منورعلی ملک کے مارچ  2021 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی

سزا کا نظام مؤثر اور تیز رفتار ہو تو جرائم کم ہوتے ہیں – سعودی عرب میں سرعام قاتل کا سرقلم کردیا جاتا ہے – جرم کی تفتیش اور مقدمات کی کارروائی میں بھی زیادہ وقت نہیں لگتا – ہمارے ہاں تو سزا کا نظام برائے نام ہی ہے – مجرم پولیس کے سامنے اقرار جرم کر لیتا ہے، عدالت میں آکر مُکر جاتا ہے – اور قانون جُرم کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے – اس ہومیوپیتھک نظام کو بدلنا ہوگا –
ایک ظُلم یہ بھی ہے کہ سیشین جج کی عدالت سے سزائے موت کا حُکم جاری ہو بھی جائے تو مجرم کو ہائی کورٹ ، پھر سپریم کورٹ اور پھر صدرمملکت سے رحم کی اپیل کا حق ملتا ہے – اکثر مجرم ان میں سے کسی نہ کسی مرحلے پر رہا ہو جاتے ہیں – صاحبِ حیثیت لوگ تو تفتیش میں ہی ہیرا پھیری کرا کے شک کا فائدہ لیتے ہوئے “باعزت“ بری ہو جاتے ہیں-
قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ایک طریقہ مُک مُکا بھی ہمارے ہاں عام ہے – “سفیدپوش“ حضرات قاتل کی طرف سے کچھ دے دلاکر فریقین میں صُلح کرا دیتے ہیں – – معاف کردینا اللہ کو بہت پسند ہے – لیکن معافی رضاورغبت سے ہو ، پیسے کے لالچ میں یا ڈر خوف کے مارے دی ہوئی معافی اللہ کی عدالت میں ناقابل قبول ہے – اللہ کی نظر میں اس طرح کی معافی لینے دینے والے دونوں مجرم ہیں –
ایمان داری سے تفتیش ، سخت سزا اور مؤثر قانون سے قتل کی وارداتوں پر خاصی حد تک قابُو پایا جا سکتا ہے ، مگر یہ کام کرے کون ؟؟؟ حکومت پی پی پی کی ہو ، ن لیگ کی یا تحریک انصاف کی ، جُرم وسزا کا یہی گلا سڑا نظام 73 سال سے چل رہا ہے ، چلتا رہے گا – آخر کب تک ؟؟؟؟
——————– رہے نام اللہ کا —
داودخیل کی ایک صبح   —   

میرا میانوالی

پچھلے ہفتے پرندوں کا ذکر شروع کیا تھا – مُرغیوں کا تذکرہ تو ہوچکا ، آج حسبِ توفیق مُرغوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں –
مُرغ کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا – گھر میں بیس مُرغیاں بھی ہوں ، کوئی مہمان آجائیں تو چُھری مُرغ کی گردن پہ چلتی ہے –
مُرغیاں انڈے دیتی ہیں اس لیے ان کی بہت خاطر خدمت کی جاتی ہے – روٹی کے ٹُکڑے ، تازہ گُندھا ہوا آٹا ، ہرقسم کا اناج مُرغیوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے – مُرغ کو کوئی خاص خوراک نہیں دی جاتی ، مُرغیوں کا بچا کھُچا کھانا کھا کر گذارہ کر لیتا ہے – لڑنے والے اصیل مرغوں کو وی آئی پی کھانا ملتا ھے۔ عام گھریلو مرغ کو کوئی لفٹ نہیں کراتا۔
پرندوں میں شکل و صُورت کے لحاظ سے مرغ کی اپنی الگ شان ہے – دیکھنے میں بانکا سجیلا نوجوان لگتا ہے – اکڑکر ، سراُٹھا کر یُوں چلتا ہے جیسے یہ زمین اسی کے لیے بنی ہے – اس کی ایک منفرد خُوبی یہ ہے کہ مُرغیوں سے کبھی نہیں لڑتا ، بلکہ ہم نے ایک آدھ بار کھانے پینے کے معاملات میں مُرغ کو مُرغیوں سے مار کھاتے بھی دیکھا ہے – لیکن اپنے ہم جنس مُرغوں کے لیے شیر ہے – گھر کے مُرغی خانے کی چادر اور چاردیواری کا ایسا دلیر محافظ ہے کہ گھر میں کسی غیر مُرغ کو قدم نہیں رکھنے دیتا –
مُرغ کی دلیری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ اپنے مُرغ دوسرے لوگوں کے مرغوں سے لڑا کر تماشا بھی دیکھتے ہیں پیسے بھی کماتے ہیں – ان شوقین مزاج لوگوں کو “کوکڑی“ کہتے ہیں – داؤدخٰیل میں صرف ایک ہی کوکڑی تھا ، چاچا غلام عیسی کمہار – کسی زمانے میں موچھ کے گردونواح میں مُرغوں کے ورلڈ کپ قسم کے میچ ہوا کرتے تھے – چاچا عیسی ہرماہ وہاں جا کر شوق کی تسکین کر لیتے تھے –
سحرکے وقت مُرغ کی اذان ہر گھر میں گُونجا کرتی تھی – دیسی مُرغ کی آواز بہت سریلی ہوتی تھی – برائلر تو بالکل بےسُرے ہیں – مُرغ کی اذان کے حوالے سے ایک لظیفہ بھی سُنا تھا ، آپ بھی سن لیں –
کہتے ہیں ایک خاتون سُسرال والوں سے لڑ کر میکے گھر جانے لگی تو میکے سے جو مُرغ کچھ عرصہ پہلے لائی تھی وہ بھی پکڑ کر بغل میں داب لیا اور کہنے لگی “ میں اپنا مرغ لے کر جا رہی ہوں – اب نہ یہ اس گھر میں اذان دے گا، نہ تُم جاگو گے – قیامت تک سوئے رہوگے “-
——————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-2 مارچ 2021

 

بیروں کا موسم آگیا
اکثر گھروں میں بیری کا ایک آدھ درخت ہوتا تھا – رات کے پچھلے پہر تیز ہوا چلتی تھی – اس ہوا کے زور سے لال سُرخ بیر زمین پر گر جاتے تھے – صبح اُٹھ کر دیکھتے تو زمین پر سُرخ بیروں کی چادر بچھی ہوتی تھی – دو درخت ہمارے گھر میں بھی تھے – ایک کے بیر لال اور شہد جیسے میٹھے ، دوسری کے بیر پِیلے رنگ کے ہلکے سے تُرش ذائقے والے ہوتے تھے – وہ دو درخت تو کٹ گئے ، البتہ ہمارے صحن میں ایک دو ہلکے پُھلکے درخت اب بھی موجود ہیں – بیر اُن پر بھی لگتے ہیں ، مگر بہت کم مقدار میں –
قدرت نے کوئی بھی چیز بیکار نہیں بنائی – بیروں کے بھی یقینا بہت سے طبی فوائد ہوں گے – ہم تو بس منہ میٹھا کرنے کے لیے بیر کھاتے تھے – اور اس چسکے کی خاطر شہر کے مشرق میں پہاڑ کے دامن میں واقع بیریوں کو بھی معاف نہیں کرتے تھے –
ہماری بیروں کی شکاری ٹیم تین افراد پر مشتمل تھی – میرے علاوہ ہمارے کزن ملک ریاست علی اور طالب حسین شاہ اس ٹیم کے ممبر تھے – ریاست بھائی اس ٹیم کے کپتان تھے ، کیونکہ وہ ہر قسم کے بیری کے درختوں پر آسانی سے چڑھ سکتے تھے – ریاست بھائی درخت کی چوٹی کے قریب پہنچ کر شاخوں کو پُورے زور سے جُھنڑاتے (ہلاتے) تھے تو زمین پر بیروں کی بارش برسنے لگتی تھی – ان بیروں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرکے جھولیاں بھر لیتے تھے – ریاست بھائی کو کَنڈے پُڑاوی (کانٹے چُبھنے کا معاوضہ) مُٹھی بھر زائد بیروں کی شکل میں الگ ملتا تھا –
عام طور پر تو بیر جھولیوں میں سما جاتے تھے – لیکن ایک دفعہ بیر اتنے زیادہ ہو گئے کہ جھولیاں بھرنے کے بعد بھی بہت سے بیر باقی بچ گئے – بچے کھانے پینے کے معاملے میں خاصے لالچی ہوتے ہیں ، اس لیے ہم وہ فالتو بیر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے – طالب بھائی نے یہ سکیم لڑائی کہ شلوار اتار کر اس کے پائینچوں کو باندھ دیا ، پھر تمام بیر اس میں بھر کر بوری کی طرح کندھوں پر لاد کر ہم اَوکھے سَوکھے گھر پہنچ گئے – دیہات میں تین چار سال عمر کے بچوں کے لیئے شلوار پہننا لازم نہ تھا ، اس لیے طالب بھائی کی بے لباسی پر کسی نے اعتراض نہ کیا-
بیری کے حوالے سے ایک ماہیا بھی لالا عیسی خیلوی گایا کرتا تھا ———-
بیریں دا بُور ہوسی
ویندی واری ڈھولا رُنا ضرُور ہوسی
————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-4 مارچ 2021
میرا میانوالی
ہمارے علاقے میں تین قسم کے بیر ہوتے تھے – سُرخ اور پِیلے رنگ کے گول مٹول بیر دیسی بیر کہلاتے تھے – اس بیر کے درخت تھل کے علاقے میں ہر جگہ پائے جاتے تھے –
سبز اور زرد رنگ کے لمبوترے hybrid پیمدی یا پیمٹی (پیوندی) بیر عام بیری کے پیوند شدہ درختوں پر لگتے تھے – پیوند کاری ایک خاص زرعی عمل ہے ، تفصیل میں بھی نہیں جانتا —- ہڈالی ضلع خوشاب میں میرے ماموں جان ملک منظورحسین منظور کے گھر میں پیمدی بیر کا بہت بڑا درخت تھا – اس پر بے تحاشا پیمدی بیر لگتے تھے – عام پیمدی بیر سے دوتین گنا بڑے ، گلاب جامن کی طرح میٹھے اور رسِیلے بیر ہوتے تھے –
ایک خاص قسم کے بیر تبی سر کے پہاڑی علاقے میں پائے جاتے تھے جنہیں کِرکِرنڑاں کہتے تھے – بہت چھوٹے سائیز کے گول سُرخ بیر ہوتے تھے – کالاباغ کی سبزی منڈی میں ملتے تھے – بے حد میٹھے اور لذیذ بیر تھے – شاید اب بھی وہاں ملتے ہوں – کِرکِرنڑاں کی گٹھلی (گکڑ) بھی اتنی نرم ہوتی تھی کہ بیر کے ساتھ گٹھلی بھی آسانی سے چبائی جا سکتی تھی – اس لیے یہ بیر گٹھلی سمیت کھایا جاتا تھا –
بیر دنیا کے گرم ممالک میں ہر جگہ پایا جاتا ہے – انگلش میں اسے جُجُوب jujube کہتے ہیں ، خاصا واہیات نام ہے –
——————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  5 مارچ 2021 

میرا میانوالی

اک چراغ اور بُجھا ، اور بڑھی تاریکی
خورشید شاہ بھی یہ دُنیا چھوڑ کر عدم آباد جابسے – ایک روشن ستارہ آہستہ آہستہ دُھندلاتا ہوا بالآخر کائنات کی وسعتوں میں گُم ہو گیا – مجھے یہ اندوہناک خبر خورشید شاہ کے مُریدِ خاص موچھ سے عاقل خان نے کل دن کے پچھلے پہر میسیج کی صُورت میں بھیجی – تب سے اب تک صدمے کی کیفیت برقرار ہے –
ڈھیراُمیدعلی شاہ کے سید خورشید شاہ سرائیکی ڈوھڑے کے باکمال شاعر تھے —- 1980-81 میں رحمت گراموفون فیصل آباد نے لالا عیسی خیلوی کے نغمات کا والیوم 14 جاری کیا – یہ والیوم لالا کے مقبول ترین والیومز میں شمار ہوتا ہے – اس کی مقبولیت کی وجہ لوک راگ جوگ میں گائے ہوئے خورشید شاہ کے لکھے ڈوھڑے اور ماہیے ہیں – جوگ کی المیہ دُھن ، لالا کی گمبھیر پُرسوز آواز اور خورشید شاہ کا درد بھرا کلام ، ایک عجیب سوگوار امتزاج بن گیا – لالا نے جوگ میں ڈوھڑےاور گیت بہت گائے ہیں لیکن والیوم 14 میں جوگ کا ایک نیا انداز نظر آتا ہے – تیز ٹیمپو میں غم کا تاثر قائم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے – لالا کی آواز اور خورشید شاہ کے کلام نے یہ مشکل کام بھی آسانی سے کر کے دکھا دیا – ان ڈوھڑوں میں لالا کی آواز میں بے پناہ درد محسوس ہوتا ہے – پہلا ڈوھڑہ یہ تھا ——–
تُساں کَنڈ کیتی میتھوں سنگتی پُچھدِن ڈَس کِتھ گیا تیڈا سائیں
کیہڑے مُنہ نال آکھاں رُس گیا ہے، تنگ کردن شام صباحیں
کر سِر نِیواں ودا وقت نِبھینداں او نِت آلیندن بھائیں
جِتھے خوش وسدایں خورشید بے کَس کوں بُنڑن گھِن ونج یار اُتھا ئیں
یہ دل میں تِیر کی طرح اُتر جانے والا کلام کیسیٹ کی صُورت میں منظر عام پر آتے ہی خورشید شاہ کا نام پوری دنیا میں گُونجنے لگا – آج چالیس برس بعد بھی خورشید شاہ کے چاہنے والے دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں –
خورشید شاہ کی شاعری کی زبان ذاکروں والی سرائیکی ہے ، جو وہ بچپن سے ذاکروں سے سنتے رہے تھے – یہ زبان عام سرائیکی سے ذرا زیادہ کلچرڈ زبان ہے جس میں اردو ، فارسی کے الفاظ حسب ضرورت استعمال ہوتے ہیں –
خورشید شاہ قلندر منش انسان تھے – انتہائی ذہین ، مگر بچوں کی طرح معصوم – جب میں داؤدخٰیل سکول میں انگلش ٹیچر تھا ، شاہ جی میرے سٹوڈنٹ بھی رہے – کئی سال سے
گوشہ نشین تھے —- دنیا سے اُن کا یہ شکوہ بے جا نہ تھا کہ ان کی قدر نہیں کی گئی – اپنا یہ دُکھ سینے سے لگائے سید خورشید شاہ کل قبر میں جا سوئے ۔
ناصر کاظمی کا یہ شعر خورشید شاہ کی نذر —————–
وہ ہجر کی رات کا ستارا ، وہ ہم نَفَس ، ہم سخن ہمارا
سدا رہے اُس کا نام پیارا ، سُنا ہے کل رات مر گیا وہ
——————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-  6 مارچ 2021 

میرا میانوالی

موسم کا ذکر چل رہا تھا – اس موسم کی زرعی پیداوار میں چنا بہت اہم ہے – چنا تھل کے علاقے کی فصل ہے ، ریتلی زمین میں چنا بہت تیزی سے پھلتا پھولتا ہے – بھکر اب تو الگ ضلع ہے ، ایک زمانے میں یہ پُورا ضلع ، ضلع میانوالی کی تیسری تحصیل ہؤا کرتا تھا – اس ایک تحصیل کا رقبہ دو اضلاع (پنڈی + گجرات ) کے برابر ہے – انتظامی حوالے سے بھکر اب الگ ضلع سہی لیکن ہم میانوالی کے لوگ اب بھی بھکر کو اپنا سمجھتے ہیں – بھکر چنے کی پیداوار کا گڑھ ہے –
چنا اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے – فصلوں میں یہ سب سے کارآمد فصل ہے – اتنی کارآمد کہ زمین سے سر باہر نکالتے ہی کھانے کے قابل ہو جاتی ہے – اس کی نرم کونپلوں کو “پَلی“ کہتے ہیں- پلی کچی بھی کھائی جاتی ہے ، ساگ کی طرح سالن کی شکل میں بھی – چنے کے پودے کو “گھاڑ“ کہتے ہیں – گھاڑوں پر لگی سبز پھلیاں “ڈَڈے“ کہلاتی ہیں – ان پھلیوں میں سبز کچے چنے بھی بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں – ان کا سالن بھی بہت مزیدار ہوتا ہے – ڈڈے جب پک جائیں تو پودوں سمیت انہیں آگ میں بھُون کر بھی کھایا جاتا ہے – آگ میں بُھونے ہوئے ڈڈوں کو “ تَراڑا“ کہتے ہیں – بچپن میں ہم بھی یہ کرتُوت بڑے شوق سے کیا کرتے تھے –
کچھ مہمان آرہے ہیں ، آج کے لیے اتنا ہی سبق کافی ہے – چنے کے بارے میں مزید باتیں ان شآءاللہ کل ہوں گی –
————————- رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک-  7 مارچ 2021 
دن کے تیسرے پہر (ظہر کے بعد) تازہ بُھنے ہوئے چنے کھانا ایک مستقل رواج تھا – اس رواج کو پِچھائیں کہتے تھے – بچے اور خواتین گھر سے چنے کے دانے لے کر دوپہر سے ہی ماسی مہراں مچھیانی کی دانگی پر جمع ہو جاتے تھے – دانگی چنے بُھوننے کا ایک سسٹم ہوتا تھا – لوہے کی بڑے سائیز کی کڑاہی میں مُٹھی بھر ریت ڈال کر کڑاہی کو آگ پر رکھ دیا جاتا تھا – آگ سے کڑاہی اور ریت تپ جاتی تو اس تپتی ہوئی ریت میں دانے بھُونے جاتے تھے – ریت کا مقصد ضرورت سے زائد آنچ کو جذب کرنا تھا – جب دانے بُھن جاتے تو ماسی مہراں پرُون (چھلنی) میں چھان کر دانے ریت سے الگ کر دیتی تھی –
دانے فرمائش کے مطابق چھلکے سمیت یا چھلکوں کے بغیر بھُونے جاتے تھے – چھلکوں سمیت بُھنے ہوئے چنوں کو “روڑے“ کہتے تھے ، چھلکوں کے بغیر والوں کو “ڈالیاں “ کہتے تھے – ماسی مہراں کو بتانا پڑتا تھا کہ روڑے بُھنوانے ہیں یا ڈالیاں —— بُھنے ہوئے چنے شوگر کو کنٹرول کرنے کا کامیاب دیسی نُسخہ بھی ہے –
تازہ بُھنے ہوئے چنے گھر کے سب لوگ کھاتے تھے —- بُھنے ہوئے چنوں سے بہت مزیدار آٹا بھی بنتا تھا – یہ میرا پسندیدہ دوپہر کا کھانا تھا – بُھنے ہوئے دانوں کو پیس کر آٹا بناتے اور اس میں ایک چمچ خالص دیسی گھی اور ایک دو چمچ باریک شکر یا پسی ہوئی چینی مِلا کر کھایا کرتے تھے – بہت مزیدار نعمت تھی – اللہ توفیق دے تو کبھی آپ بھی ٹرائی کر کے دیکھیں – اب تو گرائینڈر آگئے ہیں ، پیسنا کوئی مسئلہ نہیں رہا -شرط یہ ہے کہ چنے تازہ بُھنے ہوں اور گھی سوٍفیصد خالص ہو – اب وہ مائیں تو رہی نہیں جو یہ کام کیا کرتی تھیں ، اس لیے خود ہی کرنا پڑے گا-
سچی بات تو یہ ہے چیز تو وہی ہم اور آپ بنالیں گے ، مگر اُن ماؤں کے ہاتھ والی برکت کہاں سے آئے گی – ان کے ہاتھ سے لگ کر مٹی بھی سونا بن جاتی تھی –
کچے چنوں کا آٹا (بیسن ) تو اب بھی ہر جگہ استعمال ہوتا ہے پکوڑے اسی سے بنتے ہیں – اس آٹے میں باریک کٹا ہوا پیاز ، نمک اور ذرا سی پسی ہوئی سُرخ مرچ ڈال کر تندُور پر روٹی پکتی تھی جسے مِسی روٹی کہتے تھے – خالص دیسی گھی سے چُپڑی ہوئی مِسی روٹی اور لسی دوپہر کا بہترین کھانا ہوا کرتا تھا-
چنے کی دال کا سالن ، چنے کی دال کا حلوہ اور بھی بہت چیزیں بنتی تھیں – داستان بہت لمبی ہو جائے گی – ان چیزوں کے بارے میں معلومات گھر میں کسی نانی دادی سے لے لیں –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک8 مارچ 2021 

میرا میانوالی

محبتوں کا قرض جتنا بھی ادا کردیا جائے ، بے باق نہیں ہوتا ، غالب کی طرح بالآخر یہی کہنا پڑتا ہے —————
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوآ
دوست اور عزیز اپنی تازہ کتابیں عنایت کرتے رہتے ہیں – ان کی محبتوں کا یہ قرض ہر کتاب کے بارے میں الگ پوسٹ لکھ کر کسی حد تک ادا ہو سکتا ہے – عام طور پر کتاب موصول ہونے کے دوتین دن بعد یہ فریضہ ادا کر دیتا ہوں – اب کی بار یہ کام کچھ مشکل لگ رہا ہے –
گذشتہ ماہ 4 کتابیں موصول ہوئیں ، مگر کچھ دوسری مصروفیات کے باعث ان کے بارے میں اب تک نہ لکھ سکا – تاہم ضمیر اس تاخیر پہ مسلسل نالاں رہا – اب سوچا کہ ہر کتاب کا الگ مفصل تعارف لکھنے کا وقت پتہ نہیں کب میسر ہو ، ان کتابوں کی وصولی کی رسید تو دی جا سکتی ہے – سو آج کا موضوع دوستوں ، عزیزوں کی یہی عنایات ہیں –
وقاراحمد ملک کے افسانوں کا مجموعہ “ آدھی رات کا چاند “ اور محمد مظہر نیازی صاحب کے گیتوں کا مجموعہ “ گیت کہانی “ ایک ساتھ موصول ہوئے – ان دونوں کتابوں کے تخلیق کار کسی تعارف کے محتاج نہیں – دونوں جانی پہچانی، مانی ہوئی شخصیات ہیں —–
تیسری کتاب وتہ خیل سے ہماری بیٹی کشف نُورخان کی انگریزی شاعری کا اولیں مجموعہ NURTURED RUINS ہے – کشف نور چارٹرڈ اکاؤنٹینسی (CA) کی سٹوڈنٹ ہیں – قدرت نے انہیں بہت اعلی صلاحیتِ سخن سے نوازا ہے – امید ، مایوسی ، موت اور زندگی ان کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں – بہت خوبصورت نظمیں ہیں – اس کتاب کا مفصل تعارف ان شآءاللہ کچھ دن بعد لکھوں گا –
پکی شاہ مردان کے سید عاصم بخاری منفرد قلمکار ہیں – نظم نثر دونوں میدانوں کے مسلمہ شاہسوار ہیں – ان کی متعدد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں – گذشتہ ماہ ان کے متفرق اشعار کا مجموعہ “فردیات“ کے عنوان سے شائع ہوا – غم دوراں کے حوالے سے ان کے اشعار بہت فکر انگیز ہیں –
بہار کے آغاز میں میانوالی کی سرزمین کو گُل وگُلزار کرنے والے ان تمام اہل قلم کو سلام –
—————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-  9مارچ 2021 

میرا میانوالی

آج پھر بجلی نہیں ہے – پرسوں بھی نہیں تھی ، لیکن لیپ ٹاپ کی چارجنگ اتنی تھی کہ دس پندرہ منٹ چل گئی – پوسٹ کا ناغہ نہ کرنا پڑا – آج یہ سہولت دستیاب نہیں – تقریبا ایک مہینے سے بجلی کا مسئلہ چل رہا ہے – ابھی گرمی کا موسم شروع نہیں ہوا ، بجلی کے بغیر بھی کافی حد تک گذارہ ہو سکتا ہے – اگر خدانخواستہ یہی حال رہا تو گرمی کا موسم کیسے گذرے گا –
ہم پرانے لوگ جنہوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب بجلی کا نام و نشاں بھی نہیں تھا ، ہم تو برا بھلا وقت گذار لیں گے – باقی دنیا کا کیا بنے گا – گھبرانا بہر حال نہیں ہے کہ گھبرانے سے صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے – واللہ اعلم –بشکریہ-منورعلی ملک-  10 مارچ 2021 

میرا میانوالی

گندم کی کٹائی سے ایک آدھ ماہ پہلے تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں – زرعی آلات ، درانتیوں ، ترینگلوں اور کراہیوں کی مرمت کے لیے درکھانوں اور لوہاروں کی کارگاہوں (کام کرنے کی جگہوں) پر رونق لگ جاتی – کام کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی چلتی رہتی – حقے کی سہولت بھی دستیاب ہوتی تھی – ہمارے علاقے میں سیدھا سادہ بندوق جیسا دیسی حقہ چلتا تھا ، اسے مذاق کے طور پر پستول حقہ کہتے تھے – اس کا اثر بھی پستول جیسا ہوتا تھا – مقامی کنؤؤں پر کاشت ہونے والے ساوے تماخُوں ( سبز تمباکو) کا دھؤان دل جگرے والا آدمی ہی پی سکتا تھا – جو شخص اس کا عادی نہ ہوتا اسے تو پہلاسُوٹا ہی لم لیٹ کر دیتا تھا – منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لانا پڑتا تھا – ساوے تماخُوں کا ذکر ایک لوک گیت میں بھی شامل تھا ، بول تھا
تیڈے کھُوتے آئی آں ساوا تماخُوں
اساں جگ لُٹیرے، تُساں لُٹیا سا کُوں
حقے کے شوقین بزرگ تماخُوں گھر سے ساتھ لاتے تھے – ایک آدمی کی تسلی کے لیئے ایک دو سُوٹے ہی کافی ہوتے تھے – اس لیے حقہ حاضرین کے درمیان گردش کرتا رہتا تھا –
گپ شپ کا موضوع گھربار ، فصلیں ، چھوٹے موٹے مقامی واقعات ہؤا کرتے تھے – چِٹے اَن پڑھ بزرگوں کو سیاست کا نہ کُچھ پتہ تھا ، نہ اس سے دلچسپی – اگر کوئی عدالت میں پیشی بُھگتا کر واپس آتا تو دوتین دن لوگ اُس سے میانوالی کی باتیں پُوچھتے رہتے – داؤدخیل ، پائی خیل کے سادہ لوگوں کی نظر میں میانوالی بھی لندن اور پیرس سے کم نہ تھا – انتہائی سادہ ، غریب مگر غیرتمند ، ایمان دار اور دوست دار لوگ تھے – زندگی بہت پُرسکون تھی ٠ کیا سہانا دور تھا ——-!!!!!
گذرگیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  11 مارچ 2021 

میرا میانوالی

موبائیل فون / سمارٹ فون کچھ لوگوں کے لیے وینٹی لیٹر (ventilator) بن گیا ہے – جس طرح آئی سی یو یا سی سی یُو میں آکسیجن کا سلنڈر ختم ہونے لگتا ہے تو مریض کی سانسیں لڑکھڑانے لگتی ہیں ، اسی طرح موبائیل فون کی چارجنگ یا پیکیج ختم ہونے لگے تو لوگوں کی سانسیں ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہیں –
چند دن ہوئے ایک خبر نظر سے گذری کہ دُلہن کو لے کر بارات جانے لگی تو اچانک دلہن کار میں سے نکلی اور بھاگ کر واپس میکے گھر میں گھُس گئی – میکہ سُسرال دونوں حیران پریشان ، کہ یہ کیا ہوا – دلہن اپنے کمرے میں جاکر فورا واپس آئی اور ہنس کر کہنے لگی ، میرا چارجر رہ گیا تھا ، وہی لینے آئی تھی – شُکر ہے مل گیا –
میں موبائیل فون کے فوائد کا منکر نہیں ، یہ بے شک بہت اچھی چیز ہے – بہت مشکل وقت میں کام آتا ہے – ایمرجنسی میں یہ نعمت ثابت ہوتا ہے ، لیکن اپنی ہر ضرورت اسی سے پوری کرنے کا رواج درست نہیں – پہلے یہ ہوتا تھا کہ رشتہ دار ملنے ملانے کے لیے دوسرے شہروں سے فیملی سمیت آجاتے تو گھر میں عید کا سماں بن جاتا تھا – دوچار دن رونق لگی رہتی تھی – اب سب رشتہ داروں، چاچوں ، ماموں ، پُھوپھیوں ماسیوں کزنوں وغیرہ سے فون پر علیک سلیک ہو جاتی پے – ایک دُوسرے کے ہاں آنے جانے کارواج ختم ہوتا جا رہا ہے –
ایسا نہیں ہونا چاہیئے، فون سے بات تو ہوجاتی ہے لیکن گلے ملنے ، ہاتھ ملانے ، بزرگوں سے سر پر ہاتھ پھروانے کا لطف اور برکات فون سے حاصل نہیں ہوتیں – سامنے بیٹھ کر باتیں کرنا ، دلچسپ باتوں پر ٹھاہ کر کے ہاتھ ٹکرانا ، یہ سب کچھ فون سے نہیں ہو سکتا – جو سُکھ اور سکون ملاقات سے ملتا ہے وہ کسی اور صورت میں نصیب نہیں ہوتا – کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ہر کام گھر میں بیٹھ کر فون کے ذریعے کرنے کی بجائے چار قدم چل کر کرلیا جائے –
فون کا ایک بہت خوبصورت استعمال مسجدنبوی (علیہ الصلوات والسلام) میں دیکھا – نمازسے پہلے اور بعد میں کئی لوگ مخصوص دعائیں موبائیل فون سے پڑھتے نظر آئے – اسی طرح تلاوت بھی فون کی سکرین پر دیکھ کر کی جاسکتی ہے-
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-12 مارچ 2021 

میرا میانوالی

MOTOR—- LORRY —- BUS —- COACH
ایک ہی چیز کے چار نام
انگلش کے بے شمار الفاظ اردو اور ہماری مقامی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں – ٹرانسپورٹ (خود بھی انگلش کا لفظ ہے) کے حوالے سے بہت سے الفاظ ہمارے ہاں رائج ہیں – وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لفظوں کی جگہ نئے لفظ آ جاتے ہیں – مثلا لفظ موٹر پہلے پہل کار کے لیے استعمال ہوتا تھا – علامہ اقبال نے نواب ذوالفقارعلی خان کی کار کی تعریف میں چند شعر لکھے تھے ، پہلا مصرع یہ تھا—‐
موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کا کیا خموش
اس مصرع میں موٹر مذکر ہے ، حالانکہ عام طور پر یہ لفظ مؤنث استعمال ہوتا ہے –
بس کے لیے بھی لفظ موٹر بہت عرصہ استعمال ہوتا رہا – داؤدخیل سے میانوالی جانے کا پروگرام بنتا تو کہتے تھے “موٹُر تے وِساں“- مطلب یہ تھا کہ بس پہ جائیں گے – بعد میں موٹر کی بجائے لفظ “لاری“ رائج ہوا – لاری دراصل وہ بھاری بھرکم فوجی گاڑی ہوتی ہے جس کی باڈی ٹرک جیسی ، اور چھت ترپال کی ہوتی ہے – یہ لاریاں جب نیلام ہوتیں تو لوگ خرید کر ان پر بس کی باڈی لگوا دیتے تھے – لیکن انہیں بس کی بجائے لاری ہی کہا جاتا تھا – یہ لفظ اب صرف لاری اڈہ کے طور پہ آخری سانسیں لے رہا ہے –
پھر لاری کی بجائے لفظ “بس“ آگیا – تیس چالیس سال یہی لفظ چلتا رہا – آج سے بیس پچیس سال پہلے بس کی جگہ لفظ فلائینگ کوچ آگیا ، لفظ فلائینگ گلے میں پھنس جاتا تھا ، اس لیے لوگوں نے صرف کوچ کہنا شروع کر دیا – اب تک لفظ کوچ ہی چل رہا ہے ، آگے اللہ جانے اس کی جگہ کون سا لفظ آجائے –
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  13 مارچ 2021 

میرا میانوالی

شاعر نے کیا خوب کہا تھا —–
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
والدین تھے ، تین بھائی ایک بہن تھیں ، سب چلے گئے – تین بھائیوں میں سے دو مجھ سے چھوٹے تھے ، وہ بھی اب اس دنیا میں موجود نہیں – چار چچا ، ایک اکلوتے ماموں ، ماموں جان کے چاروں بیٹے ، اکلوتی صاحبزادی ، سب چلے گئے – میری اہلیہ جو میری کزن بھی تھیں، پچھلے سال وہ بھی عدم آباد جا بسیں –‘ کبھی کبھی اس دنیا میں اپنا وجود اجنبی سا لگتا ہے – اللہ کی کوئی حکمت ہوگی –
تنہائی کا یہ احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ، مگر جس اللہ کریم نے مجھے اس دنیا میں رکھنا تھا ، اس نے میری تنہائی کا علاج بھی فراہم کردیا – میرے بزرگ ، رشتہ دار اور دوست تو ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، ان کی جگہ میرے ہزاروں سٹوڈنٹس اور فیس بک کے ساتھیوں نے لے لی – الحمدللہ سب لوگ بہت پیار کرتے ہیں ، میری تحریریں پڑھ کر خوش ہوتے ہیں ، دعائیں دیتے ہیں –
جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے ، ان کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا ، تاہم جو لوگ اردگرد موجود ہیں ان کی محبت تنہائی کے احساس کی شدت کو بہت حد تک کم کر دیتی ہے –
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاعر کو تو یہ شکوہ تھا کہ —— ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا ، الحمد للہ مجھے ایسا کوئی شکوہ نہیں – جوزمانہ چلا گیا ، وہ بھی میرا تھا ، جو دور اب گذر رہا ہے یہ بھی میرا ہے – میرے ساتھیوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے علاوہ بہت سے سکولوں کے بچے بھی ہیں – سینکڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جن سے آج تک ملاقات بھی نہیں ہوئی ، پھر بھی مجھے اجنبی نہیں بلکہ فیملی ممبر سمجھا جاتا ہے – بہت شکریہ آپ سب کا ، اللہ ہماری اس سنگت کو ہم سب کے لیئے خیروبرکت کا وسیلہ بنائے – فیس بک کا بھی بہت شکریہ کہ انہوں نے ہمیں مل بیٹھنے کے لییے یہ جگہ فراہم کردی –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  17 مارچ 2021 

میرا میانوالی

اچھے خاصے سفید پوش لوگ بھی جوانی میں بعض ایسی اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں جنہیں بعد میں یاد کرکے شرماجاتے ہیں –
ذکر ہے ان دنوں کا جب ہم سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں پڑھتے تھے – یہ کالج دربار داتا صاحب کے جنوب میں کربلا گانمے شاہ کے قریب واقع ہے-
ایک دفعہ جمعرات کی رات ممتاز بھائی (میرے ماموں زاد ملک ممتاز حسین ) ، لالُو نُورخان قتالی خیل (سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی) اور چکوال سے ہمارے ایک کلاس فیلو نے داتا دربار کی مسجد میں بسر کرنے کا پروگرام بنایا –
ممتاز بھائی اور لالُو نورخان خاصے مجنوں مزاج تھے- ہمیشہ کہیں نہ کہیں دل پھنسائی رکھتے تھے – ان معاملات میں اُونچ نیچ تو ہوتی رہتی ہے – کئی دفعہ ان دونوں کو آہیں بھرتے ، آنسو بہاتے دیکھا – کسی ایسے ہی چکر میں ان دونوں کو کسی نے داتا صاحب کے دربار پر رات گذارنے کا مشورہ دیا تھا – میں ان کا چھوٹا بھائی تھا ، اس لیے مجھے بھی ساتھ لے لیا –
رات بھر ہم لوگ داتا صاحب کی مسجد میں حسبِ توفیق عبادت میں مشغول رہے – صبح تقریبا ساڑھے تین بجے میں نے کہا چائے پینی ہے – چائے کی ضرورت دوسرے ساتھی بھی محسوس کر رہے تھے – ہم دربار کے جنوبی دروازے سے باہر بازار میں جانا چاہتے تھے – باہر جانے کے لیے ہم دروازے پر مامور جُوتوں کے محافظ سے اپنے جُوتے واپس لینے کے لیے گئے تو وہ بندہ اس وقت وہاں موجود نہ تھا – لالُو نورخان نے کہا مجبوری ہے ، چلو واپس اندر جائیں ، فجر کی نماز کے بعد چائے پی لیں گے – میں نے رولا کردیا کہ چائے ابھی اور فورا پینی ہے – یہ رولا ختم کرنے کے لیئے فیصلہ یہ ہوا کہ ننگے پاوں باہر بازار میں جاکر چائے پی جائے – سو ہم اپنے حال پر ہنستے ہوئے ننگے پاوں بازار میں نکلے — لاہوریوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی جس حال میں بھی پھر رہا ہو مذاق نہیں اُڑاتے – اس لیے چار پینٹ شرٹ میں ملبوس سمارٹ نوجوانوں کو ننگے پاؤں بازار میں پھرتے دیکھ کر کسی نے نہ مذاق اُڑایا۔ نہ تفتیش کی ، لہذا ہم بڑے اطمینان سے چائے پی کر مسجد میں واپس آگئے –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
——————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-  18مارچ 2021 

میرا میانوالی

آج جمعہ ہے – اس دن کو سَیِدِالاَیام (دنوں کا سردار) بھی کہا جاتا ہے- یہ دن قسمتیں سنورنے کا دن ہے – اس میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو مانگیں مل جاتا ہے – وہ لمحہ جس کو نصیب ہو گیا اس کا مقدر سنور گیا – ضروری نہیں کہ مانگنے والا نیک پاک ہو – اللہ تو سب کا رب ہے -صرف نیک لوگوں کا نہیں ، ہم جیسوں کا بھی –
ویسے تو وہ ہر وقت ہمارے قریب رہتا ہے ، ہماری ہر بات سنتا ہے – لیکن کچھ لمحات میں اس کی رحمت خاص طور پر جوش میں ہوتی ہے – رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ایسا ہی ایک لمحہ جمعہ کے دن میں بھی آتا ہے – وہ لمحہ دن میں کسی بھی وقت آسکتا ہے – بہت مختصر سالمحہ ہوتا ہے –
اس لمحے کی جستجو میں دن بھر اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے – کام جو بھی کریں دل میں یہ احساس ضرور رہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے – اگر یہ احساس ہو تو دل اس لمحے کو خود بخود پہچان لیتا ہے اور ہاتھ دعا کے لیئے اٹھ جاتے ہیں –
اللہ کریم ہم سب کو قبولیت کا وہ لمحہ عطا فرمائے –——————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک19 مارچ 2021 

 

 

 

 

میرا میانوالی

دسمبر کی سرد ، سوگوار شام
لاہور سے ماڑی انڈس جانے والی ٹرین میں دونوجوان مسافر (میں اور ایک دوست) میانوالی روانہ ہوئے- دوست نے ایک دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس نے سلیپر sleeper ریزرو کرادیا ہے – سلیپر ایک مخصوص آرام دہ کیبن ہوتا ہے جس میں سونے کے لیے کشادہ ، آرام دہ سیٹیں لگی ہوتی ہیں جنہیں برتھ berth کہتے ہیں – سلیپر ٹرین کا سب سے اونچا اور مہنگا درجہ ہوتا ہے –
میں نے دوست سے کہا بھی کہ یار اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی – اس نے کہا “ ویسے ہی جی چاہا ہم بھی تھوڑی سی عیاشی کرلیں “ –
عیاشی خاصی مہنگی پڑگئی – ٹرین روانہ ہوئی تو سرد ہوا کے زوردار جھونکوں سے بچنے کے لیے ہم کھڑکی بند کرنے لگے ، تب پتہ چلا کہ کھڑکی کا شیشہ ہی غائب ہے – ہوا کا رخ ایسا تھا کہ پورے زوروشور سے سیدھی ہمارے کیبن میں آ رہی تھی – شیخو پورہ پہنچے تو بارش بھی نازل ہوگئی – وہ بھی ہوا کے دوش پر سوار ہو کر سیدھی ہمارے کیبن میں برسنے لگی –
سردی کے مارے بُرا حال ہونے لگا تو ہم نے بغلوں میں ہاتھ دے کر کیبن میں چلنا شروع کردیا تاکہ چلنے سے جسم کچھ گرم ہو جائے – لیکن اس چھوٹے سے کیبن میں دوچار قدم سے زیادہ چلنا بھی ناممکن تھا – اب زندہ سلامت میانوالی پہنچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ہم اس کیبن کے عذاب سے نکل کر عام مسافروں والے کسی ڈبے میں جا بیٹھیں – اگلے سٹیشن پر ٹرین سے اتر کر جائزہ لیا تو تھرڈ کلاس (سب سے نچلا درجہ) میں دو خالی سیٹیں مل گئیں ، اور ہم وہاں بیٹھ کر زندہ و سلامت منزل مقصود پر پہچ گئے –
چار گنا زیادہ کرایہ دے کر تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کا ایک اپنا لطف تھا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-20 مارچ 2021 

میرا میانوالی

ماموں جان ملک منظورحسین منظور جب گورنمنٹ ہائی سکول ہڈالی ضلع خوشاب میں پرنسپل کے منصب سے ریٹائر ہوئے ان دنوں میں ان کے ہاں مقیم تھا – میں اس وقت چھٹی کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – ہڈالی سے داؤدخیل واپسی پر ہمارا قافلہ تین گاڑیوں پر مشتمل تھا – سامان کا ٹرک پہلے روانہ ہو گیا – دوگاڑیوں میں ہم فیملی کے لوگ تقریبا ّعصر کے وقت وہاں سے نکلے – ماموں جان اور اہل خانہ ایک کار میں ، میں اور ماموں کے تین صاحبزادے سجاد بھائی، ممتاز بھائی اور اقبال بھائی دوسری گاڑی میں روانہ ہوئے – ہماری والی گاڑی بہت ہرانے ماڈل کی جیپ نما کار تھی جو زیادہ سے زیادہ تیس چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی تھی –
جب ہم واں بھچراں ریلوئے پھاٹک کے قریب پہنچے تو ہماری گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا – گاڑی کے ساتھ زائد ٹائر بھی نہیں تھا – ٹائر کو پنکچر لگوانے کے لیے میانوالی لے جانا تھا – اس زمانے میں واں بھچراں اڈے کا نام ونشاں بھی نہ تھا – میانوالی آمدورفت کے لیے سرگودہا سے صبح ، دوپہر ، شام ، صرف تین بسیں اٹی تھیں – کچھ دیر بعد تیسری بس وہاں پہنچی تو ہمارا ڈرائیور ٹائر کوپنکچر لگوانے کے لیے اس پہ میانوالی روانہ ہوگیا – اس کی واپسی اب صبح میانوالی سے سرگودہا جانے والی پہلی بس سے ممکن تھی- ہم لوگوں کو رات اس ویرانے میں بسر کرنی پڑی – دُور تک آبادی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے –
ہمارے قافلہ سالار سجادبھائی نے پھاٹک پر متعین بزرگ ریلوے ملازم سے ًمذاکرات کا آغاز کیا تو پتہ چلا کہ وہ بھی داؤدخیل کے ہیں – ایک کمرے کے چھوٹے سے کوارٹر میں وہ بزرگ رہتے تھے – ان کے پاس دوسری چارپائی بھی نہ تھی – انہوں نے چائے سے ہماری تواضع کی – ان پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے کھانے کا بندوبست ہم نے خود کر لیا – وہ یوں کہ قریب ہی چنے کا کھیت تھا – یہی مارچ کے دن تھے – ڈڈوں کی عین جوانی کا موسم – ڈڈے ہی ہمارا شام کا کھانا بن گئے- یہ چوری تھی یا سینہ زوری، امید ہے اللہ معاف کر دے گا ، کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا –
رات بسر کرنے کے لیے بڑے بھائی تو کوارٹر کے فرش پر چادر بچھا کر لیٹ گئے – میں اور ممتاز بھائی سب سے چھوٹے تھے ,ہمیں قریب ہی ایک بس میں سلا دیا گیا – یہ بس سرگودہا سے واں بھچراں آتی تھی اور رات یہاں رہ کر صبح واپس جاتی تھی –
صبح ہماری گاڑی کا ڈرائیور ٹائر کو پنکچر لگوا کر آگیا تو ہم آگے روانہ ہوئے – ناشتہ میانوالی شہر کے ایک ہوٹل میں کیا – ادھر داؤدخیل میں ہماری امیاں رورو کر ادھ موئی ہوئی پڑی تھیں-
فون اس دور میں تھا نہیں کہ ہم اپنی خیریت کی اطلاع دیتے – اس لیے گھر والوں کے لیئے وہ رات قیامت سے کم نہ تھی – ہم پہنچ گئے تو شکرانے کے نفل اور صدقہ خیرات کا سلسلہ دن بھر چلتا رہا -امی نے فورا گڑ کی بوری منگوا کر محلے کے لوگوں میں تقسیم کردی ۔ لوگ شام تک مبارکیں دینے کے لیے آتے رہے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
—————- رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک-  21 مارچ 2021 

میرا میانوالی

پیر عادل شاہ بخاری کا میلہ عیسی خیل کے کلچر کا ایک خوبصورت مظہر ہؤا کرتا تھا – شاید یہ میلہ اب بھی منعقد ہوتا ہو – پیر عادل شاہ کا میلہ ہر سال مارچ کے مہینے میں منعقد ہوتا تھا – شغل میلے کو ترسے ہوئے لوگوں کے لیے یہ میلہ ایک نعمت تھا – یہ میلہ پیر بابا عادل شاہ کے نام سے منسوب ہے –
پیر عادل شاہ کا مزار عیسی خیل شہر کے شمال مغربی سرے پر محلہ بمبرانوالہ میں واقع ہے – بمبرانوالہ بہت مردم خیز محلہ ہے – لالا عیسی خیلوی کا گھر اسی محلے میں واقع ہے – میانوالی کے بارے میں جامع ویب سائیٹ کے تخلیق کار کرنل شیر بہادر خان نیازی کا گھر بھی اسی محلے میں ہے – معروف ماہر تعلیم اور مقبول گلوکار عبدالقیوم خان نیازی کا آبائی گھر بھی اسی محلے میں ہے – گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے سابق پرنسپل پروفیسر نجیب اللہ ہاشمی بھی اسی محلے کے چشم و چراغ تھے ، بمبرا قبیلے کے سربراہ ہیبت خان نیازی بھی اس محلے کی نامور شخصیت ہیں – ہمارے جگری یار عتیل عیسی خیلوی کا گھر پیر عادل شاہ کے قبرستان سے ملحق ہے – عتیل صاحب اب دیوار کے دوسری طرف قبرستان میں زیرزمیں مقیم ہیں –
گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں سروس کے دوران ہم بھی بہت عرصہ اس محلے میں رہے – میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کا مُولد بھی یہی محلہ ہے –
ہمارے ساتویں کلاس کے ساتھی سید امداد حسین بخاری پیر عادل کے سجادہ نشین تھے – وہ بھی سنا ہے یہ دنیا چھوڑ کر داداجی کے پاس جابسے – بہت زندہ دل انسان تھے –
گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے ملازم سکندر خان پیر عادل شاہ کے زبردست معتقد تھے – ایک دفعہ انہوں بتایا کہ وہ فوج کی ملازمت سے فارغ ہونا چاہتے تھے ، مگر ان کے افسر نہیں مانتے تھے – سکندر خان نے بابا عادل کے مزار پر جاکر بار بار درخواست کی کہ مجھے فوج سے چھٹی کروادیں – کہتے ہیں کہ جب بار بار التجا کے باوجود میری درخواست منظور نہ ہوئی تو میں نے دادا عادل شاہ کے مزار پر جا کر کہا “دادا جی ، اگر اس ماہ مجھے فوج کی ملازمت سے فارغ نہ کیا گیا تو میں آپ کی قبر پر لگی دونوں تختیاں اکھاڑ کر دریا میں پھینک دوں گا – دھمکی کام کر گئی – اسی ماہ سکندر خان فوج سے فارغ ہو گئے –
——————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-24 مارچ 2021 

میرا میانوالی

کل بھی مصروفیت کی وجہ سے آپ کی محفل میں حاضر نہ ہوسکا – ویسے تو یہ مصروفیت تقریبا ایک سال سے چل رہی ہے ، لیکن آپ کی محبت اور آپ کی دعاؤں کی ضرورت نے غیر حاضری سے روکے رکھا – اب یہ مصروفیت بحمداللہ آخری مراحل میں ہے – تقریبا ایک ہفتے کا کام باقی ہے – اس ہفتے کے دوران کبھی مصروفیت زیادہ ہوگئی تو ایک دودن آپ کی محفل سے چھٹی کرنی پڑے گی –
مصروفیت یہ ہے کہ اردو میں انگریزی ادب کی تاریخ لکھ رہا ہوں – کام آسان نہیں لیکن میری پسند کا ہے کہ ساری زندگی انگریزی ادب ہی پڑھتا پڑھاتا رہا ہوں – اردو میں لکھنا اس لیے آسان نہیں کہ ادب کی بہت سی اصطلاحات اردو میں سرے سے موجود ہی نہیں – اللہ کریم کا بے حساب شکر کہ میرے لیے اردو ، انگریزی ، دونوں زبانوں میں لکھنا یکساں آسان ہے – اس کام میں زیادہ وقت اس لیے لگ جاتا ہے کہ بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے – مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنی پڑتی ہیں – ادب کی تاریخ کے بڑے بڑے ناموں کے مقام کا تعین کرنے کے لیے ادھر ادھر بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے – بعض مورخین کے تعصبات سے دامن بچا کر صاف ستھرے حقائق بیان کرنے کی کوشش میں وقت تو لگتا ہے – بھُوسے سے گندم کو الگ کرنے جیسا کام ہے –
یہ کام اپنے دیرینہ مہرباں پبلشر کتاب محل کی فرمائش پہ کر رہا ہوں – کتاب محل سے تعلق تقریبا تیس سال قبل قائم ہوا – اس ادارے کے بانی سید سردار جاوید صاحب میرے بہت مہربان دوست تھے – ان کے جانشین سید محمدعلی جاوید میرے لیے بیٹوں کی طرح ہیں ، اس لیے کام کرنا بوجھ نہیں لگتا – کام کی بخیرو خوبی تکمیل کے لیے آپ کی دعائیں میرا رختِ سفر ہونی چاہئیں –
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  26مارچ 2021 

میرا میانوالی

خوشگوار لمحات ——-کتاب محل ، اردو بازار ، لاھور
25 مارچ 2021

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top