منورعلی ملککی ستمبر 2017 کیفیس بک پرپوسٹ

میرا میانوالی

عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ –Image may contain: 1 person, sitting and outdoor
اللہ کرے یہ عید ھم سب کے لیے بے حساب خیرو برکت کا باعث ھو- میری طرف سے آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک –
اکثر یہ دیکھا کہ جو لوگ قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان سے زیادہ گوشت کھانے کی حرص ان لوگوں کو ھوتی ھے جو سارا سال گوشت کے سوا کچھ اور کھاتے ھی نہیں – آپ سے کہنا یہ ھے کہ ان لوگوں کو اس عید کے موقع پہ نہ بھولیں، جو مانگ تو نہیں سکتے مگر Image may contain: 1 person, standing and outdoorآپ سے یہ توقع ضرور رکھتے ھیں کہ آپ ھمسائے کا حق سمجھ کر انہیں بھی کچھ نہ کچھ کھانے کو دے دیں گے- اللہ ھم سب کو یہ کارخیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
اب انشاءاللہ عید کے بعد ملاقات ھوگی – منورعلی ملک — 1ستمبر 2017

 

میرا میانوالی

عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —————–
خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاھتا ھوں ان دوستوں کا جنہوں نے کل اورآج میسیجز، فوٹوز اور لنکس بھیج کر اپنی عید کی خوشیوں مجھے شامل ھونے کا موقع دیا — ابھی فیس بک کھول کر دیکھا تو INBOX لبالب بھرا ھؤا تھا- پریشان ھو گیا اتنی بے لوث محبت کا جواب کیسے دوں- آپ کو مجھ سے کوئی غرض نہ لالچ، پھر بھی آپ مجھ سے اتنا پیار کرتے ھیں- لوگ کہتے ھیں یہ دور خود غرضی کا دور ھے- میں یہ کیسے مان لوں ؟
اللہ کریم آپ کو بے حساب اجرخیر عطا فرمائے- یہی دعا میری طرف سے اپنے اہنے میسیج کا جواب سمجھ لیں- منورعلی ملک- 2 ستمبر 2017

No automatic alt text available.

میرا میانوالی / میرا پاکستان ————————
آج کا دن تھا — 52 سال پہلے کی بات ھے- 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات کے پچھلے پہر بھارت نے اچانک پاکسان پر حملہ کردیا- حملہ آوروں کا خیال تھا کہ دوپہر سے پہلے لاھور فتح ھو جائےگا، اور ھم اس شام لاھور کے جم خانہ کلب میں جشن فتح کے طور پر جی بھر کے شراب پیئیں گے-
ان احمقوں کو کیا خبر تھی کہ ان کے سامنے صرف فوج نہیں پوری قوم لوھے کی دیوار بن کر کھڑی ھوجائےگی- اور اس دیوار سے ٹکرا کر وہ اپنی ھی ھڈیاں تڑوا بیٹھیں گے-
اللہ اکبر– !!! کیا جذبہ ، کیا جوش تھا- خیبر سے کراچی تک پوری قوم یک جان ھو گئی تھی- ھردل میں یہ تڑپ تھی کہ کاش مجھے بھی دشمن پہ ایک گولی فائر کرنے کا موقع مل جائے- ھر ذھن میں ایک ھی سوچ تھی کہ کسی نہ کسی طرح ھم بھی اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالیں —- میانوالی کے دور افتادہ دیہات میں بھی لوگ ھروقت ریڈیو کے گرد بیٹھے محاذ جنگ سے آنے والی خبریں سنا کرتے تھے-
کیا زبردست خبریں آتی تھیں ——– آج صبح فلاں محاذ پر دشمن کی فوج کا صفایا کردیا گیا- سیالکوٹ کے قریب چونڈہ کا میدان بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا-ھمارے فلاں ھوائی اڈے پر دشمن کے لڑاکا طیاروں نے حملہ کیا ، ایک بھی بچ کر واپس نہ جا سکا-
ھر گلی کوچے میں نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کی گونج مسلسل سنائی دیتی رھتی تھی-
محاذ جنگ پر لڑنے وانے مجاھدین کے لیے ضرورت کی چیزیں بھجوانے کی اپیل ریڈیو سے سن کر بچوں نے اپنا جیب خرچ اور خواتین نے اپنے کانوں کی بالیاں اتار کر انتظامیہ کو دے دیں کہ انہیں بیچ کر ھمارے بھائیوں بیٹوں کے لیے چیزیں خرید لی جائیں-
کاش وھی اتحاد اور وھی جوش و جذبہ ایک بار پھر دیکھنے میں آتا——- !!!
اس جنگ کے حوالے سے بہت سی یادیں آپ کے ساتھ شیئر کرنی ھیں- اس لیے اگلی چند پوسٹس انشاءاللہ اس موضوع پر ھوں گی- آپ یہ باتیں سن کر یہ کہنے پر مجبور ھو جائیں گے کہ ————
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی ؟ ؟ ؟
————————————— رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 6ستمبر 2017

میرا میانوالی میرا پاکستان ———————–
7 ستمبر کو ھرسال یوم فضائیہ منایا جاتا ھے- یہ تقریب ستمبر 1965 کی جنگ میں ھماری فضائیہ کی شاندار کارکردگی کی یاد تازہ کرتی ھے-
ویسے تو ھماری فوج اور بحریہ نے بھی اس جنگ میں بے مثال کارکردگی کا مظاھرہ کیا، مگر سب سے اھم کام پاک فضایہ نے سرانجام دیا- ھمارے شاہینوں نے ایک طرف تو دشمن افواج پر بے تحاشہ بمباری کرکے ھماری بری فوج کی پیش قدمی کے لیے راہ ھموار کی، دوسری طرف دشمن کے بہت سے اھم ھوائی اڈوں کو کچرے کے ڈھیربناکر بھارتی فضایئہ کی کمر توڑ کے رکھ دی-
بھارتی فضایئہ میں طیاروں کی تعداد ھماری فضائیہ کے مقابلے میں چار پانچ گنا زیادہ تھی- ان کے پاس بے شمار بمبار اور لڑاکا جیٹ طیارے تھے، ھمارے پاس B-57 بمبار اور F-86 لڑاکا طیارے تھے- چند F-104 Star Fighter بھی تھے، جو اس وقت دنیا کے بہترین جنگی طیارے سمجھے جاتے تھے-Image may contain: 1 person, sunglasses
7 ستمبر کو ھمارے شاھین سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا-ایم ایم عالم نے یہ بے مثال کارنامہ F-
Sabre Jet 86 لڑاکا طیارے سے سرانجام دیا –
محمد محمود عالم (ایم ایم عالم) مشرقی پاکستان کے رھنے والے تھے- جب مشرقی پاکستان بھارت کی سازش سے بنگلہ دیش بن گیا تو ایم ایم عالم یہ کہہ کر یہیں مقیم ھوگئے کہ میرا وطن تو پاکستان ھے، میں کسی بنگلہ دیش کو نہیں مانتا-
اس تاریخ ساز قومی ھیرو کے بارے میں مزید معلومات انشاءاللہ کل لکھوں گا-
——- رھے نام اللہ کا —–– منورعلی ملک — 7 ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان —————–
پہلے اٹھ کر سلام کیجیے وطن عزیز کے اس قابل فخر مجاھد (ایم ایم عالم ) کو جس نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ طیارے مار گرائے- ایم ایم عالم کا یہ کارنامہ ایک عالمی ریکارڈ ھے- اس مرد مجاھد کی یادوں کومحفوظ رکھنا ھمارا قومی فریضہ ھے-
ایم ایم عالم 6 جولائی 1935 کو کلکتہ میں پیدا ھوئے- 12 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، اپنا گھر بسانے کی بجائے اپنے آپ کو چھوٹے بھائی بہنوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے وقف کردیا-Image may contain: 1 person, beard and text
1965 کی جنگ میں ایم ایم عالم سرگودھا ائیر بیس پہ سکواڈرن لیڈر کی حیثیت میں متعین تھے جب انہوں نے دشمن کے پانچ طیارے مارگرانے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا- وہ 1960 میں فلائینگ آفیسر بھرتئ ھوئے ، 1982 میں ائیرکموڈور کے منصب سے ریٹائر ھوئے- 1965 کی جنگ میں انہوں نے 9 بھارتی طیارے پاک سرزمین پر گرائے اور دو طیاروں کو شدید نقصان پہنچایا جو بھارت کے علاقے میں جاگرے ھوں گے-
1978 میں کراچی یونیورسٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ھوئے ایم ایم عالم نے کہا پانچ طیارے گراتے وقت میں نے آسمان سے ایک روحانی قوت ( فرشتہ ھوگا) کو اترتے ھوئے دیکھا تھا-Image may contain: outdoor
ریٹائرمنٹ کے بعد ایم ایم عالم مستقل طور پہ کراچی میں مقیم ھوگئے- سروس کے دوران ھی وہ تبلیغ دین کی طرف راغب ھوگئے تھے- بقیہ عمر بھر یہی کام کرتے رھے – ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بے قدری کے بارے میں بہت سی افسوسناک باتیں سننے میں آتی رھیں- بہر حال اس بے قدری کا صلہ انہیں رب کریم نے اجر عظیم کی صورت میں ضرور دے دیا ھوگا-
سانس کی تکلیف میں طویل عرصہ مبتلا رھنے کے بعد ایم ایم عالم 23 مارچ 2013 کو کراچی کے ایک ھسپتال سے رخصت ھو کر رب کریم کے دربار میں حاضر ھوگئے-
لاھور کی مشہور و معروف ایم ایم عالم روڈ ان کے نام سے منسوب ھے- مین مارکیٹ گلبرگ کی یہ روڈ ایک اھم تجارتی مرکز بھی ھے-
میانوالی کو یہ اعزاز نصیب ھؤا کہ میانوالی کے ائیربیس کو ایم ایم عالم ائیربیس کے نام سے موسوم کردیا گیا – رھے نام اللہ کا منورعلی ملک — 9 ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ——————

1965 کی جنگ کے حوالے سے پوسٹس کا یہ سلسلہ میں نے اس لیے شروع کیا ھے کہ اس جنگ میں ھماری قوم کا غیرت مندانہ طرز عمل دیکھ کر آپ لوگ اپنی قوم پر فخر کرنا سیکھیں، اور آئندہ اس قسم کے حالات میں وھی طرز عمل اپنائیں- اللہ ھم سب کو ان روشن مثالوں کی تقلید کرنے کی ھمت اور توفیق عطا فرمائے-Image may contain: cloud and sky
جنگ کے دوران اگلے مورچوں میں لڑنے والے جوانوں کے پاس کھانا بنانے اور کپڑے دھونے کا وقت نہیں ھوتا- اس لیے حکومت نے کھانے پینے کے خشک سامان، رس، بسکٹ، کھجور، مونگ پھلی ، بھنے ھوئے چنے ، اور دوسری ایسی چیزوں کی ایک فہرست جاری کی اور قوم سے اپیل کی کہ یہ چیزیں ضلعی انتظامیہ کی معرفت محاذ جنگ پر بھجوائی جائیں-
اس اپیل کے فورا بعد ھر ضلع کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ان چیزوں کے ڈھیر لگ گئے- ان میں چینی ، پتی ، دودھ کے پیکٹ , کپڑے ، جوتے ، سگریٹ بھی شامل ھوتے تھے —
اس مہم میں سکولوں کے بچوں اور ٹیچرز نے بھی بھرپور حصہ لیا- کسی گھر سے بھی انکار سننے میں نہ آیا، جس کے پاس جو کچھ تھا ، خوشی سے دے دیا- میں اس وقت ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا- مجھے اپنے بچوں، اساتذہ اور علاقے کے عوام کے جوش و جذبہ پر فخر ھے- بہت تعاون کیا لوگوں نے ھم سے-
ھر ضلع سے سامان کے ٹرک تقریبا روزانہ محاذ جنگ پہ یہ سامان فراھم کرنے کے لیے روانہ ھوتے تھے- یہ چیزیں دیتے اور بھجواتے وقت جو خوشی محسوس ھوتی تھی، وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا- قوم اس احساس سے سرشار ھوتی تھی کہ ھم بھی جنگ میں اپنا حصہ ڈال رھے ھیں-
ملک بھر میں سینکڑوں نوجوان اس آس پر فوج کی بھرتی کے دفاتر میں جاتے تھے کہ ھمیں بھی محاذ جنگ پر جا کر وطن عزیز کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کا موقع نصیب ھو-
—————- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 10 ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ——————

میانوالی کے لوگوں نے 1965 کی جنگ میں طیاروں کی فضا میں لڑائیاں کئی بار دیکھیں- میانوالی ائیربیس Airbase دفاعی حساب سے پاکستان کا نہایت اھم ائیربیس ھے- اس لیے دشمن نے بارھا اس مضبوط دفاعی قلعے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ، مگر بحمداللہ، اسے ھمیشہ ناکامی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا-No automatic alt text available.
ایک تماشا تو ھم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا — دوپہر کا وقت تھا، ھم لوگ کسی سرکاری کام سے ضلع کونسل کے آفس پہنچے تو اچانک پی اے ایف بیس سے سائرن (اسے ھم گھگھوکہتے ھیں) کی آواز فضا میں گونج اٹھی- جنگ کے دوران سائرن ھوائی حملے کا اعلان ھوتا ھے- ھم آفس کے باھر درختوں کے سائے میں کھڑے تھے، دشمن کا ایک ھولناک شکل والا طیارہ پی اے ایف کی جانب سے آتا دکھائی دیا- ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پی اے ایف بیس سے ھمارے دو F-104 طیارے فضا میں بلند ھوئے- ان کی آواز سے ھی زمین تھرتھرانے لگی- دشمن کا طیارہ ان سے بچنے کے لیے پوری رفتار سے شمال کی جانب بھاگ نکلا- مگر کوا شاھین کی زد سے کیسے نکل سکتا- دوتین منٹ بعد خبر آئی کہ وہ طیارہ ھمارے F-104 شاھینوں نے کوھاٹ کے قریب مار گرایا- جب طیارے کو فائر لگا تو پائلٹ نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلا نگ لگا دی- گرفتاری کے بعد اس پائلٹ نے بتایا کہ مجھے تو میانوالی ائیر بیس پر حملے کے لیے بھیجا گیا تھا، مگر مجھے تو وھاں پہاڑ اور دریا کے سوا کچھ نظر نہیں آیا-
مجموعی طورپر پاکستان کی جانباز ائیر فورس نے اس جنگ میں دشمن کی ائیر فورس کا کباڑا کرکے رکھ دیا- ——– رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 11 ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ———–
Image may contain: 1 personجنگ ستمبر 1965 کے پہلے 24 گھنٹوں ھی میں پاکستانی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ پر اپنی برتری ثابت کر دی تھی- بری فوج کو تحفظ فراھم کرنے کے علاوہ ھمارے شاھینوں نے امرتسر اور کچھ دوسرے اھم بھارتی ھوائی اڈوں پر بم برسا کر انہیں ملبے کے ڈھیر بنا دیا- انہیں مارگرانے کے لیے جو بھی بھارتی طیارہ فضا میں بلند ھؤا ، ذرا دیربعد ھمارے کسی شاھین کی زد میں آکر شعلوں میں لپٹا ھؤا زمین پہ آگرا-
ھماری فضائیہ کی کارکردگی نے دنیا بھر کو حیران کر دیا- اس کارکردگی کا کریڈٹ ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل ملک نور خان کو جاتاھے- فضائیہ کے یہ دونوں سابق سربراہ دنیا کے بہترین فائیٹر پائیلٹس Fighter Pilots میں شمار ھوتے ھیں- دونوں بہت اچھے کمانڈر بھی تھے- جنگ ستمبر سے کچھ پہلے فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل اصغر خان نے صدرایوب خان سے اختلافات کی بنا پر استعفی دے دیا، تو ایوب خان نے ائیر مارشل نور خان کو فضائیہ کا سربراہ مقرر کر دیا- ستمبر کی جنگ پاک فضائیہ نے ائیر مارشل نور خان کی قیادت میں لڑی- ایم ایم عالم اورسرفراز رفیقی شہید جیسے ھیرو نورخان کی قیادت نے تعمیر کیئے- جنگ کے دوران محاذوں پر بری فوج کو سامان سپلائی کرنے کے لیے ائیر مارشل نور خان خود ایک دو دفعہ سامان سے لدا ھؤا C-130 طیارہ اڑا کر لے گئے- دشمن کی شدید گولہ باری میں محاذ پر جانا بچوں کا کھیل نہیں –
ایئرمارشل نورخان کا ایک اور کارنامہ 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ میں نمایاں کارکردگی تھا- اسرائیل کے اس وقت کے نامور فائیٹر پائیلٹ Ezer Weizman نے,( جو بعد میں اسرائیل کے صدر بھی بنے ) ، اس جنگ کے حوالے سے اپنی آپ بیتی میں ائیر مارشل نور خان کا ذکر کرتے ھوئے لکھا-
He was a formidable fellow, and I was glad that he was a Pakistani, not an Egyptian.
( بہت خطرناک دشمن تھا- شکر ھے وہ پاکستانی تھا ، مصری نہیں تھا )
یہ جنگ مصر، شام اور لبنان نے اسرائیل کے خلاف میں لڑی تھی- اگر ائیر مارشل نور خان مصری فضائیہ کے سربراہ ھوتے تو اسرائیل کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتے-
اللہ اکبر -!!!——————————-Image may contain: 1 person, beard, eyeglasses, outdoor and closeup

عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ ————–
کل اورآج کی پوسٹ پر کمنٹس میں ایک آدھ دوست نے مجھ سے جنرل نیازی کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کی ھے- مجھے اس سے طنز کی بو آرھی ھے- یہ اچھی بات نہیں، اس لیے میں وہ کمنٹ delete کررھا ھوں-
میں نے اپنی فیس بک کو محبتیں شیئر کرنے کا وسیلہ بنایا ھؤا ھے- اس لیے کوئی ایسی بات اس پیج پہ نہ خود کرتا ھوں ، نہ کرنے کی اجازت دیتا ھوں ، جس سے کسی فرد قبیلے یا طبقے کی دل آزاری ھو-
مرحوم جنرل نیازی کے بارے میں جو لوگ جاننا چاھیں ، وہ ان کی آپ بیتی پڑھ لیں- یہ کتاب میری نظر سے نہیں گذری ، مگر میراخیال ھے آپ کو تمام سوالات کے جواب اس میں مل جائیں گے- تصویر کا ایک رخ دیکھنے کی بجائے دوسرا رخ بھی دیکھنا چاھیے-
ایک ذاتی بات یہ بھی ھے کہ مرحوم جنرل نیازی کے خاندان سے میرے بہت قریبی مراسم ھیں – ان کے بھائی چاچا احمد خان نیازی میرے بہت مہربان بزرگ تھے- ایک آدھ سال پہلے ان کے بارے میں دو پوسٹس بھی لکھ چکا ھوں- چاچا احمد خان نیازی کے صاحبزادے جنرل شیرافگن نیازی ، شیرافضل نیازی وغیرہ مجھے اپنا بھائی سمجھتے ھیں- اس لیے اس خاندان کے کسی فرد کے بارے میں منفی کمنٹس سے میرا دل دکھتا ھے٠
ایک اور اھم بات یہ کہ جنگ کے حوالے سے میری پوسٹس میں آپ کی دلچسپی کم ھوتی نظر آرھی ھے- اگر میں گلوکاروں کے بارے میں یا اپنے لکھے ھوئے گیت پوسٹ کروں تو آپ لائیکس کے ڈھیر لگا دیں گے- یہ فرق کیوں ھے ؟ کیا ھمارے جانباز فوجی جوان ھمارے کچھ نہیں لگتے – ؟
———– وماعلیناالالبلاغ- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 12 ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ————————

ستمبر 1965 کی جنگ میں بے مثال کامیابیوں کی بنا پر ائیر مارشل نور خان کو عالمگیر شہرت ملی- پاک فضائیہ دنیا کی بہترین ائیر فورسز میں شمار ھونے لگی-
ریٹائرمنٹ کے بعد ائیرمارشل ملک نورخان کچھ عرصہ مغربی پاکستان کے گورنر بھی رھے- انہیں تعلیم سے خصوصی دلچسپی تھی، اور ٹیچرز کا بہت احترام کرتے تھے- گورنر کی حیثیت میں ان کا سب سے اھم کارنامہ یہ ھے کہ انہوں نے کالجوں کے لیکچررز کو گزیٹڈ افسر (Grade-17) کا درجہ دے دیا- اس سے پہلے لیکچرر گزیٹڈ افسر نہیں ، بلکہ آج کے حساب سے گریڈ -14 کے ملازم ھوتے تھے-Image may contain: 2 people, suit
ٹیچرز کے بارے میں ان کا ایک اپنا ویژن تھا- وہ ٹیچرز کے لیے بہت کچھ کرنا چاھتے تھے، مگر سیاسی اتار چڑھاؤ کی زد میں آکرچند ھی ماہ بعد گورنر کے منصب سے الگ ھوگئے-
ائیرمارشل نور خان تحصیل تلہ گنگ کے مشہور شہر ٹمن کے ایک اعوان خاندان کے چشم و چراغ تھے- 22 فروری 1923 کو ٹمن میں پیدا ھوئے- ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ھائی سکول ٹمن میں مکمل کی- سکول کے ھیڈماسٹر ملک نور محمد خان کو مثالی ٹیچر اور ایڈمنسٹریٹر سنجھتے تھے- ایئرمارشل نورخان کو ان سے اتنی عقیدت تھی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چار سال تک ان کی ملازمت میں مسلسل توسیع کرواتے رھے- بالآخر ھیڈماسٹر صاحب نے صحت کی خرابی کے باعث مزید توسیع لینے سے معذرت کر لی، ورنہ ائیر مارشل نور خان تو انہیں عمر بھر اپنے سکول کا ھیڈماسٹر رکھنا چاھتے تھے- ھیڈماسٹر ملک نورمحمد خان 65 برس کی عمر میں ریٹائر ھوئے- یہ ایک انوکھی مثال ھے، ملازمت میں توسیع آسان نہیں ھوتی- مگر ائیر مارشل اپنے استاد محترم کو مسلسل توسیع دلواتے رھے- ائیر مارشل نورخان کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا- انہیں کون انکار کر سکتا تھا-
ائیرمارشل نور خان پاکستان میں کھیلوں ، بالخصوص ھاکی اور سکواش کی سرپرستی بھی کرتے رھے-
15 دسمبر 2011 کو سرزمین پاک کا یہ تابناک ستارہ اپنا سفر مکمل کر کے غروب ھوگیا –
رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 13 ستمبر2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ————————-

اس جنگ میں پاک بحریہ کی بے مثال کارکردگی بھی ھماری تاریخ کا ایک زریں باب ھے – 7 ستمبر کو ھمارے سات جنگی جہاز کراچی سے تقریبا دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر بھارت کی اھم بندرگاہ دوارکا کی جانب روا نہ ھوئے- ھر بحری جہاز کا ایک نام ھوتا ھے- ھمار ے ان سات جہازوں کے نام بابر ، خیبر ، بدر ، جہانگیر، شاہ جہان ،عالمگیر اور ٹیپو تھے-Image may contain: ocean, sky, water and outdoor
دوارکا پر حملے کے 3 مقررہ مقاصد تھے-
١۔ دوارکا کی بندرگاہ اور ریڈار کو تباہ کرنا
٢۔ دوارکا کے تحفظ کے لیے بمبئی سے آنے والے بڑے بھارتی جہازوں کو آبدوز “غازی” کا نشانہ بنا کر سمندر میں غرق کرنا-
٣۔ اچانک حملے سے بھارتیوں پر خوف وھراس طاری کرنا-
ھمارے ھر جہاز نے پچاس گولے فائر کرکے دوارکا کی اینٹ سے اینٹ بجادی- بمبئی میں بھارت کے جہاز ابھی مرمت ھو رھے تھے، اس لیے کوئی بھی ادھر نہ پہنچ سکا- دوارکا میں ریڈار کی تباھی کے بعد سندھ میں بھارتی فضائیہ کے حملوں کا سلسلہ ختم ھو گیا، کیونکہ طیاروں کی رھنمائی کرنے والا ریڈار راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا-
اس حملے کے بعد بھارت پر ایسا خوف و ھراس طاری ھؤا کہ جنگ کے دوران بھارتی بحریہ ھمار ی بحریہ سے پنگا لینے کی جراءت نہ کر سکی — پاک بحریہ زندہ باد —– !!!!

صبح کی پوسٹ میں آبدوز 147غازی147 کا ذکر آیا تو یاد آگیا کہ آبدوز غازی کا میرے داؤدخیل سے بھی بہت گہرا تعلق بنتا ھے 1971 کی جنگ میں یہ آبدوز ایک حادثے کا شکار ھو کر بھارت کے مشرق میں سمندر میں ڈوبی تو اس کے عملے میں داؤدخیل کے سلیم اختر خان بھی تھے-
سلیم اختر خان ، جنرل ثناءاللہ نیازی شھہد کے قبیلے علاؤل خیل کے بہت سمارٹ، خوش اخلاق اور صاف ستھرے نوجوان تھے-
آبدوز غازی کے ڈوبنے کا سانحہ ایک راز ھے ، جس کا کھوج آج تک کوئی نہیں لگا سکا- یہ آبدوز بھارت کے ایک اھم ترین جنگی جہاز کو سمندر کے اندر سے میزائیل (تارپیڈو) کا نشانہ بنا کر ڈبودینے کے مشن پر گئی تھی- اس جہاز کو ڈبونے کے علاوہ اس آبدوز نے سطح سمندر سے نیچے بارودی سرنگیں بھی بچھانی تھیں- بھارت کا وہ جہاز تو اس علاقے میں آیا ھی نہ تھا، اس لیے صرف سرنگیں نچھانے کا کام ھوتا رھا- پھر اچانک ایک دھماکہ ھؤا اور یہ آبدوز ھمیشہ کے لیے سمندر کی تہ میں مدفون ھو گئی- بھارت نے دعوی کیا کہ اسے بھارتی جہاز راجپوت نے بم مار کر غرق کیا- پاکستان نیوی کا خیال تھا کہ واپس جاتے ھوئے یہ آبدوز اپنی ھی بچھائی ھوئی کسی بارودی سرنگ کی زد میں آگئی ھوگی- —– واللہ اعلم بالصواب –
شہید سلیم اختر خان داؤدخیل سکول میں میر ے سٹوڈنٹ رھے- بہت لائق نوجوان تھے- ان کے والد محترم رب نواز خان ھمار ے بہت مہربان دوست تھے-Image may contain: outdoor جنت تو ھر شہید کا مقدر ھوتی ھے- آخری سانس لیتے ھی شہید جنت میں جا پہنچتا ھے- آئیے یہ دعا کریں کہ رب کریم جنت میں سلیم اختر اور ان کے ساتھی شہیدوں کو مزید بلند درجات عطا فرمائے-
( پکچر، آبدوز “غازی'” ) ————- 1965
————– رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 14ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان —-

آج چوتھی برسی ھے شہید جنرل ثناءاللہ خان نیازی کی- جنرل ثناءاللہ نیازی دھشت گردی کے خلاف جنگ ضرب عضب میں سوات کے جنرل آفیسر کمانڈنگ GOC تھے– بہت سادہ ، رحم دل اور پرسکون انسان تھے- سپاھیوں اور عوام میں گھل مل کر رھتے تھے- ان کے زیرکمان فوجی انہیں پیار سے 147سپاھیوں کے جرنیل 147 کہتے تھے-
دھشت گردی کے خلاف منصوبہ بندی میں جنرل ثناء علاقہ کے معززین سے بھی مشورہ لیتے تھے- ان کی شہادت فوج کے علاوہ سوات کے عوام کے لیے بھی ایک سانحہ تھی –
جنرل ثناءاللہ نیازی اپنے ماتحت افسروں اور جوانوں سے کہا کرتے تھے کہ لوگوں کو خالی نصیحتیں کرنے کی بجائے اپنے ذاتی کردار کو نمونہ بناؤ-
جنرل ثناء نے سوات میں سماجی ، معاشی سرگرمیاں بحال کروانے میں بہت اھم کردار ادا کیا- وہ خود بھی مقامی تقریبات میں شریک ھوتے تھے- سوات میں سیاحت کی بحالی سے وھاں کی سوئی ھوئی معیشت جاگ اٹھی-
جنرل شہید زیادہ سے زیادہ وقت اپنے جوانوں کے ساتھ گذارنے کے لیے اکثر پاک افغان سرحد کی قریبی چوکیوں میں جایا کرتے تھے- یہ بہت خطرناک کام تھا ، کیونکہ high level target ھونے کی وجہ سے دھشت گرد ان کے خون کے پیاسے تھے-
شہادت سےایک ھفتہ پہلے ایک دن خبرآئی کہ سرحد کے قریب فلاں چوکی شدید خطرے میں ھے- سیکورٹی فورسز کے منع کرنے کے باوجود یہ شیردل جرنیل اسی رات وھاں پہنچا، اور دھشت گردوں کے عزائم خاک میں ملادیئے-
14ستمبر 2013 کو ایک سرحدی چوکی سے واپس آتے ھوئے ان کی جیپ دھشت گردوں کے ریموٹ کنٹرول حملے کا شکار ھوگئی، اس حملے کے نتیجے میں پاک فوج ایک عظیم جرنیل ، اور قوم ایک عظیم انسان سے محروم ھوگئی-
جنرل ثناءاللہ نیازی داؤدخیل کے قبیلہ علاؤل خیل کے خلاص خان نیازی کے صاحبزادے تھے- ان کے والد کوئٹہ پولیس میں ایس ایس پی ریٹائر ھوئے- وہ بھی ایک لیجنڈ شخصیت تھے- کچھ عرصہ پہلے میں نے ان پر پوسٹ بھی لکھی تھی- جنرل ثناء کے بھائی رحمت اللہ نیازی، ڈی جی خان میں ڈی آئی جی پولیس ھیں- ان کے دوسرے بھائی امین اللہ خان داؤدخیل کے سابق ناظم ، اور مقبول سماجی شخصیت ھیں-
جنرل ثناءاللہ نیازی کی برسی پر ھماری دعاھے کہ رب کریم اس مرد مجاھد کو بلند درجات عطا فرمائے- پاک فوج کے کسی سپاھی سے بھی پوچھیں تو وہ کہے گا جنرل ثناء میرے جرنیل تھے٠ یہ محبت اور مقبولیت ھرانسان کو نصیب نہیں ھوتی- رھے نام اللہ کا Image may contain: 1 person, smiling

 شہید جنرل ثناءاللہ نیازی ، ایک مورچے میں جوانوں کے ساتھ )-

منورعلی ملک — 15ستمبر 2017


میرا میانوالی/ میرا پاکستان ————-

دہشت گردی کے خلاف جہاد میں پاک فوج اور میانوالی کی ایک اور بڑی قربانی جنرل جاوید سلطان خان کی شہادت تھی – شہید جنرل ثناءاللہ خان نیازی تو میرے داؤدخیل کے رھنے والے تھے- ان کے خاندان سے ھمارے بہت قریبی مراسم ھیں، اس لیے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا میرے لیے مشکل نہ تھا-
جنرل جاوید سلطان شہید کے بارے میں زیادہ معلومات نہ مل سکیں ، بس اتنا معلوم تھا کہ وہ ضلع میانوالی کے معروف قصبے غنڈی کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے– تاھم ان کی صاحبزادی ماھم جاوید کا انگلش میں لکھا ھؤا ایک خوبصورت مضمون مل گیا، جس سے شہید جنرل کی شخصیت اور کارکردگی کے بارے میں اھم باتیں میری دسترس میں آگئیں-
ماھم بیٹی لکھتی ھیں کہ 6 فروری 2008 کی سہ پہر میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی تو دادا ابو حسب معمول 4 بجے کے قریب آئے اور ٹی وی آن کرنے کو کہا- ٹی وی آن کیا تو میرے والد کی شہادت کی بریکنگ نیوز چل رھی تھی- ھم لوگوں پر تو سکتہ طاری ھو گیا- مگر 89 سالہ دادا ابو نے یہ خبر سنتے ھی سجدہ شکر ادا کرتے ھوئے کہا ” میرے مالک تیرا احسان ھے کہ تو نے میرے بیٹے کو یہ اعزاز عطا کیا-“Image may contain: 1 person
جنرل جاوید سلطان جنوبی وزیرستان میں وانا کے قریب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا معائنہ کرتے ھوئے ھیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ھوئے، ان کے ساتھ چند اور فوجی افسر بھی تھے-
اپنے والد کی شخصیت کے حوالے سے ماھم لکھتی ھیں کہ بہت زندہ دل اور خوش مزاج انسان تھے- اس وجہ سے ان کے بے شمار دوست تھے- ان کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ ان کے دوستوں میں چارسال کے بچوں سے لے کر نوے سال کے بزرگ تک شامل تھے-
کوھاٹ میں تعیناتی سے پہلے جنرل شہید بھارت میں پاکستانی سفارت خانے کے معاون فوجی افسر تھے- وھاں سے انہیں بطور جنرل ترقی دے کر کوھاٹ میں جنرل آفیسر کمانڈنگ تعینات کیا گیا تھا — شہادت کے وقت جنرل جاوید اس منصب پر فائز تھے-
شہید جنرل ثناءاللہ نیازی کی طرح جنرل جاوید شہید بھی زیادہ تر وقت محاذ پر گذارتے تھے- کبھی کبھار چند گھنٹوں کے لیے گھر آتے تھے- گھر والے شکوہ کرتے تو جنرل صاحب کہا کرتے تھے، “میں آپ لوگوں کے مستقبل کے لیے لڑرھا ھوں- شہید کی صاحبزادی لکھتی ھیں کہ ابو محاذ پر نماز عید ادا کرکے آئے اور چند گھنٹے بعد واپس جانے لگے تو ھم نے کہا “عید کے دن تو گھر پہ رہ جائیں ”
ابو نے مسکرا کر کہا ” سارادن تمہارے ساتھ گذار دوں تو میرے ان بچوں کا کیا بنے گا -?”
ان بچوں سے مراد جہاد میں مصروف فوجی جوان تھے-
اللہ جنرل جاوید سلطان شہید کے درجات بلند فرمائے بے مثال افسر بھی تھے، انسان بھی-
چنرل ثناءاللہ نیازی اور جنرل جاوید جیسے لوگ ھی پاکستان کا اصل چہرہ ھیں- کہاں ھم ، کہاں وہ لوگ– رھے نام اللہ کا-– منورعلی ملک –16ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ————————-

Image may contain: 1 personمیانوالی کا ایک اور درخشاں ستارہ ————– ائیر وائس مارشل میاں عبدالرزاق شہید
ائیروائس مارشل میاں عبدالرزاق شہید واں بھچراں کے ایک صاحب علم گھرانے کے فرد منفرد تھے- ان کا شمار پاک فضائیہ کے بہترین فائیٹر پائلٹس Fighter Pilots میں ھوتا تھا- اتنے ماھر تھے کہ ایک دفعہ مشق کے دوران انہوں نے طیارے کی گن کا پورا برسٹ نشانے پر ماردیا- ایسا بہت کم ھوتا ھے- سینکڑوں گولیوں میں سے ایک آدھ ٹارگٹ پہ لگ جائے تو اسے بھی کامیابی سمجھا جاتا ھے- میاں عبدالرزاق کی تمام گولیاں ٹارگٹ پہ لگیں تو ان کے ساتھی پائیلٹس نے مذاق کے طور پرکہا 147تکا لگ گیا ھے147- میاں عبدالرزاق نے طیارہ موڑا اور دوسری بار یہ کارنامہ کر کے دکھا دیا-
روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو ائیروائس مارشل شہید عبدالرزاق نے پاکستان کی حدود میں داخل ھونے والے کئی روسی طیارے مار گرائے- جوبھی روسی طیارہ ان کے طیارے کی زد میں آیا بچ کر نہ گیا- اس وقت شہید ائیروائس مارشل ونگ کمانڈر کے عہدے پر کام کر رھے تھے-
شہید ائیروائس مارشل میاں عبدالرزاق بہت کامیاب ایڈمنسٹریٹر بھی تھے- جہاں بھی بیس کمانڈر رھے ، اس ائیر بیس کی کارکردگی سب سے نمایاں رھی- کچھ عرصہ پاک فضائیہ کے ایجوکیشن ونگ میں رھے تو پی اے ایف کے تمام تعلیمی اداروں کو مثالی ادارے بنا دیا- پی ایف کالج میانوالی پر خصوصی توجہ دیتے تھے-
شہید ائیر وائس مارشل عبدالرزاق 20 فروری 2003 کو کوھاٹ کے قریب ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ھوگئے- اس طیارے میں پاک فضائیہ کے ایر چیف مارشل مصحف علی میر اور 15 دوسرے اعلی افسر بھی تھے- سب شہید ھوگئے، اللہ سب کے درجات بلند فرمائے-
شہیدائیروائس مارشل کی یادگار کے طور پر پی اے ایف کالج میانوالی کو عبدالرزاق فضائیہ کالج کے نام سے موسوم کر دیا گیا-
ائیر وائس ماشل عبدالرزاق شہادت کے وقت ڈپٹی چیف آف ائیر سٹاف تھے- زندہ رہ جاتے تو پاک فضائیہ کے اگلے چیف وھی ھوتے- مگر قدرت نے ان کے لیے اس سے بڑا اعزاز شہادت منتخب کرلیا-
—————————————- رھے نام اللہ کا ————————————-Image may contain: one or more people, people standing, shoes and outdoor

 شہید ائیر وائس مارشل ، عبدالرزاق ایم ایم عالم سے ھاتھ ملاتے ھوئے )-– منورعلی ملک — 17 ستمبر2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ————————-

ھمارے بچپن کے دوست جنات خداجانے کدھر چلے گئے- بچپن میں تو ھمیں نانیاں دادیاں بتاتی تھیں کہ رات کے وقت اکیلے باھر نہ جایا کرو، ھر طرف جنات پھر رھے ھوتے ھیں- بڑوں کو تو کچھ نہیں کہتے، بچوں کو پکڑ لیتے ھیں، اور سونے کا ڈھول اورسونے کی شہنائی لے کر چھوڑتے ھیں- ھم لوگ جنات کے ڈر سے شام کے بعد گھر سے باھر قدم نہیں رکھتے تھے- اگر کبھی باھر جانا بھی چاھتے تو گھر سے باھر قدم رکھتے ھی ھر درخت اور جھاڑی کو جن سمجھ کر بھاگ کر واپس آجاتے-
نانیاں دادیاں ان کے بارے میں عجیب و غریب قصے سنایا کرتی تھیں- ایک قصہ یہ تھا کہ ایک رات ایک آدمی گھوڑے پر سوار جارھا تھاکہ قبرستان کے قریب ایک ھرن کا بچہ نظرآیا- اس نے ھرن کے بچے کو گھوڑے پر اپنی گود میں بٹھا لیا- چند ھی قدم آگے جاکراس نے دیکھا کہ ھرن کے بچے کے پاؤں زمین پر جا لگے ھیں- ذرا سی دیر میں وہ بچہ پانچ سات فٹ لمبا بھاری بھرکم ھرن بن گیا تھا – خوف سے کانپتے ھوئے اس آدمی نے ھرن کو دھکا دے کر زمین پر گرا دیا، اور گھوڑے کو سرپٹ بھگانے لگا- پیچھے سے آواز آئی تمہاری کوئی بات اللہ کو پسند آئی اور اس نے تمہیں بچا لیا ، ورنہ آج میں نے تمہیں چھوڑنا نہیں تھا-
آپ لوگ کہیں گے سرجی، یہ آپ اکیسویں صدی میں کیا فضول باتیں لے بیٹھے- میرا جواب یہ ھے کہ اللہ کے فضل سے میری باتیں فضول نہیں ھوتیں- جنات آج بھی موجود ھیں اور قیامت تک رھیں گے- یہ قرآن کا فیصلہ ھے، میرانہیں- شیطان بھی تو جن ھی ھے- البتہ یہ خیال غلط ھے کہ سب جنات ھمارے دشمن ھی ھوتے ھیں-
انشاءاللہ ، آئندہ چند پوسٹس اس موضوع پر لکھوں گا-
——————————— رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –18ستمبر 2017

میرا میانوالی————-

دادیوں نانیوں کے پاس جنات کےبارے میں معلومات تو بہت ھوتی تھیں، لیکن ان میں سے کسی نے بھی کبھی جن دیکھا نہیں تھا- بس اتنا بتا دیتی تھیں کہ یہ واقعہ میری نند کے سسر کی سالی نے اپنے دادا سے سنا تھا – کئی جنات مرحوم کے دوست تھے-
دادیاں نانیاں بعض نمبردار قسم کے جنات کے نام بھی بتایا کرتی تھیں- ایک بڑا جن شیر محمد کے نام سے مشہور تھا- اس کے بھائی نورمحمد ، گل محمد بھی بہت زورآور جن تھے- نانی سے جنوں کی خواتین کے بارے میں پوچھا تو ھنس کر کہنے لگیں 147 کتنا کملا ھے تو- کئی بار بتایا ھے کہ جن جو چاھے بن سکتا ھے، مرد ، عورت، پرندہ ، چوھا ، درخت ، کوئی بھی چیز- جب مرنے لگتا ھے تو سانپ کی شکل میں آجاتا ھے- ایک بار سانپ بن جائے تو دوبارہ جن نہیں بن سکتا-
جن اور تو کسی نے شاید ھی دیکھا ھو، لیکن پیغمبرحضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جنات کی حاضری قرآن حکیم سے ثابت ھے- کیا ذی شان نبی تھے سلیمان علیہ السلام —– !!! بحرو بر کے تمام جاندار ، پرندے، مچھلیاں بھی ان کی رعایا تھے- بہت بڑا دربار ھوتا تھا جس میں انسانوں سمیت تمام جاندار حاضر ھوتے تھے- ان میں جنات بھی ھوتے تھے- سنا ھے صرف جناب سلیمان علیہ السلام ھی جنات کو ان کے اصلی روپ میں دیکھ سکتے تھے- مگر جنات کی ان سے باتیں سب لوگ سن سکتے تھے-
یہ سب کچھ کہنے کا مطلب یہ ھے کہ جن محض مذاق نہیں، ایک حقیقت ھیں – اس حقیقت کا کچھ ذکر انشاءاللہ کل-
———————————————– رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 19 ستمبر 2017

میرا میانوالی——————–

جنات کے ساتھ دودن آپ کی ملاقات کرانے کے بعد آج جنات سے اجازت لیں گے، کل کسی اور طرف نکل جائیں گے، انشاءاللہ-
جنات کے بارے میں قرآن حکیم میں کئی آیات ھیں- ایک مکمل سورہ جن کے نام سے موسوم بھی ھے- جنات کے حوالے سے سورہ المزمل اور سورہ الرحمن کی اھمیت خصوصی ھے- سورہ الرحمن کی ایک آیت جس میں کہا گیا 147اے جنو اور انسانو , تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے147 سورہ الرحمن میں بار بار آتی ھے- میں نے ایک بزرگ سے سناھے کہ جب کوئی آدمی یہ سورہ تلاوت کرتا ھے تو ھربار یہ آیت سن کر ھمارے ارد گرد موجود جنات رو کر کہتے ھیں 147 رب کریم ھم تو آپ کی کسی نعمت سے بھی منکر نہیں- ھمیں سزا سے بچا لے147
ھم لوگ یہ سورہ کئی بار پڑھتے ھیں ، مگر اس آیت پر کبھی ھم نے بھی اللہ سے معافی مانگی ھے ؟؟؟ —– سوچنے کی بات ھے-
انسانوں کی طرح جنات میں مسلمان بھی ھیں کافر بھی-
جنات کے حوالے سے یوں سمجھ لیجئے کہ ھماری دنیا کے ساتھ ایک متوازی دنیا جنات کی بھی ھے- جو ھمیں نظر تو نہیں آتی، مگر موجود ھے- سائنسدان چاند اور مریخ پر آبادی کی تلاش میں تو کئی سال سے مصروف ھیں،ملا کچھ بھی نہیں- چاند اور مریخ کو چھوڑیں ، اسی زمین پر موجود جنات کی پراسرار دنیا پر تحقیق کریں- ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے اس دور میں یہ کام ناممکن نہیں ھوگا- اگر جنات کے ساتھ رابطہ ھو جائے تو پھر آپ ان کے ساتھ سیلفیاں بنا کر فیس بک پر پوسٹ بھی کر سکیں گے-!!!
فارسی کا یک شعریاد آرھا ھے :
توکارزمیں را نکوساختی
کہ باآسماں نیز پرداختی ؟
(کیا تو نے زمین پر سب کچھ ٹھیک کرلیا، کہ اب آسمان کی سیر کرنا چاھتا ھے؟)
—————————————- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 20ستمبر2017

عجیب سجدہ تھا سر جب زمین پر رکھا
زمیں کا رنگ لہو رنگ کر دیا اس نے
——-منورعلی ملک –

میرا میانوالی————————-

اک چراغ اور بجھا ، اور بڑھی تاریکی

پروفیسر ناصراقبال کے SMS سے خبر ملی کہ سرگودھا کے پروفیسرملک مرید حسین علوی چند روز پہلے اس دنیا سے رخصت ھوگئے- بہت دکھ ھؤا- اللہ ان کی مغفرت فرماکر اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے-Image may contain: 1 person, eyeglasses and closeup
پروفیسر ملک مرید حسین علوی سرگودھا یونیورسٹی سے انگلش کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے- مجھ سے تقریبا دس سال سییئر تھے- انہیں میں دوست نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ مجھے بھائی کہتے بھی تھے سمجھتے بھی تھے- سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ انگلش کے تمام سینیئر لوگ میرے دوست تھے- مگر پروفیسرعلوی مجھ سے انوکھا پیار اور مجھ پر مکمل اعتماد کرتے تھے- اس پیار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ھم دونوں اعوان تھے-

چندسال پہلے ایک دن مجھے فون پہ کہا میں بیمار ھوں ، ایم اے کے کچھ پیپرز آئے پڑے ھیں میرے پاس، اس حال میں خود تو کام نہیں کر سکتا، یہاں کے دوستوں کو بھی زحمت نہیں دینا چاھتا، آپ تو میرے بھائی ھیں ، آپ ھی آکر ان پیپرز پر نمبر لگا دیں-
بڑے بھائی کا یہ حکم سن کر بہت خوش ھؤا ، اسی دن میانوالی سے سرگودھا جا کر شام سے پہلے اپنے بھائی کاکام کردیا- آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کتنا قریبی تعلق تھا میرا ان سے-

میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک نے سرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا- وہ آج بھی پروفیسر علوی کو اپنا آئیڈیئل کہتا ھے- پروفیسرعلوی ان کی کلاس کو ڈراما پڑھاتے تھے- ان کے علم کی وسعت اور پڑھانے کا انداز سٹوڈنٹس کو ان کے عشق میں مبتلا کردیتا تھا- – منورعلی ملک — 21ستمبر2017

میرا میانوالی————————-

آج اس کی 25 ویں سالگرہ ھے-
وہ خود تو آج سے سات سال پہلے , 18 سال کی عمر میں ( 27 دسمبر 2010 ) ھم سے ھمیشہ کے لیے بچھڑ گیا تھا، مگر اس کا اکرم چاچو (میرا بیٹا ، پروفیسر محمد اکرم علی ملک) اب بھی ھرسال اس کی سالگرہ مناتا ھے- نرالا پیار تھا ان دونوں کا آپس میں- اس کی برسی 27 دسمبر کو ھم تو داؤدخیل میں مناتے ھیں، اکرم بیٹا دسمبر کی ٰیخ بستہ سردی میں وہ رات اسلام آباد میں اس جگہ بسر کرتا ھے ، جہاں علی بیٹے (محمدعلی ملک) کو وہ حادثہ پیش آیا تھا جس نے اس کو ھم سے ھمیشہ کے لیے جدا کردیا-
ذکر ھے میرے پوتے محمدعلی ملک کا- بیٹا تو وہ میرے بیٹے مظہرعلی ملک (علی عمران) کا تھا- مگر میرا اور اکرم بیٹے کا اس سے پیار، اس کے والدین سے کچھ زیادہ ھی تھا- بچہ ھی ایسا تھا- جب سے وہ گیا ھے ، میں اس کی پکچر نہیں دیکھ سکتا – داؤدخیل والے گھر میں اس کی ایک پکچر رکھی ھوئی تھی، میں نے وھاں سے ھٹوا دی- کسی اور گھر میں ھو تو میں اس کمرے میں نہیں جاتا- بلکہ میں تو اس کی موت کے بعد اس کا منہ دیکھنے کی ھمت بھی نہ کرسکا-
ایک طرف اس سے اتنا گریز، دوسری طرف یہ بات کہ آج اسے اس دنیا سے رخصت ھوئے 2468 دن ھوگئے، ان 2468 دنوں میں ایک دن بھی میں نے اس کوایصال ثواب کرنا نہیں چھوڑا- یوں میں یہ سمجھتا ھوں کہ میرا اس سے روزانہ رابطہ رھتا ھے-
فیس بک پر میں ھرسال اس کی سالگرہ اور برسی کا اعلان تو پوسٹ کرتا ھوں ، مگر اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ھمت نہیں کر سکتا —— آج درد کچھ زیادہ تھا تو سوچا کہ آپ کے ساتھ شیئر کرلوں ، شاید اس طرح کچھ کم ھو جائے-
رب کریم کی بارگاہ میں اس التجا کے ساتھ آج کی بات ختم کرتا ھوں کہ ” اے میرے رب رحیم و کریم ،ھمیں صبراور استقامت نصیب فرما ، اور کسی انسان کو اولاد کی موت کا دکھ نہ دے ‘
—————————- رھے نام اللہ کا ————————————-Image may contain: 2 people, people sitting, indoor and food

(پکچر—-علی بیٹے کی 20 ویں سالگرہ ، 22 ستمبر 2012 ، فورٹریس سٹیڈیم ، لاھور)– منورعلی ملک — 22 ستمبر 2017

میرا میانوالی ————————-

میانوالی کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ سوشل میڈیا ، بالخصوص فیس بک پر یہاں کے سینیئر اور نوجوان اھل قلم بہت خوبصورت ، مثبت اور معلوماتی پوسٹس باقاعدگی سے لکھ رھے ھیں- ان پوسٹس کی مقبولیت کی بازگشت ملک بھر ، بلکہ بیرون ملک سے بھی مسلسل آتی سنائی دیتی ھے-
Image may contain: 1 person, beard, sunglasses and closeupسینیئر قلمکاروں میں میرے محترم داؤدخیلوی بھائی ظفر خان نیازی سرفہرست ھیں- ظفر خان ‘ صاحب طرز افسانہ نگاربھی ھیں شاعری کے ایک منفرد انداز کے موجد بھی- ریڈیو پاکستان سے سٹیشن ڈائریکٹر ریٹائر ھوئے- اپنی ملازمت کے مشاھدات و تجربات کے علاوہ میانوالی کے کلچر کے حوالے سے بہت دلچسپ اور علم افزا پوسٹس لکھتے ھیں- میں نے انہی سے انسپائر ھو کر پوسٹس لکھنا شروع کیا- میری بہت حوصلہ افزائی کرتے رھتے ھیں-
محمد افضل عاجز صرف گیت نگار اور موسیقار ھی نہیں ، اور بھی بہت کچھ ھیں – کسی Image may contain: 1 person, hat and indoorزمانے میں منصورآفاق نے میانوالی سے “مہاری ” نام کا اخبار جاری کیا تھا- اس کے ایڈیٹر افضل عاجز تھے- قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ھیں- عصمت گل خٹک اوران کی آپس میں چھیڑچھاڑ دلچسپ تو ھوتی ھے، مجھے اچھی نہیں لگتی کہ دونوں میرے بیٹے ھیں- فیس بک پر عاجز “اے میرے صاحب” کے عنوان سے خاصی دلچسپ پوسٹس ایک عرصے سے لکھ رھے ھیں –
Image may contain: 1 person, hat, selfie and closeupعصمت گل خٹک بہت سینیئرصحافی ھیں ، فیس بک پہ پوسٹ نگاری حال ھی میں شروع کی ھے- بہت جاندار نثر لکھتے ھیں- کہیں کہیں تو بندے کو رلا دیتے ھیں- کب سے کہہ رھا ھوں اپنے کالموں کامجموعہ شائع کراؤ- ” جی ھاں سر، بالکل ” تو کہہ دیتے ھیں ، میری فرمائش کی تکمیل آج تک نہیں کرکے دی- ان سے ایک اور شکوہ بھی تھا، جو عاجز کے تذکرے میں کردیا-
بقیہ چند پوسٹ نگاروں کا ذکر انشاءاللہ کل کروں گا- اس سلسلے کی ایک تیسری پوسٹ اور بھی ھوگی— جن دوستوں کا ذکرکل ھوگا، وہ ھیں عیسی خیل کے سینیئر ماھرتعلیم، عبدالقیوم خان نیازی، سی ایس پی افسر خان شاہ رخ پکھی واس ، ڈاکٹر حنیف نیازی اور میرے بہت پیارے بیٹے پولیس افسر عبدالقیوم خان نیازی – رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 23 ستمبر 2017

یزیدیت ، ھوس اقتدار و دولت و جاہ
حسینیت ھے فقط لآ الہ الا اللہ

یہ فیصلہ تو بہر حال ھم نے کرنا ھے
ادھر یزید کارستہ ، ادھر حسین کی راہ
————- منورعلی ملک

میرا میانوالی————————

Image may contain: 1 person, standing, plant, flower, outdoor and natureفیس بک پہ مسلسل دلچسپ پوسٹس لکھنے والوں میں میرے بہت محترم دوست عیسی خیل کے قیوم خان نیازی بھی بہت مقبول شخصیت ھیں- ھیڈماسٹر ریٹائر ھوئے- بے شمارتخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ھیں- نثرنگاری کے علاوہ موسیقی کی دنیا کی بھی معروف شخصیت ھیں – کئی البم منظرعام پرآچکے ھیں- لالا عیسی خیلوی کے رشتہ دار بھی ھیں ، کلاس فیلوبھی- Impressionistic اندازمیں “عیسی خیل دورتے نئیں“ کے عنوان سے بہت دلچسپ پوسٹس لکھتے ھیں- کلچر کے حوالے سے اپنے تجربات و مشاھدات کے بیان میں ان کا ایک اپنا بے تکلف سٹائیل ھے- یہ اور میں ایک دوسرے کو لالا کہتے ھیں
Image may contain: 1 personان کے ھم نام میانوالی (پائی خٰیل) کے عبدالقیوم خان نیازی ایک کامیاب پولیس افسر بھی ھیں بہت اچھے قلمکار بھی- عام طور پرپولیس والوں کی اردو روزنامچہ، ایف آئی آر اور ضمنی سے آگے نہیں جاتی ، مگرقیوم نیازی بہت خوبصورت، ادبی انداز میں بھی لکھ لیتے ھیں- ان کی پوسٹس معلومات اور اخلاقی اسباق سے مالامال ھوتی ھیں – کالج میں میرے سٹوڈنٹ رھے- میرے بیٹوں کی طویل قطار میں ان کا نام بہت نمایاں ھے-Image may contain: 1 person, indoor and closeup

خان شاہ رخ پکھی واس نوجوان سی ایس پی افسر ھیں- بلوخیل سے تعلق رکھتے ھیں- شستہ ادبی ذوق کے مالک ھیں- میرے بیٹے پروفیسر امجد علی ملک اور پروفیسرمحمد اکرم علی ملک کے سٹوڈنٹ رھے- شمالی علاقہ جات کی سیروتفرٰیح کے دوران اپنے تجربات و مشاھدات کی داستان ایک مختصر مگر دل کو چھولینے والے سفرنامے کی صورت میں حال ھی میں شائع کرواچکے ھیں- دینی اوراخلاقی موضوعات پرپوسٹس لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ھے- ایک فلاحی تنظیم چلانے کا کارخیر بھی سرانجام دے رھے ھیں-

Image may contain: 1 person, smiling, stripes and indoorڈاکٹرحینف نیازی کے بارے میں پچھلے دنوں پوسٹ لکھی تھی، ان کی جن خوبیوں کا ذکر اس پوسٹ میں ھؤا ان کے علاوہ Impressionistic انداز کی خوبصؤرت نثرنگاری بھی ان کا ایک نمایاں وصف ھے- ان کی اکثر پوسٹس دردناک بھی ھوتی ھیں ، عبرت آموزبھی– پوسٹس پڑھتے ھوئے آنسو روکنا مشکل ھوجاتا ھے- باقاعدہ لکھتے ھیں اور بہت مقبول قلمکار ھیں-
پوسٹ نگاروں میں کچھ اھم نام اور بھی ھیں ، ان کا ذکر انشاءاللہ کل کروں گا-
———————————————– رھے نام اللہ کامنورعلی ملک — 24 ستمبر 2017

میرا میانوالی/ میرا پاکستان ————————-

آج کی پوسٹ بہت اھم ھے —— خاص طور پر ان ساتھیوں کے لیے ،جو پوسٹس لکھ رھے ھیں یا لکھنا چاھتے ھیں-Image may contain: 1 person, sitting and outdoor
دوسال پہلے میں نے پوسٹس لکھنا فیس بک کا کلچربدلنے کے ارادے سے شروع کیا – مقصد یہ تھا کہ فیس بک استعمال کرنے والے دوستوں کو ایسی صاف ستھری تحریریں فراھم کی جائیں جن سے وہ دل بہلانے کے علاوہ کچھ سیکھ بھی سکیں، ایسی تحریریں جو لوگوں کو ان روایات اور اقدار سے آگاہ کریں جو کسی زمانے میں میانوالی کی شان اور پہچان ھؤاکرتی تھیں- محبت، ھمدردی ، تعاون، مہمان نوازی، دلیری ، مروت (مخالفوں سے بھی اچھا سلوک) زندہ دلی ، فراخ دلی ,—- تعلیم، شاعری ، موسیقی ، دفاع وطن ، ھر شعبے کی نمایاں شخصیات کا ذکر ، ھنسی مزاح کی باتیں، یہ تھے میرے موضوع سخن اور انشاءاللہ آئندہ بھی رھیں گے-
جب میں نے اس میدان میں قدم رکھا تو یہ دیکھ کر بہت خوش ھؤا کہ یہی کام مجھ سے پہلے میرے بہت محترم داؤدخیلوی بھائی ظفر خان نیازی بھی بہت خوبصورت انداز میں کر رھے ھیں- انہوں نے مجھے بھی اس میدان میں خوش آمدید کہا، اور میری حوصلہ افزائی کرتے رھے- یہ نہ ھوتے تو میں اس کام سے اکتا کر لکھنا چھوڑ دیتا- آگے چل کر آپ سب لوگ بھی ھمارے کارواں میں شامل ھوگئے، نئے لوگ بھی بہت آرھے ھیں – رونق لگی رھتی ھے- کچھ اور سینیئر لوگ اور نوجوان بھی اسی انداز میں پوسٹس لکھنے لگے-
بحمداللہ ، فیس بک کا کلچر بدل رھا ھے- لوگ دلچسپ مثبت تحریریں پسند کرنے لگے ھیں- صرف میانوالی نہیں پاکستان بھر سے، کیونکہ ھمارے لیے تو سارا پاکستان میانوالی ھے- ھر جگہ کے لوگ ھمارے بھائی ھیں-
یہ سب کچھ عرض کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف وعظ و نصیحت کی باتیں لکھی جائیں – ھم لوگ مولوی نہیں، آپ جیسے عام انسان ھیں- بس یہ کوشش کررھے ھیں کہ آپ خوش رھیں- اس موضوع پر کل کی پوسٹ میں اپنے پوسٹ نگار دوستوں کو کچھ اھم باتیں بتاؤں گا ، انشاءاللہ— رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک –25 ستمبر 2017

یہ کیسی جنگ تھی تاریخ اب بھی حیراں ھے
ادھر اکیلے حسین اور ادھر تمام سپاہ

میرا میانوالی ————————-

Image may contain: 1 personجو لوگ پوسٹس لکھ رھے ھیں یا لکھنا چاھتے ھیں ، آج ان سے کچھ باتیں——-
معلوماتی پوسٹس لوگ تب شوق سے پڑھتے ھیں جب آپ ان کی جانی پہچانی چیزوں، جگہوں یا شخصیات کے بارے میں لکھیں – اپنے کلچر، روایات اور جانی پہچانی شخصیات کے بارے میں لوگ بہت کچھ جاننا چاھتے ھیں- اگرآپ امریکہ کا جغرافیہ یا ریاضی کے سوالات لکھنا شروع کردیں تو کون پڑھے گا–؟
اپنے تجربات اور مشاھدات پر مبنی واقعات لکھیں تو لوگ بہت شوق سے پڑھتے ھیں- لوگ آپ کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننا چاھتے ھیں-
عام طور پر واقعات معلومات سے زیادہ مقبول ھوتے ھیں- اگرآپ کوئی سبق دینا چاھتے ھیں تو اس کے لیے بھی مناسب واقعہ تلاش کرکے لکھ دیں- سبق لوگ خود سمجھ لیتے ھیں- لوگوں کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ھوئے رب کریم نے قرآن حکیم میں بھی بعض سبق واقعات کی صورت میں فراھم کردیئے ھیں-
پوسٹ کے ساتھ اگر متعلقہ پکچر بھی ھو تو لوگ زیادہ پسند کرتے ھیں-
سب سے اھم بات یہ کہ پوسٹ میں سیاست یا فرقہ واریت کے بارے میں کوئی بات ھرگز نہ لکھیں- اگر لکھیں تو دوسری طرف سے بہت تلخ باتیں جواب میں کہی جائیں گی- یوں فیس بک کا ماحول تلخ ھوجائےگا- آپ کی مقبولیت کم ھوجائے گی- آپ متنازّعہ شخصیت بن جائیں گے- فن کار، اھل قلم اور ٹیچرز پبلک پراپرٹی ھوتے ھیں – سب لوگ ان سے پیار اور ان کا احترام کرتے ھیں- اللہ کی اس عنایت کو اختلافی باتیں لکھ کر ضائع نہ کریں-
سیاسی وابستگیاں ھر انسان کی ھوتی ھیں ، میری بھی ھیں ، لیکن 600 سے زائد پوسٹس لکھ چکا ھوں ، ان میں کہیں بھی اپنی سیاسی ترجیحات کا ذکر تو کجا ، اشارہ تک نہیں دیا- اگر کوئی دوست سیاسی کمنٹ کرے تو delete کردیتا ھوں-
بحمداللہ میرے فیس بک فرینڈز میں ھر سیاسی جماعت اور فرقہ کے لوگ موجود ھیں- میں سب سے یکساں پیار کرتا ھوں- اللہ کرے ھمارے محبت اور احترام کے یہ رشتے ھمیشہ برقرار رھیں-
————————————– رھے نام اللہ کا- منورعلی ملک — 26 ستمبر 2017

اسیر شام کے دربار میں توجا پہنچے
کوئی وکیل تھا ان کا وھاں نہ کوئی گواہ

میرا میانوالی————-

محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں عزاداری دینا بھر میں ھوتی ھے- ھرجگہ کا اپنا اپنا کلچر ھے- ھمارے بچپن کے دور میں داؤدخیل میں عزاداری تین جگہوں پر ھوتی تھی- محلہ علاؤل خیل میں سیدگل عباس شاہ بخاری کی چوک پر (وھاں اب یہ اھتمام بابا سخاوت حسین کربلائی کرتے ھیں) محلہ داؤخیل میں شاہ غلام محمد کی چوک پر اور محلہ شریف خیل میں غلام عباس شاہ ٹھیکیدار کے ھاں عزاداری کا اھتمام ھوتا تھا-
پہلے سات دن ذکر حسین کی مجالس ظہر کے بعد ھوتی تھیں- آخری تین دن ھر موقع کی مناسبت سے رات عشاء کے بعد ھوتی تھیں- شب عاشور (دسویں رات) کی مجلس سحری کے وقت شروع ھو کر اذان اکبر پر ختم ھوتی تھی- شیادت جناب امام حسین کی تعزیتی مجلس محرم کے دسویں دن ظہر کے وقت ھوتی تھی-
اس زمانے میں داؤدخیل میں ذوالجناح نہیں ھوتی تھی کیونکہ غریب سادات گھوڑےپالنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے- تعزیہ البتہ تینوں جگہ بنتا تھا- جلوس کا رواج اس وقت نہ تھا- مجالس، تعزیوں کی زیارت ، ماتم ، سب کچھ حویلیوں کے اندر ھوتا تھا-Image may contain: outdoor and indoor
داؤدخیل کے معاشرے کی سب سے پیاری خوبی یہ تھی کہ یہاں تعصب کا نام ونشان تک نہ تھا- شیعہ سنی سب مل جل کر بھائیوں کی طرح رھتے تھے – محرم کی مجالس میں شیعوں سے زیادہ سنی شریک ھوتے اور امام عالی مقام کو آنسؤوں کا خراج عقیدت پیش کیا کرتے تھے—– مجھے یہ کہنے دیجیے کہ بے علمی کے بھی کچھ فوائد تھے – وہ اتحاد امت اب کہاں ، علم کی فراوانی نے انتہا پسندی اور دھشت گردی کی جو فضا پیدا کر رکھی ھے، اس کا انجام خدا جانے کیا ھوگا-؟ علم کی کمی کے زمانے میں کفر کے فتوے نہیں لگتے تھے- ایک دوسرے کو واجب القتل قرارنہیں دیا جاتا تھا٠مسجدوں اور امام بارگاھوں میں بم دھماکے نہیں ھوتے تھے- اب تو، اللہ رحم کرے رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 27 ستمبر2017

قیام کرنا پڑا کربلا کے صحرا میں
کہ ملک بھر میں کہیں اور مل سکی نہ پناہ

میرا میانوالی—–

کل کی پوسٹ پر اپنے داؤدخیل کے کچھ بیٹوں کے کمنٹس پڑھ کر سر فخر سے بلند ھو گیا- وہ بتاتے ھیں کہ بحمداللہ داؤدخیل میں آج بھی محبت اور ھم آھنگی کی فضا بہت حد تک برقرار ھے-
سعودی شٰیخ ال نیازی کے فیس بک آئی ڈی سے لکھنے والے ایک نوجوان کہتے ھیں سر، ھم آج بھی داؤدخیل کی مثال دیتے ھیں-
سید ظفر عباس شاہ کہتے ھیں داؤدخیل کا کلچر ضلع بھر میں منفرد اور مثالی رھا ھے-
ظفر جمالی کہتے ھیں 9 / 10 محرم کو داؤدخیل کے سنی نوجوان بندوقیں لے کر محرم کی مجالس کو سیکیورٹی فراھم کرتے ھیں-
اسد خان نے ایک اعتراض کے جواب میں کہا، کہ منورعلی ملک کسی فرقے کی بجائے داؤدخیل کے کلچر کی بات کررھے ھیں— اصل بات یہی ھے- انشاءاللہ کل بھی عزاداری کے کلچر کا ذکر ھوگا –
صرف داؤدخیل ھی نہیں، کمرمشانی سے اسداللہ خان بھی بتاتے ھیں کہ محرم کی مجالس میں شیعہ اور سنی دونوں شریک ھوتےھیں-
موسی خیل سے رشید احمد بھی یہی کہتے ھیں- ڈھوک بھرتال سے زاھدعباس نے بھی یہی بات کہی ھے-
نورنگہ سے سید سید قلب حسن کہتے ھیں کہ وھاں کی مسجد مشترکہ ھے، شیعہ سنی میں سے جو پہلے پہنچ جائے اذان دے سکتا ھے-
ان سب باتوں سے ظاھر ھوتا ھے کہ دیہی علاقوں میں فرقہ وارانہ ھم آھنگی بحمداللہ اب بھی کافی حد تک موجود ھے- میانوالی شہر میں بھی اللہ کے فضل سے ماحول خاصا خوشگوار ھے-
کل جو بات میں نے کہی تھی کہ سارا کھیل علم نے بگاڑا ھے، وہ بھی غلط نہیں- میں نے دونوں طرف کا اختلافی لٹریچر دیکھا ھے٠ خرابی کا سبب وھی ھے- اللہ ھمیں اس سے محفوظ رکھے، علم کا یہ منفی پہلو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ھے کہ
اس ھوش سے اچھی تھی ظالم تری بےھوشی
یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ پلیز اس پوسٹ پر فرقہ وارانہ اختلاف کے حوالے سے کوئی کمنٹ نہ دیں- میں ایسے کمنٹ delete کردوں گا- —

فیس بک سے دوستی ——————
فیس بک کے طفیل فورٹ منرو ضلع ڈی جی خان کے بجرانی بلوچ جوانوں سے دوستی دو سال سے چل رھی ھے- بجرانی بلوچوں کا ایک بڑا قبیلہ ھے- یہ لوگ مرحوم نواب اکبر خان بگتی شھید کواپنا ھیرو مانتے ھیں ، اور بگتیوں سے بھی زیادہ نواب صاحب کے جاں نثار ھیں-
ان بلوچ دوستوں میرثناءاللہ اور ان کے کزن میر ولی محمد کا تعارف کچھ عرصہ پہلے دو پوسٹس میں کرا چکا ھوں- دوتین دن پہلے ثناء نے شکوہ کیا کہ سر ، عباس کو تو آپ بھول ھی گئے- میری مصروفیات کچھ اس قسم کی ھیں کہ اس قسم کے کئی فرض اور قرض ھمیشہ میرے ذمے رھتے ھیں- دوست یاد دلاتے ھیں تو حسب توفیق ادا کر دیتا ھوں- Image may contain: 1 person, outdoor and nature
میر عباس بجرانی میر ثناءاللہ اور ولی محمد کے لاڈلے کزن ھیں، خوش ذوق نوجوان ھیں- اچھی شاعری پڑھنا اور شکار کرنا ان کے پسندیدہ مشغلے ھیں- مست توکلی ان کے پسندیدہ شاعر ھیں ، اس حوالے سے ان کے کزن ان کو مست کہتے ھیں- میر عباس ان دنوں بیرون ملک مقیم ھیں- فیس بک پر مجھ سے رابطے میں رھتے ھیں- بہت پیارے انسان ھیں – ان کا شکار کا شوق ان کی پکچر سے ظاھر ھے- ان کے لیے بہت سی دعائیں – رھے نام اللہ کا- منورعلی ملک –28 ستمبر2017

وہ جان ہار کے بھی زندہ و سلامت ھیں
یہ جنگ جیت کے بھی ھو گیا یزید تباہ

میرا میانوالی———————–

محلہ علاؤل خیل میں سید گل عباس شاہ کی حویلی میں محرم کی مجلس اسی خاندان کے سید جعفر حسین شاہ پڑھا کرتے تھے- سید جعفرشاہ دبلے پتلے خوبرو جوان تھے- ایک اداس سوگوار سی شخصیت تھے- بے پناہ سوزتھا ان کی آواز میں- مجلس کا آغازحسب روایت فضائل و مناقب اھل بیت سے کرتے تھے- اس کے بعد اھل بیت میں سے کسی شخصیت کی شان میں مترنم قصیدہ بہت خوبصورت انداز میں پڑھتے تھے- محلے کے تین چار سریلے نوجوان ان کے ساتھ سوزخونی کرتے تھے- Image may contain: night
قصیدے کے بعد مصائب اھل بیت کا ذکر یوم عاشور تک ترتیب وار روزانہ بہت دلگداز انداز میں ذاکروں کی مخصوص درد انگیز لے میں کرتے ‘ سامعین کے آنسو شروع سے آخر تک ان کا ساتھ دیتے تھے- بیان کے دوران مناسب موقع بر سرائیکی ڈوھڑوں سے درد کا تاثر دوچند کر دیتے تھے- راگ ایمن میں ڈوھڑا بہت دردناک بن جاتا ھے– عموما روزانہ ایک گھنٹے کی مجلس ھوتی تھی- مجلس پڑھنے کے دوران جعفرشاہ کبھی بیٹھتے نہ تھے ، پوری مجلس کھڑے ھو کر پڑھا کرتے تھے-
جعفر حسین شاہ کی ذاکری میں دو باتیں بہت اھم تھیں- پہلی یہ کہ وہ کبھی اشارتا بھی کسی صحابی رسول علیہ الصاوات و السلام پرطنز یا تنقید نہیں کرتے تھے- دوسری بات یہ کہ وہ مجلس پڑھنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے-
جعفرحیسن شاہ کچھ عرصہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا رھنے کے بعد جوانی ھی میں اس دنیاسے رخصت ھوگئے-
جب تک زندہ رھے بیماری کے باوجود مجلس پڑھنا ترک نہ کیا— رھے نام اللہ کا-– منورعلی ملک — 29 ستمبر 2017

میرا میانوالی———————

شاہ غلام محمد کی حویلی میں غلام سرور خان داؤخیل محرم کی مجالس پڑھا کرتے تھے- سرورخان ایک حادثے میں بچپن ھی میں ایک ٹانگ سے محروم ھوگئے تھے- لکڑی کی بیساکھیوں کی مدد سے چل پھر لیتے تھے- رزق کا وسیلہ گھر ھی میں کریانے کی چھوٹی سی دکان تھی- جب تک زندہ رھے ھرسال شاہ غلام محمد کی حویلی میں محرم کی مجلس پڑھتے رھے- آواز زیادہ سریلی نہ تھی مگر انداز بیاں بہت مؤثر تھا- مصائب کا بیان ان کا خاص کمال تھا، خودبھی روتے سامعین کو بھی مسلسل رلاتے رھتے تھے-
غلام سرورخان بھی کبھی کوئی اختلافی بات نہیں کرتے تھے- سید جعفر شاہ کی طرح یہ بھی کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے- محلے کے لوگ آج بھی انہیں بہت پیار سے یاد کرتے ھیں-
محلہ شریف خیل میں غلام عباس شاہ کی حویلی میں ذاکر ملتان ، مظفرگڑھ ، لیہ وغیرہ سے آتے تھے- فقیرحسین نام کے ایک ذاکر بہت مقبول ھوئے، غالبا مظفرگڑھ سے آتے تھے-
جعفرشاہ اور غلام سرور خان کے دو شاگرد بھی تھے- امیرے خیل قبیلہ کے عبدالرزاق خان اور شریف خیل کے غلام مرتضی خان عرف مرتا ملنگ ‘ وہ بھی بہت اچھے ذاکر بن گئے- داؤدخیل کے نواحی علاقوں میں محرم کی مجالس پڑھا کرتے تھے- دونوں کی آواز میں بلاکا سوز تھا- بہت مقبول ھوئے-
عشرہ محرم کے دوران شیعہ سنی سب لوگ حسب توفیق گڑ والے چاول بنا کر نیاز بانٹتے تھے- بچے چاول جھولیوں میں بھر کر لے جاتے اور اپنے گھر والوں کو کھلاتے تھے-
بہت عرصہ سے داؤدخیل کا محرم نہیں دیکھ سکا- وہ پرانے لوگ توگذر گئے، مگر میرا خیال ھے روایات ابھی تک زندہ ھوں گی— رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 30 ستمبر2017

1 thought on “MERA MIANWALI SEP 2017”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top