تحریر-فاروق عبداللہ
پروفیسر رئیس احمد عرشی میانوالی کے ایسے شاعر اور ادیب ہیں جن کا کلام سادگی، انسانی ہمدردی اور عہدِ حاضر کے دکھوں کا شعور لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے طویل تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ ادب کے مختلف شعبوں میں مستقل لکھا—شاعری، افسانہ، کالم اور تحقیقی مضامین—اور دو شعری مجموعے اور چند نثری کتابیں شائع کیں جنہیں مقامی ادبی حلقوں اور قاری طبقے نے پسند کیا۔
شاعری کی نوعیت اور موضوعات
عرشی صاحب کی شاعری سادہ مگر گہرے احساس سے لبریز ہے۔ ان کی غزل و نظم میں وقت، انسانیت، دردِ اجتماع اور اخلاقی شعور بار بار نمودار ہوتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب سیدھا سادا مگر تاثیر میں طاقتور ہوتا ہے — اسی وجہ سے ان کے اشعار عام قاری کے دل تک جلد پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں گھٹن، امید اور صبروثبات کا ملا جلا تاثر ملتا ہے، جس نے ان کے شعری مجموعوں کو ایک وسیع قبولیت دلائی۔
شائع شدہ کتب اور ادبی خدمات
عرشی صاحب کے دو شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے اور دو نثری کتب (اداریوں و تحقیقی مقالات) بھی شائع ہوئیں۔ ان کی نثری کتاب “ناطقہ سر بہ گریباں” ان کے اداریوں و کالموں کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ نوائے پٹھان میں 2003 تا 2007 کے دوران شائع ہونے والے مضامین پر مشتمل ہے۔ عرشی صاحب اس رسالے کے مدیر بھی رہے، اور اسی فضا نے ان کے ادبی رخ کو مزید پختہ کیا۔
نمایاں اشعار اور عوامی تاثر
عرشی صاحب کے اشعار نے کبھی بازاری رنگ اپنانے کے بجائے سچائی اور کردار کو ترجیح دی۔ ان کا مشہور کلام، مثلاً غزہ کے متعلق نظم، اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی شاعری معاشرتی درد کو زبان دیتی ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ سوشل میڈیا اور مقامی مباحثوں میں ان کے بعض کلام کی شیئرنگ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اُن کا شعری پیغام عام لوگوں پر بھی اثر انداز ہوتا رہا ہے۔
ادبی مقام اور میراث
میانوالی کے ادبی منظرنامے میں پروفیسر عرشی کو ایک پختہ اور معتبر آواز کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف شاعر بلکہ تحقیق کنندہ اور مدیر بھی رہے — اس کثیرالجہتی خدمات نے انہیں اس خطے کا ایک اہم ادبی سرمایہ بنا دیا ہے۔ ان کی سادگی، استقامت اور حرف کی حرمت نے انہیں شاگردوں اور ہم عصروں کے دل میں بلند مقام عطا کیا ہے۔
پروفیسر رئیس احمد عرشی کی شاعری سادہ انداز میں بڑے موضوعات کی بازگشت ہے — وقت، دکھ، انسانیت اور اخلاقی جواب دہی۔ ان کے دو شعری مجموعے اور ادبی تحقیقاتی کام اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ اپنے علاقے کے ادبی ورثے کو سنبھالنے اور آگے بڑھانے والے روشن ستون ہیں۔ قارئین اور ادبی حلقے اُن کے کلام کو وقعت دیتے ہیں، اور ان کی شاعری آنے والی نسلوں کے لیے ایک ضابطۂ فکر و جذبہ رہے گی۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی آواز میں پروفیسر رئیس احمد عرشی کی نعت