کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–قسط ہشتم
کالاباغ ایک گنجان آباد شہر ہے ،جب نواب آف کالاباغ نے اپنی زرعی اراضی بیچنا شروع کی تو پراپرٹی ڈیلروں کی موجیں لگ گئیں اور بمشکل دس سال کے عرصے میں باغ باغیچے غائب ہو گئے اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعمیرات اور بے ہنگم آبادی نے نہ صرف کالاباغ کے حسن کو گہنانا شروع کر دیا بلکہ کالاباغ کی روایات اور ثقافت کو بھی متاثر کیا ۔کالاباغ میں نقل مکانی کر کے آنے والوں میں زیادہ تعداد خٹک قبائل کی ھے جو کچھ تندر خیل سے لے کر شکر درہ تک کے مختلف دیہاتوں سے نقل مکانی کر کے کالاباغ میں سکونت پذیر ھو گۓ ہیں ،کالاباغ شکردرہ روڈ کے اطراف میں اور کریم آباد سے اوپر تمام خٹک قبائل آباد ہیں جبکہ کریم آباد میں مقامی لوگوں کی اکثریت ہے ۔کالاباغ پہلے بھی گنجان آباد قصبہ تھا اب اس کی آبادی اور مسائل مزید بڑھ گیۓ ہیں کالاباغ ٹاؤن کمیٹی کا درجہ رکھتا ہے اور ایک الگ موضع ھے اور اس موضع کا کل رقبہ 49904 کنال اور 03 مرلہ ھے ۔ کالاباغ کی آبادی مختلف محلوں اور وانڈھیوں میں آباد ہے ۔موجودہ آبادی محلہ پیر فضل حسین شاہ ، سیداں والی وانڈھی ، محلہ قریشیوں والا،محلہ محرم خیل ،محلہ پراچگان ، محلہ کلیارانوالہ ، محلہ داروکٹاں والا ، محلہ تنگ بازار ،محلہ سبزی منڈی ، محلہ اتلا پتن ،محلہ قاضیاں والا ، محلہ بیریاں والہ کے علاوہ محلہ کریم آباد ،محلہ نواب صاحب ، محلہ بلوچاں والا ، محلہ صدیق آباد ،محلہ فاروق اعظم ،ریلوے کالونی اور نئی آبادی شکر درہ روڈ اور نئ آبادی کوٹ چاندنہ روڈ پر مشتمل ھے ۔کالاباغ کے باسی کاروباری مزاج رکھتے ہیں جس کے باعث ماضی میں اعلیٰ تعلیم کی طرف کم توجہ دی گئی.
جس کی وجہ سرکاری اداروں میں خصوصاً پولیس ،فوج ملازمین کی تعداد ضلع کے دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہے اور اعلیٰ سرکاری افسران کی تعداد بھی انگلیوں پہ گنی جا سکتی ھے ۔۔اب نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کا شعور بیدار ھو چکا ھے ،اب بھی کالا باغ میں شرحِ خواندگی ضلع کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اگر کسی محکمے میں کوئی اعلیٰ عہدوں پر آفیسر بھرتی ھو جائیں تو بھی وہ اپنے علاقے کو خدا حافظ کہہ کر لاھور ، اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے شہروں میں آباد ھو جاتے ھیں ، ان وجوہات کے علاوہ کالاباغ کے متعدد خاندانوں نے مزدوری کے سلسلے میں بھی کثیر تعداد میں نقل مکانی کی ہے راولپنڈی پیر ودھائی میں لوہاراں والی گلی اور کراچی لانڈھی میں کالاباغ کے بہت زیادہ خاندان مقیم ہیں ،کالاباغ میں قریشی برادری کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں ڈاکٹر محمد مسعود قریشی میڈیکل آفیسر،ڈاکٹر حافظ محمد آصف قریشی ماہرِ امراض چشم ،ڈاکٹر کرنل عبدالقادر قریشی اور گورنمنٹ ھائی سکول کالاباغ کے پرنسپل ڈاکٹر محمد نعیم قریشی اور ماہرِ تعلیم عبد الخالق شاہ ریٹائرڈ ایس ایس ٹی اپنی قریشی برادری کا فخر ہیں، نیورو سرجن ڈاکٹر ملک ممتاز احمد امریکہ میں مقیم ہیں اور محکمہ تعلیم میں اساتذہ کرام اور استانیوں کی کثیر تعداد ہے ،حمید قیصر جیسی علمی و ادبی شخصیت کا تعلق بھی کالاباغ کی مٹی سے ھے ان کی معروف تخلیق ” سیڑھیوں والا پل ” ھے اور ایک ادبی رسالہ کی ادارت بھی کرتے رہے ہیں ۔شاعری سے شغف رکھنے والوں میں رفیع آبی ،شفیق ناصر ،سانول،اقبال سعید بالی کے علاوہ چند اور نام معروف ہیں ۔حنیف ساغر مزاحیہ و سنجیدہ شاعری کے حوالے سے معتبر نام ہے ۔کالاباغ میں گرلز و بوائز پرائمری سکولوں کے علاوہ ایک گرلز و بوائز سیکنڈری سکول اندرون شہر میں اور ایک ایلمنٹری سکول ریلوے کالونی می میں ھے اس کے علاوہ متعدد پرائیویٹ سکول ہر گلی محلے میں کھل چکے ہیں ۔اور گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن کی تعمیر مکمل ھو چکی ھے لیکن کلاسسز کا اجراء تاحال نہیں ھو سکا۔۔ملک شیر محمد خان مرحوم کا بہت بڑا ذاتی کتب خانہ کالاباغ میں تھا جس میں تاریخی حوالہ جات کی کتابیں موجود تھی ،کچھ عدم توجہی اور پھر سیلاب نے اس کا نام و نشان نہیں چھوڑا ۔شکردرہ روڈ پر بوائز ڈگری کالج میں سلسلہ تعلیم جاری ھے جس کی تعمیر کے لیے چالیس کنال رقبہ نوابزادگان نے عطیہ کیا تھا ۔ کالاباغ میں سائیکل رکشے لاری اڈا سے اندرون شہر تک چلتے تھے ،اور یہ پر مشقت مزدوری تھی جو سائیکل رکشہ ڈرائیور کرتے تھے ایک آدمی سائیکل چلا کر چار سواریوں کو منزل پر پہنچاتا اس کے علاوہ بہت سے لوگ نمک کی کانوں میں نمک نکالنے کا کام کرتے ہیں ،
کالاباغ کے بوڑھ بنگلہ میں کئی سربراہان مملکت، عالمی رہنما و ملکی و غیر ملکی اہم شخصیات تشریف لا چکی ہیں ،چین کے وزیراعظم چو این لائی مرحوم ،سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل مرحوم ،ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی ،امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی اور ان کی اہلیہ جیکولین کنیڈی ،جاپان کے کراؤن پرنس مسٹر ہیٹو اور ان کی اہلیہ مسز می چیکو ،برطانیہ کے شہزادہ فلپ اور ملکہ الزبتھ ،ہالیند کے پرنس برناڈ ،ڈنمارک کی شہزادی مار گرایا اور پرنس بیٹرکس، ملائشیا کے وزیراعظم ٹنکو عبد الرحمٰن ،سوڈان کے جنرل ابوت ،نیپال کے شاہ بریندرا ،سعودی عرب کے سابقہ وزیر تیل ذکی یمانی ،برٹش دور کے گورنر پنجاب سر گلیکسی ،گورنر خضر حیات ٹوانہ ،گورنر صوبہ سرحد جارج کننگ کالاباغ کی سیر کر چکے ہیں جبکہ ملکی رہنماؤں میں گورنر جنرل غلام محمد ،گورنر جنرل خواجہ نظام الدین ،صدر پاکستان سکندر مرزا ،فیلڈ مارشل صدر ایوب خان ،جنرل یحییٰ خان ،وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو ،صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری ، وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو ، صدر جنرل پرویز مشرف ،وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ،نواب اف بہاولپور صادق محمد خان ،وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو ،گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر ،وزیر اعلیٰ سرحد آفتاب خان شیر پاؤ ،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو اور بانی تحریک انصاف عمران خان نیازی کالاباغ کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا چکے ہیں ۔لیکن کالاباغ کے ہوٹل گردوں نواح سے آنے والے لوگوں سے بھرے رہتے ہیں ۔کالاباغ کو کسی بزرگ کی دعا ھے کہ ضلع بھر کے لوگ سارا سال کماتے ہیں ،ایک روپیہ جوڑ کر رکھتے ہیں اور جب کچھ رقم جمع ھو جاتی ھے کالا باغ کو چل پڑتے ہیں ،کپڑے جوتے اور دیگر سودا سلف خرید کر باقی بچنے والے پیسوں کا حلوہ کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔۔
کالاباغ کی اسٹیٹ کے انتظام و انصرام کو سنبھالنے کے لئے ایک مکمل انتظامیہ تشکیل دی گئی تھی ۔ دور گورنری ملک نور محمد عرف ملک نورا کو خاص مقام حاصل تھا ۔یہ ہر وقت بوڑھ بنگلہ میں لگنے والی کچہری میں موجود رہتا ،کچہری سے مراد نوابزادگان کا اپنی رعایا سے ملنے اور ان کے مسائل سننے کے لئے بوڑھ بنگلہ میں بیٹھک لگانا تھا ۔نواب صاحب ایک مقررہ وقت پر کچہری میں آتے تھے۔عوام و خواص پہلے سے انتظار میں بیٹھے ھوتے۔۔ملک امیر محمد خان دور گورنری میں جب بھی کالاباغ موجود ھوتے تو یہ کچہری ضرور لگاتے ،اور ان کے صاحب زادوں نے بھی یہ عمل جاری رکھا اور آب بھی جاری وساری ھے ۔ دور گورنری میں اس کچہری میں چند مخصوص لوگ روزانہ کی بنیاد حاضری دیتے اور ان کا کام نواب صاحب کی جی میں جی ملانا اور نواب صاحب کو اپنے گلی محلہ و علاقے کی صورت حال سے آگاہ رکھنا ھوتا ۔یہی لوگ رپورٹ دیتے کہ فلاں بندہ نجی محفلوں میں ایسی ویسی باتیں کرتا ھے اور اس کے خیالات باغیانہ قسم کے ہیں ان رپورٹوں پر متعلقہ فرد کی طلبی ھوتی اور اسے کسی نہ کسی کاردار یا سفید پوش کی سفارش سے اپنی وفاداری ثابت کر کے جان چھڑانی پڑتی ورنہ انجانے خدشے و خطرات سے خوفزدہ رہتا۔۔ان خفیہ ایجنسی نما حضرات کے علاوہ نوابزادگان کے زیرِ سایہ علاقوں کے سفید پوش موقع بہ موقع یہ دکھانے کے لیے ضرور حاضری لگواتے کہ ہم آپ کے وفادار ہی ہیں۔ ۔ملک نورا کو دور گورنری میں بڑا مقام و مرتبہ حاصل تھا ۔۔رعایا نواب صاحب سے زیادہ ان سے خوفزدہ رہتی کہ کہیں انہوں نے نواب صاحب کو کوئی غلط پٹی پڑھا دی تو ہماری خیر نہیں ۔۔عام لوگ نواب صاحب کے ساتھ ساتھ ان کارداروں کو خوش رکھنا بھی اپنا فرض سمجھتے۔ وہاب خان بھی نواب آف کالاباغ کے خاص مصاحبوں میں شامل تھے ۔
ان کے علاوہ ڈیری فارم کا ایک الگ جمعدار ھوتا جس کے نیچے چرواہے اور دیگر خدمت گار ھوتے ۔نواب صاحب کے ڈیری فارم کی سرخ رنگت کی گائیں کسی خاص نسل سے تعلق رکھتی تھیں ۔گھوڑوں کے لئے الگ اصطبل تھا۔ نواب صاحب دور گورنری میں ایک سائیس بمبئی سے لاۓ تھے جو گھوڑے سدھانے کا ماہر تھا اس کی فرمائش پر نواب صاحب نے ماڑی انڈس میں سینما تعمیر کروایا تھا ۔باغات کے لئے ایک الگ جمعدار ھوتا جس کے نیچے مالی اور مزدور ھوتے ۔ان باغات میں ہر قسم کے پھلوں کے درخت تھے ۔مالٹے،آم، امرود ،جامن اور لیچی کے باغات تھے ۔خزانے کا ایک الگ منشی تھا جو آمدن و خرچ کا حساب رکھتا ۔جاگیر کی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے الگ دفتر تھا جس کے انچارج حاجی یاسین باہی تھے اور زمینوں کے کاغذات و پیمائش وغیرہ کی اتنی مہارت رکھتے تھے ک پٹواری بھی سامنا کرنے سے گھبراتے تھے ۔نواب صاحب کی جو زمینیں مزارعین کاشت کرتے ۔ان کی نگرانی کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب گندم کی فصل تیار ھو جاتی تو مزارعین اسٹیٹ میں اطلاع کرنے آتے اور اسٹیٹ کی طرف سے ایک ” کراوہ” مقرر ھوتا جو کھیت میں روزانہ کی بنیاد پر جا کر اپنی نگرانی میں گندم کٹواتا اور پھر مزارعین ایک دن میں جتنی گندم کاٹتے اسے ایک جگہ جمع کرتے اور کراوہ اس گندم کے ڈھیر پر مختلف جگہوں پر مٹھی بھر گیلی مٹی رکھواتا اور لکڑی پر کھدی ھوئی اسٹیٹ کی مہر (ٹھپہ) لگاتا یہ اس لیے کہ اس کی غیر موجودگی میں مزارعین فصل میں سے چوری نہ کر لیں مزارعین اس ٹھپے کی خصوصی حفاظت کرتے اور جب فصل کی کٹائی مکمل ھو جاتی پھر اسی کراوہ کی موجودگی میں اٹھائ جاتی اور مزارعین سب سے پہلے نواب صاحب کا گندم و بھوسے کا حصہ مقررہ مقام پر پہنچاتے تھے ۔ سب سے اہم کاردار کچے کا جمعدار ھوتا تھا زرعی زمینوں کی کاشت کاری،آبپاشی ،تربوز ،گنا وغیرہ کی فصل اور دیگر اجناس اس کی نگرانی میں کاشت ھوتی تھیں اس عہدے پر جو شخص فائز تھا وہ چھوٹی چھوٹی داڑھی والا جابر انسان صوفی غلام محمد تھا جس کے ہاتھ میں ہر وقت کلھاڑی ھوتی،اور غصے کی حالت میں اسی کلھاڑی کے ونجے (دستے) سے بندے کا سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ کر دیتا۔دور گورنری میں ویسے تو ہر ملازم اپنی جگہ پر ایک جج تھا لیکن صوفی غلام محمد کو خصوصی عدالتی اختیارات حاصل تھے ۔جو فیصلہ خود نہ کرتا اس کے لئے ثالث مقرر کر دیتا
کالیا نامی چھوٹا جمعدار بھی اسی خدمت پر مامور ھوتا اور فیصلہ سنانے سے پہلے فریقین کو گندی گالیاں سنا کر فیصلہ تسلیم کرنے پر پہلے سے ہی آمادہ کر لیتا تھا ۔ اسی کالیا کے ایک ناجائز اور ناانصافی پر مبنی فیصلہ پر اللہ ڈیوایا حیدرال نے اسے گالیاں دی تھیں تو اسے کئی ماہ تک جیل بھگتنی پڑی تھی بعد ازاں حق نواز جمعدار اور چند اور سفید پوشوں کی سفارش پر معافی ملی تھی جب تک معافی نہیں ملی تھی گاؤں کے لوگ بھی اس کے سلام کا جواب تک دینے سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہم بھی اس کے ساتھ زیر عتاب نہ آ جائیں ۔لیکن اس کے بعد کالیا پھر کوٹ چاندنہ میں فیصلے سنانے نہیں آیا تھا ۔بہر کیف سٹیٹ کی اس عدالت کے فیصلے سے انکار کی ہمت کسی میں نہیں تھی ۔ سنائ جانے والی سزاؤں میں سخت ترین سزا کچے کی سزا ھوتی تھی ۔اس سزا کا عرصہ سزا سنانے والی کی مرضی پر منحصر ھوتا اور سزا یافتہ شخص کچے میں کھیتوں پر مشقت کرتا ۔ رعایا کے باہمی تنازعات پر ،چوری چکاری پر ۔منشیات کے استعمال یا فروخت پر ،قمار بازی پر بھی مجرموں کو کچے کی سزا دی جاتی ۔۔ کوٹ چاندنہ کے ایک شاعر فتح خان ملنگ نے ایک سرائیکی نظم لکھی تھی جس کا پہلا مصرعہ یوں تھا
ضتا سرداراں جوا بند کروا
جیہڑا جوا کھیڈے اس کو کچے نی سزا۔
یہی صوفی جمعدار خوف کی علامت تھا ، رعایا سے ہر قسم کی بیگار لینا اس کے ذمے داری تھی ۔اس کے ماتحت چھوٹے ملازمین تھے جن کی اکثریت اتراد کے علاقے سے تعلق رکھتی تھی اور ان اترادی ملازمین کی زبان بیگار دینے والوں کو گالیوں سے مغلظ رہتی ۔۔او ماؤ یایا کیہہ پیا کرناں ایں ” (او تیری ماں کو۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو) عموماً یہ گالی بیگار میں سستی دکھانے والے افراد کو پڑتی ۔اور رعایا پر مختلف قسم کی بیگاریں مثلاً گندم کی بوائی ، کٹائی ،تربوز کی فصل اُٹھانا ،گوڈی کرنا اور گنے کاٹنا وغیرہ عائد تھیں ۔مزارعین پر تو بیگار فرض تھی۔گندم کی کٹائی اور دیگر چند خاص موقعوں پر ہر عام و خاص کو بیگار دینی ھوتی اور جب اقتدار کا سورج عروج پر تھا تو کھانے میں روٹی کے ساتھ گڑ اور پیاز دیا جاتا بعد ازاں سورج ڈھلنے لگا تو روٹی سالن اور آخری دنوں روٹی سالن کے ساتھ حلوہ بھی دیا جانے لگا ۔گندم کی کٹائی کے علاوہ لنگر کا غلہ صاف کرنے کے لئے کالاباغ کی بزرگ خواتین سے یہ خدمت لی جاتی ، سٹیٹ کے کھیتوں میں سے گھاس کاٹنے والی عورتوں سے بھی بیگار لی جاتی اور ان عورتوں کو تب گھاس کاٹنے دی جاتی جب تک وہ سٹیٹ کی کوئی کاشتکاری سے متعلق خدمت گزاری مثلآ باجرے اور مکئ کے ٹانڈے کاٹنا ، گندم کی فصل سے جڑی بوٹیاں نکالنا وغیرہ نہ کر لیتیں۔ اس ذمہ داری پر احمد خان ٹنڈا اور سلطان ملیار فائز تھے ۔۔اگر کوئ خدمت نہ لی جاتی تو کاٹی جانے والی گھاس کاچوتھا حصہ وصول کیا جاتا ۔عورتیں یہ گھاس خودرو پودوں کو کاٹ کر چارے کے لئے جمع کرتیں۔جب سیلاب آ جاتے بنگلوں کی صفائی کی بیگار لی جاتی،اور جب کوئی اہم شخصیت یا عالمی رہنما سٹیٹ کے مہمان بن کر آتے تو روڈ پر کھڑا ھو کر تالیاں بجانے کی بیگار ،الغرض جسے چاہا ،جب چاہا ،در پہ بلا لیا انکار کی جرات کسی میں نہیں تھی اور انکار کرنے والا یا تو کالاباغ چھوڑ جاتا یا پھر زیر عتاب آ جاتا ۔ان سب کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سٹیٹ کے ڈر سے شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے ۔کمزور اور غریب رعایا کو بدمعاش اور طاقتور لوگوں سے تحفظ بھی حاصل تھا کسی کی جرآت نہیں تھی کہ کسی غریب کی عزت و آبرو پر ہاتھ اٹھاتا ۔(بالاج )علاوہ ازیں لوگوں کی پولیس اور عدالتوں کے دھکے کھانے سے خلاصی حاصل تھی ۔ فریادی کو فوری اور سستا انصاف مل جاتا تھا ۔سٹیٹ کسی قسم کی فیس نہ لیتی تھی۔عمومی لڑائ جھگڑے اور قتل و غارت نہ ھونے کے برابر تھی۔میری ان معروضات کا مقصد کسی کی دلآزاری یا بد نامی نہیں بلکہ یہ کالاباغ کی تاریخ سے متعلقہ وہ سینہ گزٹ ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں ۔اب سٹیٹ آف کالاباغ کے وہ تمکنت باقی نہیں رہی لیکن نواب فیملی اب معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتی ہے اور عام لوگوں کے دکھ درد میں شریک ھوتے ھیں اور یہ صرف نوابزادگان کا قصور نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت ھے کہ جس کو بھی اختیار و اقتدار ملتا ہے وہ انسان دوست رویہ کے بجائے مردم آزار رویہ اختیار کر لیتا ہے
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.