KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -9

 

 کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف-قسط نہم۔

پیر چپ شاہ صاحب کا اصل نام حضرت سید مظفر شاہ بتایا جاتا ہے اور عرف عام میں آپ کو چپ سائیں اور چپ شاہ کے نام سے پکارا جاتا ہے، اس عرف کی وجہ یہ ہے کہ ہر وقت چپ چاپ رہتےتھے۔ اور انتہائی کم بولتے تھے ، آپ کے آباؤ اجداد قندھار سے ہجرت کر کے دہلی تشریف لائے تھے ،آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور پھر درس قرآن وحدیث قران حاصل کرنے حضرت شاہ غلام علی رحمتہ اللہ علیہ کی درسگاہ میں داخل ہوئے اور 13 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا ۔شیخ غلام علی رحمتہ اللہ علیہ کا اصل نام شاہ عبداللہ تھا اور یہ اپنے زمانے کے بلند پایہ عالم و عارف ،صاحب کرامات ولی اور سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔

سرسید احمد خان کا والد بھائی احتشام الدولہ سید محمد خان اور خود سر سید احمد خان شیخ غلام علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے سرسید احمد خان نے اپنے پیر و مرشد کا ذکر اپنی تصنیف آثار و الصنادید کے باپ چہارم میں کیا ہے ۔ چپ سائیں نے روحانی فیض اور علم قرآن و حدیث شیخ غلام علی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا اور کئی برس تک دہلی میں درس قرآن وحدیث دیتے رہے، اپنے مرشد سے سند خلافت و اجازت پاکر دہلی سے رخصت ہوئے اور مختلف علاقوں کو اپنے علم و عرفان سے منور کرتے ڈیرہ اسماعیل خان آ پہنچے وہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور پھر ابدی مسکن کالا باغ کا رخ کیا اور پھر کالا باغ سے باہر کبھی نہ نکلے ۔جب کالاباغ تشریف لائے تو آپ کا عشق جنون کی شکل اختیار کر گیا تھا اور اپ رحمتہ اللہ علیہ مجذوبی کیفیت میں محو ہو چکے تھے۔ کالا باغ میں آپ کا پہلا پڑاؤ وہی مقام تھا جہاں اب آپ کی ابدی آرام گاہ ہے۔ نمک کے پہاڑوں میں ایک بلند ٹیلا اور جال کا درخت آپ کا ٹھکانہ تھا اسی ٹیلے پر جال کے نیچے آپ اللہ تعالیٰ سے لو لگائے بیٹھے رہتے ،اگر کوئی شخص اس طرف آ نکلتا ،آپ کو مسافر اور فقیر سمجھ کر روٹی لے اتا تو کھا لیتے، ورنہ فاقہ کر لیتے ۔ مگر روٹی کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے کچھ عرصہ اسی ٹیلے پر قیام رہا،جب من کی دنیا سیراب ھو گئ تو پہاڑی سے نیچے اتر کر شہر میں تشریف لے آئے ، اپنی مسلسل اور گہری خاموشی کی وجہ سے اہل قصبہ میں کافی مشہور ہو چکے تھے۔ نہ جانے من میں کیا بیت چھپائے پھرتے تھے کہ آرام نہ فرماتے سارا دن دوڑتے رہتے اتلا پتن سے دوڑتے اور مسجد عید گاہ کے پاس آ کر رک جاتے، پھر عید گاہ مسجد سے آہستہ آہستہ چل کر اتلا پتن تک جاتے اور پھر واپس دوڑ لگا دیتے ۔اس طرح روزانہ سات چکر پورے کر تے جب کبھی آرام کرنے کو جی چاہتا تو عبدالرحمن زرگر کے گھر کا رخ کرتے۔ زیادہ وقت دریا کے کنارے گزارتے اکثر اوقات دریا میں پتھر پھینکتے رہتے جو پتھر زور سے پھینکتے اور دریا میں دور جا کر گرتا تو مسکراتے اور خوش ہوتے۔ عبدالرحمن زرگر کے علاوہ اپ کا دوسرا ٹھکانہ محمد شریف خان خاندان ہندالی خیل کا کا گھر تھا جس میں ایک کمرہ “شاہ صاحب والا کوٹھا ” کے نام سے منسوب تھا .

کالا باغ کے بزرگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بہت سی کرامات کا ذکر کرتے رہتے ہیں.جن کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔ان کرامات میں سے ایک تو زبان زد خاص و عام ہے کہ ایک مرتبہ آپ اچانک ہنسنے اور تالیاں بجانے لگے، دریافت کرنے پر جواب میں فرمایا ” کہ دہلی میں ایک رقاصہ محور رقص تھی کہ رقص کرتے کرتے اس کی شلوار کا ازاربند کھل گیا اور شرم کے مارے بیٹھ گئی اور تماشبین تالیاں بجانے لگے اور میں نے بھی تالی بجا دی، بعد ازاں حقیقت حال معلوم کی گئی تو حقیقتا ایسا واقعہ دہلی میں پیش آیا تھا۔دوسری دو کرامات کے راوی محمد شریف خان ہندالی خیل مرحوم ہیں ۔کہ ایک بار ایک سکھ تھانیدار کسی ذاتی غرض سے سنی (نمک کی کان) کے اندر گیا دیکھا کہ چپ شاہ صاحب کا جسم مبارک ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا ہے ،حیران و خوفزدہ ہو کر باہر نکل آیا ،اور شور مچا کر صورت حال لوگوں کو بتانے لگا ۔محمد شریف خان ہندالی خیل دوڑے دوڑے کان کے اندر گیۓ دیکھا تو آپ صحیح سلامت تشریف فرما ہیں ۔دوسری روایت کے مطابق ایک بار محمد شریف خان ہندالی خیل نے دیکھا کہ پیر چپ شاہ صاحب کے ہاتھ میں مٹھی بھر کیڑے ہیں ۔اور شریف خان ہندالی خیل کو دیۓ کہ کھاؤ ،عقیدت مند شریف خان نے یہ کیڑے لے لیۓ جب دیکھا تو گرم گرم پلاؤ تھا ۔یہ پلاؤ کیا کھایا شریف خان کے دن پھر گۓ کاروبار میں ایسی ترقی و برکت آئی کہ نوٹوں سے بوریاں بھرتے تھے ۔(واللہ اعلم)چپ سائیں نے چپ کا روزہ توڑا تو لوگوں کی زبانیں بھی کھل گئی اس کرامت کے ظاہر ہونے کے بعد اپ زیادہ عرصہ نہ گزار سکے اور 22 مئی 1917 ء بمطابق یکم شعبان 1335 ہجری کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ۔آپ کے مزار پر عقیدت مندوں نے ایک چھوٹا سا مگر خوبصورت سا مقبرہ بنایا ہوا ہے، جس کا سبز گنبد ہے ۔چیت کی ہر جمعرات کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے والے کے عقیدت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے ۔منتیں مانی جاتی ہیں اور تبرکات تقسیم ھوتے ھیں ۔کالا باغ اور گرد و نوا ح کے دیگر عقیدت مندوں کے علاوہ ہندالی خیل قبیلہ آپ سے گہری والہانہ عقیدت رکھتا ہے ہندالی خیل قبیلہ کے مخیر حضرات یکم شعبان کو سالانہ عرس کا اہتمام کرتے ہیں۔پیر چپ شاہ صاحب کو ٹ چاند نہ کے حضرت پیر حضرت نور الزمان شاہ صاحب کے روحانی مرشد تھے اسی نسبت کی وجہ سے پیر نورالزمان شاہ کا خاندان آپ سے بہت محبت اور عقیدت رکھتا ہے۔ حضرت پیر نور زمان شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ کے پوتے حضرت پیر شمس الزمان شاہ صاحب مرحوم و مغفور کو آپ سے خاصی عقیدت تھی، حضرت پیر شمس الزمان شاہ صاحب جب کوٹ چاندنہ سے نقل مکانی کر کے ضلع بہاولپور تشریف لے گئے اور وہاں ریگستان میں ایک ویرانے کو اپنا مسکن بنایا،تو اس آبادی کا نام ” کوٹ شاہ مظفر ” رکھا.

مزار کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے ایک مجاور بڈھا فقیر نامی رہتا تھا جس نے ساری زندگی مزار پر گزار دی اس کے بعد اس کا خاندان یہ خدمت گزاری کرتے کرتے عمر گزار گیا اب بھورا خان کا نواسہ اس مزار کا مجاور ھے اور مزار کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہے کالا باغ کے اکثر باشندے جمعہ و جمعرات کو سلام پیش کرنے جاتے ہیں کالا باغ اور گردونواح کے مردو خواتین آپ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان نیک لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

 کالاباغ میں صرف اعوان سردار ہی نہیں دیگر بہت سی ذاتیں و قومیں بھی آباد ہیں اور یہ ساری قومیں اور ذاتیں قابل احترام ہیں ۔ان میں سے اس قسط نمبر اٹھارہ میں پراچہ و ہندالی خیل قبیلوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔پراچہ قوم کے بارے میں دو متضاد تاریخی نظریات پائے جاتے ہیں پہلا نظریہ انگریز و یورپین مؤرخین سر ڈینزل ابٹسن ،مونٹ سٹورٹ، ایلفسن سٹون کی تحریروں میں اور انگریز حکمرانوں کے لکھے ہوئے ڈسٹرکٹ گزیٹئر میں ملتا ہے ۔سر ڈینزل ابٹسن کے مطابق پراچہ اپنا نام پارچہ یعنی کپڑا سے ماخوذ تصور کرتے ہیں جو کہ ان کی تجارت کا اہم جزو ہے ۔سرحد اور پنجاب کے مرکزی اضلاع میں مسلمان تاجروں کے لئے یہی نام پراچہ ستعمال ہوتا ہے۔ راولپنڈی میں ان کا مرکز مکھڈ ھے ڈسٹرکٹ گزیٹئر ضلع راولپنڈی ،ضلع اٹک، ضلع کیمل پور میں بھی پراچہ کو مسلمان پارچہ فروش اور کھتری لکھا گیا ہے ۔مزید یہ کہ پراچہ تجارت پیشہ ہیں زیادہ تر کپڑا ،ریشم، نیل اور چاۓ کی تجارت کرتے ہیں اور پنجاب میں اپنا پہلا مسکن ڈھنگوٹ بتاتے ہیں ۔ان میں سے بعض زمینداری بھی کرتے رہے ہیں اس سلسلہ میں یہ لوگ برٹش گورنمنٹ کے Alienation Act کے ڈر سے اپنا حق ملکیت بطور زمیندار منوانے کے لیے قانونی چارہ جوئی بھی کرتے رہے ہیں ۔حق زمینداری اور زرعی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے راولپنڈی میں کچھ لوگوں نے اپنے نام کے ساتھ ملک اور پشاور و کوہاٹ کے علاقے میں صدیقی کہلانا شروع کر دیا حالانکہ یہ ہندی نژاد تجارت پیشہ قوم ھے ۔اور کھتری سے مسلمان ھوۓ ھیں ۔

اس نظریے کے برعکس  دوسرا نظریہ پراچہ قوم کی تاریخ لکھنے والے مصنفین اور سینہ گزٹ سنانے والے بزرگوں کا ھے ۔ ان کے بقول پراچہ عربی النسل قبیلہ ھے اور اس کا عربی زبان میں نام فراشہ ھے ۔جس کے لغوی معانی ” فرش بچھانے والا ” اور ” خیمے گاڑھنے والا” کے ہیں عربی فارسی اور اُردو زبان میں یہ معانی تقریباً ملتے جلتے ہیں ۔لفظ فراشہ کی تاریخ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عزیز یمنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی و فراش تھے ۔یہ ملک یمن کے رہنے والے تھے ۔ان کی اس خدمت گزاری کی نسبت سے سارا قبیلہ فراشہ کہلانے لگا اسی حضرت عزیز یمنی کا بیٹا ابو العاص تھا جب فارس (ایران) کی جانب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپہ سالاری میں اسلامی لشکر نے کوچ کیا تو یمنی دستے کا سالار ابوالعاص فراشہ تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے اس لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے دختران فارس سے نکاح کر لیے ۔تو ابو العاص نے بھی ایک شاہی خاندان کی لڑکی سے شادی کر لی ۔اور فارس میں سکونت اختیار کر لی ۔یہاں ان کے نام کے ساتھ لگے لفظ فراشہ کے ف کو پ سے اور ش کو چ سے بدل کر فراشہ کو پراچہ بولا جانے لگا ۔جب فارس سے اسلامی لشکر مہلب فراشہ کی قیادت میں کابل و ہند کو فتح کرنے نکلا تو اس نے نصف لشکر کو اطراف کابل میں رکھا چنانچہ اب بھی کوہستان شمال کا ایک درہ پراچہ کے نام سے موسوم ہے ۔دوسرے نصف لشکر کو امیر مہلب فراشہ نے دریائے اٹک کے کنارے پر رکھا اور ڈھنگوٹ کو اس کا صدر مقام بنایا ،اس علاقے میں پراچے دور ہمایوں تک آباد رہے لیکن ہمایوں کی عسکری مدد نہ کرنے پر ہمایوں نے ان کو یہاں سے بیدخل کر دیا اور یہ مع اطفال و عیال مختلف علاقوں پشاور ،جلال آباد افغانستان ،کالا باغ،کوہاٹ، مکھڈ ، نوشہرہ ،اٹک سے لے کر دہلی ،احمد آباد اور آگرہ تک پھیل گئے ۔کالاباغ اور مکھڈ کے پراچے کہتے ہیں کہ ہم شاہ جہاں کے دور میں یہاں وارد ھوۓ اٹک کے پراچے کہتے ہیں ک ہمارا سلسلہ نسب نوشیرواں کی دو بیٹیوں میر نگار اور میر افزوں سے چلا ھے اور پہلا مورث اعلیٰ عزیز یمنی ھے ۔جو نوشیرواں کے تقریباً دو سو سال بعد ھو گزرا ہے ڈسٹرکٹ گزیٹئر اٹک کے مطابق پراچے اعلیٰ نسل کے لوگ ہیں یہ آپس میں شادی بیاہ رچاتے ہیں ۔پراچہ نمازی و دیندار قوم ھے ۔برصغیر پاک وہند میں ان کی سات مشہور گوتیں ماہوں ، رنیال ،پچانگلہ، بائ، کرسیال ،ساول اور کیلہ ہیں ۔کالاباغ میں زیادہ تر ماہوں پراچے آباد ہیں جن کی ذیلی شاخیں بگڑے،شانی خیل ،بخشی خیل ،فضے خیل ،حیدر خیل ،شاہی خیل اور بکر خیل ہیں ،کالاباغ میں بسنے والے پراچے خوبرو اور خوش لباس ہیں ،پراچے تاجر پیشہ قوم ھے اس لئے حساب کتاب رکھنے کے بڑے ماہر ھوتے ھیں۔کالاباغ کے پراچوں میں گل محمد پراچہ ٹاؤن کمیٹی کالاباغ کے چئیرمن رہےہیں۔پراچہ برادری کی ایک تنظیم نے انجرہ میں ایک دینی مدرسہ اور ہسپتال عوام الناس کی خدمت کے لیے بنایا ھوا ھے

ہندالی خیل ایک پٹھان قبیلہ ھے اور یہ موسیٰ خیل سے نقل مکانی کر کے کالاباغ آۓ ہیں ۔۔کالاباغ آنے کی وجہ یہ بنی کہ ہندال خان ایک نیک انسان تھے اور امام مسجد تھے ۔کالاباغ کے اعوان سکیسر کی طرف آتے جاتے رہتے تھے تو ان کے تعلقات ہندال خان سے بن گئے ۔اور انہیں کالاباغ آنے کی دعوت دی ۔ہندال خان یہ دعوت قبول کر کے کالاباغ آ گیا اور یہاں بھی مسجد کی امامت کرنے لگا اور مسجد کے ساتھ ہندال خان نے کھوئی (پانی بھرنے کا چھوٹا کنواں) کھدوائی تھی ۔ موسیٰ خیل میں رہنے والے باقی کنبہ بھی ایک خانگی جھگڑے کی وجہ سے کالاباغ آ گیا اور یہیں مکمل سکونت اختیار کر لی ۔۔ عبداللہ خان ہندالی خیل عرف دلہ اندالی خیل اس قبیلے کا معروف بزرگ گزرا ہے ۔سن نوے کی دہائی میں جب بغوچی محاذ کی تحریک زوروں پر تھی یہ خاندان بھی زیرِ عتاب آیا تھا کیونکہ بغوچی محاذ کے بانی اراکین میں عبدالعزیز خان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے جو ملتان میں سکونت پذیر ھو گۓ ہیں کہا جاتا ھے کہ بغوچی محاذ کا نام عبدالعزیز خان ایڈووکیٹ نے ہی تجویز کیا تھا۔۔ہندالی خیل قبیلے کے ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ جہانگیر خان ہندالی خیل کو ایک ماہ تیرہ دن عقوبت خانے میں گزارنے پڑے اور اس کے جسم پر گرم سلاخوں سے داغے جانے کے نشان موجود تھے ۔یہ 1977 ء کے الیکشن میں مخالفت کی سزا ملی تھی ۔اور ہندالی خیلوں کا گھر بھی مسمار کر مدیا گیا تھا ۔ ہندالی خیل قبیلہ کے بزرگ اکرم خان ہندالی خیل سیاسی و سماجی شخصیت ہیں اور عالمگیر خان ہندالی خیل کا شمار کالاباغ کے سینئر صحافیوں میں ھوتا ھے ۔۔نیازی پٹھانوں کا یہ قبیلہ عزت و شرافت کی زندگی گزار رہا ھے اور یہ دوست دار، وضع دار اور امن پسند قبیلہ ھے۔

 

مصنف تعارف:

بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.

KALABAGH

KALABAGH

KALABAGH HISTORY KALABAGH A TOWN AND UNION COUNCIL OF MIANWALI DISTRICT . IT IS LOCATED ON THE WESTERN BANK OF...
Read More
NAWAB OF KALABAGH

NAWAB OF KALABAGH

نواب کالاباغ ملک امیر محمد خان دریائے   سندهه      پر      بہتی   لاش نوے کی دہائی کی...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF-PART1

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF-PART1

  شیر دریا جب پہاڑوں سے سر ٹکراتے ٹکراتے تھک جاتا ہے تو یہ کالاباغ کا پہلا قصبہ ہے جو...
Read More
TEHSIL ISAKHEL KE DIHH O QSBAT KA TAARUF. BALAJ JISL KE QALAM SE

TEHSIL ISAKHEL KE DIHH O QSBAT KA TAARUF. BALAJ JISL KE QALAM SE

تحصیل عیسیٰ خیل کے دیہات و قصبات عیسیٰ خیل تحصیل کا رقبہ کافی وسیع ہے اور اس میں متعدد تاریخی...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -PART 2

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -PART 2

کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف-قسط دوم بغوچی محاذ کا قیام جب ملک امیر محمد خان صاحب گورنر مغربی پاکستان...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -3

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -3

قسط سوم--کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف-  ملک اللہ یار خان نے بزور شمشیر اپنا حقِ سرداری حاصل کر لیا...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -4

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -4

کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف--قسط چہارم ملک عطا محمد خان کے گھر میں جس سپوت نے آنکھ کھولی اس...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -5

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -5

کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف--قسط پنجم ملک مظفر خان کی وفات کے وقت سٹیٹ کی زمام اقتدار ملک محمد...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -6

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -6

  کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف--قسط  ششم  کالا باغ میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملنے لگا تو مسلمان پیشہ...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -7

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -7

  کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف--قسط ہفتم کالاباغ میں تعلیم و تدریس کے اداروں کا جب کھوج نکالنے نکلیں...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -8

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -8

  کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف--قسط ہشتم  کالاباغ ایک گنجان آباد شہر ہے ،جب نواب آف کالاباغ نے اپنی...
Read More
KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -9

KALABAGH KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF -9

   کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف-قسط نہم۔ پیر چپ شاہ صاحب کا اصل نام حضرت سید مظفر شاہ بتایا...
Read More

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top