MERA MIANWALI SEPTEMBER  2024

منورعلی ملک کے ستمبر  2024  کے فیس  بک   پرخطوط 

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسی خیل سے پچھلے ہفتے جواں سال شاعر صائم جی نے اپنا پہلا مجموعہ کلام “بہر کیف ” ڈاک سے ارسال کیا۔ یہ کتاب صوری لحاظ سے خوبصورت اور معنوی لحاظ سے مالامال ہے۔ کتاب کا عنوان ہی بہت معنی خیز ہے۔ یہ عنوان صائم جی نے اپنی ہی ایک غزل سے لیا ہے۔ اس غزل کے چند شعر دیکھیئے۔۔۔۔

اس پار سفر ہو کہ ہو اس پار بہر کیف

ہوتی ہے ہر اک راہ میں دیوار بہر کیف

ہاتھوں میں دیا لے کے چلے ہیں تو ہوا سے

رہنا ہے ہمیں بر سر پیکار بہر کیف

تم حور ہو ، جنت کی پری ہو کہ غزل ہو

جو کچھ بھی ہو قدرت کا ہو شہکار بہر کیف

صائم جی خدا سامنے ہو کر ہے نہاں کیوں؟

اب تک نہ کھلا ہم پہ یہ اسرار بہر کیف

ایک اور غزل کا یہ شعر دیکھیئے۔۔۔۔۔

عین ممکن ہے کسی روز پلٹ کر آئے

جو مرے خواب کا دروازہ کھلا چھوڑ گیا

شاعر کا اعتماد ملاحظہ کیجیئے

خود ہی بازار چلا جاوں گا پھر بکنے کو

میرے معیار کے کچھ دام تو ہو لینے دے

بے نیازی کا یہ انداز اپنی مثال آپ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

دکھا نہ پائیں جو رستہ کسی مسافر کو

تو کیا کرے کوئی رہ میں پڑے چراغوں کو

انصاف میں تاخیر پر یہ طنز ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔۔

ہلائی تھی کبھی زنجیر ہم نے،

سنا ہے اب پکارے جا رہے ہیں

بعض غزلوں میں کہیں کہیں کوئی نعتیہ شعر ہیرے کی طرح دمکتا نظر آتا ہے۔ جیسے ایک غزل کے یہ دو شعر۔۔۔۔۔۔

ازل سے اور ابد تلک تمام کائنات میں

مرے نبی کی ذات کو مثال کردیا گیا

مرے نبی کا معجزہ ہے عام سے غلام کو

اذان بخش دی گئی، بلال کر دیا گیا

چراغ، خواب اور آئینہ صائم کی شاعری میں نمایاں علامات ہیں ۔ یہ علامات مختلف معنوں میں بار بار سامنے آتی ہیں۔

صائم کی شاعری گل و بلبل اور زلف و رخسار کے ذکر کی بجائے حیات و کائنات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔ ابھی تو شعر کی فضاوں میں صائم کی پرواز کا آغاز ہے ۔ آگے مزید بلندیاں صائم کی منتظر ہیں ۔

صائم جی خوش قسمت ہیں کہ انہیں محمد مظہر نیازی جیسے قدر شناس استاد کی رہنمائی میسر ہے۔

مظہر نیازی اور صائم جی جیسے شاعروں کے ہوتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ۔۔۔۔۔۔ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔۔۔۔۔۔۔1 ستمبر       2025

موسی خیل کے ڈاکٹر محمد سخی خان معروف ماہر تعلیم، شاعر اور ادیب ہیں۔ صائم جی کے مجموعہ کلام کے ساتھ ان کی کتاب “میانی” بھی موصول ہوئی۔

تحقیق اور تخلیق دونوں میدانوں میں ڈاکٹر سخی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ زیر نظر کتاب “میانی” میانوالی کی زبان میں منظوم افسانوں کا مجموعہ ہے۔

مجموعے کے آغاز میں 25 صفحے کے تعارفی مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے میانوالی کی زبان پر بحث کرتے ہوئے اسے “میانی” کا نام دیا ہے۔ یہ نام میانہ خاندان کے بزرگ میاں علی کے حوالے سے دیا گیا ہے جن کے نام پر اس شہر کا نام میاں آلی ۔۔۔۔۔ میانوالی (میاں کی بستی) رکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی میاں علی صاحب سے عقیدت دیکھیئے کہ انہوں نے اس کتاب کا انتساب بھی میاں علی صاحب کے نام کر دیا ہے۔

اس کتاب میں خالص میانوالی کی زبان میں 12 منظوم افسانے شامل ہیں۔ یہ افسانے معاشرتی المیوں کی رلا دینے والی داستانیں ہیں۔ ٹوٹتے رشتوں اور غربت سے جنم لینے والی یہ داستانیں معاشرے کی بے حسی کا ماتم ہیں۔

انداز بیان میں دریا کی سی بے ساختہ روانی ہے۔ “بوہا” کے عنوان سے داستان کے یہ الفاظ دیکھئے۔ لڑائی کے بعد علیحدگی کے وقت دو بھائیوں نے اپنی آبائی چیزیں کس طرح تقسیم کیں۔

ٹک پٹیرے ورگے تھمیاں

کٹوی ڈمہنڑیں تھالیاں ونڈیاں

گائیاں وچھیاں بھیڈ تے بکری

کوٹھے کوٹھی چھجے چھپری

چمچی کاشت تیل کرنڈی

چلہے تے چھن چھوبی ونڈی

اوزے نپ کے دانڑیں ونڈے

وڈکی دے ڈوں گہنڑیں ونڈے

ہک دے حصے وڈکی آئی

اس چا ما دی گنڈھڑی چائی

ہک دے حصے وڈکا آیا

اس چا پیو دا بکسہ چایا

یہ کتاب بزم کوثر نیازی موسی خیل نے شائع کی ہے۔

ڈاکٹر محمد سخی خان نے پاکستانی لینگویجز اینڈ لٹریچر پر ریسرچ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کتاب کے تعارف میں بتاتے ہیں کہ میانوالی کی بولی کی ڈکشنری اور گرامر کی کتابیں بھی انہوں نے مرتب کر دی ہیں۔ ان کی اشاعت کے لیئے وسائل کی تلاش جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے یہ علمی کارنامے ضرور منظر عام پر آنے چاہئیں ۔ یہ یقینا میانوالی کے لوگوں پر ایک احسان ہو گا۔       2 ستمبر 2025

تنازعات اگر عدالتوں میں جائیں تو فیصلے ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ یہی تنازعات اگر انتظامی سطح پر حل کرائے جائیں تو چند منٹ میں حل ہو جاتے ہیں۔

ہمارے دوست پروفیسر حافظ محمد عبدالخالق کی چکڑالہ میں کچھ آبائی زمین تھی۔ ساتھ کی زمین والوں نے حد بندی توڑ کر ان کی زمین کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا۔

ایک دن پروفیسر صاحب نے یہ قصہ مجھے بتا کر کہا تھانہ چکڑالہ کے موجودہ ایس ایچ او ملک قربان حسین آپ کے علاقے کے رہنے والے ہیں۔ اگر آپ انہیں جانتے ہیں تو ان سے کہہ کر ہمارا یہ مسئلہ حل کروادیں۔

ڈھیر امید علی شاہ کے ملک قربان حسین کو میں بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ داودخیل سکول میں میرے سٹوڈنٹ بھی رہ چکے تھے۔ میں نے پروفیسر صاحب سے کہا آج ہی چل کر ان سے بات کر لیتے ہیں۔

ہم پروفیسر صاحب کی گاڑی میں تقریبا 4 بجے چکڑالہ تھانہ پہنچے۔ وہاں اس وقت صرف محرر موجود تھا۔ وہ بھی اپنا واقف نکلا۔ داودخیل کا خدر خیل نوجوان تھا۔ اس نے بتایا کہ ایس ایچ او صاحب تو اس وقت علاقے کے گشت پر گئے ہوئے ہیں۔ میں نے اسے کام کی نوعیت بتا کر کہا وہ آئیں تو انہیں بتادیں کہ ملک صاحب اس کام کے سلسلے میں آئے تھے۔

ہم وہاں سے نکل کر میانوالی واپس روانہ ہوئے ۔ جونہی چکڑالہ شہر سے باہر نکلے سامنے سے پولیس کی ایک گاڑی آتی نظر آئی۔ ملک قربان ہی گاڑی ڈرایئو کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر مجھے بیٹھا دیکھ کر انہوں نے ہمیں رکنے کا اشارہ دیا۔ تھانہ کے اے ایس آئی ملک اعجاز بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ بھی میرے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے۔ دونوں بہت تپاک سے ملے۔

ملک قربان نے چائے پانی کا بہت کہا مگر میں نے کہا شام ہو رہی ہے۔ ہمیں جلد واپس جانا ہے۔ آپ سے ایک کام تھا۔

ملک قربان نے کہا سر حکم کریں۔

میں نے تفصیل بتائی تو کہنے لگے سر جی اے تاں گل ای کوئی نئیں۔ پروفیسر صاحب کل صبح آجائیں۔ ان شآءاللہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

اگلی صبح پروفیسر صاحب تھانہ پہنچے تو ملک قربان نے دوسرے فریق کو پہلے ہی بلایا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے کہا جی ہم اپنی غلطی کی معافی چاہتے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے ہاتھ سے جہاں لکیر لگا دیں ہمیں وہی سرحد منظور ہے۔

حد بر آری کے لیئے ملک قربان نے علاقے کے پٹواری کو بھی بلایا ہوا تھا۔ چند منٹوں میں مسئلہ حل ہوگیا۔

یہی کیس اگر کسی سول جج کی عدالت میں جاتا تو فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے۔۔ 4ستمبر 2025  

چونکیں ویران ہو گئیں۔۔۔۔۔۔

ہر محلے کے کسی صاحب حیثیت گھر سے ملحق لوگوں کے مل بیٹھنے کی جگہ کو چونک کہتے تھے۔ لوگوں کے بیٹھنے کے لیئے چارپائیاں اور پینے کے لیئے پانی کا بندوبست ہوتا تھا۔ لوگ دن بھر چونک پر بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتے تھے۔

داودخیل میں ہمارے دادا جی ملک مبارک علی کی چونک، محلہ علاول خیل میں سید گل عباس شاہ کی چونک، محلہ لمے خیل میں چاچا چمن خان کی چونک ، محلہ داوخیل میں حق داد خان نمبردار کی چونک اور محلہ سالار میں چاچا دوست محمد خان نیکوخیل کی چونک شہر کی مشہور چونکیں تھیں۔

سردیوں میں چونک دھوپ میں کھلے میدان میں لگتی تھی۔ گرمیوں میں لوگوں کے بیٹھنے کے لیئے بڑے سائیز کا چھپر ہوا کرتا تھا۔

ہماری چونک دادا جی کی وفات کے بعد ہمارے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی اور چچا ملک محمد صفدر علی نے آباد رکھی۔ چاچا ہدایت اللہ خان نمبر دار، چاچا مقرب خان بہرام خیل، ماسٹر نواب خان، ان کے بھائی چاچا سہراب خان ، بہادر خان المعروف فوجی، ماسٹر محمد حسین آزاد اور سید ذاکر شاہ صاحب اس چونک کے مستقبل بہاکی( بیٹھنے والے لوگ) تھے۔

1987 میں بھائی جان انور اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ دوتین سال بعد چچا صفدر بھی عدم آباد جا بسے تو چونک ویران ہوگئی۔ شہر کی بقیہ چونکیں بھی بزرگوں کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ اجڑ گئیں۔ مل بیٹھنے کا رواج ہی ختم ہو گیا۔

ملازمت کے دوران میں داودخیل سے باہر رہا۔ اس لیئے ہماری چونک دوبارہ آباد نہ ہو سکی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے ایک آدھ بار چونک کو آباد کرنے کی کوشش کی ، مگر رواج ہی ختم ہو چکا تھا۔ لوگوں کے پاس چونک پر بیٹھنے کا وقت ہی نہ تھا۔ اس لیئے یہ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا۔

اب تو صرف اس دور کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔ وہ رونقیں ختم۔ چونکوں پر زیادہ تر لوگوں کے ذاتی مسائل پر بات چیت اور مشاورت ہوتی تھی۔ بعض بزرگوں کی دلچسپ گفتگو پر قہقہے دن بھر گونجتے رہتے تھے۔ بڑا خوبصورت دور تھا۔

گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔5 ستمبر 2025

صفر کی چوری۔۔۔۔۔۔۔

ماہ صفر کے آخری بدھ کو ایک مخصوص قسم کی چوری بنا کر کھانا ایک قدیم رسم ہے جو ہمارے گھر سمیت کئی گھروں میں آج بھی چل رہی ہے۔ یہ چوری سال بھر میں صرف اسی ایک دن بنتی ہے۔

بہت سادہ سی لیکن بے حد لذیذ چیز ہے۔۔ توے پر موٹی سی روٹی پکا کر اسے گرائنڈ کر کے اس میں خالص دیسی گھی اور سرخ شکر ملا دیں ۔ بس یہی ہے صفر کی چوری۔ اب تو گرائنڈر آگئے ہیں پہلے زمانے میں مصالحہ پیسنے کی دوری اور ڈنڈے سے روٹی کو پیس کر چوری بنائی جاتی تھی ۔

بنانے میں اتنی آسان کہ مرد بھی جب چاہیں بنا سکتے ہیں۔ مگر رواج یہ ہے کہ یہ چوری صرف ماہ صفر کے آخری بدھ کے دن خواتین بناتی ہیں۔ اسی نسبت سے اس دن کو چوری روزہ بھی کہتے تھے ۔۔۔۔ 6 ستمبر 2025

دیہات میں لوگ میٹھا بہت شوق سے کھاتے تھے۔ کھانے کے بعد کھانا ہضم کرنے کے لیئے گڑ کی ایک روڑی تو تقریبا سب لوگ کھاتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی قسم کے میٹھے پکوان بھی بنتے تھے۔ صبح ناشتے میں میٹھا پراٹھا یا وشلی اور دوپہر کے کھانے میں گھی شکر یا چوری کھانے کا رواج عام تھا۔ نمکین سالن شام کے کھانے کے لیئے ہی بنتا تھا۔

صرف آٹا گھی اور گڑ یا شکر سے مندرجہ ذیل چیزیں بنتی تھیں۔

1۔ میٹھا پراٹھا

2۔ میٹھی وشلی

3۔ روٹ

4۔ سادہ حلوہ

5۔ دودھی والا حلوہ۔۔ اسے مکھڈی حلوہ یا صبونی حلوہ بھی کہتے تھے۔

6۔ کر کنڑاں ۔۔۔۔ یہ مخصوص حلوہ سردیوں کی جھڑیوں کے دوران سردی کے اثر کو کم کرنے کے لیئے کھایا جاتا تھا۔

7۔ پنجوری یا پنجیری

8۔ صفر کی چوری۔۔۔۔۔ صفر کے مہینے کے آخری بدھ کو بنایا کرتے تھے۔

صفر کی چوری اور پنجیری میں فرق یہ تھا کہ پنجیری آٹے یا سوجی سے بنتی تھی جبکہ صفر کی چوری روٹی سے۔

9۔ پت ۔۔۔۔ گڑ یا شکر اور خالص گھی کا شیرہ ۔ یہ بچوں کا پسندیدہ دوپہر کا کھانا ہوا کرتا تھا۔

10۔ لیٹی۔۔۔۔۔۔ بھنی ہوئی گندم کے آٹے کا پتلا حلوہ۔۔ یہ زود ہضم حلوہ مریضوں کی خوراک تھا۔

ان کے علاوہ آٹے گڑ اور خالص دیسی گھی سے بننے والے کچھ اور کھانے بھی تھے۔ اس وقت نام یاد نہیں آرہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا میٹھا کھانے کے باوجود لوگوں کو نہ شوگر کا مرض ہوتا تھا نہ گردوں کا مسئلہ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ چلتے پھرتے اور جسمانی مشقت کرتے تھے۔ اس لیئے شوگر ان کے جسم میں جمع ہونے کی بجائے جذب ہو کر توانائی فراہم کرتی تھی۔ 7 ستمبر 2025

وہ بھی کیا زمانہ تھا جب MB-693 گولی ہر مرض کا علاج سمجھی جاتی تھی۔ دیہات میں نہ ڈاکٹر ہوتے تھے نہ میڈیکل سٹور۔ یہ گولیاں کریانے کی دکانوں پر بکتی تھیں۔ ہم اپنے محلے کے دکان دار چاچا اولیا کی دکان سے خریدا کرتے تھے۔ سفید رنگ کی پینا ڈول جیسی ان گولیوں کا کوئی ذائقہ نہیں تھا۔

گلے کی خرابی ہو یا بخار ، سر میں درد ہو یا کان میں ہماری امی ہمیں پانی کے ساتھ -MB 693 ہی دیتی تھیں اور ہم ٹھیک ٹھاک ہو جاتے تھے۔

امی بہت دریا دل تھیں۔ ان گولیوں کا اچھا خاصا سٹاک ہر وقت گھر میں موجود رہتا تھا۔ اڑوس پڑوس کے لوگوں میں بھی یہ گولیاں بانٹتی رہتی تھیں۔ کسی نے آکر بتایا کہ میرے بچے کو بخارہے تو فورا دوچار گولیاں نکال کر اسے دے دیتی تھیں۔

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی پڑوسن نے آکر کہا ” ڈیکھاں کوئی ایم بی نی گولی پئی ہوسنے ؟ میڈے تاں سر ناں درد نی پیا ویناں”۔

امی فورا دوچار گولیاں اسے پکڑا دیتی تھیں۔ MB- 693 دراصل May & Baker کمپنی کی بنائی ہوئی Sulfapyridine کی گولیاں ہوتی تھیں ۔ بہت عرصہ تک یہ گولیاں مارکیٹ میں دستیاب رہیں۔ پھر یہ کہہ کر تمام Sulfa drugs پر پابندی لگا دی گئی کہ جی یہ صحت کے لیئے نقصان دہ ہیں۔ حالانکہ اگر یہ نقصان دہ ہوتیں تو ہم لوگ بچپن ہی میں قبروں میں پہنچ جاتے۔ یہ ڈاکٹر لوگ ایویں ای لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ پہلے کئی سال تک Sulfa drugs تجویز کرتے رہے۔ پھر ایک دن اعلان کر دیا کہ یہ تو صحت کے لیئے مضر ہیں۔8 ستمبر 2025

اپنی ایک بہت پرانی غزل۔۔۔۔۔۔۔

یوں ہنس کر وہ ملتا ہے

جیسے اب بھی میرا ہے

موسم کتنا پیارا ہے

اس کی آنکھوں جیسا ہے

حال کسی نے پوچھا ہے

صرف اک آنسو ٹپکا ہے

دکھ بس صرف اس بات کا ہے

تو بھی لوگوں جیسا ہے

کل پھر اس کو دیکھا ہے

پھر وہ شخص اکیلا ہے

دل تو بہلا رہتا ہے

ورنہ کون کسی کا ہے

کام بہت سا رہتا ہے

اور واپس بھی جانا ہے

10 ستمبر 2025

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

11 ستمبر 1948 کو وہ آواز ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی جو اقتدار کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتی تھی۔

کیا کیا لالچ نہ دیئے گئے۔۔۔۔ ہائی کورٹ کے جج کی کرسی پیش کی گئی کہ آپ پاکستان کا مطالبہ چھوڑیں ہائی کورٹ کے جج بن جایئں۔ قائداعظم نے صاف انکار کردیا۔

پھر کہا گیا ہم آپ کو متحدہ ہندوستان (پاکستان + بھارت) کا صدر بنا دیتے ہیں۔ قائداعظم نے کہا مجھے صرف اور صرف پاکستان چاہیئے۔ میں اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا۔ مجھے اپنی قوم کے لیئے الگ آزاد اسلامی ملک چاہیئے۔

بالآخر وہی ہوا جو قائداعظم چاہتے تھے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں جی پاکستان بنتے وقت بہت قتل و غارت ہوئی۔

یہ بھی دیکھیں کہ پاکستان نہ بنتا تو قتل و غارت کئی گنا زیادہ ہوتی۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کا حال دیکھ لیجیے۔

متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کبھی نہ بن سکتی کیونکہ ہندو تعداد میں 5 گنا زیادہ تھے۔ مسلمان برصغیر کی آزادی کے بعد بھی غلام ہی رہتے۔

قائداعظم پر قوم کا اعتماد دیکھیئے ۔ قیام پاکستان سے قبل ایک دن ہماری چونک پر ریڈیو پر قائداعظم کی تقریر چل رہی تھی۔ تقریر انگریزی میں تھی۔چاچا مقرب خان بہرام خیل ہر جملے پر تائید میں سر ہلا رہے تھے۔ کسی نے کہا مقرب خان تم تو چٹے ان پڑھ ہو تم یہ تقریر کیسے سمجھ سکتے ہو ؟

چاچا مقرب خان نے کہا ” میکو صرف اتنا پتہ ہے جو بابا جناح جو کجھ وی آکھنا پیا ہے سچ آکھنا پیا ہے”۔۔۔۔11 ستمبر 2025

ٹرین کے سفر کا ایک اپنا لطف تھا۔ یہ سفر کم خرچ بھی تھا آرام دہ بھی۔ ہمارے داودخیل ریلوے سٹیشن سے پنڈی، ملتان ، سرگودہا، لاہور اور ماڑی انڈس کی ٹرینیں ملتی تھیں۔

صبح سات بجے کے قریب ایک ٹرین لاہور سے ماڑی انڈس آتی تھی۔ شام 5 بجے یہی ٹرین لاہور واپس جاتی تھی۔ صبح تقریبا اسی وقت ملتان سے پنڈی جانے والی ایک ٹرین بھی آتی تھی۔ شام 5 بجے ایک ٹرین پنڈی سے ملتان جاتی تھی۔ رات دس بجے عطاءاللہ ایکسپریس نام کی ایک ٹرین پشاور سے ملتان جاتی تھی۔ یہ ٹرین میاں عطاءاللہ نامی ریلوے کے وزیر نے جاری کی تھی۔ لوگوں نے اس ٹرین کا نام ہی عطاءاللہ ایکسپریس رکھ دیا۔

صبح دس بجے ماڑی انڈس سے ایک ٹرین کندیاں جاتی تھی جسے ڈبے کہتے تھے۔ یہ ٹرین تقریبا 2 بجے ماڑی انڈس واپس جاتی تھی۔

3 بجے بعد دوپہر کندیاں سے ایک ریل کار پنڈی جاتی تھی۔ صبح 4 بجے ایک اور ریل کار ماڑی انڈس سے پنڈی جاتی تھی۔ اسی وقت پشاور سے ملتان جانے والی ایک ٹرین بھی آتی تھی۔

یوں دن بھر میں آٹھ دس گاڑیاں داودخیل سٹیشن سے گذرتی تھیں۔ سٹیشن پر دن بھر رونق لگی رہتی تھی۔ یہ رونق آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک برقرار رہی ۔

اب سٹیشن ویران پڑے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں ایک آدھ ٹرین گذرتی ہے۔

سنا ہے یہ ویرانی ہماری حکومتوں اور ٹرانسپورٹ مافیا کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔12 ستمبر 2025

لاہور ٹرین۔۔۔۔۔۔

میانوالی کے لوگ اسے لہور آلی گڈی ، لاہور کے لوگ ماڑی انڈس ٹرین اور شیخوپورہ کے لوگ باو ٹرین ( بابو ٹرین ) کہتے تھے۔ ہم نے تو جب ہوش سنبھالا اسے روزانہ آتے جاتے ہی دیکھا۔ بزرگ بتاتے تھے کہ یہ ٹرین انگریز حکومت نے چلائی تھی۔ بنوں اور لکی مروت وغیرہ کی سواریاں، ڈاک اور سامان ماڑی انڈس سٹیشن پر اس ٹرین سے چھوٹی ٹرین پر منتقل ہو جاتے تھے ، جو دریا کے پار کالاباغ عیسی خیل سے گذر کر بنوں لکی مروت وغیرہ جاتی تھی۔

میانوالی سے لاہور تک اس ٹرین کا سفر بہت مزے کا ہوتا تھا۔ ٹرین 5 بجے شام ماڑی انڈس سے لاہور روانہ ہوتی اور صبح 7 بجے لاہور پہنچتی تھی۔ لوگ بڑے مزے سے سو کر سفر طے کرتے تھے۔ جب ہم لاہور کالج میں پڑھتے تھے تو اسی ٹرین سے آتے جاتے تھے۔مجھے تو ٹرین میں نیند نہیں آتی تھی اس لییے میں چائے پی کر اور سگریٹ پھونک کر آرام سے رات گذار لیتا تھا۔

کندیاں، سرگودہا اور فیصل آباد سٹیشنوں پر ٹرین آدھا پونا گھنٹہ رکتی تھی۔

سرگودہا سے چک جھمرہ پہنچ کر ٹرین دائیں جانب فیصل آباد کی طرف مڑ جاتی تھی۔ فیصل آباد سے ایک گھنٹہ بعد واپس چک جھمرہ آکر لاہور کی راہ لیتی تھی۔

صبح 6 بجے کے قریب شیخوپورہ پہنچ کر یہ بابو ٹرین کہلاتی تھی کیونکہ لاہور کے دفتروں میں کام کرنے والے بے شمار بابو لوگ ( کلرک) اسی ٹرین سے آتے جاتے تھے۔ صبح 7 بجے ٹرین منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھی۔

بیس پچیس سال پہلے ریلوے پر زوال آیا تو یہ ٹرین بھی بند ہو گئی۔ اب سنا ہے پھر چل رہی ہے۔13 ستمبر 2025

سردیوں کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حسب توفیق گرم ملبوسات تیار کرائے یا خریدے جا رہے ہیں۔۔ عام طور پر تو پچھلے سال کے سویٹروں ، جرسیوں اور کوٹوں سے کام چل جاتا ہے۔ مگر نوجوان لوگ نئے فیشن اور ڈیزائن کی خاطر نئے ملبوسات چاہتے ہیں۔۔۔ لوگوں کے پاس پیسہ آیا تو لنڈے کا رواج بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔

ہمارے بچپن کے دور میں سردی کے لیئے خصوصی ملبوسات کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔ دیہات میں تو سویٹروں جرسیوں کوٹوں کا رواج ہی نہ تھا۔ لوگ کاٹن کی چادریں اوڑھ کر گذارہ چلا لیتے تھے۔ بہت زیادہ سردی ہوتی تو لوئی ، شال یا کمبل اوڑھ لیتے تھے۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ خالص غذا اور متحرک زندگی کے باعث لوگوں کو سردی لگتی بھی بہت کم تھی۔

سردی کے استقبال کے لیئے خواتین رضائیوں اور لحافوں سے کپاس نکال کر اسے دھن کر دوبارہ رضائیوں اور لحافوں میں بھر دیتی تھیں۔

راتوں کو گھروں میں آگ جلا کر سردی کا مقابلہ کیا جاتا تھا ۔ دن کو دھوپ اور رات کو آگ سردی کے احساس کو بہت کم کر دیتی تھی۔

غذا میں میٹھی چیزیں زیادہ استعمال ہوتی تھیں۔۔۔۔۔ صرف موسم سرما کی جھڑیوں کے دوران سردی بڑھ جانے سے لوگ چند دن گھروں میں بند رہتے تھے۔ ورنہ زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔18 ستمبر 2025

گندم کی کاشت کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اب تو آبپاشی کے لیئے ٹیوب ویل اور نہروں کی سہولت دستیاب ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب آبپاشی کا تمام تر دارومدار بارش پر ہوتا تھا۔ ساون کی بارشوں کا پانی زیر زمین محفوظ کر کے اکتوبر نومبر میں اسی پانی کی نمی (وتر) میں گندم کاشت کی جاتی تھی۔ پھر سردیوں کی بارش اس فصل کی مزید پرورش کرتی تھی۔

آبپاشی کی ذمہ داری قدرت نے خود لے رکھی تھی۔ کسانوں کو کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اللہ پر توکل کرنے والے لوگ تھے اور اللہ انہیں مایوس نہیں کرتا تھا۔ ان کی ضرورت کے مطابق پانی بارش کی صورت میں فراہم کر دیتا تھا۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا تھا۔

دیہی معیشت کی بنیاد ہی گندم تھی۔ کھانے کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی بھی گندم بیچ کر پوری کی جاتی تھیں۔ گھر کا سودا گندم کے وعدے پر ادھار لیا جاتا تھا۔ فصل اٹھانے کے بعد سب سے پہلے یہ قرض اتارا جاتا تھا۔ بچوں کی شادیوں کے تمام اخراجات بھی گندم بیچ کر پورے کیئے جاتے تھے۔ بچوں کو جیب خرچ کے لییے نقد رقم کی بجائے گندم ملتی تھی۔ بچے جھولیوں میں گندم لے کر دکانوں پر جاتے۔ دکان دار گندم ترازو میں تول کر اتنی مالیت کی چیزیں بچوں کو دے دیتے تھے۔

رزق میں برکت تھی۔ ہمارے علاقے میں زیادہ تر کسانوں کے پاس پندرہ بیس کنال سے زیادہ زمین نہ تھی۔ اسی تھوڑی سی زمین کی پیداوار سے تمام ضروریات پوری ہو جاتی تھیں۔ لوگ مطمئن تھے ۔۔۔۔۔۔۔

اب سب کچھ ہے مگر اطمینان میسر نہیں۔19 ستمبر 2025

الحمد للہ ، مسئلہ حل ہو گیا

پچھلے ہفتے میری ضرورت کے مطابق آلہ سماعت(hearing device) لاہور کی ایک دکان سےمل گیا۔

میرا سماعت کا مسئلہ یوں تو بہت پرانا ہے۔ بچپن میں کانوں میں درد رہتا تھا۔ امی کو اللہ کریم جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے (ان کا نام ہی غلام جنت تھا) اڑوس پڑوس کی ماسیوں کے ماہرانہ مشوروں پر مختلف ٹوٹکے آزماتی رہیں۔ ان سے درد تو جاتا رہا لیکن سماعت متاثر ہوئی۔ پھر بھی نقص اتنا کم تھا کہ کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ میں کچھ اونچا سنتا ہوں۔

عمر کے ساتھ ساتھ سماعت کا نقص بھی بڑھتا رہا۔ 2010 میں اسی وجہ سے میں نے ٹیوشن پڑھانا بھی چھوڑ دیا۔ تقریبات میں آنا جانا لوگوں سے ملنا ملانا بھی ترک کر دیا۔ اپنا سارا وقت پڑھنے لکھنے میں صرف کرنے لگا۔

جو لوگ میرے اس عذر سے واقف تھے وہ تو کسی نہ کسی طرح کام چلا لیتے تھے۔ مثلا میرے عزیز دوست مجیب اللہ خان نیازی جب بھی مجھ سے ملنے آتے کاغذ اور قلم ساتھ لے کر آتے تھے۔ جو کچھ پوچھنا ہوتا تھا کاغذ پر لکھ دیتے اور میں زبانی جواب دے دیتا تھا۔ انہیں انگریزی سیکھنے کا بہت شوق تھا اس لیئے ہمارے سوال جواب انگریزی ہی میں ہوتے تھے۔

چار سال پہلے اسلام آباد میں قیام کے دوران بلیو ایریا کی ایک دکان سے مظہر بیٹے نے ایک اچھی قسم کا آلہ سماعت لے کر دیا تھا۔ اس سے خاصا فرق پڑا۔ لیکن تقریبا ایک سال بعد وہ بھی کام چھوڑ گیا ۔

یہ نیا آلہ سماعت جرمنی کی کمپنی Signia کا بنا ہوا ہے۔ آلہ کا نام Signia Prompt SP اور قیمت 40000 ہے۔ یہ بالکل نئی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔ ارد گرد کی آوازوں کے مطابق اپنا والیوم خود adjust کر لیتا ہے۔ اللہ کے فضل سے اب میں نارمل انداز میں لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہوں۔ پرندوں اور جانوروں کی آوازیں بھی سن سکتا ہوں۔ پہلے تو یہ حال تھا کہ ٹی وی پر خبروں کے tickers پڑھ کر حالات حاضرہ سے کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل کر لیتا تھا۔ خبریں یا پروگرام سن نہیں سکتا تھا۔

اللہ کرے یہ نیا آلہ سماعت مسئلے کا مستقل حل ثابت ہو ۔۔۔ 20 ستمبر 2025

اس موسم میں باجرے کی فصل پک کر تیار ہو جاتی تھی۔ باجرے کی فصل تیار ہوتے ہی روس کے علاقے سے آئے ہوئے ہزاروں بٹیر اس پر حملہ آور ہوتے تھے۔

بٹیر دن کی روشنی میں نظر نہیں آتے تھے۔ وہ فجر سے ذرا پہلے اندھیرے میں کھیتوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ادھر شکاری ان کی تاک میں بیٹھے ہوتے تھے۔ ہمارے علاقے میں جال کے ذریعے بٹیروں کا شکار ہوتا تھا۔ شکار کا ایک پورا سسٹم تھا جسے لاوا کہتے تھے۔ لاوا پنجروں میں بند سکھائے ہوئے بٹیروں اور جال پر مشتمل ہوتا تھا۔ لاوے کے بٹیر سحر کے وقت بلند آواز میں ایک خاص قسم کی بولی بولتے تھے۔ سننے میں تو یہ آواز پت پڑت لگتی تھی مگر دراصل یہ دوسرے بٹیروں کو بلانے کی مخصوص آواز تھی۔ یہ آواز سنتے ہی آزاد بٹیر اپنے ساتھیوں سے ملنے کے لیئے اڑ کر کھیت کے کنارے پر پہنچتے تو آگے لگے ہوئے جال میں پھنس کر رہ جاتے۔ شکاری انہیں پکڑ کر تھیلوں میں ڈال لیتے تھے۔

ہمارے داودخیل میں چاچا صالح محمد درکھان اور چاچا گھیبہ سنار کے بیٹے بٹیروں کے شکاری تھے۔ لوگ ان سے کھانے اور لڑانے کے لیئے بٹیر خریدتے تھے۔ بٹیری ایک روپے کی آٹھ اور بٹیرے ایک روپے کے چار ملتے تھے۔

جب سے ہمارے علاقے میں بجلی آئی بٹیروں نے بجلی کی چکاچوند روشنی سے گھبرا کر اس علاقے میں آنا چھوڑ دیا۔ اب تو وہ شکاری بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔۔۔21 ستمبر 2025

بٹیر بازی نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ ہر گلی کے موڑ پر بٹیروں کی لڑائی دیکھنے کو ملتی تھی۔ سب سے سینیئر بٹیر بازوں کا ایک الگ گروپ تھا۔

ہر اتوار کو شہر سے باہر نہر کے کنارے ایک بڑا میچ ہوتا تھا جسے پڑی کہتے تھے۔ اس میچ میں داودخیل کے علاوہ موچھ اور پائی خیل کے بٹیر باز بھی شریک ہوتے تھے۔ داودخیل کے سینیر بٹیر بازوں کا گروپ غلام مصطفی خان خانے خیل ، لالا محمد عظیم ہاشمی ، ہدایت اللہ سنار اور ماسٹر دراز خان پر مشتمل تھا۔ اتوار کے میچ میں ہزاروں روپے کی بازی لگتی تھی۔ جیتنے والے اچھی خاصی رقم کما لیتے تھے۔

بڑوں کو دیکھ کر بچوں کو بھی بٹیر بازی کا شوق لاحق ہو گیا۔ وہ گلی محلوں میں بٹیرے لڑا کر اپنا شوق پورا کر لیتے تھے۔ بچوں کے بٹیربازی کے میچوں میں پیسوں کی بازی تو نہیں لگتی تھی، صرف دل بہلانے کا ایک بہانہ تھا۔ جیتنے والے اور ان کے حامی نعروں سے آسمان سر پہ اٹھا لیتے تھے۔

ایک بار میدان سے بھاگنے والا بٹیر دوبارہ کبھی نہیں لڑتا تھا۔ کبھی کبھار ایک آدھ بٹیر شکست کے بعد دوبارہ میدان میں آجاتا تھا۔ ایسے بٹیر کو بھگلی بٹیر کہتے تھے۔ بڑے بٹیر باز تو ایسے بٹیر کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر بچے بھگلی بٹیر لڑا کر بھی شغل لگائے رکھتے تھے۔

ایک دفعہ ممتاز بھائی اور میں نے دو دو آنے ڈال کر چار آنے کا ایک لڑاکا بٹیر خریدا۔ یہ بٹیر بڑی عجیب چیز تھا۔ لڑائی شروع ہوتے ہی ایک دو چونچیں مار کر بھاگ جاتا تھا، اور پھر فورا واپس آکر اسی بٹیر سے لڑنے لگتا تھا۔ اس طرح بار بار لڑ کر وہ بالآخر مخالف بٹیر کو مار بھگاتا تھا۔

پورے محلے میں ہمارے اس شیر کی دھاک بیٹھ گئی۔ پھر ایک صبح ہم نے دیکھا تو ہمارا شیر پنجری میں مرا پڑا تھا۔ اس کی گردن کے گرد بندھا ہوا ریشمی دھاگہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسے کسی نے قتل کر دیا ہے۔ یہ حرکت یقینا ہمارے کسی کزن نے کی تھی مگر ہم ان سے لڑ بھی نہیں سکتے تھے کہ عمر میں وہ سب ہم سے بڑے تھے۔ ہم صرف رو ہی سکتے تھے۔ سو بہت روئے۔

ممتاز بھائی اور میں نے صحن کے ایک کونے میں اس بٹیر کی خوبصورت قبر بنائی اور ہر صبح اس قبر کے پاس بیٹھ کر باقاعدہ رویا بھی کرتے تھے۔دوچار دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر ایک صبح ہم نے دیکھا تو قبر کھلی پڑی تھی اور بٹیر غائب۔ رات کی تاریکی میں کوئی بلی اسے نکال کر لے گئی تھی۔

اپنے اس جانو کی موت سے دل ایسا ٹوٹا کہ ہم نے بٹیر بازی کا شغل ہی ترک کر دیا۔ کسی شاعر نے شاید ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا تھا۔۔۔

تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو

کسی سے ربط بڑھانے کا حوصلہ نہ رہا—22 ستمبر 2025

توں نئیں تے تیریاں یاداں سہی

ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی 22 ستمبر کی شام اکرم بیٹے اور میں نے علی بیٹے(محمد علی ملک) کی سالگرہ منائی۔

علی بیٹے کو اللہ نے 18 سال کی عمر میں دسمبر 2010 میں اپنے پاس واپس بلا لیا تھا۔ مگر ہم ہر سال 22 ستمبر کو بھیگتی آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کیک کاٹ کر اس کی سالگرہ مناتے ہیں۔

ادھر اسلام آباد میں اس کے ابو مظہر علی ملک(علی عمران) بھی اس کی سالگرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔

جانے والے کہاں لوٹ کر آتے ہیں مگر کسی نہ کسی طرح دل کو بہلانا بہر حال ضروری ہوتا ہے ورنہ جینا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک۔23 ستمبر 2025

اپنی ایک پرانی سرائیکی غزل کے چند شعر ۔۔۔۔۔۔۔

بے شک خالی ٹور وے سائیں

ناں ڈس بوہا ہور وے سائیں

کجھ ڈے ناں ڈے تیڈی مرضی

منگتاں دا کیا زور وے سائیں

تئیں جیہا جگ وچ ہور نہ کوئی

میں جئے لکھاں ہور وے سائیں

ناں رکھ بھاریاں سوچاں دی چھت

تن دی کندھ کمزور وے سائیں

اگلے درد پرانڑیں تھی گئے

ڈکھ ڈے نواں نکور وے سائیں

24 ستمبر 2025

پچھلے چند دن سے لالا عیسی خیلوی کا ایک ری مکس گیت سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ لالا کے چاہنے والے اس بات پر دکھ اور برہمی کا اظہار کر رہے ہیں کہ لالا نے یہ کیا کیا، کیوں کیا۔ اپنے ہی ایک شاہکار گیت کو جدید انداز میں مغربی سازوں کے ساتھ گا کر اس کا ستیاناس کیوں کیا؟

عصمت گل خٹک کی پوسٹ میں اس گیت کی ویڈیو سن کر پتہ چلا کہ لوگ واقعی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ عصمت جیسے دیرینہ ساتھی نے بھی اس بات پر افسوس کا اظہار ہی کیا ہے۔

لالا شاید یہ بھول گئے کہ لوک دھنوں کا اپنا الگ ردم rhythm اور ٹیمپو tempo ہوتا ہے۔ اگر اس کی بجائے کسی اور ردم اور ٹیمپو میں گایا جائے تو گیت کا تاثر برقرار نہیں رہتا۔

لوگوں کی برہمی بے جا نہیں ۔ لالا کو ان کے جذبات کا احساس کرنا چاہیئے۔ اگر جدید انداز میں گانا ہی ہے تو اپنے مقبول عام گیتوں کا بیڑا غرق کرنے کی بجائے نئے گیت لکھ یا لکھوا کر گائیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ احتجاج اور تنقید کرنے والے آپ کے دشمن نہیں بلکہ سچے خیر خواہ ہیں۔ وہ سالہا سال سے آپ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ وہ آپ کو اپنے مقام سے گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔۔۔۔25 ستمبر 2025

میری فیس بک پر کل لالا عیسی خیلوی زیر بحث رہے۔ لالا کے چاہنے والے تین گروپس میں تقسیم نظر آئے۔

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو لالا کو اس کے مخصوص رنگ میں دیکھنا سننا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو زمانے کے ساتھ چلنے کے لیئے موسیقی کے جدید انداز کو جائز قرار دیتے ہیں۔

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں لالا ہر رنگ میں قبول ہے۔

تینوں قسم کے لوگوں کی لالا سے محبت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس لییے تینوں کی رائے قابل احترام ہے۔

موسیقی کا ذکر چھڑا تو اپنے زمانے کے تجربات و مشاہدات یاد آگئے۔

عوام کی پسند کے لحاظ سے ہم نے موسیقی کے تین دور دیکھے۔ ہمارے بچپن اور جوانی کے زمانے میں فلمی موسیقی بہت مقبول تھی۔ اتوار کو دن بارہ سے ایک بجے تک “آپ کی فرمائش” کے عنوان سے ریڈیو پاکستان پر ایک پروگرام چلتا تھا۔ یہ پروگرام سامعین کے خطوط پر مبنی ہوتا تھا۔ لوگ اپنی پسند کے فلمی نغموں کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ ہر نغمہ سنوانے سے پہلے اس کی فرمائش کرنے والوں کے نام بھی نشر کیئے جاتے تھے۔

اتوار کے فرمائشی پروگرام میں تین تین منٹ کے دس بارہ گیتوں کے گراموفون ریکارڈ سنوائے جاتے تھے۔ 1965 تک اس پروگرام میں پاکستان اور انڈیا کے فلمی نغمے پیش کیئے جاتے تھے۔ عام طور پر زیادہ تر فرمائشیں انڈین نغموں کی ہوتی تھیں۔

کیا خوبصورت دور تھا۔ یہ انڈیا میں محمد رفیع ، طلعت محمود، مکیش، لتا منگیشکر، شمشاد بیگم اور آشا جیسے لیجنڈز کے عروج کا دور تھا۔

محمد رفیع کا “او دنیا کے رکھوالے” ، طلعت محمود کا ” تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی” ، لتا کا ” بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا، مکیش کا ” آ لوٹ کے آجا میرے میتاور شمشاد بیگم کا ” بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیااس زمانے کے مقبول ترین گیت تھے۔ یہ سب گیت اردو میں تھے مگر چٹے ان پڑھ لوگ بھی یہ گیت بڑے شوق سے سنتے اور گنگناتے رہتے تھے۔

یہ داستان ابھی چند روز چلے گی۔ کسی کو اچھی لگے نہ لگے مجھے تو اپنے بچپن اور جوانی کی حسین یادیں تازہ کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔26 ستمبر 2025

 

فلم کے لحاظ سے انڈیا ہمیشہ ہم سے آگے رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ چوٹی کے اداکار، موسیقار، گلوکار اور شاعر وہاں بھی مسلمان ہی ہیں۔ اداکاری میں شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان، موسیقاروں میں نوشاد ، فیروز نظامی، خیام اور غلام محمد ، گلوکاروں میں محمد رفیع ، طلعت محمود اور شمشاد بیگم، اور شاعروں میں ساحر لدھیانوی ، شکیل بدایونی مجروح سلطان پوری سب لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں فلمی گلوکاروں میں زبیدہ خانم ، کوثر پروین ، سلیم رضا، منیر حسین اور عنایت حسین بھٹی نمایاں ہوئے۔

ملکہ ترنم انڈیا میں تو گلوکاری کرتی رہیں مگر پاکستان آکر انہوں نے ابتدا میں اداکاری کو ترجیح دی۔ قیام پاکستان کے پہلے دس پندرہ سال فلمی گلوکاری کی دنیا میں زبیدہ خانم اور کوثر پروین کا راج رہا۔ بعد میں ملکہ ترنم نے یہ منصب سنبھال لیا۔

زبیدہ خانم بہت مترنم آواز والی گلوکارہ تھیں۔ ان کے بے شمار گیت بہت مقبول ہوئے، مثلا۔۔۔۔۔۔

تیری الفت میں صنم دل نے بہت درد سہے

تو چھٹی لے کے آجا بالما

برے نصیب مرے ویری ہویا پیار مرا

دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے

کوثر پروین کی آواز میں مشہور زمانہ لوری

راج دلارے میری اکھیوں کے تارے

اور فلم پینگاں کے گیت

تینوں بھل گئیاں ساڈیاں چاہواں وے اساں تینوں کی آکھناں

وغیرہ بہت معروف و مقبول ہوئے۔

مرد گلوکاروں کا تذکرہ ان شآءاللہ کل ہوگا ۔

27 ستمبر 2025

ابتدائی دور کے فلمی گلوکاروں میں سلیم رضا، منیر حسین اور عنایت حسین بھٹی نمایاں تھے۔

سلیم رضا نے بہت سے مقبول گیت گائے تاہم اس کی پہچان

شاہ مدینہ یثرب کے والی

سارے نبی تیرے در کے سوالی

کے عنوان سے نعتیہ کلام بنا۔ کمال یہ ہے کہ سلیم رضا کرسچین (عیسائی) تھے مگر یہ نعتیہ کلام انہوں نے عقیدت میں اس قدر ڈوب کر گایا کہ سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ ان کا گیت

اے دل کسی کی یاد میں

ہوتا ہے بے قرار کیوں

بھی سدا بہار گیت ہے۔

اس کے علاوہ سلیم رضا کی آواز میں بچوں کے لییے ترانہ

آو بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی

بھی بہت مقبول ہوا۔

منیر حسین کی آواز میں ترنم تو تھا مگر توانائی نہ تھی۔ وہ نیم کلاسیکل گیتوں کے لییے مشہور ہوئے۔ فلم سات لاکھ میں ان کا گیت ” قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے” بہت مقبول ہوا۔ منیر حسین کی آواز میں

دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے

بھی بہت مشہور ہوا

عنایت حسین بھٹی عوامی گلوکار تھے۔ بہت اونچے سروں میں پنجابی گیت گاتے تھے ۔ ان کا ہر گیت بہت معروف و مقبول ہوا۔ ان میں سے یہ گیت خاص طور پر نمایاں ہیں۔

سدا نہ باغیں بلبل بولے

دنیا مطلب دی او یار

جند مکدی مکدی مک گئی اے

ساڈی نظراں توں ہویوں کاہنوں دور دس جا–28 ستمبر 2025

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد رشدی ، اخلاق احمد ، مسعود رانا اور مجیب عالم 1960 کی دہائی میں فلمی گلوکاری کے میدان میں وارد ہوئے۔ چاروں بہت سریلے گلوکار تھے ۔ ان کے یہ گیت بہت hit ہوئے۔۔۔۔۔

احمد رشدی ۔۔۔۔۔۔

اکیلے نہ جانا

جب رات ڈھلی تم یاد آئے

کیا ہے جو پیار تو نبھانا پڑے گا

اخلاق احمد۔۔۔۔۔

ساون آئے ، ساون جائے

سونا نہ چاندی

مسعود رانا۔۔۔۔۔۔

ٹانگے والا خیر منگدا

تمہی ہو محبوب مرے

تیرے بناں یوں گھڑیاں بیتیں

مجیب عالم ۔۔۔۔۔۔۔

میں ترے اجنبی شہر میں

یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم

کہاں ہو تم

29 ستمبر 2025

1960- 1970 کی دہائی میں دو نہایت سریلی آوازوں نے فلمی موسیقی کے زوال کو روکے رکھا۔ یہ آوازیں تھیں نسیم بیگم اور مالا کی۔ ان کے تمام گیت بہت مقبول ہوئے۔

نسیم بیگم کی آواز نورجہاں سے بہت ملتی جلتی تھی۔ مگر ان کا انداز بالکل الگ تھا۔ صرف 35 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کے مقبول ترین گیت یہ تھے۔۔۔۔

ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے

نگاہیں ہو گئیں پرنم ذرا آواز دے دینا

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اے راہ حق کے شہیدو

اب کہاں ان کی وفا یاد وفا باقی ہے

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

مالا کے درج ذیل نغمے بہت مشہور و معروف ہوئے

دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے

میں نے تو پریت نبھائی رے

رحم کرو یا شاہ دو عالم

مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے

غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے

اکیلے نہ جانا—30 ستمبر 2025

1960– 1970 کی دہائی میں دو نہایت سریلی آوازوں نے فلمی موسیقی کے زوال کو روکے رکھا۔ یہ آوازیں تھیں نسیم بیگم اور مالا کی۔ ان کے تمام گیت بہت مقبول ہوئے۔

نسیم بیگم کی آواز نورجہاں سے بہت ملتی جلتی تھی۔ مگر ان کا انداز بالکل الگ  تھا۔ صرف 35 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کے مقبول ترین گیت یہ تھے۔۔۔۔

ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے

نگاہیں ہو گئیں پرنم ذرا آواز دے دینا

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اے راہ حق کے شہیدو

اب کہاں ان کی وفا یاد وفا باقی ہے

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

مالا کے درج ذیل نغمے  بہت مشہور و معروف ہوئے

دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے

میں نے تو پریت نبھائی رے

رحم کرو یا شاہ دو عالم

مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے

غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے

اکیلے نہ جانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک۔۔۔۔۔۔ 30ستمبر 2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top