کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف
شیر دریا جب پہاڑوں سے سر ٹکراتے ٹکراتے تھک جاتا ہے تو یہ کالاباغ کا پہلا قصبہ ہے جو شیر دریا کے لئے اپنا دامن وسیع کر دیتا ھے اور شیر دریا اس دریا دل قصبے کی قدم بوسی کرتا آگے میدانی علاقوں میں بڑھ جاتاہے ، نوابوں کے اس شہر کالاباغ کی تاریخ پر جو بھی قلم اٹھاۓ گا
وہ نوابوں کی تاریخ کو چھوۓ بغیر قدم آگے نہیں بڑھا پاۓ گا کیونکہ کالاباغ قصبے کی تاریخ اعوان قبیلہ کی تاریخ سے یوں جڑی ھوئی ھے کہ جدا کرنا ممکن نہیں ۔بالاج کالاباغ میں اعوان قبیلے کی آمد کا سلسلہ سلطان محمود غزنوی کے پہلے حملے سے شروع ہوتا ہے جب اعوان قبیلے کا جد امجد ملک میر قطب حیدر شاہ المعروف بہ قطب شاہ اپنے بھائی غازی ساہو سالار کے ہمراہ لشکر غزنوی میں شامل ھو کر بت کدہ ہندوستان میں جہاد کی غرض سے تشریف لائے ،میر علی قطب شاہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پشت سے تھے ،میر قطب شاہ نے اپنے اعوان دستے کے ساتھ سومنات تک کے معرکوں میں بہادری کے بھرپور جوہر دکھائے ،سلطان محمود اعوان سردار کی بہادری سے بہت متاثر ہوا اور وطن واپسی پر شمالی پنجاب کا علاقہ کوہستان نمک میر قطب شاہ کو بطورِ جاگیر تفویض کیا ،اس جاگیر میں دفاعی اہمیت کے حامل ایک قلعہ ڈھنگوٹ نامی پر ہندو راجہ کلک قابض تھا ،جسے میر قطب شاہ نے شکست فاش سے دوچار کیا،اور اپنی جاگیر بیٹوں میں تقسیم کرتے وقت یہ علاقہ اپنے تیسرے بیٹے مزمل علی کلگان یا کلغان کے حوالے کر دیا ،ایک روایت کے مطابق مزمل علی کلغان اپنی دستار میں کلغی لگاتا تھا،اسی مناسبت سے کلغان مشہور ھوا مزمل علی کلغان کی پیدائش ایک اندازہ کے مطابق 380 ھ یا 385 ھ ھے . مزمل علی کلغان بھی جہاد میں مصروف رہا ،صوبہ بہار کی جنگی مصروفیات سے فارغ ہو کر واپس ڈھنگوٹ آیا اور مستقبل سکونت اختیار کر لی ،کچھ عرصہ بعد پھر جذبہ جہاد نے بے چین کیا تو پھر ہندوستان کا رخ کیا لیکن اس بار قدرت کو کچھ اور منظور تھا،تلونڈی کے قریب تھانیسر کی ایک بستی تراوڑی نامی میں دوران لڑائی تلوار کا کاری زخم لگا،زخمی حالت میں لدھیانہ لایا گیا لیکن جانبر نہ ھو سکے اور جام شہادت نوش کیا اور وہیں مدفون ہوئے جہاں ہر سال عقیدت مند ان کے مزار پر عرس مناتے ہیں ، بالاج ۔مزمل علی کلغان کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ۔مزمل علی کلغان کی پندرھویں پشت سے شیخ عادو نامی بزرگ گزرے ہیں حیات افغانی کے مصنف کے بقول شیخ عادو کو شیخ کا لقب پیر عبد الرحمٰن شاہ نوری نے دیا تھا جس کا شیخ عادو مرید تھا۔شیخ عادو کے دو بیٹے ملک بہرام اورعلی شیر تھے ،ڈھنگوٹ پر باقاعدہ حکمرانی کی بنیاد شیخ عادو نے رکھی ۔
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے