پروفیسر رئیس احمد عرشی کی شاعری — ایک جھلک

PROFESSOR RAEES AHMED ARSHI KI SHAYARI: PART 1

پروفیسر رئیس احمد عرشی کی شاعری میں سادگی، گہرائی اور فکری بالیدگی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ مرقوم لوحِ فکر پہ اپنے مرشد کی نسبت کو فخر سے بیان کرتے ہیں تو دوسری جانب “ہم سفر نہیں بھولے” جیسے اشعار میں انسانی رشتوں کی تلخی اور یادوں کی پائیداری کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی غزل اور نظم میں ایک ساتھ عشقِ حقیقی، انسانی قدریں، اور وقت کے بے رحم تغیرات کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ “قرب و وصالِ یار کی لالچ نہیں مجھے” جیسا شعر ان کے زہد و قناعت کے پہلو کو عیاں کرتا ہے جبکہ “اٹل قانونِ فطرت” میں وہ وقت کی بے رحمی اور انسانی نام و نشان کے مٹ جانے کی ابدی سچائی کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے اشعار صرف جذباتی کیفیت نہیں بلکہ فکری تربیت اور کائناتی اصولوں پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں، جو انہیں اپنے عہد کا منفرد اور معتبر شاعر ثابت کرتے ہیں۔

 

مرقوم لوحِ فکر پہ عنوانِ جلی ھے

مرشد تو مرا ابنِ ولی ابنِ ولی ابنِ ولی ھے

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

 

 

 

ھم سفر نہیں بھولے

کسی نے پیٹھ پلٹتے بُھلا دیا ھو مگر

ہمیں تو شہر کے دیوار و در نہیں بھولے

کیا تھا جن کی رفاقت میں داغ داغ بدن

وہ داغ بھول گٸے ، ھم سفر نہیں بھولے

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

قرب و وصالِ یار کی لالچ نہیں مجھے
کچھ دن بقاٸے دل کی عطا کا سوال ھے
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

 

 

ھے مَرَض حرص کاھوا لاحق
قوم کو میری ، دے شفا مولا
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

لو اب کے ہم بھی یاد کی چادر کو تہ کریں
پیغام آ گیا ھے عدم سے فنا کے ہاتھ
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

 

اٹل قانون ِفطرت ھے

ڈھکا ھے گرد سے کتبہ

نجانے کس کا مدفن ھے

مگر مرقد کی بد حالی

بتاتی ھے کہ آسودہ

پڑا ھے جو بھی خاک اوڑھے

اسے دارُالفنا چھوڑے

یقینا سو برس بیتے

اب اس کی آل میں

کوٸی نہیں جس کو

حقیقت اس حقیقت کی

بھنک بھی ھو

کہ اپنے دور میں مرحوم

حاکم تھا وسیع تر

راجدھانی کا

اٹل قانونِ فطرت ھے

کہ مٹ جاتا ھے نام و نقشش

شاہوں کا

جہاں بھر کے خداٶں کا

(پروفیسر رئیس احمد عرشی  )

وقت ہی تومنصف ھے

**************

دو فریق آتے ہیں

جب کسی عدالت میں

دیتے ہیں دلاٸل وہ

خاص اپنی مرضی کے

وذن ہوتا ھے کچھ تو

ہر طرف دلاٸل میں

جج کی اپنی مرضی ھے

مان لے دلاٸل وہ

جس کے،اس کا جی چایے

فیصلہ وہ کرتا ھے

خاص اپنی مرضی سے

خاص اپنی مرضی کا

وقت ہی وہ منصف ھے

جو بتا کے رہتا ھے

فیصلہ غلط تھا یا

تھا درست قاضی کا

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )


چلو کہ مکّّے مدینے سے ہم بھی ہو آٸیں

ابھی تو آنکھ میں جنبش ھے پاٶں میں دم ھے

نہ جانے کل کو یہ تاب و تواں رہے نہ رہے

یہ آس ٹوٹ نہ جاٸے مجھے یہی غم ھے

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

اب کے منزل کی طرف رفتار دُگنی ہو گٸی
جیسے سورج بھاگتا ھے شام آتے دیکھ کر
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

کھلونا

**********

یہ آدم زاد تو عرشی کھلونا ھے

جہانِ آب و گل کے ہاتھ رونق کا

کھلونا سانس کی چابی سے چلتا ھے

مگر یہ سانس کی چابی

ھے ہاتھوں میں حوادث کے

حوادث کھیلتے ہیں

جب تلک چاہیں کھلونے سے

کھلونا تو کھلونا ھے

کھلونا کثرت ِآلام کے ہاتھوں

بالآخر ٹوٹ جاتا ھے

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

تمام عمر ترستا رہا جو گھر کے لیے
گھر اس کو شہرِ خموشاں میں مل گیا اپنا
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

ہماری دوستی گرچہ تمھیں گوارا نہیں
کرے گی دشمنی روشن تمھارے چودہ طبق
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

نعت ِ رسولِ مقبول

کم تو نہیں ھے مرتبہ گو ارض و سما کا

رتبہ عظیم تر ، ترے نقشِ کفِ پا کا

دریا ھے ترا ، اوج پہ گو جود و سخا کا

کھل جاٸےمری سمت بھی در تیری عطا کا

بس دو ہی مقامات ھیں توقیر کے قابل

اک گنبدِ خضرا ھے ، تو اک خانہ خدا کا

میں ھوں صداٸےاذن کا برسوں سے منتظر

آٸے ، کبھی تو جھونکا مدینے سے ہوا کا

بے سود ! عباداتِ مدینہ ھوں کہ مکہ بت

بُت پاش پاش کیجٸے ، جب تک نہ انا کا

مُزدلفہ ھو ، عرفات ، کہ میدانِ منا ھو

اُسوا ھو مرے سامنے محبوبِِ خدا کا

اب بھی بقاٸے دیں کو طلب ھےحسین کی

منظرھو پھرسے پیش وہی کرب و بلا کا

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

دلِ عرشی ترا طیبہ کے اہل تھا تو نہیں
سر خمیدہ ھے کوٸی کھینچ رہا ہو جیسے
(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

مدحِ خیرالمرسلین@

( صلى الله عليه واله وسلم)

مڑدہ آمد ، کہ مجھے اِذن ملا ھو جیسے

کان گونجے کہ مدینے کی ندا ھو جیسے

خواب نے ، سوچ کو ، بیدار کیا ھو جیسے

سانس پھُولاکہ یہیں مروا صفا ھوجیسے

گُنبدِ خضرا سے ، احقر کو صدا ھو جیسے

روح میں شور ہراک سمت اٹھا ھو جیسے

ایک، یہ خوف ، کہ ہر عضو ، گُنہ آلودہ

ایک ، احساس کہ مقبول دعا ھو جیس

عشق کی راہ میں لغزش ھے رکاوٹ کیسی

دل ھے مسرور محمد کی عطا ھو جیسے

نام یہ کس کا ؟ لیا فرطِ محمد کےطفیل

حَرَمِ قلب ، میں ہر سمت ضیا ھو جیسے

آنکھ لگتے ھی سرِ شام ،مدینے پہنچا

عقل محبوس کہ کعبےکی فضا ھوجیسے

اِقرا، اِقرا کی صدا عشقِ محمد کے سبب

میرے اندر بھی کہیں غارِ حِرا ھوجیسے

لوگ ھی لوگ نظرمیری جہاں تک پہنچے

دشتِ عرفات کہ میدانِ منا ھو جیسے

ترے مرقد پہ تخٗیل نے یہ محسوس کیا

دستِ شفقت مرےکاندھےپہ پڑا ھوجیسے

ترے در پہنچا تو اَکمَلتُ لَکُم دِینُکُم

قد کہ بے انت مرا آج بڑھا ھو جیسے

جسم عرشی تراطیبہ کاہل تھا تو نہیں

سرخمیدہ ھےکوٸی کھینچ رہا ھوجیسے

(پروفیسر رئیس احمد عرشی )

PROFESSOR RAEES AHMED ARSHI KI SHAYARI: AIK FIKRI O FANNI JAIZA

PROFESSOR RAEES AHMED ARSHI KI SHAYARI: AIK FIKRI O FANNI JAIZA

پروفیسر رئیس احمد عرشی کی شاعری: ایک فکری و فنی جائزہ   پروفیسر رئیس احمد عرشی کا شمار اُن معاصر...
Read More
PROFESSOR RAEES AHMED ARSHI KI SHAYARI: PART 1

PROFESSOR RAEES AHMED ARSHI KI SHAYARI: PART 1

پروفیسر رئیس احمد عرشی کی شاعری — ایک جھلک پروفیسر رئیس احمد عرشی کی شاعری میں سادگی، گہرائی اور فکری...
Read More

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top