منورعلی ملک کے اکتوبر 2024  کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالیMERA MIANWALI OCTOBER  2024

1970 تک فلمی موسیقی مکمل طور پر زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ طبلہ نواز اور سارنگی نواز موسیقار بن بیٹھے۔ بڑے گلوکار کچھ دنیا سے رخصت ہوگئے، کچھ فلمی دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ سستے تک بند شاعروں نے جینوئین شاعروں کی جگہ سنبھال لی۔

آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے،

مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے

اور

سانوں نہر والے پل تے بلا کے

جیسے بے معنی ، بیہودہ ، بے سرے گیتوں سے تنگ آکر لوگوں نے موسیقی سننا ہی چھوڑ دیا۔

موسیقی کی دنیا کی اس ویرانی کے دور میں 1976 / 77 میں اچانک پنجاب کے شمال مغربی کونے سے ایک درد بھری پر سوز آواز فضا میں بلند ہوئی تو موسیقی کے رسیا لوگ فورا ادھر متوجہ ہو گئے۔۔۔ آڈیو کیسیٹ کی وساطت سے جلد ہی یہ آواز پوری دنیا میں گونجنے لگی۔

سیدھے سادہ الفاظ میں ہجر فراق ، محرومیوں اور مجبوریوں کی دلگداز داستانیں یونس خان ، مجبور عیسی خیلوی اور ناطق نیازی کی شاعری کی صورت میں اس آواز کی وساطت سے آنکھوں کو نم کرنے لگیں۔ اس قسم کی آواز اور اس قسم کی شاعری اس دور میں موسیقی کی مقبولیت کا معیار بن گئی۔

یہ آواز لالا عیسی خیلوی کی آواز تھی۔ کمال یہ ہے کہ مہدی حسن ، نصرت فتح علی خان اور غلام علی جیسے لیجنڈ گلوکاروں کی موجودگی کے باوجود عوام میں مقبولیت کے لحاظ سے یہ آواز دنیا بھر میں نمبر ون قرار پائی ۔۔۔  1     اکتوبر    2024

لالا عیسی خیلوی کا یوں اچانک دنیا بھر میں معروف و مقبول ہو جانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔

1976 تک تو لالا کی پہچان عیسی خیل سے کندیاں تک محدود تھی۔ کندیاں میں بھی ان کا تعلق صرف خدوزئی کے گورنمنٹ کنٹریکٹر فاروق ہاشمی تک محدود تھا۔ فاروق ہاشمی صاحب لالا کے بچپن کے دوست تھے۔ فاروق روکھڑی صاحب بہت عرصہ بعد لالا کے دوستوں کی قطار میں شامل ہوئے۔

اس وقت لالا کا اکلوتا ذریعہ معاش مین بازار عیسی خیل میں الصدف نام کا چھوٹا سا جنرل سٹور تھا۔ سواری کے لیئے سہراب سائیکل تھی جو پیپلز یوتھ لیگ کے صدر کی حیثیت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لالا کو عنایت کی تھی۔

1976 تک تو لالا کی معاشی اور سماجی حیثیت یہی تھی ۔پھر اللہ نے ایسا کرم کیا کہ 1977 کے آخر تک کیسیٹس اور پروگرامز سے ماہوار آمدنی لاکھوں روپے ہوگئی۔ سہراب سائیکل کی جگہ لمبی چوڑی مزدا 929 گاڑی آگئی۔ اور گلوکاری کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت لالا کا نصیب بن گئی۔   2     اکتوبر    2024

لالا کی بے پناہ مقبولیت کا سبب صرف اس کی پر سوز آواز تھی ، ورنہ یونس خان ، مجبور عیسی خیلوی اور ناطق نیازی کی جو شاعری لالا کی آواز میں منظرِعام پر آئی یہ کوئی نئی چیز نہ تھی۔ یہ کلام تو استاد امتیاز خالق کئی سال ریڈیو پاکستان پر گاتے رہے تھے۔ کلام بھی وہی ، دھنیں بھی وہی مگر لالا کی دل میں اتر جانے والی درد انگیز آواز نے ان پرانی چیزوں کو ایک بالکل نیا رنگ دے دیا۔

میں اردو غزل کا شاعر تھا مگر لالا سے دوستی نبھانے کے لیئے لالا کی فرمائش پر میں نے سرائیکی میں بھی کچھ گیت لکھ دیئے۔ یوں یونس خان، مجبور صاحب اور ناطق نیازی کے بعد چوتھا شاعر میں تھا جس کی شاعری لالا آواز کی زینت بنی۔ میں نے اس دور میں تقریبا 30/ 40 گیت لکھے ۔

اظہر نیازی

 

عتیل عیسی خیلوی

فاروق روکھڑی

عتیل عیسی خیلوی، اظہر نیازی، فاروق روکھڑی ، ملک آڈھا خان اور سونا خان بے وس بعد میں لالا کے شعرا کی قطار میں شامل ہوئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے گیتوں کا کوئی ریکارڈ اپنے پاس نہیں رکھا۔ جس کاغذ پہ لکھا وہی لالا کو دے دیا۔ میرے گیتوں کی مکمل فہرست وسیم سبطین صاحب سے مل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ فہرست کیسیٹس سے مرتب کی تھی۔  3     اکتوبر    2024

لالا عیسی خیلوی کی مقبولیت سے ٹیپ ریکارڈر اور ریکارڈرنگ کمپنیوں کا کاروبار خوب چمکا۔ لاکھوں لوگوں نے صرف یہ آواز سننے کے لیئے ٹیپ ریکارڈر خریدے۔ رحمت گراموفون کمپنی فیصل آباد کے علاوہ کراچی کی PMC , سونک اور ہیرا نامی کمپنیاں بھی ہر دوسرے تیسرے ماہ لالا کے کیسیٹ ریلیز کرنے لگیں۔ یہ کاروبار ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش بن گیا۔

اندازہ کیجییے کہ آج کے نوجوان گلوکارتو اچھل کود کر اور ناچ ناچ کر لوگوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں مگر لالا نظروں سے اوجھل رہ کر صرف آڈیو کیسیٹس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ لوگ لالا کو دیکھے بغیر اس کے شیدائی بن گئے۔

یہ سب اس شخص پر اللہ کا خصوصی کرم تھا ورنہ بے شمار گلوکار عمر بھر گاتے رہے لیکن عوام میں اتنی مقبولیت حاصل نہ کر سکے ۔  4     اکتوبر    2024

سرکار دوعالم کا ارشاد

انی بعثت معلما

مجھے معلم(ٹیچر) بنا کر بھیجا گیا یے

 5     اکتوبر    2024

لوک موسیقی کو لالا عیسی خیلوی کے آنے سے عروج ملا تو بہت سے گلوکار منظر عام پر آگئے۔

منصورعلی ملنگی، اللہ دتہ لونے والا، طالب حسین درد، بشیر احمد چوکی بھاگٹ والا، احمد خان ملنگ ، عطا بندیالوی، شفیع اختر وتہ خیلوی ، ایوب نیازی، شفااللہ خان روکھڑی، کمر مشانی کے عطا محمد زرگر اور نئی نسل کے گلوکاروں میں سے عطا محمد نیازی داودخیلوی ، محمد سلیم ہاشمی اور علی عمران اعوان بہت معروف و مقبول ہوئے۔ تاہم ان تمام گلوکاروں کی شہرت و مقبولیت پاکستان تک محدود رہی۔ عالمی سطح پر شہرت و مقبولیت صرف لالا ہی کے حصےمیں آئی۔

پوسٹس کا یہ سلسلہ جو آج کل چل رہا ہے کل اس سلسلے کی آخری پوسٹ ہوگی۔ یہ داستان دراصل موسیقی کے ذوق میں تبدیلیوں کی داستان تھی ۔ درمیان میں لالا کا ذکر آ گیا تو وہ جو ایک فارسی شاعر نے کہا تھا

لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم

(کہانی مزیدار تھی اس لیئے میں نے کچھ لمبی کر دی) ۔  6     اکتوبر    2024

گذشتہ چند روز مقبولیت کے لحاظ سے موسیقی کے عروج و زوال کی داستان چلتی رہی۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا اس وقت فلمی گیتوں کا دور تھا۔ عوام تک اس موسیقی کی ترسیل کا وسیلہ ریڈیو اور گراموفون تھے۔ یہ دور انڈیا میں محمد رفیع ، طلعت محمود، مکیش، لتا منگیشکر ، شمشاد بیگم اور پاکستان میں مہدی حسن، غلام علی ، سلیم رضا، منیر حسین، عنایت حسین بھٹی، نصرت فتح علی خاں ، نور جہاں ، زبیدہ خانم، نسیم بیگم، کوثر پروین، مالا وغیرہ جیسے لیجنڈز کے عروج کا دور تھا۔ پھر انڈیا میں کشور، ہیمنت کمار وغیرہ اور ہمارے ہاں احمد رشدی، اخلاق احمد، مجیب عالم اور مسعود رانا وغیرہ کا دور آیا۔ اس کے بعد فلمی موسیقی بے جان سروں اور بکواس شاعری کی وجہ سے غیر مقبول ہو گئی۔

جب نوبت

آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے

اور

جپھی گھٹ کے جے پاویں ہک وار گجرا

جیسے بیہودہ گیتوں تک پہنچی تو لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔ ریڈیو کو فرمائشی گیتوں کے پروگرام بند کرنے پڑے۔

1970 کی دہائی کے وسط میں لالا عیسی خیلوی نے لوک موسیقی کے سچے سروں کو چھیڑا تو لوگ فورا ادھر متوجہ ہو گئے۔ ہجر فراق شکوے اور محرومیوں کا ذکر لالا کی پرسوز آواز میں فضا میں چاروں طرف گونجنے لگا۔ بہت سے دوسرے لوک گلوکار بھی منظر عام پر آگئے ۔ مگر نمبر ون لالا ہی رہا۔

یہ دور تقریبا 30 سال چلا ۔ پھر مغربی دھنوں پر بلند میوزک کے ساتھ پاپ اور راک نوجوان سنگرز میدان میں اگئے۔ آڈیو کیسیٹس کی جگہ موویز اور ویڈیوز آگئیں۔ اب تو موسیقی سننے کی بجائے دیکھنے کی چیز بن گئی ہے۔ نوجوان سنگرز عجیب و غریب لباس اور ناچنے تھرکنے کے ذریعے عوام کی توجہ حاصل کرنے لگے ۔ آواز اور شاعری ثانوی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ڈھما ڈھم ، ٹھکا ٹھک اور شوں شاں کے شور میں سریں اور آوازیں دب کر رہ گئیں۔

وقتی طور پر تو لوگ اس ہیجان خیز موسیقی پر سر دھنتے رہتے ہیں لیکن یہ موسیقی دل میں اتر کر روح کے سروں کو نہیں چھیڑتی ۔

آج نہیں تو کل یہ دور بھی بالآخر ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد خدا جانے کس قسم کی موسیقی منظر عام پر آئے گی ؟؟؟؟؟؟۔  7     اکتوبر    2024

پروفیسر سلیم احسن vs مسرت نذیر

یہ عنوان تھا سول جج میانوالی کی عدالت میں دائر ایک مقدمے کا۔

قصہ یوں تھا کہ 1980 کی دہائی میں نامور اداکارہ و گلوکارہ مسرت نذیر کا ایک آڈیو کیسیٹ ریلیز ہوا۔ اس میں بھائی سلیم احسن صاحب کے ایک گیت

میں ہجر وچھوڑے کٹھی وے

ماہی گھن آ لمبی چھٹی وے

کے ساتھ ایک اور شاعر خواجہ پرویز کا نام لکھا ہوا تھا۔

سلیم صاحب کا یہ گیت ان کے مشہور و معروف سرائیکی شعری مجموعے “جکھڑ جھولے” میں کچھ عرصہ پہلے شائع ہو چکا تھا۔

کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت کسی اور شاعر کا نام استعمال کرنا خاصا سنگین جرم ہے۔ ہم لوگوں نے اپنے وکیل دوست مرحوم منظور ہاشمی صاحب سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کاپی رائیٹ ایکٹ کے تحت مسرت نذیر صاحبہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ کیس اخبارات اور میڈیا میں بھی بہت مشہور ہوا۔

مسرت نذیر صاحبہ تو بہت عرصہ سے امریکہ میں مقیم تھیں تاہم قانون کے مطابق عدالت نے ان کے سمن جاری کر دیئے۔ جج صاحب نے ہنس کر کہا کیس کا فیصلہ جو بھی ہو اس بہانے مسرت نذیر کو تو دیکھ لیں گے۔

مسرت نذیر نے کہاں واپس آنا تھا۔ اگلی تاریخ پر ان کا وکیل عدالت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا جی مسرت نذیر صاحبہ اپنی غلطی پر معافی چاہتی ہیں۔ تلافی کے طور پر ہم ہرجانہ بھی دیں گے اور کیسیٹ کے کور پر اس گیت کے ساتھ پروفیسر سلیم احسن صاحب کا نام درج کر دیں گے ۔

اس سے اگلی تاریخ پر وکیل صاحب کیسیٹ کے دو ڈبے لے کر عدالت میں حاضر ہوئے۔ کیسیٹ کے کور پر پروفیسر سلیم احسن صاحب کا نام درج تھا۔ ہرجانہ تو سلیم بھائی نے معاف کردیا کیسیٹس رکھ لیئے۔  8     اکتوبر    2024

دیکھتے ہی دیکھتے میانوالی شہر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ 1977-78 تک تمام بسوں کے اڈے کچہری بازار / لیاقت بازار میں ہوا کرتے تھے۔ بعد میں شہر سے باہر سرگودہا روڈ پر جنرل بس سٹینڈ بنا تو وہاں منتقل ہو گئے۔

کچہری بازار میں پروفیسر سلیم احسن کے والد صاحب کا “غریب ہوٹل” کھانے کے لحاظ سے میانوالی کا وی آئی پی ہوٹل تھا۔ یہاں ہر سالن دیسی گھی سے بنتا تھا۔

میانوالی کی سب سے پہلی کتابوں کی دکان “قیوم دی ہٹی” ، اور مین بازار کے سرے پر ریلوے سٹیشن کے سامنے ملکاں دا ہوٹل المعروف شیشاں آلا ہوٹل بھی کچہری بازار اور مین بازار کے اتصال میں واقع تھا۔ اس کے سامنے جالندھریوں کا لسی شربت کا کاروبار تھا جہاں سردیوں میں لسی شربت کی بجائے ڈرائی فروٹ کا کاروبار چلتا تھا۔

انگلش بیکری کے نام سے شہر کی اکلوتی بیکری بھی کچہری بازار میں واقع تھی۔ مسجد ولیدھڑاں کے سامنے غلام جیلانی جاس صاحب کی کتابوں کی دکان تھی جو سید نصیر شاہ صاحب کی مستقل بیٹھک اور دوسرے شاعروں ادیبوں کی آمدورفت کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ سید نصیر شاہ کی ادارت میں ادبی رسالہ ماہنامہ سوزوساز بھی یہیں سے شائع ہوتا تھا۔

بسوں کے اڈوں کے باوجود کچہری بازار میں اتنا رش نہیں ہوتا تھا جتنا آج کل دیکھنے میں آتا ہے۔ میانوالی بہت پرامن پر سکون شہر تھا۔  9     اکتوبر    2024

میانوالی کے مین بازار میں کئی معروف و مشہور دکانیں پچھلے 50 سال میں بند ہوگیئں۔ جالندھری لسی شربت کی دکان کے ساتھ حیات خان کا جنرل سٹور ہوا کرتا تھا، نام یاد نہیں آ رہا۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں فروٹ کی اکلوتی دکان تھی۔ سیبوں کی خوشبو دور تک راہ چلتے لوگوں کا تعاقب کرتی تھی۔

اس سے ذرا آگے عبداللہ کیمسٹ کے نام کا عیسی خیل کے ایک خان صاحب کا میڈیکل سٹور ہوا کرتا تھا

گلی کلوریاں کے چوک میں پروفیسر سلیم احسن صاحب کے بھائی حاجی عبدالکریم کا ملت میڈیکل سٹور تھا۔ اس سے آگےملک یاسین کا کلاتھ ہاوس جو ہمارے ساتھی مرحوم پروفیسر اقبال قاسمی کی مستقل بیٹھک تھا۔ اس سے کچھ آگے سلطان کیمسٹ کے نام سے چاچا سلطان کندی کا میڈیکل سٹور تھا۔ وتہ خیل کے ریٹائرڈ ہیڈماسٹر محمد خان صاحب چاچا سلطان کندی کے مستقل ہم نشیں تھے۔

موجودہ طارق جنرل سٹور کے ساتھ ہی قیصر ہوٹل نام کا ایک صاف ستھرا ہوٹل بنا تھا۔ وہ صرف چند سال ہی چلا۔ مالک رخصت ہوا تو ہوٹل بھی بند ہو گیا۔

کچھ دکانوں اور اداروں کے بانی تو دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ان کے وارث وہ دکانیں اور ادارے اب بھی چلا رہے ہیں۔ کلیم اللہ ملک کا چیپ میڈیکل سٹور اور ملک عبدالرحمن مسلم کا مسلم میڈیکل ہال اب بھی برقرار ہے۔ مسلم میڈیکل ہال میں انگریزی دواوں کے علاوہ مشہور و معروف حکیم عبدالرحیم خان کے دیسی دواوں کے نسخے بھی دستیاب تھے۔ یہ نسخے صرف اسی سٹور پر دستیاب تھے۔

بازار کے دائیں ہاتھ پوسٹ آفس کے ساتھ چاچا پاکستانی کا بہت بڑا کریانہ سٹور تھا۔ پوسٹ آفس یہاں سے منتقل ہو گیا اور چاچا پاکستانی دنیا سے رُخصت ہوگئے۔  10     اکتوبر    2024

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے گرو بازار ہندووں کا بازار ہوا کرتا تھا۔ ہندووں کی ایک یادگار ایک مندر کے آثار کی صورت میں ایم۔سی ہائی سکول کے احاطے میں آج بھی موجود ہے۔

ہندو چلے گئے تو اس بازار کا ۔نام مسلم بازار رکھ دیا گیا۔ مگر اکثر لوگ اب بھی اسے گرو بازار ہی کہتے ہیں۔

ہندووں کے جانے سے یہ بازار اجڑ گیا۔

1980 میں جب ہم میانوالی شہر منتقل ہوئے اس وقت گرو بازار میں صرف چند دکانیں تھیں۔ مشرقی سرے پر کامل دواخانہ نام کا میڈیکل سٹور اور مغرب میں لال خان کا چائے کا ہوٹل ، درمیان میں دیسی مٹھائیوں کی ایک دکان، عبدالرزاق خان کا کریانہ سٹور ، عبدالواحد خان کی دکان اور دودھ دہی کی ایک دکان۔ بس یہ تھی گرو بازار کی کی کل رونق 1980 تک۔

مگر چند سال بعد رونق اس تیزی سے بڑھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں درجنوں دکانیں بن گئیں۔ اب تو دو چار پلازے بھی ہیں۔ ضرورت کی ہر چیز یہاں دستیاب ہے۔۔11     اکتوبر    2024

داودخیل اور گردونواح کے لوگوں کا شاپنگ سنٹر کالاباغ ہوا کرتا تھا۔ کسی حد تک اب بھی ہے۔ دوسری ضروریات زندگی کے علاوہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کالاباغ ہی میں بنتی ہیں۔ یہ مصنوعات یہاں کے کاریگر نسل در نسل صدیوں سے بناتے چلے آ رہے ہیں۔

ان مصنوعات میں گھریلو استعمال کا لوہے کا سامان توے ، کڑاہیاں، چھریاں، چاقو ، درانتیاں، تین ٹانگوں والے چولہے جنہیں چلھ کہتے تھے، لوہے اور ٹین کے بنے ہوئے بڑے بڑے بکس جنہیں ٹرنک کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ کھجور اور مزیری کے پتوں سے بنے ہوئے دستی پنکھے، چٹائیاں، مصلے ، پتھر اور مٹی کے برتن، نمک کے بنے ہوئے ڈیکوریشن پیس، اور چمڑے کے پائدار خوبصورت جوتے شامل ہیں۔

بچیوں کے جہیز کا مکمل سامان بھی یہیں سے ملتا تھا۔

ان مقامی مصنوعات کے علاوہ کپڑا اور جنرل سٹور کا ہر قسم کا سامان بھی کالاباغ کے مین بازار میں دستیاب تھا۔

تقریبا 20 / 25 نواحی دیہات کے لوگ چیزوں کی خریداری کے لییے یہاں آتے تھے۔

اب تو دیہات میں بھی اچھے خاصے شاپنگ سینٹر بن گئے ہیں، مگر کالاباغ کی مخصوص مصنوعات خریدنے کے لییے لوگ اب بھی یہاں آتے ہیں۔—-  12     اکتوبر    2024

پل اور ڈیم بننے سے پہلے دریائے سندھ کشمیر سے کراچی تک کشتیوں کا موٹروے ہوا کرتا تھا۔ اس موٹروے پر بڑی بڑی تجارتی کشتیاں کشمیر اور سندھ کی مصنوعات کی تجارت کرتی تھیں۔

کالاباغ ان کشتیوں کا ایک اہم پڑاو تھا۔ یہاں سے کشتیوں والے تاجر کشمیر اور سندھ کی مصنوعات کے عوض کالاباغ کی مخصوص مصنوعات توے، کڑاہیاں ، چھریاں ، چاقو، زرعی اوزار ، کھجور کے پتوں اور مزیری کےبنے ہوئے دستی پنکھے ، چنگیریں ( چھکور)، چٹائیاں ، مصلے ، مٹی اور پتھر کے برتن وغیرہ خرید کر کشمیر اور سندھ میں فروخت کرتے تھے۔

دریائے سندھ کے راستے یہ کاروبار صدیوں سے چل رہا تھا۔ پھر جب دریا پر پل اور ڈیم بن گئے تو کشتیوں کی آمدورفت ممکن نہ رہی اس لیئے یہ کاروبار ختم ہو گیا۔

کالاباغ اس علاقے میں کشمیر اور سندھ کی مصنوعات کی دستیابی کا مرکز تھا۔

ابتدا میں کالاباغ کی آبادی لوہاروں اور ملاحوں پر مشتمل تھی۔ تقریبا 200 سال قبل پراچہ خاندان کے کچھ تاجر مکھڈ سے ہجرت کر کے کالاباغ میں آباد ہوئے تو کالاباغ ایک تجارتی مرکز بن گیا۔

دودھی والا لذیذ حلوہ بھی مکھڈ کے ان تاجروں نے یہاں متعارف کرایا۔ اس لیئے اس حلوے کو مکھڈی حلوہ بھی کہتے تھے۔ کالاباغ میں اندھیری گلی کے سرے پر بازار لوہاراں میں محمد امین کی دکان کا حلوہ بہت مشہور تھا۔ کالاباغ سے باہرکے لوگ شوقیہ یہ حلوہ کھانے کے لیئے وہاں جایا کرتے تھے۔ —  13     اکتوبر    2024

مناظر کے حسن کے لحاظ سے کالاباغ اپنی مثال آپ ہے ۔۔۔ بلند قامت پہاڑ اور اس کے سینے سے چمٹا ہوا یہ ننھا سا شہر دریا کے پرلے کنارے سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے پہاڑی علاقے کی ایک ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے دریا میں پاوں لٹکائے بیٹھی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان کی حیثیت میں جب کالاباغ کے دورے پر آئیں تو عید گاہ کے صحن سے پل کے پار دریا میں اترتے سورج کو دیکھ کر کہا میں ساری دنیا گھوم پھر کر دیکھ چکی ہوں مگر اس جیسا خوبصورت sunset (غروب آفتاب) اور کہیں نہیں دیکھا۔

کالاباغ میں طلوع آفتاب کا منظر اس سے بھی زیادہ دلکش ہوتا ہے۔ لوہاراں والی مسجد کے صحن میں کھڑے ہوکر مشرق میں ککڑانوالہ کے قریب دریا سے برآمد ہوتے ہوئے سورج کا جاہ و جلال دیکھ کر انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ” سبحان اللہ “۔۔۔۔۔۔ سورج کی کرنیں دریا پر پڑتی ہیں تو پانی کا رنگ سنہرا ہو جاتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے پگھلے ہوئے سونے کا دریا بہہ رہا ہے۔—-  14     اکتوبر    2024

کلچر کے لحاظ سے کالاباغ ایک جزیرہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن ، رسم و رواج اور بول چال ضلع کے دوسرے علاقوں سے بہت مختلف ہے۔ رسم ورواج میں مکھڈ اور قدیم ہندو کلچر کی جھلکیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔

تیس چالیس سال پہلے تک کالاباغ کے لوگ نواب آف کالاباغ فیملی کے جاگیردارانہ تسلط کے غلام تھے۔ یہ بہت جابرانہ نظام تھا۔ نواب فیملی اپنے خلاف ذرا سی تنقید بھی برداشت نہیں کرتی تھی۔ کئی لوگوں کو اس جرم میں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

رفتہ رفتہ لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو اس غلامی سے نجات کے لیئے چند نوجوانوں نے بغوچی محاذ کے نام سے آزادی کی تحریک شروع کی۔ نواب فیملی نے اس تحریک کو کچلنے کی بھر پور کوشش کی مگر تحریک کے لوگ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بالآخر فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت کالاباغ کے لوگوں کو خاصی حد تک آزادی مل گئی۔ خوف اور گھٹن کا ماحول ختم ہو گیا ۔ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ کالاباغ ایک بہت بڑا کاروباری مرکز بن گیا۔ لوگ خاصے خوشحال ہو گئے۔

باقی بہت کچھ بدل گیا مگر کالاباغ کا کلچر ویسے کا ویسا ہی رہا۔ زبان ، رہن سہن اور رسم و رواج اب بھی وہی ہیں۔ کالاباغ نے اپنی پہچان نہیں بدلی     —–  15     اکتوبر    2024

اپنا ایک پرانا شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔-  17     اکتوبر    2024

کالاباغ کا ذکر چھڑا تو اپنے جگر راجہ کرم اللہ پراچہ یاد آگئے۔ ان کی مجھ سے محبت دوستی کی حدوں سے بہت آگے بھائیوں جیسی تھی۔ عمر میں مجھ سے دوچار سال بڑے تھے۔ اس لییے مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتے تھے۔

ہماری دوستی کا آغاز سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران ہوا۔ ہاسٹل میں ہر رات چکوال کے دوستوں کے کمرے میں تاش کے کھیل sweep میں پراچہ صاحب میرے پارٹنر ہوتے تھے۔ بہت زندہ دل خوش مزاج انسان تھے۔ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔

کرم اللہ پراچہ صاحب ٹریننگ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کالاباغ ہائی سکول میں ہیڈماسٹر متعین ہوئے۔ میں جب کبھی کالاباغ جاتا مجھے وی آئی پی پروٹوکول دیتے ۔ مجھے اپنی دسویں کلاس میں لے جا کر کہتے ان کو انگلش کے کورس کی فلاں چیز پڑھائیں۔ خود کلاس میں بچوں کے درمیان بیٹھ کر بڑی توجہ سے میرا لیکچر سنتے ۔ خود بھی بہت اچھے ٹیچر تھے مگر کلاس سے کہا کرتے تھے انگلش میں ملک صاحب کے سامنے میری وہی حیثیت ہے جو آپ کی میرے سامنے ہے۔

پراچہ صاحب کالاباغ کے ایک معروف کاروباری خاندان سے تھے۔۔ ان کے والد صاحب اور بھائی کاروبار کرتے تھے۔ یہ تعلیم کے میدان میں آگئے۔

کالاباغ کی تاریخ جغرافیہ اور کلچر کے بارے میں مفصل معلومات مجھے ان سے حاصل ہوئیں۔ بہت وسیع علم تھا ان کے پاس۔

ایک دفعہ علاقے کے مشہور و معروف پیر صاحب آف کوٹ چاندنہ شریف مجھ سے ملنے داودخیل تشریف لائے۔ کہنے لگے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ ہمارے ایک بچے کو ہیڈماسٹر صاحب نے کسی غلطی پر سکول سے نکال دیا ہے۔ ہم نے بہت منت سماجت کی۔ سفارشیں بھی کرائیں مگر نہیں مانے۔ ہمیں کسی نے بتایا ہے کہ وہ آپ کی بات مانتے ہیں۔ آپ ہمارے بچے کو سکول میں دوبارہ داخلہ دلوا دیں۔

میں نے پراچہ صاحب کے نام انگلش میں مختصر سا رقعہ لکھ کر دے دیا۔

اگلے دن پیر صاحب سپیشل شکریہ ادا کرنے کے لییے میرے ہاں آئے۔ کہنے لگے ملک صاحب کمال ہو گیا۔ آپ کا خط دیکھ کر ہیڈماسٹر صاحب نے مسکرا کر کہا ” بہوں ڈاھڈے بندے نی سفارش گھن آئے ہاو ” ۔ یہ کہہ کر انہوں نے بچے کو فی الفور داخلہ دے دیا۔

گلے کے کینسر میں مبتلا ہوکر کرم اللہ پراچہ صاحب جوانی ہی میں یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسے ۔

ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے—–  18     اکتوبر    2024

ضلع میانوالی کو کلچر (زبان اور رہن سہن) کے لحاظ سے 6 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

ضلع کے شمال مغربی کنارے کا کلچر پشتون کلچر ہے۔ تبی سر، ٹولہ بانگی خیل، ٹولہ منگعلی ، چاپری اور نواحی علاقہ خٹک قبیلے کا مسکن ہے۔ یہاں کی زبان پشتو اور رسم و رواج پشتون کلچر کے نمائندہ ہیں۔

کالاباغ شہر کا کلچر ایک الگ کلچر ہے جو مکھڈ اور ملاحوں کی بستیوں کے کلچر کا مکسچر ہے۔

عیسی خیل سے لے کر پہاڑ کے مغربی علاقے موسی خیل ، چھدرو اور میانوالی شہر تک کا کلچر نیازی کلچر ہے۔

پہاڑ کے پار چکڑالہ، نمل ، رکھی کلری اور بن حافظ جی کے علاقے کا کلچر خالص اعوان کلچر ہے۔

واں بھچراں شادیہ اور نواحی دیہات کا کلچر خوشابی کلچر ہے۔

تحصیل پپلاں سے سرائیکی کلچر کا آغاز ہوتا ہے۔  19     اکتوبر    2024

یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 1992
گورنمنٹ کالج میانوالی ۔۔۔۔۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ایک میٹنگ میں پروفیسر عبدالغفار خٹک صاحب کے ساتھ۔  21     اکتوبر    2024

آج کا دن پردیسیوں کے نام۔۔۔۔

ہر سال ایک پوسٹ بیرون ملک اپنے چاہنے والوں کے نام لکھتا ہوں۔ یہ بے لوث محبت کرنے والے لوگ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ میری پوسٹس باقاعدہ پڑھتے اور ان پر اپنا رد عمل دعائیہ کمنٹس کی شکل میں دیتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ آتے جاتے لوگوں کے ہاتھ میرے لیئے خوبصورت گفٹس بھی بھجواتے رہتے ہیں ۔

فرانس میں مقیم منور اقبال خان ، آسٹریلیا سے سید اویس کاظمی، مکہ مکرمہ سے معظم عباس سپرا، جدہ سے شعیب سید فیس بک پر میرے آغاز سفر سے ہی میرے ہمسفر ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں اور لوگ بھی ہیں، سب کے نام یاد نہیں رکھ سکتا، تاہم میری فجر کی دعاوں میں یہ سب لوگ شامل ہوتے ہیں۔

یہ لوگ میری پوسٹس کو گھر سے آیا ہوا خط سمجھ کر بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔

کچھ مہربان مسجد نبوی میں حاضری کے دوران بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میں میرا سلام عرض کر کے مجھے مطلع کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کی حاضری بھی لگوا دی ہے۔

دوتین کے سوا باقی لوگوں سے میری کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی پھر بھی یہ لوگ مجھ سے اس قدر محبت کرتے ہیں، مجھے اپنی دعاوں میں یاد رکھتے ہیں۔

ان میں سے بہت سے لوگ لالا عیسی خیلوی کی آواز میں میرے لکھے ہوئے گیتوں کی وساطت سے مجھ سے متعارف ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگ فیس بک پر میری تحریروں کے حوالے سے مجھے جانتے اور چاہتے ہیں۔

رب کریم آپ سب کو اہل و عیال سمیت سلامت اور ہمارا یہ دعاوں کا رشتہ برقرار رکھے ، آپ سب کو سلام۔  26     اکتوبر    2024

یہ دن بھی آنے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی چند سال پہلے تک ٹی وی آن کرتے ہی اپنی پسند کا چینل تلاش کرنے کے لیئے ریموٹ کنٹرول پر اس چینل کا نمبر صرف ایک ہی بار click کرنے سے کام چل جاتا تھا۔۔۔۔۔۔

اب رسم دنیا کے طور پر ہمارے میانوالی، اسلام آباد ، لاہور والے سب گھروں میں android ٹی وی آگئے ہیں جن پر اپنی پسند کا نیوز چینل تلاش کرنے کے لییے دائیں بائیں، اوپر نیچے کئی سمتوں میں click کرنا پڑتا ہے۔ یوں کافی منت سماجت کے بعد مطلوبہ چینل سکرین پر نمودار ہوتا ہے۔۔۔۔ میں تو یہ سائنس اب تک نہیں سمجھ سکا۔ کسی بچے بچی کو بلا کر کہتا ہوں فلاں چینل لگا دو۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ اب ٹی وی استعمال کرنے کے لیئے بھی ایک آپریٹر رکھنا پڑتا ہے۔ مزا نہ آگیا۔۔۔!!!

سوچتا ہوں اس طرح کب تک کام چلے گا۔؟ یہ کاروبار خود ہی سیکھنا پڑے گا۔ کوئی مشکل کام نہیں۔ صرف ذرا سی توجہ درکار ہوگی۔ چلیں دوچار منٹ اس کام پہ بھی صرف کر لیتے ہیں- 27     اکتوبر    2024

میرے فون کی گیلری میں چند چہرے ایسے ہیں جو اب اس دنیا میں تو موجود نہیں مگر کسی نہ کسی حوالے سے مجھے اب بھی بہت عزیز ہیں۔جب بھی گیلری میں جاتا ہوں ان میں سے کوئی نہ کوئی چہرہ سامنے آکر حسین یادوں کی خوشبوئیں چاروں طرف بکھیر دیتا ہے۔ ۔

ان سب لوگوں کے بارے میں فردا فردا پوسٹس چند سال پہلے بھی لکھ چکا ہوں، لیکن دل نہیں بھرتا ، اس لیئے جب بھی موقع ملے ان کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

رب کریم نے مجھے قلم دیا ہے۔ میرے قلم پر ان مرحوم ساتھیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دنیا میں موجود دوستوں کا۔

ایسی ہی ایک دلچسپ شخصیت شعبہ بیالوجی کے پروفیسر ملک مقصود احمد تھے۔ کالج کے علاوہ کالج کے باہر بھی ہمارے حلقہ احباب کے رکن تھے۔ ہمارے اس حلقے میں شعبہ بیالوجی کے پروفیسر فاروق صاحب اور پیر اقبال شاہ صاحب ، شعبہ انگریزی کے پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب اور پروفیسر سرور نیازی صاحب، شعبہ سیاسیات کے پروفیسر سلیم احسن صاحب اور اردو کے پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ اب اس گروپ میں سے پروفیسر محمد فاروق، پروفیسر سرور نیازی، پروفیسر سلیم احسن اس دنیا میں موجود ہیں۔

پروفیسر مقصود بہت زندہ دل خوش مزاج انسان تھے۔ میں اکثر یہ کہہ کر انہیں چھیڑا کرتا تھا کہ مقصود صاحب باٹنی کے بے مثال ٹیچر ہیں۔ باقی سب کچھ تو یہ فر فر پڑھا لیتے ہیں مگر باٹنی کی کتاب کا 15 واں چیپٹر ذرا مشکل ہے اس لیئے وہ چیپٹر شعبہ بیالوجی کے ملازم چاچا یارن خان پڑھاتے ہیں۔۔

بہت ہنستے تھے میری یہ باتیں سن کر۔۔۔ کبھی میں کہتا مقصود صاحب گھر پہ آئے ہوئے ٹیوشن کے گروپ کو ٹیسٹ لکھوا کر کالج آتے ہیں۔ پرنسپل صاحب کو سلام کر کے واپس گھر چلے جاتے ہیں۔ہنس کر کہتے تھے تم کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہو۔

ریٹائرمنٹ کے بعد فیملی سمیت لاہور منتقل ہو گئے۔

ایک دن میانوالی سٹی پوسٹ آفس میں مل گئے۔۔ بیمار لگتے تھے۔ میں نے کہا پکے پکے واپس آگئے ہو؟ کہنے لگے نہیں کل لاہور واپس جانا ہے۔ بچے ادھر ہی ہیں ۔

چند روز بعد لاہور سے یہ المناک خبر آئی کہ مقصود صاحب اب اس دنیا میں موجود نہیں۔

گذاری تھیں خوشی کی چند گھڑیاں

انہی کی یاد اپنی زندگی ہے—- 28     اکتوبر    2024

 

میرے فون کی گیلری میں چند چہرے ایسے ہیں جو اب اس دنیا میں تو موجود نہیں مگر کسی نہ کسی حوالے سے مجھے اب بھی بہت عزیز ہیں۔جب بھی گیلری میں جاتا ہوں ان میں سے کوئی نہ کوئی چہرہ سامنے آکر حسین یادوں کی خوشبوئیں چاروں طرف بکھیر دیتا ہے۔ ۔
ان سب لوگوں کے بارے میں فردا فردا پوسٹس چند سال پہلے بھی لکھ چکا ہوں، لیکن دل نہیں بھرتا ، اس لیئے جب بھی موقع ملے ان کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
رب کریم نے مجھے قلم دیا ہے۔ میرے قلم پر ان مرحوم ساتھیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دنیا میں موجود دوستوں کا۔
ایسی ہی ایک دلچسپ شخصیت شعبہ بیالوجی کے پروفیسر ملک مقصود احمد تھے۔ کالج کے علاوہ کالج کے باہر بھی ہمارے حلقہ احباب کے رکن تھے۔ ہمارے اس حلقے میں شعبہ بیالوجی کے پروفیسر فاروق صاحب اور پیر اقبال شاہ صاحب ، شعبہ انگریزی کے پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب اور پروفیسر سرور نیازی صاحب، شعبہ سیاسیات کے پروفیسر سلیم احسن صاحب اور اردو کے پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ اب اس گروپ میں سے پروفیسر محمد فاروق، پروفیسر سرور نیازی، پروفیسر سلیم احسن اس دنیا میں موجود ہیں۔
پروفیسر مقصود بہت زندہ دل خوش مزاج انسان تھے۔ میں اکثر یہ کہہ کر انہیں چھیڑا کرتا تھا کہ مقصود صاحب باٹنی کے بے مثال ٹیچر ہیں۔ باقی سب کچھ تو یہ فر فر پڑھا لیتے ہیں مگر باٹنی کی کتاب کا 15 واں چیپٹر ذرا مشکل ہے اس لیئے وہ چیپٹر شعبہ بیالوجی کے ملازم چاچا یارن خان پڑھاتے ہیں۔۔
بہت ہنستے تھے میری یہ باتیں سن کر۔۔۔ کبھی میں کہتا مقصود صاحب گھر پہ آئے ہوئے ٹیوشن کے گروپ کو ٹیسٹ لکھوا کر کالج آتے ہیں۔ پرنسپل صاحب کو سلام کر کے واپس گھر چلے جاتے ہیں۔ہنس کر کہتے تھے تم کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہو۔
ریٹائرمنٹ کے بعد فیملی سمیت لاہور منتقل ہو گئے۔
ایک دن میانوالی سٹی پوسٹ آفس میں مل گئے۔۔ بیمار لگتے تھے۔ میں نے کہا پکے پکے واپس آگئے ہو؟ کہنے لگے نہیں کل لاہور واپس جانا ہے۔ بچے ادھر ہی ہیں ۔
چند روز بعد لاہور سے یہ المناک خبر آئی کہ مقصود صاحب اب اس دنیا میں موجود نہیں۔
گذاری تھیں خوشی کی چند گھڑیاں
انہی کی یاد اپنی زندگی ہے— 28     اکتوبر    2024

بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر پیر محمد اقبال شاہ اپنے انداز کی ایک منفرد شخصیت تھے۔ سمارٹ ، خوش لباس اور بہت ذہین انسان تھے۔ بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں میں پیر صاحب اکلوتے ایم ایس سی زوالوجی تھے۔ زوالوجی کی لیبارٹری حسن انتظام میں اپنی مثال آپ تھی۔

پیر صاحب نے مردہ سانپ، بچھو ، کئی پرندے اور چھوٹے چھوٹے جانور اپنے ہاتھوں سے شیشے کے مرتبانوں میں محفوظ کر رکھے تھے۔ سلیقہ شعاری میں پیر صاحب کا کوئی ثانی نہ تھا۔ الیکٹرانک آلات اور اپنی موٹر سائیکل کی مرمت بھی پیر صاحب خود کر لیتے تھے۔

بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب اور ہوٹلوں پر ہماری محفلوں میں پروفیسر فاروق صاحب پیر صاحب کو یہ شعر سنا کر چھیڑا کرتے تھے۔

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب

خدا کرے کہ ملے پیر کو بھی یہ توفیق

آگے سے پیر صاحب کا جواب اتنا کرارا ہوتا تھا کہ قہقہوں کی گونج دور تک سنائی دیتی تھی۔

ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے

افسوس کہ پیر صاحب کی پکچر میرے پاس اس وقت موجود نہیں۔ دوسال پہلے موبائیل فون تبدیل کیا تو بہت سی دوسری پکچرز کے ساتھ پیر صاحب کی پکچر بھی گم ہوگئی۔–  30     اکتوبر    2024

بڑے لوگ۔۔۔۔۔۔

لوگ چلے جاتے ہیں ادارے قائم رہتے ہیں۔

گورنمنٹ کالج میانوالی میں بہت قدآور شخصیات پرنسپل کے منصب پر فائز رہیں۔

معروف سیاسی رہنما خان عبدالولی خان کے بھائی اور اسفند یار ولی خان کے چچا پروفیسر عبدالعلی خان بین الاقوامی سطح کے ماہر تعلیم اور ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ایچی سن کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بھی پرنسپل رہے۔ وفاقی سیکرٹری ایجوکیشن کے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ان کے دور میں گورنمنٹ کالج میانوالی کا ڈسپلن معیاری رہا۔

بہت بارعب شخصیت تھے۔

جب خان صاحب وفاقی سیکریٹری ایجوکیشن تھے تو ایک دن لکی مروت جاتے ہوئے اچانک گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں وارد ہوئے۔ میں ان دنوں کالج کا پرنسپل تھا۔ اس دن کالج کی چھٹی تھی۔ چوکیدار نے آکر بتایا کہ سیکرٹری صاحب تشریف لائے ہیں۔ میں دوچار پروفیسر صاحبان کو ساتھ لے کر فورا کالج پہنچا۔ خان صاحب ملیشیا کی شلوار قمیض میں ملبوس ، بریف کیس ہاتھ میں لیئے برآمدے میں کھڑے تھے۔ مسکرا کر کہنے لگے ، یارا میں ادھر سے گذر رہا تھا تو میں نے سوچا آپ لوگوں کو سلام کر لوں کیونکہ کسی زمانے میں میں بھی پروفیسر رہا ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آج کالج کی چھٹی ہے۔

خان صاحب تقریبا ایک گھنٹہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بہت کھلے ڈلے انداز میں ہنس ہنس کر گپ شپ لگاتے رہے۔ ہمیں سر ، سر کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ہمارے مسائل نوٹ کیئے۔ پھر اپنی سرکاری جیپ میں بیٹھ کر لکی مروت روانہ ہو گئے۔–  ۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔ منورعلی ملک۔۔۔31     اکتوبر    2024

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top