میانوالی کا برقعہ-ڈهک کی پہاڑی
ایک دلچسپ تضاد میں نے اپنے شہر کے کلچر میں اس وقت بھی دیکھا تھا ۔ شہر میانوالی میں تو یہ برقعہ تھا اور اتنی پابندی تھی ، دوسری طرف اسی قبیلے کی خواتین اپنے آبائ دیہاتوں میں بغیر ایسے برقعے کے ہوتی تھی ۔ نسبتا” غریب خواتین کھیتوں میں بھی جاتی تھیں گھاس اور ایندھن وغیرہ لاتی تھیں ۔ شہر میانوالی آکر چاہے امیر چاہے غریب، وہ سخت برقعہ کرتی تھیں اور لاہور جا کر برقعہ پھر اتر جاتا تھا ۔ اسلام آباد میں ایک دفعہ بہت دلچسپ سین ہوا۔ میں ڈاکٹر جی ایم ملک جو کہ پمز ہاسپیٹل میں ہڈیوں کے امراض کےماہر تھے ، کے پاس بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بہت خوش مزاج ، ہنس مکھ اور متواضع مزاج کے بہت پیارے انسان تھے۔ بات بات پر لطیفہ چٹکلہ ان کا معمول تھا ، وہ نمل کے تھے اور نمل سڑک کنارے ایک بلڈنگ ہسپتال کیلۓ تعیر کر رکھی تھی لیکن ان کے بچے غالبا” باہر شفٹ ہو گۓ ہیں ۔ ان کے کمرے میں میانوالی کے ایک سرکردہ سیاسی خاندان کے ایک فرد اپنے بیوی بچوں سمیت آئے اور ان کے فورا” بعد ہی ان کے مخالف گروپ کے عیسےخیل کے انتہائ سرکردہ صاحب جو کبهی وزیر بهی رہ چکے تهے ، اپنے بیوی بچوں سمیت آگۓ ۔ کسی بھی خاتون یا لڑکی کا برقعہ یا حجاب نہیں تھا ۔ ان دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا ۔ بعد میں کیا ھوا ، مجھے معلوم نہیں کیونکہ اسی دوران میں اپنی روایت کے مطابق میں کسی کو سلام کۓ بغیر کھسک کر باہر آگیا تھا –
میرا مطلب آپ کو یہ بتانا ہے کہ میانوالی شہر کا کلچر وکھری ٹائپ کا ہے۔ ہاں ایک بات قابل فخر یہ عام بات تھی کہ لڑائ کےے دوران چاہے سخت فائرنگ ہو رہی ہوتی اگر کوئ خاتون درمیان میں آ جاتی تو فائرنگ فورا” رک جاتی ۔ کوئ مخالف ، جانی دشمن اگر خواتین کے ساتھ جا رہا ہوتا تو اس پرحملہ کرنا انتہائ کمینہ پن سمجھا جاتا تھا –
پروفیسر منور علی ملک جن کا بنیادی تعلق میرے دادا کے شہر داود خیل سے ھے ، کہہ رھے ہیں :–
” بھائ ظفر خان ، ھمارے دیہات میں یہ کلچر عام تھا کہ خواتین برقعہ یا نقاب کے بغیر بڑے اعتماد سے گلیوں میں چلتیی پھرتی نظر آتی تھیں- اس کی دو وجوھات تھیں- ایک تو خواتین کا کردار بہت مضبوط تھا، دوسرے مردوں کی آنکھ میں حیا تھی- خواتین کا احترام اتنا تھا کہ اگر خواتین صلح کے لیے کسی کے گھر چلی جاتیں ، تو اس گھر کے بزرگ قتل تک یہ کہہ کر معاف کر دیتے تھے کہ “ کال سریاں نوں خالی ہتھ ناں ولا سگدے“ ان خواتین کی سفارش قبول کر کے انہیں دوپٹے بھی دے کر بڑے احترام سے رخصت کیا جاتا تھا- آہ !!! کیا خوبصورت کلچر تھا وہ !”
– اس کلچر میں اب کتنی تبدیلی آئ ہے یہ میں نہیں جانتا، اب برقعہ کا کیا عالم ہے یہ بهی میں زیادہ نہیں جانتا ، اتنا ضرور ہے کہ ابب بھی میانوالی جانا ہو تو میری بیوی سب سے پہلے برقعہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہے , جسے وہ میانوالی کی حدود میں ڈھک کی پہاڑیوں کے بعد ہی کہیں استعمال کرتی ہے –
اپنی ایک پرانی پوسٹ سے یہ بات دہرانا ضروری سمجهتا ہوں کہ “میرے لئے یہ پشتون سٹائل برقعہ بہت جذباتیی کشش اور نفسیاتی طور پر تحفظ کا احساس رکھتا ہے ۔ میں 4/5 سال کی عمر میں والد کے ساۓ سے محروم ہو گیا تھا سو جب میری اماں کہیں جاتیں تو میں اس برقعے کو پکڑ کر ساتھ چلتا جاتا اور زیادہ گرمی ھوتی تو میں اس خیمہ نما برقعے میں آجاتا – اس میں جو حبس اور گرمی ھوتی اس سے مجھے بخوبی اندازہ ھے ، اس طرح کے برقعے میں ان خواتین پر کیا گزرتی هوگی جو میانوالی کے 120 درجہ کی گرمی میں سفر کر رہی ہوتی ہیں –
مجھے اس کرب اور دکھ کا علم ہے سو کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آۓ کہ میں نے اس برقعے کا مذاق اڑانے کی کوشش کیی ہے”۔
۔۔۔ء
ظفر خان نیازی –29 جون2014