سرد ہو ا اور بارش۔ ۔ ۔ تحریر ۔۔۔ وقار احمد ملک

سردیوں کے موسم کی انگڑائیاں جاری ہیں۔ تین چار دن دھوپ نکلنے سے درجہ حرارت بڑھا تو یوں لگا کہ چلو جی سرما کے سنہری دن ختم ہو گئے اب لمبی گرمیوں کا انتظار کرو۔ لیکن آج پھر موسم یوں بدلا کہ دسمبر جنوری کے پالے کو بھی بھولنا پڑا۔ فروری شروع ہو چکا ہے۔ ابھی رات کے ساڑھے نو ہونے کو ہیں۔ میں گھر کی بالائی منزل پر رہنے کی وجہ سے فطرت کو قریب سے دیکھنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ صبح سے شروع ہونے والی بارش ہنوز جاری ہے۔ بالائی منزل کے صحن میں گھومتے ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے۔چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے۔ جنوب کی سمت ماسی بانو کے گھر کی چھتناور بیر کے کچھ کچھ سبز اور کچھ کچھ سوکھی ٹہنیاں سرد جھکڑ کے دوش پر رقصاں ہیں۔ شمال کی طرف ملک صاحب کے گھر پر لگا جھنڈا خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے لہرا رہا ہے۔ گھنے کالے بادل ایک دفعہ پھر آسمان پر اکٹھے ہو چکے ہیں۔ آسمان کی طرف سے تمام روشنیوں کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں تو لوگوں نے بھی سرِ شام بتیاں بجھا کر فلک کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا۔ مشرق کی طرف سکیسر کی بیتاں تک معدوم ہو چکی ہیں۔ ہوا کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ جھکڑ کے اندر بارش کی ننھی منی کنڑیوں کے انضمام نے ماحول کو مزید سرد بنا دیا ہے۔ چہرے اور ہاتھ چونکہ کپڑوں سے باہر ہیں اس لیے بارش کے باریک قطرے سوئیوں کی طرح چبھن پیدا کر رہے ہیں۔ مجھے آج اپنا جانا پہچانا ٹیرس کچھ کچھ اوپرا سا لگ رہا ہے۔ لگتا ہے میرے آشیانے پر طلسم پھونک دیا گیا ہے۔ خاموشی، تنہائی، اندھیرا، سردی، تیز برفیلی ہوا اور سکوت نے میرے گھرپر جادو کر دیا ہے۔

دوستو ہر موسم میں قدرت نے ایک عجب لطف اور خاصیت رکھی ہے۔ گرما کی طویل دوپہریں ، بہار کی روشن صبحیں ، خزاں کی اداس شامیں اپنا حسن اور دلکشی رکھتی ہیں لیکن جو مزہ سردیوں کی راتوں اور بارشوں میں ہے وہ کسی موسم میں نہیں اور جب سردیوں کی بارشیں اور سردیوں کی راتیں اکٹھی ہو جائیں تو جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی فراز کی غزل کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے

غم دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

بارش برسنا شروع ہو گئی ہے۔ پانی کے موٹے موٹے قطرے کالے کالے بادلوں کے تنے ہوئے کمانوں سے نوکیلے تیروں کی طرح نکل کر گیلے گیلے فرش کو مزید گیلا کر ہے ہیں۔ٹھنڈی بارش نے مجھ جیسے ڈھیٹ آدمی کو بھی برآمدے میں دھکیل دیا ہے۔ دور بہت دوردو تین مکانوں کے روشن دانوں سے آنے والی روشنی بھی گل ہو گئی ہے۔ میرے شہر کے باسی اب نئی نسل کو تلاشنے کی اندھیری راہوں پر گامزن ہو چکے ہیں۔ میں بھی تھک چکا ہوں ۔ فطرت کے مزے آدمی دیر تک نہیں لے سکتا۔ بارش کی رفتار اور تیز ہو چکی ہے۔ ہوا بدستور زور سے چل رہی ہے۔ جھنڈا اور بیری شاں شاں کی ہیبت ناک آوازیں پیدا کر ہے ہیں۔ سردیوں کی بارش، تیز ہوااور رو شن اندھیرو۔۔۔۔۔ الوداع۔ تمھارے دوست نے اب تم سے جدا ہونا ہے۔تمھارے دوست کو بھی نیند آ چکی ہے یا شاید اس کو بھی اپنے دوستوں کے طرح نئی نسل کی بنیادوں کی داغ بیل ڈالنی ہے۔ زندگی رہی تو پھر ملاقات ہو گی۔

   

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top