ڈاکٹر نور محمد خان نیازی
1974 میں نوکری پر کوئٹہ جانے میں دشواری یہ پیش آئی کہ فاصلہ بہت دور ہونے پر میں سال میں صرف ایک مرتبہ میانوالی آ سکتا تھا – اس ایک برس میں پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہوتا تھا اور ہر سال میرا یہ حال ہوتا تھا :—
میں لوٹا تو میرے آگے وہی منظر پرانا تھا
کئی لوگوں سے ملنا تھا کئی قبروں پہ جانا تھا
سن 1977 میں ایسی ہی افرا تفری می ایک ایسا انسان میانوالی کے منظر سے آٹھ گیا جو صرف نام کا نور ہی نہیں ، عوام کی آنکھوں کا بھی نور تھا – میں تو ڈاکٹر نور محمد خان نیازی کے جنازے کی شرکت سے محروم رہا لیکن یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ میانوالی کی تاریخ کا سب سے بڑا تعزیتی اجتماع تھا جو اپنے شہر کے اس عظیم سپوت کو خراج تحسین پیش کرنے اور اسے دائمی سفر جانے پر خدا حافظ کہنے کیلئے امڈ آیا تھا –
میں اسی برس میانوالی آیا تو ڈاکٹر مرحوم کی قبر پر دعا کیلئے حاضر ہوا – ان کی قبر عید گاہ کے عقب میں خنکی خیل قبیلے کے قبرستان میں ہے – دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے سے پہلے ہئ میری نظر قبر کے کتبے پر پڑی تو کتبے کی عبارت پڑھ کر میری نظر میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی ساری کہانی فلم کی طرح گھوم گئی – اور جب میں نے اپنی پہلی کتاب چوکور پہیئے لکھی تو اس کتبے کی عبارت بے اختیاری میں میرا انتساب بن گئی – وہ انتساب ہے :—
وہ ساری عمر شفا بانٹتا رہا
اور مرنے کے بعد قبر کے کتبے پر لکھوا گیا
آپ سے پوچھتے ہیں ، ( اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں – کہہ دیجئے ، اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ —
میانوالی کے ڈاکٹر نور محمد خان نیازی
کے نام —–
قل العفو کی یہ ایک قرآنی آیت ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے –
یہ خوشگوار اتفاق ہے کہ ادبی دنیا میں میری پہلی پہچان یہی کتاب چوکور پہیئے ہے – اس کتاب کے بارے میں پاکستان کے طول و عرض میں آرٹیکل چھپے اور چوکور پہیئے اسی کی دہائی میں مظفر علی سید مرحوم کی سفارش پر ایئر فورس اکیڈمی رسالپور کے کورس میں شامل رہی ہے –
ڈاکٹر صاحب میرے نانا جان فتح خان مرحوم کے ہمعصر تھے ، محلے دار تھے اور میانوالی کے ہر چھوٹے بڑے ، ہم سب کے اولین معالج – پاکستان بھر میں میانوالی کے بچوں کا کسٹر آئل یعنی عرق ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے جاتا تھا – ڈاکٹر صاحب کا کلینک ان کے گھر کے ساتھ ہی بلو خیل روڈ پر تھا ، صبح شام دو وقت کلینک کھلتا ، دن بھر مریضوں کا ہجوم رہتا – ڈاکٹر صاحب دن بھر مریضوں میں گھرے رہتے – رات کے وقت اگر ضرورت ہوتی تو کسی مریض کے گھر اسے دیکھنے جاتے یا پھر جمعے کے روز نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے باقاعدگی سے مسجد اکبریہ زادے خیل آتے – کوٹ اتارے بغیر ، آستینیں کھینچ کر وضو کرتے نظر آتے اور تقریبا” خطبے کے وقت تک مسجد میں آتے – نماز جمعہ کے علاوہ وہ غریب امیر کے جنازے پر بھی ضرور پہنچتے – یہی ان کی کل سوشل لائف تھی – گھر یا کلینک سے باہر جانے پر سر پر کلاہ ہوتا – گورا رنگ اور خشخشی داڑھی ، بہت جاذب نظر تھے لیکن ظاہری حسن سے زیادہ ان کے باطن کا حسن ان کے چہرے کی زینت تھا – نظر کی آدھے فریم والی عینک ان کی ناک پر جمی ہوتی ، کلینک میں بہت زیادہ رش ہوتا ، ڈاکٹر صاحب باری باری اس عینک کے اوپر سے مریضوں کو دیکھتے بلکہ جھانکتے ، ان کی آنکھیں بہت چمکدار اور نظر بہت گہری تھی ، بعض مریضوں کو ایک نظر دیکھ کر ہی تشخیص سے مطمئن ہو جاتے اور نسخہ لکھنے لگتے – کبھی کبھی بے ساختہ ایسا پھڑکتا ہوا فقرا جڑ جاتے کہ ہنسی آجاتی لیکن ان کے کلینک میں ان کے رعب سے کوئی ہنستا نہیں تھا – کلینک پر بے پناہ رش ہوتا ، ایک آدھ گھنٹے کے بعد خواتین کے کمرے میں خواتین مریضوں کو دیکھتے – یہ کمرہ ان کی پشت پر تھا – وہ مشوروں کے ساتھ کبھی کبھی سب کو ڈانٹ بھی دیتے جو ایک شفیق باپ کی ڈانٹ ہوتی – سگریٹ سے انتہائی نفرت کرتے تھے – ان کے ہسپتال کے احاطے میں کسی کو سگریٹ کا کش لگانے کی اجازت نہیں تھی – وہ تقریبا” پچاس سال تک کلینک پر رہے اور شہر و ضلع کی تقریبا” ساری فیمیلز کے مخصوص موروثی مسائل صحت کو سمجھتے تھے – بلکہ وہ ایک طرح سے سارے ضلع کے فیملی ڈاکٹر تھے – تشخیص کے بعد صرف ایک دن کی دوائی دیتے جو دن میں عموما” تین خوراکیں ہوتیں ، یہ ان کے اپنے کلینک کے سادہ مکسچر ہوتے تھے ، بہت کم بازار سے مہنگی دوائی تجویز کرتے – دوا میں ان کے تین ریٹ تھے – دو آنے ، چھ آنے اور بارہ آنے – اس معمولی فیس سے بھی بہت سے لوگ مستثنے تھے – غریب کی فیس تو معاف ہی تھی ، کئی لوگ قریبی رشتہ دار یا محلے دار ہونے کی وجہ سے فری تھے –
ایک بار اپنی کم عمری میں بقر عید کے موقع پر میں چھری سے انگلی کاٹ بیٹھا – دن دس گیارہ بجے کا وقت تھا ، میرے نانا مجھے ساتھ لے کر فورا” ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گئے کیونکہ عید کی وجہ سے کلینک بند تھا – دستک پر ڈاکٹر صاحب آئے ، ناناجان کو دیکھ کر خوش ہوئے کیونکہ میرے نانا بہت کم گھر سے نکلتے تھے اور بہت دن بعد ان کی ملاقات ہو رہی تھی – میرا زخم دیکھا ، اندر جا کر چابیوں کا گچھا اٹھایا اور کلینک کی طرف چل پڑے – خود ہسپتال کھولی ، خندہ پیشانی سے خود زخم کی پٹی کی اور ناناجان سے تعلق کی بنا پر فیس لینے سے انکار کر دیا – یہ وضع داری صرف اس وقت کے میانوالی شہر کا عام شیوہ اور ڈاکٹر نور محمد خان مرحوم کا خصوصی شعار تھی –
ایوب خان کے دور میں سولہ آنے ، سو ٹیڈی پیسوں میں بدلے – چار آنے تو پچیس پیسے بن گئے – دو آنے پر کمپونڈر فیض نے کہا اس کے تیرہ پیسے ہونے چاہیئں – کہنے لگے – نہیں – اسے بارہ پیسے رکھو – یاد رہے ، ڈاکٹر صاحب 1927 کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے میڈیکل گریجویٹ تھے بلکہ میانوالی کے پہلے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے اور انٹر وغیرہ بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا تھا – ان کے صاحبزادے ڈاکٹر اسلم خان نیازی ، انگلینڈ سے ایف آر سی ایس کر کے واپس آئے تو اصرار کیا کہ فیس بڑھائی جائے – ڈآکٹر صاحب نے کہا یہ دکان نہیں ، ہسپتال ہے – میں نے اسی دو آنے میں تمہیں انگلینڈ تک تعکیم دلوائی ہے –
اس سلسلے میں جو اہم بات مجھ تک پہنچی بتائی ہے وہ یہ ہے کہ نوجوانی میں ہی کہیں انہیں پھیپھڑوں کی کوئی خطرناک بیماری لاحق ہوئی تھی – ڈاکٹر صاحب نے خالق حقیقی سے صحت کی دعا کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر انہیں زندگی ملی تو وہ اسے اس کی مخلوق کی خدمت میں گزاریں گے اور ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس عہد کو نبھایا – میں نے اسی کی دہائی میں کمپونڈر فیض ، جناب نصراللہ خان نیازی وکیل تاج بھٹی اور کئی دیگر حضرات کے انٹرویو کئے تھے اور وہ آرٹیکل آج لکھ رہا ہوں – مجھے افسوس ہے ، اتنا عرصہ گزر جانے پر کئی اہم باتیں میں بھول گیا ہوں اور اب ان کو جاننے والے بھی بہت کم رہ گئے ہیں – نئی نسل تو حیران ہوکر ڈاکٹر نور محمد خان نیازی اور پروفیسر سید محمد عالم کے بارے میں پوچھتی ہے کہ یہ لوگ کون تھے اور میانوالی کے اکھڑ لوگ جو شاہوں اور وزیروں کو خاطر میں نہیں لاتے ، ان کو اتنے پیار سے کیوں یاد کرتے ہیں – ہمارے زمانے میں بھی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے گرد بہت پر اسرار پردے پڑے تھے – لوگ محبت میں ان کے بارے میں کئی باتیں کہتے اور سنتے تھے – میری خوش قسمتی دیکھئے کہ ان سے ان کے ذاتی خیالات کو سننے کا موقع اللہ نے میرے لئے بچا رکھا تھا – میں اس کی تفصیل ذرا آگے چل کر آپ سے شیئر کروں گا – فے الحال ان کے بارے میں کچھ مزید لوگوں کے خیالات –
مرحوم صوفی و درویش وکیل نصراللہ خان نیازی موسے خیل ان کے داماد تھے – ان کا کہنا ہے – میں نے ایک دفعہ ان کو غصے میں دیکھ کر انہیں کہا – اقبال مسلمان کے چار عناصر بتاتے ہیں – غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت –
بولے – دیکھو ، قہاری اور غفاری اور پاکیزگی تو اللہ نے دی ہے لیکن جبروت یعنی اقتدار کی قوت البتہ میرے پاس کیسے ہو سکتی ہے – ایک نصراللہ خان نیازی ان کے بھتیجے بھی ہیں ، وہ بھی ڈاکٹر صاحب کے داماد ہیں – اس وقت ان کی صرف وہی صاحبزادی حیات ہیں لیکن اپنے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین نیازی کی ایجنسیوں کے ہاتھوں پر اسرار گمشدگی کے باعث پچھلے کئی برس سے انتہائی اذیت کی زندگی گزار رہی ہیں –
ڈاکٹر صاحب سگریٹ کے علاوہ کتوں سے سخت نفرت کرتے تھے – ان کے ایک صاحبزادے اکرم خان مرحوم کتے رکھنے کے بے حد شوقین تھے – ڈاکٹر صاحب گھر میں آنے پر کھانا کھاتے ہوئے پہلا سوال کرتے ، کیا کتوں کو خوراک دی گئی ہے کہ نہیں –
ڈاکٹر صاحب کے کلینک کے ساتھ ایک بڑا سا احاطہ جس میں مریضوں کیلئے کمرے اور چار پائیاں رکھی تھیں ، مریضوں کو بلا معاوضہ مہیا کئے جاتے – ان کے ایک کمپونڈر تاج بھٹی مرحوم نے بتایا تھا کہ ایک بار راؤنڈ کرتے وقت دیکھا کہ ایک مریض کے پاس رضائی نہیں ہے – ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا ، اس کیلئے رضائی کا بندوبست کرو – کچھ دیر کے بعد انہیں بتایا گیا کہ گھر میں کوئی فالتو رضائی نہیں ہے – ڈاکٹر صاحب نے کہا ، جاو ، میری رضائی اٹھا لاو – اب مجبورا” اڑوس پڑوس سے مانگ کے اس مریض کو بستر مہیا کیا گیا –
ایک بار ایک نوجوان نے درخواست کی کہ اسے ایک انجکشن لگایا جائے- انجکشن لگایا گیا – اس پر نوجوان نے فیس پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے دس آنے بتائے –
وہ نوجوان ہریشان ہوگیا – اس نے کہا ، یہ کون سا انجکشن تھا ، مجھے شیشی دکھائی جائے – شیشی دیکھ کر بولا ، انجکشن تو اصلی ہے –
ڈاکٹر صاحب نے کہا ، پریشانی کیا ہے –
وہ بولا ، میں اسی کمپنی کا میڈیکل ریپ ہوں – مارکیٹ میں یہ انجکشن بارہ آنے کا آتا ہے – آپ دس آنے مانگ رہے ہیں – سمجھ نہیں آئی-
ڈاکٹر صاحب نے کہا – جب ہم تھوک پر زیادہ مال منگواتے ہیں تو ہمیں یہ ٹیکہ ساڑھے نو آنے میں پڑتا ہے – اور اوپر کے دو پیسے میرے اس کمپونڈر کو ملیں گے جس نے انجکشن لگایا ہے – اس میں ہم نے کچھ چارج نہیں کیا –
ان کے صاحبزادے ڈاکٹر اسلم خان نیازی انگلینڈ سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے لوٹے تو الگ سے ایک کمرے کو اپنا آفس بنایا اور ایف آر سی ایس ہونے کی رعایت سے 35 روپے فیس مقرر کی – ڈاکٹر اسلم خان نیازی کے کمرے سے کوئی نکلتا تو اسے ڈاکٹر نور محمد خان صاحب پاس بلا لیتے – اگر دوا کے بغیر کسی سے فیس لی گئی ہے تو ڈاکٹر نور محمد خان صاحب اسے پیسے واپس کر رہے ہوتے – اس صورت حال میں ڈاکٹر اسلم خان اسلام آباد چلے آئے لیکن والد کے انتقال کے بعد زندگی کے ایک مرحلے پر آکر انہیں اندازہ ہوا کہ دو آنے والی فیس زیادہ برکت والی تھی اور اس کے بعد وہ ڈاکٹر نور محمد خان نیازی صاحب کی روایت کو نبھانے کیلئے نور محمد خان کلینک کو دیکھنے اور میانوالی شہر کے لوگوں کی خدمت کیلئے بلا ناغہ برسوں ہر پندرہ دن بعد تنہا کار پر میانوالی جا کر دودن ٹھہرتے اور وہاں بہت معمولی فیس پر مریضوں کو دیکھتے رہے – اس وقت تک وہ نامور سپیشلسٹ ہو چکے تھے اور اس طرح مجموعی طور ان کی اسلام آباد میں پرائویٹ پریکٹس کو لاکھوں کا نقصان ہوا لیکن میانوالی کے کلینک پر انہوں نے اپنے والد کی جلائی ہوئی شمع بجھنے نہیں دی – پچھلے ایک دو برس سے ڈاکٹر محمد اسلم خان نیازی صاحب فراش ہیں اور کلینک ان سے چھٹ گیا ہے – ان کی صحتیابی کیلئے آپ سے دعا کی درخواست ہے –
شروع میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ ایک عرصہ ہوا ڈاکٹر صاحب میانوالی سے باہر نہیں گئے ، بلکہ۔1927 میں لاہور سے میڈیکل گریجویٹ ہونے کے بعد وہ ساری زندگی میں صرف ایک بار ہی لاہور گئے تھے ، اس لئے انہیں اندازہ نہیں کہ ڈاکٹرز کی فیس کہاں جا پہنچی ہے لیکن جب مجھے ان کے خیالات خود انہی سے سننے کا موقع ملا تو مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ نیکی بے خبری کی بنا پر نہیں ، شعوری کوشش تھی – ڈاکٹر صاحب کے خیالات جاننے کا موقع مجھے کس طرح ملا یہ بھی سن لیجئے –
ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں علامہ مشرقی سے بہت متاثر تھے بلکہ اس وقت میانوالی کے سبھی مسلم زعما بیلچہ پارٹی کو ہی پسند کرتے تھے – حکیم عبدالرحمان خان مرحوم ، ڈاکٹر کریم خان اور کئی دیگر شرفا تو باقاعدہ خاکساروں کی وردی میں بیلچہ اٹھا کر پیریڈ کرتے تھے – علامہ مشرقی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب غلام احمد پرویز کے رسالے طلوع کے باقاعدہ قاری تھے – خود ان کا سارا دن تو کلینک میں گزر جاتا تھا لیکن اپنے ذوق کی تسکین کیلئے بھٹی ہاوس جسے ڈاکٹر صاحب نے خرید لیا تھا ، ایک کمرہ المشرقی ریڈنگ روم بنا رکھا تھا – میں ان دنوں ایم ایس سی میتھ کر کے بے روزگار تھا ، دن بھر دوستوں کے ساتھ گھومتا اور رات گئے گھر واپس آتے وقت اس ریڈنگ روم میں پڑے اخبارات کا مطالعہ کرتا – مجھے ریڈنگ روم میں دیکھ کر ایک بار میرے پاس تشریف لائے اور بے تکلف گفتگو کرنا شروع کی – میں نے سوال و جواب کیا تو بہت جوش میں آکر گفتگو کرنے لگے – یوں لگتا تھا وہ ان حالات حاضرہ اور قوم کی تعمیر کے موضوعات پر گفتگو کرنے کے پیاسے ہیں – وہ کافی دیر وہاں کھڑے ہو کر اپنے خیالات شیئر کرتے رہے – اس کے بعد وہ مجھے اس وقت جب بھی ریڈنگ دیکھتے ، طویل گفتگو کیلئے رکھی جاتے – زیادہ تر وہی کلام کرتے ، ان کا کمپونڈر تاج بھٹی جو میرا کلاس فیلو بھی رہا تھا اور دوست بھی ، ڈاکٹر صاحب سے نظر بچا کر مجھے گھورتا کہ کیوں دیر کرا رہے ہو ، چھٹی کرنے دو – لیکن ڈاکٹر صاحب اتنے جوش اور خوشی کے عالم میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے جیسے اپنے نظریات کا اظہار کرنے کیلئے بیتاب ہوں اور دنیا کو اپنے عملی نظریات کے رنگ میں دیکھنا چاہتے ہوں – ان سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ قوم کی بد حالی کو بہتری میں بدلنے کا کتنا حسین خواب رکھتے ہیں – وہ مجھے جب دیکھتے ، خوش ہو کر ریڈنگ روم میں آجاتے اور تبادلہءخیالات کرتے – چونکہ وہاں کھڑے کھڑے انہیں کافی وقت لگتا ، ان کی اس گفتگو کی گھر والوں کو بھی خبر رہتی -یوں تو خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کی خاندانی روایت ہے لیکن میری ان ملاقاتوں کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے زندگی بھر میرے ساتھ خصوصی پیار اور عزت کے ساتھ پیش آتے رہے – ڈاکٹر مرحوم سے ان چند یاد گار ملاقاتوں میں میں نے جو باتیں خود ان کی زبانی سنی ہیں ان سے میں نے اخذ کیا ہے کہ ان کا خیال تھا :-
میانوالی کا عام سفید پوش دیکھنے میں تو سفید پوش ہے ، اندر سے بہت غریب اور خوراک کی کمی کا شکار ہے –
لوگ اسلام کا نام تو لیتے ہیں لیکن اسلام کے زریں معاشرتی اور معاشی اصولوں پر عمل نہیں کرتے اور انہیں ہماری بجائے دوسری اقوام اپنا لیا ہے – اور ان سے خاص طور پر چینی بے پناہ ترقی کر رہے ہیں –
لوگ دین کے معاملے میں عقل کا استعمال چھوڑ دیتے ہیں – عقل کا دامن دین ہو یا دنیا ، کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے –
ظلم کا بدلہ ہر حال میں ملتا ہے – اس سلسلے میں مجھے ان کا بہت دلچسپ فقرا یاد ہے –
کہنے لگے – اللہ بہتر جانتا ہے ، اعمال کا حساب کتاب آگے بھی ہوگا کہ نہیں ، لیکن میں نے لوگوں کو اسی دنیا اپنے ظلم کا حساب چکاتے دیکھا ہے – میرا ایمان ہے ، اللہ پاک لوگوں سے ان کی زندگی میں اسی دنیا میں ان کے اعمال کا حساب کتاب لے لیتا ہے -زندگی میں نیک عمل بہت ضروری ہے – کہتے تھے ، مجھے ڈر ہے ہم زبانی جمع خرچ والے مسلمان اللہ کے آگے شرمندہ اور اچھے اعمال والی مشرک قومیں سرخرو نہ ہو جائیں – اس اعتبار سے وہ چینی قوم کے بہت معترف تھے –
یہ دلچسپ بلکہ عجیب باتیں میں ہر ایک کے ساتھ شیئر بھی نہیں کر سکتا تھا – یہاں تو مسلمان لوگ بس کلمہ پڑھ کر جنت پر اپنا حق ملکیت سمجھتے ہیں اور پانچویں محرم کو بہشتی دروازے سے گزر کر ، دسویں محرم کے جلوس میں ذوالجناح کو پنکھا جھل کر ، اسلامی نظام کے نام پر اپنے معصوم شہریوں اور فوجیوں کی گردنیں کاٹ کر یا اپنے پیر کا ہاتھ پکڑ کر سیدھے جنت جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں وہ عمل کے اس مشکل کام اور فلسفے کو کیسے مان سکتے ہیں –
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
معروف صحافی محمد اعظم خان کلو بتاتے ہیں — ایک مرتبہ میں مرحوم مقبول احمد خان نیازی کے گھر ایف سکس ون گیا ان کے بھتیجے ضرار احمد خان ملے یہ میرے کالج فیلو تھے – میں نے ضرار خان سے مقبول خان کا پو چھا تو انھوں نے کہا کہ دروازہ بند ھے اور اندر سے ان کے رونے کی آواز آرھی ھے میں نے کوشش کر کے دروازہ کھلوا لیا مجھے دیکھ کہ مقبول خان صاحب کہنے لگے کہ اچھا ہوا تم آ گئے – میں نے پوچھا کہ چچا جان خیریت تھی – تو کہنے لگے کہ آج بھای ظفر خان نیازی نے اپنی کتاب بجھوای ھے – اس ظالم نے انتساب مییں ایک ایسی چیز لکھ دی ھے جس نے مجھے رونے پہ مجبور کر دیا ھے پھر انہوں نے وہ انتساب دوبارہ پڑھا اور پھر رو پڑے – کہنے لگے ، میں ایف سکس ون میں رہ رھا ھوں اگر چاھتا تو یہ رقم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے زندگی کسی جھونپڑے میں بھی گزر سکتی تھی…… یہ واقعہ آپ کی کتاب کہ ذکر سے یاد أگیا سوچا آپ کی نذر کر دوں……..مگر نیازی صاحب اب نور محمد نیازی مقبول احمد خان نیازی جیسے صوفی منش انسان ڈھونڈے سے نہیں ملتے- اللہ پاک ھمیں آپ کے نقش قدم پہ چلنے کی ھمت اور توفیق عطا کرے –
بہت شکریہ کلو صاحب –
مجھے مقبول احمد خان نیازی صاحب نے یہ بات بتائی تھی کہ جب کتاب چوکور پہیئے ان کے سامنے آئی تو انتساب پڑھ کر ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے – اور جب وہ میرے ساتھ بات کر رہے تھے تو پھر اسی کیفیت سے گزر رہے تھے – اللہ پاک ، مقبول احمد خان نیازی مرحوم پر اپنا کرم خاص فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کو جگہ دے –
ڈاکٹر صاحب کے گھر کے سامنے نکڑ پر بلوخیل روڈ پر ہی درجنوں کنال پر محیط ایک وسیع قطعہ اراضی تھا غالبا” 35 کنال رقبہ ہوگا جس کے گرد چار دیواری تھی اور اس کا گیٹ گلی عالم خیل میں کھلتا تھا – یہ قطعہ اراضی ہندو متروکہ پراپرٹی تھی یا کوئی اور سرکاری زمین ، یہ مجھے یہ معلوم نہیں، لیکن اس کا قبضہ ڈاکٹر صاحب کے پاس تھا – ہم بہت چھوٹے تھے ان دنوں کی بات ہے ، ایک دن ہم محلے کے کھیلنڈرے لڑکے اس کے اندر کبڈی یا باڈی کھیل رہے تھے – ڈاکٹر صاحب نے چھاپہ مارا ، ہم سب اس گیٹ کے نیچے سے رینگ کر نکلتے گئے – باہر ڈاکٹر صاحب چھڑی لے کر کھڑے تھے – جو لڑکا باہر نکلتا اس کی پیٹھ پر ایک چھڑی پڑ جاتی اور آئندہ اس گراونڈ میں نہ آنے کا کہا جاتا – میں باہر نکلا تو ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر کہا ، یہ تو کوئی شریف لڑکا لگتا ہے ، بہت ہی ڈرا ہوا ہے – یوں مجھے چھوڑ دیا اور میں چھڑی کھانے سے بچ گیا –
وہ قطعہ اراضی جس کی قیمت اس وقت اربوں میں ہے ، ڈاکٹر صاحب نے اجتماعی فلاحی کام کیلئے میونسپل کمیٹی کے سپرد کر دیا – اس وقت اس پر گورنمٹ گرلز ہائی سکول کا ہاسٹل اور بچیوں کا پلے گراونڈ ہے – ڈاکٹر صاحب چاہتے تو اپنی برادی کے دیگر لوگوں کی طرح اس پر اپنا قبضہ جماکر اسے ذاتی ملکیت بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے دیانت اور امانت کے اصولوں کو نہیں چھوڑا – انہی اصولوں کی پابندی کی بنا پر آج ہم انہیں اس محبت سے یاد کر رہے ہیں اور ہزاروں کناروں کے مالک لوگوں کی قبریں یوں ویران پڑی ہیں کہ دیکھ کر عبرت ہوتی ہے – انہیں کوئی بھول کر بھی یاد نہیں کرتا –
خود ڈاکٹر صاحب باطنی طور پر کیا تھے ، اصل حقیقتیں تو اللہ کو معلوم ہیں ، لیکن اس ضمن میں دو اہم اشارے عرض کرنا ہیں –
بلوخیل روڈ کے خنکی خیل قبرستان کے پاس سے پہلی بار گزرنے والے کشف القبور کے شوقین لوگ ٹھٹک کر پوچھتے ہیں کہ اس احاطے میں یہ کس کی قبر ہے جس پر نور کا ہالہ محسوس ہوتا ہے تو انہیں جواب ملتا ہے – یہ ڈاکٹر نور محمد خان نیازی کا مدفن ہے –
دوسری بات جس کے راوی چاچا دوسہ سوانسی ہیں – چاچا دوسہ سوانسی مرحوم پیروں فقیروں کی خدمت میں رہتے تھے – ایک مرتبہ چکی شریف کے کوئی صاحب نظر صوفی بزرگ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر آئے – بعد میں وہ چاچا دوسہ سے کہنے لگے – کمال ہے – یہ اللہ کا ولی ہے جس کو خود بھی پتہ بھی نہیں کہ وہ کتنے بلند مقام پر کھڑا ہے — اللہ اکبر ، یہ نور محمد خان نیازی تھے جن کے وجود سے سارا میانوالی مہکتا تھا – اور جب ان کا انتقال ہوا تو لوگ دھاڑیں مار مار کر لوگ رو رہے تھے جیسے سر سے سایہ چھن گیا ہو –
ان کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ ہر شام یتیم خانے میں پھل اور ہر مہینے بیواوں اور ضرورت مندوں کے گھر پیسے بہت ہی خاموشی سے پہنچا دیئے جاتے تھے – کئی ضرورت مند بچوں کو تعلیم دلانے میں ان کی امداد کی – ان کے بعد ان کے کلینک کو ان کے وفا شعار کمپونڈر فیض اور دیگر حضرات نے کامیابی سے چلائے رکھا اور کوشش کی کہ صدقات کا جو سلسلہ ڈاکٹر صاحب نے جاری کیا تھا وہ جاری رہے – ڈاکٹر صاحب کے نورانی قبر کے کتبے کا انتخاب بھی ان کے مزاج آشنا ، وفا کے مجسمے کمپونڈر جناب فیض نے کیا تھا – فیض سانولے رنگ کا اور نہایت نفیس مزاج کا انسان اور ایک طرح سے ڈاکٹر صاحب کا خلیفہ تھا – ساری عمر ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر خدمت خلق میں گزار دی – اس کے علاوہ کئی نوجوانوں نے وہاں کمپونڈر کے طور پر کام سیکھا اور پھر وہاں سے نکل رزق حلال کمانے کی راہ پر چل پڑے –
اس سلسلے کی ان کے صاحبزادگان ڈاکٹر اسلم خان نیازی جو کہ جنرل فزیشن اور ہارٹ و شوگر سپیشلسٹ تھے اور پولی کلینک اسلام آباد کے چیف سرجن رہے ہیں اور ڈاکٹر افضل خان نیازی آئی سپیشلسٹ نے بھی بخوبی نگرانی کی – ڈاکٹر افضل خان نیازی کی شکل و صورت اور مزاج میں اپنے والد کی ایک بھرپور جھلک ملتی ہے – میں راولپنڈی میں ساری زندگی دو تین ماہ میں ایک بار ضرور ڈاکٹر افضل نیازی کو ملنے ان کے کلینک پر چند منٹ کیلئے جاتا رہا ہوں – اب پچھلے چند برس سے گوشہ نشین ہو گیا ہوں تو ملنے سے رہ گیا ہوں – ڈاکٹر افضل نیازی ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی سے ریٹائرمنٹ کے بعد واہ میڈیکل کالج میں پروفیسر کے طور پر وزٹ کرتے ہیں لیکن ان کی سرگرمیاں صحت اور عمر کی بنا پر نسبتا” محدود ہوگئی ہیں اور اب ان کے آئی کلینک کو پوری ذمے داری اور میانوالی کے عوام سے خصوصی محبت کے ساتھ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر فواد خان نیازی راولپنڈی میں بہت کامیابی سے چلا رہے ہیں –
ریٹائرڈ ایس ڈی او پیر عطا شاہ نے اس پوسٹ میں ان کے سب سے بڑے بیٹے جناب سعید اختر خان نیازی کے تذکرے کی کمی محسوس کی ہے –
عرض یہ ہے کہ یہ باتیں کلینک کے حوالے سے چل رہی تھیں ، سو ڈاکٹر نور محمد خان نیازی مرحوم کے ڈاکٹر صاحب زدگان کا ہی ذکر ہو رہا تھا ، آپ نے ان کے سب سے بڑے صاحب زادے کا ذکر کرکے میانوالی کے ایک اور خوبصورت سپوت پر کچھ مزید باتیں کرنے موقع دیا – آپ کا بہت شکریہ-
سعید اختر خان نیازی انجنئیر نگ کی دنیا میں پاکستان کے اعلے ترین مناصب تک پہنچے اور ان کے دست مبارک سے کئی ہاکی کے کھلاڑیوں کو واپڈا میں ملازمت ملی – مزاج کے اعتبار سے وہ ایک آئیڈیل انسان ہیں – اللہ پاک نے انہیں اولاد کے حوالے سے نہایت سخت امتحان سے گزارا ہے ، اور وہ اسے کیسے نبھا رہے ہیں ، ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر افضل خان نیازی کی زبانی سنئیے –
ڈاکٹر افضل خان صاحب کہتے ہیں:–
سعید اختر خان کے اعلی کردار کا یہ حال ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو دعائیں دیتی ہیں کہ اللہ تمہیں سعید اختر کی طرح بنائے – انھوں نے جتنے صدمے برداشت کئے خاص کر اولاد کے معاملے میں ، اکثر پیر فقیر اعلی رشتے دار ( خاص کرمیجر ظفر اللہ خان انکے ماموں) فرماتے ہیں کہ سعید خان کے چہرے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ثواب مل رھا ہے۔ معلوم نہیں کہ انکو اتنے دکھ کیوں آۓ ہر انسان کے لئے نہایت ہی مخلص اور خصوصا میانوالی کے لوگ اور رشتے داروں کے ساتھ نہایت محبت سے پیش آتے ہیں۔ انھوں نے کبھی کسی انسان کو گالی نہیں دی اور نہ ہی بیہودہ گفتگو میں شریک ہوۓ اور اگر ہو بھی رہی ہو تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں – احترام کے باعث لوگ انُکے سامنے سگریٹ نہیں پیتے ، نماز پڑھنا، زکوات دینا اور خوش اخلاقی آپکا خاصا ہے – اپنے کام میں اور مالی معاملات میں نہایت ہی ایمان داری سے کام لیتے ہیں – باہر کے ممالک میں جاتے تھے تو کوشش کرتے تھے کہ حکومت کے پیسے ضائع نہ کریں – کبھی کبار انھیں پیدل چلنا پڑ جاتا تھا اور سادہ خوراک کھانی پڑتی تھی اور جو ڈالر بچ جاتے اسے محکمہ کو واپس کر دیتے – دو مرتبہ صدارتی گولڈ تمغہ بھی ملا – انھوں نےہاکی کے کھلاڑیوں کے علاوہ بھی کئ لوگوں کا تبادلہ اور نوکری کا انتظام کیا – میانوالی میں نہ ہی کسی نےاتنے بندے بھرتی کرواۓ اور نہ کروا سکےگا – واپڈا ہاؤس لاہور میں میانوالی کے غریب یا امیر کسی آدمی کو انسے ملنے کی رکاوٹ نہ تھی – ایک خصوصیت یہ بھی ہے جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے ، وہ یہ کہ مخالفین کا احترام کرتے اور انکا کام بھی کرتے ریے – لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اپنے محلے کے عیسائ کے ساتھ اپنے دفتر میں بیٹھ کر چاۓ نوش فرما رہے ہیں – انھوں نے اپنے ملازمین کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ اگر کوئ فوتگی ہو تو اپنے پاس لکھ کر رکھیں تاکہ انھیں یاد رہے کہ جنازے پر جانا ہے کسی کو اگر رہائش کی جگہ نہیں ملتی تو انکے پاس پہنچ جاتے اور آپ اسکو رہائش دیدتے – بہت ہی مہمان نواز ہیں – اللہ انھیں صحت عطا فرماۓ ابھی بہت کچھ انکے بارے میں لکھا جا سکتا ہے اس وقت اس جگہ پر لکھنا شاید مناسب نہ ہو –
بہت شکریہ برادر ڈاکٹر افضل خان نیازی –
افسوسناک خبر یہ ہے کہ اس برس 2017 فروری میں سعید اختر خان نیازی ، انتقال کر گئے ہیں – اللہ پاک ان پر راضی ہو اور ان کے درجات بلند فرمائے –
ایک بہت اہم بات جو میں ابتدا” لکھنے سے کترا رہا تھا وہ ڈاکٹر مرحوم کا اولاد کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دینے کے بارے میں تھا – مجھے ڈر تھا کہ شاید کچھ دوست اسے ذاتی زندگی میں مداخلت کہہ سکتے ہیں لیکن میں نے غور کیا تو مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا یہ گوشہ میانوالی کے ان رجعت پسند والدین کیلئے ایک مثال رکھتا ہے جو اپنی بےجا انا کے ہاتھوں بچوں کی زندگی برباد کر بیٹھتے ہیں – اس حوالے سے میانوالی کی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ بھی واقع ہو چکا ہے جس کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے ایک بہت قیمتی انسان کی زندگی برباد ہوئی ہے –
ڈاکٹر افضل نیازی ، ڈاکٹر مرحوم کے صاحبزادے ، بہت پیارے ہمدردر انسان اور ایک طرح سے ان کی روایت کے امین ہیں ، ایک مرتبہ اپنی شادی کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بتانے لگے ، مجھے ایم بی بی ایس کے دوران اپنی ایک کلاس فیلو سے شادی کی آرزو ہوئی تو میں نے ابا جان سے شادی کی اجازت چاہی ، یہ درخواست انہیں پسند تو نہ آئی لیکن مجھے انہوں نے کہا زندگی تم نے گزارنی ہے ، میری طرف سے تمہیں اجازت ہے –
سو ڈاکٹر افضل نیازی کی شادی ہو گئی – جو اللہ کے کرم سے کامیاب ثابت ہوئی –
اس کے برعکس میانوالی کے ایک اور نامور حکیم عبدالرحیم خان مرحوم اس حوالے سے زندگی میں ایک بہت بڑا المیہ دیکھ چکے ہیں – ان کے ایک صاحبزادے عبدالمجید خان گورنمنٹ کالج لاہور کے سٹوڈنٹ تھے – ( پیر مسعود سابق سالسٹر جنرل پاکستان نے بحوالہ ملک غلام محمد محلہ خنکی خیل تصحیح کی ہے کہ وہ اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے سٹوڈنٹ تھے ) وہ اپنی کسی کلاس فیلو کو دل دے بیٹھے آور والد سے شادی کی اجازت چاہی تو اسے سختی سے انکار کر دیا گیا – یہ انکار عبدالمجید خان پر قہر بن کر ٹوٹا اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا – یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے – ہم بہت کم عمر تھے – ہمارے گھروں کی بیک سائڈ پر حکیم صاحب کا رقبہ اور ساتھ ہی گھر ہیں – ان گھروں کے ساتھ ہی ایک ویران سی حویلی ہے جس کی دیواریں 20 فٹ اونچی ہیں – عبدالمجمید خان کی ساری عمر دیوانگی میں اس چاردیواری کی جیل میں گزری – ایک دفعہ وہ وہاں سے نکل کر بھاگا تھا تو ہم نے پہلی اور آخری بار اسے اس کی دیوانگی کے عالم میں دیکھا تھا – حکیم عبدالرحیم خان کی حکمت افغانستان اور انڈیا تک اپنا سکہ منوا چکی تھی لیکن ان کی حکمت ان کے صاحبزادے کو دیوانگی اور وحشت سے نجات نہ دے سکی اور اسی عالم میں اس کا انتقال پر ملال ہوا –
جن لوگوں نے عبدالمجید خان کو دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ وہ انتہائی ہونہار ، خوش مزاج ذہین اور اعلے درجے کا اتھلیٹ ، خوبصورت نوجوان تھا ، اس کی اٹھان دیکھ کر لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی شخصیت میانوالی اور پاکستان میں اپنا رنگ جمائے گی لیکن اس کی زندگی اپنے والد کی ضد کی نذر ہو گئی – اس لڑکی کے بارے میں سنا تھا کہ اس کا بھی دماغی توازن بگڑ گیا تھا – واللہ اعلم —
خنکی خیل قبیلے کا ایک اور خوبصورت نوجوان عمر فاروق جو اکلوتا تھا ، وہ بھی شادی کے مسئلے پر والدین کے انکار پر انتہائی ٹریجک انجام سے دوچار ہوا – سو ڈاکٹر نور محمد خان نیازی مرحوم نے ایک روایت پرست معاشرے میں اولاد کے بارے میں اہم فیصلوں میں اولاد کی مرضی کو اولیت دینے کا عملی درس دیا —-
ڈاکٹر مرحوم کے بعد ڈاکٹر اسلم خان نیازی نے اسلام آباد میں لاکھوں روپے کی ذاتی پریکٹس کا نقصان اٹھا کر بھی اپنے والد کی شمع جلائے رکھی ہے – اب وہ صاحب فراش ہیں تو پچھلے دو ایک سال سے وہ ہسپتال اجڑ چکا ہے – المشرقی ریڈنگ روم کی دیواریں گرنے گئی ہیں – سو وہ نورانی کلینک پھر سے نئے مسیحا کا منتظر ہے ، دیکھیں یہ اعزاز و امتیاز اب ان کے بچوں میں سے کس کے نصیب میں آتا ہے — ان کے وارثوں میں سے ایک سیاست کے میدان میں تو عمران خان کے روپ میں آچکے ہیں – ڈاکٹر نور محمد خان نیازی عمران خان نیازی کے پھوپھا تھے –
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے کرم خاص سے ڈاکٹر نور محمد خان نیازی کی مغفرت فرمائے ، اور ان کے درجات بلند فرمائے – اور اپنے ان نیک اور بےلوث خادمان انسانیت کے صدقے پاکستان کی مشکلات دور فرمائے ، وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی نیکی کا واسطہ دے کر اللہ میاں سے اپنی مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے —
( یہ پورٹریٹ ، ڈاکٹر صاحب کی پوتی کے فن کا شاہکار ہے ، اس کیلئے میں عزیزم شیرخان نیازی کا مشکور ہوں جو کہ ڈاکٹر محمد اسلم خان نیازی کے صاحبزادے ہیں اور ڈاکٹر نور محمد خان نیازی مرحوم کے پوتے ہیں – اس موقع پر ان کے اس پوسٹ پر تاثرات بھی پیش ہیں جس سے ڈاکٹر صاحب کی وراثت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے —