مولانا کا ایک نادر خواب
آج مجاهد ملت عبدالستار خان نیازی مرحوم کی برسی هے – ان کی یاد میں ان کا ایک نادر خواب آپ سے شیئر کر رہا هوں ، جو کچه عرصہ پہلے میں نے پوسٹ کیا تھا – مولانا کا یہ خواب ان دوستوں کی رهنمائی کیلئے کافی ھے جو نیک کاموں میں اپنی کوششوں کو رائیگاں ھوتا دیکھ کر پریشان ھو جاتے ہیں –
نوے کی دہائی کی بات هے ، ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں اپنے ریڈیو پروگرام سوغات کے سلسلے ماضی کے نقوش میں میں کمپیئرنگ کر رہا تها – پروگرام کے آغاز پر ھی اس سلسلے کے ٹاکر ، بہت ہی پیارے دوست اور نفیس انسان نوید ظفر مرحوم نے مجھے مخاطب هو کر کہا — ” نیازی صاحب ! آپ نوٹ کر لیں ، میرا آج کا موضوع ھے ، ہتهیار ڈالنے کی تیاری ” —
لفظ نیازی کو جس طرح انہوں نے خاص انداز میں ادا کیا ، وہ خاص طور پر مجھے چهیڑنے کیلئے تھا – اس طرح کی نوک جھونک ہمارے اس لائیو پروگرام میں چلتی رہتی تھی – ہمیں یہ تو اندازہ تھا کہ وہ سلسلہ سامعین میں مقبولیت کی آخری حدوں کو چھو رہا ھے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ مولانا عبدالستار خان نیازی بھی اس پروگرام کے مستقل سامع ہیں –
پروگرام میں گفتگو کا سلسلہ دراز هوا تو معلوم هوا آج نوید ظفر ایک ایسی کتاب کا ذکر لائے ہیں جو ایک امریکن نو مسلم پروفیسر لینگ جیفرے Lang Geoffery کی تخلیق ھے اور کتاب کا نام ھے Struggling to Surrender ,جس کا ترجمہ انہوں نے ‘ہتهیار ڈالنے کی تیاری ‘ کر کے مجھے چهیڑا تھا اور مولانا کو چونکا دیا تها –
دوسرے دن مجھے مولانا عبدالستار خان نیازی کا فون موصول هوا – ان کا پہلا سوال تھا کہ آپ کون هو — وہی شیر سی گھن گرج والی آواز ، لیکن لہجے میں سختی کی بجائے مٹهاس تھی – میں نے عرض کیا ، آپ سے ملوں گا تو آپ پہچان لیں گے – یہ بات میں نے اس لئے عرض کی تھی کہ سن ستر کے الیکشن میں محلہ زادے خیل میں اصغر خان زادے خیل مرحوم اور میں ان کے پولنگ ایجنٹ تھے – اس کے علاوہ بھی ھم دوست خاص طور پر ملک محمد اسلم گھنجیرہ، پروفیسر شمیم احمد ، سلیم آحسن ، ان کی خدمت میں اکثر حاضری دیتے تهے – اور ایک بار 1972 میں میں اور پروفیسر سلیم احسن ان کے ساتھ بذریعہ ریل کار میانوالی سے راولپنڈی انٹر بورڈ کے دفتر آئے تھے – وہ ہم دونوں کی بطور لیکچرر ملازمت کی سفارش کیلئے بنفس نفیس همارے ساته آئے تھے اور ہم دونوں کے ریل ٹکٹ کے پیسے بھی خود ادا کئے تھے – ان دنوں درویش صفت ، سید شبیر شاہ پنڈی بورڈ کے چیئرمین تھے ۔ ان دنوں بهٹو مرحوم اقتدار میں تهے اور مولانا ، اپوزیشن کے سر خیل اور بهٹو کے سخت ترین ناقد – اس سخت تنقید کی بنا پر مولانا پر کئی بار حملے بھی ھو چکے تھے – لیکن مولانا کا سن کر شاہ صاحب کسی کی پرواہ کئے بغیر دفتر سے باہر آکر سب کے سامنے مولانا کا ہاتھ پکڑ کر بار بار چومنے لگے – نوکری دینا چیئر مین کے بس میں نہیں تها کہ اس وقت نوکری کی بھرتی پر بین تھا –
مولانا کے اس فون سے پہلے چند ایک بار ساتهی پروڈیوسر وحید شیخ مجھے کہہ چکے تھے کہ کہ او بی کے فنکشن میں مولانا هم سے تمھارا اکثر پوچھتے ہیں اور وہ تمہارا پروگرام سنتے ہیں – اس سے پہلے لیکن مولانا جن دنوں فیڈرل منسٹر تھے ، ایک بار وہ کسی پروگرام کیلئے ریڈیو آئے تھے ، میں نے انہیں سلام کر کے انٹرویو کی درخواست کی تهی تو انہوں نے نہایت رکھائی سے یوں انکار کر دیا تھا کہ میں شرمندہ ہو کر رہ گیا تھا ۔ میں سمجھتا تها کہ وحید شیخ مذاق میں کہتا ھے – اب جو انہوں نے مجھے فون پر اپنے ہاں آنے اور ناشتہ کرنے کی دعوت دی تو مجھے خوشگوار حیرت هوئی – میں نے کہا کہ ناشتے کے وقت تو میں حاضر نہیں ہو سکتا ، کہ میں ریڈیو بهی گیارہ بجے آتا ہوں – کہنے لگے ، ٹهیک هے ہم کل گیارہ بجے ہی ناشتہ کریں گے –
مولانا محترم ان دنوں سینیٹر ھونے کی وجہ سے پرانے ایم این اے ہاسٹل میں قیام پذیر تھے جو ریڈیو اسٹیشن کے قریب ہی هے – یہ میری مولانا صاحب کی ساتھ نیاز مندی کے دوسرے دور کی ابتدا تھی جو نوے کی دہائی سے شروع هوئی ، ان دنوں آپ وزیر نہیں رہے تهے – ان کے ساتھ میری آخری ملاقات میانوالی میں میرے گھر پر هوئی جب وہ جنوری 2001 میں میری والدہ کے انتقال پر فاتحہ خوانی کیلئے تشریف لائے تھے – اس کے بعد 2001 میں دو مئی کو ھی انتقال کر گئے – یہ تو آپ کو یاد هوگا ، اکتوبر 2015 ان کی سو سالہ سالگرہ کا مہینہ ھے –
دوسرے دن میں ان کی خدمت میں حاضر هوا – مولانا اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کر کے بہت خوش هوتے تهے – بار بار مختلف اشیا کی طرف توجہ دلاتے اور کھانے کا کہتے – اس دن ناشتے پر باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ کیا وہ کتاب مطالعے کیلئے مل سکتی هے –
وہ کتاب Struggling to Surrender مصنف کی آپ بیتی ھے اور ایک خاص خواب پر مبنی ھے جو مصنف لڑکپن سے دیکھ رہا تھا – بار بار صرف وہی ایک خواب – اسے اس خواب کی سمجھ نہیں آتی تهی اور اس باربار کے خواب آخرکار وہ تنگ آگیا – اس چکر میں کبھی پکا عیسائی بن کر چرچ جانے لگا تو کبھی ملحد بن گیا لیکن نہ تو خواب کی تعبیر ملی اور نہ ہی چهٹکارا – وقت گزرتا رہا اور وہ میتھ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ایک امریکن یونیورسٹی ( برکلے غالبا”) میں پروفیسر هو گیا – اس یونیورسٹی کی مختلف عمارتوں میں سے ایک مسلم طلبا نے اپنا سنٹر بنا رکھا تھا – اس سنٹر کے اندر غیر مسلم نہیں جاتے تھے سو وہ دور ھی دور سے کئی اندازے لگاتے رہتے – مشہور یہ تھا کہ مسلمان ایک لمبی قطار میں کهڑے ھو کر عجیب اچھل کود کرتے ہیں – بکرے ذبح کرتے اور ان کی کھال اتار کر جانے کیا کچھ کرتے ریتے ہیں – یہ باتیں سن سن کر ایک دن تجسس کے مارے وہ یونیورسٹی کے مسلم سٹوڈنٹس کے سنٹر میں پہنچ گیا جو ایک تہہ خانے میں تھا تو وہ یہ دیکه کر حیران رہ گیا کہ وہ لڑکپن سے اسی جگہ کا خواب دیکه رہا تها – اس پر اپنے پر اسرار خواب کی حقیقت کهل گئی – وہ اسی جگہ کو خواب میں بار بار دیکھتا رہا تھا – وہی سرخ قالین، وہی سر کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے لوگ – یہاں کی چهوٹی سے چهوٹی چیز وہ یہاں آنے سے پہلے اپنے خواب میں بار بار دیکھ چکا تھا – یہ سنٹر مسلم سٹوڈنٹس کا مرکز تها جس میں وہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے – پروفیسر لینگ جیفرے نے ان لوگوں سے گپ شپ کی – اس کے بعد بهی ان سے ملاقاتیں جاری رکهیں ، ان ملاقاتوں میں وہ دین اسلام کے بارے میں سوالات کرتا رھا اور ایک دن اس نے اسلام قبول کر لیا – اس کتاب میں اس نے اپنی مکمل کہانی لکهی ھے کہ اس کے ذهن میں کون سے مختلف سوال تھے جن کے جواب پاکر اس نے دین اسلام کی سچائی کے آگے سر جھکا دیا تھا –
مولانا صاحب کی کتاب کی فرمائش کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ وہ کتاب کچھ عرصے کے بعد ہی مل سکے گی کیونکہ نوید ظفر مرحوم کے پاس ایک ہی نسخہ تھا جو مصدق راجہ ترجمہ کرنے کیلئے لے گئے تھے – اس وقت اس کتاب کا ترجمہ ‘سر تسلیم خم ھے ‘ کے نام سے آرمی بک کلب کے زیر اہتمام چھپ چکا هے اور بازار میں عام مل جاتا ھے –
میں نے پوچھا ، اس کتاب میں کیا بات آپ خاص طور پر دیکھنا چاہتے ہیں – فرمانے لگے ، میں جب علاج کی غرض سے لنڈن ، کرامویل ہاسپٹل گیا تھا تو تین برٹشرز ، کالے اور گورے دونوں نسل کے ایسےافراد مجهے ملے تھے جن کو کسی اور واسطے کے بغیر خوابوں سے ہی دین اسلام کی نعمت نصیب ہوئی تھی – مجهے اس کے خواب کے حوالے سے دین قبول کرنے سے دلچسپی پیدا ہوئی ھے –
بعد میں وہ کتاب ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی – مولانا کبھی کبھار کتابوں کے بارے میں بھی گفتگو فرماتے تھے – قرآن کریم کے انگلش ترجموں میں انہیں آربری کا ترجمہ بہت پسند تھا – ایک دن میں نے بیدل کا ذکر کیا تو کتاب کو دیکھنا چاها – میں نے ان کی خدمت میں عباد اللە اختر کی کتاب بیدل پیش کر دی –
مولانا کی اس بات اور کئی دیگر ذاتی مشاہدوں کے بعد میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ریڈیو ، ٹی وی فون وغیرہ کی طرح بعض اوقت خواب بھی ذریعہ ابلاغ بن جاتے ہیں – ایک بات یاد رهے کہ مسلم امہ کے تمام مکاتیب فکر متفق ہیں کہ اگر کسی کو خواب میں زیارت نبیء پاک صلی اللە علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوئی ھے تو وہ انہی کی زیارت ھے – آپ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر کسی شیطان کو خواب میں آنے کی جرات و اجازت نہیں – یہ موضوع اتنا حساس ھے اور اتنا سختی سے متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ھے کہ نبی پاک کے حوالے سے جهوٹا خواب سنانے والا اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے — خوابوں کا موضوع بہت اہمیت رکھتا ھے اور تفصیل چاہتا هے لیکن اس وقت میں صرف مولانا محترم کا ایک خواب آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو میں ان کی زبانی ایک سے زیادہ بار سن چکا هوں –
مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی فرماتے ہیں – ایک بار میں رسول صلے اللە علیہ و آلہ وسلم کے مزار مبارک پر حاضر ہوا اور بہت ندامت سے رو کر عرض کیا ، یا رسول اللە صلے اللە و آلہ وسلم ، ہم بہت شرمندہ ہیں کہ ہم پاکستان میں اسلامی نظام نہیں لا سکے –
مولانا فرماتے ہیں – مجھے خواب میں آپ صلے اللە علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب هوئی جو فرما ریے تھے ،
تم لوگوں کا کام کوشش کرنا ھے ، کامیابی دینا اللە کا کام ھے –
میرے الفاظ میں کچھ فرق ہو سکتا ھے ، نفس مضمون کو اپنی پوری دیانت داری سے آپ تک پنچا دیا ھے – میں یہ بھول ریا ہوں کہ مولانا کو وہیں نیند آگئی تھی یا یہ خواب عالم بیداری کی کسی کیفیت میں ھوا – مولانا سے اس ملاقات کے وقت ان کے ذاتی سیکریڑی عزیزی غلام مصطفے بھی موجود تهے جو میرے پروگرام سوغات کے مستقل سامع تھے – آج کل وہ انٹر نیشنل اسلامیہ یونیورسٹی شعبہ اشاعت میں ملازمت کرتے ہیں اس وقت فیس بک پر میرے فرینڈز میں ہیں سے ہیں – مولانا محترم نے یہ بات ایک سے زائد بار مجهے بتائی تهی – میرے علاوہ یہ بات مولانا محترم کی زبانی کئی دیگر افراد سن چکے ہیں –
یہ فرمان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ہمیں نیکی کے کاموں اور منصوبوں پر اس خوف سے کام کرنا چهوڑ نہیں دینا چاہیئے کہ ہم کامیاب بھی ھوتے ہیں کہ نہیں – ھمارا کام محنت کرنا ھے – یہ اللہ پاک کی مرضی هے کہ منصوبہ کو کامیابی سے ہمکنار کرے یا ناکام ، اس کیلئے تگ و دو کرنا ھی ھماری کامیابی ھے –
آج ان کی برسی کے موقع آپ سے درخواست هے مولانا محترم کو مغفرت اور بلندیء درجات کیلئے اپنی دعاوں میں یاد رکھئیے گا – مجاہد ملت ، مولانا عبدالستار خان نیازی ملت اسلامیہ کا درخشاں ستارے تھے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اهم ترین شخصیت جس کی کمی آج کی کرپٹ سیاست میں اور بھی شدت سے محسوس ھوتی ھے – مولانا نے ساری عمر شادی نہیں کی ، ان کے بال بچے نہیں تھے لیکن مجه سمیت ہزاروں لوگ ان کی معنوی اولاد هیں جو ان کی قربت میں گزرے ھوئے چند لمحات بھی اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتے ہیں –
میانوالی اپنے اس بہادر سپوت کے سیاسی اور اخلاقی کردار پر بجا طور پر ناز کر سکتی ھے –
آسمان تیری لحد پر شنمبنم افشانی کرے
مولانا کا خواب
آپ لوگوں کا کام ھے کوشش کرنا
نوے کی دہائی کی بات هے ، ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں پروگرام سوغات کے سلسلے ماضی کے نقوش میں میں کمپیئرنگ کر رہا تها ، اس سلسلے کے ٹاکر ، بہت ہی پیارے اور نفیس دوست نوید ظفر مرحوم نے آغاز میں ہی مجھے مخاطب هو کر کہا — نیازی صاحب ! آپ نوٹ کر لیں ، میرا آج کا موضوع ھے ، ہتهیار ڈالنے کی تیاری —
لفظ نیازی کو جس طرح انہوں نے خاص انداز میں ادا کیا ، وہ مجھے چهیڑنے کیلئے تھا – اس طرح کی نوک جھونک ہمارے اس لائیو پروگرام میں چلتی رہتی تھی – نوید ظفر انتہائ نفیس ذوق کے مالک ، صاحب مطالعہ اور نہایت وضعدار انسان تھے – وہ پاکستان ٹیلی ویزن میں ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز تھے – ریڈیو سے ان کی وابستگی بہت جذباتی تهی – ان کے والد گرامی ، ممتاز شاعر ، استاد یوسف ظفر مرحوم ، ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر ریے ہیں – آزاد کشمیر تراڑ کھل کا مشہور زمانہ ریڈیو پروگرام بھارت نامہ انہی کی پیشکش تھی – نوید ظفر کے بارے میں خصوصی پوسٹ انشااللہ پھر کبھی —
پروگرام شروع هوا تو معلوم هوا آج وہ ایک ایسی کتاب کا ذکر لائے ہیں جو ایک امریکن نو مسلم پروفیسر لینگ جیفرے Lang Geoffery نے لکھی ھے – کتاب کا نام ھے Struggling to Surrender , جس کا ترجمہ انہوں نے ‘ہتهیار ڈالنے کی تیاری ‘ کر کے چونکا دیا تها – پچاس منٹ کے پروگرام ماضی کے نقوش کو سامعین تو کیا ریڈیو ڈیوٹی انجنیئر بھی دم بخود ہوکر سنا کرتے تھے –
دوسرے دن مجھے مولانا عبدالستار خان نیازی کا فون موصول هوا – ان کا پہلا سوال تھا کہ آپ کون هو — وہی شیر سی گھن گرج والی آواز ، لیکن لہجے میں سختی کی بجائے مٹهاس تھی – میں نے عرض کیا ، آپ سے ملوں گا تو آپ پہچان لیں گے –
سن ستر کے الیکشن میں میں محلہ زادے خیل میں ان کا پولنگ ایجنٹ تھا – اور ایک بار 1972 میں میں اور پروفیسر سلیم احسن ان کے ساتھ بذریعہ ریل کار میانوالی سے راولپنڈی انٹر بورڈ کے دفتر آئے تھے – وہ ہم دونوں کی لیکچرر شپ کیلئے سفارش کرنے آئے تھے اور ہم دونوں کے ریل ٹکٹ کے پیسے بھی خود ادا کئے تھے – درویش صفت ، سید شبیر شاہ بورڈ کے چیئرمین تھے ۔ ان دنوں بهٹو مرحوم اقتدار میں تهے اور مولانا ، اپوزیشن کے سر خیل اور بهٹو کے سخت ترین ناقد لیکن مولانا کا سن کر شاہ صاحب کسی کی پرواہ کئے بغیر دفتر سے باہر آکر سب کے سامنے مولانا کا ہاتھ پکڑ کر بار بار چومنے لگے – نوکری دینا ان کے بس میں نہیں تھا کہ اس پر بین تھا –
اس فون سے پہلے مجھے پروڈیوسر ساتھی وحید شیخ نے دو ایک بار کہا تھا کہ او بی کے فنکشن میں مولانا تمھارا اکثر پوچھتے ہیں – اور وہ تمہارا پروگرام سنتے ہیں – اس سے پہلے لیکن مولانا جن دنوں فیڈرل منسٹر تھے ، ایک بار وہ کسی پروگرام کیلئے ریڈیو آئے تھے ، میں نے انہیں سلام کر کے انٹرویو کی درخواست کی تهی تو انہوں نے نہایت رکھائی سے یوں انکار کر دیا تھا کہ میں شرمندہ ہو کر رہ گیا تھا ۔ میں سمجھتا تها کہ وحید شیخ مذاق میں کہتا ھے – اب جو انہوں نے مجھے اپنے ہاں آنے اور ناشتہ کرنے کی دعوت دی تو مجھے خوشگوار حیرت هوئی – میں نے کہا کہ ناشتے کے وقت تو میں حاضر نہیں ہو سکتا ، کہ میں ریڈیو بهی گیارہ بجے آتا ہوں – کہنے لگے ، ٹهیک هے ہم کل گیارہ بجے ہی ناشتہ کریں گے –
دوسرے دن میں ان کی خدمت میں حاضر هوا – وہ پرانے ایم این اے ہاسٹل میں قیام پذیر تھے جو ریڈیو اسٹیشن کے قریب ہی هے – یہ میری مولانا صاحب کی ساتھ نیاز مندی کے دوسرے دور کی ابتدا تھی جو نوے کی دہائی سے شروع هوئی ، ان دنوں آپ وزیر نہیں رہے تهے جو ان کے انتقال تک قائم رھی – ان کے ساتھ میری آخری ملاقات میانوالی میں میرے گھر پر هوئی جب وہ جنوری 2001 میں میری والدہ کے انتقال پر فاتحہ خوانی کیلئے تشریف لائے تھے – اس کے چند ماہ بعد اسی سال وہ بھی انتقال فرما گئے تھے – یہ تو آپ کو یاد هوگا ، اکتوبر 2015 ان کی سو سالہ سالگرہ کا ماە ھے –
مولانا اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کر کے بہت خوش تهے – بار بار مختلف اشیا کی طرف توجہ دلاتے اور کھانے کا کہتے – اس دن ناشتے پر باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ کیا وہ کتاب مطالعے کیلئے مل سکتی هے –
وہ کتاب Struggling to Surrender مصنف کی آپ بیتی ھے اور ایک خاص خواب پر مبنی ھے جو مصنف لڑکپن سے دیکھ رہا تھا – بار بار صرف وہی ایک خواب – اسے اس خواب کی سمجھ نہیں آتی تهی اور اس باربار کے خواب آخرکار وہ تنگ آگیا – اس چکر میں کبھی پکا عیسائی بن کر چرچ جانے لگا تو کبھی ملحد بن گیا لیکن خواب کی نہ تو تعبیر ملی اور نہ ہی چهٹکارا – وقت گزرتا رہا اور وہ میتھ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ایک امریکن یونیورسٹی ( برکلے غالبا”) میں پروفیسر هو گیا تو ایک دن تجسس کے مارے یونیورسٹی میں ہی مسلم سٹوڈنٹس کے سنٹر میں پینچ گیا جو ایک تہہ خانے میں تھا تو اس پر اپنے پر اسرار خواب کی حقیقت کهل گئی – اس تہہ خانے کے بارے میں عام طور پر مشہور تھا کہ یہاں بکرے کاٹ کر خون اچھالا جاتا ھے ، جنونی مسلمان لائنوں میں کهڑے هو کر اچھل کود اور نجانے کیا کچھ کرتے رہتے ہیں – وہ یہ تماشہ دیکھنے تہہ خانے میں چلا گیا – تہہ خانے میں واقع اس مسلم سنٹر کو دیکھ کر وہ ششدر ہو کر رہ گیا – وہ اسی جگہ کو خواب میں بار بار دیکھتا رہا تھا – وہی سرخ قالین، وہی سر پر کپڑا رکھے ہوئے لوگ – یہاں کی چهوٹی سے چهوٹی چیز وہ یہاں آنے سے پہلے اپنے خواب میں بار بار دیکھ چکا تھا – اس سنٹر میں مسلم سٹوڈنٹس باجماعت نماز ادا کرتے تھے – پروفیسر لینگ جیفرے نے ان لوگوں سے گپ شپ کی ، ملاقاتیں جاری رکهیں اور آخر کار اس نے اسلام قبول کر لیا – اس کتاب میں اس نے اپنی مکمل کہانی لکهی ھے کہ اس نے کس طرح اپنے مختلف سوالوں کے جواب پاکر دین اسلام کی سچائی کے آگے سر جھکا دیا تھا –
مولانا صاحب کی کتاب کی فرمائش کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ وہ کتاب کچھ عرصے کے بعد ہی مل سکے گی کیونکہ نوید ظفر مرحوم کے پاس ایک ہی نسخہ تھا جو مصدق راجہ ترجمہ کرنے کیلئے لے گئے تھے – اس وقت اس کتاب کا ترجمہ ‘سر تسلیم خم ھے ‘ کے نام سے آرمی بک کلب کے زیر اہتمام چھپ چکا هے اور بازار میں عام مل جاتا ھے –
میں نے پوچھا ، اس کتاب میں کیا بات آپ خاص طور پر دیکھنا چاہتے ہیں – فرمانے لگے ، میں جب علاج کی غرض سے لنڈن ، کرامویل ہاسپٹل گیا تھا تو تین برٹشرز ، کالے اور گورے دونوں نسل کے ایسےافراد مجهے ملے تھے جن کو کسی اور واسطے کے بغیر خوابوں سے ہی دین اسلام کی نعمت نصیب ہوئی تھی – مجهے اس کے خواب کے حوالے سے دین قبول کرنے سے دلچسپی پیدا ہوئی ھے –
بعد میں وہ کتاب ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی –
مولانا کی اس بات اور کئی دیگر ذاتی مشاہدوں کے بعد میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ریڈیو ، ٹی وی فون وغیرہ کی طرح خواب بھی ذریعہ ابلاغ کا درجہ رکھتے ہیں – اس بات پر مسلم امہ کے تمام مکاتیب فکر متفق ہیں کہ اگر کسی کو خواب میں زیارت نبیء پاک نصیب ہوئی ھے تو وہ انہی کی زیارت ھے – آپ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر کسی شیطان کو خواب میں آنے کی جرات و اجازت نہیں – یہ موضوع اتنا حساس ھے اور اتنا سختی سے متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ھے کہ نبی پاک کے حوالے سے جهوٹا خواب سنانے والا اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے — خوابوں کا موضوع بہت اہمیت رکھتا ھے اور تفصیل چاہتا هے لیکن اس وقت میں صرف مولانا محترم کا ایک خواب آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو میں ان کی زبانی ایک سے زیادہ بار سن چکا هوں –
مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی فرماتے ہیں – ایک بار میں رسول صلے اللە علیہ و آلہ وسلم کے مزار مبارک پر حاضر ہوا اور بہت ندامت سے رو کر عرض کیا ، یا رسول اللە صلے اللە و آلہ وسلم ، ہم بہت شرمندہ ہیں کہ ہم پاکستان میں اسلامی نظام نہیں لا سکے –
مولانا فرماتے ہیں – مجھے خواب میں آپ صلے اللە علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب هوئی جو فرما ریے تھے ،
تم لوگوں کا کام کوشش کرنا ھے ، کامیابی دینا اللە کا کام ھے –
میرے الفاظ میں کچھ فرق ہو سکتا ھے ، نفس مضمون کو اپنی پوری دیانت داری سے آپ تک پنچا دیا ھے – میں یہ بھول ریا ہوں کہ مولانا کو وہیں نیند آگئی تھی یا یہ خواب عالم بیداری کی کسی کیفیت میں ھوا – مولانا سے اس ملاقات کے وقت ان کے ذاتی سیکریڑی عزیزی غلام مصطفے بھی موجود تهے جو میرے پروگرام کے بہت زیادہ پرستار تھے – آج کل وہ انٹر نیشنل اسلامیہ یونیورسٹی شعبہ اشاعت میں ملازمت کرتے ہیں اس وقت فیس بک پر میرے فرینڈز میں ہیں سے ہیں – مولانا محترم نے یہ بات ایک سے زائد بار مجهے بتائی تهی – اس کے علاوہ یہ بات مولانا محترم کی زبانی کئی دیگر افراد سن چکے ہیں –
یہ فرمان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ہمیں نیکی کے کاموں اور منصوبوں پر اس خوف سے کام کرنا چهوڑ نہیں دینا چاہیئے کہ ہم کامیاب بھی ھوتے ہیں کہ نہیں – ھمارا کام محنت کرنا ھے – یہ اللہ پاک کی مرضی هے کہ منصوبہ کو کامیابی سے ہمکنار کرے یا ناکام ، اس کیلئے تگ و دو کرنا ھی ھماری کامیابی ھے –
( پوسٹ پسند آئے تو کمنٹس دیکھئیے گا آپ کو مزید ایسی باتیں ملیں گی جن سے اس پوسٹ کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں )
Zafar Khan Niazi November 3, 2015 ·