جنم بهومی سے پیار
عوارف المعارف کی روایت

Janam Se Pyar

میانوالی میرا شہر ہے ، مجھے جب کوئ میانوالی کا فرد own کرتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔جس شہر میں آپ پیدا ہوتے ہیں ، آپ کا اس سے ازل سے کیا رشتہ ہے ، میں آج اس کی وضاحت آپ تک پہنچا دوں ۔عوارف المعارف کے پہلے باب میں ہے، ہم جس جگہ پیدا ہوتے ہیں ، ہماری مٹی یعنی جسد خاکی اسی جگہ کی مٹی سے بنا ہے -کتاب میں یہ روایت تفصیل سے ہے ، مختصر یہ هے کہ ہماری تخلیق سے پہلے زمیںن پر سیلاب آیا تھا اور اس سیلاب کے وجہ سے مٹی ادھر سے ادھر ہوئ تھی ۔ جس کی مٹی بہہ کر کہیں اور جا کر ٹھہری تھی ، ہم مرنے پر اس جگہ دفن ہوتے ہیں – یاد رھے کہ عوارف المعارف حضرت سہروردی ؒ کی تصنیف ہے جن کے نام کی نسبت سے صوفیہ کا سلسلہ سہروردیہ ھے –
سو میرا اس شہر سے پیار فطری امر ہے، لیکن ۔۔۔۔
اب دیکھیۓ ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
میرے ایک عزیز ساتھی جرنلسٹ ، شہر کا نام جن کے نام ک حصہ ھے ، سید رسول ترگوی کہتے ییں :—
میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے لوگ جب شہروں میں ملازمت کے لئے شفٹ ہوتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہےے کہ وہ اپنا مکان بنا لیں.اس میں بعض کامیاب ہوتے ہیں اور بعض ناکام.ایسا کیوں ہوتا هے .اس پر میرا وجدان کہتا ہے کہ جس کی مٹی نے جہاں دفن ہونا ہوتا ہے سب پہلے اسے اس علاقے میں مکان کی بنیاد مل جاتی ہے – اسی بات کی طرف آپ نے بھی اشارہ کیا ہے-
ترگوی صاحب کی خدمت میں عرض ھے کہ یہ تو مقدر کی بات ہے – انسان کا مستودع (قرآن کی زبان میں یعنی مرنےے کے بعد کہاں سونپا جائے گا ) اللہ میاں ہی جانتے ہیں – بعض اوقات اپنے شہر میں ساری عمر رہنے کے بعد بهی کسی کے نصیب میں وطن میں کی مٹی نہیں ہوتی اور ایسا بهی دیکها ہے کہ دوسرے شہر میں مکان ہونے کے باوجود اور ساری عمر وہاں گزارنے کے باوجود لوگ اپنے آبائی علاقوں میں دفن ہوتے ہیں –
شاید یہ مرنے اور دفن ہونے کی باتیں کسی دوست کیلئے پریشان کن ہوں لیکن اسلام نے اپنی موت کو یاد رکھنے کی بہتت تاکید کی ہے – اور ماڈرن نفسیات کے حوالے سے بهی ایک ریسرچ سرسری سی نظر سے گزری جس کا لب لباب یہ تها کہ اپنی موت کا سوچنے سے انسان میں مثبت اور خوشگوار تحریک پیدا ہوتی ہے –
جناب عابد خواجہ استاد براڈکاسٹر اور میرے پرانے دوست اس پوسٹ کے حوالے سے کہتے ہیں :–
اس میں کوئی شک نپیں کہ بندے کو اپنے وطن سے دلی ‘ نفسیاتی، اور وراستی لگاو ہوتا ھے۔
وطن سے مراد ملک نہیں ھے بلکہ وہ مخصوص علاقہ ھے جہاں میں اور میرے آباو اجداد پیدا ہوئے اور رہے بسے۔
This is rather inherited nature within us.
مجھے یقین ھے کہ ایسا علاقہ چاہے وہ گلگت ہو یا بمبئی خط استوا کی تپتی زمین ‘ ھمارا اس سے فطری لگاو ہو گا۔۔۔
عابد خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض ھے کہ میں نے اس مختصر سی پوسٹ میں تصوف کی ایک ایسی بات پیش کی ہےے جس کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے ، اور میرا خیال ہے میرے بہت سے دوستوں کی نظر اس پر نہیں گئی بلکہ اسے وہ میری میانوالی سے محبت کو سرسری طور پر ہی سمجھے ہیں – آپ نے صحیح کہا ہے کہ گلگت میں رہنے والے کو گلگت اور تربت کے باسی کو تربت ہی اچها لگتا ہے اور یہ فطری امر ہے ، لیکن اس فطرت کی بنیاد کیا ہے وہی عوارف المعارف کے حوالے سے میں نے عرض کی ہے –
اس حوالے سے میں نے کچھ اشعار بهی کہے ہیں لیکن شاید ان کا حوالہ زاید از کار ہو –
بہت شکریہ آپ نے اس حکایت کا سلسلہ خوشگوار انداز میں دراز کیا ہے-
محترم نذیر احمد اس پوسٹ پر اپنے کمنٹس میں کہتے ہیں :–
معذرت کے ساتھ ، آج ھماری حب الوطنی کا یہ حال ھے کہ باہر نکلے تو مڑ کر نہیں دیکھا – ویسٹ ھمارا قبلہ وکعبہ بن چکا ھےے – امریکن ویزا کیلئے ھم رات رات بھر کهڑے رھتے ہیں – بڑے شہروں میں گھر مل جائے تو —
میں اس کی حب الوطنی مانوں گا جو فراغت کے بعد اپنے شہر یا گاوں جا کر اپنی کمائی سے مکتب یا ہسپتال کھولے – یا کم از کم اپنےے ساٹھ سالہ تجربے سے پسماندہ لوگوں کی رہنمائی کرے – ہماری غریب الوطنی جبری نہیں اختیاری ھے ، اس لئے اس ضمن میں ھمارے احساسات اور جذبات بے اثر اور بے روح ھوتے ہیں ، اس پیشہ ور شاعر کی طرح جو قومی دن پر ریڈیو یا ٹی وی کی فرمائش پر شہرت یا چند پیسے کمانے کیلئے ملی نغمے لکھتا ھے —
محترم نذیر احمد نے بجا طور پر ایک ایسے رجحان کی نشان دہی کی ہے جو وطن کی مٹی سے محبت کے کمزور ہوتے تعلق کی نشانی ہےے – حب الوطنی کے بلکہ سارے روایتی رشتوں کے کمزور ہونے پر دنیا بهر میں بہت کچه سوچا اور لکها گیا ہے اور اس حوالے کوئی ایک نہیں، بہت سے عوامل اور وجوہات کا ذکر کیا جاتا ہے – بہر حال حقیقت یہی ہے کہ آج کا انسان اپنے روشن مستقبل اور آرام دہ معاشی صورتحال کے شوق میں وطن کی محبت اور باقی رشتوں کو بهی اپنے پاوں کی بیڑی نہیں بننے دیتا اور شاداب چراگاہوں کی طرف جانے میں کوئی دیر نہیں لگاتا –
برصغیر کے مسلمانوں پر تو ہمیشہ سے نہایت دلچسپ اعتراض یہ لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ کھاتا یہاں کی ہے اور ساری عمر کہتا رہتاا ہے —
میرے مولا بلا لو مدینے مجهے –
اور جب وہ مدینے جاتا ھے تو وہاں اسے قدم قدم پر غیر ملکی کا احساس دلائے جانے اور کوئی شہری حقوق نہ رکھنے پر اسے اپناا وطن یاد آتا ھے –
اس کے علاوہ اپنے آبائی وطن کو چهوڑ کر جانے والے کو مٹی کی وہ خوشبو جو اسے گهٹنوں کے بل چلنا سیکھتے ھوئے محسوس ھوئیی تھی ، اسے مستقل هانٹ کرتی ریتی ھے اور اسے اندازہ ھوتا ھے کہ اپنے وطن جیسی نعمت کوئی نہیں –
میانوالی کا ایک اکھان ( Quite) ھے ، بلخ نہ بخارے ، جو مزا چھلو دے چو بارے – چھلو کا چوبارہ میانوالی میں گلی بنکک کے آخر پر مین بازار میں واقع ھے –
وطن چهوڑنا جبری هے یا اختیاری ، یہ عمل بہت درد ناک ھے – دانہ پانی کی تلاش میں جب آشیاں سے پرندہ بہت دور نکلل آئے تو پهر اسے رات آشیاں سے دور ہی گزارنا پڑتی هے –
یہ بہت ایک دکهی موضوع ہے جس کی چبھن سمندر پار پاکستانی ہی زیادہ محسوس کرتے ہیں —
اپنے شہر کےمسائل کے حوالے سے کچھ پرانی باتیں یاد آ گئیں ۔
اس پک میں یہ میانوالی کے ریلوے پلیٹ فارم کا جنوبی کونا ہے۔ غور سے دیکهیں تو عقب میں سلاخوں کے اندر سےے مشہور زمانہ ، لما سنگل (South Signal) نظر آ رہا ہے، اس پلیٹ فارم کے سامنے گورمنٹ ہائ سکول ہے ( جو پک میں نظر نہیں آ رہا ) جہاں سے میں نے 1962 میں میٹرک کیا تھا ۔ ریلوے پلیٹ فارم کے اس کونے میں اور کبھی کبهی اس سے ذرا پیچھے جہاں ایک واٹر ٹنکی ہے ، وہاں میرے اسکول کے دنوں میں سفید لمبی داڑهی والا ایک بابا آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ وہ عموما” ننگے سر ہوتا، اس کی داڑهی اور سر کے لمبے بال ہوا میں لہراتے رہتے تهے ، دو تین افراد اس کے ساتهه تماشائی کی صورت میں ہوتے – وہ کون تھا ، کیا نام تها ، یہ تو مجھے معلوم نہیں ، میں نے اسے زرا فاصلے سے ہی دیکها، بات کرنے یا اس کی بات سننے کا موقعہ نہیں ملا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ سارا دن شمال سے آنے والی گاڑیوں کا اس امید پر انتظار کرتا تھا کہ کسی گاڑی سے حضرت عیسٰی علیہ السلام تشریف لائیں گے اور ہمارے حالات بدلیں گے۔ اس بابے کے ساتھ جو چند افراد شغل میں کمپنی کرتے تھے ان میں اشرف خان مرحوم عالم خیل کا نام مجھے یاد ہے۔ یہ پچاس سال سے زیادہ کی بات ہے، مسائل اور دکهوں کے حل کیلئے مسیحا کا انتظار کرتے کرتے وہ بابا اور اس کے تماشائی بهی خدا جانے کب کا رخصت ہوگئے ، میانوالی کا وہی حال ہے ، وہی مسائل ہیں اور وہی دکه ہیں اور میانوالی کے لوگوں کی حالت زار وہی بلکہ اس سے بهی بد تر ہے —
اور اب تو خود میں بهی بابا بن چکا ہوں ، داڑهی سفید ہو چکی ہے – اب تو ٹرینیں بھی کم کم آتی ہیں اور سب سے بڑا دکھ تو ہے کہ مجھ سےے تو میرا پلیٹ فارم بهی کهو گیا ہے ، میرا مسیحا کہاں آئے گا ۔۔۔۔

ظفر خان نیازی –8 جون2014

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top