نگران |
مقالہ نگار: |
منور علی ملک کی علمی و ادبی خدمات |
پیش لفظ
ستمبر۲۰۱۳ میں ایم ۔ فل اُردو میں مقالہ نگاری کے سلسلے میں خاکہ نگاری کی ورکشاپ منعقد ہوئی ۔اس ورکشاپ میں بہت سے مجوز موضوعات میں سے قرعہ فال ’’منور علی ملک کی علمی وادبی خدمات‘‘ کے موضوع پر نکلا۔ خاکہ نگاری، اس کا دفاع جیسے مشکل مراحل سے گزر کر بالآخر دسمبر۲۰۱۳ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے لیٹر نمبرF.No.6-9/2012 DR/Dated: 18-12-2013 کے ذریعے اِس موضوع پر تحقیق کی اجازت دے دی۔ پروفیسر منور علی ملک ضلع میانوالی کے معروف ادیب اور انگریزی ادبیات کے پروفیسر رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے اتنی معتبر ہستی کی زندگی اور ادبی خدمات پر مقالہ لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات بھی ہے اور اس کے ذریعے مجھے پروفیسر محترم منور علی ملک کی ذاتی اور ادبی زندگی کے مشاغل اور کارناموں سے پوری طرح آگاہ ہونے کا موقع مِلا۔ لہٰذا میرا یہ تحقیقی مقالہ ’’منور علی ملک کی علمی و ادبی خدمات‘‘ کا کماحقہ احاطہ کرنے کی کوشش ہے ۔ پروفیسر موصوف نے ملازمت کے باعث ضلع میانوالی سے باہر قدم تو کم ہی رکھا مگر اپنی تحقیقی اور تخلیقی کام سے ادبی حلقوں میں اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔
میرا تحقیقی مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل منور علی ملک کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلا باب منور علی ملک کے سوانحی خاکہ پر مشتمل ہے جس میں ان کے حالات زندگی ، پیدائش، خاندانی پس منظر ، والدین، شجرہ نسب، تعلیم ، ملازمت، اہل خانہ، دلچسپی کے مشاغل، فکری تشکیل کے عناصر،اُن کی تصانیف کے مختصر تعارف اور ان پر اہل قلم کی آرا پیش کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مُصنف کے اہلِ خانہ ، احباب، رفقا کار اور اُن کے طالب علم (جو آج خود عملی زندگی میں شامل ہو چکے ہیں) کی رائے سے منور علی ملک کی شخصیت کے مختلف نقوش واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں ان کی شاعری کے فکری اور فنی عناصر پر بحث کی گئی ہے۔ان کے مجموعہ کلام ’’جو تم سے کہہ نہ سکا‘‘ میں شامل اُردو نعت، سلام، غزل ، نظم، قطعات ، نیز سرائیکی ، پنجابی، انگریزی ، نظموں /گیتوں کے حوالے سے منور علی ملک کی نعت گوئی، غزل گوئی، نظم گوئی، قطعات نگاری، سرائیکی / پنجابی اور انگریزی نظم نگاری کا فکری اور فنی ہر دو حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
تیسرا باب سوانح نگاری پر مشتمل ہے جس میں ’’درد کا سفیر اور جان ملٹن (سوانح اور تنقید) کا موضوعاتی جائزہ لینے کے بعد سوانحی ادب میں ان کی منفرد حیثیت کا تعین کیا گیا ہے۔
چوتھا باب ادبی مصاحبہ’’ پس تحریر‘‘ کے موضوعاتی مطالعہ پر مشتمل ہے جس میں اُردو ادب میں لکھے جانے والے چند مصاحبوں کی تاریخ اور ارتقا کا جائزہ لینے کے بعد ’’پس تحریر‘‘ کے موضوعاتی اور فنی محاسن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پانچواں باب متفرقات اور مجموعی جائزہ کے عنوان سے ہے جس میں منور علی ملک کی دیگر ادبی خدمات مثلاً بطور کالم نگار ، مرتب، تنقید نگار،دیباچہ نگار اور بطور مصنف معاون نصابی کتب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان تمام حیثیات میں منور علی ملک کی ’’تخلیقی شخصیت‘‘ کے سبھی گوشوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا شکر ہے جس نے اس مقالے کی سعی و کوشش کی توفیق اور استقامت عطا کی ۔ اس تحقیقی کاوش میں کئی محترم ادبی شخصیات نے منور علی ملک کی شخصیت اور فن پر خصوصی تاثراتی مضامین عنایت فرمائے جن میں پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر، محمد سلیم الرحمن، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسی جلیل القدر علمی و ادبی ہستیاں شامل ہیں۔ ان محترم شخصیات کی آرا نے میرے مقالے کو وسعت دی اور میری تحقیق کو اعتبار عطا فرمایا۔ میں ان محترم شخصیات کی شکر گزار ہوں۔
اس تحقیقی مقالے کے عنوان سے لے کر مقالے کی اصلاح تک اس مقالے کے نگران محترم جناب ڈاکٹر غفور شاہ قاسم صاحب نے میری بہت معاونت فرمائی۔ ان کی زیر نگرانی مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور مقالے کی موجودہ صورت انھی کی مشفق اصلاح کا حاصل ہے ۔ میرے مقالے میں اگر کوئی اچھائی اور بہتری نظر آئے تویہ میرے اُستادِ محترم کے طفیل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں مزید کامیابیاں اور عزت عطا فرمائے۔
محترم جناب منور علی ملک اور ان کے اہل خانہ کی بہت سپاس گزار ہوں جنھوں نے اس مقالے سے متعلق تمام ضروری معلومات اور وقتاً فوقتاً پوچھے گئے سوالات کے بر وقت جوابات سے نوازا اور میرے تحقیقی کام کو ایک تسلسل عطا فرمایا۔
منور علی ملک کے قریبی رفقا محترم پروفیسر سلیم احسن، محترم پروفیسر غلام سرور نیازی نے خصوصی طور پر انٹرویو ز میں منور علی ملک کی کالج میں گذری طویل رفاقتوں سے آگاہی فراہم کی۔ اُن کے پر خلوص تعاون کا شکریہ ادا کرنا مجھ پر لازم ہے۔
کالج لائبرین مسز صفیہ سلطانہ ،پروفیسر محترمہ رقیہ خاتون،پروفیسر محترم علی اعظم بخاری ، عاصم بخاری و دیگر جنھوں نے میری اِس تحقیقی کاوش میں مواد کی فراہمی میں مدد کی۔ مجھ پر اُن کا شکریہ واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام خواتین و حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
یوں تو مقالہ نگاری ایک صبر آزما کاوش ہے جو مقالہ نگار سے ایک تسلسل اور مستقل مزاجی کا تقاضہ کرتی ہے۔ مگر آخری مرحلہ یعنی ترتیب و کمپوزنگ نہایت ہی اعصاب شکن مرحلہ ہے ایسے میں مضافات میں رہتے ہوئے جب پورے شہر میں ایک ہی کمپوزر ہو تو مشکلات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ ایسے میں اِس شعر میں چھپی سچائی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
نور سے دُور سیہ رات میں زندہ رہنا
کتنا مشکل ہے مضافات میں زندہ رہنا
تاہم محترم ریاض صاحب کے تعاون کی خصوصی طور پر شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اِس مقالے کو حتمی شکل دی۔ سب سے آخر میں میرے اظہار تشکر کی مستحق شخصیت میرے شوہر شعیب خان بھی ہیں جنھوں نے اِس تحقیقی مقالے کے لیے دوڑ دھوپ کی جو پروفیسر منور علی ملک سے رابطہ کرنے اور مقالے کی کمپوزنگ کے مشکل مراحل سے عہدہ برا ہوئے ۔ علاوہ ازیں میرے دو پیارے بیٹے احمد حسان اور محمد مبین بھی ایم فل کے سیشن میں اسلام آباد کے سفر اور مقالے کی تیاری میں ساتھ رہ کر میری مشقوں اور کتابوں کا خیال رکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے علم میں اضافہ فرمائے ۔ آمین
۱۷ دسمبر ۲۰۱۴ ء نُصرت نیازی
مُتعلمہ ایم فل اُردو
رول نمبر AN769198
مکمل کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
باب اول
سوانحی خاکہ
پہلا باب منور علی ملک کے سوانحی خاکہ پر مشتمل ہے جس میں ان کے حالات زندگی ، پیدائش، خاندانی پس منظر ، والدین، شجرہ نسب، تعلیم ، ملازمت، اہل خانہ، دلچسپی کے مشاغل، فکری تشکیل کے عناصر،اُن کی تصانیف کے مختصر تعارف اور ان پر اہل قلم کی آرا پیش کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مُصنف کے اہلِ خانہ ، احباب، رفقا کار اور اُن کے طالب علم (جو آج خود عملی زندگی میں شامل ہو چکے ہیں) کی رائے سے منور علی ملک کی شخصیت کے مختلف نقوش واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
باب دوم
منور علی ملک کی شاعری
اور فنی عناصر ۔
دوسرے باب میں ان کی شاعری کے فکری اور فنی عناصر پر بحث کی گئی ہے۔ان کے مجموعہ کلام ’’جو تم سے کہہ نہ سکا‘‘ میں شامل اُردو نعت، سلام، غزل ،نظم، قطعات ، نیز سرائیکی ، پنجابی، انگریزی ، نظموں /گیتوں کے حوالے سےمنور علی ملک کی نعت گوئی، غزل گوئی، نظم گوئی، قطعات نگاری، سرائیکی / پنجابیاور انگریزی نظم نگاری کا فکری اور فنی ہر دو حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
باب تین
باب چار
باب پانچ
الحمدللہ !!! ًمحترمہ پروفیسر نصرت نیازی کی میرے بارے میں کتاب آن لائین ھو گئی ھے- اس کے لیے شیر بہادرخان نیازی کا تہ دل سے ممنون ھوں- اللہ انہیں بے حساب رحمتوں سے نوازے- محترمہ پروفیسر نصرت نیازی صاحبہ کے لیے بھی یہی دعا- اس کتاب میں میری شخصیت اور فن کے بارے میں مستند معلومات موجود ھیں- جو دوست میرے بارے میں کچھ جاننا چاھیں، وہ دیئے ھوئے لنک سے اس کتاب میں دیکھ سکتے ھیں-
یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ھوں کہ محترمہ نصرت نیازی اب لیکچرر نہیں اسسٹنٹ پروفیسر ھیں- منورعلی ملک
Thanks sir for nice words
الحمدللہ !!! ًمحترمہ پروفیسر نصرت نیازی کی میرے بارے میں کتاب آن لائین ھو گئی ھے- اس کے لیے شیر بہادرخان نیازی کا تہ دل سے ممنون ھوں- اللہ انہیں بے حساب رحمتوں سے نوازے- محترمہ پروفیسر نصرت نیازی صاحبہ کے لیے بھی یہی دعا- اس کتاب میں میری شخصیت اور فن کے بارے میں مستند معلومات موجود ھیں- جو دوست میرے بارے میں کچھ جاننا چاھیں، وہ دیئے ھوئے لنک سے اس کتاب میں دیکھ سکتے ھیں-
یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ھوں کہ محترمہ نصرت نیازی اب لیکچرر نہیں اسسٹنٹ پروفیسر ھیں- منورعلی ملک
Thanks sir for nice words