” ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا “
“
علامہ اقبال کا یہ فقرہ تو اکثر لوگوں کو یاد ہے جو انہوں نے غازی علم دین شہید کی تدفین پر کہا تھا لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کوو معلوم ہے کہ لحد تیار ہونے پر اس کی پیمائش اور دیگر امور کا جائزہ لینے پہلے وہ خود قبر میں اترے تھے اور عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی لحد میں لیٹے تھے
یہ بات جناب کامران رشید نے مجھے کل یعنی دس جولائ سن چودہ کو فون پر بتائ ۔ کامران رشید ، غازی علم دین شہید کے بھائئ محمد دین کے پوتے ہیں ۔ طالع مند کے ہاں محمد دین کے بعد معراج بیگم پیدا ہوئ تھیں ۔ اور ان کے بعد غازی علم دین ۔ گستاخ راج پال کے قتل کے وقت محد دین شادی شدہ تھے اور ان کیے ہاں بچی بھی پیدا ہو چکی تھی جس کانام انور ہے۔ انور اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے غاذی شہید کا پیار بھی نصیب ہوا۔ محترمہ انور سعید اور ان کے میاں سعید احمد غوری اس وقت نوے سال سے اوپر کے ہیں ، دین محمد کے بیٹے اور کامران رشید کے والد کا نام رشید احمد تھا ۔کامران رشید کے پاس اپنے دادا محمد دین کی باتیں محفوظ ہیں جو اس گھرانے کا مشترکہ اثاثہ ہے اور انور سعید صاحبہ کے پاس 180 دانوں والی غازی علم دین شہید کی اس تسبیح کے کچھ دانے بھی محفوظ ہیں جس کا ذکر غازی شہید نے اپنی وصیت میں کیا ہے۔ چند اس لۓ کہ وہ یہ سوغات دانہ دانہ ان افراد میں بانٹتی رہی ہیں جو تبرک کے طور پر مانگ لیتے تھے ۔
میرے ایک سوال کے جواب میں کامران رشید صاحب نے بتایا کہ اپنی پھپھی محترمہ انور سعید کے ساتھ وہہ 1985 میں نہیں بلکہ 1982 میں جب وہ آٹھویں کے طالب علم تھے ، میانوالی اس جگہ کو دیکھنے گۓ تھے ، جہاں غازی شہید 31 اکتوبر 1929 سے 14 نومبر 1929 تک یعنی پندرہ دن امانتا” دفن رہے ۔ یہ میانوالی کیلۓ ایک اعزاز ہے۔ میانوالی شہر عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی اس خوشبو سے آج بھی مہکتا ہے ۔
غازی شہید کی وصیت مزار کے احاطے میں آویزاں ہے ۔ اس طویل وصیت میں ایک دو باتیں ایسی ہیں جو اہل نظر کوو روحانی حوالےسے دعوت دیتی ہیں کوشش کروں گا کہ اگلی کسی پوسٹ میں وہ مکمل پیش کروں ۔ ایک بات جو اس وصیت میں میری نظر میں نہیں آرہی تھی ، میں نے پوچھ لی اور وہ یہ تھی کہ ابوالفتح سرمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ غازی شہید نے شہر میانوالی کے لوگوں کی میزبانی پر خوش ہو کر انہیں مکھی مچھر کی وباوں سے اللە کی پناہ میں رہنے کی دعا دی تھی لیکن وہ اس وصیت میں کہیں نظر نہیں آی ، کامران دشید نے مجھے بتایا کہ یہ وصیت وہ ہے جو غازی صاحب نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو سرکاری طور پر لکھوائ تھی ، وہ اس کے علاوہ مختلف لوگوں کو وصیت کرتے رہے اور میانوالی کے لوگوں نے تو غازی شہید کو بچانے کیلۓ جیل کا گھیراو کر لیا تھا ، میرے دادا محمد دین کہتے تھے ہمارے روکنے پر وہ مشکل سے جیل نہ توڑنے پر راضی ہوۓ۔ دادا محمد دین ، میانوالی کے لوگوں کی محبت اور مہمان نوازی کو ہمیشہ پیار سے یاد کرتے تھے۔
میں نے جب محمد اکبر خان خنکی خیل کا پوچھا تو کہنے لگے ، یہ نام تو ہم نے اپنے گھر میں اتنی بار سنا کہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا۔ سچیی بات ہہ ہے کہ میں نے فون پر ان کو محمد اکبر خان کا حوالہ دیا تھا تو کامران رشید کی آواز میں اپنائیت کی مٹھاس چھلکنے لگی تھی اور وہ بہت خوش ہو کر میرے ساتھ اس وقت تک محو گفتگو رہے جب تک میری ضرورت تھی ۔ میں نے چند ایسی باتیں اور بهی پوچھیں جو میں نے سنی تو تھیں لیکن میرے پاس اس کا کوئ ثبوت نہیں تھا۔ نوید ظفر مرحوم نےمیرے ریڈیو پروگرام سوغات کے سلسلے ماضی کے نقوش میں بتایا تھاکہ ایک بہت بڑے گدی نشین پیر بزرگ ملاقات کیلۓ آۓ تھے ( نام میں خود نہیں دے رہا) اور انہوں نے غازی صاحب کو سورت یوسف کی تلاوت سنائ ، تو کچھ مقامات پر غازی شہید نے انہیں ٹوک کر خود صحیح الفاظ ادا کۓ ۔ یہ بات سن کر وہ بولے ، جی ہاں ، یہ واقعہ دادا محمد دین نے ہمیں اسی طرح بتایا تھا ۔ غازی شہید کو جاننے والے اس پر حیران تھے کہ بیس سال کاایک ان پڑھ نوجوان چند ماہ میں کیسے اتنا عالم ہو گیا ۔ دوسری بات یہ کہ مشہور پنجابی شاعر عشق لہر نے ایک ملاقات میں انہیں اپنا کلام سنایا تو غازی شہید نے کہا میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی کچھ سناوں ۔ کامران رشید صاحب نے کہا جی ہاں، ان کی وصیت میں ان کا پنجابی کلام بھی درج ہے ۔ کامران رشید کا رابطہ نمبر 03228742242 ہے ، آپ ان سے چاہیں تو خود بات کر سکتے ہیں ، میں کچھ مزید باتیں اگلی پوسٹ میں شئیر کروں گا ، اس وقت میں غازی کے وارث گھرانےکو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں جو غازی کے مزار کو عشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی علامت سمجھتے ہیں ۔ اس عشق میں کوئ گدی نشین نہیں ہے، عشق کے اس میدان میں مزار، پیسے بنانے والی کوئ ٹکسال بهی نہیں ۔ مزار کے احاطے میں ایک سے زیادہ جگہ پر درج ہے ۔
مزار شہید کا کوئ گدی نشیں نہیں ، مزار شہید کیلۓ کسی فرد یا ادارے کو چندہ نہ دیا جاۓ ۔۔
غازی کی شہادت ہجری اعتبار سے 13488 میں ہوئ تھی اور کسی نے کیا خوب تاریخ نکالی ہے ” یا غازی شہید “۔-