مِیانوالی کی لوک موسیقی — تاریخ، انداز، گانے، شاعری اور سماجی حیات
مِیانوالی کی لوک موسیقی سادہ لوگوں کی روزمرہ زندگی، محبت، ہجر، مزاح، صوفیانہ اشعار اور قبائلی/دیہی رسم و رواج کا آئینہ ہوتی ہے۔ یہ موسیقی بنیادی طور پر سرائیکی، پنجابی (مقامی لہجوں) اور بعض اوقات اردو بولی میں ملتی ہے اور علاقے کے ثقافتی تہذیبی رنگ کی عکاس ہے۔ مقامی فنکاروں نے اسے روایتی انداز میں زندہ رکھا اور بعض نے ملکی و بین الاقوامی شہرت بھی پائی۔
تاریخی پس منظر
مِیانوالی کا جغرافیائی محلِ وقوع (پنجاب کے شمال مغربی کنارے، سرحدی ثقافتوں کے قرب) اس کے موسیقیاتی ذخیرے پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ برِطانوی دور اور بعد از تقسیم کے ادوار میں مقامی محافلِ موسیقی، دربار، اور میلے — خاص طور پر شادی، جشن اور زرعی تقریبات — لوک دھنوں اور گیتوں کے بنیادی مراکز رہے۔ اسی نسبت سے دیہی راگ، لوک داستانی گیت اور صوفیانہ کلام یہاں رائج رہے۔ مقامی تہوار، جھومر اور ڈھول کی وافر موجودگی نے موسیقی کو پائيدار رکھا
مشہور فنکار اور ان کا کردار
مِیانوالی سے جو نامور لوک فنکار سب سے زیادہ مشہور ہوئے، ان میں خاص طور پر عطا اللہ خان اسا خیلوی نمایاں ہیں — جن کی سادہ مگر اثر انگیز آواز نے پورے پاکستان اور بیرونِ ملک میں مقبولیت حاصل کی۔ ان کا تعلق اسا خیل (مِیانوالی) سے ہے اور انہوں نے سرائیکی، پنجابی اور اردو میں بے شمار ہٹ گانے دئیے۔ ان کے کیریئر کی شروعات ریڈیو اور پس ازاں البمز، کنسرٹس اور کوک اسٹوڈیو جیسے پروگراموں سے ہوئی۔ عطا اللہ کی سادگی، عام آدمی کی نفسیات کو چھونے والے اشعار اور روایتی سرکاری نے انہیں عوامی آواز بنا دیا۔
علاوہ ازیں مقامی سطح پر کئی دیگر لوک گلوکار موجود رہےہیں جن کے نام و کام مِیانوالی کے مقامی آرکائیو اور مقامی ویب پورٹلز پر درج ہیں — مثلاً شفاؔ اللہ خان روکڑی ، مشتاق خان نیازؔی، یونس ملک کلو، امام رضا/دیگر علاقائی فنکار اور پروڈیوسرز جنہوں نے مقامی سرائیکی/پنجابی گیت ریلیز کیے۔ ان فنکاروں نے مقامی تہذیبی رواجات اور علاقائی بولیوں کو ریکارڈ کروایا اور مقبول بنایا۔
گیت، شاعری اور بول
مِیانوالی کے لوک گانے عام طور پر سرائیکی بولی کی مٹھاس اور پنجابی کے تال کے امتزاج پر مبنی ہوتے ہیں۔ موضوعات میں عشق و فراق، دیہاتی زندگی کے دکھ خوشی، قبائلی روایت، سرداروں کی شان، اور صوفیانہ کلام شامل ہیں۔ کئی گیت ایسے ہیں جن کے بول مقامی شاعر/لیکسٹز (songwriters) نے لکھے؛ بعض کلاسیکی لوک دھنیں نسل در نسل منتقل ہوئیں اور بعد میں ریکارڈنگ کے دور میں نئے لفظ یا تعبیر اختیار کر گئی۔ عطا اللہ جیسے بڑے ناموں کے گانوں میں بعض معروف لکھاریوں (مثلاً S. M. Sadiq جیسے معروف شعری لکھنے والوں) کا تعاون بھی رہا۔
دُھن، رہنما سرود اور آلے
روایتی آلات میں عام طور پر ڈھول/ڈھولک، ہارمونیم، طبلہ/بوں، چمچا/کاسے (مقامی تال ساز)، سراچی یا مختصر گٹار نما ساز، اور بعض مواقع پر رُباب یا سرود نما لوکل آلات شامل ہوتے ہیں۔ جھومر اور لوک رقص کے ساتھ ڈھول کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے۔ جدید ادوار میں الیکٹرک گٹار، کی بورڈ اور اسٹوڈیو پروڈکشن نے بھی لوک دھنوں کو نئے رنگ دیے، مگر روایتی آلے آج بھی گیتوں کی روح بنے ہوئے ہیں۔
ریلیز، ریکارڈنگ اور سوشل میڈیا کا اثر
گزشتہ چند دہائیوں میں سی ڈی، کیسٹ (cassette) اور بعد ازاں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز (یوٹیوب، ساؤنڈ کلاؤڈ، Spotify، Apple Music وغیرہ) نے مِیانوالی کے گیتوں کو وسیع تر سامعین تک پہنچایا۔ مقامی یوٹیوب چینلز اور فین پیجز نے خاص کر روایتی تالوں اور ہارمونیم/ڈھول کے نمونوں کو ویڈیو فارم میں اپ لوڈ کیا، جس نے شہری اور دیہاتی دونوں طبقات میں لوک موسیقی کی رسائی بڑھا دی۔ مزید یہ کہ پروگرامز اور ٹی وی شوز (مثلاً مخصوص قومی یا علاقائی میوزک شوز) نے نئے فنکاروں کو متعارف کروایا۔
موسیقی کے اصناف و انداز
مِیانوالی میں عام لوک صنفوں کے علاوہ چند مخصوص مقامی دُھنیں/طرزِ گائیکی ہیں:
جھومر: شادی یا رقصی محافل میں مشہور تال و رقص۔
صوفیانہ/کلام: دربار اور صوفی محفلوں میں پڑھے جانے والے کلام یا نعت/کلامیات۔
محاوراتی/لوک کہانی گیت: لمبی داستانی آواز میں گائے جانے والے گیت جو دیہی لوک کہانیوں کو بیان کرتے ہیں۔
اہم گیت اور نمونے
عطا اللہ کے چند مشہور گیت جو مِیانوالی/سرائیکی لسانی روایت کو نمایاں کرتے ہیں، عام سامعین میں آج بھی مقبول ہیں — مثال کے طور پر: “اوٹھاں والے” اور “پیار نال” (جو کوک اسٹوڈیو میں بھی پیش ہوئے)۔ مقامی سطح پر دیگر گانوں کے کلیکشن آپ مقامی آرکائیوز اور یوٹیوب چینلز پر پا سکتے ہیں۔
مقامی ثقافتی ادارے اور میلے
مِیانوالی کے تہوار، میلوں اور مقامی ثقافتی پروگرامز میں لوک موسیقی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر منعقدہ موسیقی پروگرامز نے نئے فنکاروں کو منوانے میں کردار ادا کیا ہے۔ قومی ٹی وی اور مقامی چینلز نے مِیانوالی کے لوک گلوکاروں کو متعارف کروایا — اور بعض پروگراموں نے پورے ملک کے ناظرین کے سامنے مقامی لوک دھنوں کو جگہ دی۔
چیلنجز اور مستقبل
لوک موسیقی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نوجوان نسل مغربی/پاپ کلچر کی طرف راغب ہو رہی ہے، اس لیے روایتی دھنوں کو پروفیشنل ریکارڈنگ، تعلیمی مواد اور ڈیجیٹل آرکائیونگ کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا اور اسٹریمنگ نے نئے سامعین میں دلچسپی بیدار کی ہے اور نوجوان فنکار مقامی روایات کو جدید پروڈکشن کے ذریعے زندہ رکھ رہے ہیں۔
میانوالی کی دم توڑتی لوک موسیقی اور اسے بچانے کی کوششیں
از نمائندہ روہی ٹی وی (سرائیکی ٹی وی چینل پاکستان)، شجاع آباد – ملتان زون
موسیقی کسی بھی معاشرے کے تہذیبی اظہار کی سب سے گہری صورت ہوتی ہے۔ لیکن میانوالی — جو پنجاب، پاکستان کا ایک تاریخی ضلع ہے — وہاں کی لوک اور ثقافتی موسیقی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ خاص طور پر سرائیکی لوک موسیقی، جو کبھی میلوں، تہواروں اور دیہی بیٹھکوں کی جان ہوا کرتی تھی، آج خوف، دہشت گردی اور سماجی بے چینی کے سائے تلے دم توڑ رہی ہے۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ: ہم اس دم توڑتی پاکستانی ثقافتی وراثت کو کیسے محفوظ کر سکتے ہیں؟ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ہم اپنی پہچان، اپنی تاریخ اور اپنے اجتماعی حافظے کا ایک قیمتی حصہ کھو دیں گے۔
حالیہ دنوں میں ایک نہایت شاندار پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں ضلع میانوالی کی لوک موسیقی کے ماضی اور حال پر روشنی ڈالی گئی۔ اس پروگرام نے یہ حقیقت واضح کی کہ وہ دھنیں اور گیت، جو کبھی گاؤں کے میلوں اور ثقافتی محفلوں میں بسے رہتے تھے، اب فراموشی کے کنارے پر ہیں۔
اس سلسلے میں اکمل رامے خصوصی تعریف کے مستحق ہیں۔ انہوں نے میانوالی کی لوک موسیقی کو اجاگر کرنے اور اس پر شعور بیدار کرنے کے لیے ایک کلاسیکی نوعیت کا کام کیا ہے۔ ان کی یہ محنت ضلع کی ثقافتی وراثت کو بچانے میں دور رس اثرات ڈالے گی۔
یہ تمام کریڈٹ انہی کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس اہم مسئلے کو اجاگر کیا اور میانوالی کی مدھم ہوتی آوازوں کو دوبارہ سننے کا موقع فراہم کیا۔