MERA MIANWALI   OCTOBER 2023

منورعلی ملک کے  اکتوبر 2023کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پکچر دیکھ کر
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔
اختر اقبال شاہ ضلع میانوالی کے ماہرین تعلیم میں ایک ممتاز نام، ہمارے بہت مہربان دوست تھے ۔ ان سے میرا تعارف بہت عرصہ پہلے میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی نے کرایا تھا۔ بھائی جان اور اختر اقبال شاہ ہم منصب تھے۔ بھائی جان داودخیل ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے ، شاہ صاحب ہائی سکول جنڈانوالہ میں۔ صرف ہم منصب ہی نہیں یہ دونوں شخصیات آپس میں بے تکلف دوست بھی تھے۔
اختر اقبال شاہ صاحب بہت اچھے ٹیچر بھی تھے اور بہت کامیاب سکول ایڈمنسٹریٹر بھی۔ جب وہ کالاباغ ہائی سکول میں ہیڈماسٹر تھے اس زمانے میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ بہت دلچسپ گفتگو ہوتی تھی ہماری۔ اس دور کی بہت سی خوبصورت یادیں ان سے وابستہ ہیں ۔ان کے دور میں کالاباغ سکول ڈسپلن اور تعلیم کے لحاظ سے ضلع بھر میں نمایاں رہا۔ اختر اقبال شاہ صاحب نے سکول کے نظام میں بہت سی اصلاحات کر کے اسے ایک مثالی ادارہ بنا دیا۔
شاہ صاحب بہت سمارٹ اور دلنشیں شخصیت تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد شاہ صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے وابستہ ہو کر اپنے صاحبزادے کے ہاں اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ چند سال قبل کسی کام کے سلسلے میں مجھ سے ملنے میانوالی تشریف لائے۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی ۔ اس کے کچھ دن بعد اچانک خبر ملی کہ شاہ صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Muhammad Aqil Khan

سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
Not all but a few
Displayed themselves in the rose and the
tulip.
What shapes the dust hides,
One cannot descry?
His revered Father Shair Muhammed Shah was a macrocosm in his microcosm.

Karam Hussain

A legend and committed educationist.i passed my Grade 8,9,10th exam under his supervision during his tenure at GHS Kala Bagh,one of the best school of that era.The glittering stars sir Muhammad Ashraf khan Sir Muhammad Afzal Khan and Sir Ghulam Rasool sb laid foundation of that inspirational institution.

Tariq Khan Niazi

ھر وقت چاک و چوبند ۔۔۔۔جس وقت بھی دیکھا بلکل فریش بوٹیڈ سوٹیڈ۔۔۔۔بہت زبردست ھیڈ ماسٹر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔١  اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نے “ایک آرزو” کے عنوان سے نظم میں کہا تھا
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
بچپن میں سکول کی کتاب میں یہ نظم پڑھتے ہوئے مجھے داودخیل میں زبروخیلاں آلا ڈیرہ یاد آجاتا تھا۔
داودخیل شہر سے تقریبا 2 کلومیٹر مشرق میں پہاڑ کے دامن میں زبرو خیل قبیلہ کا ایک گھر ہوا کرتا تھا جسے زبروخیلاں آلا ڈیرہ کہتے تھے۔ قبیلے کے باقی لوگ تو شہر کے محلہ علاول خیل میں رہتے تھے ، پہاڑ کے دامن میں یہ گھر شاہ جہان خان المعروف سجھان زبرو خیل کا گھر تھا۔ یہ گھر شاہ جہان خان کی آبائی زمین میں واقع تھا۔
شاہ جہان خان داودخیل کی ایک تاریخی شخصیت تھے۔ نواب کالاباغ کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔
آبادی سے کوسوں دور سنگلاخ پہاڑ کے دامن میں ان کا قیام کچھ عجیب سی بات تھی۔ لوگ کہتے تھے دیرینہ خاندانی عداوتوں کی وجہ سے شاہ جہان خان نے یہاں رہائش اختیار کی تھی۔ ہماری زبان میں کہتے ہیں نہ کتا ڈیکھسی تے نہ بھونکسی (نہ دشمن دیکھے گا نہ وار کر سکے گا)۔ اسی اصول کے تحت شاہ جہان خان نے ویرانے کو مسکن بنا لیا۔ وہاں نہ کوئی اور آبادی تھی ، نہ دکان۔ ضرورت کی ہر چیز شہر سے خریدنی پڑتی تھی۔ پینے کا پانی بھی دستیاب نہ تھا۔ خواتین ریلوے لائین کراس کر کے گھنڑیاں والے کھوہ (کنوئیں) سے گھڑے اور جھجر بھر کر بیل یا گدھے پر لاد کر لے جاتی تھیں۔ زندگی کا یہ سادہ اور مشکل انداز بھی خاصا رومانٹک تھا۔ بچپن میں ہم بھی کہا کرتے تھے کاش چاچا شاہجہان کی طرح ہمارا گھر بھی پہاڑ کے دامن میں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔2 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت ہی نہیں ملتا۔۔۔۔۔
جنازے میں شمولیت، مرحوم کے لواحقین سے تعزیت ، بیمار کی عیادت کا رواج بھی آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا ہے۔ اب اس قسم کی تمام سماجی ذمہ داریاں فون پر کال یا میسیج کے ذریعے بھگتا دی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا ، مل بیٹھنا اب نہیں ہوتا۔ اس لییے آپس میں محبت اور تعاون کی وہ پہلی سی فضا اب نظر نہیں آتی ۔ کال اور میسیج کے فوائد اپنی جگہ، مگر مل بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ لوگ دوستوں رشتہ داروں کے ہاں آتے جاتے ، کھاتے پیتے ، ہنستے ہنساتے ، اپنے اپنے مسائل پر مشاورت کرتے ، روزمرہ ضرورت کی چیزوں کا لین دین کیا کرتے تھے۔ اب یہ سب اچھے رواج قصہ ماضی بن گئے۔ لوگ چلنے پھرنے کی بجائے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ میل ملاقات کی بجائے فون پر رابطے سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مہمانوں کی آمدورفت، استقبال اور وداع کا ایک اپنا لُطف تھا۔ اب دوستوں رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں مگر کسی کے جنازے میں شمولیت ، مرحوم کے اہل خانہ سے تعزیت یا بیمار کی عیادت کے لیئے وقت نہیں نکال سکتے۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔3 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محلہ امیرے خیل میں اوٹھیوں ( اونٹوں والوں) کے دو گھر ہوا کرتے تھے۔ ایک گھر کے سربراہ کا نام چاچا علی یار تھا دوسرے گھر کے سربراہ کا نام چاچا عبداللہ۔ چاچا عبداللہ کا ایک بازو اونٹ نے چبا کر انہیں ایک بازو سے محروم کردیا تھا۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو چاچا عبداللہ کا ایک ہی بازو دیکھا۔ چاچا علی یار کو تو ایک اونٹ نے جان سے ہی مار دیا۔
اونٹ ویسے تو فرشتہ کہلاتا ہے لیکن اتنا زیادہ فرشتہ بھی نہیں ہوتا ، اگر اس پر تشدد کیا جائے تو موقع محل دیکھ کر عبرتناک انتقام ضرور لیتا ہے ۔ چاچا عبداللہ اور علی یار بھی اس انتقام کا نشانہ بنے ۔ ایک کا بازو گیا ، دوسرے کی جان۔
داودخیل میں اونٹوں سے دو کام لیئے جاتے تھے۔ ایک تو صبح سویرے منہ اندھیرے پہاڑ سے پتھر لاد کر لانے کا کام۔ دوسرا شادی بیاہ کے موقع پر خواتین کی سواری کاکام۔ بارات میں مرد تو پیدل چلتے تھے، مگر خواتین اونٹوں پر سوار ہو کر جاتی تھیں۔۔ دلہن کی کار کاکام بھی اونٹ سے لیا جاتا تھا۔ اس موقع پر اوٹھی اونٹوں کو اون کے بنے ہوئے رنگ برنگے ہاروں ، پیتل کی ٹلیو ں (گھنٹیوں ) اور گھنگھرووں سے سجایا کرتے تھے۔ جب اونٹ چلتے تو گھنٹیوں کی ٹن ٹن اور گھنگھرووں کی چھن چھن ایک دلکش سماں باندھ دیتی۔ تھی۔
بارات کے آگے ڈھول شہنائیوں کا شور، پیچھے اونٹوں پر سوار خواتین بلند آوازمیں شادی کے گیت الاپتی ہنستی ہنساتی ، اور اس سب ہلا گلا کے درمیان اونٹوں کی ٹلیوں اور گھنگھرووں کا سریلا شور۔۔۔۔ بارات کا منظر دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم سرما کے لیئے تیاریوں کا آغاز بستروں کی دھلائی اور بھرائی سے ہوتا تھا۔ رضائیوں، لحافوں اور تلایئوں میں سے کپاس نکال کر اسے صفائی اور دھلائی کے لیئے پینجے کے سپرد کر دیا جاتا تھا۔ ہمارے محلے میں چاچا سلطان احمد یہ کام کرتے تھے۔ پینجا وائلن یا ستار جیسا ایک سادہ سا میکنزم ہوتا تھا جس کے تاروں کی حرکت سے روئی دھنی جاتی تھی۔ اس کی مخصوص آواز “تک تک تھیں ، تک تک تھیں” دور دور تک سنائی دیتی تھی۔
روئی کو دھنائی کے بعد لحافوں، رضائیوں اور تلایئوں کے کور cover میں بھر کر موٹے دھاگے سے مخصوص قسم کی سلائی کر دی جاتی تھی۔
بعض بزرگ خواتین پینجے پر پیسہ ضائع کرنے کی بجائے سارا کام اپنے ہاتھوں سے کردیتی تھیں۔ روئی کو کپڑے دھونے کے ڈنڈے ( ڈمنھڑیں) سے مار پیٹ کر دھنائی کرنے کے بعد بھرائی اور سلائی کا کام بھی خود ہی کر دیتی تھیں۔ سارے گھر کے بستروں کی پنجائی ، بھرائی اور سلائی کے عمل میں پندرہ بیس دن لگ جاتے تھے۔
آج کل پینجے کاکام مشینوں سے کیا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو فوم والی رضائیاں اور گدے آگئے ہیں جنھیں کھولے بغیر ہی دھو لیا جاتا ہے ۔ لیکن بستروں کی دھلائی اور بھرائی کے عمل میں گھروں میں جو رونق لگتی تھی وہ اب کہاں۔.!
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔5 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سردیوں کی آمد پر ہم گھر کے جنوبی حصے کے دو کمروں سے شمالی حصے کے ایک ہال نما بڑے کمرے میں منتقل ہو جاتے تھے۔ تبدیلی کا یہ عمل ہم بچہ لوگوں کے لیئے ایک سرپرایئز ہوتا تھا۔ اس موسم میں کسی دن سکول سے واپس آکر اچانک دیکھتے کہ کھانے پینے ، بیٹھنے سونے کا سارا بندوبست گھر کے شمالی حصے میں منتقل ہو چکا ہے۔

اپریل کے آخر میں یہ سب ساز و سامان واپس گھر کے جنوبی حصے میں شفٹ ہو جاتا تھا جہاں ہم گرمی کا موسم گذارتے تھے۔
موسم کے مطابق رہائش کی تبدیلی کا یہ نظام ہماری امی کی ایجاد تھا۔ جب تک وہ اس دنیا میں موجود رہیں یہی نظام چلتا رہا۔
سردیوں والا بڑا کمرہ اندر سے کچی اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔اس لیئے وہاں سردی کا اثر خاصا کم ہوتا تھا۔ اس کمرے میں چونا سفیدی کی بجائے سرخ مٹی کا لیپ دیا ہوا تھا۔ فرش پر بھی سرخ مٹی کا لیپ کیا ہوا تھا۔۔ یہ خصوصی بندوبست اس لیئے کیا گیا تھا کہ اس کمرے میں آگ جلائی جاتی تھی۔ لئی کی لکڑیوں کی آگ سر شام سے آدھی رات تک جلتی رہتی تھی۔ آگ تاپنے کا ایک اپنا لطف تھا جو اب خواب و خیال میں بھی نہیں ملتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔6 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح مرغی اپنے بچوں کو چیل کے حملے سے بچانے کے لیئے اپنے پروں تلے چھپا لیتی ہے اسی طرح ہماری امی بھی ہمیں سردی سے بچانے کے لیئے آگ والے کمرے میں بند کیئے رکھتی تھیں۔۔ سردی سے اس لیئے اتنی ڈرتی تھیں کہ میرے دو بہن بھائی ایک ڈیڑھ برس کی عمر میں سردی لگنے سے نمونیہ میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئے تھے۔ ( بھائی کا نام منور اور بہن کا نام زینب تھا۔ بعد میں میں اس دنیا میں وارد ہوا تو میرا نام بھی منور رکھ دیا گیا۔ جو بھائی فوت ہوا اس کا نام منور حسین تھا ، میرا نام منورعلی مقرر ہوا )۔
ان دو بچوں کی موت کا غم امی کبھی نہ بھلا سکیں ۔ اس لیئے ہم بقیہ بہن بھائیوں کو سردی سے بچانے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی۔ شام کے بعد کمرے سے باہرقدم رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ پیشاب کے لیئے برتن کمرے کے ایک کونے میں الگ رکھا ہوتا تھا۔
کمرے میں شام سے آدھی رات تک آگ دھڑا دھڑ جلتی رہتی تھی۔ ہم لوگ آگ کے گرد چٹائیوں پر بیٹھ کر ہاتھ پاوں سینکتے رہتے تھے۔ کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے۔ ہم میں سے کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کا بستر آگ کے قریب چٹائی پر بچھا دیا جاتا۔ اس کے سر کی طرف امی اپنا بستر بچھا کر رات بھر دعائیں پڑھتی رہتی تھیں ۔ بیمار بچہ پانی مانگتا تو چھری آگ میں گرم سرخ کر کے پانی میں ڈبو کر نیم گرم پانی پلایا جاتا تھا۔ کہتے تھے نیم گرم پانی ہر بیماری کا علاج ہے۔
صبح ہمیں سکول روانہ کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کتنی ظالم حکومت ہے، تین مہینے کی چھٹیاں گرمی کی بجائے سردی کے موسم میں کر دیں تو کون سی قیامت آجائے گی ۔ خواہ مخواہ سردی کے عذاب میں بچارے معصوم بچوں کو کھلی ہوا میں پھراتے رہتے ہیں ۔ کبھی بارش ہو جاتی تو یہ کہہ کر ہمیں سکول جانے سے روک دیتی تھیں کہ تعلیم کے لیئے تو ساری عمر پڑی ہے۔ تم دو چار دن سکول نہ جاو تو آسمان نہیں گر پڑے گا۔۔۔۔۔۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔7 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں کی دھوپ بھی رب کریم کی ایک خاص نعمت ہے۔ یہ نہ صرف سردی کے اثرات کو کم کرتی ہے بلکہ جسم کو وٹامن D کی صورت میں توانائی بھی مہیا کرتی ہے۔
شہروں میں تو مکانات کی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان میں دھوپ داخل ہی نہیں ہو سکتی۔ کھڑکیوں کے شیشوں میں سے جو تھوڑی بہت دھوپ آتی ہے وہ صرف روشنی ہی فراہم کرتی ہے۔ حرارت اور توانائی کا اس میں نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔
دیہات کی کھلی فضا میں دھوپ گھروں کے اندر اور باہر ہر جگہ فراوانی سے دستیاب ہوتی ہے۔ گھروں کے وسیع و عریض صحن میں بھی دن بھر دھوپ رہتی ہے۔
سخت سردی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھنا بھی ایک اچھی خاصی عیاشی ہے۔ اس سے جسم کو راحت اور روح کو سکون ملتا ہے۔
ہماری چونک پر بزرگوں کی محفل بھی سردیوں میں دھوپ میں سجتی تھی۔ طلوع آفتاب سے دوپہر تک ہمارے علاقے میں ٹھنڈی یخ ہوا چلتی تھی جسے جابہ کہتے تھے۔ جابے کی مار سے بچنے کے لیئے لوگ دیوار کی آڑ میں بیٹھتے تھے۔ اس قسم کی آڑ اوہلہ کہلاتی تھی۔
دیہات میں زیادہ تر لوگ دن بھر فارغ رہتے تھے اس لیئے وہ اوہلے میں بیٹھ کر دھوپ خوب انجوائے enjoy کرتے تھے۔ اب تو موبائل فون نے زندگی کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ کیا شہر کیا دیہات ، لوگ دن بھر فون سے چھیڑ چھاڑ میں مشغول رہتے ہیں۔ موبائل فون کے بھرپور استعمال کے لیئے سایہ ضروری ہے۔ اس لیے دھوپ میں بیٹھنے کا رواج بھی اب آخری سانس لے رہا ہے۔ صرف موبائل کے استعمال سے ناآشنا بزرگ ہی دھوپ کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ باقی لوگ اللہ کی اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔8 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی غزل۔۔۔۔۔۔
8 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں کی اپنی سو فی صد سچی سائنس ہوتی تھی۔ کہا کرتے تھے سردیوں میں جسم کی توانائی میں اضافے اور سردی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیئے میٹھی چیزیں زیادہ کھانی چاہئیں۔ کچھ اور نہ بن سکے تو صرف گُڑ کھا لینے سے بھی یہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اسی لیئے جو لوگ پانی کی وارہ بندی کے تحت رات کے پچھلے پہر گھر سے نکلتے تھے گُڑ کی دو چار روڑیاں جیب میں ڈال کر لے جاتے تھے۔
گھروں میں کئی قسم کے میٹھے پکوان بنتے تھے۔ موسم سرما میں بارش کی جھڑیوں کے دوران ایک مخصوص قسم کا حلوہ بنتا تھا جسے کرکنڑاں کہتے تھے۔ گڑ اور گھی کی پت(شیرہ) بنا کر اس میں سوجی یا آٹا ڈال کر دوچارمنٹ آگ پر پکانے سے کرکنڑاں تیار ہو جاتا تھا۔ یہ زیادہ تر تازہ گرما گرم ہی کھا لیا جاتا تھا کیونکہ ٹھنڈا ہوکر یہ پتھر کی طرح سخت ہو جاتا تھا، پھر اسے توے پر گھی میں تل کر ہی کھایا جاسکتا تھا کہ اس طرح یہ کچھ نرم ہو جاتا تھا۔
جو لوگ گھروں میں کرکنڑاں بناتے تھے مذاق میں کہا کرتے تھے ” اج جھڑی تتی پئے کرینے ہاں” مطلب آج بارش میں گرمی کا مزا لے رہے ہیں ۔
کرکنڑاں بہت لذیذ چیز تھی۔ کرکنڑاں کھا لینے سے سردی بہت کم لگتی تھی۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔9 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زمانہ تھا۔۔۔۔!
دیہات کی چٹی ان پڑھ خواتین ایسے ایسے لذیذ کھانے بناتی تھیں کہ کھانے سے جی ہی نہیں بھرتا تھا۔ صرف گُڑ، آٹا اور گھی سے جو پکوان بنتے تھے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :
1۔ میٹھا پراٹھا
2۔میٹھی وشلی
3۔ روٹ
4۔ سادہ حلوہ
5۔ مکھڈی حلوہ جسے دودھی والا حلوہ بھی کہتے تھے
6۔ وسننڑں ۔۔۔ یہ ایک مخصوص قسم کا حلوہ ہوتا تھا جس میں گھی کی بجائے مکھن ڈالتے تھے۔
7۔ کرکنڑاں۔۔۔۔ کل کی پوسٹ میں اس کا مفصل تعارف لکھا تھا
8۔ چوری
9۔ لیٹی ۔۔۔۔۔ گندم کے بھونے ہوئے دانوں کے آٹے سے بنا ہوا پتلا حلوہ۔
10۔ غڑوبا ۔۔۔۔۔ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا حلوہ
11۔ گھی شکر کے ساتھ روٹی اس زمانے کی فاسٹ فوڈ ہوا کرتی تھی۔
گُڑ، گھی اور آٹے سے ایک دو اور چیزیں بھی بنتی تھیں۔ فی الحال ان کے نام یاد نہیں آرہے۔
یہ تمام چیزیں آج بھی بن سکتی ہیں مگر وہ گھر کا خالص گھی، کیمیائی اثرات سے پاک گندم اور شہد جیسا میٹھا سرخ پشاوری گڑ اور شکر آج دستیاب نہیں۔ دیسی گھی ، گڑ اور آٹا جو بازار سے ملتا ہے اس میں اصل چیزوں والا ذائقہ کہاں ۔ یہ چیزیں بنانے والے ہاتھ بھی تہہ خاک پنہاں ہوگئے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔10 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے شہر میں گائے کا گوشت ہفتے میں دو دن اور بکرے کا گوشت ہفتے میں ایک دن بنتا تھا۔ ہمارے گھر میں بکرے کا گوشت ہی چلتا تھا۔ اس دور میں آج کل والے مکروہ ٹیڈی بکرے نہیں ہوتے تھے بلکہ پہاڑی نسل کے اونچے لمبے بکرے ہوتے تھے۔ ان کا صاف ستھرا صحتمند گوشت بہت لذیذ ہوتا تھا۔
گوشت چونکہ ہفتے میں صرف تین دن ملتا تھا اور اسے محفوظ رکھنے کے لییے فریج اور فریزر بھی دستیاب نہ تھے اس لیئے ہفتے میں چار پانچ دن لوگ دال سبزی پر گذارہ چلا لیتے تھے۔
دال زیادہ تر مونگ اور چنے کی چلتی تھی۔
سردیوں کی سبزیاں ، شلجم، گوبھی، پالک، مولی، گاجر، مٹر کنووں پر دستیاب ہوتے تھے۔ داودخیل میں سبزی کی کوئی دکان نہ تھی۔
سرسوں کی کونپلوں کا ساگ (گندلاں دا ساگ) بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔
مٹی کی کٹوی( ہانڈی) میں لکڑیوں کی آگ پر خالص دیسی گھی میں بنا ہوا ہر سالن بہت لذیذ ہوتا تھا۔
اکثر گھروں میں سالن صرف شام کے کھانے کے لیئے بنتا تھا ۔ دوپہر کا کھانا زیادہ تر گھی سے چوپڑی ہوئی روٹی اور نمکین لسی پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ہمارے گھر میں دو وقت سالن بنتا تھا۔ مگر میں دوپہر کو مکھن اور شکر کے ساتھ روٹی کھایا کرتا تھا۔ یا کوئی اور میٹھی چیز بنوا لیتا تھا۔
گذر گیا وہ زمانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔

Ahmad Nawaz Niazi

سر آپ بھی مٹھی چیزوں پہ گرتے تھے۔ میرے شہر میں ایک چاچا چاندی رام ہو گزرے ہیں۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ ایک کا نام کھنڈی جبکہ دوسری کا شکراں تھا۔ ان کے اپنے صاحبزادے کے بقول: ” ابا حضور مٹھی چیزوں پہ جان دیتے تھے۔”
چلے گئے وہ مٹھے لوگ اور مصری جیسی سنگتیں،
ککھ سواد نہ مصری اندر تے کھنڈاں وی چکھ ڈٹھیاں
اناں ساریاں چیزاں نالوں گلاں ماہی دیاں مٹھیاں
۔

11 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Salaam Everybody,

Today Mianwali has lost a richly talented young folk singer Sharafat Tarikhelvi in a road accident near Wan Bhachran as his car suddenly skidded and fell into Mohajir Branch of Thal canal.
Sharafat was widely popular because of his melodious voice and expert handling of music.
His death is widely and deeply mourned across and beyond the district.
The 7 victims of the accident included Sharaft’s brother and 5 others. May all the departed souls rest in Eternal Peace.
کل من علیہا فان
ارمان تاں لگدا ئے۔۔۔۔۔۔۔۔
میانوالی کے بہت مقبول و معروف نوجوان گلوکار شرافت علی تری خیلوی اور ان کے بھائی انوار علی گذشتہ رات ایک پروگرام سے واپسی پر ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان کی گاڑی پکہ گھنجیرہ کے قریب نہر میں گر گئی جس کے نتیجے میں گاڑی میں موجود تمام افراد جاں بحق ھو گئے۔ رب کریم ان تمام افراد کی مغفرت فرما کر ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔12 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شدید سردی میں ہوا میں موجود پانی کے قطرے برف بن کر زمین پر گرتے تو یوں لگتا جیسے زمین نے سفید چادر اوڑھ لی ہے۔ شبنم کے ان منجمد قطروں کو “چنی” یا “چٹا” کہتے تھے۔ شدید سردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے “اج کل چنی پونی پئی اے” ۔

بچہ لوگ اس شدید سردی سے بھی کچھ نہ کچھ فائدہ کشید کر لیتے تھے۔ پرچ یا پلیٹ میں گڑ کا شربت ڈال کر شام کو کھلی ہوا میں رکھ دیتے تھے۔ صبح تک وہ شربت سردی سے منجمد ہوکر برف بن جاتا تھا۔ قدرت کی بنائی ہوئی اس آئس کریم کو “کنگھر” کہا کرتے تھے۔
شدید سردی میں صبح سویرے یہ آئس کریم کھانے پر مائیں بہت شور مچایا کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔ ” وے موذی ، نہ کھا اے گند، بیمار تھی ویسیں۔ جو ہن توں بیمار تھیوئیں تاں مردا مرونجیں میں بھا وی نہ لسائیں”۔
ان دھمکیوں پر عمل کبھی نہ ہوتا۔ بچے کو چھینک بھی آتی تو بسم اللہ، بسم اللہ کہہ کر ماں اسے سینے سے لگا لیتی۔ جب تک بچہ مکمل صحت یاب نہ ہوجاتا ماں دواوں اور دعاوں کی سپلائی جاری رکھتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔13 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنشن اور سروس رولز میں بے رحم ترامیم کے خلاف سرکاری ملازمین کئی دن سے احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج ان کا آئینی حق ہے۔ ایسی صورت حال میں احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کر کے مسائل حل کیئے جاتے ہیں۔ مگر حکومت، بالخصوص پنجاب حکومت نے جو سخت رویہ اپنایا ہے یہ ہر لحاظ سے نامناسب ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ اساتذہء کرام کو بھی حوالات اور جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔
حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ عوام کے منتخب نمائندے نہیں۔ آپ کو تو قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کر کے صرف چند ماہ کے لیئے کرسی پر بٹھادیا گیا ہے۔ آپ کا کام الیکشن تک روزمرہ کے معمولات نمٹانا ہے۔ قوانین اور قواعد و ضوابط میں ترمیم آپ کا مینڈیٹ نہیں۔ ایسے تمام امور آنے والی منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آپ ان معاملات میں گردن نہ پھنسائیں۔ ملازمین سے فی الفور مذاکرات کر کے پنشن اور سروس رولز میں غیر منصفانہ ترامیم واپس لی جائیں ۔ تمام گرفتار ملازمین کو فی الفور رہا کیا جائے ورنہ حالات آپ کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
معیشت کو سنوارنے کےلیئے سرکاری ملازمین کی پنشن اور دوسرے واجبات میں کٹوتیاں کرنے کی بجائے حکومت کو اپنے شاہانہ اخراجات کم کر نے چاہیئں۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔14اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا اللہ رحم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک فلسطینی بچی اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر بیٹھی 57 اسلامی ممالک کی غیرت جاگنے کا انتظار کر رہی ہے ۔

15اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبول و محبوب گلوکار شرافت علی خان کی ناگہاں وفات پر دکھ اور محبت کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ شرافت کی موت کا دکھ ہر سطح پر محسوس کیا گیا۔
لیکن کیا اتنا ہی کافی ہے۔؟
سب لوگ جانتے ہیں کہ شرافت کا واحد ذریعہ معاش اس کا فن تھا۔ اسی کی آمدنی سے اس کے گھر کا نظام چل رہا تھا۔ وہ سلسلہ تو موت نے ختم کردیا۔ شرافت سرکاری ملازم تو تھا نہیں کہ اس کی موت کے بعد بھی پنشن کی رقم سے اس کے گھر کا خرچ چلتا رہے ۔
اس صورت حال میں اس کے بے سہارا بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھنا بہت بڑا کار خیر ہو گا۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ضلع کے تمام سنگرز اور فن کے قدردان لوگ شرافت کے سٹوڈیو/ چینل سے تعاون کریں تاکہ اس طرح حاصل ہونے والی آمدنی سے شرافت کے اہل خانہ کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔
یہ پوسٹ پڑھ کر صرف “ٹھیک ہے” کہہ دینا کافی نہیں۔ جہاں تک اور جس طرح ہو سکے شرافت کے بچوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Muhammad Rafi Awan

محترم جناب منور علی ملک صاحب اللہ پاک آپ کو صحت والی زندگی عطا فرمائے آپ کی اس سوچ کو سلام اور دعا ھے کہ اللہ پاک ھم سب کو آپ کے اس مشورے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صاحب حیثیت لوگوں کو ان کے بچوں کی کفالت کرنے کی توفیق دے باقی اللہ پاک سب سےبڑا اور بہترین موسبب اسباب ھے اللہ پاک سب پر اپنا کرم اور رحمت نازل فرمائے آمین ثمہ آمین

Bahadur Janjua

استاد مکرم ! ایک حقیقی اور سلگتے معاملے کی طرف توجہ دلانے کا بہت شکریہ ۔ مرحوم کے ورثاء کی امداد کی جو تجویز آپ نے قارئین کی نظر کی ہے یقینا وہ ایک عملی مشورہ ہے ۔ لیکن اس موضوع پر کچھ سوالات بھی جنم لیتے ہیں
پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شو سے لاکھوں کمانے والے شرافت نے خود برے وقت کیلئے کیا کچھ پس انداز کیا تھا ۔ شاید کچھ بھی نہیں۔ جس قبیل کے لوگ خود کی اولادوں کیلئے کچھ سنبھال کر نہیں رکھتے کیا اسی شعبہ کے دوسرے لوگ انکی اولادوں کیلئے کیا کچھ کر سکتے ہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاست آگے کیوں نہیں آتی ؟ اس کا بھی ایک سادہ جواب ہے کہ آپ نے اپنی آمدنی میں سے ریاست کو کتنا ٹیکس ادا کیا تھا ؟؟؟ اس کا جواب بھی سب کو معلوم ہے ۔
شوبز کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ان کے ہاں آئی چلائی کا رواج ہے ۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ جنہوں نے ہزاروں فنکاروں کے انٹرویوز کئے ہیں ، ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ ملک خداداد کے اندر شوبز میں سٹیج اور موسیقی کی دنیا میں سالانہ لاکھوں کمانے والے لوگوں میں گنتی کے دو تین افراد ہیں جن کے پاس اپنا گھر ہے باقی کے پاس آئے مہمان کو بٹھانے کی جگہ تو کیا کرسی بھی نہیں ہے ۔ اس میں سب سے بڑا قصور خود انہیں لوگوں کا ہے ۔ میں 80 اور 90 کی دہائی کے ایسے فنکاروں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جن پر نچھاور کئے گئے نوٹ بوکر اور بوہاری کی مدد سے اکٹھے کر کے بوریوں میں بھرے جاتے تھے ، آج انکی اولادیں لوگوں کے گھروں میں بوکر اور بوہاری لگاتی ہیں جبکہ اسی دور کا عطاء اللہ عیسی خیلوی جو اپنی فنکار برادری سے لیکر شاعروں ، موسیقاروں اور دوست احباب کے درمیان کنجوس کے طور پر مشہور رہا اسکی اولاد دنیا کے بہترین اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر عملی زندگی میں بہت کامیاب ہے ۔ استاد مکرم ! اس فرق کی بنیاد آپ سے زیادہ بھلا کون جانتا اور سمجھتا ہے ۔ اس قبیلے کے لوگوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جوکہ انکے لئے بہوں اوکھا کم اے
اللہ تعالٰی شرافت علی کے خاندان کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

Sabir Atta Thhaheem

شاندار تجویز۔
ہمارے شہر کے نوجوان قاضی جہانگیر صاحب کا ملتان میں شاندار سٹوڈیو کے نام سے آڈیو ریکارڈنگ سٹوڈیو ہے جسے بیش تر گلوکار ان جانتے بھی ہیں ۔
کل میں ان کے پاس تھا انہوں نے اعلان کیا ہے کو گلوکار شرافت سٹوڈیو کو گانے ڈونیٹ کرے گا وہ گانے ان کے سٹوڈیو میں مفت ریکارڈ کرسکتا ہے ۔
میں قاضی جہانگیر عالم صاحب کا رابطہ نمبر مینشن کر رہا ہوں
0300 8763690
قاضی جہانگیر عالم صاحب

Zeeshan Bin Munshi Manzoor

انکل آپ کی بات درست، والد صاحب کی وفات کے بعد ایک شخص نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کے لیے ایک پروگرام کروں گا مگر وعدہ وفا نہ ہو سکا، لیکن میں یہ چیز بخوبی سمجھتا ہوں اسی لیے، میں سلطان منظور کا اگلا گیت جو ان شاء اللہ اگلے ماہ تک مکمل ہو جاۓ گا شرافت بھائ کے سٹوڈیو کے لیے بھجوا دوں گا براہ کرم مجھے رابطہ نمبر انبکس کر دیں۔۔۔16 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسموں کے مزاج برہم ہیں
کسی زمانے میں موسموں کی تبدیلی بتدریج ہوا کرتی تھی۔ گرمی سے سردی کے موسم میں داخل ہونے میں کچھ وقت لگتا تھا۔ پہلے دھوپ کی شدت میں آہستہ آہستہ کمی آتی تھی۔ پھر ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی تھیں۔ نومبر کے وسط سے سردی کا باقاعدہ آغاز ہوتا تھا۔ خالی چادروں کی بجائے گدے تلائیاں لحاف اور رضائیاں اوڑھنا بچھونا بن جاتی تھیں۔ رات کو آگ اور دن کو دھوپ تاپنے کا عمل شروع ہو جاتا تھا۔ وسط نومبر سے وسط جنوری کے درمیان لگاتار ہلکی بارش کی دوچار جھڑیاں بھی لگتی تھیں۔
پھر وسط فروری سے موسم آہستہ آہستہ کروٹ بدلنے لگتا ۔دھوپ میں حرارت بڑھنے اور ہوا میں ٹھنڈک کم ہونے لگتی تھی۔ پھر بھی گرمی کا اصل موسم شروع ہونے میں تقریبا دو ماہ لگ جاتے تھے۔
اب تو موسم کسی پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک نازل ہوتے ہیں ۔ ابھی چار دن پہلے تک اے سی اور پنکھے کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ پھر اچانک کہیں سے بادل نمودار ہوگئے ہلکی سی بارش ہوئی اور گرمی کی جگہ سردی نے سنبھال لی۔ اب اے سی تو کجا، پنکھا بھی زہر لگتا ہے۔
موسم کی اچانک تبدیلی کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ موسموں کی شدت بہت بڑھ گئی ہے۔ گرمی سردی دونوں ناقابل برداشت حد تک شدید ہوتی ہیں۔
پہلے تو ایسا نہیں تھا۔ موسم مہربان ہوا کرتے تھے۔ نہ حد سے زیادہ گرمی پڑتی تھی نہ شدید سردی۔
اب تو یہی حال انسانوں کے مزاج کا بھی ہو گیا ہے۔ والہانہ محبت کو شدید نفرت میں بدلنے میں ایک منٹ بھی دیر نہیں لگتی۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل و غارت۔ رشتوں میں محبت کی بجائے نفرت کا زہر پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ خبر نہیں ۔۔۔۔انجام گلستاں کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔17 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے علاقے میں کہا کرتے تھے۔۔
بھاء منگنڑں آئی ہائی تے گھر دی سینڑں بنڑں بیٹھی اے
(آگ مانگنے آئی تھی اور خود کو گھر کا مالک سمجھنے لگی)
آگ مانگنے کا چکر یہ تھا کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ماچس خریدنا بھی افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ چولہے کے وسط میں ایک آدھ فٹ گہرا ہاتھ جتنی چوڑائی کا گڑھا کھود کر شام کو جلائی ہوئی آگ کے چند دہکتے ہوئے انگارے اس میں ڈال دیتے اور اوپر راکھ کی پتلی سی تہ جما دیتے تھے۔ انگارے بجھنے کی بجائے صبح تک سلگتے رہتے تھے۔ صبح ناشتہ بناتے وقت ان انگاروں کو نکال کر ان کے اوپر خشک گھاس یا تنکے وغیرہ ڈال کر دوچار پھونکیں مارنے سے آگ بھڑک اٹھتی تھی۔
جن گھروں میں یہ اہتمام نہ ہو سکتا ان گھروں کی خواتین ہمسایوں کے گھروں سے ایک آدھ انگارہ مٹی کی پلیٹ میں ڈال کر لے آتی تھیں اور اس سے اپنے چولہے میں آگ جلا لیتی تھیں۔
غریبی کا اندازہ کیجیئے کہ لوگ ماچس بھی نہیں خرید سکتے تھے، لیکن کھانے پینے کو گھر میں اللہ کا دیا خالص گھی ، دودھ، دہی، مکھن ، آٹا، دال ، سبزی ، گڑ وغیرہ سب کچھ موجود ہوتا تھا اس لیئے لوگ بے فکر ، اپنی سادہ زندگی پر مطمئن اور خوش رہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔19 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولیوا۔۔۔۔ ایک اچھی روایت

دیہات میں روزمرہ ضرورت کی چیزیں ہمسایوں سے مانگنے اور دینے کو ولیوا کہتے تھے۔ دودھ، دہی، مرغی، انڈہ وغیرہ بیچنے کا رواج نہ تھا۔ بوقت ضرورت دائیں بائیں طرف کے گھروں سے یہ چیزیں مانگ لی جاتی تھیں۔ انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آٹا اور گھی بھی ناپ تول کر لے لیا جاتا تھا اور بعد میں اتنی ہی مقدار میں واپس دے دیا جاتا تھا۔
کسی گھر میں کوئی فوت ہو جاتا تو ایک دو دن تک اس گھرمیں کھانا ہمسائے فراہم کر دیتے تھے۔
شادی بیاہ کے موقع پر مہمانوں کے لیئے چارپائیاں اور بستر بھی ساتھ والے گھروں سے مانگ لیئے جاتے تھے۔ مہمان زیادہ ہوتے تو کچھ مہمانوں کے قیام و طعام کا بندوبست ہمسائے اور رشتہ دار اپنے ہاں کر دیتے تھے۔
اس رواج کی وجہ سے لوگ آپس میں جڑے رہتے تھے۔
خلوص محبت اور تعاون کی یہ فضا دیہات میں کسی حد تک شاید اب بھی برقرار ہو، شہروں میں تو نفسا نفسی کا عالم ہے۔ البتہ دیہات سے شہروں میں منتقل ہونے والے کچھ لوگ اب بھی یہ روایت نبھا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔20 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Awais Kazmi

سر یہ وقت میں نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے ، جب پورے محلے میں سب سے پہلے ہمارے گھر فرج آیا تھا۔ پورے محلے کے لوگ ہمارے گھر ایک آدھی پلیٹ سالن رکھوا جاتے تھے یا برف مانگ لیتے تھے۔ فرج سے پہلے تو کبھی کھانا محفوظ کرنے کا رواج ہی نہ تھا، حالانکہ کہ آپ اندازہ لگائیں کہ اُس وقت کی خواتین کو ایک وقت کی ہانڈی روٹی کرنے کے لئے پھونکنی سے لڑکیاں جلانی پڑتی اور ہر دفعہ کھانے پکانے کو لکڑیوں کا دھواں کھانا پڑتا ، برتن مانجھ کر اُن کے نیچے مٹی کا لیپ کرنا پڑتا، دھوپ میں چارپائی کھڑی کر کے ، اُس کی آڑ میں بیٹھ کر کھانا اور روٹیاں بنانی پڑتی حالانکہ شام تین چار بجے کی دھوپ میں بھی بے تحاشا گرمی ہوتی ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم نے کبھی اُس وقت کی ماؤں کے ماتھے پر نہ کبھی کوئی تیور دیکھا نہ کبھی گِلہ سُنا ۔ جبکہ آجکل کی خواتین کو ایک بٹن گھما کر گیس پر کھانا پکانے کی سہولت موجود ہے پھر بھی ہر کام کے لئے علیحدہ نوکرانی چاہیئے ہوتی ہے ۔اُس وقت جب مہمانوں کے لئے سالن بنتا تو ایک ایک پلیٹ تمام ہمسایوں کے گھر بھی بھیجی جاتی ۔ ویسے بھی تمام لوگوں کا ضرورت سے زائد سالن پورے محلے میں تقسیم کر دینا معمول تھا۔ بچوں کو گھر میں پکی چیز پر اعتراض ہوتا تو مائیں کہہ دیتیں جاؤ پوچھ کر آؤ کہ اگر خالہ (ہمسائی) نے کچھ بنایا ہے تو ایک پلیٹ دے دیں۔اکثر محلے کے بچے ایک دوسرے کے گھر کھانے کے وقت موجود ہوتے تو اُنکو کھانا کھلا کر گھر بھیجا جاتا۔ اگر کسی کے گھر قیمہ یا پھلوں کا جوس نکالنے والی مشین ہوتی تو وہ سارے محلے کے گھر حسب ضرورت مانگ کر لے جاتے ۔ کسی کے گھر دوسرے شہر سے آئے رشتہ داروں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی جاتی۔ آٹا نہ ہونے یا کم ہونے پر ایک دو وقت کا آٹا ساتھ والوں سے مانگ لیا جاتا۔ اگر کسی بھی بچے کو کوئی بڑا غلط حرکت کرتے دیکھتا تو وہیں مار پڑ جاتی اور ماں باپ کبھی نہیں پوچھتے تھے کہ آپنے ہمارے بچے کو کیوں مارا۔ اُس وقت کے ہمسائے ایسے ہوتے جیسے وہ آپکے رشتہ دار ہوں ۔ اُس وقت کی جو جو فیملیز ہمارے گھروں کے پاس رہتیں اب بھی اگر وہ مل جائیں تو اُن سے رشتہ داروں والا تعلق سامنے آتا ہے ، جبکہ موجودہ دور کے ہمسائے بھی اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانیوں کی کتابیں پڑھنا بچپن سے ہی میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جب میں تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو ہمارے ہمسائے چاچا محمد اولیا دکان دار نے ایک دن مجھ سے کہا۔ بیٹا، میرے پاس کہانیوں کی ایک زبردست کتاب آئی ہے۔ میں خود تو اردو پڑھ نہیں سکتا اس لیئے میں چاہتا ہوں تم روزانہ شام کے بعد ہمارے گھر آکر ہمیں ایک ایک کہانی پڑھ کر سنا دیا کرو۔ اس کام کا انعام تمہیں دس کھٹی میٹھی گولیاں روزانہ ملیں گی۔
کیا زبردست سودا تھا۔ کہانیاں پڑھنے کا موقع بھی ساتھ دس کھٹی میٹھی گولیاں انعام بھی۔ میں نے یہ پیشکش فورا قبول کر لی اور ہر شام چاچا اولیا کے ہاں حاضری دینے لگا۔
الف لیلہ نام کی بھاری بھرکم بڑے سائیز کی کتاب تھی۔ اس میں چالیس پچاس لمبی لمبی بہت دلچسپ کہانیاں تھیں۔ سند باد جہازی کے سفروں کی سات کہانیاں ، الہ دین اور اس کے چراغ کی کہانی، علی بابا اور چالیس چوروں کی کہانی، ایسی ہی اور بھی بہت سی کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں میں جنوں بھوتوں کا بھی بہت ذکر تھا۔
شام کے بعد چاچا اولیا اور ان کی فیملی چولہے کے گرد چٹائیوں پر بیٹھ جاتے اور میں چارپائی پر بیٹھ کر بلند آواز میں کہانی پڑھ کر سنا دیتا تھا ۔ بہت دلچسپ محفل ہوتی تھی۔ محفل کے آغاز میں ہی چاچا اولیا حسب وعدہ دس کھٹی میٹھی گولیاں میری جیب میں ڈال دیتے تھے ۔
کیا سادہ لوگ اور کیسا سہانا دور تھا۔۔۔۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔21 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1950-1960 کےدوران داودخیل میں چار کارخانوں کا قیام داودخیل کی معیشت اور ثقافت ( کلچر ) میں بہت بڑے انقلاب کا سبب بنا۔ ان فیکٹریز میں ملازمتیں ملنے سے لوگ معاشی لحاظ سے خوشحال ہو گئے۔
فیکٹریز میں ملازمت کے سلسلے میں شہروں سےلوگ یہاں آنے لگے تو بول چال ، رسم و رواج اور طرز زندگی میں بھی شہری تہذیب کے اثرات نمایاں ہونے لگے۔
فیکٹریز کے ملازمین کی رہائش کے لیئے وسیع و عریض سکندرآباد ہاؤسنگ کالونی کا سنگ بنیاد 22 فروری 1958 کو اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل ر سکندرمرزا نے رکھا۔
جدید طرز کی اس ہاؤسنگ کالونی میں رہائشی کوارٹرز اور بنگلوں کے علاوہ ہائی سکول ، جامع مسجد اور ہسپتال کی عمارات بھی تعمیر ہوئیں۔ سکول اور ہسپتال کے درمیان ایک مارکیٹ بھی تعمیر ہوئی جہاں روزمرہ ضرورت کی چیزیں مناسب داموں میں ملنے لگیں۔
اس کالونی سے وابستہ یادیں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان فیکٹریز کے سابق ملازمین کے دلوں میں آباد ہیں ۔ وہ بچے جو اس کالونی میں پیدا ہوئے اور یہیں پرورش کے مراحل طے کرتے ہوئے ملک کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوگئے وہ آج بھی اس کالونی کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ یہاں گذارے ہوئے دنوں کو یاد کرکے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ داودخیل کے لوگوں سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر ان میں سے بعض لوگ کبھی کبھار خوشی غمی کے موقع پر یہاں آتے بھی رہتے ہیں۔ کالونی کے درودیوار کو حسرت سے دیکھتے ہوئے ، پرانے ہمسایوں اور دوستوں کو یاد کرکے ان کی آنکھیں بار بار بھیگ جاتی ہیں۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔23 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیدل چلنے کا اب تو رواج ہی نہیں رہا۔ گلی کے موڑ تک جانے کے لیئےبھی لوگ موٹر سائیکل نکال لیتے ہیں۔ ایک آدھ کلو میٹر فاصلے کے لیئے گاڑی یا رکشا استعمال کرتے ہیں۔ اس آرام طلبی کے نتیجے میں اکثر لوگ شوگر ، بلڈ پریشر اور دل کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پیدل چلنا ایسی ورزش ہے جس سے دوران خون، ہاضمے کا نظام، سانس لینے کا نظام ، سب کچھ نارمل رہتا ہے۔
ہمارے بچپن کے دور میں پانچ سات کلومیٹر چلنا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ جب میں آٹھویں کلاس کا امتحان دے کر فارغ ہوا تو روزانہ گھر سے چار پانچ کلومیٹر پیدل چل کر دس ہزار والے نہر کے پل پر اپنے دوست محمد صدیق خان بہرام خیل سے ملنے کے لیئے جایا کرتا تھا۔ صدیق خان اس پل پر ملازم تھے۔ وہاں ہم دن بھر تاش کھیلا کرتے تھے۔
جب میں داودخیل ہائی سکول میں انگلش ٹیچر تھا تو اپنے ساتھیوں غلام مرتضی خان انگلش ٹیچر اور غلام سرور خان نیازی ڈرائنگ ماسٹر کے ساتھ کبھی سکندرآباد کبھی جناح بیراج تک پیدل آنا جانا ہمارا روزمرہ کا معمول تھا۔ داودخیل شہر سے ان دونوں مقامات تک آنے جانے کا فاصلہ سات آٹھ کلومیٹر بنتا ہے۔
ایک دفعہ تو مرتضی خان کی تجویز پر ہم پیدل ماڑی شہر سے بھی ہو آئے۔ (آنے جانے کا فاصلہ 9+9 = 18 میل) ۔ پھر بھی ذرا سی تھکاوٹ بھی محسوس نہ ہوئی ، حالانکہ غلام سرور خان نیازی اور میں ٹھیک ٹھاک سموکر بھی تھے۔ چلتے چلتے پانچ سات سگریٹ بھی پھونک دیتے تھے۔
جب میں گارڈن کالج راولپنڈی میں سٹوڈنٹ تھا اس زمانے میں اپنے روزانہ پیدل چلنے کی داستان کچھ دن پہلے لکھ چکا ہوں۔ وہ بھی روزانہ پانچ سات کلومیٹر کی واک ہوتی تھی۔
پیدل چلنے کی اس پرانی عادت کی وجہ سے بحمداللہ اس عمر میں بھی صحت برقرار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔24 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1970 تک گھروں میں کھانا دیسی گھی میں بنتا تھا۔ بناسپتی گھی ڈالڈا وغیرہ صرف غریب غربا لوگ استعمال کرتے تھے۔ وہ بھی اپنی غریبی کا بھرم رکھنے کے لیئے چھپ چھپا کر گھر میں لاتے تھے۔
خالص دیسی گھی اکثر لوگوں کے گھروں میں گائے یا بھینس کے دودھ دہی سے بنتا تھا۔ خوشبو اور ذائقے کے لحاظ سے زرد رنگ کا گاوا گھیو (گائے کے دودھ دہی سے بنا ہوا گھی) نمبر ون سمجھا جاتا تھا۔ دکانوں پر بھینس کے دودھ دہی کا خالص گھی بھی ملتا تھا۔ اس کی رنگت سفید ہوتی تھی۔ یہ زیادہ تر سرگودہا کے علاقے سے آتا تھا۔
ہمارے گھر میں 1975 تک خالص دیسی گھی استعمال ہوتا رہا۔ 1975 میں جب عیسی خیل کالج میں میرا تقرر ہوا تو وہاں دیسی گھی نایاب تھا۔ ایک دکان پر دیسی گھی سے ملتی جلتی چیز ترکی کا بنا ہوا مکھن کا تیل butter oil دستیاب تھا۔ ہم نے اسی کو غنیمت سمجھا۔ کچھ عرصہ بعد وہ بھی آنا بند ہو گیا تو ہم مجبورا خالص بناسپتی گھی ڈالڈا وغیرہ استعمال کرنے لگے۔
خالص دیسی گھی اب بھی تبرک کے طور پر گھر میں رکھتے ہیں ۔یہ صرف سویاں اور چوری وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔25 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بُک انتظامیہ کی ایک بہت اچھی بات یہ ہے کہ وہ روزانہ صبح میری اس تاریخ کی گذشتہ 8 سال کی پوسٹس مجھ سے شیئر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ماضی سے میرا تعلق برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں ۔
کل کی تاریخ کی پوسٹس پر نظر ڈالتے ہوئے 25 اکتوبر 2016 کی پوسٹ دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ پوسٹ میں نے حسن عباس صاحب کے ایک کمنٹ کے حوالے سے لکھی تھی۔ کمنٹ میں حسن عباس صاحب نے کہا تھا کہ میں آپ کی پوسٹس کا مستقل قاری ہوں۔ مگر یکم سے 22 اکتوبر تک آپ کی پوسٹس نہ دیکھ سکا کیونکہ میرے والد محترم بیمار تھے۔ شفا ان کے نصیب میں نہ تھی اس لییے 22 اکتوبر کو رب کریم نے انہیں واپس بلا لیا۔ آج میں نے یکم سے 22 اکتوبر تک کی آپ کی تمام پوسٹس پڑھی ہیں۔ اب تو آپ کی پوسٹس پڑھنا میری ایک جذباتی ضرورت بن گیا ہے کیونکہ والد محترم آپ کی پوسٹس کے بہت بڑے شیدائی تھے۔ روزانہ آپ کی پوسٹ پڑھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ آپ کو دعائیں دیتے تھے۔ بیماری کے ابتدائی دنوں میں بھی روزانہ آپ کی پوسٹ مجھ سے پڑھوا کر سنتے رہے۔
رب کریم حسن عباس کے والد محترم کو اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے ان کا احسان ہے کہ وہ میری تحریروں کی قدر کرتے تھے۔
اللہ کریم ایسے تمام مہربانوں کو سلامت رکھے میں ایسے ہی لوگوں کے لیئے روزانہ لکھتا ہوں۔ نہ لکھوں تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس لیئے روزانہ کچھ نہ کچھ لکھنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔26 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرغابیوں کے ساتھ ساتھ بٹیروں کی آمد کا بھی یہی موسم ہوتا تھا۔ بٹیر دراصل باجرے کی فصل میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیئے آتے تھے۔ اب تو بجلی کی چکا چوند روشنی کی وجہ سے ادھر کا رخ ہی نہیں کرتے۔ ان کی عدم حاضری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب باجرے کی کاشت ہمارے علاقے میں بہت کم ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں چاچا صالح محمد لوہار اور چاچا گھیبہ سنار بٹیروں کے مشہور شکاری تھے۔ وہ جال اور کرک کی مدد سے بٹیروں کا شکار کرتے تھے۔ کرک پنجروں میں بند پالتو بٹیروں کی ٹیم ہوتی تھی جو رات بھر اونچی آواز میں چاں چاں کرتی رہتی تھی۔ باہر سے آنے والے بٹیر ان ساتھیوں کی آواز سن کر ان سے ملنے کے لیئے آتے تو آگے لگے ہوئے جال میں پھنس جاتے تھے۔ شکار کے اس سسٹم کو “لاوا” کہتے تھے۔ شکار شہر سے باہر باجرے کے کھیتوں میں ہوتا تھا جہاں بٹیر صبح سویرے چرنے چگنے کے لیئے آتے تھے۔
لوگ بٹیروں کا گوشت کھانے کے لیئے چاچا صالح محمد اور چاچا گھیبہ سے بٹیر خریدتے تھے۔ بٹیری دو آنے کی اور بٹیرا چار آنے کا ملتا تھا ۔ آج کے حساب سے ایک روپے میں آٹھ بٹیریاں یا چار بٹیرے ملتے تھے۔ بٹیریاں بٹیروں سے قد کاٹھ اور وزن میں بڑی ہوتی تھیں پھر بھی ان کی قیمت بٹیروں سے خدا جانے کم کیوں ہوتی تھی۔
اب نہ وہ شکاری اس دنیا میں موجود ہیں ، نہ بٹیر ادھر آتے ہیں۔
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔27 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ اپنے گاوں سے باہر کم ہی جاتے تھے۔ دیہاتی علاقوں کے لوگ صرف سالہا سال سے لٹکے ہوئے زمین جائیداد کے مقدمات میں پیشی کے لیئے میانوالی جاتے تھے۔ ایسے مواقع پر کوئی دوست یا رشتہ دار جانے والے کی جیب میں کچھ پیسے ڈالتے ہوئے کہتا ” اے پیسے نپ، سفر اچ پیساں دی نہاموں لوڑ پو سگدی اے۔ جڈاں سوکھا ہوویں ولا ڈیویں”
(یہ پیسے پکڑو ، سفر میں پیسوں کی ضرورت کسی وقت بھی پیش آسکتی ہے۔ جب آسانی سے واپس کر سکو لوٹا دینا)۔
رشتہ دار اور پڑوسی خواتین اپنی اپنی فرمائشیں اور پیسے لے کر پہنچ جاتیں۔ کوئی کہتی” لالا، بلوڑی کنڑں پیلے رنگ دا شیفون دا سر آلا کپڑا آنڑڑاں اے”۔
(بھائی صاحب ، بچی کےلیئے پیلے رنگ کا شیفون کا دوپٹہ لانا ہے)۔
کوئی کہتی “ماما، چار کالیاں پاندریاں تے ہک لکڑی آلی کنگھی گھدی آویں”۔
(ماموں جان، چار کالے پراندے اور ایک لکڑی کی بنی ہوئی کنگھی لیتے آنا) ۔
اسی طرح گھریلو استعمال کی چھوٹی موٹی چیزوں کی پانچ سات فرمائشیں سفر پہ جانے والے کی ہمسفر ہوتی تھیں۔ ان فرمائشوں کی تکمیل فرض سمجھی جاتی تھی۔ آج کے دور میں اس قدر تعاون کہاں ہوتا ہے۔
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔28 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ٹیپ ریکارڈر کی پکچر دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
1970 سے 1985 تک تقریبا 15 سال ٹیپ ریکارڈر پہ لالاعیسی خیلوی اور منصورعلی ملنگی کی آواز میں گیت سننا نوجوان نسل کا من پسند شغل رہا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ٹیپ ریکارڈر کی ترویج اور سیل میں ان دو گلوکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جس بندے کی آواز سننے کے لیئے ہزاروں لوگوں نے ٹیپ ریکارڈر خریدے اس کے پاس 1978 تک اپنا ٹیپ ریکارڈر تھا ہی نہیں۔ اس وقت عیسی خیل کے مین بازار میں چھوٹا سا جنرل سٹور(الصدف) لالا کا اکلوتا ذریعہ معاش تھا۔ عیسی خیل جیسی سنسان جگہ پر جنرل سٹور کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ ٹیپ ریکارڈر خریدا جا سکتا۔ میرے دو سٹوڈنٹس مجیب الرحمن ہاشمی اور حفیظ خان کے پاس ٹیپ ریکارڈر تھے۔ میں ان سے باری باری ہفتہ بھر کے لیئے ٹیپ ریکارڈر منگوا لیتا تھا جس پر لالا ہر رات اپنی محفل ریکارڈ کر لیتا اور دن بھر جنرل سٹور پر رات کی کاروائی کی ریکارڈنگ سن سن کر اس میں ترمیم کی پلاننگ کرتا رہتا تھا۔ لالا کے پاس Sony, Sanyo اور Agfa کے تین پرانے کیسیٹ تھے۔ انہی پر بار بار ریکارڈنگ ہوتی رہی۔
1978 میں جب لالا کے گیتوں کے۔پہلے 4 والیوم رحمت گراموفون نامی ادارے نے جاری کیئے تو لالا کے گیت سننا نوجوان نسل کا craze بن گیا۔ چند ہی ماہ میں ان کیسیٹس سے اتنی آمدنی ہوئی کہ لالا نے ٹیپ ریکارڈر کے علاوہ ایک چھوٹی سی خوبصورت Nissan گاڑی بھی خرید لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔29 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں وہ تنہائی یاد آتی ہے
جب ہمیں جانتا نہ تھا کوئی
اس زمانے کی بات ہے جب لالا عیسی خیلوی کی گلوکاری اور شہرت گھر کی بیٹھک تک محدود تھی۔ ان محفلوں کی ریکارڈنگ کی اکا دکا کاپیاں عیسی خیل سے باہر کےکچھ لوگوں کے پاس بھی موجود تھیں ۔ عیسی خیل لاری اڈے سے بعض ڈرایئور حضرات کبھی کبھار لالا کی محفل میں آکر ایک آدھ کیسیٹ ریکارڈر کر لیتے تھے۔ یوں لالا کی آواز تو دور دور تک متعارف ہوگئی تھی مگر لالا کو ذاتی طور پر بہت کم لوگ جانتے تھے۔
ایک دن لالا میرے ہمراہ داودخیل آئے۔ ہم بس سے اترے تو دیکھا کہ نہر کے کنارے دو نوجوان ٹیپ ریکارڈر سے لالا کا کیسیٹ سن رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا یہ آواز کس کی ہے ؟ ان میں سے ایک نوجوان نے کہا جی عیسی خیل کا ایک بندہ ہے عطاءاللہ خان ، یہ آواز اسی کی ہے۔ بہت دکھی آواز ہے اس لئے ہمیں یہ آواز بہت پسند ہے۔
میں نے کہا کبھی عطاءاللہ کو دیکھا ہے؟ اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟
اس نوجوان نے کہا جی ایک دفعہ ایک شادی کے پروگرام میں دیکھا تھا۔ (لالا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس کی شکل کچھ کچھ ان بھائی صاحب سے ملتی جلتی ہے ۔
میں نے بتایا کہ یہی بھائی صاحب عطاءاللہ ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے ۔ لالا کے ہاتھ تھام کر لالا کی آواز کی تعریفیں کرتے رہے ۔ موبائل فون کا دور نہیں تھا ورنہ بہت سی سیلفیاں بھی ضرور بناتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔

Tanveer Shahid Muhammad Zai

❤️لالا جی کی آدھی سے بھی کم ابتدائی زندگی کا احوال جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے وہ قابلِ صد تحسین ہے لیکن زندگی کے اس موڑ پر اپنے مشاہدات کی روشنی میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس ریٹائرمنٹ لائف میں اگر کبھی بقیہ داستان کو مکمل کرنے کی کوشش کریں تو یادوں کی یہ بارات قارئین کے لئے انمول تحفہ ہو گی ویسے بھی آپ سے بہتر بھلا کون جانتا ہے کہ لالا جی نے بہت سے معاملات میں خاموشی اختیار کی جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی ایک شخص ان جملہ حالات سے واقف نہیں ہے جن سے لالا جی گزرے عیسیٰ خیل سے جزائر فجی آئر لینڈ تک پھیلے دنیا بھر میں ان کے اسفار میں موجود کہانیاں کس قدر پر لطف ہیں یہ جاننا ان کے ہر چاہنے والے کو اچھا لگے گا بشرطیکہ وہ بھی بہت سی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس قدر ہی سچ کی آمیزش آپ سے بیان کر دیں جو درد کا سفیر میں موجود ہے
30 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دو دن میری فیس بُک پہ خاصی رونق لگی رہی ۔ لالاعیسی خیلوی کے ذکر پر لوگ خوشی سے جھومتے رہے۔ شاید ناچتے بھی رہے ہوں، میں نے دیکھا نہیں۔۔۔ وہ جو ایک فارسی شاعر نے کہا تھا۔۔۔۔۔
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم
(کہانی مزیدار تھی اس لیئے میں نے بھی کچھ لمبی کردی)
میں نے تو ذائقہ بدلنے کے لیئے لالا کے بارے میں ایک پوسٹ لکھی تھی ، یار لوگوں کی بے چینی دیکھ کر ایک اور پوسٹ بھی لکھ دی۔۔ لیکن وہ جو میں اکثر کہا کرتا ہوں
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
اس لیئے ہمارا کارواں عیسی خیل/ داودخیل میں دو دن قیام کے بعد اب آگے روانہ ہوگا۔ معاہدے کے مطابق آپ کو میری انگلی پکڑ کر چلنا ہو گا۔ یہ فیصلہ میں کروں گا جانا کدھر ہے ۔
خوش رہیں، دوسروں کو خوش رکھیں ، زندگی سے ہم نے تو یہی سبق سیکھا ہے اور اس پر حتی الوسع عمل بھی کر رہے ہیں۔
فکر نہ کریں ، میرے ساتھ رہے تو لالا سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔31 اکتوبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top