MAJBOOR ISA KHELVI

مجبور عیسیٰ خیلوی — عیسیٰ خیل کی سرزمین کا موسیقار شاعر

پیدائش: 1 جنوری 1935ء — عیسیٰ خیل

مجبور عیسیٰ خیلوی کا اصل نام تو کچھ اور تھا، مگر وہ ادبی دنیا میں “مجبور ظہوری” کے قلمی نام سے جانے گئے۔ آپ 1 جنوری 1935ء کو ضلع میانوالی کے قصبے عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے ابتدائی مراحل بھی اسی شہر میں مکمل کیے۔ میٹرک کے بعد فنونِ لطیفہ (فائن آرٹس) میں انٹرمیڈیٹ کی سند حاصل کی۔

شمولیت محکمہ ریلوے: اگست 1956ء
انہوں نے اگست 1956ء میں محکمہ پاکستان ریلوے میں بطور سب ٹریک انجینئر (S.T.E) ملازمت اختیار کی اور مئی 1991ء میں اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔

شاعری اور ادبی سفر

مجبور عیسیٰ خیلوی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی اردو اور سرائیکی شاعری سے گہرا شغف تھا۔ ان کی شاعری میں سروں اور دھنوں کا جمالیاتی امتزاج پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عوامی زندگی، دیہی ماحول، اور قصبے کی خوشبو کو جذب کر کے پیش کیا۔

ریڈیو پاکستان ملتان و راولپنڈی سے نشریات: 1959ء سے
1959ء سے ان کی شاعری ریڈیو پاکستان ملتان اور راولپنڈی سے نشر ہوتی رہی۔ یہ شاعری محض تحریری نہیں بلکہ سُریلی بھی تھی، جو دلوں کو چھو لیتی ہے۔

گلوکاروں کی آواز میں شاعری

مشہور گلوکاروں نے ان کے کلام کو گایا، جن میں خاص طور پر عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا ذکر لازم ہے جنہوں نے مجبور عیسیٰ خیلوی کی شاعری کو اپنی مخصوص سرائیکی دُھنوں میں ڈھال کر امر کر دیا۔ ان کی شاعری دیہی گائیکی میں آج بھی مقبول ہے۔

ادبی خدمات کا اعتراف

ان کی اردو شاعری کو مختلف اخبارات نے بھی مسلسل شائع کیا، جس سے ان کے فن کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے گرد و پیش کے حالات، احساسات، اور انسانی رشتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔

خاندانی تعارف

مجبور عیسیٰ خیلوی کے تین بیٹے ہیں:

  • ڈاکٹر ظفر کمال
  • اقبال سعید اعوان
  • مسرور جاوید

یہ اولاد بھی ان کی علم و ادب سے محبت کی عکاس ہے۔

مجبور عیسیٰ خیلوی کی شاعری اور خدمات آج بھی زندہ ہیں اور ان کا کلام سرائیکی ادب و موسیقی کا انمول سرمایہ ہے۔ ان کا نام عیسیٰ خیل کی ادبی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔


مجبور کی کہانی، عیسیٰ خیلوی کی زبانی۔۔۔

“ایک شاعر، ایک گلوکار، اور ایک دھن جو دلوں میں گونجتی ہے”

میں کبھی نثر نگار نہیں رہا، اور شاید بن بھی نہ سکوں۔ لیکن جب مجبور عیسیٰ خیلوی کی کتاب کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو کئی ہفتے گزر گئے، اور میں فیصلہ نہ کر سکا کہ کیا لکھوں۔ بالآخر مجبور نے کہا:
“تم جو چاہو، جیسے چاہو، کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی پڑے گا!”

مجبور: ایک شاعر، ایک دوست، ایک انسان

مجبور عیسیٰ خیلوی میرے مخلص دوست ہیں۔ وہ نہ صرف ایک عظیم انسان ہیں بلکہ سرائیکی گیت نگاری کی دنیا کا ایک معروف نام بھی ہیں۔
اب تک میں مجبور کے 140 سے زائد گیت گا چکا ہوں۔ ان گیتوں کو میں نے سینکڑوں بار گایا، اور ہر بار ایک نئی کیفیت طاری ہوئی۔
جو محبت اور مقبولیت مجھے عوام نے دی، وہ شاید انہی نغموں کا فیض تھا، اور میں آج تک اس کا قرض چکانے سے قاصر ہوں۔

رب نے بانٹ رکھے ہیں فن کے جوہر

اللہ تعالیٰ نے ہر فن کا حصہ کسی نہ کسی فرد کے حصے میں رکھا ہے۔
میں گلوکار ہوں، اور وہ شاعر۔
جب بھی مجبور سے ملتا ہوں، صرف ایک ہی فرمائش کرتا ہوں:
“مجبور، مجھے حقہ پینا ہے!”
کیوں؟
شاید اس کی تفصیل زندگی میں کسی دن بتا سکوں۔


عطا اللہ کی آواز، مجبوری کے بول

جب “سُر” کو “آواز” ملتی ہے، تو وہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی بن جاتا ہے—ایک ایسی آواز جس میں محبت کی مٹھاس، درد کے آنسو، اور دل کو چیر دینے والے احساسات چھپے ہوتے ہیں۔
اس آواز میں پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ، کونج کی کُرلاہٹ، اور جھیل کی لہروں کی گونج ہے۔
یہ وہ آواز ہے جو پہاڑوں سے ٹکرا کر پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

لالہ جی کی مختصر سوانح

  • پیدائش: 19 اگست 1951، عیسیٰ خیل

  • والد: بابا احمد خان نیازی

  • تعلیم: میٹرک (عیسیٰ خیل)، بی اے (فیصل آباد، پرائیویٹ)

  • آواز کا آغاز: 1977، رحمت گراموفون ہاؤس فیصل آباد سے

لالہ جی نے ابتداء میں مجبور عیسیٰ خیلوی کے کلام کو گایا، جو ان کی شہرت کا پہلا زینہ ثابت ہوا۔


مجبور کے مقبول گیتوں کی فہرست

ذیل میں مجبور عیسیٰ خیلوی کے وہ معروف گیت درج کیے گئے ہیں جنہوں نے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں امر ہونے کا درجہ حاصل کیا:

  • لاہ لئی تئیں مندری میڈی

  • ہنڑ تاں موڑ سجنڑ توں مہاراں

  • ککڑا دھمی دیا سویرو ڈتی ہائی بانگ

  • کتھے گئیوں دل لا کے

  • چنے نال چاننڑی

  • آوسیاں ساونڑیاں

  • کر گئی کر گئی جادو کر گئی

  • پخیر راغلے

  • کوئی ڈھولے کوں سمجھاوے

  • توں ہئیں ساڈی زندگی دا مانڑ ماہی وے

  • میڈا ڈھول جوانیاں مانڑیں

  • پاما خادے شاء

  • گلاں ورق غلاب توں نازک

  • سونہنڑیاں وے چن تے ستاراں کولوں سونہنڑیاں

  • مٹھیاں توں مٹھے تیرے بول

  • ڈکھیاں کوں ڈے نہ جھڑکاں

  • رل وسوں ہا

  • وے صدقہ پنجتنؓ دا

  • ڈیہاڑے عید دے ڈھولا

  • ایہا داغ قبر گھن ویساں

  • بوچھنڑاں میتھوں یار نہ کھس وے

  • ڈے چاء لسی شالا جھگڑا وسی

  • میں ڈٹھی آں ڈرب کرکے

  • تک تک راہواں ہاریاں اکھیاں

  • ڈھولے دے گل وچ چکنے دا چولا

  • میانوالی دا چھور

  • ڈھول دل دا وے ڈھول دل دا

  • کیوں نظر نہیں بھلیندا

  • کوئی خبراں ڈیوے یار دیاں

  • آئی آئی پرت بہار


مجبور عیسیٰ خیلوی اور عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا فنی رشتہ صرف شاعر اور گلوکار کا نہیں، بلکہ دل اور آواز کا ہے۔ ان دونوں نے عیسیٰ خیل کی مٹی کو الفاظ اور سروں سے ایسا نکھارا ہے کہ وہ آج بھی دلوں میں گونجتے ہیں۔یہ کہانی صرف دو فنکاروں کی نہیں، بلکہ ایک ثقافتی ورثے کی ہے، جو آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top