پروفیسر رئیس احمد عرشی
پیدائش اور ذاتی پس منظر
پروفیسر رئیس احمد عرشی (اصل نام: احمد خان نیازی) یکم اپریل 1948ء کو میانوالی کے مشہور دیہی حلقے سلطان خیل میں پیدا ہوئے۔ وہ نیازی قبیلے کی سنجر خیل ذیلی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن کا ماحول مذہبی و علمی تھا — والد مرحوم لودھی خان کی شخصیت نے ان کے بچپن اور کردار پر گہرا اثر چھوڑا۔ خاندان کے اندر علمی روایات مضبوط تھیں اور اسی فضا نے پروفیسر عرشی کو علم و ادب کی طرف مائل کیا۔
تعلیمی سفر اور تحقیق
ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے اسکولوں سے مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے پنجاب یونیورسٹی کا رخ کیا۔ انہوں نے بی۔اے اور ایم۔اے (اردو، معاشیات وغیرہ) بمعہ اعزازی نمبروں کے ساتھ حاصل کئے۔ بعد ازاں مولانا کوثر نیازی جیسے ادبی اساتذہ کی خدمات اور ادبی خدمات پر تحقیقی مقالے لکھ کر ایم۔فل کی تکمیل بھی کی۔ ان کی تعلیمی لگن نے انہیں محقق اور استاد دونوں کے طور پر متحرک رکھا۔
تدریسی سفر اور ادارہ جاتی خدمات
پروفیسر عرشی نے1967ءمیں تدریسی پیشہ اختیار کیا۔ مختلف سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بطور استاد و لیکچرار خدمات سر انجام دیں؛ پھر گورنمنٹ کالج شاہپور صدر اور طویل عرصے تک گورنمنٹ کالج میانوالی میں تدریس کرتے رہے جہاں انہوں نے بے شمار طالب علموں کی فکری و اخلاقی رہنمائی کی۔ انہوں نے تعلیمی ذمہ داریوں کے ساتھ انتظامی اور سماجی منصوبوں میں بھی حصہ لیا اور 31 مارچ 2005ء میں باعزت ریٹائرمنٹ اختیار کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی علمی اور ادبی کاوشیں جاری رہیں۔
ادبی اور صحافتی خدمات
پروفیسر عرشی صرف استاد ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت ادیب، شاعر، کالم نگار اور محقق بھی ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری اور کالم نگاری مقامی اور قومی رسائل میں شائع ہوئی، اور ان کی تنقیدی و تحقیقی تحریریں ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ا
- آپ کی شاعری کے دو مجموعے شائع ہوئے: “ساکت لمحے” اور “صلیب وقت”۔
- متعدد افسانے، مضامین اور کالم مختلف مقامی و قومی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔
- آپ ہفت روزہ میانوالی گزٹ اور نوائے پٹھان لاہور سے وابستہ رہے اور کئی اداریے تحریر کیے۔
- ماہنامہ روپ کراچی نے 1982ء میں آپ کے افسانے کو پاکستان کے دس بہترین افسانوں میں شامل کیا۔
خاندانی اور سماجی مقام
آپ کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے ہے۔ آپ کے بھائی عبد القیوم خان بھی پروفیسر ہیں۔ خاندان کے کئی افراد تعلیم، پولیس اور فوج میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ سلطان خیل کے اس گھرانے کو علمی و سماجی خدمات کے حوالے سے ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
اعزازات اور علمی حوالہ جات
- جمیل احمد رانا کی کتاب مشاہیرِ میانوالی و بھکر میں آپ کا تذکرہ شامل ہے۔
- ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی نے اپنی کتاب تاریخِ میانوالی میں آپ کا ذکر کیا۔
- مرحوم اقبال خان جاوید کی تاریخِ نیازی قبائل میں بھی آپ کا حوالہ موجود ہے۔
شخصیت اور فکری پہلو
پروفیسر رئیس احمد عرشی ایک منکسرالمزاج، کتاب دوست، علم دوست اور انسانیت نواز شخصیت ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ شاگردوں اور معاصرین کے نزدیک آپ کو “روحانی استاد”، “آئیڈیل” اور “رول ماڈل” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
موجودہ زندگی اور ادبی فعاليت
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پروفیسر عرشی علمی سرگرمیوں سے جڑے رہے — ان کے پاس کچھ غیر مطبوعہ کلام اور تحقیقی مسودات موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً سماجی رابطہ ویب سائٹس اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آتے رہے ہیں۔ وہ فیس بک اور واٹس ایپ جیسی جدید مواصلاتی جگہوں پر بھی اپنی تحریریں اور خیالات شیئر کرتے ہیں، جس سے ان کی رسائی نوجوان نسل تک برقرار رہتی ہے۔
میراث اور نوجوانوں کے لئے پیغام
پروفیسر عرشی نے ثابت کیا کہ علم، سادگی اور اخلاقی جِدوجہد ایک سماج کو روشن کرتی ہے۔ ان کا پیغام نوجوانوں کے لیے واضح ہے: وقت کی قدر کرو، کتب سے محبت کرو،
اپنے علاقے کے لیے سوچو اور علمی مزاج کو اپناؤ — یہی کامیابی کی کنجی ہے۔