KHATTAK BELT KE GAON TOLH MANGALI KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF
خٹک بیلٹ کے گاؤں ٹولہ منگلی کی مختصر تاریخ و تعارف
کوٹ چاند سے شمال مغربی جانب سات کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں واقعہ گاؤں ٹولہ منگلی ہے ،جو مکمل طور پر بانگی خیل خٹک قبیلہ کی ذیلی شاخوں کا گاؤں ہے۔ سینکڑوں سال قبل بانگی خیل خٹک کی شاخ شہباز خیل کا ایک بزرگ منگلائے خان اپنے قبیلے کے دیگر افراد کے ساتھ جب چونترہ (کرک )کی پہاڑیوں سے نیچے پنجاب کی جانب ا تر کر ایا تو اس نے چشمے کے کنارے پہاڑی کی ڈھلوانوں پر ڈیرا ڈالا ،چشموں کے پانی کی فراوانی اور پہاڑی جنگلات کی کثرت نے بانگی خیل قبیلہ کی دیگر شاخوں کو بھی اس طرف متوجہ کر دیا جو چونترہ سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہونے لگے اور منگلائے خان کا ڈیرا آباد ہونے لگا اور ایک گاؤں کی شکل اختیار کر گیا ..
شہباز خیلوں کے ساتھ ساتھ جن دن دیگر قبیلوں نے اس مقام کا رخ کیا ان میں خدرخیل ،فیروز خیل، قطب خیل اور لوسی خیل تھے، یہاں ورود کے ابتدائی سالوں میں تو یہ سارے قبیلے پیار و محبت سے گزر بسر کرتے رہے جب ان قبیلوں کے بزرگ ایک ایک کر کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے لگے تو ان قبیلوں کا پیار اور محبت بھی رخصت ہونے لگا ، نا اتفاقی کا یہ دور جب اس گاؤں پر آیا،تو شہباز خیلوں کی سربراہی سرور خان کے ہاتھ میں پہنچ چکی تھی اور لوسی خیلوں کے سربراہ بردور خان اور گلمیر خان دو بھائی بن چکے تھے۔ بردور خان اور گل میر کسی قدر جھگڑالو طبیعت کے مالک تھے، مزاج کا یہ فسادی پن انہیں کب ارام سے بیٹھنے دیتا، سامنے شہباز خیل تھے اب دو قبیلوں کا ٹکراؤ شروع ہوا تو گاؤں کا امن و سکون برباد ہو گیا۔ یہاں پر آباد دیگر قبیلے فیروخیل، قلندو خیل ، صاحب خیل اور قطب خیل جو اب اپنی انفرادی شناخت بنا چکے تھے اور مگلائے خان کے ڈیرے کے باشندے تھے ان دو بڑے قبیلوں کی کش مکش سے سخت نالاں رہنے لگے ،شہباز خیلوں اور لوسی خیلوں کے آئے روز کے لڑائی جھگڑوں نے منگلائے کے ڈیرے کا سکون غارت کر دیا تھا خود شہباز خیل کے اکابر نے جب دیکھا کہ یہ جگہ بھی تنگ ہے اور امن سے گزارا بھی مشکل ہے تو اپنے ہم خیال قبائل کے ساتھ وہاں سے رخت سفر باندھا اور مختلف قبائل ایک ٹولہ کی شکل میں اپنی پہلی آبادی سے نقل مکانی کی اور موجودہ جگہ پر ڈیرے ڈال دیے ۔ان قبائل کی اس طرح آمد نے اس مقام کو ایک نیا نام ٹولہ منگلاۓ دیا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹولہ منگلی کے نام سے مشہور ہوا۔
ٹولہ منگلی کے درمیان میں جو برساتی نالہ گزرتا ہے اس کے مشرقی جانب شہباز خیلوں نے اولین آباد کاری کی اور پتھروں کے جھونپڑے بنائے اور ان کے ساتھ کچھ دیگر ہم خیال قبائل بھی اس جگہ آباد ہو گئے۔ پرانی جگہ پر صرف لوسی خیال رہ گئے تھے انہیں بھی آبادی کے قریب آنے کا شوق چرایا تو وہاں سے اٹھ کر ٹولہ منگلی کی طرف رخ کیا مگر شہباز خیلو ں نے آگے نہ بڑھنے دیا تو اس قبیلے نے برساتی نالے کے غربی کنارے پر اپنی جھونپڑیوں کی بنیادوں کے پتھر رکھنے شروع کر دیے اور ٹولہ منگلی کے مکین بن گئے۔ الگ الگ آباد ہو جانے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے بھی کم ہوئے تو بردور اور گلمیرکو کب آرام آتا انہوں نے میدانی علاقوں میں ڈاکے ڈالنے ڈالنے شروع کر دیے، کنڈل کے علاقے میں ڈاکہ زنی کی ایک واردات میں دونوں بھائی مارے گئے ۔
ٹولہ منگلی ی کے اولین آباد کاروں کا پیشہ گلہ بانی تھا مگر اب لوگوں کو کاشتکاری کی ضرورتوں کا احساس ہوا تو زمین آباد کرنے لگے تو زیادہ تر رقبے پر شہباز خیلو نے حق جتا لیا، موجودہ دور میں بھی زیادہ رقبوں کے مالکان شہباز خیل ہیں مگر دیگر قبیلوں لوسی خیل ،خدر خیل فیروز خیل ،قطب خیل ،قلندو خیل ،صاحب خیل اور خان خیل بھی زرعی رقبے کے مالکان ہیں ان قبیلوں کے علاوہ دیگر برادریوں کے لوگ بھی ٹولہ منگلی میں آباد ہیں تھوڑی سی آبادی اعوان قبیلہ کی ہے مگر پیشہ ور اقوام جن میں لوہار درکھان ،حجام ،اور موچی ٹولہ منگلی کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ ہیں ۔یہاں ذات پات کا امتیاز نہیں برتا جاتا اور اپنے قبیلے سے باہر بھی رشتے ناطے کر لیتے ہیں۔مرا ثی، قریشی اور سید اقوام یہاں بالکل اباد نہیں ہیں۔
ٹولہ منگلی کے سارے باشندے پشتو بولتے ہیں اور اس لیے ایک ہی نام خٹک سے اپنی پہچان کراتے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل ان خٹک کے ساتھ ہندو بھی آباد تھے جو اکثر غریب تھے، کچھ دکانداری اور چند کاشتکاری کر تے۔ ریمل اور کوکا دو بھائی تھے جو دکانداری کرتےتھے اور ان کی ماں کا نام نیالی تھا۔ قیام پاکستان کے وقت ٹولہ منگلی سے یہ ہندو بحفاظت نکل گئے مگر کالا باغ کے مقام پر ان ہندوؤں پر حملہ کرنے والوں میں ٹولہ منگلی کے لوگ نہ صرف سر فہرست تھے حملہ کرتے وقت ٹولہ منگلی کے خوش باتو قلندو خیل نے نعرہ تکبیر لگایا تھا تو حملہ شروع ہو گیا تھا اور کوٹ چاندنہ کا موسیٰ خان اور ٹولہ منگلی کا محمد گل در کھان پولیس کی فائرنگ سے مارے گئے تھے
لوٹنے اور لٹنے کی رسم پرانی ہے اور خود ٹولہ منگلی کے لوگ اس کا شکار رہے ہیں خصوصا سکھہ شاہی دور میں سکھ جب گھوڑوں پر سوار آ جاتے تھے تو ٹولہ منگلی کے باشندے پہاڑ پر چڑھ جاتے اور اپنا ترکہ اور مال مویشی بھی ساتھ لے جاتے تھے، سکھوں کا دور ختم ہوا اور انگریز نئے حکمران بن گئے تو ٹولہ منگلی کےغفورہ اور پائیو،( شہباز خیل )، نور زمان اور گل میر انگریزی دور میں اشتہاری قرار پائے اور لوٹ مار کر تے لڑتے جھگڑتے ایک ایک کر کے انگریزی سپاہ کی گولی کا نشانہ بنتے گئے پائیوں انگریزی لیوی کے گھیرے میں آ کر گولی کا نشانہ بنا ،تو گل میر بھی انگریزوں کی پولیس کے ہاتھوں انجام کو پہنچا اب چونکہ امن ہو چکا ہے.
ٹولہ منگلی کے لوگ امن پسند ہیں، قتل و غارت اور لڑائی جھگڑا ان کا عمومی پیشہ نہیں ہے یہ امن پسند اور محنت کش لوگ ہیں قدیم وقتوں سے اکثریت گلہ بانی اور کھیتی باڑی کرتی تھی پہاڑی گھاس اور لکڑی کاٹ کر کالا باغ لے جاتے تھے جسے بیچ کر ضرورت کا سامان لے اتے تھے کوٹ چاندنہ کہ ملیار سبزی اور قصائی گوشت بیچنا ٹولہ منگلی لے جایا کرتے تھے کیونکہ ٹولہ منگلی میں نہ تو سبزیوں کی کاشتکاری ہوتی تھی اور نہ وہاں پہ کوئی گوشت کا جانور ذبح کیا جاتا تھا آبادی کم تھی، اس لیے یہ ضرورتیں کوٹ چاندنہ سے پوری ہوتی تھیں اب بھی ضرورت کا زیادہ تر سامان کو ٹ چاندنہ سے لے کر جاتے ہیں
ٹولہ منگلی کے باسی کھیل کے میدان میں قدیم وقتوں سے انتہائی جوش و جذبہ دکھاتے بزرگ کبڈی اور تودھ کے شوقین تھے لیکن سارے مقامی سطح کے کھلاڑی تھے ، تاریخ میں کوئی نامور کھلاڑی سامنے نہ آ یا اکثر مقابلے چاپری والوں سے ہوتے لیکن ہر کھیل کا اختتام لڑائی جھگڑے پر ہوتا کھیل کھیلنے کے بعد ایک جھگڑے میں مینا روز نامی شخص فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہوا تھا ۔نہ جانے کھیل کو جھگڑے اڑا لے گئے یا جھگڑوں کو کھیل ساتھ لے گئے کیونکہ نہ اب کبڈی ہے نہ چاپری والوں سے لڑائی جھگڑے ہیں ۔کبڈی اور تودھ جیسے کھیل تو عرصہ ہوا لیکن موجودہ دور تک تیر کمان سے پرندوں کا شکار کھیلا جاتا رہا ہے شاید تحصیل عیسیٰ خیل میں یہ واحد گاؤں ہو یہاں تیر کمان کو شکار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کبھی کبھی انسانوں کا شکار بھی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک تقریبا ڈیڑھ درجن افراد قتل ہو چکے ہیں لیکن کوئی بھی قاتل پھانسی نہیں لگا تھوڑی مدت قید بگھتنے کے بعد صلح ہو جاتی ہے اور قاتل پھر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
پرانے وقتوں میں پرانے منگلی پر صحت عام کے لیے شفا خانہ نہیں تھا بلکہ خان گل فیر وز خیل کچھ حکمت جانتا تھا اور کچھ اپنی حکمت عملی سے کام لے کر مریضوں کا علاج معالجہ کرتا جب مرض اس کے ہاتھوں سے کنٹرول نہ ہو پاتا تو اہل خانہ مریض کی چارپائی کندھوں پر اٹھاکر یا مریض کو گدھے پر بٹھا کر کالا باغ لے جاتے تھے یہ مریض کی اپنی قسمت تھی اور ہسپتال پہنچ جاۓ یا قبرستان پہنچ جاۓ لیکن یہ تو پرانا دور تھا ،اب کے جدید دور میں بھی ٹولہ منگلی میں سرکاری ہسپتال نہیں ہے اور مریض عطائی قسم کے ڈاکٹروں یا میڈیکل کور سے ریٹائرڈ ڈسپنسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔
بھلا ہو حکومت کا ، کہ یہاں ایک گرلز پرائمری سکول اور ایک ایلیمنٹری سکول کھول دیا تھا جس سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھا رہے ہیں ۔2008 ء میں اس بوائز ایلیمنٹری سکول کو ہائی سکول کا درجہ مل گیا جس کی ایک وسیع عمارت تعمیر ہو چکی ہے اور کلاسز کا اغاز بھی ہو چکا ہے ۔تعلیمی سہولتوں کی محرومی نے ان لوگوں میں علم سے محبت کی ایسی جوت جگائی ہے کہ ان لوگوں نے کیڈٹ کالج کی تعمیر کے لیے سینکڑوں کنال اراضی عطیہ کی ہے جس کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے ۔
تعلیم کی اس کمی نے سول ملازمتوں سے تو محروم رکھا تو لوگوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا راستہ ڈھونڈنے ڈالا انگریزی دور سے اب تک دھڑا دھڑ فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور کوئی ایسا گھر نہ ہوگا جس کے اکثر مرد فوجی نہ ہوں لیکن صوبےدار میجر کے عہدے سے آگے نہیں جا سکے حالانکہ سپاہیانہ جذبہ ان لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے .1971 ء کی پاک بھارت جنگ میں ٹولہ منگلی کے بہت سے فوجی قیدی بن گئے تھے مگر میر دل نامی جوان بنگال سے واپس نہ آسکا اور لاپتہ ہو گیا۔ کھیتی باڑی کے ساتھ سب سے بڑا پیشہ فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی ملازمت ہے ۔
ٹولہ منگلی کی قبرستان میں جانا ہو تو تو درجنوں قبروں پر قومی پرچم یوں لہراتے نظر آئیں گے جیسے عدم آباد کے مکین یوم ازادی منا رہے ہوں مگر یہ ان شہداء کی قبور ہیں جنہوں نے مادر وطن کے لیے جانوں کے نذرانے بلوچستان وزیرستان اور دیگر علاقوں میں پیش کیے ہیں اس قربانیوں کے باوجود اس گاؤں میں نہ تو کوئی فوجی فاؤنڈیشن کا ہسپتال ہے اور نہ کوئی سکول ہے۔ البتہ فوجی میں بھرتی ہونے والے جوان شہری ماحول اور چھاونیوں کی تہذیب کے طور طریقوں کے جلوے اپنے گاؤں میں بھی دکھاتے ہیں بڑے بوڑھے اپنی ثقافت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور نوجوان نئی تہذیب کے دلدادہ ہیں۔


