MERA MIANWALI-MAY 2025منورعلی ملک کے    مئی 2025  کے فیس  بک   پرخطوط

دو لیجنڈز کی ملاقات۔۔۔۔۔۔۔

ہم ناشتے کے انتظار میں رحمت گراموفون کمپنی فیصل آباد کی بالائی منزل پر ایک کمرے میں بیٹھے تھے کہ منصور علی ملنگی ایک ساتھی کے ہمراہ وہاں پہنچے ۔ وہ گزشتہ رات ایک شادی میں فن کا مظاہرہ کر کے آ رہے تھے۔

منصور کا ساتھی رات کو فنکشن میں ملی ہوئی ویلوں کی رقم کی گٹھڑی کھول کر پیسے گننے لگا۔ اچھی خاصی رقم تھی۔

لالا نے کہا یار میں تمہارے فنکشن میں آنا چاہتا تھا مگر کچھ مہمان آگئے اس لیئے حاضر نہ ہو سکا ۔ اچھی خاصی کمائی کر لی ہے تم نے۔

منصور ملنگی نے ہنس کر کہا ” منافق انسان تم میرے یہ چار پیسے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اگر تم فنکشن میں آجاتے تو مجھے کون سنتا۔ فنکشن تو تم ہی لوٹ لیتے“.

حالانکہ حقیقت میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔ ابتدائی دور میں منصور بھی لالا سے کم مقبول نہ تھا۔ لوگ اسے بھی بہت شوق سے سنتے تھے۔ منصور نے یہ بات لالا کی عزت افزائی کے طور پر کہی تھی۔

لالا نے کہا نہیں یار تمہارے گیت لگیاں اینج ناں تروڑ جیسا گیت میں آج تک نہیں گا سکا۔

لالا نے بھی یہ بات منصور کی عزت افزائی کے لیئے کہہ دی ورنہ اس سے بہتر کئی گیت لالا پہلے ہی گا چکا تھا۔

 واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جینوئن لیجنڈز حسد کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔ منور علی ملک ۔۔۔۔۔۔  1     مئی 2025

1971 کی پاک بھارت جنگ زور و شور سے جاری تھی۔ میں اس دن کسی کام سے ڈسٹرکٹ کونسل آفس میانوالی ایا ہوا تھا۔ بہت سے اور لوگ بھی وہاں موجود تھے۔

12 بجے کے قریب اچانک پی اے ایف بیس سے سائرن کی آواز فضا میں گونج اٹھی ۔ یہ آواز ہوائی حملے کی وارننگ تھی۔ چند سیکنڈ بعد انڈیا کا ایک طیارہ فضا میں نمودار ہوا مگر کوئی کارروائی ڈالے بغیر ہی تیر کی سی تیزی سے شمال کی جانب فرار ہو گیا ۔ اسی لمحے ہمارے میراج طیاروں کی گھن گرج سے زمین لرزنے لگی۔ دو میراج طیارے اس انڈین طیارے کے تعاقب میں گولی کی طرح تیز رفتار سے شمال کی جانب روانہ ہو گئے ۔ یہ منظر دیکھنے والے لوگ نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہوئے تالیاں بجانے لگے ۔

چند منٹ بعد ریڈیو پر خبر آئی کہ کوہاٹ کے قریب اس انڈین طیارے کو زمین پر اتار کر پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا ۔

بہت سنسنی خیز صورت حال تھی ۔ آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو نعرہ تکبیر کی صدائیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں-2     مئی 2025

بات صرف احساس کی ہے۔۔۔۔

ایک دن میں فرسٹ ایئر کلاس کو پڑھا کر نکلنے لگا تو ایک بچے نے ایک کاغذ مجھے تھما دیا۔ باہر نکل کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔

سر، السلام علیکم ۔۔۔۔۔ سر مجھے انگلش بالکل نہیں آتی مگر میں پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ میں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں۔ میرے والد معذور ہیں ۔ بہن بھائیوں میں میں سب سے بڑا ہوں اس لیئے مجھے روزی بھی کمانی پڑتی ہے۔ کالج ٹایئم کے بعد میں ایک بیکری سے چیزیں لے کر گلی گلی پھر کر بیچتا ہوں۔ وصول قیمت کا 10 فی صد مجھے ملتا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ پڑھ لکھ کر کوئی معقول ملازمت کروں جس سے میرے گھر والوں کی گزراوقات آسان ہو جائے۔ مگر میرے پڑھنے لکھنے کی راہ میں صرف انگریزی رکاوٹ ہے۔ سر، میں ٹیوشن فیس بھی نہیں دے سکتا۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں شام کے بعد ہی پڑھنے کے لیئے حاضر ہو سکتا ہوں۔ اگر آپ مہربانی کر کے انگریزی میں میری مدد کر دیں تو میری مشکل آسان ہو جائے گی۔

اگلی صبح اس بچے کو بلا کر میں نے شام کے بعد اسے پڑھانے کا وقت مقرر کر دیا۔ بچہ بہت محنتی اور ذہین تھا۔ اس نے میری رہنمائی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اچھے نمبروں سے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا۔ آگے بی اے میں بھی مجھ سے مدد لیتا رہا۔ آج وہ ایک بڑے تعلیمی ادارے میں سینیئر ٹیچر ہے۔

اس بچے کا مستقبل سنوارنے میں کمال میرا نہیں اس کے اپنے احساس کا ہے۔ بات صرف احساس کی ہوتی ہے۔  3     مئی 2025

میرے پاس بی اے کی بچیوں کا ایک گروپ انگلش کی ٹیوشن پڑھنے کے لیئے آتا تھا۔ ایک نئی بچی اس گروپ میں شامل ہوئی۔ اس نے پہلے ہی دن 300 روپے فیس دے دی جو میں نے رکھ لی۔

اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو اس بچی نے کہا سر میں اس مہینے کی فیس 15 تاریخ کو دوں گی کیونکہ اس ماہ مجھے تنخواہ 15 تاریخ کو ملے گی۔

میں نے کہا بیٹا آپ کہیں جاب کرتے ہیں۔

بچی نے کہا جی سر، میں ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہوں۔

میں نے کہا کتنی تنخواہ ملتی ہے۔

اس نے کہا سر، 300 روپے ۔

بچی کا جواب سن کر میں پریشان ہو گیا۔ یہ بچی صرف میری ٹیوشن فیس ادا کرنے کے لیئے پورا مہینہ روزانہ پانچ گھنٹے کام کر رہی تھی۔

میں نے پچھلے مہینے کے 300 روپے بھی اسے واپس دیتے ہوئے کہا بیٹا مجھے آپ کے مالی حالات کا علم نہ تھا۔ میں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا ۔ میری فیس کی خاطر آپ کو مشقت کرنے کی ضرورت نہیں ۔

ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ کرام سے گذارش ہے کہ بچوں کا مالی پس منظر دیکھ لیا کریں۔ یتیم اور مفلس بچوں سے فیس نہ لیا کریں۔ یقین کیجیئے اس سے آپ کا رزق کم نہیں ہو گا، بلکہ اس میں اضافہ ہو گا-  4     مئی    2025

پہلی بار پنشن لینے کے لیئے نیشنل بینک گیا تو پنشن والے کیشیئر کی کھڑکی کے سامنے پنشنرز کی لمبی قطار دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اپنی باری کا انتظار کرنے کے لیئے کھڑکی کے باہر کھڑے ہونے کی بجائے میں نے بینک کے اندر ہی کہیں بیٹھ کر انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

جونہی میں نے بینک کے اندر قدم رکھا سامنے بیٹھا ہوا ایک کیشیئر مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے سلام کر کے کہنے لگا سر ، کیسے آنا ہوا ؟

وہ نوجوان کالج میں میرا سٹوڈنٹ رہ چکا تھا ۔

میں نے بتایا کہ پنشن لینے آیا ہوں مگر اس کھڑکی کے باہر تو بہت رش ہے۔ میں ادھر اندر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر لوں گا۔

اس نے کہا سر، اپنا پنشن فارم مجھے دے دیں۔

مجھ سے فارم لے کر وہ پنشن والے کیشیئر کے پاس گیا اور ایک منٹ میں میری پنشن کی رقم لا کر مجھے دے دی۔ پھر کہنے لگا سر, آئندہ زحمت سے بچنے کے لیئے آپ پنشن فارم پر دستخط کر کے مجھے بھجوا دیا کریں۔ میں پنشن نکلوا کر آپ کے قاصد کے ہاتھ بھجوا دیا کروں گا۔

اللہ بھلا کرے میرے اس بیٹے کا اس دن کے بعد مجھے پنشن لینے کے لیئے خود بینک نہ جانا پڑا۔5     مئی 2025

رب کریم کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے کچھ اور بنانے کی بجائے ٹیچر بنا دیا۔ میں نے تو کبھی ٹیچر بننے کا سوچا ہی نہ تھا مگر میرے خالق نے میرا راستہ اور منزل طے کر دی تھی۔

الحمد للہ اس شعبے میں اتنی عزت ملی کہ میں ادھر ہی کا ہو کر رہ گیا ۔اور یہ عزت دائمی ہے۔۔ میرے ہزاروں سٹوڈنٹ مجھے اپنے والد کا درجہ دیتے ہیں۔ ان میں سے کئی ڈاکٹر ، انجینیئر ، وکیل ، پروفیسر اور فوجی افسر ہیں۔ دو سیشن جج بھی ہیں۔

میانوالی میں تو بینک ، پوسٹ آفس ، تھانہ ، کچہری ، کہیں بھی مجھے قطار میں نہیں لگنا پڑتا۔ ہر جگہ میرا کوئی نہ کوئی بیٹا میری خدمت کے لیئے موجود ہے۔ میرے اکثر کام گھر بیٹھے ایک فون کال سے ہو جاتے ہیں ۔ اللہ سب کو سلامت رکھے مجھے اپنے ان بیٹوں پر فخر ہے۔  6     مئی 2025

جنگ شروع ہو گئی.نصرمن اللہ و فتح قریب.نعرہ تکبیر۔۔ اللہ اکبر     –  7     مئی   2025

والدین تو مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر میرے مستقبل کے بارے میں قدرت کا پلان کچھ اور تھا۔

گارڈن کالج راولپنڈی کی فرسٹ ایئر میڈیکل کلاس میں داخلہ لے تو لیا مگر سائنس میں دل نہ لگا۔ اس لیئے دسمبر ٹیسٹ کے بعد پرنسپل صاحب کی خصوصی مہربانی سے میں نے سائنس کے مضامین کی جگہ آرٹس کے مضامین رکھ لیئے۔

بی اے کے بعد گھر داؤدخیل آگیا۔ مستقبل کا ایک دھندلا سا خاکہ ذہن میں تھا۔ سوچا تھا ایل ایل بی کر کے پہلے وکیل اور پھر جج بنوں گا۔

ایک دن ہائی سکول داؤدخیل کے ماسٹر نواب خان صاحب نے ہیڈماسٹر صاحب ، میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی ، سے کہا ملک صاحب ، منور فارغ پھر رہا ہے۔ میری کلاس کے انگلش ٹیچر امیر عمر خان تو پولیس میں بھرتی ہوگئے۔۔ منور سے کہیں میری کلاس کو انگلش پڑھا دیا کرے۔ بھائی جان نے یہ تجویز بہت پسند کی۔ سو ان کے حکم پر میں چھٹی اور آٹھویں کلاس کو انگلش پڑھانے لگا۔

پہلے دن جب میں ماسٹر نواب خان صاحب کے ساتھ سکول جا رہا تھا تو راستے میں کھیت میں ہل چلاتے ہوئے چاچا یاسین خان لمے خیل نے ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ لڑکے کو کدھر لے جا رہے ہو۔ ماسٹر صاحب نے کہا یہ میری کلاس کو انگلش پڑھائے گا۔

چاچا یاسین خان نے کہا ” وت کمرے چو کرسی چوا گھنائے، کیوں جو اے ہک وار اس کرسی تے باہ گیا تاں وت ساری عمر ماسٹر ای راہسی۔ لائق بچہ اے اساں چاہنے ہاں اے تحصیلدار یا مشٹریٹ بنڑے۔

ماسٹر صاحب نے کہا جو قدرت کو منظور ہوا وہی ہو گا۔

ہم سکول پہنچے ۔ کرسی کمرے میں موجود تھی۔ بیٹھنا بھی پڑا۔ چاچا یاسین کی بات بھی درست ثابت ہوئی ۔۔ اگلے 40 سال میں ٹیچر ہی رہا۔۔ یہ الگ بات کہ یہ سودا مہنگا نہ تھا ۔ اللہ کے فضل سے ٹیچر کی حیثیت میں جو محبت اور عزت ملی کسی اور شعبے میں خواب و خیال میں بھی نصیب نہ ہوتی۔  8     مئی 2025

30 دسمبر 1980 کو میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر گورنمنٹ کالج میانوالی آ گیا۔

مجھ سے پہلے یہاں انگلش کے تین لیکچررز ، ملک سلطان محمود اعوان صاحب ، سید محمد حنیف شاہ صاحب اور سرور نیازی صاحب کام کر رہے تھے ۔ چوتھا میں ہو گیا۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ساتھی بہت خوش ہوئے کہ کام کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہو گیا۔

شروع میں مجھے صرف سیکنڈ ایئر میڈیکل گروپ کی کلاس دی گئی ۔ سابق ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان نیازی بھی اس کلاس کے سٹوڈنٹ تھے۔ تقریبا 90 لڑکوں کی خاصی لمبی کلاس تھی۔

سٹوڈنٹس نے بتایا کہ انگلش کا بہت سا کورس ابھی باقی ہے۔۔ میرے پاس صرف تین مہینے تھے۔ اپریل میں امتحان ہونا تھا۔ سٹوڈنٹس کو احساس تھا ، اس لیئے میرا کام آسان ہو گیا۔ میں نے محنت کرکے 3 ماہ میں کورس مکمل کرا دیا۔ اللہ کے فضل سے امتحان میں میری کلاس کا انگلش کا ریزلٹ 95 فی صد رہا۔ انگلش کا یہ ریزلٹ مثالی تھا۔ اس کی بنا پر مجھے وہ شہرت ملی جو میری کامیابی کی دائمی دلیل بن گئی۔۔۔۔۔۔۔۔9مئی 2025

نصر من اللہ  وفتح قریب

الحمدللہ۔۔۔ پاکستان نے آج فجر کے وقت بھارت پر جوابی وار شروع کر دیا۔ بھارت پر میزائلوں اور ڈرونز کی بارش۔ بھارت کا بجلی اور مواصلات کا نظام مفلوج ۔ متعدد بھارتی ہوائی اڈے اور چوکیاں تباہ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے درست کہا تھا کہ جب ہم جوابی وار کریں گے تو اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ اس وقت پوری دنیا کے میڈیا پر ہمارے جوابی وار کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ٹی وی سکرین پر جنگ کے مناظر کے ویڈیو کلپس دکھائے جا رہے ہیں۔

سوچیں اور مشورہ کریں کہ ہم اس جہاد میں کیسے حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اور کچھ نہ سہی سوشل میڈیا(فیس بک، ٹویٹر وغیرہ) تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اور آج کے دور میں یہ بھی بڑا طاقتور ہتھیار ہے۔۔۔۔۔۔ جس صورت میں بھی ممکن ہو اس جنگ میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں ۔۔

دنیا پر واضح کر دیں کہ پاکستانی فوج کی تعداد 7 لاکھ نہیں 24 کروڑ ہے۔ رب کریم ہمارا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ : پلیز اس پوسٹ پر سیاسی کمنٹ نہ کریں۔ یہ وقت سیاست کا نہیں ۔ سیاست کے لیئے بہت وقت پڑا ہے۔

فائر بندی کا ممکن پس منظر

لگتا ہے آج صبح کی چھترول کے بعد نریندرا مودی نے ٹرمپ کے پاؤں پکڑ کر کہا سرکار، بھگوان کا واسطہ ہمیں بچاؤ ۔ پھر ٹرمپ نے پاکستان سے کہا ہوگا معاف کر دو بچاروں کو۔ یوں مودی کی رہی سہی عزت بچ گئی۔0  1     مئی 2025

الحمد للّہ الکریم ۔۔۔۔۔

خوشی اور فخر کے عالم میں سمجھ نہیں آ رہی کہ آج کیا لکھوں ؟

دو جنگیں (1965 اور 1971) ہم نے پہلے بھی دیکھی ہیں۔ مگر کل کی جنگ عجیب تھی کہ دو چار گھنٹوں میں کھیل ختم اور فتح ہماری۔ ہمارے شاہینوں نے بھارت کو مزاحمت کے قابل ہی نہ چھوڑا۔ پہلے ہی حملے میں بھارت کے اہم ہوائی اڈے اور اسلحے کے ڈپو راکھ کے ڈھیر بن گئے۔

مودی نے ٹرمپ کے پاؤں پکڑ کر کہا سرجی ہمیں بچاؤ ، حالانکہ ایک دن پہلے تک تو وہ صلح کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتا تھا۔

ہمارے ایک پائلٹ نے پہلا رافیل طیارہ مار گراتے ہوئے تصور میں اپنی امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا امی یہ تحفہ آپ کے لیئے۔

دہلی پر بمباری کرنے والے ایک پائلٹ نے کہا اگر مجھے واپس نہ بلا لیا جاتا تو دنیا کے نقشے پر دلی ( دہلی) کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا

اس قسم کی کئی ایمان افروز داستانیں کئی دن تک سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہیں گی۔

اس شاندار کامیابی کا کریڈٹ ہماری عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ دلیر اور غیرت مند قوم کو بھی جاتا ہے۔ کل وہی جوش و جذبہ اور اتحاد دیکھنے میں آیا جو 1965 کی جنگ میں دیکھا تھا۔

رب کریم ہمارا یہ جذبہ ء جہاد سلامت رکھے ۔ اور ہمارے محافظوں کا حافظ و ناصر ہو ۔

پاکستان زندہ باد

پاک افواج پائندہ باد

1  1     مئی 2025

انڈین ایئر فورس ۔۔۔۔

ایک نوجوان سگریٹ میں ہیروئن بھر کر پی رہا تھا۔ ایک بزرگ اسے دیکھ کر بولےاوئے کمینے, دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور تم یہ گھٹیا کام کر رہے ہو ؟ شرم کرو۔

جہاز نے سگریٹ کا کش لگا کر منہ ، ناک اور کانوں سے دھواں نکالتے ہوئے کہا۔

بس چاچا جی ، سگریٹ مکداں تئیں میں وی چن تے پہنچ ویساں ، اے تاں کوئی مسئلہ ای نئیں۔ کوئی ہور خدمت ساڈے لائق ؟؟؟؟؟؟

انڈین جہازوں کے پائلٹ بھی شاید ایسے ہی جہاز تھے۔2  1     مئی 2025

جنگ کئی لطیفوں کو بھی جنم دیتی ہے۔

10 مئی کی صبح ہمارے سائیبر پر کام کرنے والے شیر جوانوں نے انڈیا کا رابطوں کا نظام درہم برہم کر دیا تو خاصی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی۔ انڈیا کے پائلٹ ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تو آگے سے فلمی گانے سنائی دیتے تھے۔ گانے بھی کچھ اس قسم کے

ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا

۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔

بہارو پھول برساؤ مرا محبوب آیا ہے

پائلٹ بچارے اور تو کچھ کر نہیں سکتے تھے، مودی کو گالیاں دے کر غصہ ٹھنڈا کرتے رہے ۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔3  1     مئی   2025

1965 کی پاک بھارت جنگ میں قوم کا جوش و جذبہ دیکھنے کے لائق تھا۔ فوج کی بھرتی کے دفاتر میں نوجوانوں کی لائینیں لگی ہوتی تھیں۔

محکمہ شہری دفاع نے وسیع پیمانے پر لوگوں کی آگاہی کے لیئے سکولوں میں ٹریننگ کا بندوبست کیا جہاں ڈاکٹر اور محکمہ شہری دفاع کے حکام عوام کو جنگ کے نقصانات سے بچنے اور زخمیوں کی دیکھ بھال کی تربیت دیتے رہے۔

ہدایات کے مطابق لوگوں نے ہوائی حملوں سے بچنے کے لیئے گھروں میں خندقیں کھودیں۔ ہوائی حملے کا سائرن بجتے ہی لوگ ان خندقوں میں پناہ لیتے تھے اور خطرہ ختم ہونے کا سائرن بجتے ہی باہر آ جاتے تھے۔

سرکار نے محاذ جنگ پر لڑنے والے مجاہدین کی ضرورت کی چیزوں کی فہرست جاری کی۔ اس کے مطابق لوگ سامان ڈپٹی کمشنروں کے پاس جمع کراتے رہے ۔ وہاں سے یہ سامان روزانہ ٹرکوں کے ذریعے محاذ جنگ پر بھجوا دیا جاتا تھا۔

یہ سامان بستروں ، کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ میانوالی میں شہزاد ہوٹل سامان جمع کرانے کا مرکز تھا۔

پوری قوم جنگ میں شامل رہی۔ حسب توفیق ہر فرد نے جنگ میں کردار ادا کیا۔

وہی جوش و جذبہ پچھلے ہفتے کی جنگ میں۔ ایک بار پھر دیکھنے میں ایا۔ الحمدللہ ہماری بہادر افواج اور غیور قوم نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ

ہم زندہ قوم ہیں

پائندہ قوم ہیں –4  1     مئی 2025

10 مئی کے مختصر سے معرکہ حق پر ساری دنیا حیران ہے۔ مغربی میڈیا پر اس کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ فرانس اور روس کی جدید ترین ٹیکنالوجی کیسے ناکام ہوگئی ۔ وہ روسی دفاعی نظام جو ہر حملہ ناکام بنا کر دشمن کے طیاروں اور میزائلوں کو فضا میں ہی تہس نہس کر سکتا تھا پاکستانی میزائلوں اور طیاروں کے مقابلے میں ریت کی دیوار ثابت ہوا۔

بھارت کو اسلحے سے لیس کرنے والے ممالک پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ عالمی منڈی میں ان کے اسلحے کی قیمتیں گر رہی ہیں۔

مغربی تھنک ٹینک اور دفاعی ماہرین مدتوں اس معجزے پر تحقیق کرتے رہیں گے۔ سائنسی تحقیق اور دفاعی تجزیوں سے تو پتہ نہیں کیا نتائج نکلتے ہیں ، ایسے معجزات کا ایک اور پہلو بھی ہوتا ہے جسے صرف اہل ایمان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اور وہ پہلو ہے اللہ کی مدد ۔ قرآن کریم میں متعدد بار ارشاد ہوا کہ اگر تم حق پر ہو تو اللہ یقینا تمہاری مدد کرے گا۔ شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔

فضائے بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو،

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

رب کریم ہمارا ایمان سلامت رکھے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی الحمدللہ ہم بھارت پر بھاری ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کو خبردار کر دیا ہے کہ ابھی تو ہم نے اپنی ٹیکنالوجی کا صرف 10 ، 15 فی صد استعمال کیا ہے ۔ دوسری بار ہم پہ حملے کی غلطی کی تو تمہارا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔

اللہ اکبر

پاکستان زندہ باد

پاک افواج پائندہ باد  –15       مئی 2025

رفتید ولے نہ از دل ما

(تم اس دنیا سے تو چلے گئے ہو مگر ہمارے دل سے باہر نہیں گئے)

پروفیسر اقبال حسین کاظمی صاحب میرے بہت مہربان بڑے بھائی تھے۔ بڑے بھائی اس حوالے سے کہ وہ میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کے کلاس فیلو اور قریب ترین دوست تھے۔ ان کا مجھ سے سلوک بھی ایک شفیق بڑے بھائی جیسا تھا۔

پروفیسر کاظمی صاحب شعبہءاردو کے سربراہ، کالج کے کنٹرولر امتحانات ، کالج میگزین سہیل کے چیف ایڈیٹر اور ناظم تقریبات بھی تھے۔ یہ تمام ذمہ داریاں وہ آخری دم تک نہایت احسن طریقے سے نبھاتے رہے ۔ بہت ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے۔ دس بارہ سال کی سنگت میں انہیں کبھی غصے میں نہ دیکھا۔

مجھ پر ان کی بے شمارعنایات تھیں۔ جب مجھے کالج میگزین کے حصہ اردو کا نگران ایڈیٹر مقرر کیا تو میں نے کہا سر، میں تو انگلش سیکشن کا نگران بھی ہوں۔ ویسے بھی میرا مضمون تو انگریزی ہے۔۔ حصہ اردو کا نگران ایڈیٹر تو شعبہءاردو کا بندہ ہونا چاہیئے۔

ہنس کر بولے بھائی صاحب سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا بندہ تم سے بہتر اردو لکھ سکتا تو میں اسی کو نگران ایڈیٹر بنا دیتا۔

کاظمی صاحب نے مجھے کالج کی تقریبات کی کمپیئرنگ پر بھی مامور کر رکھا تھا۔ تمام تقریبات کی کمپیئرنگ میں ہی کرتا تھا۔ چند سال بعد جب پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب کالج میں آگئے تو میں نے یہ ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔

اپنی زندگی کے آخری دن کالج سے واپس جاتے ہوئے کاظمی صاحب کالج آفس آئے تو میں وہاں سپرنٹینڈنٹ کے پاس بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے منور یار ، میرا ایک چھوٹا سا کام تو کردو۔

میں نے کہا سر حکم کریں۔

کہنے لگے یار میری سروس بک تصدیق کے لیئے اکاؤنٹنٹ جنرل لاہور کے آفس گئی ہوئی تھی۔ انہوں نے تصدیق کے بعد آج واپس بھیج دی ہے۔ ان کو شکریئے کا لیٹر لکھنا ہے۔

میں نے کہا سر چھوڑیں ، ایسی معمول کی رسمی کارروائیوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری نہیں۔ ویسے بھی اب چھٹی کا وقت ہے۔ یہ کام کل ہو جائے گا ۔

کاظمی صاحب نے کہا یار میرا ایک اصول ہے کہ کوئی آدمی میرا معمولی سا کام بھی کر دے تو اس کا شکریہ ضرور ادا کرتا ہوں۔ میرے بھائی ، دو منٹ کا کام ہے ۔ لیٹر لکھ دو تو میں راستے میں پوسٹ آفس سے ابھی بھجوا دوں گا۔

میں نے لیٹر لکھ کر دے دیا ۔ کاظمی صاحب بہت خوش رخصت ہوئے۔۔

اگلی صبح اچانک یہ روح فرسا خبر سنی کہ کاظمی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

ایسا کہاں سے لاوں کہ تم سا کہوں جسے-

پکچر بشکریہ پروفیسر عامر کاظمی۔۔۔۔۔۔

بائیں سے دائیں۔۔۔۔۔ پرنسپل پروفیسر چوہدری نیاز احمد ، پروفیسر اقبال حسین کاظمی ، اور میں-  16     مئی 2025

کینیڈا سے ایک صاحب لکھتے ہیں 10 مئی کی صبح کچھ چیزیں خریدنے کے لیئے میں ایک جنرل سٹور پر گیا۔ اس جنرل سٹور کی مالک نقاب پوش افغان خاتون نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں مجھ سے پوچھا آپ پاکستان سے آئے ہو؟

میں نے کہا جی ہاں۔

میرا جواب سن کر خاتون کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا مبارک ہو آپ جیت گئے۔

پھر کہنے لگی میں نے رات بھر جانماز پر بیٹھ کر رو رو کر پاکستان کی جیت کے لیئے دعائیں کی ہیں ، کیونکہ میری نظر میں یہ جنگ کفر اور اسلام کے درمیان جنگ تھی۔ الحمد للہ میری دعائیں قبول ہوئیں ۔ پاکستان جیت گیا ۔

اس قسم کی ایمان افروز داستانیں جہاں سے بھی ملیں پوسٹ کرتے رہیں تاکہ قوم کا جذبہ ء جہاد برقرار و بیدار رہے۔  17     مئی 2025

55 برس کی عمر تک لوگ میری اصل عمر کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا رہے کیونکہ دیکھنے میں میری عمر اصل عمر سے دس پندرہ سال کم لگتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ پروفیسر محمد سلیم احسن صاحب عمرہ کر کے واپس آئے تو مجھ سے کہا روضہء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر میں نے آپ کے لیئے صرف ایک ہی درخواست کی کہ یہ بندہ داڑھی رکھ لے۔

میں نے کہا اللہ کے بندے تم وہاں بھی میری شکایت لگا آئے۔

اس دن کے بعد میں نے شیو بنانا چھوڑ دیا ۔ سر کے بال تو اب تک سیاہ ہیں۔ داڑھی کے سفید بالوں نے عمر کا راز فاش کر دیا۔

چلیں یہ بھی اچھا ہوا , کیونکہ ہمارے آقا علیہ السلام کا ارشاد ہے جب کوئی سفید بالوں والا مومن دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس کی دعا خالی واپس نہیں آتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اس کے سفید بالوں سے حیا آتی ہے۔

یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ سفید بالوں کے باوجود ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟

اس کی وجہ جاننے کے لیئے اپنے اعمال پر نظر ڈالیں۔ کیا آپ نماز کی پابندی کرتے ہیں؟ کیا آپ رزق حلال کھاتے ہیں ؟ کیا آپ والدین کے فرمانبردار ہیں ؟ کیا آپ نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا ؟

اگر ان سوالات کے جواب ہاں کی صورت میں ہیں ، تو مطمئن رہیں ، آپ نے اللہ سے جو مانگا ضرور ملے گا ۔  18     مئی 2025

گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ باعث تشویش ہے۔ اوپر سے موسمیات والے ڈرا رہے ہیں کہ یہ تو

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا،

آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا

ذرا سوچیئے ، وہ بھی تو ہم جیسے انسان ہیں جو اس چلچلاتی دھوپ میں سارا دن مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ گھر میں نہ اے سی کی سہولت، نہ فریج کا ٹھنڈا پانی دستیاب، پھر بھی اللہ کے اس کرم پر شکر گذار کہ دو وقت کی روٹی تو مل رہی ہے۔

انسان تو خیر ہاتھ پاؤں ہلا کر گرمی کی شدت سے بچنے کی کوئی صورت نکال لیتے ہیں۔ سوچیئے ان ننھے منے پرندوں کا جو سخت گرمی میں پیاس کے مارے چونچ کھولے پانی کی تلاش میں ہمارے ارد گرد مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مہمان ہیں ۔ ان کے لیئے پانی اور خوراک کا بندوبست کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی پر اللہ کریم سے جو انعامات ملیں گے ان کا ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔ ہمارے کئی مسائل جو ہم خود حل نہیں کر سکتے خود بخود حل ہو جائیں گے۔

کرنا کیا ہے، ایک برتن میں پانی اور بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے گھر میں کسی کھلی جگہ رکھ دیا کریں۔ پرندے آتے جاتے رہیں گے ۔ دن بھر رونق لگی رہے گی۔۔۔  22     مئی 2025

یوم تکبیر۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر

10 مئی کے معرکہ بنیان مرصوص میں پاکستان کی شاندار فتح کا سہرا جن لوگوں کے سر ہے ان میں سرفہرست ایک نام محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کا بھی ہے۔ بھارت کو پتہ تھا کہ اگر بات ایٹمی جنگ تک پہنچی تو پاکستان سے مقابلہ بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھارت سے بہت برتر ہے۔

ہمیں یہ برتری پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے معمار ڈاکٹر عبد القدیر خان نے دلائی۔

الحمد للّہ ، بھارت تو کیا، دنیا کی کوئی بھی طاقت پاکستان سے کوئی بڑا پنگا نہیں لے سکتی۔

رب کریم ڈاکٹر عبد القدیر خان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔

صد افسوس کہ حکمرانوں اور قوم نے ڈاکٹر صاحب کی قدر نہ کی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تنہائی اور گمنامی کی حالت میں بسر ہوئے ۔ 28    مئی 2025

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں

ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

استاد کا مقام۔۔۔۔۔۔

پنڈی گھیب ضلع اٹک کے ایک بزرگ ریٹائرڈ ٹیچر ہمارے بابا جی کے دوست تھے ۔ ایک دفعہ بابا جی سے ملنے آئے تو کہنے لگے پچھلے ہفتے راولپنڈی گیا تھا۔ میرا ایک بیٹا فوج میں کیپٹن ہے۔ وہ جی ایچ کیو میں تعینات تھا۔ اس نے خط میں لکھا کہ اس کا ٹرانسفر کویٹہ ہو گیا ہے۔ اگلے ہفتے جانا ہے۔ میں اس سے ملنے کے لیئے جی ایچ کیو گیا۔ میرے جانے کا فایدہ یہ ہوا کہ بیٹے کا ٹرانسفر کینسل ہو گیا۔

بابا جی نے کہا وہ کیسے؟

انہوں نے کہا میں جی ایچ کیو میں اپنے بیٹے کے دفتر جا رہا تھا تو اچانک ایک لمبی سی کار میرے سامنے آکر رک گئی۔ کار میں سے ایک جنرل نکلا ۔ مجھے سلام کرنے کے بعد میرے پاؤں چھو کر کہنے لگا سر، آج یہاں کیسے آنا ہوا۔ ؟

میں نے کہا بیٹا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ کیا آپ مجھے جانتے ہیں ۔؟

جنرل صاحب نے کہا سر میرا نام اعظم خان ہے۔ میں پرائمری سکول کی چوتھی کلاس میں آپ کا سٹوڈنٹ رہا ہوں۔ اب فرمائیں آپ یہاں کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں۔؟

میں نے بتایا کہ میرا بیٹا یہاں کیپٹن ہے ۔۔ اس کا کویٹہ ٹرانسفر ہو گیا ہے۔ میں اس سے ملنے آیا ہوں۔

جنرل صاحب نے کہا کیا آپ کا بیٹا اس ٹرانسفر سے خوش ہے ۔؟

میں نے کہا خوش تو کیا ہونا ہے۔ نوکری جو کرنی ہے جہاں بھیج دیں جانا پڑتا ہے۔ بیٹا یہاں تھا تو ہم آکر اس سے مل لیتے تھے ۔ کویٹہ کون آ جا سکے گا ۔؟

جنرل صاحب نے کہا سر، فکر نہ کریں ۔ ہم یہ ٹرانسفر کینسل کر دیتے ہیں۔

یہ کہہ کر وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے آفس لے گئے۔ اور فون پر متعلقہ میجر جنرل سے کہہ کر بیٹے کا ٹرانسفر کینسل کرا دیا۔29     مئی 2025

میرے محترم دوست ، معروف نقاد ، شاعر اور مترجم جناب محمد سلیم الرحمن نے ایک دفعہ کہا تھا : آپ اپنی شاعری سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیوں کرتے ہیں ، حالانکہ آپ کی شاعری آج کے کسی بھی بڑے شاعر سے کم تر نہیں ؟

جناب محمد سلیم الرحمن کی یہ ڈانٹ آج بھی یاد آتی ہے تو اداس ہو جاتا ہوں۔۔۔ انہوں نے بالکل درست کہا تھا۔ اپنی شاعری کو میں نے وہ اہمیت نہیں دی جس کی یہ مستحق تھی۔ میں نے کبھی اپنی شاعری پر فخر کا اظہار نہیں کیا۔ دوستوں کی محفلوں میں بھی کبھی اپنا شعر نہیں سنایا۔ مشاعروں کی بات الگ ہے۔

شاعری سے میری یہ بے رخی واقعی ظلم ہے، کیونکہ دنیا میں تو میری پہچان شاعری ہی بنی۔ میرے لکھے ہوئے سرائیکی گیت دنیا بھر میں میری پہچان ہیں۔ فیس بک پر بھی میرے اکثر دوست اسی شاعری کے حوالے سے مجھے بہت عرصہ سے جانتے تھے۔

سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا

رت ولی پکھواں دے جوڑے آگئے

اور

نت دل کوں آہدا ہاں کل ماہی آسی

جیسے ہجر اور محرومیوں کے ترجمان گیت لالا عیسی خیلوی کی آواز میں ریکارڈ ہو کر دنیا بھر میں میری پہچان بنے۔

لہذا میں غالب کی طرح یہ بھی نہہں کہہ سکتا

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

ویسے تو چاچا غالب نے بھی چول ہی ماری تھی کیونکہ دنیا بھر میں عزت تو انہیں شاعری ہی نے دلوائی۔ شاعری ہی کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔

یہ موضوع اب چھڑ ہی گیا ہے تو اگلے چند دن اسی پر بات ہوگی۔ اس طرح اپنی شاعری کا حق کچھ تو ادا ہو جائے گا۔ یہ قرض اتارنا میری نظر میں بہرحال بہت ضروری ہے۔ اپنے ناراض ضمیر کو راضی کرنے کی کوشش کرنا کوئی برا کام نہیں۔30     مئی 2025

1970/80 کی دہائی میں میانوالی کے ادبی منظر نامے میں تین نئے چہرے نمودار ہوئے۔ یہ تھے فاروق روکھڑی ، گلزار بخاری اور میں۔۔۔ ہم تینوں مترنم شاعر تھے۔ ترنم اور خوبصورت شاعری کی وجہ سے ہم لوگ مشاعرے لوٹا کرتے تھے۔ ہم تینوں اردو غزل کے شاعر تھے ۔

ہم سے سینیئر لوگ، سید نصیر شاہ، شرر صہبائی ، سید انجم جعفری اور سالار نیازی وغیرہ تحت اللفظ ( ترنم کے بغیر) اپنا کلام پڑھتے تھے ۔ تحت اللفظ پڑھنے میں انجم جعفری کا انداز لاجواب تھا۔ الفاظ میں جان ڈال دیتے تھے۔

فاروق روکھڑی ، گلزار بخاری اور میں اس کارواں کے پہلے مترنم شاعر تھے۔

ہم تینوں ایک ساتھ ماڑی انڈس کے ایک مشاعرے میں منظر عام پر آئے۔ دریا کنارے اس عظیم الشان مشاعرے کا اہتمام انجم بھائی نے کیا تھا جو اس وقت ماڑی انڈس سکول میں ہیڈماسٹر تھے۔ مشاعرے کی صدارت میرے ماموں ملک منظور حسین منظور نے کی۔ پروفیسر سید محمد عالم اس مشاعرے کے مہمان خصوصی تھے۔ عیسی خیل سے بھکر تک کے شعرا اس مشاعرے میں شریک ہوئے ۔

جونیئر ہونے کی بنا پر ہم تینوں کو مشاعرے کے آغاز میں یکے بعد دیگرے سٹیج پر بلایا گیا۔ مدھر ترنم میں خوبصورت کلام سن کر سامعین جھوم اٹھے۔ ایک ایک شعر کئی کئی بار پڑھوایا گیا۔ مہمان خصوصی نے اپنے خطاب میں کہا سب شاعر اچھے تھے، مگر مشاعرہ ان تین نوجوانوں نے لوٹ لیا۔31     مئی 2025

MERA MIANWALI  MAY 2024

MERA MIANWALI MAY 2024

MERA MIANWALI OCT 2017

MERA MIANWALI OCT 2017

MERA MIANWALI – FEBRUARY 23

MERA MIANWALI – FEBRUARY 23

MERA MIANWALI- JUNE-2021

MERA MIANWALI- JUNE-2021

MERA MIANWALI OCTOBER 2018

MERA MIANWALI OCTOBER 2018

MERA MIANWALI APR 2018

MERA MIANWALI APR 2018

MERA MIANWALI -APR16

MERA MIANWALI -APR16

MERA MIANWALI JUNE 2020

MERA MIANWALI JUNE 2020

MERA MIANWALI -NOVEMBER 2020

MERA MIANWALI -NOVEMBER 2020

MERA MIANWALI APRIL 2017

MERA MIANWALI APRIL 2017

MERA MIANWALI FEBRUARY 2019

MERA MIANWALI FEBRUARY 2019

MERA MIANWALI   OCTOBER 2023

MERA MIANWALI OCTOBER 2023

MERA MIANWALI MAY 2019

MERA MIANWALI MAY 2019

MERA MIANWALI -MUNAWAR ALI MALIK

MERA MIANWALI -MUNAWAR ALI MALIK

MERA MIANWALI- MARCH-2021

MERA MIANWALI- MARCH-2021

MERA MIANWALIN APRIL 2025

MERA MIANWALIN APRIL 2025

MERA MIANWALI JULY 2018

MERA MIANWALI JULY 2018

MERA MIANWALI- MAY-2021

MERA MIANWALI- MAY-2021

MERA MIANWALI AUGUST  2024

MERA MIANWALI AUGUST 2024

MERA MIANWALI MARCH 2025

MERA MIANWALI MARCH 2025

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top