MERA MIANWALI OCTOBER 2019

منورعلی ملک کے اکتوبر 2019 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی————-

دلچسپی —– شوق —– عشق —– جنون
کامیابی کے راستے کی یہ چار منزلیں ھیں – دلچسپی ابتدا ، جنون عروج –
انگلش سے دلچسپی مجھے اپنے والد محترم ملک محمداکبرعلی سے ورثے میں ملی – ھمارے پانچویں کلاس کے انگلش ٹیچر سرگل خان نیازی نے دلچسپی کو شوق کی راہ دکھائی ، آٹھویں کلاس کے انگلش ٹیچر سر ممتاز کاظمی نے شوق کوعشق بنا دیا ، ھیڈماسٹر راجہ الہی بخش صاحب نے عشق کو مستحکم کیا ، اور گارڈن کالج راولپنڈی میں میرے انگلش کے امریکی پروفیسر سر جان وائیلڈر (John Wilder) نے انگلش سے میرے عشق کو جنون بنادیا – میں نے بے تحاشا انگریزی ادب پڑھا ، ایم اے انگلش کیا ، بہت عرصہ انگریزی اخبارات میں کالم لکھتا رھا – ایم اے انگلش کے لیے 14 کتابیں لکھیں ، چالیس سال انگلش پڑھاتا بھی رھا ، مگر ایک حسرت رہ گئی -آج ذکر ھے گارڈن کالج راولپنڈی میں ھمارے انگلش کے پروفیسر سر جان وائیلڈر کا – سر جان وائیلڈر کے بارے میں ایک آدھ بار پہلے بھی لکھ چکا ھوں – جتنا بھی لکھوں کم ھے ، کہ وہ میرے محسن تھے –
گارڈ ن کالج ایک امریکی تنظیم نے قائم کیا تھا – اس لیے بہت سے پروفیسرصاحبان امریکی تھے – سرجان وائیلڈرھمیں انگلش کمپوزیشن پڑھاتے تھے – ان کی شخصیت بہت وجیہہ اور انداز تدریس بہت دلکش تھا – بہت محنت اور محبت سے پڑھاتے تھے – انگلش سے میری گہری دلچسپی اور خداداد صلاحیت دیکھ کر مجھ پر بہت مہربان تھے – ایک ٹیسٹ میں انہوں نے مجھے 100 میں سے 98 نمبر دیئے – ھنس کر کہا “میں نے دونمبر صرف اس لیے کاٹے ھیں کہ پاکستان میں ، انگلش میں پورے نمبر دینے کا رواج نہیں “-

میرے والد صاحب ریٹائر ھوئے تو مجھے کالج چھوڑ کر داؤدخیل واپس آنا پڑا – پروفیسر جان وائیلڈر کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا “ آؤ میرے ساتھ “ –
وہ مجھے اپنی رھائش گاہ پر لے گئے – چائے بنوائی ، پھر کہنے لگے “تم کالج مت چھوڑو- میرے بیٹے بن جاؤ- ایک آدھ سال بعد میں نے امریکہ واپس جانا ھے – تمہیں ساتھ لے جاؤں گا – وھاں تمہیں ایم اے انگلش کرواؤں گا “-
پروفیسر صاحب کی اھلیہ نے بھی ان کی تائید کی – میں نے کہا میرے گھر والوں نے اجازت دے دی تو واپس آجاؤں گا – نہ آؤں تو سمجھ لینا اجازت نہیں ملی –
اجازت نہ مل سکی –
اب جبکہ میں ریٹائرڈ پروفیسر ھوں ، یہ حسرت کبھی کبھی بے چین کر دیتی ھے کہ کاش میں ایک بار اپنے مہربان ٹیچر سر جان وائیلڈرکے پاؤں چھو کر یہ کہہ سکوں
Sir, I’ve done it. :
(سر، میں نے ایم اے انگلش کرلیا)

وہ تو بہت عرصہ ھؤا ، امریکہ واپس چلے گئے – گوگل پہ بھی بہت تلاش کیا – بہت سے جان وائیلڈر وھاں ملے ۔ مگر جو چاند میں تلاش کر رھا تھا ، نظر نہ آیا – شاید غروب ھوگیا -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–1 اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

سوشل میڈیا پہ ایک منظر دیکھ کر خون کھول اٹھا –

منظرسعودی عرب کا – ایک خاتون صرف کچھا پہنے ڈانس کر رھی تھی ، اس کے گرد کچھ عرب نوجوان کھڑے تالیاں بجارھے تھے – ایک نوجوان سعودی عرب کا قومی پرچم لہرا رھا تھا – سعودی عرب کے پرچم پر آپ جانتے ھیں کیا لکھا ھؤا ھے – ؟؟َ؟ ——- جی ھاں ——- لآ الہ الا اللہ محمد رسول اللہ<
ان مقدس الفاظ کے سائے میں ایک بے لباس عورت ڈانس کر رھی ھے ، اور اس کے غیور بھائی کھڑے تالیاں بجا رھے ھیں – فارسی میں ایک شاعر نے کیا خوب کہا تھا:چوکفر ازکعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی ——- (کفر اگر کعبہ میں ڈیرہ لگا لے تو اسلام کہاں جائے)یہی نہیں ایک خبر یہ بھی ھے کہ سعودی عرب میں (امریکہ اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ) نائیٹ کلب بھی قائم کیے جارھے ھیں – نائیٹ کلبوں میں جو کچھ ھوتا ھے ، میں بیان نہیں کر سکتا –

سعودی عرب کی اس “ترقی“ کی وجہ شاید یہ ھے کہ آخر ابوجہل اور ابولہب جیسے اسلام دشمن بھی اسی مقدس سرزمین میں پیدا ھوئے تھے – ان کی نسل مسلمان تو ھو گئی تھی ، لیکن ابوجہل اور ابولہب کے اثرات شاید ان کی موجودہ نسل میں بھی موجود ھیں —– اللہ معاف کرے-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک 2  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

جب ھم پہلی بار ملے تھے ——————- میری پہلی پوسٹ

(اگست 2015 کے آخر میں جب بیٹے محمد اکرم علی ملک نے مجھے اردو کمپوزنگ کاطریقہ بتا دیا تو میں نے ایک مختصر سا فکر انگیز واقعہ کمپوز کرکے فیس بک پہ پوسٹ کر دیا – یہ واقعہ میں نے اسی دن اخبار میں پڑھا تھا – اچھا لگا ۔ اس لیے اسے پوسٹ بنادیا – واقعہ یہ تھا) :————————-

ایک دن ایک باباجی موبائیل فون ریپیئر شاپ پہ گئے ، اور شاپ کے مکینک سے کہا ” بیٹا ،یہ موبائیل چیک کریں اس میں کیا نقص ھے”-مکینک نے چیک کرنے کے بعد کہا “بابا جی ، فون تو بالکل ٹھیک کام کر رھا ھے ، اس میں کوئی نقص نہیں ” –
بابا جی نے کہا “ پھر اس پہ میرے بچوں کی کالیں کیوں نہیں آتیں ؟“

———- یہ تھی میری پہلی پوسٹ – دوبارہ لگانے کا مقصد یہ ھے کہ اگر آپ گھر سے باھر کسی دوسرے شہر میں یا بیرون ملک رھتے ھیں تو والدین سے باقاعدہ رابطہ رکھیں – آپ کو ان کی پروا ھو نہ ھو ، انہیں آپ کی کال کا انتظار رھتا ھے -وہ یہ نہیں مان سکتے کہ آپ نے انہیں بھلادیا — انہیں کال کر کے ان کی دعائیں لیتے رھا کریں ۔ آپ کے بہت سے مسائل انہی دعاؤں سے حل ھو سکتے ھیں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-3  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

جب ھم محلہ موتی مسجد میں رھتے تھے ، دوپہر کے بعد ایک بابا جی روزانہ ھماری گلی سے گذرتے ھوئے ھمارے ڈرائنگ روم کے دروازے کے سامنے رک جاتے – میں اس وقت کچھ بچوں کو پڑھا رھا ھوتا تھا – بابا جی کچھ دیر رک کر میری طرف دیکھتے اور پھر آگے چلے جاتے – دو تین بار ایسا ھؤا تو میں نے سمجھا انہیں شاید مجھ سے کوئی کام ھے – اگلے دن جب وہ آئے تو میں نے باھر نکل کر کہا “بابا جی ، اگر مجھ سے کوئی کام ھے تو بتا دیں “
بابا جی نے کہا “نہیں بیٹا ، ویسے ھی آپ کو دیکھنے کے لیے رک جاتا ھوں ، کیونکہ میرا بیٹا بھی پروفیسر ھے – وہ لاھور میں رھتا ھے – اپنی قابلیت کی وجہ سے بہت مشہور ھے – انگریزی اخباروں میں مضمون بھی لکھتا رھتا ھے – اس نے لاھور میں اپنا گھر بھی بنا لیا ھے – بہت عرصہ سے ادھر نہیں آیا – خط بھی نہیں لکھتا – اللہ اس کو سلامت رکھے ، بڑا آدمی ھے ، بہت مصروف رھتا ھوگا – مگر مجھے تو اس کی کمی بہرحال محسوس ھوتی ھے – آپ کو دیکھ لیتا ھوں تو دل کو کچھ تسکین ھو جاتی ھے کہ بیٹے کو نہ سہی اس جیسے پروفیسر کو تو دیکھ لیا “>بابا جی کی بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے – میں نے کہا “بابا جی ، مجھے بھی اپنا بیٹا سمجھیں – کچھ دیر میرے پاس بیٹھ جایا کریں “
بابا جی نے کہا “ نہیں بیٹا ، اللہ آپ کو خوش رکھے ، آپ کے پاس بچے پڑھنے کے لیے آتے ھیں ، میں ان کا وقت ضائع نہیں کرنا چاھتا – بس آپ کو باھر سے دیکھ کر ھی میرا مقصد پورا ھو جاتا ھے “-

میں بابا جی کے پروفیسر بیٹے کو جانتا ھوں – جب میں انگریزی اخبار پاکستان ٹایئمز میں کالم لکھا کرتا تھا ,تو پاکستان ٹائیمز کے دفتر میں ان سے ایک آدھ ملاقات ھوئی تھی – وہ گورنمنٹ کالج لاھور میں اسلامیات کے پروفیسر تھے – ھر جمعہ کو اسلام کے بارے میں ان کے مضامین شائع ھوتے تھے – خاصی معروف شخصیت تھے – اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ، اللہ انہیں معاف فرمائے اور بابا جی کو جنت الفردوس میں اپنی رحمت کا سایا نصیب فرمائے-
اس واقعے میں ایک پیغام بھی ھے – آپ نہ سمجھ سکیں تو آپ کی قسمت –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-4  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

لوگ کہہ رھے ھیں آج TEACHERS DAY ھے –

ویسے تو یہ TEACHERS DAY, FATHERS DAY, MOTHERS DAY وغیرہ مغرب کی ایجاد ھیں ، کہ وھاں زندگی بہت مصروف ھے – ھر فرد اپنے پسینے میں غرق رھتا ھے ، رشتوں کو سنبھالنا تو درکنار، یاد رکھنا بھی مشکل ھوجاتا ھے – اس لیے سال میں ایک ایک دفعہ ھر رشتے کو یاد کرنے کی رسم بھی غنیمت ھے -بدقسمتی سے اپنے ھان بھی حالات ویسے ھی بنتے جارھے ھیں – میری کل اور پرسوں کی پوسٹس اسی بدقسمتی کا ماتم تھیں – لیکن مجموعی طور پر پھر بھی ھمارے ھاں حالات دوسرے ملکوں سے بہتر ھیں – مشرکہ خاندان کا نظام joint family system ابھی تک چل رھا ھے – سعادت مند بچے والدین اور ٹیچرز کا دل و جان سے احترام کرتے ھیں – اللہ تعالی یہ حسین روایات قائم رکھے- والدین اور ٹیچرز کا احترام اللہ کی بارگاہ سے برکتوں اور معاشرے میں اتحاد کا سبب بنتا ھے –
آج کے ٹیچرز ڈے کی مناسبت سے میں اپنے تمام ٹیچرز، پہلی کلاس کے ماسٹرنواب خان ، دوسری کلاس کے ماسٹر دراز خان ، تیسری کلاس کے ماسٹر سردارخان ، چوتھی کے ماسٹر عبدالحکیم ، پانچویں کے ماسٹر شاہ ولی خان ، چھٹی کے ماسٹر عیسب خان اور ماسٹر ممریز خان ، ساتویں کے ماسٹر حافظ رانجھا صاحب ، آٹھویں کے ماسٹر رب نواز خان ، انگلش ٹیچرز سرگل خان ، سر ممتاز کاظمی ، ھیڈماسٹر صاحبان راجہ الہی بخش اور کے بی ملک ، گارڈن کالج کے پروفیسر جان وائیلڈر ، پروفیسر ایف یو خان ، پروفیسرڈینیئل ، پروفیسر مطیع اللہ خان اور سنٹرل ٹریننگ کالج کے پروفیسر محمد اقبال خان ، پروفیسرمحمداسحق جلالپوری ، پروفیسر حاجی فضل احمد ، پروفیسر شمساد محمد خان لودھی ، پروفیسر شیخٰ نذیر احمد ، پروفیسر سعید خان اور پرنسپل پروفیسر اے جی بٹ کی خدمت میں نہات مؤدبانہ سلام عرض کرتا ھوں – ان میں سے میری معلومات کے مطابق صرف سر گل خان اس دنیا میں موجود ھیں – باقی محترم ٹیچرز جہاں جہاں بھی ھیں رب کریم ان کو خصوصی عنایات سے مالامال کر دے –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

ملاقاتیں اور سوغاتیں —————–
کل میانوالی کے مشہورو معروف نعت خواں اور نعت کو شاعر حاجی ظفر اقبال قادری اپنے صاحبزادے محمد فیضان رضا کے ھمراہ میرے ھاں تشریف لائے – ملاقات کا مقصد مجھے ان کا مرتب کیا ھؤا مجموعہ ءنعت “نعتاں دی برسات“ دینا تھا – یہ بلاشبہ میرے لیے ایک اعزاز ھے – ایک اور اعزاز یہ بھی ھے کہ حاجی ظفر کے والد محترم جناب عطا محمد میرے بہت مہربا ن دوست ھیں –
“نعتاں دی برسات “ حاجی ظفراقبال کا مرتب کیا ھؤا تیسرا مجموعہ ء نعت ھے – اللہ کریم ان کی یہ مساعی جمیلہ قبول فرمائے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

گورنمنٹ کالج میانوالی کے پروفیسرعامر کاظمی کی فرمائش ھے کہ کالج کے درجہ ء چہارم کے ملازمین کے بارے میں بھی کچھ لکھا جائے – میرا خیال ھے دو تین سال پہلے بھی ان ساتھیوں کے بارے میں لکھ چکا ھوں – لیکن شاید بہت سے لوگوں کی نظر سے وہ پوسٹ نہ گذری ھو ، اس لیے ایک بار پھر سہی –

الحمدللہ ، میں نے درجہ ء اول اور درجہ ء چہارم کے لوگوں میں کبھی فرق روا نہیں رکھا – عمر کے مطابق کسی کو لالا کسی کو چاچا کہہ کر مخاطب کیا — سب بہت محبت کرنے والے لوگ تھے – کالج کے تقریبا پچیس تیس ملازمین میں نائب قاصد، چوکیدار ، بیلدار ۔ باغباں ، لیبارٹری اٹینڈنٹ وغیرہ شامل تھے >پرنسپل آفس کے نائب قاصد غلام یاسین سابق فوجی تھے – بہت مؤدب اور صاف ستھرے انسان تھے – ان کے علاوہ انورخان، اور چاچا نورخان بھی دفتر سے وابستہ تھے – انور خان سنجیدہ مزاج اور خاموش طبع کارکن تھے – چاچا نورخان (میں انہیں لالا کہتا تھا) بہت دلچسپ شخصیت تھے – ان کے معصومانہ مزاح سے ھم بہت لطف اندوز ھوتے تھے – ان کا اصل عہدہ میں کبھی نہ سمجھ سکا – کبھی یہ لائبریری اٹینڈنٹ بن جاتے تھے ، کبھی چپراسی ، کبھی بیلدار – بہت زندہ دل انسان تھے –
باغباں چاچا مظفرخان اور چاچا صوبہ خان اپنے فن کے ماھر تھے – کالج کے مناظر کا حسن ان کی کاوشوں کا ثمر تھا — انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ملازم چاچا حبیب اللہ بھی دلچسپ انسان تھے – ان کے ساتھ بھی بہت اچھا وقت گذرا – کالج آفس کے ملازم ملک حقداد کی چنگچی اور لائبریری کے ملازم افضل خان کا تانگہ بھی ھمارے لیے بوقت ضرورت بہت کارآمد ثابت ھوتا تھا – سائیکل سٹینڈ کے نگران مولوی محمد خان المعروف لالا بھی بہت اچھے انسان تھے – کالج آتے جاتے ان سے علیک سلیک ھوتی رھتی تھی – داستان کچھ طویل ھے – بہت سے لوگوں کا ذکر باقی ھے ، بقیہ کل سہی –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-6  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

کالج کی لیباٹریز کے ملازمین ( لیب اٹینڈنٹس) سے بھی ھمارا خاصا گہرا تعلق رھا –

بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لیب اٹینڈنٹ یارن خان کنٹرولر امتحانا ت (پروفیسرسیداقبال حسین کاظمی) کی خدمت پر مامور تھے – ان کا بیٹا اقبال خان بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسرز ٹی کلب میں چائے بنانے کی خدمات سرانجام دیتا تھا -“>بیالوجی ٹی کلب میں بیالوجی کے پروفیسرصاحبان کے علاوہ انگلش ڈیپارٹمنٹ سے پروفیسرسلطان محموداعوان، میں اورپروفیسر سرورنیازی ، سیاسیات کے پروفیسرمحمدسلیم احسن , اردوڈیپارٹمنٹ سے پروفیسرمحمد فیروز شاہ, اور ایجوکیشن کے پروفیسرعبدالقیوم خان بھی شامل تھے – فارغ پیریڈز میں ھم لوگ وھاں چائے پینے کے لیے آتے جاتے رھتے تھے – اقبال خان بچارا جوانی ھی میں چل بسا ، ادھر پروفیسرکاظمی صاحب کی وفات کے بعد اقبال خان کے والد یارن خان کنٹرولرآفس سے فارغ ھو کر بیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں واپس آگئے اور چائے بنانے کی ڈیوٹی انہوں نے سنبھال لی —Image may contain: plant, tree and outdoor
یارن خان سنجیدہ مزاج ، فرض شناس انسان تھے – ھمارے کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد الصفہ کالج سے وابستہ ھوگئے –

کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کا ٹی کلب بہت بڑا تھا – اس کے ارکان میں کیمسٹری کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ تاریخ کے پروفیسر اقبال قاسمی ، جغرافیہ کے پروفیسر عطآءاللہ خان نیازی ، اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر غلام حیدر اور اردو کے پروفیسر احمد خان نیازی شامل تھے – پرنسپل بننے سے پہلے ڈاکٹرغلام سرورخان نیازی بھی اسی کلب کے رکن رھے – ان کے صاحبزادے پروفیسراحمد حسن خان نیازی بھی اسی کلب سے وابستہ تھے –

اس کلب میں چائے بنانے کے فرائض لیب اٹینڈنٹ احمد خان المعروف مولوی احمد خان سرانجام دیتے تھے – وہ جنڈ(ضلع اٹک) کے علاقے سے تھے – بہت مستعد اور فرض شناس انسان تھے – اس ڈیپارٹمنٹ میں ایک اور لیب اٹینڈنٹ کا نام بھی احمد خان تھا – وہ کالاباغ کے رھنے والے تھے- کالاباغ سے کچھ منگوانا ھوتا تو ھم ان کی خدمات سے استفادہ کرتے تھے –

فزکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحبان کو چائے سے دلچسپی نہ تھی – وھاں کوئی ٹی کلب نہ تھا – لیب اٹینڈنٹ عبدالرحمن لیبارٹری کے کاموں میں مصروف رھتے تھے – کالج کا ساؤنڈسسٹم وھی آپریٹ کرتے تھے –

دفتر کے ملازم لالا محمد خان ، رات کے چوکیدارعزیزاللہ ، ھاسٹل کے ملازم چاچا حمید ، کچھ اور لوگ بھی تھے ، اس وقت کچھ نام یاد نہیں آرھے – سب اچھے لوگ تھے –
گذرگیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-7  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

8 اکتوبر 2005

تقریبا 9 صبح بجے میں گھر کے صحن میں بیٹھا ایک انگلش ناول پڑھ رھا تھا ، اچانک زمین کی زوردار لرزش محسوس ھوئی – میں نے سمجھا شاید میرا سر چکرا رھا ھے – کوئی دوائی لینے کے لیے کمرے میں آیا تو چھت کے پنکھے کو بری طرح جھولتے

 دیکھ کرمعلوم ھؤا کہ میرا سر نہیں ، زمین چکرا رھی ھے – اتنی دیر میں شہر بھر سے مخصوص دعائیہ کلمات کی آوازیں بلند ھونے لگیں اللہ معاف کرے ، بہت ھولناک زلزلہ تھا – اس نے پورے ملک کو جھنجھنا کے رکھ دیا – بہت تباھی ھوئی – زلزلے کا مرکز آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے صرف 12 میل کے فاصلے پر تھا – مظفرآباد کی تو اینٹ سے اینٹ بج گئی – نومبر2005 کے ایک سرکاری اندازے کے مطابق 87350 لوگ اس زلزلے میں جاں بحق ،138000 زخمی ھوئے – جاں بحق ھونے والوں میں 19000 بچے بھی شامل تھے – زیادہ تر بچے سکولوں کی عمارتوں کے نیچے دب کر شہید ھوئے – ان معصوموں کو کیا خبر تھی کہ کیا قیامت آنے والی ھے –
مظفرآباد کی سیدہ آمنہ بہاررونا ، خط وکتابت کے ذریعے مجھ سے شاعری میں اصلاح لیتی تھیں – ان کے والد صاحب ریٹائرڈ ھیڈماسٹر تھے – آمنہ نے مجھے بتایا کہ زلزلے کہ وقت ابو مکان کی بالائی منزل پر تھے – وھیں جاں بحق ھوئے – ایسے بہت سے دردناک واقعات اس علاقے کی تاریخ کے سینے پر زخم بن کر آج بھی رس رھے ھیں –
زلزلے سے تقریبا 5 لاکھ خاندان متاثر ھوئے – 250000 مویشی بھی اس خونی زلزلے کی نذر ھوگئے – جانی و مالی نقصان آزاد کشمیر کے علاوہ صوبہ کے پی میں بھی بہت ھؤا -زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے پوری قوم متحرک ھو گئی – آرمی ،ائیرفورس، نیوی ، رینجرز کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں ، فلاحی تنظیموًں ، ڈاکٹرز اور سکولوں کے بچوں نے بھی امدادی کاموں میں بھر پور حصہ لیا – بیرون ملک سے بھی بہت امداد آئی – خاص طور پر ترکی کی خدمات اس سلسلے میں سب سے نمایاں تھیں –

1965 کی جنگ کی طرح اس زلزلے نے بھی ثابت کردیا کہ اپنی تمام تر کوتاھیوں کے باوجود ھم ایک زندہ قوم ھیں – رب کریم یہ جذبہ سلامت رکھے اورھمیں آئندہ ایسی آفات سے محفوظ رکھے –
یا رب کریم —————————-
خوار ھیں بدکار ھیں ڈوبے ھوئے ذلت میں ھیں
کچھ بھی ھیں ، لیکن ترے محبوب کی امت میں ھیں
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ھم تجھے بھولے ھیں لیکن تو نہ ھم کو بھول جا

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

—اپنا پرانا شعر —————
ان کے خط کا جواب لکھنا ھے
رنجشوں کا حساب لکھنا ھے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

پیل پیراں (ضلع خوشاب) کے پیرزادہ محمد شعیب شاہ میرے فیس بک کے سب سے پہلے احباب میں سے ھیں – 2016 میں “فیس بک سے دوستی“ کے عنوان سے میں نے کچھ ابتدائی ساتھیوں کا تعارف لکھا تھا – اس سلسلے کی ایک پوسٹ محمد شعیب شاہ صاحب کے بارے میں بھی تھی – شاہ صاحب گرافکس کے ماھربھی ھیں ، اکثر میرے اشعار کی خوبصورت آرائش کرکے ارسال فرماتے رھتے ھیں ، جو میں فیس بک پہ پوسٹ کر دیتا ھوں –

محمد شعیب شاہ صاحب کی دیرینہ فرمائش ھے کہ ان کے آبائی ضلع خوشاب کے بارے میں بھی لکھا جائے – پچھلے ھفتے ایک بار پھر انہوں نے یاددہانی کرائی – آج ان کی فرمائش کی تکمیل میں خوشاب کا ذکر ———————–:
خوشاب شہر میانوالی – لاھور روڈ پر واقع ھے –
خوشاب سے میرا تعلق خاصا دلچسپ ھے – میں دوسال خوشاب میں رھا ، مگر ان دوسالوں کی کوئی دھندلی سی یاد بھی ذھن میں محفوظ نہ رکھ سکا – دوسال کا بچہ کیا جانے کہ شہر کون سا ھے ، کیسا ھے- جب ھوش سنبھالا تو گھروالوں سے سنا کہ ھم دوسال خوشاب میں بھی رھے – والد محترم وھاں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر تھے -خوشاب تاریخٰ و جغرافیہ دونوں لحاظ سے بہت اھم ھے – یحی امجد کی کتاب تاریخ پاکستان میں لکھا ھے کہ ضلع خوشاب کی وادئی سون میں اڑھائی لاکھ سال پہلے کی انسانی آبادی کے آثار ملے ھیں – کتاب میں ان آثار کی پکچرز بھی ھیں – اس لحاظ سے یہ علاقہ روئے زمین کی قدیم ترین انسانی بستیوں میں سے ایک ھے –

شیرشاہ سوری نے خوشاب شہر کی بنیاد رکھی تھی – شہر دریائے جہلم کے کنارے واقع ھے – شیر شاہ سوری تقریبا چار سو سال پہلے یہاں سے گذرے تو یہاں کا پانی اتنا پسند آیا کہ یہاں خوشاب نام کا شہر آباد کرنے کا حکم جاری کر دیا – لفظ خوشاب (خوش+آب) کے معنی ھی اچھا پانی ھیں –

خوشاب شہر ٹرانسپورٹ کا اھم مرکز بھی ھے – موٹروے کے آنے سے پہلے سرگودھا سے پنڈی کی ٹریفک خوشاب سے ھو کر تلہ گنگ ، فتح جنگ کے راستے آتی جاتی تھی –

پیزادہ شعیب شاہ کا آبائی گھر پیل پیراں ھے – جو ان کے آباواجداد کے نام سے موسوم ھے – یہ وادئی سون کا خوبصورت قصبہ ھے – لیجنڈ شاعر ، ادیب اور صحافی احمدندیم قاسمی بھی وادئی سون کے ایک پیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے –
خوشاب کے بارے میں معلومات تو اتنی ھیں کہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ھے ۔ مگر پوسٹ میں جو کچھ سما سکتا تھا اسی کو کافی سمجھیں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-9  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

—اپنا ایک اور پرانا شعر ——————–
کاش عزت بھی ھوتی اس کے پاس
جس کو عزت مآب لکھنا ھے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-9  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

کالج کے دفتر سے میرا ھمیشہ قریبی تعلق رھا کیونکہ ھر قسم کے سرکاری لیٹرز ، رپورٹس وغیرہ میں ھی لکھا کرتا تھا – پرنسپل صاحبان جو بھی رھے یہ کام میرے ذمے ھی رھا – ڈاکٹرعبدالرشید صاحب خود بھی بہت اچھی انگریزی لکھ لیتے تھے ، لیکن وہ بھی لیٹر لکھنے کے بعد مجھے دکھا ضرور لیتے تھے —- مجھ پہ رب کریم کا خصوصی کرم ھے کہ میں ھرقسم کی انگریزی لکھ لیتا ھوں ، آڈٹ اعتراضات کے جوابات والی ٹیکنیکل انگریزی ، تقریبات کی رپورٹس کی صحافیانہ انگریزی ، انکوائری رپورٹس کی ججوں والی انگریزی ، میں سب کچھ لکھ لیتا ھوں-جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں آیا تو کالج کے آفس سپرنٹنڈنٹ کمر مشانی کے حاجی حبیب الرحمن خان تھے – بہت باوقار شخصیت تھے – کہنے لگے ملک صاحب ۔شکر ھے آپ آگئے، ھم دفتری امور کے ماھر تو ھیں ، مگر انگریزی میں ھاتھ خاصا تنگ ھے – آپ کے آنے سے یہ مسئلہ حل ھو گیا –

حاجی صاحب ریٹائر ھوئے تو ان کی جگہ شیخ محمد حسین المعروف ماما شیخ آفس سپرنٹنڈنٹ بنے – بہت کھلے ڈلے بے تکلف ، دوست دار انسان تھے – اکاؤنٹس کا کام خوب کرلیتے تھے – لکھنے لکھانے سے عاجز تھے – انسان بہت اچھے تھے ، اس لیے اچھا وقت گذار گئے

شٰیخ صاحب کی جگہ میانوالی کے ضیاءاللہ خان نیازی پروموٹ ھو کر آئے — وہ بہت عرصہ سے اسی کالج میں سینیئرکلرک کی پوسٹ پہ کام کر رھے تھے — بہت پیارے انسان تھے – میری سفارش پر خاصے مشکل کام بھی فورا کر دیتے تھے – قضائے الہی سے جوانی ھی میں ، دنیا سے رخصت ھوگئے – بہت یاد آتے ھیں –

کالج کے موجودہ آفس سپرنٹنڈنٹ ملک عبدالستار اس وقت سینیئر کلرک تھے – یہ بھی میرے بہت پیارے عزیز ھیں – میری رٰیٹائرمنٹ قریب آئی تو مجھ سے کہنے لگے ، “ملک صاحب ، پنشن کے معاملات کے لیے آپ کو کسی دفتر کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے – یہ خدمت ھم کریں گے – آپ اطمینان سے گھر بیٹھے رھیں “-

خاصا مشکل کام ھوتا ھے اکاؤنٹس آفس کے کئی پھیرے لگانے پڑتے ھیں ، مگر مجھے ایک دن بھی وھاں نہیں جانا پڑا- ملک عبدالستار صاحب میرے گھر آکر مجھ سے کاغذات پر دستخط کرواتے اور تمام کارروائی چلاتے رھے – اپنے ساتھ ریٹائر ھونے والے پروفیسر صاحبان سے بہت پہلے میری پنشن جاری ھوگئی –

حاجی حبیب الرحمن صاحب ، شیخ محمد حسین صاحب اور ضیاءاللہ خان تو اب اس دنیا میں نہیں ھیں – رب کریم ان کی مغفرت فرما کر انہیں بلند درجات عطا فرمائے ، اور ملک عبدلستار کو سلامت رکھے – ان سب لوگوں کے مجھ پر احسانات ھیں ، اس لیے انہیں یاد رکھنا میرا فرض بنتا ھے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-10  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

میانوالی سے عیسی خیل جائیں تو داؤدخیل سے دوچار میل پہلے بائیں ھاتھ ۔نہر کے پار ایک چھوٹا سا گاؤں ڈھیرامید علی شاہ آتا ھے – یہ دریائے سندھ کے کنارے بخاری سادات کی بستیوں کے سلسلے کی ایک کڑی ھے- بزرگوں سے سنا کہ آج سے تین چار سو سال پہلے یہاں ایک سید خاندان دریا کے کنارے آباد تھا – ایک دن شاھی فوج ادھر سے گذری تو کمانڈر نے اس خاندان کے بزرگ سے دعا کی درخواست کی اور کہا اگر ھمارے لائق کوئی حکم ھو تو بتائیں –

بزرگ شاہ جی نے کہا ھم دریا کے کنارے بیٹھے ھیں – سیلاب کا خطرہ رھتا ھے – اپنی فوج سے کہہ کر یہاں مٹی کا بڑا سا ڈھیر بنوا دیں تاکہ ھم سیلاب کی زد سے محفوظ رھیں – حکم کی فورا تعمیل ھوئی – فوج نے ایک ھی دن میں مٹی کا بہت بڑا ڈھیر بنا دیا – یہ ڈھیر اتنا بڑا تھا کہ اس پر پورا ایک گاؤں آباد ھوگیا – وہ گاؤں اس ڈھیر کے بانی سیدامیدعلی شاہ بخاری کے نام سے موسوم ھؤا — ڈھیر امید علی شاہ کی عالمگیر شہرت کا ایک سبب سید خورشید شاہ کی دردبھری شاعری بھی ھے – خورشید شاہ ان دنوں بیمار ھیں – انہیں ھم سب کی دعاؤں کی ضرورت ھے-

ھمارے آباؤاجداد مندہ خیل سے ڈھیر امیدعلی شاہ منتقل ھوئے تھے – ھمارے گھر ڈھیر کے گرد سطح زمین پر واقع تھے – 1929 کے ھولناک سیلاب میں یہ علاقہ دریا برد ھوگیا -صرف ڈھیر کے اوپروالی آبادی باقی رہ گئی —- ھمارے داداجی مولوی ملک مبارک علی داؤدخیل سکول میں ھیڈماسٹر تھے – داؤدخٰیل میں تعلیم اور زندگی کی دوسری سہولتیں زیادہ تھیں ، اس لیے دادا جی نے سیلاب سے چند سال پہلے ھی داؤدخیل میں تیس چالیس کنال زمین خرید کر یہاں اپنا گھر بنا لیا تھا –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-11 اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

فیس بک کے ساتھیوں میں سے محمد عاصم ، محمد زبیر اور حنین حسن شاہ اسلام آباد میں رھتے ھیں ، انہوں نے بہت خلوص سے مدد کی پیشکش کی ، اللہ کریم ان سب کو سلامت رکھے ، میں نے کہا بیٹا صرف دعا چاھیے –

میرے بہت پیارے بیٹے اور مظہر بیٹے کے بچپن کے دوست ، فیس بک کے معروف قلمکار انسپکٹرپولیس عبدالقیوم نیازی تو ھمارے اسلا م آباد پہنچتے ھی دس پندرہ منٹ بعد اپنے دونوں صاحبزادوں (دانیال اورحمزہ) کے ساتھ ھمارے گھرپہنچ گئے -دوسرے دن داؤدخیل کے عبدالستارخان نیازی (لمے خٰیل) بھی ھمارے ھاں آئے – عبدالستارخان داؤدخٰیل سکول میں میرے سٹوڈنٹ رھے – فوج کی ملازمت سے رٰیٹائرمنٹ کے بعد آج کل اسلام آباد میں مقیم ھیں – ان کے چھوٹے بھائی عبدالغفارخان نیازی داؤدخٰیل کی اھم سیاسی و سماجی شخصیت ھیں –
اس سے اگلے دن میرے داؤدخٰیل سکول کے سٹوڈنٹ ، میرے بہت لائق بیٹے میجر(ر) میاں محمد قریشی ھسپتال پہنچے – وہ بھی اسلام آباد رھتے ھیں – فیس بک پہ ھماری یہاں آمد کی خبر دیکھ کر ملنے کے لیے آگئے –

آپریشن والے دن میرے داؤدخیل سکول کے کولیگ اور میرے بہت پیارے بھائی محبت خان نیازی بھی ھسپتال آئے – انہیں ھماری یہاں موجودگی کی خبر ان کے اور میرے مشترکہ سٹوڈنٹ میجرمیاں محمد قریشی نے دی تھی – محبت خان نیازی کے بڑے بھائی اللہ دادخان میرے کلاس فیلو تھے – محبت خان اور میں داؤدخیل سکول میں چار پانچ سال رھے – یہ سائنس ٹیچر تھے ، میں انگلش ٹیچر – محبت خان صاحب بعد میں سرسید کالج راولپنڈی سے وابستہ ھوگئے ، وھیں سے ریٹائر ھوکر پنڈی میں مقیم ھوگئے – ان کے مقابلے کا سائنس ٹیچر پنڈی میں کوئی اور شاید ھی ملے – میرے خیال میں تو کوئی ھوگا بھی نہیں

—-پکچر —– ( عبدالقیوم خان نیازی اور ان کے صاحبزادوں دانیال اور حمزہ کے ساتھ )

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-18 اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے ان ٹیچرز کا ذکر کیا جنہیں اللہ تعالی نے پیدا ھی اسی کام کے لیے کیا تھا – ایسے ٹیچرز اپنے فرض کو عبادت سمجھتے ھیں – اس لیے ان کی زبان میں اثر ھوتا ھے – ان کے منہ سے نکلا ھؤا ھر لفظ دل میں اتر جاتا ھے – سکول کے دور کے ٹیچرز کے بعد میں نے گارڈن کالج راولپنڈی میں اپنے انگلش کے امریکی پروفیسر جان وائیلڈر کا ذکر کیا تھا –

بی اے کرنے کے بعد میں نے بی ایڈ کے لیے سنٹرل ٹرینینگ کالج لاھور میں داخلہ لیا – وھاں ھمارے ٹیچرز میں تین ایسے ٹیچرز تھے جو ھر لحاظ سے born teachers تھے ھمارے انگلش کے پروفیسر محمد اقبال خان صاحب ، بے مثال ٹیچر تھے – بہت عرصہ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں رھے ، وھاں سے ترقی ملی تو گورنمنٹ کالج لاھور (یونیورسٹی) میں وائس پرنسپل کی پوسٹ کی پیشکش ھوئی – گورنمنٹ کالج لاھور میں وائس پرنسپل کی پوسٹ ایک انتظامی عہدہ تھا – پرنسپل کے زیادہ تر اختیارات وائس پرنسپل کے پاس ھوتے تھے – ٹھیک ٹھاک افسرانہ شان والی یہ پوسٹ سر اقبال خان نے یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ

I was born a teacher, and I wish to die a teacher.
(میں ٹیچر پیدا ھؤا تھا ، اور ٹیچر ھی مرنا چاھتا ھوں)

مجھے چونکہ انگریزی پڑھنے پڑھانے کا جنون تھا ، اس لیے مجھ پر بہت مہربان تھے – ایک دفعہ کہنے لگے ، اس کلاس میں سب لوگ بی اے تو ھیں ، مگر انگلش صرف ملک منور ھی کو آتی ھے “-

آٹھ دس سال بعد میں کسی کام سے اسلامیہ کالج سول لائینز گیا تو برآمدے میں سراقبال سے ملاقات ھوگئی – میں نے سلام کیا اور کہا “ سر، یہاں کیسے آنا ھؤا ؟“

سر نے کہا “ سنٹرل ٹریننگ کالج سے رٰیٹائر ھؤا تو گھر بیٹھنا عجیب سا لگتا تھا ، جیسے کوئی چیز گم ھو گئی ھو – اس لیے میں نے یہاں work- charge بنیاد پر پڑھانا شروع کردیا – جتنے دن آتا ھوں ، اتنے دنوں کے پیسے مل جاتے ھیں – میرے لیے پیسوں سے زیادہ اھم بات یہ ھے کہ میرے علم سے لوگ مستفید ھو رھے ھیں “-

سرکی یہ بات سن کر پتہ نہیں کیوں میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، اور میں سر کو سلام کہہ کر وھاں سے چل دیا –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-20  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں پروفیسرمحمد اسحق جلالپوری ھمیں اردو پڑھاتے تھے – ان کا لیکچر صبح کی تازہ معطر ھوا میں پڑتی ھوئی شبنم کی نرم پھوار کی طرح خوشگوار ھوتا تھا – وہ جو پروین شاکر نے کہا تھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
کچھ ایسی ھی کیفیت ھوتی تھی پروفیسر جلالپوری صاحب کے لیکچر کے دوران ->بہت صاحب علم انسان تھے -اور بہت خوب انداز میں اپنے علم سے ھمیں مستفید کرتے تھے – یونیورسٹی سے ایم اے کے سٹوڈنٹ بھی ان سے مشورہ لینے کے لیے ھمارے کالج میں آیا کرتے تھے-
پروفیسر جلالپوری ضلع گجرات کے قصبہ جلالپور شریف کے مشہور و معروف پیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے – گدی نشین بن جاتے تو ھاتھ پیر ھلائے بغیر گھر بیٹھے دولت کے ڈھیر سمیٹتے رھتے – ایسے لوگوں کو نوکری کی کیا ضرورت – مگر اللہ نے انہیں ٹیچر بنا کر بھیجا تھا ، اس لیے ٹیچر ھی بنے – اور ٹیچر بھی ایسے کہ آج پچاس سال بعد بھی میرے دل میں مقیم ھیں – میرا قلم انہیں جھک کر سلام کر رھا ھے –

مجھے لکھنے کا ھنر اور حوصلہ پروفیسر جلالپوری صاحب ھی نے دیا – انہوں نے مجھ سے کہا آپ بہت اچھی نثر لکھ لیتے ھیں ، لکھتے رھا کریں – ان کی اس تحسین سے مجھے اعتماد ملا – ان کے حکم کی تعمیل میں آج بھی روزانہ پوسٹ لکھ رھا ھوں –

ٹریننگ کالج میں ھمارا شمار نکمے لوگوں میں ھوتا تھا – کالج کے ھر قانون کی خلاف ورزی کرتے رھے – کئی بار پروفیسر جلالپوری کی مہربانی سے ھم سزا سے بچے – جب بی ایڈ کا ریزلٹ آیا ، میں اس وقت داؤدخیل میں تھا – مجھے ریزلٹ کی اطلاع پروفیسر جلالپوری کے خط کی صورت میں ملی – خط کے الفاظ یہ تھے –

برادرعزیز، السلام علیکم
بالآخر بی ایڈ نے آپ کو قبول کر ھی لیا – کامیابی مبارک —— محمداسحق جلالپوری

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-21  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

پروفیسر شمشاد محمد خان لودھی سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں ریاضی کے پروفیسر تھے – ریاضی کے ایسے ماھر کہ ان کی لکھی ھوئی کتابیں پورے پاکستان کے میٹرک کے کورس میں شامل تھیں – 6 فٹ سے نکلتا ھؤا قد ، بھاری بھرکم گونجتی ھوئی آواز ، اونچی ناک ، موٹے شیشوں والی عینک ، بہت باوقار شخصیت تھے ، اس شخصیت میں درویشی کی آمیزش سونے پر سہاگہ تھی –

پروفیسر لودھی صرف ریاضی ھی کے ماھر نہیں ، ھرفن مولا تھے – شعروادب میں بھی خاصی دسترس رکھتے تھے- موسیقی کے تو بہت بڑے ماھر تھے – خود بھی بہت خوب گالیتے تھے – ججوں کے جس پینل نے مجھے کالج کا بہترین گلوکار قرار دیا ، پروفیسر لودھی اس پینل کے سربراہ تھے -<ھماری کلاس کو پروفیسر لودھی صاحب School Organisation نام کا مضمون پڑھاتے تھے – اس مضمون میں تعلیمی پالیسی , سکولوں کے انتظامی امور اور ٹیچر کے کردار پر بحث شامل تھی –

ایک دفعہ ٹیچر کی خصوصیات پر لیکچر دیتے ھوئے کہا “ میری بچی نویں کلاسClass Nine میں پڑھتی ھے – کل وہ ریاضی کا ھوم ورک کر رھی تھی تو میں نے کہا “ بیٹا ، یہ سوال یوں نہیں ، یوں حل کردو تو زیادہ آسان ھوگا “

بچی نے کہا “ جی نہیں ، بہترین طریقہ وھی ھے جو ھماری میڈم نے بتایا ھے “
میں نے کہا “ بیٹا ، بے شک آپ کی میڈم بہت لائق ھوں گی ، مگر جس کتاب سے وہ پڑھا رھی ھیں وہ تو میری لکھی ھوئی ھے – اس لیے بہترین طریقہ وھی ھے جو میں بتا رھا ھوں “

بچی نے کہا “چھوڑیں ابو ، آپ جو کچھ بھی ھیں ، ھماری میڈم سے زیادہ لائق نہیں ھو سکتے “

یہ کہہ کر پروفیسر لودھی نے کہا میں اس خاتون ٹیچر کو سلام کرتا ھوں جس کا مقام سٹوڈنٹس کی نظر میں اتنا بلند ھے کہ وہ کسی کو اس سے بڑا ماھر نہیں سمجھتے “-

یہ واقعہ سنا کر پروفیسر لودھی صاحب نے ھم سے کہا “ کوشش کریں کہ آپ لوگ بھی ایسے ھی ٹیچر بن جائیں – آپ کے سٹوڈنٹس کو بھی آپ کی قابلیت پر ایسا ھی مکمل اعتماد ھو ، کیونکہ ٹیچر کو عزت اور محبت اسی اعتماد سے ملتی ھے –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-22  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

آج صبح — اسلام آباد-

میانوالی کے بارے میں مکمل اور مستند ویب سائیٹ 786mianwali.com now is mianwali.org -کے بانی کرنل (ر) شیربہادرخان نیازی کے ساتھ –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

——لحمد للہ —————-

میرا ایک بہت بڑا مسئلہ کل شام حل ھو گیا – مسئلہ یہ تھا کہ مجھے بہت کم سنائی دیتا تھا – اس وجہ سے میری سوشل لائف تقریبا ختم ھو گئی تھی – کہیں آنا نہ جانا ، گھر پہ ھی بیٹھا رھتا تھا – ایک دو بار بازار سے آلہ ءسماعت خرید کر لگایا مگر کچھ زیادہ فرق نہ پڑا ، پرسوں شام میرے بیٹے مظہر علی ملک مجھے بلیو ایریا میں واقع GMT
pvt Ltd نام کے ادارے میں لے گئے – متعلقہ ماھر نے الیکٹرانک آلات کی مدد سے دونوں کانوں کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ نقص دونوں کانوں میں ھے اور اس کی مقدار مختلف ھے – اس لیے Hearing device دونوں کانوں میں لگانی پڑے گی – اس کی تیاری پہ ایک دن لگے گا -کل رات تقریبا نو بجے اس نے دونوں کانوں میں Hearing Device لگادی – اللہ کے فضل سے ھرآواز صاف سنائی دینے لگی – اللہ کا یہ کرم بھی آپ سب کی دعاؤں کا نتیجہ ھے – اس سے پہلے تو یہ حالت تھی کہ اگر کوئی مجھ سے بات کرنا چاھتا تو علامہ اقبال کا یہ مصرع یاد آجاتا ————–

آپ بھی شرمسار ھو ، مجھ کو بھی شرمسارکر

رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ھے کہ اس صورت حال سے نجات ملی –
مظہر بیٹے کے لیے بہت سی دعائیں – وہ اصرار نہ کرتے تو میں نے کب کہیں جانا تھا –
سماعت کے مسائل میں مبتلا دوستوں کی سہولت کے لیے اس ادارے کا پتہ درج ذیل ھے GMT Pvt Ltd
١، ماسکو پلازہ، نزد جہانگیرریسٹورنٹ ، بلیو ایریا ، اسلام آباد
٢۔ سید پور روڈ ، کالی ٹینکی سٹاپ ، راولپنڈی
Phone : 0333-1510177-55
ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی ان کی برانچیں ھیں – ایک برانچ سرگودھا میں بھی ھے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-24  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

–اپنا پرانا شعر—————–
آرائش مناظر گوندل-چک سیدا ، ملکوال


رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27  اکتوبر 2019

میرا میانوالی————-

Image may contain: 1 person, sitting and beardصبح اس وقت یوں لگتا ھے کوئی چیز گم ھو گئی – روزانہ صبح اس وقت “میرا میانوالی “ کے بینر کے سائے میں ھماری محفل سجتی تھی – مگر اھلیہ کی علالت کے باعث یہ معمول کچھ دنوں سے معطل ھے – دعا کریں کہ ھم جلد یہ محفل آباد کر سکیں –
میرے ھم عمر بزرگوں کی اپنی محفلیں ھوتی ھیں – دیہات میں چوک یا چوپال میں اور شہروں میں سرراہ واقع چائے خانوں میں یا دکانوں کے آگے تھڑوں پر بیٹھ کر بزرگ لوگ گپ شپ لگاتے ھیں – ھنسی مذاق – پیار بھری گالیاں ، شہر کی نئی تازی خبروں سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک ھر موضوع پر گرما گرم بحث ھوتی ھے اپنا معاملہ ذرا مختلف ھے – ٹیچر کی حیثیت میں میں نے ساری عمر بچوں اور نوجوانوں میں گذاری ھے – اس لیے میں انہی لوگوں میں خوش رھتا ھوًں – وہ میری بات بڑی توجہ سے سنتے ھیں ، میں ان کے مزاج سے واقف ھوں ، اس لیے ھمیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی –

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میں تقریبا دس سال بی اے ، ایم اے کے سٹوڈنٹس کو پڑھاتا رھا – پھر صحت کے بعض مسائل کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا – میری اس محرومی کا ازالہ کرنے کے لیے میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک نے مجھے فیس بک کی محفل فراھم کر دی – مزا آگیا یہاں آکر —

روزانہ صبح اس وقت ھماری محفل سجتی ھے – دنیا کے ھر کونے سے آئے ھوئے 5000 فیس بک فرینڈز اور 7600 فالوورز پر مشتمل اس محفل کے تقریبا 80 فی صد اراکین نوجوان ھیں – بلکہ سکولوں کے بہت سے بچے بھی میری اس محفل میں باقاعدہ شریک ھوتے ھیں – اللہ کے فضل سے یہ سب لوگ بہت شوق اور احترام سے میری باتیں سنتے اور جہاں تک ھو سکے ان پر عمل بھی کرتے ھیں –
اب کچھ دنوں سے میری مصروفیات مجھے یہاں باقاعدہ حاضری کی اجازت نہیں دیتیں ، مگر میں اس محفل کو miss ضرور کرتا ھوں – دعاؤں میں یاد کرتے رھا کریں – ان شاءاللہ بہت جلد باقاعدہ حاضری ممکن ھو جائےگی –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-30 اکتوبر 2019

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top