منورعلی ملک کے اپریل 2018 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی

یہ موسم چڑیوں کے شکار کا بھی ھوتا تھا – گھروں میں رھنے والی یتیم مسکین چڑیاں نہیں ، یہ جنگلی چڑیاں ھوتی تھیں جنہیں ”باھری چڑیاں” کہتے تھے- یہ ھزاروں کی تعداد میں خدا جانے کہاں سے آتی تھیں – ان کی آمد گندم کی فصل پکتے ھی شروع ھو جاتی تھی- پہلے یہ کھڑی فصل کے سٹوں کا صفایا کرتی تھیں – اس نقصان سے بچنے کے لیے کسان بچوں کی ڈیوٹی لگاتے تھے، کہ چڑیوں کو فصل پر نہ بیٹھنے دیں – چڑیوں کو اڑانے کے لیے کبھی تو کھیت کے آر پار رسی باندھ کر اس کو ھلاتے رھتے تھے ، کبھی رسی کے ٹکڑے سے چھوٹا سا پتھر باندھ کر اسے سر کے اوپر سے گھما کر پھینکتے تو چڑیاں ڈر کر اڑ جاتی تھیں – بعض بچے غلیل بھی استعمال کرتے تھے- چڑیاں اڑانے والے بچے اونچی آواز میں یہ بول بھی دہراتے رھتے تھے-

”ھو چڑی ھوووو—-
تئیں میڈا سٹا بھنا , میں تیڈا گٹا بھنا
ھوچڑی ھوووو—- ”

یہ جنگلی چڑیاں بہت موٹی تازی ھوتی تھیں ، لوگ ان کا سالن بنا کر بڑے شوق سے کھاتے تھے- بڑی تعداد میں چڑیاں پکڑنے کے لیے کچھ لوگ جال بھی استعمال کرتے تھے- جال میں سو پچاس چڑیاں بھی لگ جاتی تھیں – اپنی ضرورت سےزائد چڑیاں ھمسایوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں –
چڑیوں کے چھوٹے موٹے غول (جھار) اب بھی شام سے پہلے واپس جاتے دکھائی دیتے ھیں – اب خدا جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ھوتا ھے——– رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 1 اپریل 2018-

میرا میانوالی

وقاراحمد ملک کےناول ”رات ، ریل اور ریستوراں” کی تعارفی تقریب میں


دو صحافی بیٹوں ، عصمت گل خٹک اور محمدافضل عاجز کے درمیان
30 مارچ 2018 , جناح ھال ، میانوالی

بشکریہ-منورعلی ملک- 1 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی ————————–
تقریبا 5 سال پہلے کی بات ھے میں حسب معمول سحری کے وقت اٹھا تو موبائیل فون پر ایک میسیج آیا- میسیج بھیجنے والے نے لکھا تھا

” نت دل کوں آھدا ھاں کل ماھی آسی —— آہ اباجی”

لکھنے والے کو میں نہیں جانتاتھا – نام لکھا ھؤاتھا ”شکیل امجد صادق” ——

ایک دکھی دل کی اس فریاد نے مجھے تڑپا دیا – فورا اس فون نمبر پہ رابطہ کر کے پوچھا تو شکیل نے کہا”سر، میرا نام شکیل امجد صادق ھے- اوکاڑہ کا رھنے والا ھوں ، گورنمنٹ کالج اوکاڑہ میں اردو کا پروفیسر ھوں- میرے اباجی جب سے فوت ھوئے ھیں ، مجھے چین نہیں آتا، رات بھر جاگتا اور اپنا دکھ لوگوں کے ساتھ شیئر کرتا رھتا ھوں – لالا عیسی خیلوی کی معرفت آپ کا فون نمبر ملا تو سوچا کہ آپ کے ساتھ بھی یہ دکھ شیئر کرلوں – آپ کی شاعری بچھڑے ھوئے لوگوں کی یادوں کو تازہ کرکے لوگوں کے دکھ بانٹتی ھے – شاید میر ے دکھ کا بھی کوئی علاج آپ کے پاس ھو”

یوں شکیل امجد صادق سے رابطہ ھؤا جو بحمدللہ تعالی آج تک قائم ھے – میں انہیں بٰیٹا کہتا ھوں – ملاقات نہیں ھوئی ، مگر رابطہ رھتا ھے-

عشق تو سب لوگ کرتے ھیں مگر شکیل کا عشق سب سے نرالا ھے- شکیل کو اپنے ابو سے عشق تھا ، اس کے ابو 6 ستمبر 2013 کو سحری کے وقت گلاب دیوی ھسپتال لاھور میں دنیا سے رخصت ھوگئے ، اب یہ عشق ایک زخم بن چکا ھے- دراصل یہ عشق دوطرفہ تھا ، باپ بیٹا ایک دوسرے کے عاشق بھی تھے، محبوب بھی ، بہترین دوست بھی- حقہ اور سگریٹ بھی مل کر پی لیتے تھے-

شکیل اردو اور پنجابی کے بہت اچھے شاعر بھی ھیں – ان کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ”دکھ دریا تے میں” حال ھی میں منظرعام پر آیا ھے- کتاب شکیل نے اپنے ابو کے نام سے منسوب کی ھے – کتاب کے تعارف میں اپنے والد کی وفات کا ذکر کرتے ھوئے بات یوں ختم کرتے ھیں –
ککڑا دھمی دیا سویلوں ڈتی ایئی بانگ
ماھیا ٹور بیٹھی آں میکوں پچھوں لگا ارمان

کتاب کی ایک غزل کے یہ دوشعردیکھیے –

سبز رتاں دے سائے وے ابا
مڑکے نہیئوں آئے وے ابا
سرسنگیت وی نال سی تیرے
فیرنئیں ماھیے گاءے وے ابا
——- رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک- 2 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی ————————عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —-

پانچ سات دن کی چھٹیاں کیسی گذریں ؟

یہ چھٹیاں مجبورا کرنا پڑیں – لیپ ٹاپ کے کی بورڈ Keyboard پر چائے گرگئی- لیپ ٹاپ کو شاید چائے اچھی نہیں لگتی، اس لیے بند ھو گیا – میانوالی کے ایک کاریگر سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا جی روپیہ 5000 لگے گا – لیپ ٹاپ کے ساتھ ایک اور کی بورڈ اور ماؤس لگا دیں گے – گذارہ چل جائےگا – یہ پتہ نہیں کب تک —- ویسے ھم آپ کو اس کی بجائے 21000 میں اسی سائز کا سیکنڈ ھینڈ لینووولیپ ٹاپ بھی دے سکتے ھیں – ھوگا سیکنڈ ھینڈ ، آگے آپ کی قسمت –

قسمت اتنی بری بھی نہ تھی – اس لیے میں نے ان سے معذرت کرلی اور لیپ ٹاپ لاھورمیں اپنے بیٹے پروفیسر ملک محمد اکرم علی کو بھجوا دیا – لاھور کا حفیظ سنٹر , لاھور تو کیا پور ے پاکستان کا سب سے بڑا الیکٹرانکس کا مرکز ھے – وھاں اکرم بیٹا کبھی کبھار جاتے رھتے ھیں – وھاں کے ایک ایکسپرٹ نے صرف 2000 میں اسی ماڈل کا کی بورڈ بھی لگا دیا ، کچھ مزید محنت کرکے لیپ ٹاپ کو نیا نکور بنا دیا – لیپ ٹاپ کی لاھور آمدورفت میرے تلہ گنگ کے عزیز طارق محمود اعوان نے ممکن بنائی ، وہ ڈائیووآفس لاھور میں ملازم ھیں –
ڈاکٹرحنیف نیازی کا ممنون ھوں کہ انہوں نے چند دن پہلے میری عدم حاضری کی وجہ ایک پوسٹ لکھ کر بتا دی تھی –
یہ تو تھی حاضری کی رپورٹ، باقی باتیں انشآءاللہ کل ھوں گی —— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 8 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی ————————

وقاراحمد ملک کے ناول ”رات ، ریل اور ریستوراں ” نے راولپنڈی میں اپنے قیام کی کچھ یادیں تازہ کردیں – ان دنوں کی کچھ داستان تو پچھلے سال چند پوسٹس میں لکھ چکا ھوں – کچھ اور باتیں وقار کا ناول پڑھتے ھوئے یاد آئیں – لکھنا چاھتا تھا ، مگر لیپ ٹاپ کا مسئلہ بن گیا – یہ مسئلہ خیر سے حل ھو گیا تو آج سب سے پہلا کام یہی کررھا ھوں-
میری عمر اس وقت 16 سال تھی جب میں نے گارڈن کالج کی فرسٹ ائیر کلاس میں داخلہ لیا – پنڈی میں داخلہ اس لیے لیا کہ والد محترم وھاں ڈپٹی ڈائریکٹرسکولز تھے-

ھم کمیٹی چوک کے قریب مری روڈ پر عزیز جنرل سٹورکی بالائی منزل پر رھتے تھے- یہ کرائے کا مکان تھا ، اس کے ایک حصے میں مالک مکان راجہ فرخ عنایت رھتے تھے ، وہ میرے ھم عمر اوربہت اچھے دوست تھے- ھمارا کھانا ملازم چاچا جلال بناتے تھے – چاچا جلال کشمیری تھے- ان کا بیٹا امیر بھی میرا ھم عمر تھا – بالکل سیدھا سادا کھوتا سا لڑکا تھا، راجہ فرخ اور میں اکثر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے-

اس زمانے کا پنڈی بہت مختصر اور پرسکون شہر تھا- اسلام آباد کا ابھی نام و نشان بھی نہ تھا- بلکہ پنڈی اور مری کے درمیان ایک آدھ چھوٹے موٹے گاؤں کے علاوہ کوئی آبادی نہ تھی-
مری روڈ پر دن میں دوچاربسیں ، دوچارٹرک ، اور درجن بھر جانی پہچانی کاریں آتی جاتی دکھائی دیتی تھیں- تانگے بہت تھے- شام کے بعد تو مری روڈ تقریبا ویران ھو جاتی تھی- کمیٹی چوک کے مشرق میں کوئی آبادی نہ تھی- چک لالہ تک کھلا میدان ھؤا کرتا تھا- ھمارے گھر کے سامنے سے ظفرالحق روڈ نکل کر چک لالہ کو جاتی تھی-
بہت پر سکون دور تھا – سیاست ابھی پنڈی سے بہت دور تھی – لال حویلی والے شیخ رشید اس وقت تیسری چوتھی کلاس میں پڑھتے ھوں گے-
— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 9 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی ————————

والد صاحب ھفتے میں دو تین دن ڈویژن کے مختلف سکولوں کے معائنے کے لیے جایا کرتے تھے – پنڈی ڈویژن اس زمانے میں 6 اضلاع ( راولپنڈی، اٹک، جہلم، گجرات، سرگودھا، اور میانوالی ) پر مشتمل تھا- چکوال، خوشاب اور بھکر کو بہت عرصہ بعد میں ضلع کا درجہ دیا گیا-

والدصاحب کی عدم موجودگی میں ھم پنڈی کے مختلف سینماؤں میں فلمیں دیکھ لیا کرتے تھے- ھمارے مالک مکان دوست راجہ فرخ عنایت کو فلمیں دیکھنے کا شوق تھا- انہوں نے مجھے بھی اس شوق میں لگا دیا – شروع میں ایک آدھ بار ھم اپنے ملازم چاچا جلال کے بیٹے امیر عرف”میرا” کو بھی ساتھ لے گئے- مگر وہ کم بخت فلم کے دوران سو جاتا تھا ، اس کے خراٹوں سے تنگ آکر ھم نے اسے ساتھ لے جانا چھوڑ دیا-
میں نے زندگی میں جو پہلی فلم دیکھی وہ اسلم پرویز اور مسرت نذیر کی پنجابی فلم ”پینگاں ” تھی- ھم نے یہ فلم فوارہ چوک کے روز سینما میں دیکھی تھی- اس وقت فلمیں بلیک اینڈ وائیٹ ھوتی تھیں – کلر فلمیں کچھ عرصہ بعد آنی شروع ھوئیں – فلموں کی کہانی اور ایکشن حقیقتوں پر مبنی ھوتا تھا – لڑائی مارکٹائی کا صرف ایک آدھ منظر ھوتا تھا- لڑائی بھی ڈانگ سوٹے تک محدود رھتی تھی- کوئی زخمی بھی نہیں ھوتا تھا، ایک دو منٹ کی لڑائی کے بعد فریقین گھروں میں جاکر ٹکوریں کرلیتے تھے- آج کی فلموں کی طرح یوں نہیں ھوتا تھا کہ اکیلا خالی ھاتھ ھیرو کلاشنکوفوں سے مسلح دس مخالفین کو مارمار کر ان کی لاشیں بچھا دے- دوتین سینماؤں پر انڈین فلمیں بھی لگتی تھیں – ھم وہ بھی بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے– ان میں بھی مارکٹائی مکوں تھپڑوں اور جوتوں تک محدود رھتی تھی- سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس زمانے میں انڈین فلموں کی ھیروئنیں لباس بھی مکمل پہنتی تھیں – فلموں کا کچھ ذکر انشآءاللہ کل —————— رھے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک- 10 اپریل 2018-

میرا میانوالی

—————–ذرا سوچیئے ————————– !!!

قصور میں معصوم بچی زینب کے بہیمانہ قتل کا ھولناک واقعہ اس قسم کا آخری واقعہ نہیں تھا- قانون تو اتنا بے بس ھے کہ زینب کا قاتل بھی سزائے موت کا حکم جاری ھونے کے بعد ابھی تک زندہ ھے-

اس قسم کے المناک واقعات ملک بھر میں روزانہ ھو رھے ھیں – کل چیچہ وطنی میں ایک معصوم بچی کو زیادتی کے بعد زندہ جلا دیا گیا-
اس قسم کے سانحوں کو روکنے کی ذمہ داری ھم سب پر عائد ھوتی ھے- خدارا اپنے بچوں پر نظر رکھیں – نوجوان اپنے دوستوں کو ایسے رجحانات سے روکنے کی کوشش کریں – سوشل میڈیا پہ کام کرنے والے لوگ اس موضوع پر پورا زورقلم صرف کریں –
اللہ بے حساب اجر عطا فرمائے ھمارے ساتھی ظفرنیازی کو، وہ اس موضوع پر بہت مؤثر اندازمیں لکھتے رھتے ھیں – بلکہ انہوں نے تو اس فرض کی یاددھانی کے لیے زینب کی پکچر کو اپنی فیس بک کا کور فوٹو بھی بنائے رکھا- اس اچھی مثال کو سامنے رکھ کر تمام اھل قلم اس کار خیر میں حصہ ڈالیں – کم ازکم میری اس پوسٹ کو تو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں –
والدین ، ٹیچرز، سٹوڈنٹس، علمائے کرام ، سب ایسے المناک واقعات کو روکنے کی حتی الوسع کوشش کرکے اپنے بچوں بہنوں بھائیوں کو ایسے المیوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں –
—————————————– رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 10 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی ————————

پنڈی میں اس زمانے میں9 سینما تھے – تین صدر میں چھ شہر میں- صدر کے سینماؤں پر انگلش فلمیں چلتی تھیں ، شہر کے تین سینماؤں پر پاکستانی ، تین پر انڈین – تب انڈین فلموں پر پاکستان میں پابندی نہیں تھی- پاکستان انڈیا دونوں جگہ اچھی فلمیں بنتی تھیں – کہانی میں مارکٹائی ، ڈانس اور رومانی مناظر کا مسالہ بہت کم ھوتا تھا – آج کل تو کہانی کی بجائے صرف مسالہ ھی چلتا ھے-
دونوں طرف لیجنڈ اداکار ھوتے تھے – انڈیا میں مقبول ترین ھیرو دلیپ کمار، راج کپور اور دیوانند تھے- ھیرؤینیں مادھوبالا، نرگس ، مینا کماری نمی وغیرہ- پاکستان میں ھیرو، ھیروئن کی مقبول ترین جوڑی سنتوش کمار (اصل نام سید موسی رضا) اور صبیحہ خانم کی جوڑی تھی- سدھیرالمعروف لالہ (اصل نام نورزمان) بھی بہت مقبول تھے- اس زمانے کی بہت سی مقبول فلموں ( سرفروش ، یکے والی وغیرہ ) میں ھیرو سدھیر ھی تھے- مسرت نذیر اور اسلم پرویز بھی اس زمانے کی مقبول ترین جوڑی تھے-

فلموں کی موسیقی بھی بہت اعلی ھوتی تھی- انڈیا میں نوشاد، خیام ، انیل بسواس۔ او پی نئیر اور ایس ڈی برمن جیسے بلند پایہ موسیقار تھے تو ھمارے ھاں فیروز نظامی، بابا جی اے چشتی ۔ رشید عطرے ، خواجہ خورشید انور بھی ان سے کم نہیں تھے-

مرد گلوکاروں میں انڈیا میں محمد رفیع ، طلعت محمود اور مکیش عروج پر تھے – ھمارے ھاں ان کے برابر کی مردانہ آواز تو نہ تھی ، تاھم اچھی دھنوں کی وجہ سے سلیم رضا ، عنایت حسین بھٹی اور منیر حسین کے گائے ھوئے گیت بہت مقبول ھوئے-
خواتین گلوکاراؤں میں انڈیا سے لتا منگیشکر، شمشاد بیگم اور آشا سر فہرست تھیں – ھمارے ھاں ملکہءترنم نورجہاں ، زبیدہ خانم اور کوثر پروین –
فلموں کے حوالے سے وہ دور برصغیر کی فلمی صنعت کا سنہری دور تھا –
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
———– رھے نام اللہ کا —————-
( 1950/ 1960 میں پاکستان کے مقبول ترین فلمی ھیرو سید موسی رضا المعروف سنتوش کمار )-بشکریہ-منورعلی ملک- 11 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی ———————–

میں نے چاچا فقیرا سے کہا —–” چاچا، اب ھم پنڈی سے پکے پکے داؤدخیل چلے جائیں گے- میرے والد صاحب ملازمت سے ریٹائر ھو گئے ھیں -”
چاچا فقیرا کی آنکھیں بھیگ گئیں – آہ بھر کر بولے ” چلو، رب بھلی کرے گا – جتھے رھووخوش رھوو— پر ، ملک جی , سانوں بھل نہ جانڑاں”

آپ لوگ گواہ رھیں میں تقریبا 60 سال بعد چاچا فقیرا کو آج تک نہیں بھولا – چاچا فقیرا موچی تھے- ھمارے گھر کے سامنے مری روڈ کے کنارے بیٹھ کردن بھر جوتوں کی مرمت کاکام کرتے تھے-
تقریبا ساٹھ پینسٹھ سال عمر، سیاہ رنگت ، چھ فٹ کے قریب قد ، دبلے پتلے ، لمبی سیاہ مونچھیں ، گلے میں منکوں کی مالا، یہ تھے ھمارے چاچا فقیرا-
چاچا فقیرا ظفرالحق روڈ پر کوڑھی ھسپتال کے قریب ایک جھگی میں رھتے تھے- تن تنہا – نہ کوئی آگے نہ پیچھے , سارادن مری روڈ کے کنارے کام میں مصروف رھتے – دوچارلوگ جوتے پالش کروالیتے، دوتین ٹوٹے ھوئے جوتوں کی مرمت کاکام مل جاتا – بس یہ تھا چاچا فقیرا کا ذریعہءمعاش-

جب کبھی میرے والد صاحب دوتین دن کے لیے سکولوں کے دورے پر چلے جاتے تو ھر شام راجہ فرخ عنایت کے کمرے میں ھم لوگ ( میں ، راجہ فرخ عنایت اور ھمارا ملازم لڑکا میرا) چاچا فقیرا کے ساتھ محفل لگایا کرتے تھے- بہت درد بھری آؤاز تھی چاچا فقیراکی – اک تارا (پکچر میں دیکھ لیں ) بھی خوب بجا لیتے تھے- یہ اک تارا ھی ان کا جیون ساتھی تھا – چاچا فقیرا مشہور لوک داستان ”مرزاصاحباں” کے کچھ بول گا کر سناتے – پھر ھماری فرمائش پر کچھ پوٹھوھاری لوک گیت گاتے – کبھی مجھ سے کوئی فلمی گیت سن لیتے – آخر میں ماھیوں کا مقابلہ ھوتا، ایک ماھیا میں گاتا ، اس کا جوابی ماھیا چاچا فقیرا – یہ سلسلہ خاصی دیر چلتا رھتا – درمیان میں چائے کے ایک دو دور بھی چلتے – چاچا فقیرا اس زمانے کا سب سے سستا سگریٹ ”ٹیلیگراف” بھی بہت پیتے تھے- اس سگریٹ کو عام لوگ ”تار” کہتے تھے-

ھم پنڈی چھوڑ کر آگئے – چاچا فقیرا تو یہ دنیا بھی چھوڑ گئے ھوں گے – پتہ نہیں کب اور کیسے – اللہ انہیں اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے ، ناقابل فراموش انسان تھے— غریب ، مگر سراپا محبت – !!!!!!
—————————————— رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 12 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیانوالی / میرا داؤدخیل ————————-

مرحوم ظفر خان نیازی نے کہا تھا ——————————

میں اپنے گاؤں لوٹا تو وھی منظر پرانا تھا
کئی لوگوں سے ملنا تھا کئی قبروں پہ جانا تھا

کل داؤدخیل پہنچا ھوں – گھر میں کچھ تعمیراتی کام کروانا ھے- فی الحال تو کئی لوگوں سے ملنا ھے- قبروں کا نمبر بعد میں آئے گا- سارا شہر جو اپنا ھے ، ملنے جلنے میں بھی کئی دن لگیں گے-

کل شام کے قریب معروف ماھرتعلیم ملک غلام عباس کے ھاں، امیرے خیل قبیلے کے خلیل خان ، ظفراللہ جمالی ، نعمت اللہ خان ، نصراللہ خان ، اور خدرخیل قبیلے کے محمدامیرخان سے ملاقات ھوئی- صرف خلیل خان کو بہت عرصہ پہلے دیکھا ھؤا تھا – باقی نوجوانوں سے کل ھی تعارف ھؤا – خاندانی حوالے سے سب پہلے ھی مجھے جانتے تھے- ظفراللہ جمالی سے فیس بک پر بھی رابطہ کچھ عرصہ سے چل رھا تھا- یہ سب پڑھے لکھے نوجوان ھیں – ادبی ذوق نے ان کو ایک لڑی میں پرو رکھاھے- کہتے تھے اپ کے ساتھ مشاعرہ کی ایک محفل منعقد کرنا چاھتے ھیں — میں نے کہا دوچار دن تو مجھے تعمیراتی کام کے لیے مستریوں سے مذاکرات اور ان کے مطالبات کی تکمیل میں لگ جائیں گے- اس کے بعد مشاعرہ بھی کرلیں گے-

یہ نوجوان تو میرے لیے نووارد تھے ، مگر ھر ایک کے بزرگوں کومیں اتنا اچھی طرح جانتا ھوں کہ جیسے ھم سب ایک ھی گھر کے فردھیں – اللہ سب کو سلامت رکھے- بہت اچھی مجلس رھی ان کے ساتھ –
————————————– رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک-15 اپریل 2018-

میرا میانوالی

اپنے شعری مجموعہ ”جوتم سے کہہ نہ سکا” میں سے
جناب حسین ء کا آخری خطاب ———

کیا ھؤا تین دن کا پیاسا ھوں
شاہ کونین کا نواسا ھوں

شیر پیاسا بھی شیر ھوتا ھے
بلکہ زیادہ دلیر ھوتا ھے

میری طاقت ، دعا نبی کی ھے
یہ جوتلوار ھے، علی کی ھے

جس میں ھمت ھو سامنے آئے
اپنے ھی خون میں نہا جائے

بشکریہ-منورعلی ملک- 20 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———————-

میں نے آج سے 43 سال پہلے داؤدخیل چھوڑا تھا – ھمیشہ کے لیے نہیں ، ملازمت کی وجہ سے مجبوری تھی- پانچ سال گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں رھا ، 22 سال گورنمنٹ کالج میانوالی میں – کبھی کبھار فیملی کے دکھ سکھ میں شرکت کے لیے ایک آدھ دن داؤدخیل میں گذارنے کا موقع ملا، مگر وہ مختصرساوقت بھی گھر میں بسر ھؤا- شہر میں اور کہیں آنا جانا ممکن نہ ھؤا –

کل شام سے ذرا پہلے اپنے کزن ملک اختر عباس علی کے ھاں سکندرآباد جانے کا اتفاق ھؤا- قدم قدم پر اپنے بچپن اور جوانی کی یادوں نے خوش آمدید کہا – لیکن فیملی ساتھ ھونے کی وجہ سے رک نہ سکا- بنک چوک کی طرف جاتے ھوئے چاچا موسی کمہارکی آوی ( برتن پکانے کی بھٹی) اس سے آگے سڑک کا وہ حصہ جسے شہر کے لوگ جھوک کہتے تھے- کچی سڑک کے عین درمیان میں ریت کا ایک بہت بڑا ٹبہ (ٹیلہ) محلہ امیرے خیل کے جنوبی سرے سے لے کر شمالی سرے تک پھیلا ھؤا ھوتا تھا- پورے شہر میں ریت اور کہیں بھی نظر نہیں آتی تھی- یہ ٹیلہ بس اللہ کی شان سمجھ لیں ، کائنات کا مالک جہاں جو چاھے بنا دے- جھوک بچوں کے لیے کھیل کا میدان بھی تھا- بہت سی حسین یادیں وابستہ تھیں اس ریت کے ایک ایک ذرے سے – اب وھاں سے پکی سڑک گذرتی ھے ، ریت کا نام ونشان بھی وھاں باقی نہیں رھا- جھوک کے آخر میں دائیں ھاتھ ماما حمیداللہ خان کا ھوٹل ھوتا تھا ، زندہ دلی میں ماما حمیداللہ اپنی مثال آپ تھے- بہت مقبول شخصیت تھے-
شمال کی طرف سڑک کے بائیں کنارے احسان کا ھوٹل ، کچھ آگے شاہنواز خان کی کریانہ کی دکان ، پھر نئی آبادی محلہ سالار میں گلشیر خان کا کلاتھ ھاؤس – اس کے سامنے جماعت اسلامی کے رھنما جہان خآن کی دکان – بنک چوک تک یہی دوچار دکانیں ھوتی تھیں ، مگر اب تو یہ سڑک مکمل بازار بن گئی ھے-
————————– رھے نام اللہ کا

بشکریہ-منورعلی ملک- 24 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——————–
داؤدخیل کی فیکٹریز میں سب سے خوبصورت اور صاف ستھری فیکٹری پنسلین فیکٹری تھی – سرخ انیٹوں سے بنی باوقار عمارت اور اس کے سامنے رنگارنگ پھولوں سے آراستہ باغیچہ , دورسے دیکھنے میں یوں لگتا تھا کہ یہ کسی کالج یا یونیورسٹی کی عمارت ھے-

پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ھوئے لوگ یہاں بھائیوں کی طرح مل جل کر کام کرتے تھے- ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ھوتے تھے- پنسلین کالونی ایک چھوٹا سا پرسکون ، محبت اور تعاون پر مبنی معاشرہ تھی – کئی لوگ اسی کالونی کی راہ سے اس دنیا میں وارد ھوئے ، بچپن یہیں گذارا، سکندرآباد ھاؤسنگ کالونی کے سکول میں تعلیم حاصل کی ، پھر اعلی تعلیم کے لیے بڑے شہروں میں چلے گئے- کچھ کو یہیں ملازمت مل گئی –
سرمایہ داری نظام کے ھاتھوں یہ فیکٹری یوں اجڑی کہ دوتین سال پہلے میں ادھر سے گذرا تو فیکٹری کی جگہ چٹیل میدان دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئیں- میں نے یہ تو سنا تھا کہ یہ فیکٹری بند ھوگئی ، لیکن یہ علم نہ تھا کہ اس کا تو نام و نشان بھی باقی نہ رھا – لالا عیسی خیلوی کسی زمانے میں ایک ماھیا گایا کرتا تھا –

انج برباد کیتائی ساکوں ڈیکھنڑں لوک آیا

پنسلین فیکٹری کی روح اسی ماھیےکی شکل میں اس ویرانے میں بین کرتی رھے گی –

تقریبا دوسال پہلے اس فیکٹری کے بارے میں مفصل پوسٹ لکھی تھی – وہ دکھ بھری کہانی دوبارہ نہیں لکھ سکتا –

فیکٹری کی زمین بک گئی تو لوگوں نے پلاٹ خرید کر وھاں گھر بنالیے ، کچھ گھر بن گئے ھیں کچھ بن رھے ھیں – پنسلین کالونی میں پتہ نہیں اب کون لوگ رھتے ھیں- ریٹائرڈ ملازمین یہاں سے گذرتے ھوں گے تو ان کے دل پر خدا جانے کیا گذرتی ھوگی-
—————————————- رھے نام اللہ کا ————————————
( پنسلین فیکٹری – اب اس عمارت کا نشان بھی باقی نہیں رھا )

بشکریہ-منورعلی ملک-25 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —————–

اللہ کا شکر ھے اب داؤدخیل میں غریبی نظر نہیں آتی – ایک زمانہ وہ تھا جب پورے شہر میں صرف درجن بھر دکانیں تھیں ، زیادہ تر دکانیں کریانے کی تھیں ، تین چار کپڑے کی – جوتے لینے کے لیے کالاباغ جانا پڑتا تھا-

تازہ سبزی کنؤوں پہ ملتی تھی – فروٹ کی کوئی دکان نہ تھی – کالاباغ کا ایک چاچا دوسرے چوتھے دن سر پہ فروٹ کا ٹوکرا اٹھا کر شہر کی گلیوں میں پھرا کرتا تھا- مٹی کے برتن کمہاروں کے ھاں ملتے تھے- جست اور ایلومینیم کے برتن سال میں دوچار دفعہ بنجارے ٹوکروں میں بھر کر لاتے تھے- سستے چینی کے نرتن بھی انہی سے ملتے تھے-
بجلی کے سامان کی ضرورت ھی نہ تھی ، کیونکہ شہر میں بجلی ھی نہیں تھی- پنکھے ، فریج ، ٹی وی ، بلب اور ٹیوب لائیٹ کا جھنجھٹ بھی نہیں ھوتا تھا-

شہر میں صرف ایک ھی ھوٹل تھا محلہ داؤخیل اور محلہ سالار کے سنگم پر یہ ھوٹل اپنے مالک کے نام پر مموں کا ھوٹل کہلاتا تھا- یہاں صرف چائے ھی ملتی تھی- بے فکرے نوجوان دن بھر وھاں گپ شپ لگاتے رھتے تھے- ریلوے سٹیشن پر دوتین ھوٹل تھے ، وھاں کھانا بھی ملتا تھا – سب سے زیادہ مشہور چاچا علی خان بہرام خیل کا ھوٹل تھا-

یہ تو تھا پچاس سال پہلے کے داؤدخیل کا قصہ – آج اللہ کے فضل سے شہر میں کم ازکم سوڈیڑھ سو دکانیں ھیں- ضروریات زندگی کی ھر چیز یہاں دستیاب ھے- شہر کی تقریبا ھر سڑک اور اھم گلی بازار بن چکی ھے-
————————————– رھے نام اللہ کا —

بشکریہ-منورعلی ملک- 26 اپریل 2018-

میرا میانوالی

یادیں ————— 2014


سکھیکی موٹروے انٹرچینج
جوس کی بوتل تو اکرم بیٹے کی ھے – ھم صرف چائے پیتے ھیں

بشکریہ-منورعلی ملک-27 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرا میانوالی میرا داؤدخیل ——————————

آج کی پوسٹ لکھتے وقت بڑی عجیب کیفیت میں ھوں – یہ کیفیت کل شام سے طاری ھے- ھنسنے اور رونے کے درمیان کی یہ کیفیت اس لیے طاری ھوئی کہ کل دن کا پچھلا پہر میں نے محلہ امیرے خیل کے اس گھر میں گذارا جس گھر میں میرا بچپن گذرا – یہ گھر میرے ماموں امیرقلم خان ، گلستان خان ، عطاءاللہ خان اور میری والدہءمحترمہ عالم خاتوں المعروف ”دیدے عالو ”کا گھر ھے- محترمہ عالم خاتوں میری امی کی منہ بولی بہن تھیں – ان کے بارے میں دو مفصل پوسٹس پچھلے سال لکھ چکا ھوں- میرا بچپن انہی کے سائے میں گذرا – میرے کردار میں جو دوچار اچھی باتیں ھیں ، یہ مجھے انہوں نے سکھائیں-

اب اس گھر میں ماموں امیرقلم خان کے صاحبزادے امان اللہ خان اور ظفراللہ خان اپنے اھل وعیال سمیت رھتے ھیں- میں معروف صحافی ضیاء نیازی کو صحتیابی پر مبارک باد دینے گیا تھا- میری خوش قسمتی کہ ضیاء نیازی کے والد امان اللہ خان اور ان کے بھائی ظفراللہ خان بھی وھاں موجود تھے- وہ اس گھر سے میری وابستگی کا سبب جانتے تھے- وھاں پہنچ کر میں ایک عجیب جذباتی کیفیت محسوس کرنے لگا ، جیسے میرا بچپن واپس لوٹ آیا ھو- میری اس کیفیت کو بھانپ کر امان اللہ نے کہا ” آئیں، اب اندر سے بھی دیکھ لیں اپنا گھر,

دھڑکتے دل اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ میں اس گھر میں داخل ھؤا – اب ماشاءاللہ یہ گھر عظیم الشان ماڈرن عمارتوًں کے ایک سلسلے پر مشتمل ھے- اندر جا کر یوں لگا جیسے لاھور یا اسلام آباد آپہنچا ھوں-

میں اس کمرے کے آثار تلاش کرنے لگا جہاں بیٹھ کر ھم لوگ کھاتے پیتے تھے- اب اس کمرے کی جگہ وھاں ایک عالیشان بیڈروم ھے-

مشرق کی جانب کھلا صحن پرانے گھر کی واضح نشانی ھے – وھاں دو بزرگ خواتین بیٹھی تھیں – نہ میں انہیں پہچان سکا، نہ وہ مجھے- میں نے انہیں سلام کیا تو ضیاء نے میرا تعارف کرایا – میرا نام سن کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں ، پھر ان آنکھوں میں آنسو اترآئے – اپنا بھی یہی حال ھؤا- ان میں سے ایک خاتون نے میرا ھاتھ تھام کر کہا” منور ایں ؟؟؟ ”
ضیاء نے ان کاتعارف کرایا تو پتہ چلا دونوں میری بہنیں تھیں – اللہ انہیں سلامت اور اس گھر کو آباد رکھے،
یہ میرا بھی گھر ھے- اس گھر کے بزرگوں کی محبتوں کی خوشبو اور ان کی دعاؤں کے سائے مجھے اپنے چاروں طرف محسوس ھوتے رھے— عظیم لوگ تھے سب کے سب –
———– رھے نام اللہ کا ——-


( ضیاء نیازی اور ان کے والد محترم امان اللہ خان نیازی کے ھمراہ )-

بشکریہ-منورعلی ملک- 28 اپریل 2018-

میرا میانوالی

میرامیرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——————–

تین چار سال کا بچہ اس گھر میں داخل ھوتے ھی ,ککڑیاں آلی کوٹھی ,(مرغیوں کا کمرہ ) کا رخ کرتا – وہ بچہ میں تھا – گھر کے جنوب مشرقی کونے میں ایک کمرہ مرغیوں کے لیے وقف تھا – یہی کمرہ ,ککڑیاں آلی کوٹھی , کہلاتا تھا – اس کمرے میں بھوسے کا ایک ڈھیر گھر کی مرغیوں کا مسکن تھا – میں کمرے کا دروازہ کھول کر مرغیوں کے احتجاج کی پروا نہ کرتے ھوئے انہیں بھگا دیتا ، اور انڈے اٹھا کے دیدے جی کو لا دیتا – دیدے جی ان انڈوں کا بہت مزیدار حلوہ بناتی تھیں ، جو ھم دوپہر کے کھانے کے بعد کھاتے تھے- دوپہر کا کھانا تندور کی موٹی روٹیوں ، لسی اور ماما ممدایا (گلے ماء) کے گھر سے آئے ھوئے گائے کے تازہ مکھن پر مشتمل ھوتا تھا- کبھی خالص گھی ، لسی اور مسی روٹی ( چنے کے آٹے کی مسالے دار روٹی ) ھمارا دوپہر کا کھانا ھوتی تھی- دیدے جی نے صحن میں ایک درخت کے ساتھ رسیاں لٹکا کر میرے لیے پینگ بھی بنا دی تھی ، جس پر میں دن بھر جھولا جھولتا رھتا تھا-
گھر میں صرف دیدے جی اور ان کی امی رھتی تھیں – آس پاس سب رشتہ داروں کے گھر تھے ، وہ لوگ بھی آتے جاتے رھتے تھے- دیدے جی کے تینوں بھائی ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں مقیم تھے- سب سے بڑے بھائی حاجی امیر قلم خان نیازی ماڑی انڈس میں رھتے تھے- وہ اکثر آتے رھتے تھے- بہت پیار کرتے تھے مجھ سے – ایک دن ھنس کر کہنے لگے , اپنے گھر والوں کو جاکر بتا دو کہ تم ,مولوی خیل  ( ھمارے قبیلے کا نام ) نہیں بلکہ امیرے خیل ھو
دیدے جی نے کہا,یہ تو میں بہت پہلے اس کی امی کو بتا چکی ھوں ، اور اس نے کہہ دیا ھے ٹھیک ھے ، منور آپ لے لیں  ———- گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
——- رھے نام اللہ کا ————–

( امان اللہ خان نیازی، ان کے بھائی ظفر خان نیازی اور ان کے بھانجے طارق نیازی کے ساتھ -)

بشکریہ-منورعلی ملک- 29 اپریل 2018-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top