منورعلی ملک کےنومبر          2020 کےفیس بک پرخطوط

 

آج سے پورے 91 سال قبل 31 اکتوبر 1929 کو سنٹرل جیل میانوالی میں 21 سالہ نوجوان غازی علم الدین شہید شمع رسالت پر اپنی جان قربان کر کے ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے –غازی علم الدین لاہور کی ایک ترکھان (درکھان ) فیملی کے چشم وچراغ تھے – راج پال نامی ایک ہندو نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بارے میں ایک انتہائی توہین آمیز کتاب شائع کی ، جس پر پورے برصغیر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا – اس پبلشر کو واصل جہنم کرنے کی آرزو تو بہت لوگوں کو تھی ، مگر یہ اعزاز علم الدین کے نصیب میں لکھا تھا – غازی علم الدین ایک تیز دھارچھری لے کر راج پال کی دکان میں داخل ہوئے اور چھری کے پےدرپے وار کر کے اس ملعون کو جہنم رسید کر دیا –

قتل کا مقدمہ چلا اور غازی کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا –
4 اکتوبر کو غازی علم الدین کو سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے میانوالی جیل لایا گیا – عوام کے غیظ وغضب کو دیکھتے ہوئے فورا سزا ئے موت دینا ممکن نہ تھا – میانوالی جیل میں 27 دن کے قیام کے دوران میانوالی کے لوگوں نے غازی اور ان سے ملاقات کے لیے آنے والے لوگوں کی بہت خدمت کی ، جس کی بنا پر غازی نے میانوالی کے لوگوں کے لیے خصوصی دعا کی – میانوالی جیل میں غازی علم الدین سزائے موت کے قیدیوں کی کوٹھڑی نمبر 10 میں مقیم رہے –
کچھ نوجوانوں نے کہا ہم جیل توڑ کر آپ کو یہاں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں – غازی علم الدین نے کہا “نہیں میرے بھائی، میں یہاں سے کہیں اور نہیں ، سیدھا جنت جانا چاہتا ہوں “-
یوں 31 اکتوبر کو علی الصبح غازی علم الدین اپنی منزل پہ جاپہنچے –
موت ایسی کہ فرشتوں کو بھی رشک آتا تھا
شہید کا جسد خاکی وصول کرنے کے لیے جیل کے دروازے پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم جمع ہوگیا – اچھا خاصا ہنگامہ ہوا ، جس میں پولیس کا ایک ڈی ایس پی بھی زخمی ہوا – یہ حالات دیکھ کر فورا امانت کے طور پہ شہید کے جسد خاکی کو جیل کے ملحقہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا –
ادھر لاہور میں شہید کی میت لانے کے لیے شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ، جس کے نتیجے میں عدالت نے میت کو لاھور لا کر دفن کرنے کاحکم دیا – 15 دن بعد 14 نومبر کو میانوالی جیل سے میت لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں منتقل کر دی گئی –
میت کو قبر میں علامہ اقبال نے اتارا – اس موقع پر علامہ نے روتے ہوئے کہا ——
“ اسیں گلاں ای کردے رہے ، تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا “
( ہم جیسے عاشق رسول بس باتیں ہی کرتے رہ گئے ، اور درکھانوں کا بیٹا بازی لے گیا )
———————————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 1نومبر2020

عیسی خیل میں میرے قیام کی داستان چل رہی تھی –

پروفیسر ایس ایم اے فیروز چندماہ بعد فیصل آباد ٹرانسفر ہو گئے – ان کی جگہ پروفیسر سید محمد رمضان شاہ ہمارے پرنسپل بن کر آئے – انہوں نے بتایا کہ عیسی خیل آنے کو کوئی اور رضامند نہیں ہوتا تھا ، میری سروس کے تین چار ماہ باقی تھے ، میں نے کہا مجھے بھیج دیں –

شاہ جی ( میں انہیں شاہ جی کہا کرتا تھا ) بہایت سادہ اور بے حد شفیق بزرگ تھے – ایک بہت پیاری سی بچوں جیسی معصومیت تھی ان کی شخصیت میں – فزکس کے پروفیسر تھے – ہم سب نوجوان لیکچرر تھے – شاہ جی ہم سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے –
شاہ جی بیڑی پیتے تھے – بیڑی سگریٹ جیسی چیز ہے ، سگریٹ کا تمباکو تو کاغذ میں لپٹا ہوتا ہے ، بیڑی کا تمباکو پیپل کے پتے جیسے چوڑے خشک پتے میں لپٹا ہوتا ہے – بڑی مزیدار چیز ہے ، انڈیا میں عام چلتی ہے – پاکستان میں کہیں نہیں دیکھی ، ورنہ میں ضرور پیتا – سٹاف میں باقاعدہ سموکر صرف میں ہی تھا ( ہم انگریزی ادب کے پروفیسروں میں اس قسم کا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا عیب ضرور ہوتا ہے ) – شاہ جی جب بھی بیڑی کا پیکٹ نکالتے ۔ ایک بیڑی مجھے پکڑا دیتے — کہا کرتے تھے دفع کرو سگریٹ کو، بیڑی سے گلا صاف رہتا ہے ، کھانسی نہیں آتی – یوں شاہ جی کے طفیل مجھے بھی بیڑی پینے کا موقع برابر ملتا رہا –
شاہ جی میرے ہی کمرے میں مقیم تھے- شام کا کھانا کھا کر بہت جلد سو جاتے تھے – جب وہ سو جاتے تو میں چپکے سےدروازہ کھول کر میکدے کی محفل میں جا بیٹھتا – ایک رات شاہ جی جاگے تو میں غائب تھا – انہوں نے مجھ سے پوچھا نہیں – بتاتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی – دوتین دن ایسا ہی ہوا تو انہوں نے کالج میں میرے دوسرے ساتھیوں سے کہا “ ملک صاحب رات کو کہیں چلے جاتے ہیں ، بہت دیر سے واپس آتے ہیں – پتہ نہیں کہاں جاتے ہیں ؟“
ان لوگوں نے بتایا کہ ملک صاحب اپنے سنگر دوست عطاءاللہ خان عیسی خیلوی کے ہاں جاتے ہیں ، وہاں ہر رات موسیقی کی محفل ہوتی ہے –
مجھے پتہ چلا تو میں نے شاہ جی سے کہا “ سر، آپ کو بتاتے ہوئے شرم آتی تھی ، اگر آپ کو میرا جانا پسند نہیں تو نہیں جاؤں گا “
شاہ جی نے مسکرا کر کہا “ بڑے شوق سے جائیں – دراصل مجھے ایک اور خدشہ تھا کہ آپ نوجوان آدمی ہیں کہیں کوئی اور چکر ——— یہ کہہ کر شاہ جی نے قہقہہ لگایا – قہقہے میں میں نے بھی ان کا ساتھ دیا –
شاہ جی کی رفاقت صرف تین چار ماہ میسر رہی ، مگر بہت یاد آتے ہیں – کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ سرحد حیات کے اس پار جا بسے – اللہ کریم انہیں اپنی رحمت کی امان میں رکھے – ایسے شفیق بزرگ آج کل بہت کم رہ گئے ہیں –
—————————– رہے نام اللہ کا ————بشکریہ-منورعلی ملک-2نومبر2020

میرا میانوالی

پروفیسر سید محمد رمضان شاہ صاحب کی ریٹائر منٹ کے بعد ڈاکٹرعبدالمجید قریشی صاحب گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل مقرر ہوئے – فارسی کے پروفیسر تھے – تہران یونیورسٹی (ایران) سے ڈاکٹر یٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی تھی – بہت پڑھے لکھے ، نفیس مزاج اور سوشل انسان تھے – بہت خوبصورت ادبی گفتگو کرتے تھے – ان کے جمہوری مزاج کی وجہ سے کالج کا ماحول بہت خوشگوار بن گیا –
دوپہر کے بعد ان کی قیام گاہ پر بھی سب دوست مل بیٹھتے تھے – عیسی خیل میں سیروتفریح کی کوئی جگہ نہ تھی – ہوٹل بھی ڈرائیوروں والے تھے ، پروفیسرصاحبان کے معیار کے نہ تھے – دن گذارنا خاصا مشکل ہوتا تھا –
ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلے کا حل تاش کی بازی تجویز کیا – سب نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا – ہم تاش پر جوءا نہیں بےضرر قسم کا کھیل سیپ کھیلتے تھے ، جسے ہماری زبان میں سپ sip کہتے ہیں – اصل لفظ انگریزی کا sweep ہے –
اس کھیل میں دو جوڑیاں (چارآدمی) شریک ہوتے ہیں – ایک جوڑی ہارتی تو اس کی جگہ دوسری آجاتی – جو لوگ فارغ ہوتے وہ گپیں لگا تے رہتے – ڈاکٹر صاحب خود یہ گیم کھیلنے کے زیادہ شوقین نہ تھے – یہ تو انہوں نے ہمارے لیے مل بیٹھنے کا بہانہ بنایا تھا – جب کبھی خود کھیلتے تو اکنامکس کے پروفیسر ملک محمد یوسف چھینہ صاحب یا نفسیات کے پروفیسر حسین احمد ملک صاحب ان کے پارٹنر ہوتے تھے– دو جوڑیاں بڑی دلچسپ تھیں ، ایک میں اور عتیل ، دونوں شاعر ، دوسری جوڑی عربی اور اسلامیات کے پروفیسر صاحبان – ( جی ہاں ، جوانی میں سب چلتا ہے) –
تاریخ کے پروفیسر چوھدری محمد رمضان صاحب اس کھیل کے سپیشلسٹ تھے –
ڈاکٹر صاحب بہت مہمان نواز تھے – ہر ایک آدھ گھنٹہ بعد چائے کا دور چلتا تھا – چائے کے ساتھ کھانے کو ڈاکٹر صاحب بہت اعلی قسم کے بسکٹ بھی فراہم کرتے تھے – وہ خوش گپیاں ، وہ قہقہے بہت یاد آتے ہیں –
ڈاکٹر صاحب عیسی خیل کالج میں تقریبا ایک سال رہے – وہ سال عیسی خیل میں ہمارے قیام کا یادگار دور تھا – عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر ڈاکٹر صاحب جوہرآباد گئے – کچھ عرصہ بعد گورنمنٹ کالج شاہپور کے پرنسپل مقرر ہوئے – سروس کے دوران ہی اللہ کو پیارے ہو گئے ———————–اک آسمان تھا جو تہہ خاک سو گیا-
————————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 3نومبر2020

میرا میانوالی

ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب کا ٹرانسفر دسمبر کی چھٹیوں میں ہوا – اس وقت عیسی خیل میں صرف میں ہی موجود تھا ، باقی پروفیسر صاحبان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے – ڈاکٹر صاحب کو جانے کی جلدی تھی – مجھ سے کہا پرنسپل کا چارج آپ لے لیں – اصولا چارج تاریخ کے پروفیسر چوہدری محمد رمضان کو ملنا چاہیے تھا کہ وہ ہم سب سے سینیئر تھے – میرا تو سینیارٹی میں تیسرا چوتھا نمبر بنتا تھا – مگر ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل سے انکار نہیں کر سکتا تھا – اس لیے پرنسپل مجھے ہی بننا پڑا – تاہم میں نے ڈاکٹر صاحب کی رضامندی سے ان کی چارج رپورٹ میں یہ لکھوا دیا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد چارج پروفیسر چوہدری رمضان صاحب کے سپرد کر دیا جائے –
اپنی چارج رپورٹ ہا ئیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا کر ڈاکٹر صاحب چلے گئے – یوں جدا ہونا ہمارے لیے آسان نہ تھا – وقت رخصت دونوں کی آنکھیں بھیگ گئیں –
چھٹیاں ختم ہونے پر کالج کھلا تو میں نے چارج چوہدری رمضان صاحب کو دے دیا – جس طرح سرکاری دفتروں میں مکھی پر مکھی مارنے کارواج ہے ، محکمہ تعلیم کے حکام نے پوری چارج رپورٹ پڑھے بغیر انچارج پرنسپل کے طور پر میرا نام گورنر صاحب کو منظوری کے لیے بھجوا دیا – ایک دن اچانک گورنر صاحب کا نوٹیفیکیشن موصول ہؤا جس میں لکھا تھا کہ
The Honourable Governor is pleased to appoint Mr Munawar Ali Malik, Lecturer in English, as Acting Principal of Government College, Isakhel.
چوہدری رمضان صاحب نے چارج پھر میرے حوالے کر دیا –
یوں تقریبا ایک سال مجھے بطور پرنسپل کام کرنا پڑا – کام کچھ مشکل نہ تھا – چھوٹا سا کالج تھا – سٹاف کے سب لوگ میرے ذاتی دوست تھے – میں نے ڈاکٹر صاحب والا جمہوری رویہ اپنا کر سب کو راضی رکھا – اللہ نے عزت رکھ لی – وقت بہت اچھا گذر گیا –
پرنسپل بننے کا مجھے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہؤا کہ میں نے کالج کی لائبریری کو اردو اور انگریزی ادب کی بہترین کتابوں سے مالا مال کردیا – اس سال کتابوں کی خریداری کے لیے سرکار نے بیس ہزار روپے دیئے تھے – میں نے خود لاہور جا کر کتابیں منتخب کیں – اس زمانے میں بیس ہزار روپے معمولی رقم نہ تھی – اتنے پیسوں میں بہت سی کتابیں آگئیں – میرے حساب سے پیسے پھر بھی کم تھے – ایک لاکھ بھی ہوتا تو میری حرص پھر بھی ختم نہ ہوتی – میرے کام کی کئی کتابیں پھر بھی رہ جاتیں – بہرحال جو کچھ مل گیا اسی پر اللہ کا شکر ادا کر کے بہت سی اچھی کتابیں لے لیں – ٍناصرکاظمی ، فیض , احمد ندیم قاسمی ، شکیب جلالی ، منیر نیازی ، قتیل شفائی ، فراز ، محسن نقوی ، ابن انشاء ، مصطفی زیدی اور پروین شاکر وغیرہ کی جو کتابیں مل سکیں سب اٹھا لایا
– اسی طرح اپنی پسند کے بہت سے انگریزی ناول بھی لے آیا – یوں عیسی خیل میرے لیے جنت بن گیا –
——————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 4نومبر2020

میرا میانوالی

کالج لائبریری کے لیے میں نے اردو کی صرف جدید شاعری کی کتابیں ہی خریدیں – فنکاروں کے شہر میں ناول کون پڑھتا ہے – لالا عیسی خیلوی کے علاوہ بھی اس شہر کے لوگوں کا مزاج شاعرانہ سا ہے – لکھنے والے بھی ، تلوک چند محروم ، جگن ناتھ آزاد ، مجبورعیسی خیلوی، عتیل عیسی خیلوی ، پروفیسر کلیم اور نوجوان طبقہ کے کچھ لوگ شاعر ہی ہیں – شاعری عام لوگ بھی بہت شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں –
ویسے بھی اردو ناول کا دامن بہت تنگ ہے – بین الاقوامی معیار کے دوتین ہی ناول ہیں اردو ادب کے دامن میں – قرت العین حیدر کا ناول آگ کا دریا ،انتظارحسین کا بستی , بانو قدسیہ کا راجہ گدھ اور عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں ، صرف یہی چند ناول بین الاقوامی معیار کے ہیں – اداس نسلیں کے بارے میں ایک بار پھر بتا دوں کہ یہ ناول عبداللہ حسین نے داؤدخیل (سکندرآباد) میں بیٹھ کر لکھا تھا – اس وقت موصوف سکندرآباد کی میپل لیف فیکٹری میں انجینیئر تھے ٠ یہ ناول 1963 میں شائع ھوا۔
اردو افسانہ کا دامن خاصا وسیع ہے ، سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی ، ّعصمت چغتائی ، غلام عباس ، سب لوگ بہت بڑے افسانہ نگار تھے – یہ سب ہمعصر (ایک ہی دور کے لوگ تھے)- یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 1945 سے1960 تک کا دور اردو افسانے کا سنہری دور تھا ٠ ان افسانہ نگاروں کی لکھی ہوئی کہانیاں بلاشبہ انگریزی اور امریکن short stories کی ہم پلہ ہیں – ان کے بعد کے دور میں انتظارحسین ، ممتاز مفتی ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، جیلانی بانو ، اسد محمد خان ، رام لال، ہر چرن چاولہ وغیرہ بھی اسی معیارکے افسانہ نگار ہیں –
بات بہت دور نکل گئی ، چلیں خیر کبھی کبھی علم و ادب کی باتیں بھی سن لیا کریں – شوق ہو تو ان لوگوں کی کتابیں پڑھ بھی لیں – لائبریریوں میں اور کتب فروشوں کے ہاں عام مل جاتی ہیں – اگر سب کچھ سمارٹ فون سے ہی کرنا ہے تو ان میں سے کئی کتابیں pdf میں بھی دستیاب ہیں – ضرور پڑھیں – بہت فائدہ ھوگا –
——————————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 5نومبر2020

میرا میانوالی

انگریزی ادب کی کتابیں لاہور میں مال روڈ پر بک سینٹر ، پیراماؤنٹ بک ایجنسی، مرزابکس ، انارکلی میں پبلشرز یونائیٹڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے ملحق پنجاب ریلیجس بک سوسائیٹی سے ملتی تھیں – پڑھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی – آج بھی یہی حال ہے – اچھی کتابوں کے شوقین (ٹھرکی کہنا چاہیے) پنجاب پبلک لائبریری اور دوسری بڑی لائبریریوں سے کتابیں لے لیتے تھے – اس لیے انگریزی ادب کی کتابوں کا کاروبار بس گذارہ ہی تھا –
قیام پاکستان سے پہلے یہ کاروبار خاصا تیز تھا ، انگریز افسر اور پروفیسر صاحبان کی ایک بڑی تعداد یہاں مقیم تھی – بلکہ بیسیوں صدی کے ایک بڑے ناول نگار Rudyard Kipling بھی کئی سال یہاں رہے – وہ انگریزی کے اخبار Civil and Military Gazette کے ایڈیٹر تھے – انگریزی ادب میں سب سے پہلا نوبیل پرائیزNobel Prize بھی کپلنگ کو ملا – لیکن وہ ایک متنازعہ شخصیت تھے ، برطانوی سامراج کے زبردست حامی اور آزادی کی تحریکوں کے سخت مخالف تھے – کپلنگ کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ لاہور میں انگریزی ادب کے قارئین کا ذکر ہو رہا تھا –
1977 میں جب میں وہاں کتابیں خریدنے کے لیے گیا تو کام کی بہت کم کتابیں وہاں مل سکیں – جو مل سکیں ان میں سے جیمز باسویل کی شہرہ آفاق کتاب Life of Johnson ، برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کی چھ کتابون کا سیٹ ، آسکر وائیلڈ کا ناول The Picture of Dorian Grey سمرسٹ ماہم کا The Moon and Sixpence ، اور کچھ وکٹورین دورکے Dickens, Thackeray, George Eliot, Hardy کے ناول ہی مل سکے –
آپ کو تو شاید یہ قصہ پڑھتے ہوئے بھی نیند آرہی ہو ، میرے لیے یہ سب کتابیں بہت اہم تھیں – یوں سمجھ لیجیئے کہ ان اہل قلم میں سے ہر ایک اپنے فن کا عطآءاللہ عیسی خیلوی تھا
——————————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 6نومبر2020

میرا میانوالی

عیسی خیل کالج میں ہم نے دوچار یادگار تقریبات بھی منعقد کیں – سب سے بڑی تقریب پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی اپنے آبائی وطن عیسی خیل آمد پر منعقد ہوئی – جگن ناتھ آزاد مشہورومعروف شاعر تلوک چند محروم کے صاحبزادے تھے – ان کا آبائی گاؤں عیسی خیل کچہ کا موضع گاجرانوالہ تھا – سیلاب کی زد میں آکر وہ گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا – جگن ناتھ کے والد فیملی کے ساتھ عیسی خیل شہر منتقل ہوگئے – ان کا گھر مین بازار میں جامع مسجد کے قریب تھا –
جگن ناتھ آزاد نے میٹرک تک تعلیم میانوالی شہر کے رائے موہن رام ہائی سکول سے حاصل کی – میانوالی کے موجودہ گورنمنٹ ہائی سکول کی عمارت دراصل رائے موہن رام سکول کی عمارت تھی – قیام پاکستان کے بعد یہ عمارت ویران ہو گئی – رائے موہن رام ہندو تاجر تھے- سکول کا سارا خرچ وہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے – موہن رام کے بعد یہ سکول اجڑ گیا –
گورنمنٹ ہائی سکول کی اصل عمارت وہ تھی جہاں آج کل گورنمنٹ کالج برائے خواتین چل رہا ہے – 1950 میں جب گورنمنٹ کالج میانوالی قائم ہوا تو وہ عمارت کالج کو دے کر گورنمنٹ ہائی سکول کو رائے موہن رام سکول کی عمارت میں منتقل کردیا گیا – یوں ایک ہندو میانوالی پر ایک ایسا احسان کر گیا جس سے لوگ آج بھی مستفید ہو رہے ہیں – اللہ مسلمانوں کو بھی ایسے فلاحی کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے – ہندؤوں نے پاکستان میں بہت بڑے بڑے ادارے قائم کیے – لاہورکے گنگا رام ہسپتال اور گلاب دیوی ہسپتال ، اور ایسے بے شمار ادارے ہندؤوں ہی نے قائم کیے –
جگن ناتھ آزاد نے رائے موہن رام ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنڈی کے اینگلو ویدک کالج سے ایف اے کیا – یہ بھی ہندؤؤں کا کالج تھا – پھر گارڈن کالج راولپنڈی سے فارسی میں ایم اے کیا – بعد میں ایم اے اردو کر کے اردو کے لیکچرر مقرر ہوگئے – قیام پاکستان کے وقت بھارت منتقل ہوگئے –
جگن ناتھ آزاد جموں یونیورسٹی ( مقبوضہ کشمیر) میں شعبہ اردو کے چیئرمین کے منصب سے ریٹائر ہوئے – 70 کتابوں کے مصنف اور اقبالیات کے بہت بڑے ماھر تھے – علامہ اقبال کے بارے میں ان کی معلومات سند سمجھی جاتی تھیں – اقبال کے بارے میں ان کی کتابیں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ھیں – انہیں بیرون ملک کی یونیورسٹیاں اقبالیات پر لیکچرز کے لیے بھی بلایا کرتی تھیں –
آج کی پوسٹ تو جگن ناتھ آزاد کے تعارف کی نذر ہوگئی – ان کی استقبالیہ تقریب کی روداد ان شآءاللہ کل لکھوں گا – جو کچھ آج لکھا اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ عیسی خیل کچے کے پندرہ بیس گھروں پر مشتمل چھوٹے سے گاؤں کا لڑکا اپنی محنت اور اللہ کی مدد سے ایک بین الاقوامی علمی شخصیت بن گیا –
اب مجھے کچھ اور کام کرنے ہیں —- وہ جو پرانے زمانے میں خط کے آخر میں لکھا کرتے تھے “ تھوڑے لکھے کو بہتا سمجھیں “
ان شآءاللہ کل ملاقات ہوگی –
—————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-7نومبر2020

میرا میانوالی

جگن ناتھ آزاد کو سرکاری قاعدے قانون کے مطابق عیسی خیل میں صرف ایک دن (چوبیس گھنٹے) رہنے کی اجازت مل سکی – یہ وقت اتنا کم تھا کہ مہمان اور میزبانوں کی کئی حسرتیں باقی رہ گئیں – نہ جگن ناتھ کو خبر تھی نہ ہمیں کہ عیسی خیل میں یہ ان کا آخری پھیرا ہے—– مسافر کو 30 سال بعد گھر واپس آنے کا موقع نصیب ہوا ، وہ بھی صرف ایک دن کے لیے ——
جگن ناتھ انڈیا سے اسلام آباد ، پھر وہاں سے عیسی خیل آئے تھے – سرکاری مہمان تھے اس لیے ان کی آمدورفت کا پروگرام سرکار نے پہلے ہی طے کر دیا تھا – اسلام آباد سے اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل جناب مسیح الدین احمد صدیقی ، اور ان کے نائب خالد اقبال یاسر ان کے ہمراہ آئے تھے –
عیسی خیل میں جگن ناتھ آزاد کی آمد پر دو استقبالیہ تقریبات منعقد ہوئیں – پہلی تقریب کالج اور گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کے زیر اہتمام ہوئی – میانوالی سے ڈاکٹر اجمل نیازی ، پروفیسر سلیم احسن ، پروفیسر محمد فیروز شاہ اور کچھ دوسرے احباب بھی اس تقریب میں شریک ہوئے – سب نے اپنے اپنے انداز میں جگن ناتھ آزاد سے محبت کا اظہار کیا – جگن ناتھ بہت خوش ہوئے – اس تقریب میں میزبان ( سٹیج سیکریٹری ) میں تھا – میں نے استقبالیہ مضمون کے علاوہ ایک استقبالیہ نظم بھی پڑھی – جب میں نے اس نظم کا یہ شعر پڑھا :
گھر میں ہو مگر باپ کے سائے سے ہو محروم
آزاد ، بڑی دیر سے لوٹے ہو وطن کو
تو جگن ناتھ بہت روئے – مجھ سے یہ شعر باربار پڑھوا کر روتے رہے – تقریب کے بعد عتیل نے وہ کاغذ مجھ سے لے لیا جس پر میں نے وہ نظم لکھی تھی – شام کو ملے تو مسکرا کر کہنے لگے ، بھائی صاحب وہ نظم اب میری ہو گئی – عتیل میرے جگر تھے – ان کو میں کیسے انکار کر سکتا تھا – یوں وہ نظم عتیل صاحب کی ہوگئی –
تقریب کے آخر میں جگن ناتھ آزاد نے خصوصا اس موقع کے لیے لکھی ہوئی اپنی ایک نظم بھی سنائی تھی – اس کا یہ شعر پڑھتے ہوئے ان کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں ، سامعین کی بھی
میں اپنے گھر میں آیا ہوں ، مگر انداز تو دیکھو
کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں
تقریب کے بعد جگن ناتھ آزاد نے عیسی خیل شہر میں جا کر اپنا گھر دیکھا – دیر تک درودیوار کو چومتے اور روتے رہے – خاص طور پر اس موقع پر وہ اپنی اس بہن کو یاد کر کے بہت روئے ، جو حادثاتی طور پر جل کر مر گئی تھی –
———————————- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 8 نومبر2020

میرا میانوالی

جگن ناتھ آزاد کے اعزاز میں دوسری تقریب اسی شام عیسی خیل کے رئیس سعداللہ خان کے ہاں منعقد ہوئی – سعداللہ خان ، جگن ناتھ آزاد کے بچپن کے دوست تھے – اس تقریب میں شہر کے عوام نے بھی بھرپور شرکت کی – سب لوگ اپنے اس ہم وطن مسافر کو دیکھنے کے لیے آئے تھے ، جو تیس سال بعد چند لمحوں کے لیے اپنے وطن واپس آیا تھا –
اس تقریب میں لالا عیسی خیلوی نے جگن ناتھ آزاد اور ان کے والد تلوک چند محروم کی غزلیں بہت خوبصورت انداز میں گا کر سماں باندھ دیا – اس تقریب میں بھی سٹیج سیکریٹری کی ذمہ داری میں نے نبھائی – جگن ناتھ آزاد کی فرمائش پر لالا نے چند مقبول عام سرائیکی گیت ——- ساوی موراکین —— کالا شاہ بدلا ناں وس توں ساڈے دیس ، اور —– بوچھنڑاں میں توں یار ناں کھس وے , وغیرہ سنا کر ماحول میں رنگ بھر دیا —— بوچھنڑاں میں توں یار ناں کھس وے ، ہندو خواتین کا لوک گیت تھا ، جو وہ شادی بیاہ کے موقع پر گایا کرتی تھیں – مجبور عیسی خیلوی صاحب نے یہ گیت انہی سے سن کر لکھا تھا –
درد انگیز اردو ، سرائیکی کلام ، لالا کی پر سوز آواز ، پس منظر میں جگن ناتھ آزاد کی مسافرت کے دکھ ——- ایک عجیب سا ماحول بن گیا اس رات – دکھ کا وہ تاثر یہ داستان لکھتے وقت بھی محسوس ہو رہا ہے –
صبح ناشتے کی دعوت نوابزادہ صلاح الدین خان کے ہاں تھی – ناشتے کے فورا بعد جگن ناتھ آزاد آنسؤؤں کے بہت سے نذرانے لے دے کر رخصت ہوگئے – کہہ گئے تھے پھر کبھی آؤں گا – مگر دوسری بار آنا نصیب میں نہ تھا –
——————————– رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 9نومبر2020

میرا میانوالی

جگن ناتھ آزاد کی تقریب میں لالا کے ہمراہ ریڈیو ملتان کے میوزیشیئن ( سازندے) آئے تھے – ان میں سارنگی نواز محمد حسین کے فن سے میں بہت متاثر ہوآ – اگلی صبح میں وہاں گیا تو سارنگی نواز محمد حسین اور ان کے ساتھی بیٹھے گپیں لگا رہے تھے – لالا ابھی گھر کے دوسرے حصے میں سویا ہوا تھا – میں نے محمد حسین سے کہا “ بھائی صاحب ، آپ سارنگی پر انڈین فلمی گانوں کی دھنیں بھی بجا لیتے ہیں ؟؟؟
محمد حسین نے کہا “ جی ، اللہ کا بڑا کرم ہے – آپ حکم کریں “ –
میں نے لتا منگیشکر کے ایک پرانے فلمی گیت کا نام لیا تو محمد حسین نے فورا سارنگی سنبھالی اور اس گیت کی دھن بجانے لگے – میں نے شاباش دی تو کہنے لگے “ سرَِ ، آپ کسی بھی انڈین یا پاکستانی گیت کا نام لیں تو آپ کا یہ نوکر آپ کے حکم کی تعمیل کردے گا – اگر ناراض نہ ہوں تو ایک چھوٹی سی درخواست کر سکتا ہوں ؟؟؟“
میں نے کہا “بتائیں “
محمد حسین نے کہا “ سر، بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ، اگر زحمت نہ ہو تو مجھے کہیں سے چرس کی ایک گولی منگوا کر دے سکتے ہیں ؟“
چرس کی گولی —- !!!! اللہ معاف کرے میں نے تو ان چیزوں کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا – بہر حال ایک غریب فنکار کی مجبورٰی کا لحاظ رکھتے ہوئے میں نے اس محلے کے اپنے ایک واقف کار کو پیسے دے کر چرس کی دوتین گولیاں محمد حسین کو منگوا دیں – بہت خوش ہوئے – سگریٹ کا کش لگا کر کہنے لگے “ سر ، اب حکم کریں “
یوں تقریبا ایک آدھ گھنٹہ میری فرمائش پر محمد حسین مختلف انڈین ، پاکستانی گیتوں کی دھنیں سارنگی پر بجاتے رہے – غریب ، مگر بہت بڑا فن کار تھا وہ شخص – میری فرمائش پر اس نے جو گیت بجائے ان میں سے چند ایک یہ تھے ——-
بہارو ، مراجیون بھی سنوارو ، کوئی آئے کہیں سے —– لتا منگیشکر
یونہی کوئی مل گیا تھا ، سر راہ چلتے چلتے —— لتا
چل اڑجا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ ——– محمد رفیع
بے چین نظر ، بے تاب جگر ، یہ دل ہے کسی کا دیوانہ —— طلعت محمود
بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا —– شمشاد بیگم
میرے شوق دانئیں اعتبار تینوں —— غلام علی
سنگت کے لیے محمد حسین نے اپنے ساتھی طبلہ نواز ( نام یاد نہیں آرہا ) کو بھی ساتھ بٹھا لیا – بہت سرور انگیز محفل تھی – لالا نے آکر رنگ میں بھنگ ڈال دیا – اس کے ساتھ دوتین مہمان تھے – مجبورا یہ محفل برخاست کرناپڑی –
————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 10 نومبر2020

میرا میانوالی

جب میں عیسی خیل کالج میں پرنسپل تھا ، ایک دن کالج کا چوکیدار بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا “ سر کالج میں ڈائریکٹر صاحب آئے ہوئے ہیں” –
چھٹی کا دن تھا ، ڈائرکٹر صاحب کا اس دن کالج میں کیا کام ؟ مگر شاید کوئی وجہ ہوگی , یہ سوچ کر میں کالج پہنچ گیا – دوچار ساتھیوں کو بھی اطلاع بھجوا دی کہ کالج آجائیں –
کالج پہنچے تو دیکھا کہ یہ کوئی ڈائریکٹر وائریکٹر نہیں ، بلکہ محکمہ تعلیم کے سب سے بڑے افسر وفاقی سیکریٹری تعلیم پروفیسر عبدالعلی خان ہیں –
6 فٹ سے نکلتا ہوآ قد ، سرخ وسفید رنگت ، سر اور مونچھوں کے بالوں میں سفیدی کی باوقار آمیزش ، ملیشیا کے سادہ سے شلوارسوٹ میں ملبوس ، ہاتھ میں بریف کیس پکڑے خان صاحب برآمدے میں کھڑے تھے – پہلی ملاقات تھی ۔ مگر یوں تپاک سے ملے جیسے بہت پرانی شناسائی تھی – ایک شفیق مسکراہٹ ان کے چہرے پر مسلسل نور برساتی رہی — پٹھانوں کے مخصوص انداز میں کہنے لگے “ یارا ، میں لکی مروت جا رہا تھا ، سڑک پر آپ کے کالج کا بورڈ دیکھ کر سوچا کہ آپ کو سلام کر لوں , کیونکہ کسی زمانے میں میرا بھی کالجوں اور پروفیسروں سے کچھ نہ کچھ تعلق رہا ہے –
اللہ اکبر ، یہ سادگی ، یہ انکسار —— بندہ ایچی سن کالج جیسے وی آئی پی کالج کا پرنسپل رہا ہو ، اور کہے کہ میرا بھی کالجوں اور پروفیسروں سے کچھ نہ کچھ تعلق رہا ہے ، اتنی سادگی سے جیسے وہ کالج کے کلرک ریٹائر ہوئے ہوں — 22 ویں گریڈ کا اعلی ترین افسر ہم 17 ویں گریڈ کے نوجوان لیکچررز کو “سر ، جی سر “ کہہ کر مخاطب کرتا رہا – ایک آدھ گھنٹہ ہم سے گپ شپ لگانے کے بعد خان صاحب اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر لکی مروت کی جانب روانہ ہو گئے –
پروفیسر عبدالعلی خان ، کے پی کے شہرہ آفاق سیاسی لیڈر خان عبدالغفار خان کے صاحبزادے اور اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کے چچا تھے – تین بھائی تھے – عبدالولی خان اپنے والد کی سیاسی وراثت کے امین بن گئے ، عبدالعلی خان ایجوکیشن کے شعبے سے منسلک ہو گئے ، تیسرے بھائی عبدالغنی خان پشتو کے معروف شاعر تھے – تینوں اب اس دنیا میں موجود نہیں مگر اپنے اپنے میدان میں نمایاں خدمات کی وجہ سے ان کے نام صفحہ ہستی پر انمٹ نقوش بن گئے –
————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 11نومبر2020

میرا میانوالی

کل کی پوسٹ پر کمنٹس میں کئی دوستوں نے یاددہانی کرائی کہ پروفیسر عبدالعلی خان گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل بھی رہے – میرے لیے یہ بات یاددہانی نہیں کیونکہ دو چار سال قبل پروفیسر عبدالعلی خان صاحب کے بارے میں ایک سے زائد پوسٹس لکھ چکا ہوں – ان میں میانوالی کالج میں ان کے بطور پرنسپل رہنے کا مفصل تذکرہ بھی شامل تھا – کل کی پوسٹ عیسی خیل میں میرے قیام کی داستان کا ایک باب تھی – اس داستان میں عبدالعلی خان صاحب سے ملاقات ایک اہم واقعہ تھا ، اس واقعے سے عبدالعلی خان کی شخصیت کے کئی دلکش ، لائق تقلید پہلو سامنے آتے ہیں – پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی ایک بڑے انسان تھے –
گورنمنٹ کالج میانوالی میں پروفیسر علی خان (عام طورپر لوگ انہیں علی خان ہی کہتے تھے) 1959-1961 کے دوران پرنسپل رہے –
اس دور میں ایک دفعہ صدر پاکستان ( ایوب خان) نے میانوالی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا – خان صاحب کے صدر ایوب سے خاندانی مراسم تھے – انہوں نے صدر صاحب سے فون پر رابطہ کر کے ان سے کہا آپ ہمارے مہمان ہوں گے – صدر صاحب ان کی بات کیسے ٹال سکتے تھے – مان گئے – خان صاحب نے ضلعی انتظامیہ سے کہا “ صدر صاحب میرے مہمان ہوں گے – سارا بندوبست میں خود کروں گا – آپ سے جو کام لینا ہوگا میں آپ کو بتا دوں گا-
صدر ایوب خان کا جلسہ کالج کے گراؤنڈ میں منعقد ہوا – بہت بڑا جلسہ تھا – سٹیج پر تین کرسیاں تھیں – صدر صاحب کے دائیں طرف عبدالعلی خان ، بائیں طرف گورنر پنجاب تشریف فرما تھے –
عبدالعلی خان آکسفورڈ ہونیورسٹی کے ایم اے سیاسیات (پولٹیکل سائنس ) تھے – مگر اپنے خاندان کے واحد فرد تھے جو عملی سیاست سے ہمیشہ دور رہا – آپ اسلامیہ کالج پشاور ، گورنمنٹ کالج میانوالی ، گورنمنٹ کالج سرگودھا اور ایچی سن کالج لاہور کے پرنسپل رہے – پشاور اور گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور محکمہ تعلیم کے وفاقی سیکریٹری کے مناصب پر بھی فائز رہے –
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
—————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 12نومبر2020

 

ہمارے بہت پیارے فیس بک کے ساتھی چکوال سے وسیم سبطین صاحب نے پچھلے ہفتے یہ نیک مشورہ دیا کہ جمعہ کے دن کی پوسٹ اللہ کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذکر خیر پر مشتمل ہونی چاہیے – ان شآءاللہ اس قیمتی مشورے پر عمل ہوگا – آج کی پوسٹ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے – یہ میری پہلی نعت تھی – اس کی آرائش بھی وسیم سبطین نے کی ہے – بہت شکریہ وسیم بیٹا ، جزاک اللہ الکریم –
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 13 نومبر2020

میرا میانوالی

جمعہ —– 13 نومبر 2020
قافلہ تین افراد پر مشتمل تھا – ڈاکٹر حنیف نیازی ، عصمت گل خٹک اور میں –
منزل میانوالی عیسی خیل روڈ پر خواجہ آباد شریف بس سٹاپ کے مشرق میں ڈیرہ نجیب اللہ خان —
یہ قافلہ روکھڑی موڑ کے قریب “ کٹوہ سرائے“ کے مالک مجیب اللہ خان نیازی کی دعوت میں مہمان تھا – مجیب اللہ خان اس علاقہ کی محبوب و محترم شخصیت ہیں – صاحب علم و قلم نوجوان ماہر تعلیم ہیں – دوستیاں بھی علم و قلم سے وابستہ لوگوں سے رکھتے ہیں – مجھ سے والہانہ محبت ہے – آج کی دعوت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی – دعوت تو کٹوہ سرائے پر تھی ، مگر ان کا اصرار تھا استقبال ان کے ڈیرے پر ہوگا –
ہم تقریبا تین بجے مجیب اللہ خان کے ڈیرے پر پہنچے – کھلی فضا میں دو تین کمروں کی قطار کے سامنے صاف ستھرے صحن میں سلیقے سے بچھی ہوئی چارپائیاں اور کرسیاں رکھی تھیں –
ڈرائی فروٹ ، کھیر اور چائے کا دور چلا ، گپ شپ ہوتی رہی – مجیب اللہ خان کے والد محترم کی زیارت بھی نصیب ہوئی, ان سے مختصر بات چیت کا موقع بھی ملا – پہلی ہی ملاقات میں ان کی شخصیت کا بھرپور تاثر دل پر ثبت ہو گیا – ایک عجیب سی کشش ہے ان کے سادہ انداز تکلم میں – اجنبیت کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے –
ایک اور بہت پیاری شخصیت مجیب اللہ خان کی ننھی منی بچی خدیجہ سے تعارف بھی ہمیشہ یاد رہے گا – ہم مجیب اللہ خان کے ساتھ ان کا ٹیوب ویل دیکھنے کے لیے گئے تو خدیجہ بیٹی نے میری انگلی تھام لی – پھر جتنی دیر میں مجیب اللہ خان کے ہاں رہا وہ میری ہی انگلی سے چپکی رہی –
لائیٹ اچانک غائب ہو گئی ہے – ایک آدھ منٹ کے لیے باہر بھی جانا ہے ، بقیہ داستان ان شاءاللہ کل لکھوں گا –
—————————- رہے نام اللہ کا —————————–
عصمت گل خٹک ، ڈاکٹر حنیف نیازی اور مجیب اللہ خان کی صاحبزادی خدیجہ کے ساتھ–بشکریہ-منورعلی ملک- 15نومبر2020

میرا میانوالی

مجیب اللہ خان کے ڈیرے پر نجم وقاص خان بھی ہمارے قافلے میں شامل ہوگئے – نجم وقاص خان ، مجیب اللہ خان کے کزن اور مجیب اللہ خان کی طرح میرے بہت پیارے بیٹے ہیں – اکاونٹس آفس میں اہم عہدے پر فائز ہیں – کٹوہ سرائے پہنچ کر ہمارا قافلہ کارواں بن گیا ، معروف ماہر تعلیم ظفر نیازی ، جواں سال، جواں قلم افسانہ نگار وقاراحمدملک ، انگریزی شاعری کی تین کتابوں کے مصنف لہر نیازی ، خوبصورت شاعرانہ نثر کے تخلیق کار قمرالحسن بھروں زادہ ، موچھ سے طارق خان نیازی اور کچھ دوسرے دوست وہاں ہمارے منتظر تھے –
کٹوہ سرائے کا یہ کارواں 14 ویں صدی کے انگریز شاعر چاسر Chaucer کے کارواں سے خاصا مشابہہ تھا – وقار آحمد ملک سے میں نے اس مشابہت کا ذکر کیا تو کہنے لگے “ جی، سر ، اور کٹوہ سرائے گویا Tabbard Inn ہے — Tabbard Inn وہ سرائے تھی جہاں چاسر کی داستان کے سب کردار اکٹھے ہوئے تھے – ان کرداروں کی طرح ہمارے کارواں کے سب کردار بھی بہت دلچسپ اور اپنے اپنے میدان کے شاہسوار تھے –
علمی ادبی اور سماجی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی – مغرب کی نماز کے بعد کھانا منظرعام پر آیا – میانوالی کی مشہورومعروف تقریباتی ڈش کٹوہ کا سالن ، تندور کی روٹیاں اور سلاد – کٹوے کا سالن ضلع میانوالی میں ولیمے کا مینیو ہوا کرتا تھا – اب تو ولیمے ہوٹلوں پر ہوتے ہیں – حال ہی میں میانوالی شہر میں ایک مارکی بھی بن گئی ہے – اب ولیمے میں چکن روسٹ اور دوسرے فیشن ایبل کھانے چلتے ہیں – لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ کٹوہ ، کٹوہ ہے ، اس کا ایک اپنا مخصوص مزا ہے جو کسی اور ڈش سے حاصل نہیں ہوسکتا – مجیب اللہ خان کا بہت شکریہ کہ انہوں نے اس روایتی کھانے کا مستقل اہتمام کر دیا ہے – صاحب ذوق لوگوں کے بیٹھنے کھانے کا یہ مرکز ان شآءاللہ بہت مبارک ثابت ہوگا –
میں نے ذرا جلد واپس آنا تھا ، اس لیے کھانا کھانے کے بعد مجیب اللہ خان سے اجازت لے کر نجم وقاص خان کی گاڑی میں واپس آگیا – بقیہ دوست پتہ نہیں کس وقت تک وہاں بیٹھے رہے –
—————————- رہے نام اللہ کا —————————
پکچر —- (دائیں سے بائیں ) — عصمت گل خٹک ، ڈاکٹر حنیف نیازی ، نجم وقاص خان ، لہر نیازی ، مجیب اللہ خان-بشکریہ-منورعلی ملک- 16نومبر2020

میرا میانوالی

جولائی 1977 میں میں نے کالج ( گورنمنٹ کالج عیسی خیل) کی لیبارٹیرز کے لیے دو لیبارٹری اٹنڈنٹس ( لیب اٹینڈنٹ ) کا تقرر کیا ٠ دس پندرہ دن بعد سرگودہا ڈویژن کے ڈائریکٹر کالجز ، پروفیسر رفیع اللہ خان صاحب کالج تشریف لائے – خان صاحب دبنگ انسان تھے – اپنے ماتحتوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے تھے ، کبھی غصہ ، کبھی پیار – غصے اور پیار کا اظہار ہمیشہ پنجابی زبان میں کرتے تھے – مجھ پر میری انگریزی تحریروں کی وجہ سے بہت مہربان تھے – مگر اس دن خان صاحب بہت غصے میں تھے – جیب سے ایک کاغذ نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگے “ پتر ، ایہہ توں کی کیتا اے – مارشل لاء دے ban دے دوران توں دوبندے ملازم رکھ لئے نیں “
ہوا یہ تھا کہ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو ملازمتوں میں بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی گئی – دس دن بعد پابندی اٹھا لی گئی ، پھر دس دن بعد پابندی دوبارہ عائد کر دی گئی – میں نے ملازموں کا تقرر 15 سے25 جولائی کے درمیان کیا ، جب پابندی عائد نہ تھی – میں نے دونوں آدمی میرٹ پر بھرتی کیے – ایک دو سفارشی لوگ بھی آئے مگر میں نے سفارش نہ مانی تو ان میں سے کسی مہربان نے سیکریٹری ہائر ایجوکیشن سے یہ شکایت لگا دی کہ پرنسپل صاحب نے مارشل لاء کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو بندے بھرتی کر لیے – سیکریٹری صاحب نے خان صاحب کو اس معاملے کی تحقیقات پر مامور کیا۔ بظاہر یہ خاصا serious معاملہ تھا۔
میں نے خان صاحب کو متعلقہ فائیل دکھا کر بتایا کہ میں نے بندے پابندی کے دوران بھرتی نہیں کیے –
خان صاحب میری وضاحت سن کر خوشی سے اچھل پڑے – شکایت والی درخواست پھاڑ کر پھینک دی اور فرمایا “ اینہاں دی —— (لمبی سی گالی) ، میں پہلے ای جانڑدا سی میرا پتر بڑا لائق آدمی ھے ، اوہ اس طرحاں دی غلطی نئیں کر سکدا –
چائے پی کر خان صاحب خوش و خرم رخصت ہو گئے –
————————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک- 18نومبر2020

میرا میانوالی

تمام تر دورافتادگی اور پس ماندگی کے باوجود سوشل میڈیا پر عیسی خیل اس وقت ضلع میانوالی میں بہت نمایاں ہے – مجھے فیس بک کی طرف متوجہ کرنے میں بھی عیسی خٰیل کے ساتھیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا – فیس بک کی دنیا میں آکر ادھر ادھر نظر دوڑائی یہ دیکھنے کے لیے کہ میرے دیرینہ دوستوں میں سے بھی کوئی ادھرآجا رہا ہے – سب سے پہلا شناسا چہرہ اپنے ہمدم دیرینہ پروفیسر اشرف علی کلیار صاحب کا دکھائی دیا – موصوف گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں میرے رفیق کارتھے ٠ اسی کالج کے پرنسپل ریٹائر ہوئے – بہت دلکش اور پہلو دار شخصیت ہیں – ان کے بارے میں ان شآءاللہ مفصل پوسٹ عنقریب لکھوں گا – فی الحال موضوع سخن ہے سوشل میڈیا میں عیسی خیل کا حصہ –
پروفیسر اشرف علی کلیارصاحب کے بعد فیس بک پر ہی کرنل شیر بہادر خان نیازی سے تعارف ہوا – ان کی ویب سائیٹ میانوالی.https://mianwali.org/.ضلع میانوالی کی تاریخ ، جغرافیہ اور کلچر کے بارے میں وسیع معلومات کا سب سے وسیع اور مستند ذخیرہ ہے – کرنل صاحب کی ویب سائیٹ پر میری اردو ، انگلش کی تمام پوسٹس محفوظ ہیں – وہ ویب سائیٹ کو مسلسل اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں – یہ کام وہ ایک مشن سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں ———
نہ ستائش کی تمنا ، نہ صلے کی پروا
بس ایک لگن ہے ——– اس ویب سائیٹ پر میرے علاوہ ضلع کے دوسرے فیس بک اہل قلم ، مرحوم ظفرخان نیازی، افضل عاجر ، ڈاکٹر حنیف نیازی ، عیسی خٰیل کے ماہر تعلیم عبدالقیوم خان نیازی کی تحریریں بھی آن ریکارڈ آتی رہتی ہیں – اس لحاظ سے کرنل صاحب کو محسن میانوالی کہنا چاہیئے – جب میں عیسی خیل میں تھا اس وقت تو کرنل صاحب شاید دوسری تیسری کلاس میں پڑھتے تھے – ان سے تعارف فیس بک پر آنے کے بعد ہوا –
سوشل میڈیا پر سرگرم عیسی خیل کے کچھ دوسرے دوستوں کا تعارف ان شآءاللہ کل ہوگا –
———————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-19نومبر2020

میرا میانوالی

عیسی خیل میں فیس بک کی ایک اور معروف شخصیت عبدالقیوم خان نیازی ہیں – فیس بک پر “عیسی خیل دور تے نئیں “ کے عنوان سے بہت دلچسپ پوسٹس لکھتے ہیں – ان کا انداز تحریر فیس بک کے تمام اہل قلم سے الگ , خالص original style ہے — ایک عجیب سی دلکشی ہے اس انداز تحریر میں – بالکل سادہ اور بے تکلف مگر بے حد مؤثر – یہی دلکشی قیوم خان کی شخصیت میں بھی ہے ، بہت دلچسپ گفتگو ہوتی ہے ان کی – بڑا جان دار قہقہہ لگاتے ہیں – بہت مہمان نواز اور دوست دار آدمی ہیں –
قیوم خان لالا عیسی خیلوی کے کلاس فیلو بھی ہیں ، رشتہ دار بھی — یہ بھی بہت اچھا گا لیتے ہیں ، ان کی آواز اور انداز لیجنڈ گلوکار حبیب ولی محمد ( مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے) سے مشابہہ ہے —– لالا کو
آکر ہماری قبر پر تونے جو مسکرا دیا
جیسے لازوال گیت قیوم خان ہی نے دئیے — محمد رفیع کا شہرہ آفاق نغمہ
یاد میں تیری جاگ جاگ کے ہم ، رات بھر کروٹیں بدلتے ہیں
بھی قیوم خان بڑے شوق سے بہت خوبصورت انداز میں گاتے ہیں – اور بھی بہت سے گیت ان کے توسط سے لالا کے ہاتھ لگے – جب کبھی میکدے میں قیوم خان آتے تو لالا ہارمونیم قیوم خان کے سپرد کر کے خود سامعین کی صف میں شامل ہوجاتے – اور وہ محفل قیوم خان کی محفل بن جاتی –
قیوم خان گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خٰیل میں بہت عرصہ سائنس ٹیچر رہے – سروس کے آخری پندرہ سال ہیڈماسٹر کے منصب پر بھی فائز رہے – اس معقول اور محترم ذریعہ معاش کی وجہ سے کمرشل گلوکار بننا مناسب نہ سمجھا – من کی موج سے گاتے تھے – روزانہ کالج سے واپسی پر قیوم خان کی بیٹھک میرا mid-way stop ہوا کرتی تھی – ایک آدھ گھنٹہ موسیقی ، گفتگو اور چائے سے محظوظ ہو ا کرتے تھے ہم دونوں –
اللہ سلامت رکھے ، بہت سی حسین یادیں وابستہ ہیں قیوم خان صاحب سے –
——————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 21نومبر2020

میرا میانوالی

شعرو ادب ، آرٹ اور موسیقی کے میدانوں کی اہم شخصیات میں کچھ ڈاکٹر صاحبان کے نام بھی بہت نمایاں ہیں – لیجنڈ روسی افسانہ نگار چیخوف بھی ڈاکٹر تھے – ہمارے ہاں اردو کے مشہورو معروف ( میرے خیال میں سب سے بڑے) مزاح نگار شفیق الرحمن بھی ڈاکٹر تھے – آرمی کی میڈیکل کور سے جنرل کے منصب پر ریٹائر ہوئے –
سب سے دلچسپ کثیرالجہت شخصیت ڈاکٹر انور سجاد تھے جو ایک آدھ سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے – ڈاکٹر انور سجاد چوٹی کے افسانہ نگار ، ڈراما نگار, اداکار اور مقرر کے علاوہ بہت باکمال رقاص (dancer) بھی تھے – انہوں نے رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی – ٹی وی پر ان کے لکھے ہوئے بہت سے ڈرامے مقبول ہوئے – چند ڈراموں میں ڈاکٹر صاحب نے اداکار کی حیثیت میں بھی بہت شاندار کام کیا —– کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ بیرون ملک پاکستانی کلچر کو متعارف کروانے کے لیے شاعروں ادیبوں اور فنکاروں کے وفد بھجوانے کی بجائے صرف ڈاکٹر انور سجاد کو بھجوایا جائے کہ وہ سب شعبوں میں بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کر سکتے ہیں –
عیسی خیل کے ڈاکٹر ظفر کمال بھی کچھ اسی قسم کی شخصیت ہیں – فیس بک پر ان کی بہت خوبصورت تصویری اور تحریری کاوشیں اکثر دیکھنے میں آتی ہیں – ان کے مختصر طنزیہ جملے بہت مقبول ہیں – بہت بامقصد باتیں کہتے ہیں –
شعرو ادب کے علاوہ موسیقی میں بھی ڈاکٹر صاحب کو خاصی دسترس حاصل ہے – کالاباغ میں اپنے کلینک پر ہارمونیم بھی رکھا ہوا ہے – لوک گیت بہت اچھے گا لیتے ہیں – موسیقی سے دلچسپی انہیں اپنے والد , شہرہ آفاق گیتوں کے تخلیق کار, مجبور عیسی خیلوی سے ورثے میں ملی – مجبور صاحب کے حوالے سے میں انہیں اپنا بیٹا سمجھتا ہوں –
ڈاکٹرظفر بہت عرصہ کالاباغ ہسپتال میں میڈیکل آفیسر اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (آیم ایس) رہے – کالاباغ کے لوگ ان کے حسن اخلاق اور قابلیت کی وجہ سے انہیں محسن کالاباغ کہتے ہیں – آج کل ڈاکٹرظفر عیسی خیل کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایم ایس کے منصب پر فائز ہیں – کالاباغ کے لوگوں کے اصرار پر کالاباغ میں کلینک بھی بنایا ہوا ہے –
ابھی ابھی ایک دوست نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر ظفر نے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے – میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ٹیچر، ڈاکٹر اور وکیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے – ملازمت کے بعد بھی یہ لوگوں کی مشکل کشائی کرتے رہتے ہیں – سو ڈاکٹر ظفر میری نظر میں ریٹائر نہیں ہوئے-
اللہ سلامت رکھے بہت معروف ، مصروف اور مقبول شخصیت ہیں –
————————- رہے نام اللہ کا ———-بشکریہ-منورعلی ملک- 23نومبر2020

میرا میانوالی

گورنمنٹ کالج عیسی خیل ایک نوزائیدہ کالج تھا – بڑے پیمانے پر علمی ادبی سرگرمیوں کے لیے وسائل دستیاب نہ تھے – پھر بھی حسب توفیق ہم کچھ نہ کچھ کرتے رہے – ایک دفعہ ہم نے ایک مختصر سا ڈراما بھی سٹیج کیا – The Rising of the Moon کے عنوان سے آئر لینڈ کی خاتون Lady Gregory کا لکھا ہوا یہ ڈراما انٹرمیڈیئیٹ (ایف اے) کی انگلش کی کتاب میں تھا – ہم نے اس کا اردو ترجمہ سٹیج کیا –
یہ ڈراما آئر لینڈ کی تحریک آزادی کی ایک جھلک تھا –
تحریک آزادی کے ایک مفرور لیڈر کو کشتی میں ملک کے دوسرے حصے میں ایک خاص مشن پر جانا تھا – انگریز حکومت نے شہر سے باہر جانے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں – باہر جانے والے تمام راستوں پر پولیس متعین تھی — مفرور لیڈر ایک بھکاری گوئیے کے روپ میں کشتیوں کے گھاٹ پر (اڈا سمجھ لیں) پہنچا تو نگرانی پر متعین پولیس سارجنٹ نے اسے روک کر بتایا کہ آج رات یہاں سےکوئی باہر نہیں جا سکتا – وہ سارجنٹ کی منت سماجت کر رہا تھا کہ دور سے کچھ لوگوں کے گانے کی آواز سنائی دی – وہ آزادی کا ترانہ گا رہے تھے –
بھکاری نے سارجنٹ سے کہا یہ آواز سن رہے ہو ؟ میرے ساتھی کشتی میں مجھے لینے کے لیے آرہے ہیں – میں کوئی بھکاری نہیں ، اس تحریک کا لیڈر ہوں ، ہم اس وطن کی آزادی کے لیے جہاد کر رہے ہیں – یہ تمہارا بھی وطن ہے – اپنے وطن کی آزادی کے لیے تحریک میں تھوڑا سا حصہ تم بھی ڈال دو، مجھے جانے دو –
یہ سن کر سارجنٹ کے دل میں بھی وطن کی محبت جاگ اٹھی – اس نے اس مفرور لیڈر کو جانے کی اجازت دے دی – اس نے جاتے ہوئے کہا “جب آزادی کا چاند طلوع ہو گا تو تمہارے اس احسان کا صلہ تمہیں ضرور ملے گا – یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گیا –
میں نے سٹوڈنٹس کو کلاس میں یہ ڈراما پڑھاتے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ آزادی کی ایک ایسی ہی تحریک کشمیر میں بھی چل رہی ہے – اس میں حسب توفیق حصہ ڈالنا ہمارا فرض ہے –
سٹیج پر اس ڈرامے میں مفرور لیڈر کا کردار کمر مشانی کے احمد نواز خان نیازی نے ادا کیا ، سارجنٹ کا کردار خالد ہاشمی نے – احمد نواز خان تعلیم مکمل کر کے پولیس افسر بن گئے – خالد ہاشمی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میانوالی کے سامنے ارشد میڈیکل سٹور کے نام سے کاروبار چلا رہے ہیں –
—————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 24نومبر2020

میرا میانوالی

اللہ رحم کرے ، کورونا پھر آگیا ——- کہتے ہیں یہ والی لہر پہلی سے بھی زیادہ ہولناک ہو سکتی ہے – عین ممکن ہے – کل تک کی اطلاع کے مطابق میانوالی میں بھی مریضوں کی تعداد 88 ہو گئی ہے – اللہ سب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے ، اور باقی لوگوں کو اس وبا سے محفوظ رکھے –
ہر مصیبت کی ایک میعاد ہوتی ہے – لندن میں 1665 میں طاعون plague کی وبا پھیلی تو چند ماہ میں تقریبا ایک لاکھ آدمی اس کا شکار ہو کر مرگئے – ایسی موذی بیماری تھی کہ مریض دو تین گھنٹوں میں مرجاتا تھا – علاج کوئی تھا نہیں ، اس لیے مریض گھر پر ہی مر جاتے تھے – دیکھتے ہی دیکھتے پورے پورے محلے صاف ہو جاتے تھے – جس گھر میں ایک آدمی اس مرض میں مبتلا ہوتا وہ پورا گھر چند گھنٹوں میں مرض کی لپیٹ میں آجاتا – لاشوں کی تدفین پولیس اور میونسپل کمیٹی کے لوگ کرتے تھے – تقریبا 18 ماہ لندن اس کی لپیٹ میں رہا – بعد میں دوائیں اور ویکسین مارکیٹ میں آگئے – اب صدیوں سے اس وبا کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا – اس بیماری کے جراثیم چوہوں سے پھیلتے تھے –
اللہ معاف کرے کورونا اس سے بھی زیادہ مہلک وباء ہے – مگر ابھی تک ہم لوگ اس کو serious نہیں لے رہے – لوگ معمول کے مطابق ملتے جلتے ، چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں – حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو کورونا کہتی ہے – عوام فی الحال صرف دعا ہی کر سکتے ہیں –
جس حد تک ہو سکے احتیاط کریں – زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں گذاریں – باہر جانا پڑے تو ماسک ضرور پہن لیں – اپنے لیے اور سب کے لیے دعا کرتے رہیں – دل سے نکلے تو دعا بھی بہت بڑی طاقت ہے –
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 25نومبر2020

میرا میانوالی

گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ایک دفعہ ہم نے لالا عیسی خیلوی کا پروگرام بھی کروایا – سٹوڈنٹس اور کچھ ساتھیوں کی فرمائش تھی – لالا سے بات کی تو لالا نے کہا “ سر آنکھوں پر ، میرے لیے تو یہ ایک اعزاز ھوگا – کل ہی کر لیتے ہیں – مجھے ٹائیم بتا دیں ، حاضر ہو جاؤں گا –
میں نے بتایا کہ کلاسیں ختم ہونے کے بعد تین بجے مناسب رھے گا- لالا نے کہا ٹھیک ہے ماجے کو بتادیں —– ملازم حسین المعروف ماجا گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خٰیل میں چپراسی تھے – دن میں سکول کی نوکری کرتے تھے ، رات کو ہماری میکدے کی محفل میں طبلہ نوازی – بہت اچھے طبلہ نواز تھے — کالج اور سکول کی بلڈنگ مشترکہ تھی ، میں نے ماجا کو بلا کر بتا دیا کہ کل تین بجے کالج میں پروگرام ہوگا –
بہت مختصر اور سادہ سا پروگرام تھا – حاضرین صرف کالج کے سٹوڈنٹ اور چند پروفیسر صآحبان تھے – عتیل صاحب ، نورمحمد دیوانہ ، لالا یوسف خان بنک منیجر اور ماسٹر وزیر لا لا کے ہمراہ آئے – آہ ، ہماری راتوں کی محفلوں کے ان ہمنشینوں میں سے ماسٹر وزیر کے سوا اب کوئی بھی اس دنیا میں موجود نہیں – ماجا بھی دس پندرہ سال پہلے داغ مفارقت دے گئے –
کالج کے پروگرام میں لالا نے بہت سے مقبول گیت سنائے – ہمارے سٹوڈنٹس لالا سے مل کر ، ان سے باتیں کر کے , اپنی پسند کے گیت سن کر بہت خوش ہوئے – دوتین گھنٹے کی یہ بے تکلف محفل سب لوگوں کی زندگی کا ایک یادگار واقعہ بن گئی –
———————- رہے نام اللہ کا ————بشکریہ-منورعلی ملک-26نومبر2020

 

میرا میانوالی

بھلیا جانڑ گیا میں کونڑں
مشہور صوفی شاعر بابا بلہے شاہ (بھلے شاہ) نے کہا تھا “ کی جانڑاں میں کونڑں“ (میں نہیں جانتا میں کون ہوں) – تصوف کی مختلف منازل میں سے ایک منزل تو یہ ہے – اسے مقام حیرت کہہ لیں ، جب انسان اپنے آپ کو پہچاننے سے بھی عاجز ہو جاتا ہے – ان منازل میں سے آخری منزل وہ ہے جو مولا علی کرم اللہ وجہہ نے بتائی ، فرمایا “ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ “ (جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ) –
پروفیسر ضیاءالدین خان نیازی کے سفر نامے کا عنوان “بھلیا جانڑں گیا میں کونڑں“ (میں سمجھ گیا میں کون ہوں) بابا بلہے شاہ کے قول کے برعکس جناب علی المرتضی کے ارشاد کی صداقت کا اعلان ہے —– یہ الگ بات کہ معرفت کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے ضیاءالدین خان کو ابھی بہت لمبا سفر کرنا پڑے گا –
ضیاءالدین خان کا یہ سفرنامہ ان کے حالیہ سفر بھارت کی داستان ہے -240 صفحات پر محیط یہ مفصل داستان بہت دلچسپ بھی ہے معلومات افزا بھی – اس میں صرف بھارت نہیں ، میانوالی کی تاریخ اور کلچر کے بارے میں بھی حیرت انگیز معلومات جا بجا نظرآتی ہیں –
ضلع میانوالی سے پہلا سفرنامہ ڈاکٹراجمل نیازی کا “مندر میں محراب “ تھا – وہ سفرنامہ بھی بھارت یاترا کی داستان تھا – ڈاکٹراجمل کی نثر اپنی مثال آپ ہے – ان کے لفظ اپنے تخلیق کارکے کمال کی گواہی دیتے ہیں – موضوع جو بھی ہو ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی ایک اپنی کشش ہے – تاہم ڈاکٹر صاحب کا سفرنامہ اہل علم و ادب سے ہمکلام ہوتا ہے ، جبکہ ضیاءالدین خان کا سفرنامہ “بھلیا جانڑں گیا میں کونڑں“ میں عام لوگوں کی دلچسپی کی باتیں بھی بہت ملتی ہیں – انداز تحریر بہت سادہ اور انداز بیاں بہت دلچسپ ہے – یہ داستان 168 عنوانات میں تقسیم کر کے مصنف نے قاری کو یہ کتاب ایک سے زہادہ نشستوں میں پڑھنے کی سہولت بھی فراہم کردی ہے – اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عنوانات کی وجہ سے حوالے references آسان ہو گئے ہیں –
کتاب دلی میں میانوالی کے عاشق زار لالہ روشن لال چیکڑ اور ان کی اہلیہ ارمیلا دیوی سے منسوب کرنا حق بہ حق دار رسید والی بات ہے – بہت اچھا کیا ضیاءالدین نے – لالہ روشن لال دلی میں چلتا پھرتا میانوالی ہیں – یہاں سے بھارت جانے والوں کے لیے ان کی دعوت عام ہے کہ ——-
مرا در کھلا ہے کھلا ہی رہے گا تمہارے لیے
میانوالی کے سینکڑوں لوگ لالہ روشن لال کی میزبانی سے مستفید ہو تے رہتے ہیں – اللہ آباد رکھے، ان کا گھر یہاں کے لوگوں کے لیے دلی میں بہت بڑی سہولت ہے – کمال شخص ہے لالہ روشن لال، دلی جیسے ماڈرن شہر میں رہ کر بھی ہائے میانوالی ، ہائے میانوالی کہتا پھرتا ہے –
ضیاءالدین خان کی کتاب میں اہل ذوق و بصیرت کے لیے بہت کچھ ہے –
—————— رہے نام اللہ کا ——————-
پکچر —— دائیں ، لالہ روشن لال چیکڑ ، بائیں ، ضیاءالدین خان نیازی
(درمیان والے بزرگ کا نام معلوم نہیں )بشکریہ-منورعلی ملک- 27نومبر2020

میرا میانوالی

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل ——-
بالکل اچانک پروگرام بن گیا —— مظہر بیٹے نے کہا “اباجی ، آئیں آپ کو عمرہ کروا دوں “-
میں نے کہا “ کرلیں گے – فی الحال تو آپ کی امی بیمار ہیں “-
مظہر نے کہا “ امی نے ہی تو کہا ہے کہ ابو کو عمرہ کروا دو “ –
آنسو روکنا مشکل ہو گیا —— میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا “ ٹھیک ہے – پھر چلے جائیں گے “ –
اسی دن پاسپورٹ کے لیے کاغذات جمع کروا دیئے – پاسپورٹ آفس کے ڈپٹی ڈائریکٹر مظہر کے دوست تھے – دو دن بعد میرا پاسپورٹ مل گیا ، اسی شام فلائیٹ بھی کنفرم ہو گئی -28 نومبر 2019 کو رات 10 بجے اسلام آباد سے روانگی تھی –
لاہور میں اکرم بیٹے کو بتایا تو وہ بھی ہمیں see off کرنے کے لیے ائیر پورٹ پر پہچ گئے –
یوں ہم 29 نومبر کو صبح تقریبا 3 بجے مدینہ منورہ جا پہچے –
قیام کا بندوبست مسجد نبوی کے بہت قریب ایک ہوٹل میں پہلے ہی سے طے تھا – ہمارا کمرہ نویں منزل پر تھا – سامان کمرے میں رکھ کر ہم نے چائے پی اور نماز تہجد و فجر ادا کرنے کے لیے مسجد نبوی میں حاضر ہو ئے – سبز گنبد پہ نظر پڑتے ہی آنکھیں بھیگنے لگیں – دعا کے لیے ہاتھ اٹھے – کاش وہ کیفیت الفاظ کی گرفت میں آسکتی ———
——————– رہے نام اللہ کا ——————–
پکچر —– مسجد نبوی میں-بشکریہ-منورعلی ملک- 28نومبر2020

میرا میانوالی

کل کی پوسٹ لکھنے کے بعد دل کی کچھ عجیب سی کیفیت ہے – یادوں کا ایک ہجوم ہے – سفر طیبہ کی داستان کسی قدر تفصیل سے واپسی کے فورا بعد قسط وار لکھ دی تھی – دوبارہ لکھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی – اداس کر دینے والی کچھ یادیں ہیں ، جن سے گریز کی مسلسل کوشش کر رہا ہوں – یہ یادیں ان دعاوں سے وابستہ ہیں جو اس سفر میں مسلسل میری ہمسفر رہیں – ان دعاؤں کے لیے اٹھنے والے دو ہاتھ زیر زمین چلے گئے – اس لیے اب اس موضوع پر لکھنا بہت مشکل لگتا ہے –
اللہ کریم دوسری بار اس سفر کی سعادت نصیب فرما دے تو پھر اس موضوع پر لکھ سکوں گا – فی الحال اپنے عیسی خیل میں قیام کی داستان جہاں چھوڑی تھی وہیں سے کل دوبارہ شروع کروں گا ان شآءاللہ –
——————– رہے نام اللہ کا ——–بشکریہ-منورعلی ملک- 29نومبر2020

میرا میانوالی

دسمبر 1977 میں پروفیسر سید مختارحسین طاہر گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل مقرر ہوئے – شاہ صاحب ریاضی کے بہت لائق ٹیچر اور بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے – ریاضی کے پروفیسر تھے ، اس لیے 2+ 2 = 4 کی طرح صرف واضح حقائق پر یقین رکھتے تھے – ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے “ملک صاحب ، آپ عیسی خیل میں کیا کر رہے ہیں ، آپ جیسے آدمی کو تو کسی بڑے کالج میں ہونا چاہیئے” –
کسی زمانے میں ہم میانوالی کے لوگ ضلع کی حدود سے دو میل باہر بھی خود کو پردیسی سمجھنے لگتے تھے – میں نے شاہ صاحب سے کہا سر، عیسی خیل میرے گھر داؤدخٰیل سے بہت قریب ہے –
شاہ صاحب نے ہنس کر کہا “ ملازمت میں گھر سے قریب ہونا ضروری نہیں – میرے والد صاحب ہوشیار پور (انڈیا) کے رہنے والے تھے – سکول ٹیچر کی حیثیت میں ان کا تقرر ملتان میں ہوا – کہاں ہوشیارپور، کہاں ملتان ، مگر ابا جی نے یہ تقرر خوشی سے قبول کر لیا ، اور تمام سروس ملتان ہی میں گذار دی “-
میں نے کہا “ سر، عیسی خیل میں تو میں بھی خوش نہیں ہوں ، زندگی کی بہت سی سہولتیں یہاں میسر نہیں – البتہ اگر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ٹرانسفر ہو جائے تو میرے لیے بہت بہترہوگا –
شاہ صاحب نے کہا “ عیسی خیل سے میانوالی تو آسمان سے گرا ، کھجور میں اٹکا والی بات ہوئی – بہر حال آپ اپنے مسائل بہتر جانتے ہیں – عنقریب میری پوسٹنگ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سرگودہا ڈویژن کی حیثیت میں ہونے والی ہے – میں تو چاہوں گا کہ آپ کو گورنمنٹ کالج سرگودہا بھجوا دوں ، مگر آپ میانوالی ہی جانا چاہتے ہیں ، تو میانوالی ہی سہی ، آپ سے وعدہ رہا کہ آپ کو گورنمنٹ کالج میانوالی بھجوا دوں گا –
شاہ صاحب نے اپنا وعدہ پورا کر دیا – عیسی خیل سے ان کا ٹرانسفر پہلے انبالہ مسلم کالج سرگودہا میں ہوا ، چند ماہ بعد ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز بن گئے تو فی الفور مجھے گورنمنٹ کالج میانوالی بھجوا دیا –
کبھی کبھی سوچتا تھا کہ علامہ اقبال نے ٹھیک ہی کہا تھا ————————
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیء داماں بھی تھا
شاہ صاحب نے تو مجھے لاہور اور سرگودہا کے خواب دکھانے کی کوشش کی تھی ، اپنی نالائقی کہ خواب دیکھنے پہ بھی آمادہ نہ ہو سکا –
بہر صورت ، اللہ کا شکر ہے کہ وقت یہاں بھی اچھا گذر-بشکریہ-منورعلی ملک- 30نومبر2020

میرا میانوالی

بشکریہ-منورعلی ملک- 1نومبر2020

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top