منورعلی ملک کے نومبر 2024 کے فیس بک پرخطوط
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی اپنی ہے زندگی تنہا
شہر آباد ، آدمی تنہا
میں نے تو یہ بات لوگوں کے عمومی رویئے کے حوالے سے کہی تھی کہ ہر شخص صرف اپنے مفاد کے بارے میں سوچتا ہے۔۔۔ مگر موبائل فون نے اس شعر کو ایک اور معنی بھی دے دیئے ہیں۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ گھنٹوں ایک ہی کمرے میں بیٹھے اپنے اپنے موبائل فون میں گم رہتے ہیں۔ آپس میں بات چیت نہیں کرتے۔ مل بیٹھ کر باتیں کرنے کا دور گزر گیا۔ یوں ہر فرد گھر میں رہ کر بھی تنہا ہو گیا۔۔۔ بس یا ٹرین میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی آپس میں بات چیت کرنے کی بجائے اپنے اپنے فون میں کھوئے رہتے ہیں۔
موبائل فون کے بے شمار فائدے ہیں۔ میں بھی بہت استعمال کرتا ہوں۔ روزانہ پوسٹس بھی موبائل فون پہ لکھتا ہوں۔ گوگل اور وکی پیڈیا پر معلومات کے خزانے سے بھی مستفید ہوتا ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اکثر لوگ اس سہولت کو ضرورت سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ کسی کی موت پر تعزیت اور بیمار کی عیادت جیسے اہم فرائض بھی فون پر ہی نمٹا دیتے ہیں۔ دوستوں رشتہ داروں کے ہاں آنا جانا بھی ختم۔ فون پر ہی گپ شپ لگا لیتے ہیں ۔ گھر سے باہر قدم رکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس طرز عمل نے ہر انسان کو تنہا کر رکھا ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ 2 نومبر 2024
اب تو سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب میانوالی سے لاہور اور پنڈی کوئی ڈائریکٹ بس نہیں جاتی تھی۔ لاہور کے لیئے بس سرگودھا سے ملتی تھی جو چنیوٹ، پنڈی بھٹیاں اور شیخوپورہ سے ہوتی ہوئی شاہدرہ سے لاہور میں داخل ہوتی تھی۔ یوں میانوالی سے لاہور پہنچنے میں آٹھ دس گھنٹے لگ جاتے تھے۔
پنڈی کی بس تلہ گنگ سے ملتی تھی جو کھوڑ اور فتح جنگ کے راستے پنڈی پہنچتی تھی۔ اس سفر میں بھی چار پانچ گھنٹے لگتے تھے۔
میانوالی سے بنوں بھی کوئی بس نہ جاتی تھی۔ اس لیئے لوگ بنوں جانے کے لییے ماڑی انڈس سے ٹرین پر سوار ہوتے تھے۔ یہ بھی پانچ چھ گھنٹے کا سفر تھا۔
اب موٹروے کے راستے سے لاہور کا سفر صرف چار پانچ گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ میانوالی سے ڈائریکٹ لاہور جانے والی بس ہر دس پندرہ منٹ بعد دستیاب ہے۔
میانوالی سے پنڈی کا سفر تو اب سی پیک روڈ کے راستے صرف دو اڑھائی گھنٹے کا رہ گیا ہے۔
بنوں کی ڈائریکٹ بس سروس بھی چل رہی ہے۔
بہت سے لوگوں کے پاس اب اپنی گاڑیاں بھی ہیں ۔
یہ سہولتیں اپنی جگہ مگر زندگی کی ضروریات اور مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس لییے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زندگی تو آسان ہوگئی ہے مگر جینا مشکل۔ 4 نومبر 2024
بس کو لاری کہتے تھے۔ لاری بھی انگلش کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں بھاری بھرکم فوجی ٹرک ۔۔ ابتدا میں ہمارے ہاں بسیں کارخانے سے بن کر نہیں آتی تھیں بلکہ نیلام شدہ پرانے فوجی ٹرکوں پر بس کی باڈی لگا کر ان سے بسوں کا کام لیا جاتا تھا۔ اس دور میں صرف امریکی گاڑیاں شیورلیٹ ، فورڈ ، ڈاج اور سٹوڈی بیکر ہمارے ہاں دستیاب تھیں۔ یہ گاڑیاں پٹرول سے چلتی تھیں۔
ان پرانی فوجی لاریوں کے ڈرائیور بھی زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی ہوتے تھے۔
میانوالی ٹرانسپورٹ کمپنی چار لاریوں ( بسوں) پر مشتمل تھی ۔ دو بسیں نواب کالاباغ کی ملکیت تھیں، دو عیسی خیل کے رئیس خداداد خان کی۔ ایک لاری تلہ گنگ بس سروس کی بھی تھی۔
یہ لاریاں میانوالی سے عیسی خیل آتی جاتی تھیں۔ پرانی گاڑیاں ہونے کی وجہ سے یہ زیادہ تیز رفتار سے نہیں بھاگ سکتی تھیں۔۔ دن میں میانوالی سے عیسی خیل تک صرف ایک ہی پھیرا لگا سکتی تھیں۔ بعض اوقات گاڑی شرافت سے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر دیتی تو اسے مسافروں سے دھکا لگوایا جاتا تھا۔
لاری کو اب بس کہتے ہیں، مگر جنرل بس سٹینڈ کو اب بھی لاری اڈہ کہتے ہیں۔ 5 نومبر 2024
بجلی کی آمد سے پہلے راتوں کو اندھیرے کا راج ہوتا تھا۔ گھروں کے اندر تو لالٹین ، دیئے یا چمنی کے ذریعے روشنی کا بندوبست کر لیا جاتا تھا مگر گلیوں میں روشنی کا کوئی بندوبست نہ تھا۔
رات کے اندھیرے میں گھر سے باہر نکلنے سے لوگ گریز کرتے تھے۔ اس دور میں آج کی طرح ڈاکووں کا ڈر تو نہیں ہوتا تھا کیونکہ ڈاکو ہوتے ہی نہیں تھے۔ اندھیرے میں سانپ یا کتے کے کاٹنے کا ڈر ضرور ہوتا تھا۔ سانپ اور کتوں کے علاوہ جن بھوت کا خوف بھی عام تھا۔ جن بھوت دیکھے تو کسی نے نہیں تھے لیکن نانیوں دادیوں سے جنوں بھوتوں کے قصے سن سن کر بچے سمجھتے تھے کہ راتوں کو ہر گلی کے موڑ پر کوئی نہ کوئی جن بھوت بچوں کے شکار کے لیئے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ اس لیئے بچے رات کو گھر سے اکیلے باہر نہیں نکلتے تھے۔
بجلی کی آمد کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ جن بھوت پتہ نہیں کدھر غائب ہوگئے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ سانپ بھی روشنی کے ڈر سے باہر نہیں نکلتے۔
اب رات کو باہر پھرنے میں سانپ اور جنوں بھوتوں کی بجائے ڈاکوؤں کا ڈر ہوتا ہے جو سانپ اور جنات سے زیادہ خطرناک مخلوق ہیں ۔ 6 نومبر 2024
خوف اور حقیقت۔۔۔۔۔
داودخیل میں ہمارے گھر کے سامنے والی سڑک کے کنارے ہمارے رشتہ داروں کے ایک گھر میں ایک رکھ (کھگل کا درخت) ہوا کرتا تھا۔ اس درخت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ جنات کا مسکن ہے۔اس لیئے شام کے بعد اس گھر کے لوگ بھی اس درخت کے قریب نہیں جاتے تھے۔
سردیوں کی ایک تاریک رات تقریبا 11 بجے میں اپنے گھر واپس آتے ہوئے اس گھر کے قریب سے گذرا تو عین اس درخت کے نیچے دیوار پر سے ایک بھاری بھرکم چیز مجھ سے چند قدم آگے سڑک پر گری اور پھڑپھڑاتی ہوئی سڑک کے پار چلی گئی۔
میں خوف سے لرز اٹھا ۔ بھاگتا ہوا اپنے گھر پہنچا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ کارروائی جنات نے کی ہے۔ پھر یہ سوچ کر دل کو کچھ اطمینان ہوا کہ جو کچھ بھی تھا قدرت نے مجھے تو بچا لیا۔
صبح میں اس طرف سے گذرا تو حقیقت سامنے آگئی۔ سڑک کے کنارے ایک مرغ کی ہڈیاں اور پر پڑے دیکھ کر معلوم ہوا کہ کوئی بلی اس گھر سے ایک مرغ کو گردن سے پکڑے ہوئے دیوار پھلانگنے لگی تو مجھے آتے دیکھ کر ڈر کے مارے مرغ کو چھوڑ کر بھاگ گئی۔ مرغ اب آخری سانس لے رہا تھا۔
جب میں وہاں سے گزر گیا تو بلی نے واپس آکر اپنی کارروائی مکمل کر لی—- 9 نومبر 2024
دیہات میں سبزیاں دکانوں کی بجائے کنووں پر ملتی تھیں۔ داؤدخیل میں ہمارے گھر کے ارد گرد بہت سے کنوئیں تھے۔ شمال میں خانے خیل قبیلہ کی دادی زرو کا کنواں تھا ۔ دادی زرو قبیلہ کی سردار سمجھی جاتی تھیں۔ ہمارے دادا جی کی منہ بولی بہن تھیں اس لیئے ہم بھی انہیں دادی کہتے تھے اور وہ بھی ہم سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔
دادی زرو کے کنوئیں پر چاچا غلام محمد ملیار(ارائیں) کاشتکاری کرتے تھے۔ دادی کا حکم تھا کہ ان بچوں کو سبزیاں مفت دی جائیں۔
سردیوں میں شلجم ، مولی ، گاجر ، گوبھی ، پالک اور مٹر ہم دادی زرو کے کنوئیں سے ہی لایا کرتے تھے۔
شلجم اور گاجریں سرخ اور جامنوں(بینگن جیسا رنگ) کی ہوتی تھیں ۔ یہ گاجریں آج کی گاجروں کی طرح بے بو بے ذائقہ نہیں بلکہ شکر جیسی میٹھی اور بہت لذیذ ہوتی تھیں۔ بچے کچی گاجریں بھی بڑے شوق سے کھاتے تھے۔
گاجریں رات کو پانی میں ابال کر صبح نہار منہ کھائی جاتی تھیں۔ یہ نرم ٹھنڈی میٹھی گاجریں قوت بخش غذا کے علاوہ جگر کی گرمی کا بہترین علاج بھی سمجھی جاتی تھیں۔ ابلی ہوئی گاجروں کو کلچے کہتے تھے۔ اس موسم میں کلچے ہر گھر میں بنتے تھے۔
اب نہ وہ گاجریں ملتی ہیں نہ کلچے بنتے ہیں۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ—– 11 نومبر 2024
دیسی فاسٹ فوڈ
دوپہر کے کھانے کے لیئے سالن بنانے کا رواج نہ تھا۔ عام طور پر لوگ گھی شکر کے ساتھ روٹی کھا لیتے تھے۔ کچھ لوگ گھی شکر اور روٹی کی چوری بنا کر کھاتے تھے۔ گھی میں انڈہ فرائی کر کے بھی روٹی کے ساتھ کھایا جاتا تھا۔
ٹماٹر، لہسن، سبز مرچ اور پودینہ کی چٹنی بھی مقبول فاسٹ فوڈ ہوا کرتی تھی۔
یہ سادہ سی فاسٹ فوڈز لذیذ ہونے کے علاوہ توانائی سے بھرپور بھی ہوتی تھیں۔
آٹے گھی اور گڑ یا شکر سے اور بھی بہت سے لذیذ کھانے بنتے تھے۔ حلوہ ، روٹ ، میٹھا پراٹھا اور وشلی بہت شوق سے کھائی جاتی تھی۔ زیادہ تر فاسٹ فوڈز میٹھی ہوتی تھیں کیونکہ انہیں بنانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ آج کی مہنگی چٹ پٹی فاسٹ فوڈز سے یہ بہر حال بہت بہتر تھیں۔ مگر اب نہ وہ خالص چیزیں دستیاب ہیں نہ یہ فاسٹ فوڈز بنانے والے ہاتھ۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ == 12 نومبر 2024
شدید سردی میں رات کے پچھلے پہر زمین پر گرنے والے شبنم کے قطرے برف بن جاتے۔ ایسے لگتا جیسے زمین پر سفید چادر بچھی ہوئی ہے۔
اس سفیدی کو چنی یا چٹا کہتے تھے۔ ٹھنڈ سے جمی ہوئی برف کو کنگھر کہتے تھے۔ سردی کی انتہا کا ذکر کرتے ہوئے کہا جاتا تھا ” اللہ معاف کرے اکا کنگھر جمے پئے ہن “۔
اس قدر ٹھنڈ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچہ لوگ آئس کریم بنایا کرتے تھے۔ گڑ کا شربت پرچ یا پلیٹ میں ڈال کر رات کو کھلی ہوا میں رکھ دیتے تھے۔ رات کی ٹھنڈ میں شربت برف بن جاتا تھا جسے بچے آئس کریم یا قلفی کی طرح مزے سے کھایا کرتے تھے۔ اگر شربت میں تھوڑا سا دودھ ملا دیتے تو سچ مچ کی آئس کریم بن سکتی تھی، مگر ہمارے دور کے بچے اتنے عقلمند کہاں تھے—- 13 نومبر 2024
دریا کے کنارے واقع علاقہ کچہ کہلاتا ہے۔ داودخیل سے لے کر روکھڑی تک دریا کنارے کا علاقہ ضلع میانوالی کا کچہ کہلاتا ہے ۔داودخیل کے مغرب میں نہر کے مغربی کنارے سے دریا تک کا علاقہ داودخیل کچہ کے نام سے مشہور ہے ۔ اس میں توحید آباد( سابقہ نام گندا) سے لے کر بخارا تک کا آٹھ دس میل لمبا ، دوتین میل چوڑا علاقہ شامل ہے ۔ یہاں کی مٹی بہت زرخیز ہے
داودخیل کچہ کا جنوبی حصہ شملات (شاملات) کہلاتا ہے۔ شملات میں قبیلہ امیرے خیل اور علاول خیل کے کچھ خاندان آباد ہیں۔
کچے کا اپنا مخصوص کلچر تھا ۔ لوگوں کا پیشہ کاشتکاری تھا۔ کچے کے لوگ بہت سادہ مگر مخلص اور مہمان نواز تھے۔
کچہ بہت سی ضروریات زندگی کی سپلائی لائن ہوا کرتا تھا۔ خالص دیسی گھی، دیسی مرغیاں، انڈے، چھپر بنانے کا سامان کانہہ ، کانا، کوندر اور ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی جھاڑیاں جنہیں لئی کہتے تھے یہ سب چیزیں کچہ ہی سے اونٹوں پر لد کر آتی تھیں۔
اب اس علاقے میں پکی سڑکیں بن گئی ہیں۔ موٹر سائیکل اور پک اپ گاڑیاں آگئی ہیں۔ لوگوں کے لباس اور رسم و رواج میں بھی شہری اثرات در آئے ہیں۔ سادگی رخصت ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی بعض اچھی روایات بھی ختم ہو گئیں۔ صدیوں پرانی ایک تہذیب تھی جو مٹ گئی۔ اب کچہ اور شہری زندگی میں فرق بہت کم رہ گیا ہے۔16نومبر 2024
سردی کے اثر سے بچنے کے لیئے رات کو آگ جلانا ہمارے علاقے کا مستقل رواج تھا۔ لوگ سر شام ہی گھر کے کسی کمرے میں آگ جلا کر رات کو دیر تک آگ پر ہاتھ پاوں سینکتے رہتے تھے۔
ہمارے گھر کے شمالی حصے میں ایک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جسے ہم ” بھاء آلا کوٹھا ( آگ والا کمرہ) کہتے تھے۔ سردی کا موسم شروع ہوتے ہی ہمارے بستر اور سامان اس کمرے میں منتقل ہو جاتا تھا۔ کمرے کے وسط میں 3 × 3 فٹ کا مٹی کا بنا ہوا چولہا تھا جس میں سرشام سے رات گئے تک لئی اور سنڑسنڑیں کی لکڑیوں کی آگ جلتی رہتی تھی۔۔ ہم لوگ چولہے کے گرد چٹائیوں پر بیٹھ کر آگ تاپتے رہتے تھے۔ کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے۔
اگر ہم میں سے کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کا بستر بھی چولہے کے قریب چٹائی پر بچھا دیا جاتا اور امی رات بھر بیمار بچے کے سرہانے بیٹھ کر دعائیں پھونکتی رہتی تھیں۔ بیمار بچہ پانی مانگتا تو چھری آگ میں گرم کر کے پانی کے کٹورے میں ڈبو کر وہ نیم گرم پانی پلایا جاتا تھا۔ یہ خدا جانے کون سی سائنس تھی ، بہر حال دوتین بار نیم گرم پانی پینے سے بخار اتر جاتا تھا۔ نمونیا بخار کا یہ خاص علاج تھا۔
رات کو آگ تاپتے کا بندوبست ہر گھر میں ہوتا تھا۔ اب تو گیس والے ہیٹر آگئے ہیں مگر آگ تاپنے کا ایک اپنا مزا تھا۔ آگ کی تپش سے پورا کمرہ گرم ہو جاتا تھا اس لیئے بہت مزے کی نیند آتی تھی۔
انگریز ماضی پرست لوگ ہیں۔ ان کے ہاں جاگیر دار گھرانوں میں اب بھی لکڑیوں کی آگ جلائی جاتی ہے۔ یہ آگ دیوار سے ملحق آتشدان میں جلائی جاتی ہے۔۔ آگ کا دھواں کمرے کی چھت پر اینٹوں کی بنی چمنی سے نکلتا ہے۔
آتشدان اور چمنی والا بندوبست ہمارے ہاں بھی ہوتا تھا، مگر صرف آرائش کی خاطر۔ آگ چولہے میں ہی جلائی جاتی تھی۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ —- 17 نومبر 2024
صبح سویرے سردی میں بستر سے اٹھنے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا، مگر ہمیں صبح سویرے ناشتہ کر کے سکول جانا پڑتا تھا۔ سردی میں سکول جانے سے ہمارے گریز میں صرف امی ہماری حمایت کرتی تھیں۔ کہا کرتی تھیں ظالم سرکار نے کیسا غلط قانون بنایا ہے۔ ننھے منے معصوم بچوں کو سخت سردی میں سکول جانا پڑتا ہے۔ سردی سے کوئی بچہ بیمار ہو کر مر جائے تو اس کی موت کی ذمہ دار سرکار ہوگی۔
امی کی اس سوچ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ہر دوسرے تیسرے دن سکول نہ جانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے تھے۔ صبح اٹھتے ہی کہتے امی سر یا پیٹ یا ٹانگوں میں شدید درد ہے۔ آج سکول نہیں جا سکتا۔ امی کہتیں بیٹا بالکل نہ جاو ۔ پڑھنے کے لیئے تو ساری عمر پڑی ہے۔ دفع کرو سکول کو، تمہارے دو چار دن سکول نہ جانے سے قیامت نہیں آجائے گی۔
سردی کا خوف امی نے ہمارے ذہن میں ایسا بٹھایا کہ آج بھی سردی سے ڈر لگتا ہے۔
امی کا یہ خوف بے جا نہ تھا۔ ہم سے پہلے ہمارا ایک بھائی اور ایک بہن ڈیڑھ دوسال کی عمر میں نمونیا میں مبتلا ہو کر چل بسے تھے۔ ماں کا دل یہ صدمہ کبھی نہ بھلا سکا۔ اس لیئے وہ باقی بچوں کو سردی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہیں۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے — 18 نومبر 2024
سردیوں کی سفید دھوپ اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ سردیوں کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیئے انسانی جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے۔
ہمارے ہاں دھوپ کو چٹکا کہتے تھے۔ دس گیارہ بجے سے شام تین چار بجے تک لوگ دھوپ میں بیٹھ کر اس نعمت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔
ہمارے علاقے میں فجر سے لے کر دوپہر تک شمال سے جنوب کو تیز ہوا چلتی تھی جسے جابہ یا جابے کی ہوا کہتے تھے۔ جابہ دراصل شہر کے شمال مشرق میں واقع پہاڑ کا ایک درہ ہے ۔ یہ درہ پہاڑی نالے جابہ کی گزرگاہ ہے ۔ اس حوالے سے اس ہوا کو بھی جابہ کہتے تھے۔ جب یہ ہوا چل رہی ہوتی تو کہتے تھے ” جابہ گھلا کھلا اے” مطلب جابہ کی ہوا چل رہی ہے۔ اس ٹھنڈی یخ ہوا کی زد سے بچنے کے لیئے لوگ کسی دیوار کی آڑ میں دھوپ میں بیٹھتے تھے۔ اس آڑ کو اوھلہ کہتے تھے۔
رات کو آگ اور دن کو دھوپ سردی سے نمٹنے کا اچھا بندوبست ہوا کرتا تھا۔ اس لیئے لوگوں کو سردی زیادہ نہیں لگتی تھی۔ گرم کوٹ یا سویٹر کی بجائے کاٹن کی سادہ چادر ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔۔
سردی کم لگنے کی ایک وجہ خالص غذا بھی تھی۔ خالص دیسی گھی جسم کوسردی سے بچنے کی توانائی مہیا کرتا تھا- 19 نومبر 2024
ایک حالیہ انٹرویو میں مجھ سے پوچھا گیا آپ اردو انگریزی سرائیکی تینوں زبانوں میں یکساں روانی سے کیسے لکھ لیتے ہیں۔
میں نے کہا یہ میرا کمال نہیں دینے والے کی عنایت ہے کہ مجھے تینوں زبانوں پر یکساں عبور عطا کر دیا۔ میں تو خود حیران ہوتا ہوں کہ میرے لیئے ان تینوں زبانوں کا بولنا اور لکھنا اتنا آسان کیسے ہو گیا۔
اگلا سوال تھا آپ یہ فیصلہ کیسے کرتے ہیں کہ فلاں چیز فلاں زبان میں لکھنی ہے۔
میں نے کہا یہ فیصلہ میں اپنے قارئین کو دیکھ کر کرتا ہوں۔ انگریزی اخبار میں کالم ظاہر ہے انگریزی ہی میں لکھنے تھے۔ ایم اے انگلش کے لیئے میں نے جو درجن بھر کتابیں لکھیں وہ بھی انگریزی ہی میں ہونی چاہیئے تھیں اس لیئے اسی زبان میں لکھا۔
اردو میں عام قارئین کے لیئے لکھتا ہوں۔ اس میں بھی بحمداللہ میرا ایک منفرد انداز ہے جو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے یہ انداز اختیار کرنے پر محنت نہیں کی۔ یہ انداز میرا فطری انداز ہے۔
سرائیکی میں میں نے صرف گیت لکھے ہیں۔ میں نے توسرائیکی میں لکھنے کا کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ شاعر تو میں تھا مگر صرف اردو کا۔ سرائیکی میں گیت نگاری میں نے اپنے دوست لالا عطاءاللہ عیسی خیلوی کی فرمائش پر شروع کی ۔ لیکن دوسرے شاعروں کی طرح میں نے گیتوں کے ڈھیر نہیں لگائے۔ بہت کم لکھا لیکن جو بھی لکھا اللہ کے فضل سے پسند کیا گیا۔
اس انٹرویو کی کچھ باتیں ان شآءاللہ کل۔ 20 نومبر 2024
انٹرویو میں پوچھا گیا کہ اردو انگریزی سرائیکی میں سے آپ کو کون سی زبان میں لکھنا اچھا لگتا ہے۔
میں نے کہا جذبات کے اظہار کے لیئے اردو اور سرائیکی زیادہ موزوں ہے اور خیالات کے اظہار، تجزیئے اور دلائل کے لیئے انگریزی زیادہ مناسب ہے۔ موضوع کے مطابق مجھے تینوں زبانوں میں لکھنا اچھا لگتا ہے۔
اگلا سوال یہ تھا کہ آپ کی تحریروں کے بارے میں قارئین کا رد عمل کیسا ہوتا ہے۔
میرا جواب یہ تھا کہ بحمداللہ میری تحریروں کے قارئین کا رد عمل ہمیشہ خوشگوار رہا ہے۔ انگریزی اخبار پاکستان ٹائیمز کے میگزین ایڈیٹر سید اقبال جعفری صاحب نے کہا تھا میں صرف اس شخص کو دیکھنے کے لیئے میانوالی آیا ہوں جو میانوالی میں بیٹھ کر آکسفورڈ کی انگریزی لکھ رہا ہے۔
معروف نقاد جناب محمد سلیم الرحمن بھی میری انگریزی تحریروں کے مداح ہیں۔
پاکستان ٹائیمز کے چیف ایڈیٹر جناب مقبول شریف نے مجھ سے روزانہ کالم لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ اور بھی بہت سے قارئین میرے انگریزی کالم پسند کرتے تھے۔
ایم اے انگلش کے کورس سے متعلق میری کتابیں ملک بھر کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس میں مقبول ہیں۔
اردو میں میری پہلی کتاب درد کا سفیر دنیا بھر میں معروف ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1992 میں شائع ہوئی۔ قارئین کے اصرار پر اس کے مزید دو ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔ پی ڈی ایف فارمیٹ میں ہزاروں لوگ اس کتاب کے مطالعے سے مستفید ہو رہے ہیں۔
میری شاعری کے مجموعے جوتم سے کہہ نہ سکا کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی میرے نام خط میں بہت سراہا۔
“میرا میانوالی” کے عنوان سے میری اردو فیس بک پوسٹس کے قارئین بھی دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں ۔
میرے لکھے ہوئے سرائیکی گیتوں کے مداح بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
رب کریم کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے میرے قلم کو میرے لیئے وسیلہ تعارف اور ذریعہ عزت بنا دیا۔ 21 نومبر 2024
اس انٹرویو میں مجھ سے میری نعت گوئی کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔
میرا جواب یہ تھا کہ میری نعت روایتی نعت نہیں۔ میری نعتیں دل کی باتیں ہیں جو میں اپنے آقا علیہ السلام سے شیئر کرتا ہوں۔ کچھ ان کی مہربانیوں پر اظہار تشکر ، کچھ اپنے دکھ ، کچھ دنیا کے شکوے میری نعتوں کا موضوع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے اپنی مختلف نعتوں کے یہ اشعار پیش کیئے۔
حضور آپ کا یہ بھی احسان ہے
مری نعت ہی میری پہچان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ بھی ملا مجھ کو اس در سے ملا مجھ کو
جینے کا سلیقہ بھی مرنے کا قرینہ بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے طلب اتنا ملا مجھ کو کہ اب کیا مانگوں
اب تو آقا تری رحمت سے حیا آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداس راتوں میں چشم تر کے دیئے جلا کر میں منتظر ہوں
مری غریبی کی لاج رکھ لیں کبھی تو تشریف لائیں آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور تو خوب جانتے ہیں فقیر کے پاس اور کیا ہے
یہ چار آنسو جو آنکھ میں ہیں یہ خاک میں مل نہ جائیں آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ میرے بس میں نظام عالم نہ دل پہ ہے اختیار آقا
اسی کشاکش میں کر لیا ہے ضمیر کو تار تار آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کس وقت دست تقدیر چھین لے مجھ سے میرا سب کچھ
یہ نعت زندہ رہے جہاں میں فقیر کی یاد گار آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو فقیر راہ کو در پر بلا ہی لیجیئے
مانا کہ ہوں گناہ گار ، ہوں تو غلام آپ کا
22 نومبر 2024
یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ ؟
پارا چنار میں تین دن پہلے مسافر بسوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 44 مسافروں کو شہید کر دیا گیا۔ شہیدوں میں 6 ماہ کا معصوم بچہ بھی شامل تھا۔ اس کا کیا قصور ؟؟؟؟ قاتلوں کو سزا تو کجا ابھی تک ان کا سراغ ہی نہیں مل سکا۔ پختونخوا کے فنکار وزیر اعلی ناچنے گانے اور بڑھکیں لگانے کے علاوہ کوئی اور کام کر ہی نہیں سکتے۔
وفاقی حکومت کا بھی برا حال ہے۔ دہشت گردی بلوچستان میں ہو یا کے پی میں وزیراعظم صاحب ایک گھسا پٹا مذمتی بیان جاری فرما دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے کوئی عملی قدم اٹھانے کی زحمت وہ بھی گوارا نہیں فرماتے۔ اتنی یتیم مسکین وفاقی حکومت پہلے تو کبھی نہیں دیکھی۔ مذمتی بیانات سے تو دہشت گردی قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیئے۔ مگر ہمارے ہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ بھی ابھی تک قائم نہیں ہو سکا۔
قصور وفاقی حکومت کا ہے کہ صوبوں سے رابطہ ہی نہیں کیا جاتا۔
نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گرد آئے دن بے قصور عوام کے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ مگر حکومتیں صرف مذمتی بیانات اور ” نہیں چھوڑیں گے” جیسی بڑھکیں مارنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس اور فوج بھی دہشت گردوں کی دست درازیوں سے محفوظ نہیں۔
ایسا کب تک چلے گا ؟ کوئی ہے جو اس سوال کا جواب دے سکے ؟ سب کو اپنی اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے ۔ عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔
کوئی شرم ؟ کوئی حیا ؟؟ کوئی احساس؟؟؟ 23 نومبر 2024
نومبر 2019 کے یہی آخری دن تھے جب مظہر بیٹے نے کہا اباجی آئیں آپ کو عمرہ کرا لائیں۔
دودن میں پاسپورٹ بھی بن گیا۔ پنڈی صدر کی ایک دکان سے ہم نے احرام اور دوسری ضروری چیزیں بھی خرید لیں۔ تیسرے دن ہم رات تقریبا 8 بجے اسلام آباد ائیر پورٹ سے مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔
صبح تقریبا 3 بجے مدینہ منورہ پہنچے ۔ ائیر پورٹ سے اپنے قیام کے مقررہ ہوٹل پہنچنے کے لیئے ایک ٹیکسی لی۔ یہ پرانے ماڈل کی لمبی چوڑی امریکیFORD کار تھی۔ پندرہ سولہ سال عمر کا ڈرائیور 120 / 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی بھگاتے ہوئےدونوں کانوں سے فون لگائے پتہ نہیں کس سے بات چیت میں مصروف رہا۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں تو فون تھام رکھے تھے ، گاڑی کا سٹیرنگ دائیں پاوں کے انگوٹھے سے کنٹرول کر رہا تھا۔ بڑی خطرناک صورت حال تھی ۔ اس رفتار سے بھاگتی ہوئی گاڑی کسی بھی چیز سے ٹکراتی تو نہ گاڑی کا کچھ بچتا نہ مسافروں کا۔ ہم نے ڈرائیور کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ مردود جواب میں صرف مسکرا دیتا۔ وہ ملائشیا کا باشندہ تھا۔ نہ وہ ہماری زبان سمجھ سکتا تھا نہ ہم اس کی۔
بیس پچیس منٹ بعد ہم منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ ہمارا ہوٹل مسجد نبوی کے قریب ہی تھا۔ سامان کمرے میں رکھ کر ہم نماز فجر کے لیئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔ صحن میں قدم رکھتے ہی سبز گنبد پر نظر پڑی تو آنکھوں سے آنسو برسنے لگے اور ہاتھ بے اختیار دعا کے لیئے اٹھ گئے۔ وہ آنسو خوشی اور تشکر کے ملے جلے آنسو تھے۔ جذبات کی وہ کیفیت لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایک عجیب سی لذت تھی اس کیفیت میں۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک نعت میں کہا تھا
اب تو فقیر راہ کو در پر بلا ہی لیجیئے
مانا کہ ہوں گناہ گار، ہوں تو غلام آپ کا
مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ درخواست اتنی آسانی سے منظور ہو جائے گی۔ مگر آقا کے خصوصی کرم سے فی الفور منظور ہو گئی۔ کسی مرحلے پر ایک منٹ بھی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔۔۔۔۔ جناب کوثر نیازی کے الفاظ یاد آ رہے ہیں
یہ تو کرم ہے ان کا وگرنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں —- 29 نومبر 2024