JETH DI GARMI TE CHACHE DULE ALA KUHO

جیٹھ دی گرمی تے :
دُنی کراڑ آلی کھوئی تے چاچے دُلے آلا کُھو:

آج جب دفتر سے باہر نکلا تو انتہا کی گرمی تھی ۔گاڑی کے شیشے کھولے ۔تھوڑی دیر انتظار کیا۔پھر کہیں جا کے بیٹھنے کے قابل ہوئی۔
گاڑی کا ائیر کنڈیشن چلایا اور میں سوچنے لگا کہ آج کل گرمی زیادہ ہو گئی ہے یا ہم لوگ نازک ہوگئے ہیں ۔۔
پھر یہ گرمی مجھے اپنے بچپن میں لے گئی ۔
شہباز خیل میں سکارپ سکیم کے تحت ٹیوب ویل لگنے سے پہلے سارے گاؤں کا پانی کا انحصار کھووں ( بڑے کنوؤں جہاں بیل یا اونٹ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے)اور کھوئیوں (ہاتھ سے پانی نکالنے والے کنوئیں) پر تھا ۔نلکے نہ ہونے کے برابر تھے ۔”دیگُر”(عصر )ہوتے ہی عورتیں سروں پر اور” کچھ”(بغل) میں گھڑے اٹھاے ان کھووں اور کھوئیوں کا رخ کرتیں ۔سر پر گھڑا رکھنے کے لئے کپڑے کو گول دائرے کی صورت میں لپیٹ کر رکھا جاتا جسے “سینوں “کہا جاتا ۔
ہمارے محلے میں دو کُھو تھے ایک سردار خیلوں والا کُھو اور دوسرا عبداللہ والا کُھو ۔
ہمارے ساتھ ہی ہمارا ننھیالی محلہ تھا جہاں تقسیم سے پہلے ایک انتہائی مالدار اور مشہور ادھ لکھا خاندان کے دُنی چند رہتے تھے ۔وہ “باھمنُڑ”(برھمن) تھے ۔انھوں نے محلے میں لوگوں کی فلاح کے لئے ایک بڑی شاندار کھوئ کھدوائی تھی ۔شام کو تمام عورتیں غروب آفتاب سے پہلے ان کھووں اور کھوئیوں سے پانی گھڑووں میں بھر کر لے جاتیں۔کھوئ کے اوپر ایک”چرخریں”(چرخی)لگی ہوتی ۔جسکےساتھ ایک لمبی “لانھ”(رسی) بندھی ہوتی جو نیچے “بوکے”(چمڑے کی مشک نما چیز جس سے کھوئی سے پانی نکالا جاتا)کے ساتھ بندھی ہوتی ۔ایک “بوکے” میں تقریباً دو سے تین گھڑوں کا پانی آتا ۔بوکے کو اوپر کھیچنے کے لئے دو عورتیں چرخی کو گھماتی جاتیں حتیٰ کہ بوکہ ان کے ہاتھ تک ا جاتا اور پھر اس میں سے پانی گھڑوں میں انڈیلا جاتا ۔اور پھر خالی بوکہ جب کھوئ میں پھینکتے اور وہ جا کر پانی سے ٹکراتا تو “گھم”کی آواز آتی۔”ڈھیں اُبھرے”(طلوع آفتاب) اور “ڈھیں لتھے”(غروب آفتاب)کے وقت کی یہ روٹین ہوتی ۔
مرد حضرات کی بڑی تعداد نہر کا رخ کرتی(یاد رہے تھل کینال ہمارے گاؤں سے گزرتی ہے)اور نہر کے ٹھنڈے پانی سے گرمی کی شدت کم کرتے ۔ کچھ لوگ جو نہر پر جانے سے پرہیز کرتے یا انھیں نہر پر جانے سے ڈر لگتا تو وہ ان کھووں اور کھوئیوں پر “نماشاں”(مغرب) کے بعد جاتے پانی کا بوکہ نکالتے اور لنگوٹ کس کر”چلھے” میں بیٹھ جاتے۔۔ اور “کرووں”(لوٹوں) ،”مُنگرووں”(جست کے گول گلاس) یا “کُوزوں” سے پانی اپنے جسم پر ڈالتے اور دن بھر کی گرمی سے نجات حاصل کرتے ۔
پھر لوگوں کے گھروں میں نلکے (ہینڈ پمپ) لگ گئے تو لوگ گرمیوں میں صبح شام ان نلکوں پر نہایا کرتے ۔ساٹھ کی دھائی کے آخر میں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے سیم اور تھور والے علاقوں میں سکارپ سکیم کے تحت ٹیوب ویل لگوائے تو ہمارے گاؤں اور ہمارے کچے میں کل چار ٹیوب ویل لگے تھے ۔گاوں والے ٹیوب ویل پر شام کے وقت بہت زیادہ رش ہوتا۔۔
اکثر گھروں میں دن بھر کی گرمی کو مٹانے کے لیے رات کو “ہدوانڑیں” (تربوز) کا دور چلتا ۔یہ تربوز شام کو “بُھوں” (بھوسے) سے نکال کر “گھڑونجی”(گھڑے رکھنے والی لکڑی سے بنی) پر ٹھنڈے ہونے کے لئے گھڑووں کے درمیان میں رکھ دیئے جاتے ۔اس دور میں تربوز خرید کر کھانے کا رواج کم تھا ۔یا یہ چوری کے ہوتے یا پھر کسی رشتتہ دار یا یار دوست نے جس کی “واڑی” ہوتی ،نے بھیجے ہوتے ۔۔کچھ لوگ “گُڑ آلی شربت” کا انتظام کرتے تو کچھ لوگ “کچی لسی” سے گرمی کی شدت کم کرنے کی کوشش کرتے۔۔لُو (گرم ہوا)بہت شدت سے لگتی تو ململ کے کپڑے کو پانی میں بھگو کر اوپر ڈال دیتے ۔۔
اس دور میں شروع میں تو بجلی تھی ہی نہیں اور جب بجلی پہنچ گئی تو بہت کم لوگوں کے گھروں میں میز والے پنکھے یا پیڈسٹل فین تھے (ائیر کنڈیشنڈ اور ریفریجریٹر کا نام بھی لوگوں کو معلوم نہ تھا)۔لوگوں کا سارا دارومدار قدرتی ہوا پر ہوتا اور ہر “منجے”(چارپائی)پر “ہتھ آلا پکھا” ہوتا جو پسینے اور گرمی کو دور کرنے کے لئے استعمال ہوتا ۔۔لوگ اونچی آواز میں “ہانگرے”(نعرے)لگاتے ۔۔””اللہ اللہ او بی اللہ “”اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر کرکے ہوا چلنے کی دعا کرتے ۔ہوا چل پڑتی تو نیند سکون سے ا جاتی ورنہ ساری رات “”پاسے پر تینداں لنگھدی “(کروٹیں بدلتے ہوئے)..اس زمانے میں گھروں کے ارد گرد دیواروں کا کوئی خاص رواج نہیں تھا ۔گرمیوں میں تمام لوگ اپنے”ویہڑوں”(صحنوں) میں سوتے اور گھروں میں سوئے لوگ نظر آ رہے ہوتے ۔۔شدید گرمی ہوتی تو ساری رات”کھنگوروں “(کھانسنے کی آوازیں)اور بار بار گھڑونجی سے منگرے اتارنے اور رکھنے کی آوازیں آ رہی ہوتیں..
انھیں خیالات میں گم تھا کہ گھر آ گیا اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا ۔۔
گرمیوں میں دیہات میں دن کیسے گزرتے تھے، یہ کہانی پھر کبھی ۔۔

دعاؤں کا طالب:
ڈاکٹر طارق مسعود خان شہبازخیل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top