مسلمانوں کے حلق سے نیچے اترتی ہے ، اس لیے انگلش پوسٹس پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم رہی – اردو پوسٹس کو بے حساب پذیرائی ملی –
دوتین ماہ میں فرینڈز کی تعداد 5000 ہوگئی تو فیس بک نے بریک پہ پاؤں رکھ دیا کہ اس سے زیادہ فرینڈز بنانے کی اجازت نہیں – پھر لوگ فالوورز Followers کی راہ سے آنے لگے – اللہ کے فضل و کرم سے آج اس وقت تک 5000 فرینڈز کے علاوہ فالوورز کی تعداد 8438 ہو چکی ہے –
اس خوشگوار سفر کی کچھ روداد کل بتاؤں گا ، ان شآءاللہ –
———————————————— رہے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک- 15 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

اللہ کے فضل و کرم سے فیس بک کی دنیا میں اتنی محبت، احترام اور دعائیں ملیں کہ میں نے روزانہ لکھنا اپنا فرض سمجھ لیا – اب تک 1700 سے زائد پوسٹس اردو اور 1500 سے زائد انگلش میں لکھ چکا ہوں – ان پوسٹس کے موضوعات کی تفصیل کچھ یوں ھے –
١۔ میانوالین کلچر —– زبان ، لباس ، غذا ، معاش ، تعلیم ، موسیقی
٢۔ شہر / گاؤں (صرف ان شہروں اور دیہات کے بارے میں پوسٹس لکھی ہیں جہاں میں کچھ عرصہ رہا ، یا جہاں میں متعدد مرتبہ آتا جاتا رہا)- ——- داؤدخیل ، میانوالی ، عیسی خیل ، ترگ ، مکڑوال ، کمر مشانی ، مندہ خیل ، کالاباغ ، موچھ ،
لاہور ، راولپنڈی ، اسلام آباد
٣- شخصیات —— اپنے ٹیچرز ، رفقائے کار –
٤۔ آپ بیتی —— اپنے خاندان ، تعلیم ، ملازمت اور بچپن کے اہم واقعات
٥۔ شاعر ، ادیب ——- ضلع میانوالی کے اہم اردو ، سرائیکی شعراء پر الگ الگ پوسٹس
٦۔ فیس بک سے دوستی —— ابتدائی دور کے فیس بک فرینڈز کا تعارف
فی الحال یہی موضوعات یاد آرہے ہیں – ان میں سے ہر موضوع پر متعدد پوسٹس لکھیں – ان کے علاوہ بھی کسی نہ کسی حوالے پوسٹس کبھی کبھار لکھتا رہتا ہوں-mianwali org Logo
اللہ مسبب الاسباب ہے – ان پوسٹس کے تحفظ کا کام عیسی خیل کے کرنل شیر بہادر خان نیازی نے کردیا – میری تمام پوسٹس ان کی ویب سائیٹ Mianwali.org میں محفوظ ہیں – اور وہ مسلسل یہ کام کر رہے ہیں – اللہ کریم انہیں بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے –
————————————————- رہے نام اللہ کا—-بشکریہ-منورعلی ملک- 16 جولائی 2020

———————-اپنا پرانا شعر ——————

بشکریہ-منورعلی ملک- 16 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

احتساب ———
ھرسال فیس بک کی دنیا میں اپنی آمد کی سالگرہ پر سب دوستوں کو احتساب کی دعوت دیتا ہوں – آج بھی یہی گذارش کرنی ہے ——- کوئی شکوہ ، شکایت ، تجویز ، مشورہ , فرمائش ؟؟؟؟
اپنی دوخامیوں کا اعتراف خود کیئے دیتا ہوں – ایک تو یہ کہ میں عام طور پر کمنٹس کا جواب نہیں دیتا –
دوسری یہ کہ میں دوسرے دوستوں کی پوسٹس پر کمنٹس نہیں دیتا –
اپنی ان دونوں کوتاہیوں پر ندامت کا احساس مسلسل رہتا ہے – ایک بار پھر معذرت خواہ ہوں – مصروفیات اور صحت کے مسائل کی وجہ سے فیس بک کو زیادہ وقت نہیں دے سکتا – بہرحال ، آئندہ اس کام کے لیے کچھ زیادہ وقت بچانے کی کوشش کرکے جس حد تک ممکن ھؤا دوستوں کی شکایات کا ازالہ کردوں گا –
آخر میں ایک بار پھر وہی سوال ——– کوئی شکوہ ، شکایت ، مشورہ ، تجویز, فرمائش ——- ؟؟؟؟
——————————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 17 جولائی 2020

 

 

 

میرا میانوالی —————————

آج تار (Telegraph) کے بارے میں لکھنا تھا تو مرحوم دوست بابائے تھل فاروق روکھڑی یاد آگئے – جناب فاروق روکھڑی محکمہ ریلوے میں تار بابو (ٹیلیگراف کلرک / سگنیلر) تھے- تار کا ذکر کل سہی ، آج کادن فاروق روکھڑی کے نام –
فاروق روکھڑی بہت خوبصورت مترنم شاعر تھے – پروفیسر گلزار بخاری ، میں اور فاروق روکھڑی میانوالی کے شعری افق پر ایک ساتھ نمودار ہوئے – تینوں مترنم شاعر تھے ، مشاعرے لوٹا کرتے تھے – فاروق روکھڑی صاحب بھی ابتدا میں ہماری طرح اردو غزل کے شاعر تھے (ہم تم ہوں گے بادل ہوگا) —- بعد میں سرائیکی گیت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے تو ادھر ہی کے ہو کر رہ گئے – “کاغذ دی بیڑٰی“ ان کا پہلا مجموعہ تھا-
جناب فاروق روکھڑی کو لازوال شہرت گیتوں سے ملی – خاص طور پر ان کے دو گیت کنڈیاں تے ٹر کے آئے ، تیڈے کولوں پیروں وانڑیں
اور ——- پی کے لہو لوکاں دا بنڑیں منہ زور وے
لا لا عیسی خیلوی کے مقبول ترین گیتوں میں شمارہوتے ہیں – ان کے علاوہ بھی فاروق روکھڑی صاحب کے تمام گیت بہت مقبول ہوئے —-
امیروں ، جاگیرداروں پر تنقید اور غریبوں مزدوروں کی حمایت فاروق روکھڑی کا پسندیدہ موضوع تھا – سرائیکی گیت نگاروں میں اس موضوع پر لکھنے والے اکلوتے شاعر فاروق روکھڑی ہی تھے –
فاروق روکھڑی اپنی خدادا مترنم آواز کی مدد سے اپنے گیتوں کی دھنیں بھی خود مرتب کرتے تھے –
بہت سادہ مزاج ، دوستدار ، مہمان نواز تھے – ھر طبقے کے لوگ ان کے احباب میں شامل تھے –
بہت سی حسین یادیں چھوڑ گئے – بے شمار لوگوں کو اداس کر گئے – بہت یاد آتے ہیں ، ھمیشہ یاد آتے رہیں گے –
——————————————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 18 جولائی 2020

 

 

 

میرا میانوالی —————————

کل فاروق روکھڑی صاحب کا ذکر تو یادوں کی رو میں بہہ کر کرنا پڑگیا – ان کے بارے میں مفصل ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں – اس لیے یہ شکوہ درست نہیں کہ میں نے ان کے بارے میں بہت مختصر لکھا ہے – ھمارے بہت قریبی دوست تھے – جب بھی یاد آئیں گے کچھ نہ کچھ ان کے بارے میں لکھتا رہوں گا –
ویسے میں ایک بار جس موضوع پر لکھ دوں اس پر دوبارہ لکھنا اچھا نہیں لگتا – لیکن جو ساتھی یہ دنیا چھوڑ گئے انہیں یاد رکھنا میرا فرض ہے – رب کریم ان سب کی مغفرت فرمائے ، میرے قلم پہ ان کا حق بنتا ہے- ان کی یادیں میرے پاس امانت ہیں ، یہ امانتیں ان کے چاہنے والوں تک پہنچانا مجھ پہ واجب ہے –
اب ایک بار پھر یادوں کی گلی سے گذرنا پڑہی گیا تو چلیں ایک بار پھر ان سب مہربانوں کا ذکر ہو جائے –
میرے یہ ساتھی وہ لوگ ہیں جو لالا عیسی خیلوی کے حوالے سے دنیا بھر میں معروف و مقبول ہوئے – یہ غریب لوگ ہیں ، ادب اور میڈیا کے اونچے ایوانوں تک رسائی ان کے لیے ناممکن تھی – لیکن رب کا خصؤصی کرم ہؤا کہ ان کی تشہیرو تعارف کے لیے لالا عیسی خیلوی کی پر سوز آواز انہیں میسر ہوگئی – یوں یہ لوگ 1980 سے 2000 تک کے عرصے میں دنیا بھر میں متعارف اور مقبول ہوگئے – ان کے گیت جج ، جرنیل ، افسر اور سیاسی قائدین بھی بڑے شوق سے سنتے رہے ، صاحب ذوق لوگ اب بھی سنتے ہیں –
گذشتہ تین چار سال میں میں مرحوم یونس خان (کرکرمنتاں یار دیاں ) ، مجبورعیسی خیلوی صاحب ، ناطق نیازی، عتیل عیسی خیلوی، اظہر نیازی، فاروق روکھڑی ، ملک آڈھا خان، ملک سونا خان بے وس ، بری نظامی ، منشی منظور، محمد محمود احمد ہاشمی , محمدافضل عاجز ، نیئر سوچ کے بارے میں لکھ چکا ہوں – ان میں سے اظہر نیازی، ملک سونا خان بے وس اور افضل عاجز بحمداللہ اس دنیا میں موجود ہیں – باقی سب لوگ سرحد حیات کے اس پار جابسے – اللہ جانے کیسے ہیں ،کس حال میں ہیں ، بہت یاد آتے ہیں –
——————————————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-19 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

کل کی گفتگو کے حوالے سے کئی دوستوں نے اظہر نیازی صاحب کے بارے میں دریافت کیا ہے
جن اظہر نیازی صاحب کا میں نے ذکر کیا ہے وہ کمر مشانی کے رہنے والے ہیں – بہت اچھے شاعر ہیں – بہت خوبصورت گیت لکھتے تھے ، مگرگیت نگاری بہت عرصہ ہؤا ترک کردی – اب سناہے صرف نعتیں لکھتے ہیں – بہت مبارک کام ہے، اللہ قبول فرمائے –
جب میں عیسی خیل کالج میں لیکچرر اور لالا عیسی خیلوی کے میکدے کا مستقل ساتھی تھا، اظہر نیازی صاحب کبھی کبھار موسی خیل کے معروف شاعر ظفرنیازی (ظفراقبال خان نیازی) کے ساتھ وہاں تشریف لایا کرتے تھے – ظفراقبال خان نیازی ان دنوں گورنمنٹ ہائی سکول کمر مشانی میں تعینات تھے –
اظہر نیازی بہت خوبصورت گیت لکھ کر لاتے تھے – لالا ان کی موجودگی میں گیت کی دھن بنا کر گا دیتے تھے – یوں اظہر نیازی کی آمد سے محفل کو چار چاند لگ جاتے تھے – یہ وہ دور تھا جب لالا کی گلوکاری میکدے کے کمرے تک محدود تھی –
ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک بھر میں لالا کا پہلا تعارف اظہر نیازی کا گیت بنا – گیت کے ابتدائی بول تھے
بے پرواہ ڈھولا کیوں ڈتا ای ساکوں رول
یہ گیت لالا نے طارق عزیز کے پروگرام “نیلام گھر“ میں پیش کیا تھا –
اظہر نیازی کے سب گیت بہت مقبول ہوئے – ان کا گیت —— شالاتیری خیر ہووے وسیں پیا کول وے ——-میکدے کی محفل کا مستقل آئیٹم تھا –
کمر مشانی کے جواں مرگ بہت سریلے گلوکار عطامحمد زرگر نے بھی اظہر نیازی کے بہت سے گیت ریکارڈ کروائے – عطامحمد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر جوانی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے – بے پناہ درد تھا اس شخص کی آواز میں –
کبھی کبھار عیسی خٰیل آتے جاتے کمرمشانی بس سٹاپ کی مسجد سے ملحق اظہر نیازی صاحب کی دکان داتا جنرل سٹور پر ان سے ملاقات ہوجاتی ہے – اللہ سلامت رکھے ہمارے بہت پیارے ساتھی ہیں –
————————————————- رہے نام اللہ کا—-بشکریہ-منورعلی ملک- 20 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

آج کل تو موبائیل فون اور کمپیوٹر وغیرہ نے کام بہت آسان کردیا ہے ، ہمارے بچپن کے دور میں پیغام رسانی کے صرف دو ذریعے ہوتے تھے ، خط اور تار-
تار پیغام رسانی کا سب سے تیز رفتار ذریعہ ھؤا کرتا تھا – تار خط کی طرح کاغذ پر لکھا ھوتا تھا – لوگ اپنا پیغام لکھ کر یا بول کر تاربابو (تارگھرکا کلرک) کوبتا دیتے تھے – وہ یہ پیغام ٹیلیگراف نظام کے ذریعے فورا بھیج دیتے تھے – جس شہر میں پیغام بھیجا جاتا وہاں کے تاربابو یہ پیغام ایک مخصؤص فارم پر لکھ کر ھرکارے (ڈاکیا) کے ہاتھ متعلقہ فرد کوارسال کر دیتے تھے – یوں پیغام ایک دو گھنٹے میں منزل مقصود پر پہنچ جاتا –
تار پر ہر لفظ کے پیسے لگتے تھے ، جہاں تک مجھے یاد ہے فی لفظ آدھا روپیہ (پچاس پیسے) دینا پڑتا تھا – اس لیے تارمیں صرف مطلب کی بات مختصر ترین الفاظ میں لکھی جاتی تھی – مکمہ تار کے قانون میں ایک سو الفاظ سے زائد تار میں لکھنے کی اجازت نہ تھی – تار انگلش میں لکھا جاتا تھا –
چونکہ تار پیغام رسانی کا تیز ترین ذریعہ تھا ، اس لیے لوگ خط کے جلد جواب کی تاکید کے لیے خط میں بھی لکھا کرتے تھے “ اس خط کو تار سمجھنا“-
—————————————– رہے نام اللہ کا——بشکریہ-منورعلی ملک- 21 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

تار خوف کی علامت تھا ، کیونکہ یہ زیادہ تر موت کی اطلاع ہوا کرتا تھا –
جنگ عظیم کے دوران برصغیر پاک و ہند سے ہزاروں نوجوان دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف محاذوں پر تاج برطانیہ (انگریزحکومت) کی جانب سے جنگ میں شریک رہے – جنگ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی – بہت خونریز جنگ تھی ، روزانہ سینکڑوں فوجی سپاہی اس جنگ میں لقمہ ء اجل بنتے رہے – ان کے مرنے کی اطلاع انگریز سرکار ایک رسمی سے تار کی صورت میں دیا کرتی تھی جس میں لکھا ہوتا تھا آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کے بیٹے نے تاج برطانیہ کے تحفظ میں جان دے دی –
اس خدمت کے صلے میں مرنے والے کے اہل خانہ کو پندرہ بیس روپے ماہوار پنشن ملتی تھی –
بے حساب ظلم ہوا اس جنگ میں —— انگریز سرکار نے قانون پاس کیا کہ جو شخص اس جنگ میں شرکت کے لیے اپنا بیٹا بھجوانے سے انکار کرے اس کی زمین ضبط کر لی جائے –
ہر ضلع میں فوج کی بھرتی کا مرکز قائم کیا گیا – انگریزوں کے پروردہ نمبرداروں کو اپنے اپنے علاقے سے بھرتی کا ایجنٹ بنا دیا گیا – وہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان کے جوان بچوں کو فوج میں بھرتی کرواتے رہے – اس خدمت کا صلہ 2 روپے فی لڑکا ملتا تھا —– غضب خدا کا , صرف دو روپے وصول کرنے کے لیے غریب ماؤں کے لخت جگر موت کے منہ میں بھیج دیئے جاتے تھے – وہ بد نصیب مائیں بے خواب آنکھوں سے خون کے آنسو بہاتے بہاتے اس دنیا سے رخصت ہو جاتیں –
غریب ماؤں کے لخت جگر سات سمندر پار جنگ میں دشمن کی توپ یا ٹینک کا گولہ لگنے سے جاں بحق ہوتے تو نہ کفن نہ جنازہ ، لاشوں کے ٹکڑے چن کر ایک گڑھے میں ڈال دیئے جاتے اور اوپر مٹی ڈال کر زمین برابر کر دی جاتی ، قبر کا نشان بھی نہ بنتا تھا – ایسے ہزاروں دکھیاری ماؤں کے لال پتہ نہیں کہاں کہاں تہہ خاک مدفون ہیں –
ان کی موت کی اطلاع تار کی صورت میں آتی تھی – اس لیے تار خوف و دہشت کی علامت تھا – تارلانے والا ہرکارہ گاؤں میں جس گھر کا رخ کرتا ، اس گھر کے لوگ اسے دیکھ کر ہی رونا پیٹنا شروع کردیتے تھے –
——————————————- رہے نام اللہ کا——-بشکریہ-منورعلی ملک- 22 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

صاحب خان ——-
جنگ عظیم میں شرکت کرنے والوں میں سے بہت کم لوگ زندہ وسلامت گھر واپس آئے – بنی افغاناں کے صاحب خان ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جو زندہ وسلامت واپس آگئے – پندرہ بیس روپے پنشن میں گذارہ مشکل ہؤا تو اس اللہ کے بندے نے شہنشاہ برطانیہ کو خط لکھ مارا کہ صاب آپ کی دی ہوئی پنشن میں ہمارا گذارا نہیں ہوتا – ہمیں کوئی اور نوکری دلوائی جائے —— صاحب خان بہت بھولے بھالے انسان تھے ، ایسے بھولے بھالے جنہیں ہماری زبان میں “کناں تئیں کملا“ کہتے ہیں –
اللہ جانے کس طرح پھرتا پھراتا صاحب خان کا خط شہنشاہ برطانیہ کی میز پہ جا پہنچا – انہی دنوں پاکستان معرض وجود میں آیا – شہنشاہ نے صاحب خان کا خط اپنی طرف سے سفارش لکھ کر قائد اعظم محمد علی جناح کو بھجوا دیا – قائد اعظم نے اس وقت کے گورنر پنجاب سردار عبدالرب خان نشتر کو حکم دیا کہ اس آدمی کو مناسب ملازمت دلوائی جائے –
صاحب خان پرائمری پاس تھے ، وہ بھی چار جماعت والی – گورنر صآحب نے قانون میں ترمیم کرکے صآحب خان کو ان کے اپنے گاؤں بنی افغاناں میں ٹیچر لگوا دیا –
یہ جو ہماری نظر میں کملے لوگ ہوتے ہیں ، یہ کبھی مار نہیں کھاتے ، مار اور ہا ر تو ہم جیسے سیانے لوگ کھاتے ہیں اپنی منافقتوں کی وجہ سے –
——————————————— رہے نام اللہ کا——–بشکریہ-منورعلی ملک- 23 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

صاحب خان ——-
صاحب خان سے میرا تعارف کالاباغ میں ہوا – صاحب خان ان دنوں مڈل کا امتحان دے رہے تھے ، اور امتحان کا سنٹر گورنمنٹ ہائی سکول کالا باغ تھا – سکول کے ھیڈماسٹرصاحب کرم اللہ پراچہ میرے بہت پیارے دوست تھے- میں جب بھی کالاباغ جاتا ، کچھ دیر پراچہ صاحب کے پاس ضرور بیٹھا کرتا تھا – ایک دن میں وہاں گیا تو ھیڈماسٹر صاحب اور کچھ ٹیچرصاحبان آفس میں بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے – میں نے پوچھا کیا بات ہے ، تو ایک ٹیچر نے کہا “ ملک صاحب ، صاحب خان کا ذکرہو رہا ہے – بنی افغاناں کا یہ بھولا بھالا نوجوان بنی افغاناں سکول میں ٹیچر ہے – یہاں مڈل کا امتحان دے رہا ہے –
میں نے کہا اس میں ہنسنے کی کون سی بات ہے –
انہوں نے کہا جی میں امتحان میں نگران ہوں – آج ڈرائنگ کا پیپر تھا ، کوے کی پکچر بنانی تھی- میں نے دیکھا کہ صاحب خان کوے کی پکچر بنا کر اس میں سبز رنگ بھر رہا ہے – میں نے کہا “صاحب خان، کوا تو کالا ہوتا ہے “
صاحب خان نے کہا “ مجھے پتہ ہے —– وہ والا کوا اللہ نے بنایا ہے – اس کو کالا رنگ پسند تھا ، کوا کالا بنا دیا – یہ والا کوا صاحب خان نے بنایا ہے – مجھے سبز رنگ اچھا لگتا ہے ، اس لیے میرا کوا سبز ہی ہوگا“-
اندازہ کیجیے ایسا سادہ لوح ، بھولا بھالا انسان ، اوراتنا خوش نصیب کہ اس کا ٹوٹی پھوٹی اردو میں لکھا ہوا خط شہنشاہ برطانیہ ، قائداعظم محمد علی جناح اور سردار عبدالرب نشتر جیسی بلند مرتبہ شخصیات نے پڑھا بھی ، اور اس پر عمل کرتے ہوئے اسے نوکری بھی دلوا دی —- وتعزمن تشآء وتذل من تشآء –
——————————————– رہے نام اللہ کا——–بشکریہ-منورعلی ملک- 24 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

کیا ہو گیا میرے شہر کو —–؟؟؟؟؟
تقریبا 7 ماہ بعد ہم اسلام آباد سے میانوالی آئے تو پتہ چلا کہ ہمارے محلہ (گلی مسجد لوہاراں ، محلہ اتراء) میں کمیٹی کے پانی کی فراہمی کئی ماہ سے بند ہے – سنا ہے محلہ گئوشالہ کے جس ٹیوب ویل سے پانی فراہم ہوتا تھا اس کی موٹر جل گئی ہے – اگر جل گئی ہے تو اس کا کوئی علاج بھی تو ہونا چاہیے – کہتے ہیں میونسپل کمیٹی اور پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ والوں کے درمیان فنڈز کی فراہمی کا تنازعہ حل نہیں ہو رہا – یہ تنازعہ کون حل کرے گا ؟
بجا کہ لوگوں نے گھروں میں موٹریں لگا رکھی ہیں ، مگر گھر کی موٹر کا پانی مقدار اور معیار کے لحاظ سے کم اور ناقص ہے – بے تحاشہ گرمی کے اس موسم میں نہانے دھونے کو صاف ستھرا ٹھنڈا پانی چاہیے – پینے کے لیے تو اکثر لوگ نہر کے کنارے لگے ہوئے ہینڈ پمپس سے پانی لے آتے ہیں ، کم ازکم نہانے دھونے کی سہولت تو سرکار فراہم کردے – یہ بھی سرکارکے فرائض میں شامل ہے –
یہ تو اپنے محلہ کی بات تھی ، سارے شہر کا برا حال ہے جابجا گندگی کے ڈھیر، ادھر کئی ماہ سے مقامی اخبارات میں حاجی محمد شفیع تمباکو فروش دہائی دے رہے ہیں کہ شہر کے چاروں قبرستانوں میں مزید قبروں کی گنجائش باقی نہیں رہی ، سرکار ان قبرستانوں سے ملحقہ زمین خرید کر دے یا ایک اور قبرستان کے لیے متبادل جگہ مہیا کر دے –
ستم یہ کہ میانوالی وزیر اعظم کا شہر ہے – لاہور والوں نے تو اپنے شہر کو جنت بنا دیا ، کچھ نہ کچھ مسائل وہاں بھی ہوں گے ، لیکن ایک کروڑ سے اوپر آبادی والے شہر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی چند لاکھ آبادی والے میانوالی سے کئی گنا بہتر ہے –
آج کی پوسٹ کا مقصد میانوالی کے مسائل کی طرف مقامی ایم این اے امجد علی خان کو متوجہ کرنا ہے – امجد خان ماشآءاللہ بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں – چند سال تحصیل ناظم رہے تو میانوالی شہر کا نقشہ ہی بدل دیا – وہ تو میانوالی کو منی لاہور Mini-Lahore بنانا چاہتے تھے – ان کے پاس ویژن بھی ہے ، کام کرنے کا جذبہ بھی – اب حکومت بھی اپنی ہے ، فنڈز کا مسئلہ بھی نہیں ھوگا – امجد خان میرے بھی بہت پیارے عزیز ہیں ، ان سے گذارش ہے کہ جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے انہیں بلا تاخیر حل کروائیں –
———————————————— رہے نام اللہ کا————بشکریہ-منورعلی ملک- 25 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں Sir لکھ کر ممبر قومی اسمبلی امجد علی خان نے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرادی – ٹیچر کی حیثیت میں میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی سٹوڈنٹ Sir کہتا پے تو اس کامطلب ہوتا ہے تعمیل ہوگی – امجد خان ھمارے سٹوڈنٹ بھی رہے ، اللہ انہیں بے حساب عزت عطا فرمائے ، جب بھی ان سے کسی کام کا کہا ، کام ہو گیا –
تحریک انصاف کے مقامی رہنما ، معروف ٹیچر، ریڈیو اینکراور صحافی زبیر ہاشمی نے کمنٹ میں کہا کہ شہر کی صفائی کاکام میں اپنی نگرانی میں کروا رہا ہوں – ہمارے محلہ کی واٹر سپلائی کے بارے میں انہوں نے کہا ٹیوب ویل کا نیا بور بھی کروانا ہے ، نئی موٹر بھی لگوانی ہے ، 24 لاکھ کا نسخہ ہے – کوشش کریں گے کہ یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو جائے –
میرے خیال میں24 لاکھ روپے کی فراہمی سرکار کے لیے کوئی مشکل کام نہیں – ایم این اے ، ایم پی اے صاحبان کے ڈیویلپمنٹ فنڈز کےعلاوہ میانوالی کے سالانہ ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لیے مختص فنڈز میں سے بھی یہ رقم فراہم کی جا سکتی ہے – امجد خان یہ مہربانی کر سکتے ہیں کہ یہ کام جلد کرادیں – اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو-
———————————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 26 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

بکرید —————-
عیدالاضحی کو ہمارے ہاں سیدھا سادا بکرید کہا جاتا تھا – عیدالفطر کی نسبت یہ عید بہت سادگی سے منائی جاتی تھی – نہ نئے کپڑے ، نہ جوتے ، نہ درزیوں اور موچیوں کے ہاں حاضریاں ، نہ مہندی کا تکلف ، نہ دکانوں کی رونقیں ، نہ ماما حمیداللہ خان کی جلیبیاں ، نہ حاجی کالا کے پکوڑے ، بچے تو اپنا دنبہ یا بکرا ذبح ہونے پر باقاعدہ رونادھونا ڈالتے تھے – ہمارے ہاں میری پوتی علیزہ (میں اسے چوچوکہتاہوں) اب بھی رونے دھونے کی رسم نبھاتی ہے –
قربانی کے جانور لوگوں کے اپنے گھر کے پلے ہوئے صحتمند جانور ہوتے تھے – اکثر لوگ گائے کی قربانی دیتے تھے – ہمارے گھر میں دنبے کی قربانی کا رواج تھا – اڑوس پڑوس کے کسی گھر سے اچھی قسم کا دنبہ خرید لیتے تھے – قیمت سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے – 30 / 35 روپے میں جیتا جاگتا ، موٹا تازہ دنبہ مل جاتا تھا-
چانپ ، تکے ، کباب وغیرہ کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا – بچے کلیجی ، گردے ، کپورے وغیرہ سیخ میں پرو کر آگ پر بھون کر کھایا کرتے – گھرکے باقی لوگ گوشت کا عام سالن کھاتے تھے- لیکن اس عام سالن پر دنیا بھر کی نعمتیں قربان – بہت برکت تھی ہماری ماؤں بہنوں کے ہاتھ میں – بہت لذیذ سالن بناتی تھیں – سیدھے سادے ثابت مصالحے ، گھر کا خالص دیسی گھی، گھر کے سو فی صد صحت مند جانور کا گوشت ، کھانے کا مزا ہی کچھ اور تھا –
اب تو زہر بھی خالص نہیں ملتا –———————————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 27 جولائی 2020

 

میرا میانوالی —————————

قربانی کے جانوروں کو چرنے کے لیے لے جانا بچوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا – پانچ سات سال کی عمر تک ہم بھی یہ کارخیر سرانجام دیتے رہے – میرے کزن ممتازملک ، ریاست ملک اور حبیب ہاشمی، ہمارے دوست صدیق خان بہرام خیل اور ڈاکٹر منظور کے کزن عبدالغفور وغیرہ اپنے اپنے دنبے چروانے کے لیے ہمارے گھر کے پچھواڑے ، شنے خیلوں کے کھو کے قریب ماسی ہزارے کے گھر کے سامنے خودروگھاس کے میدان میں لے جاتے تھے –
دنبوں کو چرنے کے لیے چھوڑ کر ہم میدان کے کنارے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر اپنے اپنے دنبوں کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے – بہت لمبی لمبی چھوڑتے تھے – دنبوں کی ایسی ایسی خوبیاں بھی گھڑ لیتے تھے جو انسانوں میں بھی کم نظر آتی ہیں – جیسے لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کے بٹیرے کی تعریفیں کرتے ہوئے ان کے ایک درباری نے کہا تھا : سرکار ، میں نے تو ان گنہگارآنکھوں سے اسے نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے – کچھ ایسی ہی روحانی خوبیاں ہم اپنے دنبوں کے بارے میں بھی بیان کیا کرتے تھے – ایک بات تو سو فیصد سچ تھی کہ دنبے ہم سے باتیں بھی کرتے تھے – ہماری بات کے جواب میں سرھلا کر ہاں یا ناں کا اشارہ ضرور دیا کرتے تھے –
بہت شریف مسکین چیز ہوتے تھے دنبے بھی ، ہم بھی – دنبے تو اب بھی شریف اور مسکین ہوتے ہیں ، ہم بڑے ہو کر نہ شریف رہے ، نہ مسکین –
دنبوں کی آرائش میں ہماری بہنیں بھی ہمارا ساتھ دیتی تھیں – دنبوں کو مہندی اور لال ۔ سبز رنگ وہی لگاتی تھیں – گھر میں دنبوں کے کھانے پینے کا بھی وہی خیال رکھتی تھیں، دنبے ذبح ہونے پر ہمارے ساتھ رونے دھونے میں بھی شریک ہوتی تھیں – ہفتہ دس دن کی رفاقت ختم ہونے پر رونا دھونا تو بنتا ھے –
محمد رفیع کے ایک گیت کا ابتدائی بول یاد آ رھا ھے ——کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے–—————————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 28 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

ہمارے جن بھوت پتہ نہیں کدھر گئے – ہمارے بچپن میں تو وہ ہر وقت ہماری تاک میں رہتے تھے – ہم لوگ ان کے ڈر سے شام کے بعد گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھتے تھے – کیا خبرکس درخت کے سائے میں ، کس اندھیری گلی کے موڑ پر ، کس ویران کنوئیں کے کنارے ہمیں دبوچ لیں –
ہم نے دیکھے تو کبھی نہیں ، ہماری دادیاں نانیاں بتایا کرتی تھیں کہ فلاں کی پھوپھی ، کے ماموں کے دادا کے بہنوئی کو رات کے اندھیرے میں جنات گلی میں سے اٹھا کر لے گئے تھے – صبح اس کی لاش ایک کنوئیں میں تیرتی نظر آئی –
ہمارے گھر کے جنوب میں جہاں آج کل حاجی عبیداللہ خان شکورخیل کا ٹیوب ویل ہے ، اس سے چند قدم کے فاصلے پر ایک ویران کنواں ہوا کرتا تھا – یہ کنواں ھندوؤں کا تھا – اس کو ہم “انھی ڈل“ کہتے تھے – اس کنوئیں کے بارے میں مشہورتھا کہ اس میں بھوت رھتے ہیں – اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس ہی شمشان گھاٹ تھا جہاں ہندو اپنی میتیں جلایا کرتے تھے – میت جل جانے کے بعد وہ اسی کنوئیں کے پانی سے آگ کو بجھایا کرتے تھے- شہر کا کوئی آدمی شام کے بعد ادھر نہیں جاتا تھا –
نانیوں دادیوں سے یہ بھی سنا کہ جن مسلمان ہوتے ہیں ، بھوت کافر- جنوں کے سرداروں کے نام بھی بتاتی تھیں شیرمحمد، نورمحمد وغیرہ وغیرہ – پریوں کا بھی ذکر ہوتا تھا ، دادیاں نانیاں کہا کرتی تھیں پریاں بچاری تو بے ضرر سی ماسیاں ہوتی ہیں ، کسی کو نقصان نہیں دیتیں ، کبھی کبھی بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیئے آجاتی ہیں –
اب زمانہ اور ہے ، پھر بھی یہ نہ سمجھیں کہ جنات کا وجود ہی نہیں ، ان کا وجود تو قرآن کریم ، انجیل اور توریت سے بھی ثابت ہے – قرآن حکیم میں جنات کا ذکر بار بار آیا ھے – سورہ الجن کے علاوہ سورہ الرحمن اور سورہ الناس میں بھی جنات کا ذکر ملتا ھے –
———————————————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 29 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

یہ تو پکی بات ہے کہ ہماری دنیا کے متوازی جنات کی دنیا بھی اس کاینات میں موجود ہے – ان کی آبادی ہم سے کئی گنا زیادہ ہوگی کیونکہ ھزار دوھزار سال سے کم عمر وہاں نہیں ہوتی –
دل چاہتا ہے کسی جن سے یاری ہو جائے تو اس سے پوچھیں کہ ان کے ہاں کون سا نظام چل رہا ہے – کیا وہاں بھی پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور پی پی پی ہیں – کیا وہاں بھی تبدیلی کا عمل زور و شور سے جاری ہے – کیا وہاں بھی مہنگائی ، بے روزگاری کا یہی حال ہے ؟ کیا وہاں بھی ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت بوٹ پالش کی بکسیاں سامنے رکھ کر پنڈی کے بڑے دروازے کے سامنے بیٹھے , حکم کا انتظار کر رہے ہیں ؟ کیا انہوں نے بھی یہ طے کرلیا ہے کہ ایک پارٹی کی قیادت دایاں بوٹ پالش کرے گی ، دوسری پارٹی کی قیادت بایاں بوٹ ؟؟؟؟؟
اور ایک سوال اپنے یار جن سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ کیا ان کی دنیا میں بھی عوام ہوتے ہیں ، اگر ہیں تو کس حال میں ؟؟؟؟؟
———————————————————————————————————— صبح اٹھے تو لائیٹ نہیں تھی – پوسٹ لیپ ٹاپ پہ لکھتا ہوں – اس کی چارجنگ کرنی تھی – آپ کی محفل میں حاضری بھی ضروری تھی – محض حاضری لگوانے کے لیے کچھ لکھ دیا ، اچھا ہے یا برا یہی قبول کر لیں – اب لائیٹ تو آگئی ہے ، مگر کچھ اور کام بھی کرنے ہیں – فی الحال اجازت –
———————————————— رہے نام اللہ کا=—بشکریہ-منورعلی ملک-30 جولائی 2020

میرا میانوالی —————————

کل شام سرراہ ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی – علیک سلیک کے بعد انہوں نے کہا “ آپ نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا “
میں نے کہا “ جناب ، میں نے تو آپ کو پہلی بار دیکھا ہے – پھر ملاقات کی خواہش کیسی “
ہنس کر بولے صبح کی پوسٹ میں آپ نے کیا کہا تھا ۔
میں نے کہا “ تو آپ جن ہیں ؟؟؟
“ کہنے لگے جی ہاں – اب پوچھیں جو پوچھنا ہے –
میں : آپ کیا کام کرتے ہیں ؟
جن : میں قومی اسمبلی کا ممبر ہوں –
میں : آپ کون سی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں –
جن : سرکاری جماعت سے –
میں : سرکاری جماعت کا کوئی نام تو ہوگا ؟
جن : نام جو بھی ہو میں ہر برسراقتدار سیاسی جماعت میں فٹ ہو جاتا ہوں – میرے دادا اور ابو بھی یہی کام کرتے رہے – میں نے یہ فن انہی سے سیکھا ، آج سے پندرہ سال پہلے میں مسلم لیگ ق میں وزیر تھا ، ان کا بھٹہ بیٹھ گیا تو میں پی پی پی میں شامل ہو کر وزیر بن گیا – پی پی پی کی کشتی ڈوبتی دیکھ کر میں ن لیگ کی کشتی پر سوار ہوگیا – چار سال ادھر وزیر رہا ، ان کا سورج ڈوبنے لگا تو میں پی ٹی آئی کے چڑھتے سورج سے لٹک کر ایک بار پھر وزیر بن گیا –
میں : آگے کیا پروگرام ہے؟
جن : پہلے کی طرح وسیع ترقومی مفاد میں جو بھی مناسب سمجھا وہی کروں گا –——————————————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 31 جولائی 2020

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top