کر کر منتاں یار دیاں
میانوالی اور شاعری
شاعری نے مجھے ہمیشہ حوصلہ دیا ھے -میں نے شاعری کے سینے سے لگ کر ایسی باتیں بھی کہی ھیں جو میں بے تکلف دوستوں کو بتانا تو کیا فکشن میں بھی لکھنے کی جرآت نہیں کر سکا ، یہ سوچ کر کہ کہیں دوسرے ہنس نہ دیں – مثال کے طور پر میں آج تک یہ حقیقت کسی کو نہیں بتا سکا کہ میانوالی کا وہ گھر جہاں میری ماں رہتی تھی اس کے آنگن میں کهڑے ھو کر میں آسمان کی طرف دیکهوں تو مجھے لگتا ھے آسمان یہاں سے بہت قریب ھے –
میں نے اپنی گفتگو اور شاعری میں میانوالی کی قبروں اور قبرستان کا بہت ذکر کیا ھے – اور وہ اس لئے کہ دعائیں میں نے وہاں سوئے ھوئے لوگوں سے سیکھی ہیں ، زندگی کے خواب البتہ مجھے میانوالی کی جاگتی صحبتوں میں عطا ھوئے هیں – محبتوں اور نفرتوں کی انتہا ، ذرا سی دوستی پر جان دے دینے اور معمولی سی دشمنی پر جان لے لینے کی قاتل ادا دوسرے شہروں کے حصے میں کم کم آئی ھے – عشق میں گھلتے رہنا لیکن محبوب کا نام لب پر نہ لانا جواں مردی اور شاید یہاں کی ضرورت بھی سمجھی جاتی ھے – خوبصورت چہرہ اور خوبصورت کردار عام آدمی کی کمزوری ھے – ایک بزرگ کی نصیحت تھی ، پردیس میں کہیں لٹ جاو اور مجبوری کے عالم میں امداد مانگنا ہی پڑے تو خوبصورت چہرے والے سے سوال کرنا – خوبصورت چہرے کا فلسفہ مجھے ذرا دیر سے سمجھ میں آیا کہ یہ تو اندر کا حسن ھے جو چہرے پر منعکس ھو رہا ھوتا هے – یہی وجہ ھے ، لوگ اپنے مرشد کا چہرا تکتے نہیں تھکتے – میانوالی کا ایک شخص پردیس میں کہنے لگا ، یہاں تو چاند بھی اتنا چهوٹا سا هے، میانوالی کا تو چاند بھی اتنا بڑا ھے – میانوالی کے ذکر پر اس نے جس طرح دونوں بازو کھول کر چاند کا نقشہ بنایا ، یہ ان لوگوں کیلئے حیرت کی بات نہیں ھے جنہیں دریائے سندھ پر ڈوبتے ھوئے سورج اور تھل کے آباد صحراوں میں سفید ریت پر چاند کی اٹکھیلیاں دیکھنے کا موقع ملا ھے – شاید ہر بچے کو اپنی ماں ہی زیادہ پیاری لگتی ھو بہر حال میانوالی کی ماں بولی جس وزن پر بولی جاتی ھے ، شاعری کے شائقین کیلئے اس کا مطالعہ بہت دلچسپ ھے – ایک عام آدمی گفتگو کر رہا ھو ، بے شک تقطیع کرتے چلے جائیے ، اس کی ساری گفتگو اردو شاعری کے مروجہ اوزان پر پوری اترے گی – مجھے یہ بات ریڈیو کے ساتھی کنٹرولر پشاور کے حمداللە بسمل نے بتائی تھی جسے وہاں پر گھومتے ھوئے یوں لگا تھا جیسے لوگ تحت اللفظ میں ایک دوسرے کو نظمیں سنا رھے هوں – انسان کی پہلی زبان نظم ھونے کا عمرانی نظریہ مجھے غلط محسوس نہیں ھوتا کہ محبت کی پہلی زبان بھی تو نظم ھے – نظم کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ھے کہ وزن کی وجہ سے یاد آسانی سے ھو جاتی ھے – شاید یہی وجہ ھے کہ وہاں کے لوگ اپنا کہا اور دوسرے کا کیا بھولتے نہیں ہیں – کئی ایسے لوگوں کی یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں جو زندگی بھر ایک آدھ مصرع ہی الاپتے گزر گئے -اس ایک مصرع کا مطلب ہر بار موقع محل کے مطابق نئے معانی دیتا تھا –
غلام حسین خان ، جندڑی نال جہان یا ڈھولا کڈاں سیانا تهیسیں —
ایسے مصرعوں میں ان کی عمر بھر کی اداسیاں اور محرومیاں چھپی ھوتی تهیں – اور اس ایک مصرع نے تو خود میرا زندگی بھر تعاقب کیا ھے ، کر کر منتاں یار دیاں آخر آن جوانی ڈھلی —
یہ گیت پہلی بار میں نے بوڑهوں سے سنا تھا – اس وقت اونٹوں کی بارات جا رھی تھی – عورتیں اور بچے کجاووں میں سوار تھے – مجھے یاد پڑتا ھے ہمارے ایک طرف دریا کی چاندی بہہ رھی تھی – مجھے یاد نہیں ، وہ بارات کس کی تھی ، لیکن اتنا یاد ھے کہ کجاوے پر بیٹھی ھوئی خواتین کے شٹل کاک برقعوں میں میرا دم گهٹنے لگا تھا اور میں کجاوے سے اتر کر اپنے نانا جان کے کندھے پر سوار ھو گیا تھا – مرد پیدل ہی کورس میں گاتے جا رھے تھے – آخر آن جوانی ڈھلی – باقی کے بول مجھے کبھی یاد نہیں آئے – صرف بھلی وے بھلی اور کھلی وے کھلی کے دو مزید قافیے ہی یاد رہ گئے هیں – میں جب پہلی بار ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر کوئٹہ سے سبی جا رہا تھا تو نیچے جھانکنے پر مجھے یوں لگا تھا جیسے میں نانا جان کے کندھے پر هوں – کر کر منتاں یار دیاں —
میانوالی کی یہ بولی سندھی اور پنجابی کا خوبصورت امتزاج سرائیکی ھے لیکن باقی علاقوں کی سرائیکی سے اس لحاظ سے مختلف کہ اس پر پشتو کے بلند آہنگ لہجے کی چھاپ ھے – اس خوشگوار سنگم پر شاید کسی کی نظر نہیں گئی – ان عوامل نے میانوالی کی بولی میں جو دلربا ردھم اور میانوالی کے لوگوں کی روزمرہ زندگی میں جو تیز بائیو ردھم پیدا کر دیا ھے اس کی وجہ سے یہ زبان اور لوگ ، سرائیکی علاقے کے باقی لوگوں اور لہجوں سے مختلف اور ممتاز ھو گئے ھیں – اور دلچسپ حقیقت تو یہ ھے کہ اسی ردھم کی بنا پر یہاں کے علاقائی گیتوں کی دهنیں انڈین فلم انڈسٹری تک اپنی پہچان بنا چکی ہیں اور میانوالی کا باسی ، دنیا کے کسی کونے میں ھو اپنی علاقائی شناخت قائم رکھتا ھے –
میانوالی کے عوام تو عوام هیں ، یہاں کے پیڑ پودے اور سبزی بھی منفرد ھے -سن بانوے میں میری کتاب خواب کنارے کی میانوالی میں تقریب رونمائی تهی – اس کیلئے میرا پبلشر اور دوست اظہر نیاز اسلام آباد سے اپنی کار میں ہمارے ساته میانوالی آیا تھا – اس کار میں میرے ساتھ میری والدہ بھی تهیں – تلہ گنگ سے نکلنے کے بعد رستے میں ایک جگہ پر میری والدہ نے کہا ، کتنے خوبصورت درخت هیں – کیا میانوالی آگیا –
ااور اس وقت ضلع میانوالی کی سرحد شروع ھو چکی تھی –
اظہر نیاز نے بعد میں مجھے کہا کہ آپ لوگ بہت عصبیت رکھتے ھو – آپ لوگوں کو میانوالی کے درخت بھی دوسرے علاقوں کے درختوں سے زیادہ خوبصورت لگتے ہیں –
میں نے کہا ، آپ یہاں کے درختوں کو دیکھ لیں اور پھر خود فیصلہ کریں کیا ھم واقعی تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں کہ حقیقت یہی ھے –
چاند بڑا ھے والی بات مجھے میرے اسٹیشن ڈائریکٹر جناب یوسف بنگش نے بتائی تھی جن کو مرحوم سجاد سرور نیازی نے پشاور میں پروگرام اسٹنٹ بھرتی کیا تھا – جناب سجاد سرور نیازی تخلیق پاکستان کے وقت پشاور اسٹیشن ڈائریکٹر تھے اور احمد ندیم قاسمی صاحب اس وقت پشاور اسٹیشن پر سٹاف آرٹسٹ تھے – پاکستان کی آزادی کے اعلان کے فورا” بعد ریڈیو پاکستان سے ملی نغموں کا پروگرام پیش کیا گیا تها – سجاد سرور نیازی مرحوم کی صاحبزادی میڈم شہناز خان بتاتی ہیں کہ چچا قاسمی کے لکهے هوئے نغموں کی دهن نیازی صاحب خود تیار کر کے اپنی آواز میں وہ نغمے آن ایئر کرتے رهے – پشاور تعیناتی کے دوران قاسمی صاحب ایک سال تک سرور سجاد نیازی کی خواہش پر ان کی رہائش گاہ پر ہی مقیم رھے – میری جناب قاسمی سے چند ملاقاتیں رھی هیں اور مجھے ان کے خصوصی سلوک سے خیال سا گزرتا تھا کہ وہ مجھے میرے نیازی ھونے کی بنا پر خاص توجہ دے رھے هیں – یہ بات مجھے ذرا دیر سے معلوم ھوئی کہ سجاد سرور نیازی کے علاوہ ایک اور نیازی سے بھی انہیں خاص تعلق خاطر تھا – اپنا پہلا مجموعہ کلام قاسمی صاحب نے روکهڑی کے جناب حمیداللە خان نیازی کلے خیل ایس پی کے نام معنون کیا تھا – سجاد سرور نیازی میانوالی کے پنوں خیل قبیلے سے تھے ، زادے خیل ان کی سسرال تھی – ریڈیو کی ڈائریکٹری اور زادے خیل سسرال مجھ میں اور ان میں کامن ھے لیکن قد و قامت کے اعتبار سے وہ بہت بڑے آدمی تھے – وہ ریڈیو پاکستان سے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ھوئے تھے – موسیقی کے اعلے درجے کے جانکار اور کچھ ساز بجانے کے ماہر تھے – ان کی آواز میں کم از کم دو نغمے ریڈیو کی ہر لائبریری میں مل جاتے ہیں ، جن کا کلام ، دھن اور آواز انہی کی ھے – نغمے هیں –
اک بار پھر کہو ذرا
دوسرا هے، اک بار پھر سنو ذرا –
ریڈیو پر کبھی کبھی ستار کی دهنیں لائیو نشر کرتے اور اس وقت اناونس منٹ ھوتی ، ایک صاحب سے ستار پر سازینہ سنئیے – یعنی اپنا نام نشر نہ ھونے دیتے ۔
ان کے مہمان میانوالی سے آتے ریتے تھے جن میں ایک اداس شخص نے جسے میانوالی یاد آرہا تھا ، یوسف بنگش صاحب کو کہا تها یہاں تو چاند بھی اتنا چهوٹا سا ھے ، میانوالی کا تو چاند بھی بہت بڑا ھے – یوسف بنگش 1982 میں آسٹیشن ڑائریکٹر اسلام آباد کے عہدے سے سبکدوش ھوئے تھے –
منان لطیف صاحب اس پوسٹ کے بارے میں کہتے ہیں –
بہت عمدہ ، میانوالی شہر سے اگرچہ میرا اس طرح کا تعلق نہیں جیسا آپ کا ہے،تاہم جو باتیں آپ نے لکھی ہیں وہ میرے مشاہدے میں بھی آںُی علاقاںُی محبت تو ہر کسی کےدل میں ہوتی ہے مگر باریک بین مشاہدہ اور تجزیاتی جاںُزہ لےکر اختصاصی نکات کو اجاگر کرنا خاصے کی چیز بن جاتی یہی خاصیت آپ کی تحریر کی ہے بہت شکریہ –
مجھے اس تبصرے نے ایک دلچسپ بات دلا دی – آپ کو یہ سن کر حیرت ھوگی کہ میانوالی ضلع سے باہر کے لوگ جن کا لڑکپن اور سٹوڈنٹ لائف میانوالی میں گزری ، میانوالی شہر چهوڑنے کے بعد عید منانے میانوالی آجاتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس شہر اور علاقے میں وہ محبت اور اپنائیت ملتی تھی جسے وہ یہاں سے جانے کے بعد شدت سے مس کرتے تھے –
اب حالات بدل چکے ہیں – اب تو میں 2015 میں سارا سال میانوالی ھی نہیں گیا – اور اس کی وجہ ستار سید کے اس شعر میں آپ کو نظر آجائے گی
مٹی کا سوندھا پن بھی تعفن میں ڈھل گیا
بهٹکا اگر تو اب مجھے گھر کون لائے گا
میری یہ کوشش میرے کھوئے ھوئے میانوالی کی دریافت کی ایک کوشش ھے – اور میری طرح آج کے کئی افراد کے آبائی شہر کھو گئے هیں – انہیں بھی میری باتیں اپنی باتیں لگیں گی ، اور اس کی تلاش کے سفر میں وہ میرے ہمراہی هوں گے –
اس پوسٹ پر پروفیسر سلیم احسن کہتے ہیں
“بلا شبه میانوالی ایک شاداب اور بھرے بھرے کلچر کی مالک هےاس میں بلا کی اپنائیت اور بھر پور کشش هے یه کلچر دلوں کی تخلیق اوردلوں کو وجدانی انداز میں اپنی گرفت میں لے لیتا هے یه هماری شناخت اورصدیوں کا قابل فخر سرمایه هے یه کلچر همارے دلوں میں ایک هونے کا جزبه پیدا کرتا هے مجھے ڈاکٹر افضل خان نیازی نے. لیبیا میں قیام کاایک واقعه سنایا که جب وهاں پر . پختونستان کے حامی پٹھانوں پر تنقید کرتے تو جوابا”کهتے که تمهارا میانوالویت کا جزبه همارے پختونستان سے زیاده خطرناک هے بلاشبه میانوالی میں ایک دوسرے سے بات بھی نه کریں میانوالی سے باهر ایک دوسرے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے هیں اور جب ایک … شنا…. دوسرے … شنا سے مل جاتا هے وارے نیارے هو جاتے هیں میانوالی سے باهر میانوالی کا هونا هی کافی هے لیکن میانوالی میں پوچھا جاتا هے … شنا کون تھیندئیں مجھے یاد هے هم اجمیر شریف. (انڈیا) میں ایک بازار میں گھوم رهے تھے ایک لمبا تڑنگااور گورا چٹا شخص نےهمیں روک کر پوچھا کهاں سے هو ؟هم نے جواب دیا پاکستان سے . وه تو ظاهر هے . پاکستان کے کون سے علاقه سےهو . جب هم نے میانوالی کا نام لیا تو بیخود هو کر لپٹ گیا کم بختو میں بھی تو وهیں کا هوں اجمیر میں آیا اسی لئیے که شائد کوئ میرے وطن کا کوئ بنده مل جائے میں .. جھانگی رام کا بیٹا هوں
عید گاه کے پیچھے همارا … کھوه.. تھا. اور اس نےکھلائے پلائے بغیر نهیں چھوڑا
ظفر نیازی نے ایک گیت .. کر کر منتاں یار دیاں. یه عیسی’خیل کے شاعر… یونس خان نے لکھااس کے کچھ بول یوں تھے
کر کر منتاں یار دیاں… آخر آن جوانی ڈھلی
آسے پاسے گئ جوانی کول نه آیا دلبر جانی
لائ هس عشق دی ڈاهڈی کانی پھراں….
مک گئ جندڑی رهیی نه جوانی
اساں ڈکھیاں دی کیں نه جانی
دل تو نی لاهندا دلبر جانی پھراں…..”.
پروفیسر سلیم احسن کی یہ خوبصورت اور مفصل گفتگو مجھے ان ملاقاتوں اور مباحث کی یاد دلا رھی ھے جو اس موضوع پر ہم دوستوں کے درمیان سن ستر سے لے کر چوہتر تک تو باقاعدہ اور پھر وقتا” فوقتا” ریتی تھی – اس سے پہلے کہ میں اپنے اس دور کا تذکرہ کروں ، میں واضح کر دوں کہ میانوالی کا جو کراڑ ( ہندو) میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا وہ منوہر لال تھا – وہ انڈیا سے آیا تو محلہ زادے خیل میں ہمارے پڑوسی حاجی نصیر خان بشیر خان برادران زادے خیل کا مہمان تھا – اس کا چہرہ ، لباس اور گفتگو سن کر ہمیں بہت حیرت ھوئی تھی – بوسکی کی قمیض ، سفید شلوار ، میانوالی کا کلاہ اور غالبا” گلے میں سونے کی زنجیری اور بڑی بڑی تاو والی مونچهیں- اس کے چہرے کی رنگت میانوالی کے عام پٹھان جیسی تھی اور گفتگو وہ میانوالی کی ٹهیٹھ زبان میں کر ریا تھا – ہمیں حیرت ھوئی کیونکہ ہم نے ہندووں کے بارے میں جو تصور قائم کر رکھا تھا وہ اس کے برعکس میانوالی کا کوئی مسلمان نظر آتا تھا – اس وقت پرانے لوگوں نے بتایا کہ منوہرا اپنے وقت کا غنڈہ تھا – اس دفعہ غالبا” وہ سلطان ذکری کے مزار پر دیگ چڑھانے آیا تها جو اس نے اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے منت کے طور پر مانی تهی – اس کے بیٹے نے دلی میں کوئی سکھ قتل کر دیا تھا – میانوالی کے ھندو سلطان ذکری کو میانوالی کے عام مسلم افراد کی طرح دادا ذکری کے نام سے یاد کرتے تھے –
بعد میں ایک بار وہ پھر میانوالی آیا تو اس وقت درانی نامی جیل سپرنٹنڈنٹ تھا – کالج میں صوفی گلزار تبسم ( صوفی تبسم کا صاحبزادہ ) پرنسپل تھے – ان دنوں میانوالی جیل سے کچھ انڈین ایجنٹس کے فرار کی کہانی اور دبے لفظوں میں منوہر لال کا ہاتھ ھونے کی افواہ زبان زد عام تهی – اس کی تصدیق نہ ھو سکی – منوہر لال کو حکومت ھند کی طرف سے تمغہ ملنے کی بات بھی سنی تھی –
آخری بار منوہر لال اور لالہ روشن لال چکڑ اکٹھے آئے تھے – ان سے اسلام آباد جی نائن میں اعظم خان نیازی وتہ خیل (غالبا”) کے ہاں ملاقات ھوئی – وہ دونوں میانوالی سے ھو کے یہاں آئے تھے – اس بار منوہر لال کے مزاج میں چڑچڑا پن زیادہ تھا شاید وہ تھک گیا تها اور لگتا تھا کہ اب وہ پاکستان دوبارا نہیں آئے گا – وہ اس کا میانوالی اور پاکستان میں آخری پھیرا ہی تھا – سن 2000 کی مس ورلڈ ، لارا دتہ اس کی رشتے میں پوتی تھی ، یہ بات لالہ چکڑ نے بتائی تھی –
میں بات اپنے ماضی کے حوالے سے کر رہا تها – وہ هماری جوانی کا زمانہ تھا اور ہم دوستوں کا گروپ میانوالی کیلئے کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار تھا – هم کیا کر سکے اور کیا نہ ھو سکا ، لمبی کہانی ھے – وقت کے بہاو میں ہمارے کئی پیارے ساتھی ہمیشہ کیلئے بچهڑ گئے – پروفیسر ملک محمد اسلم ، پروفیسر شمیم احمد خان ، خادم قزلباش ، میر ناصر ، فضل نیازی اور جانے کتنے لوگ – میانوالی کے کلچر اور تاریخ پر سب سے اچھا اور تحقیقات پر مبنی کام پروفیسر ملک اسلم مرحوم کا تھا – ان کی دو کتابیں تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس تک سے چھپ چکی ہیں لیکن ان کے کئی خوبصورت کالم جو میانوالی کے کلچر کے حوالے سے تهے اور جنگ راولپنڈی کی زینت بنتے رھے ، میانوالی کے محاورے رسمیں وغیرہ پر تھے وہ کتابی شکل میں نہ آسکے – ملک صاحب کے ناگہانی انتقال سے میانوالی کا بہت نقصان ھوا – میں سمجھتا هوں تاریخ اور کلچر کے میدان میں ہمیں رستہ دکھانے کا کریڈٹ ملک صاحب کو جاتا ھے – دکھ اس پر ھوتا ھے کہ آج کی نئی نسل کو شاید ان کا نام بھی معلوم نہ ھو –
لیکن سکالر اور عالم حضرات ان باتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام کرتے ھی رھتے هیں – آج میرے لڑکپن سے لے کر اب تک کے ساتھی کلاس فیلو اور دوست سلیم احسن نے اپنے مخصوص خوبصورت انداز میں میانوالی کے کلچر کی بات کی ھے تو اپنے دیگر بچهڑے ساتھی یاد آگئے جو میانوالی کو خوشیاں کا گہوارا اور علم و دانش کا مرکز اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے – اللە پاک میرے ان مرحوم ساتهیوں کی قبروں پر اپنے انوار رحمت کی بارش فرمائے –
ظفر خان نیازی –8فروری2016