میانوالی میں تانگے کی موت
ایک ثقافتی عہد کا خاتمہ
تانگہ میرے لئے کیا تھا ، بس یوں سمجھ لیجئے کہ بچپن لڑکپن میں عیدالفطر پر ٹانگے پر کمپنی باغ تک ایک دو پھیرے لگانا ہماری عید کی خوشیوں میں شامل تھا ، لیکن اس دن میانوالی شہر کے کوچوان چهٹی کرتے تھے ، عید کے دن چند زائد پیسے کمانے کیلئے مضافات سے چند ایک تانگے والے آجاتے تھے جو کمپنی باغ پہنچ کر واپسی کا کرایہ مانگ کر ہم بچوں کی عیدی سے اپنا دوگنا حصہ لے جاتے تھے –
میانوالی ہمارے لڑکپن میں آبادی اور پھیلاو کے اعتبار سے بہت محدود شہر تھا – شہر کا ہر شخص دوسرے کو اگر نام سے نہیں تو چہرے مہرے سے جانتا تها کہ یہ کس گلی محلے یا قبیلے کا هے – سارے شہر میں پیدل گھوما جا سکتا تھا – ویسے بھی ان دنوں پیدل چلنے کا سٹیمنہ اور رجحان کچھ زیادہ ہی تھا – زیادہ جلدی ھوتی تو سائیکل کافی تھا – لیکن شرفاء پیدل چلنا عار سمجهتے تهے – باپردہ خواتین بهی ایک محلے سے دوسرے محلے تک جانے کیلئے پیدل چلنے کی بجائے تانگے کی سواری سے کام لیتیں – وکیل ، ڈاکٹر اور پروفیسر حضرات تانگے کا عام استعمال کرتے – سنگل سواری کی بجائے عموما” پورا ٹانگہ کرنے کا رواج تھا – کاریں نہ ھونے کے برابر تهیں اور شرفا جو پیدل چلنا خلاف شان سمجھتے تھے ، پورے ٹانگے پر تنہا سوار ھوتے – کئی لوگوں کا تانگے پر بیٹھنے کا مخصوص انداز تھا – شہر سے جھانبرے اور شہباز خیل تک تانگوں کی برات میں جانا میری خوشگوار یادوں میں شامل
ھے – تانگے کی سب سے زیادہ ضرورت گرلز اسکول کی طالبات کو پیش آتی – صبح اور دوپہر گئے اسکول کے کھلنے اور چهٹی کے اوقات میں بلو خیل روڈ پر شہر کا واحد گرلز یائی اسکول ھونے کی وجہ سے تانگوں کا تانتا بندھا رہتا – مجهے لڑکپن میں گرلز سکول آنے والا ایک چہرا بہت اچھا لگتا تھا – میں جب صبح اسکول جا رہا ھوتا ، اس کا تانگہ پاس سے گزرتا تو دل دهک دهک کرنے لگتا ، کان سرخ هو جاتے لیکن خواہش کے باوجود اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی اور جب تانگہ گزر جاتا ، یوں لگتا جیسے پاس سے بہاروں کا قافلہ گزر گیا ھے – یہ میٹھا بے نام جذبہ ، یہ خوشی کا انوکھا سا احساس زندگی بھر ساتھ ریا – وہ خاص تانگہ دن میں بهی کہیں اس خاص سواری کے بغیر نظر آجاتا تو خالی تانگہ بھی پهولوں سے لدا محسوس ھوتا – ہر گھرانے کا اپنا پسندیدہ کوچوان ھوتا تھا – ایسا بهی هوا هے کسی گهرانے کے لوگ ریل گاڑی سے اترے ہیں تو ایک کوچوان نے دوسرے کو بتایا هے کہ بهائی آپ کے لوگ آئے ہیں – کوچوانوں کو معلوم تھا کون کس کوچوان کی سواری ھے – یہ آواز سن کر وہ کوچوان باقی سواریوں کی تلاش کو چهوڑ کر اپنی تعلق والی سواری کا سامان سنبھالتا اور پلیٹ فارم سے ٹانگے کو لپکتا – اس وقت ذہن کے کسی گوشے میں شک کا شائبہ تک نہ هوتا کہ سامان چوری یا گم بهی هو سکتا هے – شہر میں چند درجن ہی ٹانگے هوں گے – کچھ کھاتے پیتے گهرانوں کے ذاتی تانگے تھے – میانہ فیملی ، سردار خان وتہ خیل ، سید ہاشم شاہ ، پیر شاہ عالم شاہ ، اکرم خان خنکی خیل کے ذاتی تانگے مجهے یاد ہیں – سنبل فیملی اور پیر مسعود الحسن شاه کے تانگوں کے بارے میں میرے پیارے دوست آغا صلاح الدین سنبل نے یاد دلایا هے که ” جی ہاں پیر مسعود اور انکے بھائ پیر محمود کا ذاتی ٹانگہ تھا – کرنل عطا اُلہ خان سنبل کی زاتی بگھی تھی جو اُن کے والد خان سردار احمد خان کی سواری انگریز کے دور میں تھی
خان امیر محمد خان سنبل کی بھی بگھی تھی جس کے پہیے ٹائر کے تھے وہ پکہ اپنی زمینوں پر اسی پر جاتے تھے
اس دور میں بلا شبھہ یہ ایک فخر یہ سواری تھی”
ہمارے دوست مرحوم عنایت اللە خان نوری خیل نے بھی سہراب والا سے آنے جانے کیلئے اپنا ذاتی تانگہ رکھ چهوڑا تھا – اور ان کے تانگے پر ممتاز شاعر منیر نیازی اور گلو کار سائیں اختر نے میانوالی کی سیر کی تھی – سائیں اختر تهیٹر گروپ کے ساتھ سن 72/73 میں میانوالی آیا تھا اور منیر نیازی مرحوم کو حنیف رامے نے اپنی وزارت اعلے کے دنوں میں بھکر میں مربع الاٹ کیا تھا ، جسے منیر نیازی غالبا” اونے پونے بیچ کر شتابی سے فارغ ھو گئے تھے – مجھے آج تک یاد ھے ، منیر نیازی تانگے پر بلوخیل روڈ پر گھومتے ھوئے کہنے لگے تھے ، میں اپنے اجداد کا شہر دیکهنے آیا هوں – اکرم خان کا ذاتی تانگہ سب سے زیادہ مشہور تھا – یوں تو ان کے پاس کئی گهوڑے رھے لیکن سرخ رنگ کا ایک گهوڑا بہت خوبصورت تیز رفتار اور تیکھے انداز کا تھا – وہ گهوڑا اکرم خان کی خدمت میں ھی بوڑھا ھوگیا تو اسے آزاد چهوڑ دیا گیا – وہ گهوڑا صبح شام محلے میں یوں مٹر گشت کرتا رہتا جیسے اپنی ریٹائر لائف کو بھرپور انجائے کر ریا ھو – اس گهوڑے نے 35 سال کی عمر پائی تھی – وہ اتنا عرصہ بلو خیل روڈ پر گھوما پهرا کہ اس کے بغیر شروع میں روڈ بھی ادھورا لگتا تھا – اس گهوڑے کو میانوالی کا پہلا عوامی گهوڑا کہا جائے تو بے جا نہ ھوگا –
عام تانگوں کے گهوڑے کچھ زیادہ قیمتی یا اتهرے نہیں ھوتے تھے – تانگے کے چهکڑے کے بارے میں مشہور تھا کہ پشاور کا بنا ھوا تانگہ سب سے خوبصورت اور اعلے ھے – کوچوان میانوالی کی تہذیبی زندگی میں انتہائی اہم سمجھے جاتے تھے – ہر گھرانے کے اپنے پسندیدہ کوچوان کا ذکر تو آپ سن چکے ہیں ، ویسے بھی ہمارے لئے عام طور پر بزرگ کوچوان ماما غلام محمد ، چاچا فیضو تو جوان قیلا بهائی اور لالہ عطو تها – چند ایک شرفا یا بزرگ لوگوں کو چهوڑ کر کوچوان عموما” سواریوں کے ساته کندهے سے کندها ملا کر بیٹهتے ، سفر کا حال احوال پوچھتے اور بے تکلف گپ لگاتے لیکن خواتین کی موجودگی میں یا تو ٹانگے کے پائیدان پر کهڑے هوجاتے یا بم پر ٹک کر ٹانگہ چلاتے – خواتین کی موجودگی میں گفتگو کرنا آداب کے خلاف تھا – البتہ کچھ خواتین خود پوچھ لیتیں چاچا یا ماما کیسے ھو ، چاچی کیسی ھے وغیرہ
ہمدم دیرینہ پروفیسر سلیم احسن نے تخلیق پاکستان سے پہلے کے زمانے کے ایک کوچوان کی طرف توجہ دلائی ھے جس کا تذکرہ میانوالی کے ایک ھندو لکھاری نے کیا ھے – اس نے میانوالی کی یاد میں وچھڑا وطن کے نام سے انگریزی میں کتاب لکهی هے مصنف کا نام هریش چندر نکڑه ھے اور اس کا گھر محلہ شیر مان خیل میں تھا – وہ میانوالی کے ٹانگے اور ٹانگے والے کو یاد کرتے هوئے لکھتا هے .–
” مجھےپھرایا ٹانگے والا یاد هے جو صدا لگاتا تھا ….. پھرایا دی پھیری… دنیا نه تیری نه میری…. نه جانے یه الفاظ سریلا اثر پیدا کرنے کے لئے کرتاتھا یا اس کے پیچھے کوئی فلسفه تها ، بہرحال پھرایا اپنی ﺫات میں ایک اداره تها – وه ایک انتہائی باخبر شخص تھا ، شهر بھر کی خبریں اس کے پاس هوتیں – گاڑی سے اترنے والے کی باتیں سنتا اور شهر بھر کی خبریں اسے سناتا – اسکے ٹانگے پر بیٹھنے والا چند هی لمحوں میں شهر کے حالات سے آگاه هو جاتا – پھرایا کا تانگا میانوالی میڈ تھا ، ڈھیلا ڈھالا اور پھٹیچر لیکن لوگ اسی کے ٹانگے پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ” –
– ایسا بھی ھوا ھے آپ پیدل جا رھے هیں ، کوئی ٹانگہ آپ کے پاس سے خالی گزرا ھے تو کوچوان نے ٹانگہ روک کر آپ کو بیٹھنے کی دعوت دی ھے – اس کا مطلب یہ ھے کہ اس طرف میں خالی جا رہا هوں ، مفت بیٹھ جاو -اسکولوں کے کھلنے اور بند ھونے کا وقت یا پھر ماڑی انڈس ، تھل یا نو والے ڈبے کے ٹائم کوچوانوں کے مصروف ترین اوقات تھے – دن کے باقی اوقات وہ ٹانگے کے اڈوں پر یا چند مخصوص چائے خانوں پر خوش گپیوں میں یا اونگھنے میں گزارتے – یہیں کہیں گهوڑے کے چارے ، گهوڑے کے سموں میں نعل لگانے اور ٹانگے کے ساز و سامان کی دکانیں تهیں – سب سے بڑا ٹانگہ سٹینڈ ریلوے چوک پر تھا ، دوسرا بڑا سٹینڈ اور شیڈ ڈنگر ہاسپٹل کے سامنے تھا – کچھ کوچوان میونسپل کمیٹی کے سامنے گھنے درختوں کی چهاوں میں کهڑے رھتے – بلو خیل روڈ پر کل ٹریفک اتنی تھی کہ ہمیں ٹانگے کی ضرورت ھوتی تو محلہ زادے خیل سے ہاته پلا کر کمیٹی کے سامنے سے ٹانگے کو بلا لیا جاتا – اول تو ہلتا هوا پاتھ کوچوان کو ہی نظر آجاتا ورنہ کوئی راەگیر یا سائیکل سوار کوچوان کو اشارا کر دیتا –
چند ایک ایسے واقعات ضرور ھوئے جب گهوڑا بے قابو ھو کر بھاگا ھو ورنہ عام طور پر گهوڑے بہت اصیل تھے – تانگے بھی عام سے تھے – چند ایک ٹانگے ایسے تھے جن کے کمزور گهوڑوں کو دیکھ کر لگتا تھا ابھی یہیں کہیں گر کر مر جائیں گے – ایسا ایک ٹانگہ ڈاکٹر نور محمد خان مرحوم کے ہسپتال کے سامنے مستقل کهڑا رہتا – ڈاکٹر صاحب ایسے سست رفتار تانگے کو ہی پسند کرتے تھے اور ان کا تانگے کا سفر بھی محلے میں کسی مریض تک دو تین سو گز کا یا زیادہ سے زیادہ عید گاہ تک برادری کے کسی جنازے کی شرکت تک محدود تھا – ایسے سست ترین ٹانگے کے دوسرے مستقل گاہک پروفیسر سید محمد عالم تھے- اس کوچوان کا نام سکندر بهلہ تھا – سکندر بهلے کا ٹانگا الار تها اور اسکو متوازن رکھنے کے لئے ایک بڑا سا پتھر پچھلی نشست کے نیچے موجود رهتا – سکندر بهلہ کوچوان اور پروفیسر سید محمد عالم کا تعلق اتنا مشہور تھا کہ جب گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل سید محمد عالم صاحب کے انتقال پر ان کی یاد میں کالج میں تقریب هوئ تو اس تقریب کی صدارت کا اعزاز سکندر بهلے کوچوان کو دیا گیا –
اور کیا عجیب اتفاق ھے کہ میانوالی شہر کے جنازوں کی تاریخ میں اہالیان میانوالی نے جس عقیدت و احترام سے ڈاکٹر نور محمد خان نیازی اور پروفیسر سید محمد عالم کو رخصت کیا ھے اس کی نظیر مشکل ھے – بلا شبہ ڈاکٹر نور محمد خان نیازی اور پروفیسر سید محمد عالم اپنے کردار کی خوبیوں اور خدمت کے باعث میرے عہد کے خوبصورت ترین انسان تھے –
یوں تو کوچوانوں میں کئی لوگ عوامی شہرت کے حامل تھے لیکن سب سے زیادہ شہرت قیلا کوچوان کو ملی – اس کے کان میں بندا اور لہراتا ھوا پهمنوں ( کپڑے کے پهولوں ) والا چابک مجھے آج بھی یاد ھے – اس کے گهوڑے کے کانوں پر بهی سرخ ربن بندهے هوتے تهے – گهوڑے کے حسن کو نمایاں کرنے کے اپنے انداز تهے کچه نخریلے کوچوان اس کا بہت ایتمام کرتے تهے – قیلا عموما” ٹانگے پر کهڑا هو کر خالی ٹانگہ سر پٹ دوڑاتا نظر آتا تها – قیلا کوچوان کے بارے میں پروفیسر سلیم احسن بتاتے هیں ،
” قیلا کوچوان کہیں دور سے حلق سے پرندوں کی بولیوں کی تیز آوازیں نکالتا هوا آتا – هم بچے اس کی کا ، کا ، کلو ، کلو ،کلو کی بولیوں سے بہت محظوظ ھوتے “
جب اس کے تانگے میں طالبات بیٹهی هوتیں ، اس وقت وہ مختلف شخص ھوتا اور انتہائی مودب هو کر تانگہ چلاتا تها – خود مجھے قیلے کے ساتھ ٹانگے میں سوار ھونے کا اتفاق کبھی نہیں ھوا –
آج جب میں میانوالی اڈے پر اترتا هوں تو سب سے زیادہ مجھے جو لوگ یاد آتے ہیں ، وہ پرانے تانگے اور کوچوانوں کے مانوس پیار بھرے چہرے ہیں جو وقت کی تیز رفتاری میں ھم سے بچھڑ گئے – ان کو دیکه کر لگتا تها برادری کا کوئی پیارا شخص استقبال کو کهڑا هے – اب تانگے کی جگہ چنگچی نے لے لی ھے اور شاید میانوالی کی تہذیبی زندگی میں چنگچی والے کوچوان کے خلا کو پر کر کے اپنی جگہ بنا چکے هوں ، کم از کم میرے لئے وہ غیر هیں – مجھے ہر بار چنگچی والے کو بتانا پڑتا ھے کہ میری منزل کہاں ھے – ان کوچوانوں کو میرے اور میرے سارے عزیزوں کے گھر معلوم تھے اور سب سے بڑا دکھ تو یہ هے کہ جب مجھے چنگچی والے سے مول تول کے کربناک مرحلے سے گزرنا پڑتا ھے تو مجھے یوں لگتا هے میں میانوالی کی بجائے کسی اور شہر میں آگیا هوں —
ظفر خان نیازی –13 فروری2016