منورعلی ملک کی اپریل 2017 کی فیس بک پرپوسٹ
میرا میانوالی
تحصیل پپلاں کا کوئی مکمل اور واضح نقشہ نہ مل سکا – جو کچھ مل گیا وھی اس پوسٹ میں شامل ھے-
تحصیل پپلاں کی زبان بنیادی طور پر تو ضلع بھکر کی سرائیکی ھے- مگر یہاں دلچسپ صورت حال یہ ھے کہ پپلاں شہر اور تحصیل کی تقریبا نصف آبادی ھمارے وہ بھائی ھیں جو قیام پاکستان کے وقت یہاں آکر آباد ھوئے- ان میں اردو بولنے والے بھی ھیں ، رانگڑ زبان والے راجپوت بھی، مشرقی پنجاب کی پنجابی بولنے والے پنجابی بھی – پپلاں کے گردونواح میں واقع چکوک اور ھرنولی میں زیادہ تر یہی لوگ آباد ھیں– علووالی، حافظ والا، ڈب بلوچاں , جوئیانوالہ، ھرنولی ، بھمب، تحصیل پپلاں کے مشہور قصبے ھیں- کندیاں کا ذکر الگ ھوگا-
پپلاں کے بارے میں میری معلومات بہت محدود ھیں، صرف کالج اور شاعروں سے کبھی کبھار واسطہ پڑتا رھا- گورنمنٹ کالج میانوالی میں پپلاں کے بہت سے سٹوڈنٹ میری کلاسز میں رھے، مگر ان سے میں صرف انگلش کے بارے میں ھی پوچھتا رھا، ان کے علاقے کے بارے میں کچھ نہ پوچھ سکا-
پپلاں سے میرے دوستوں میں سے پروفیسر رانا سربلند خان، پروفیسرملک محمد اکرم، پروفیسر ممتازملک، خورشید میلسوی ، (میلسی منتقل ھوگئے) ھیڈماسٹر ملک محمد خان ,رانا طفیل صاحب ، نعمان انصاری صاحب اورماسٹر غلام حیدر صاحب کے نام اس وقت یاد آرھے ھیں- اور بھی بہت سے لوگ تھے- جن کے نام رہ گئے ان سے معذرت – منورعلی ملک-1 اپریل 2017
فیس بک سے دوستی ——
آپ کو یاد ھوگا کچھ عرصہ پہلے میں نے پاکستان کے ایک مجاھد سپاھی کا ذکر کیا تھا، جس نے 1971 کی جنگ سے واپسی پر اپنااستقبال کرنے والوں سے روتے ھوئے کہا تھا “ھٹاؤ ، یہ پھولوں کے ھار، میں تو آدھا ملک دے کر آرھا ھوں، یہاں سے ایک بندوق لے کر گیا تھا، وہ بھی ھندؤوں کو دے آیا ھوں-
آج کی پوسٹ اسی مرد مجاھد سراج الدین قریشی کے صاحبزادے، میرے دیرینہ فیس بک فرینڈ اور بہت عزیز سٹوڈنٹ میجر میاں محمد قریشی کے بارے میں ھے- میاں محمد 1963 میں داؤدخیل سکول میں میری آخری کلاس کے سٹوڈنٹ تھے جسے میں انگلش پڑھاتا تھا- بہت لائق سٹوڈنٹ تھے، اب کہتے ھیں “سر، میں آپ کا نالائق سٹوڈنٹ ھوں“- میں ڈانٹ دیتا ھوں ، پھر بھی باز نہیں آتے-
میاں محمد قریشی داؤدخیل کے رھنے والے ھیں- بعد میںں ان کی فیملی پکی شاہ مردان منتقل ھوگئی- آج کل پنڈی میں رھتے ھیں- جب میں نے فیس بک کا دھندا شروع کیا تو میری ایک انگلش پوسٹ پر کمنٹ دیتے ھوئے میاں محمد نے کہا “ سر، مجھے یوں لگ رھا ھے جیسے میں آج بھی آپ کی کلاس میں بیٹھا ھوں ، سر میں آپ کا نالائق سٹوڈنٹ میاں محمد قریشی ھوں -“
میں نے اس وقت بھی کہا “نہیں ، مجھے یاد ھے تم بہتت لائق سٹوڈنٹ تھے- “
اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ھوئے میاں محمدد نے زندگی کی تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بعد پاک آرمی جوائن کر لی، میجر ریٹائر ھوئے ، ان کے دو صاحبزادے بھی آرمی آفیسر ھیں- میجر صاحب اب پنڈی میں خوشحال زندگی بسر کر رھے ھیں- منورعلی ملک –1 اپریل 2017
میری اکلوتی پنجابی غزل سے ایک شعر
یہ غزل میری کتاب میں بھی ھے
آرائش — مناظر گوندل، چک سیدا ، ملکوال-1 اپریل 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل
ضلع میانوالی کی زبان پر بحث ھو رھی تھی- اس کا حاصل یہ ھے کہ زبان کے لحاظ سے ضلع میانوالی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے-
1۔ پشتون بیلٹ جس کی زبان پشتو ھے
2۔ اعوان بیلٹ ، جہاں پوٹھوھاری زبان بولی جاتی ھے-
33۔ عیسی خیل سے پپلاں تک کے علاقے کی زبان جوو میانوالین سرائیکی کہلا سکتی ھے- یاد رھے کہ یہ زبان جنوبی پنجاب کی سرائیکی سے کچھ مختلف ھے، کیونکہ اس میں پشتو، ھندکو اور پوٹھوھاری کے الفاظ بھی شامل ھیں- اس لیے میں اسے میانوالین سرائیکی کہتا ھوں-
ایک پوسٹ میں میں نے کہا تھا کہ زبان کے حوالے سے کالاباغ اور کندیاں کا ذکر الگ ھوگا، کیونکہ ان دوشہروں کی زبان پرپاکستان کے دوسرے علاقوں کی زبانوں کے اثرات بھی پائے جاتے ھیں،-
کالاباغ دریائے سندھ کے راستے کشمیر سے کراچی تک جاری رھنے والی تجارت کے راستے میں ایک اھم سٹیشن تھا- ھر علاقےکے تاجر یہاں آتے جاتے تھے- یوں یہاں کی زبان میں بہت سے دوسرے علاقوں کی زبانوں کے الفاظ بھی گھل مل گئے-
کالاباغ کی زبان اور کلچر کے تجزیئے میں ایک دودن اور لگیں گے-
اس پوسٹ میں کالاباغ کی جو خوبصورت پکچر آپ دیکھ رھے ھیں، یہ دریا کے بائیں کنارے سے کالاباغ شہر کا منظر ھے- یوں لگتا ھے جیسے پہاڑی علاقے کی کوئی خاتون اپنے بچے کو گود میں لیے , دریا میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ھے- یہ خوبصورت شاعرانہ مثال آپ نہ سمجھ سکیں تو آپ کی قسمت—— منورعلی ملک-3 اپریل 2017
فیس بک سے دوستی —————
سردار امیر اعظم نیازی کی طرح عبدالقیوم خان نیازی بھی میرے بہت پیارے بیٹے (سٹوڈنٹ) ھیں- یہ بھی پولیس افسر ھیں- آج کل ضلع بھکر کے تھانہ بہل کے ایس ایچ او ھیں- آپریشن ردالفساد کے سلسلے میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دے رھے ھیں- اس حوالے سے ضلع بھکر بہت حساس ضلع ھے، کیونکہ یہاں فرقہ واریت کی بنا پر دھشت گردی کا خطرہ بہت رھتا ھے- اس لیے یہاں ایسے ھی بہادر پولیس افسروں کو متعین کیا جاتا ھے-
عبدالقیوم نیازی کالج میں میرے سٹوڈنٹ تھے- پڑھنے کے لیے میرے گھر پہ بھی آتے تھے- ان کے والد مرحوم نورخان نیازی بھی میرے اچھے دوست تھے- امیراعظم کی طرح عبدالقیوم خان بھی اچھے پولیس افسر ھونے کے علاوہ شاعری اور موسیقی سے بھی دلچسپی رکھتے ھیں- بلکہ یہ تو اچھے خاصے قلم کار بھی ھیں- کبھی کبھی بہت اچھی معلوماتی پوسٹس لکھتے رھتے ھیں- فیس بک کی خاصی متحرک شخصیت ھیں- ایسے پڑھے لکھے نوجوان افسروں کی وجہ سے پولیس کا امیج بہتر ھو رھا ھے—— منورعلی ملک-4 اپریل 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——–
کل صبح کی پوسٹ پر کمنٹس میں بہت سے لوگوں نے یہ رونا رویا ھے کہ سر جی ، آپ نے کالاباغ کے حلوے کاذکر نہیں کیا- حلوے کے ذکر سے ان دوستوں کا پیٹ بھر سکتا ھے تو آج کی پوسٹ میں یہی کار خیر ھوگا-
کالاباغ کا حلوہ مکھڈی حلوہ بھی کہلاتا ھے، کیونکہ یہ مکھڈ ضلع اٹک کے لوگوں کی ایجاد ھے- ایک دو صدیاں پہلے جب مکھڈ کے کچھ خاندان دریا کے راستے کالاباغ منتقل ھوئے، تو اس حلوے کا نسخہ بھی ان کے ھمراہ یہاںں پہنچا- ایک آدھ خاندان نے اسی حلوے کو اپنا ذریعہ معاشش بنا لیا- یہ حلوہ بہت جلد اتنا مقبول ھؤا کہ کالاباغ کے ھر ھوٹل پر بننے لگا- نواحی علاقوں کے لوگ ادھر خریدوفروخت کے لیے آتے تو واپسی کے کرائے کے علاوہ کچھ پیسے بچا کر یہ حلوہ بھی ضرور کھایا کرتے تھے- رفتہ رفتہ اس حلوے کی شہرت پورے ضلع میانوالی میں پھیل گئی- اب تو سنا ھے بیرون ملک پاکستانی بھی فون پراپنی اپنی امی سے اس حلوے کی فرمائیشیں کرتے رھتے ھیں-
کالاباغ میں حلوے کی سب سے مشہور دکان ، بازار لوھاراں سے اندرون شہر جانے والی اندھیری گلی کے پہلے موڑ پر محمد امین کی دکان تھی- کئی دفعہ وھاں آناجانا ھؤا- کیا جادو تھا اس شخص کے ھاتھ میں !!! بہت کمال کا حلوہ بناتا تھا- جتنا کھالو جی نہیں بھرتا تھا- سنا ھے محمدامین کی فیملی کالاباغ سے ڈیرہ غازی خان ھجرت کر گئی تھی- ڈیرہ غازی خان کے دوست پتہ کر کے بتا سکتے ھیں کہ آج کل وہ لوگ ادھر ھیں یا نہیں- کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں ساون شبیر صاحب نے کالاباغ کے چاچا حنیف صاحب کا نام بھی بتایا ھے- وہ بھی شاید محمد امین فیملی ھی کے فرد ھوں-
حلوے کے کاریگروں کی ایک دو فیملیز بہت عرصے سے میانوالی میں آباد ھیں- وہ لوگ ریلوے سٹیشن کے قریب کاروبار کرتے ھیں- جیب میں پیسے ھوں تو آج شام ھی ان سے رابطہ کریں-
اگر یہ حلوہ گھر میں بنائیں توایک پلیٹ ادھر بھی —- منورعلی ملک –6 اپریل 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل ———–
تقریبا 45 سال پہلے کی بات ھے، ایک دفعہ میں اپنے دوست مرحوم حاجی غلام رسول کے ساتھ مین بازارکالاباغ کے مشرقی سرے پر واقع ماسٹراحمد بخش المعروف پی ٹی صاحب کے ھوٹل میں مقیم تھا- یہ ھوٹل مسجد لوھاراں کے بالکل قریب تھا-
ھم دونوں صبح تقریبا 4 بجے فجر کی نماز کے لیے مسجدد پہنچے- ابھی اذان نہیں ھوئی تھی- مسجد خالی تھی- اندر اندھیرا تھا، صرف ایک کونے میں ایک مدھم سی بتی جل رھی تھی- ھم جونہی وھاں پہنچے، مسجد کے واش روم سے ایک آدمی نکلا، وھ بلند آواز میں اللہ تعالی سے مخاطب تھا- کہہ رتھا-
‘ ناں —– توں ھنڑں میکو وی معاف کرڈیسیں ؟؟؟ انصاف تاں نہ ھویا، مذاق ھویا ، ساری عمر گناہ کرکرکرکر کے ھک سجدہ ڈیو تے سارے گناہ معاف- !!!’
یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر روتے ھوئے وضو کرنے میں مشغول ھو گیا- میں اس کی ان گستاخانہ باتوں پر اسے ٹوکنا چاھتا تھا، مگر حاجی غلام رسول صاحب نے یہ کہہ کرروک دیا کہ ایسے لوگوں کو نہیں چھیڑنا چاھیے، اور نہ ھی ان کے بارے میں تحقیق کرنی چاھیے-
خدا جانے وہ شخص کو ن تھا؟ زبان سے تو پتہ چلتا تھا کہ کالاباغ ھی کا ھے- بہت پراسرار آدمی تھا- اس کی گمبھیر پراسرار آواز آج بھی یاد آتی ھے تو خوف سا طاری ھو جاتا ھے– واللہ اعلم — منورعلی ملک —–
( پکچر —- مسجد لوھاراں ۔ کالاباغ )-8 اپریل 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —
بھولے بھالے سیدھے سادے لوگ معاشرے کا حسن ھوتے ھیں- یہ وہ لوگ ھوتے ھیں ، جو کسی سے نفرت نہیں کرتے- خود ھر حال میں خوش رھتے ھیں ، اور دوسرے لوگوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ھیں، غریب ھوں تو اپنی غریبی کا رونا کبھی نہیں روتے- ایسے آدمی کے پاس اگر صرف ایک روٹی ھو تو اس میں سے بھی آدھی اپنے جیسے کسی دوسرے کو دے کر خوش ھوتا ھے- ان کی عجیب وغریب باتوں اور عادتوں کی وجہ سے لوگ انہیں کملا اور ‘ ھلااویا‘ کہتے ھیں، مگر وہ لوگوں کے اس مذاق پر بھی خوش ھوتے ھیں ، قہقہے لگاتے ھیں-
کالاباغ کا مظفر عرف ماما مکھی، ایک ایسا ھی کردارر تھا- پہلوانوں جیسا حلیہ ، 6 فٹ سے نکلتا ھؤا قد، بھاری بھرکم جسامت- خاصی خوفناک لمبی، تلوار جیسی مونچھیں، سر کے بال صاف، ملیشیا کے شلوار سوٹ میں ملبوس ماما مکھی کالاباغ کے بازار لوھاراں میں چائے کی دکان چلاتا تھا- عجیب دکان تھی، اس میں کرسی میز نام کی کوئی چیز نہ تھی- تین پیڑھیاں پڑی ھوتی تھیں، ایک پیڑھی پہ ماما مکھی بیٹھ کر کوئلوں کی دھیمی آنچ پر دو کپ والی چائے دانی میں چائے بناتا تھا- دوسری دو پیڑھیاں گاھکوں کے بیٹھنے کے لیے تھیں- ماما سے بھی مجھے میرے دوست مرحوم کرم اللہ پراچہ نے متعارف کرایا تھا- ماما کی دکان پر گاھک تو دن میں ایک آدھ ھی آتا تھا، مگر بازار میں ارد گرد کے سب دکان دار ماما مکھی ھی سے چائے منگواتے تھے، اس لیے ماما کا گذارہ چلتا رھا-
سارا شہر اسے ماما مکھی کہتا تھا ، مگر وہ برا منانے کیی بجائے اس نام پر خوش ھوتا تھا- ھر وقت ھنستا ھنساتا رھتا تھا- ماما مکھی کی چائے لاجواب ھوتی تھی- اس کی خوبیاں آپ کو سمجھانے کے لیے کسی شاعر کا یہ مصرع یاد آرھا ھے ——— ھائے کم بخت تو نے پی ھی نہیں ———-
شاعر نے تو کسی اور چیز کے بارے میں کہا تھا، مگرر ماما مکھی کی چائے بھی اپنی جگہ بے مثال ھوتی تھی-
ماما مکھی کی سب سے دلچسپ عادت یہ تھی کہ جب سےے ھوش سنبھالا، صبح سویر ے اٹھ کر سب سے پہلے دریا میں چھلانگ لگا دیتا تھا- دسمبر ، جنوری کی سخت سردی، بارش ، آندھی کچھ بھی ھو ماما مکھی نے دریا میں نہانے کا ناغہ کبھی نہ کیا- خوب نہا کر قریبی مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد ماما مکھی اپنی دکان میں جابٰیٹھتا تھا- ایک دن میں نے پوچھا ماما آپ بیمار بھی تو ھوتے ھوں گے- ماما مکھی نے قہقہہ لگا کر کہا تمہیں کیا پتہ، سوبیماریوں کا علاج تو اسی دریا کا پانی ھے——– منورعلی ملک —
( ماما مکھی کی پکچر کے لیے سعیدالثقلین پراچہ کاممنونن ھوں- کالاباغ کے خلیل صاحب بھی اس سلسلے میں مہربانی کرتے رھتے ھیں )11 اپریل 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——-
ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن سے بھی ھم داؤدخیل کے لوگوں کی بہت سی سہانی یادیں وابستہ ھیں- روزانہ داؤدخیل سے سینکڑوں لوگ صبح سات بجے لاھور سے ماڑی انڈس جانے والی ٹرین سے کالاباغ جایا کرتے تھے- ان میں سے کچھ لوگ تو ریلوے ملازم تھے- کچھ لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے کالاباغ جایا کرتے تھے- سکندرآباد تو بعد میں آباد ھؤا، ھمارے بچپن میں اس تمام علاقے کا شاپنگ سنٹر کالاباغ ھی ھؤا کرتا تھا-
ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن پر ٹرین سے اتر کر ھم لوگ پیدل کالاباغ پل کے پار دائیں ھاتھ پہ کالاباغ بازار میں جاا پہنچتے تھے- تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر کی اس واک کا ایک اپنا لطف تھا-
واپسی بھی ماڑی انڈس ٹرین سے ھوتی تھی، جو پانچ بجےے ماڑی انڈس سے روانہ ھو کر سواپانچ بجے داؤدخیل پہنچ جاتی تھی-
داؤدخیل سے ماڑی انڈس کو کچھ اور ٹرینیں بھی آتی جاتی تھیں- ماڑی انڈس سے کندیاں ایک ٹرین صبح دس بجے جاتی تھی جسے ‘ڈبے‘ کہتے تھے- پشاور سے ملتان جانے والی ایک ٹرین بھی ماڑی انڈس سے ھو کر آتی تھی- صبح چار بجے ماڑی انڈس سے راولپنڈی جانے والی ایک ریل کار بھی داؤدخیل سے ھو کر جاتی تھی- یہی ریل کار شام کے قریب پنڈی سے واپس آکر ماڑی انڈس چلی جاتی تھی- راولپنڈی سے انے جانے والی کچھ اور ٹرینیں بھی داؤدخیل سے ھو کر جاتی تھیں-
اب کچھ بھی باقی نہیں رھا- ریلوے سٹیشن ھماری یادوں کے قبرستان بن چکے ھیں- قصور ھماری مقامی سیاسی قیادت کا بھی ھے- ٹرینوں کی بحالی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان تو کسی طرف سے سنائی نہیں دیتا- صرف کچہری بازار میانوالی کے معروف تمباکو ڈیلر حاجی محمد شفیع مقامی اخبارات میں روزانہ فریاد کرتے رھتے ھیں- اللہ انہیں استقامت عطا فرمائے ، اور ھم سب کی آرزو پوری کردے ——– منورعلی ملک-12 اپریل 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —
ھمارے بچپن کے زمانے میں کندیاں کی شہرت کا سبب اس کا ریلوے سٹیشن ھؤا کرتا تھا- کیونکہ اس وقت نہ تو چشمہ بیراج تھا، نہ ھی فاروق روکھڑی اور افضل عاجز شاعر کی حیثیت میں منظر عام پر آئے تھے- بلکہ فاروق روکھڑی کا تو ابتادئی تعارف ھی یہی سٹیشن ھؤا کرتا تھا، کہ وہ یہاں ریلوے کے شعبہ مواصلات میں ملازم تھے- شاعری بہت بعد میں شروع کی-
کندیاں ھمارے علاقے کا سب سے اھم ریلوے سٹیشن تھا– میانوالی سے لاھور اور ملتان آنے جانے والوں کو یہیں سے ھو کرآناجانا پڑتا تھا- یہ جنکشن سٹیسن ھے ، جنکشن وہ ستیشن ھوتا ھے جہاں سے دو سے زائد سمتوں کوگاڑیاں جاتی ھوں- میرا داؤدخیل بھی جنکشن ھے، کیونکہ راولپنڈی، پشاور وغیرہ کو جانے والی ریلوے لائین یہیں سے نکلتی ھے-
کندیاں صرف ریلوے سٹیشن ھی نہیں ، انجنوں کیی ورکشاپ بھی ھے، انجنوں کی خاطر تواضع اور مرمت کا بہت سا کام اسی ورکشاپ میں ھوتا ھے- آنے جانے والی ٹرینوں کو صحت مند، تازہ دم انجن یہیں سے ملتے تھے-
کندیاں ریلوے سٹیشن کی چائے بہت بدنام ھؤا کرتی تھی– ایک آدھ بار پی کر دیکھی، تو احساس ھؤ کہ لوگ غلط نہیں کہتے- یہ چائے اتنی بدنام تھی کہ کسی گھر میں کبھی چائے خراب بنتی تو گھر کا کوئی فرد ان الفاظ میں احتجاج کیا کرتا تھا ‘ اے کندیاں ٹیشن آلی چاہ میں ناں پیندا، نویں بنڑاؤ‘ —
کندیاں میں جناب فاروق روکھڑی اور افضل عاجز کےے علاوہ بھی ھمارے بہت سے دوست تھے- جو گذر گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، جو باقی ھیں ان کی حفاظت فرمائے- میرے دو محترم ٹیچرز بھی کندیاں کے تھے- ایک تو راجہ الہی بخش تھے، جو داؤدخیل سکول میں ھمارے ھیڈماسٹر تھے- ھم دسویں کلاس میں پہچے تو ملک خدا بخش (کے بی ملک) صاحب ان کی جگہ آگئے- راجہ الہی بخش صاحب کا آبائی گھر کالاباغ میں تھا، بعد میں مستقل طور پر کندیاں جابسے-
پروفیسر صاحبان میں سے ایک تو میرے بہت پیارے بھائی، مرحوم ملک محمد انور میکن تھے- ان پر دو پوسٹس پچھلے سال لکھ چکا ھوں- دوسرے خضرحیات کندی صاحب ھیں، جو اب گورنمنٹ کالج میانوالی میں شعبہ طبیعیات (فزکس) کے سربراہ ھیں-
دوستوں میں نامور صحافی عطاءاللہ شاھین، نوجوان شاعر ظفراقبال برق ، سلیم خان مروت اور اصغرحسین اصغر کے نام اس وقت یاد آرھے ھیں- یہ سب دوست ھمیں منصورآفاق اور میرے بیٹے مظہر نے عطا کیے، کہ یہ سب ان دونوں کے دوست تھے- اس لیے میں پیار سے انہیں منصور کا گینگ بھی کہا کرتا تھا– یہ سب بہت پیارے انسان ھیں- اللہ انہیں خوش رکھے-
میرےایک کلاس فیلو ملک عطاءاللہ بھی ھؤا کرتے تھے- کندیاں سکول کے ھیڈماسٹر ریٹائر ھوئے- اب پتہ نہیں کہاں ھوںگے————— منورعلی ملک-13 اپریل 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———–
چشمہ بیراج کی تعمیر نے کندیاں کو ملک گیر شہرت عطاکی- فاروق روکھڑی اور افضل عاجز کی شاعری نے کندیاں کو عالمگیر شہرت دلوادی- مگر کندیاں کا کلچر آج بھی وھی ھے، جو ھم نے اپنے بچپن میں دیکھا- تجارت میں کچھ نہ کچھ ترقی تو ضرور ھوئی مگر لوگوں کا رھن سہن، روایات اور آپس میں محبت کا چلن میرے علم کی حد تک تو آج بھی ویسا ھی ھے- شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سب لوگ ایک دوسرے کو سرسے پاؤں تک جانتے ھیں- کوئی کسی کے لیے اجنبی نہیں- زندہ دل لوگ ھیں – آپس میں مل بیٹھیں تو ان کی باتیں ،، اور آپس میں چھیڑ چھاڑ بہت دلچسپ ھوتی ھے-
کچھ دوستوں نے کل کی پوسٹ پر اپنے کمنٹس میں کندیاں کی دیگر (عصر) کی طرف توجہ دلائی ھے- واقعی یہ بھی کندیاں کی ایک منفرد روایت ھے- مرحوم فاروق روکھڑی اور منصورآفاق کے گینگ کے ساتھ ھمیں بھی ایک دودفعہ کندیاں کی دیگر میں شمولیت کا موقع نصیب ھؤا- عجیب منظر ھوتا ھے- عصر کے وقت پورا شہر بازار اور ریلوے سٹیشن کے نواح میں گھومتا پھرتا نظر آتا ھے- ھوٹلوں ، بازار، اور سٹیشن کے پلیٹ فارم کی رونق دیکھنے کے لائق ھوتی ھے-
چشمہ بیراج کی معاشی اھمیت اپنی جگہ، کندیاں اور میانوالی کے لوگوں کے لیے یہ ایک خوبصورت سیرگاہ بھی ھے- فطرت کے حسن کے کچھ دلنشیں پہلو ایسے ھیں جو صرف یہیں بے نقاب ھوتے ھیں- یوں سمجھ لیجیے کہ چشمہ بیراج کا دورہ انسان کو ری چارج کر دیتا ھے-
کندیاں کے ذکر کا اختتام اپنے دو بہت پیارے دوستوں کی یاد پر کرتا ھوں- اللہ دونوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے، میرے بہت مخلص دوست تھے- ایک تو ریڈیو پاکستان میانوالی کے سٹیشن ڈائریکٹر، احمدآفتاب خان نیازی کے والد محترم، احمد نوازخان نیازی تھے- بی اے کے امتحان میں میرے ساتھی تھے- بہت ذھین تھے ، پورے سنٹر میں اول آئے- بی اے کے بعد ایک انشورنس کمپنی سے وابستہ ھو گئے- نہایت خوش لباس، اپ ٹوڈیٹ ، صاحب بہادر قسم کی شخصیت تھے- ان سے ملنے کو بہت دل چاھتا تھا، آفتاب خان سے کئی بار کہا کہ کبھی ان سے ملاقات کے لیے کندیاں آؤں گا- مگر تقدیر نے موقع نہ دیا- میں لاھور میں تھا- ایک دن اچانک یہ ھولناک خبر سنی کہ خان صاحب یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جابسے-
ھمارے دوسرے بہت مخلص دوست ایڈووکیٹ منظور حسین ھاشمی تھے- کالج سے واپسی پر پروفیسر سلیم احسن اور میں اکثر کچھ وقت ان کے چیمبر میں بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتے تھے- سلیم بھائی اور گلوکارہ مسرت نذیر کے درمیان مقدمہ بازی میں ھمارے کیس کی مفت پیروی منظور ھاشمی صاحب ھی نے کی تھی- یہ بھی اچانک دنیا سے رخصت ھوگئے- رھے نام اللہ کا —— منورعلی ملک-14 اپریل 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——-
ھم گھر کے صحن کے ایک کونے میں روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے اورگندم یا باجرے کے کچھ دانے ایک پلیٹ میں ڈال کر پرندوں کے لیے رکھ دیتے ھیں- ساتھ پانی کا ایک کٹورا بھی- چڑیاں اور لالڑیاں وغیرہ کھاتی پیتی رھتی ھیں– دو فاختائیں بھی کہیں سے آ جاتی ھیں-
لاھور میں چڑیاں کم، جنگلی کبوتر بہت زیادہ ھیں- یہہ گھروں کی چھتوں پر بسیرا کرتے ھیں- اکرم بیٹا اپنے گھر کے اردگرد والے کبوتروں اور چڑیوں کے لیے ھرماہ ایک کلو باجرے کے دانے لیتا ھے- اب میانوالی میں امجد بھی لے آتا ھے-
پرندوں کی خدمت بہت بڑی نیکی ھے- کیونکہ یہ بچارےے خود تو کما نہیں سکتے۔ آپ ان کے رزق کا وسیلہ بن جائیں تو ان کی معصوم دعائیں آپ کی قسمت سنوار سکتی ھیں- بہت سادہ سی نیکی ھے اللہ توفیق دے تو ضرور کیاکریں-
کبھی فارغ ھوتا ھوں تو صحن میں کرسی ڈال کر انن پرندوں کی دلچسپ حرکتیں دیکھتا رھتاھوں- ایک دن ایک چڑیا پلیٹ میں سے کچھ کھارھی تھی کہ ایک چڑا آگیا، چڑیا نے اسے مارپیٹ کر بھگا دیا ، وہ سرجھکا کر ایک طرف بیٹھ گیا، اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا- اتنے میں دوچڑے اور آگئے- اپنے بھائی صاحب کی اوقات دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئے کہ حالات ٹھیک نہیں- اس لیے وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے- جب چڑیا بیگم اپنا کام مکمل کرکے اڑ گئیں، تو یہ تینوں شیر جوان آگے بڑھے اور کھانے پر ٹوٹ پڑے-
آپ لوگ اپنا رونا روتے رھتے ھیں، پرندوں کی دنیا پہہ نظر ڈالیں تو ادھر بھی یہی حال ھے-— منورعلی ملک-15 اپریل 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——–
معروف صحافی ، دانشور اور ڈراما نگار منو بھائی کو کون نہیں جانتا- ان کا اصل نام منیر احمد قریشی ھے- میانوالی سے ان کا بھی خاصا گہرا تعلق ھے- ان کا بچپن ضلع میانوالی اور بھکر کے مختلف ریلوے سٹیشنوں پرگذرا، کیونکہ ان کے والد محترم سٹیشن ماسٹر تھے- منو بھائی کو قدرت نے بہت اعلی ادبی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا، اس لیے قلم ان کا ذریعہ معاش بھی بن گیا، وسیلہ عزت بھی- پاکستان کے ترقی پسند دانشوروں میں یہ اس وقت سب سے سینیئر ھیں- صحافت اور ڈرامانگاری میں بھی اپنے نظریات کا دامن ھاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے- بہت پیارے انسان اور اچھے دوست ھیں-
1982 میں منوبھائی ایک صحافتی مشن پر میانوالی تشریف لائے- یہاں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ، پروفیسر محمد سلیم احسن اور منصور آفاق نے ڈسٹرکٹ کونسل ھال میں منو بھائی کے لیے ایک استقبالیہ تقریب کا اھتمام کیا- بہت یادگار تقریب تھی- منو بھائی نے میانوالی میں گذرے بچپن کی بہت خوبصورت یادیں شیئر کیں- اس موقع پر ایک محفل مشاعرہ کا بھی اھتمام تھا- مقامی شعراء کے علاوہ منو بھائی نے بھی اپنی خوبصورت پنجابی شاعری میں سے کچھ ٹوٹے سنائے-
دوسرے دن منو بھائی کے صحافتی مشن کے سلسلے میں ھم سب نے ان کے ھمراہ کوٹ چاندنہ کے افغان مہاجرین کیمپ کا دورہ کیا – اس دورے میں ھمارے نوجوان ساتھی ظفر اقبال برق نے ھمارے لیے سہولت کار کے فرائض بہت خوبی سے ادا کیے- ظفراقبال برق ان دنوں کیمپ میں ملازم تھے-
افغان مہاجرین کیمپ کے اس دورے کی داستان انشاءاللہ کل سناؤں گا- – منورعلی ملک-17 اپریل 2017
میرا میانوالی —
20 گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ —– !!!!
پچھلے پانچ دن سے یہی حال ھے-
یہ جو حکومت نے پانی اور بجلی کے دو وزیر بٹھا رکھےے ھیں ،
کیا ان بزرگوں کو پاکستان کے نقشے میں میانوالی نظرر نہیں آتا – ؟؟
خیر سے ھمارے دو ایم این ایز بھی ھیں- کیا وہ اپنے یوفون پیکیج کے فری منٹس میں سے چند منٹ متعلقہ وزیر سے اپنی زبان میں بات پر صرف نہیں کر سکتے- وزیر بھی ان کی طرح ایم این اے ھی ھیں- اپنے کولیگ سے بات کرنے میں شرمانا نہیں چاھیے- یہ بھی نہیں ھو سکتا تو کم ازکم اسمبلی میں احتجاج تو کیا جا سکتا ھے-
اپوزیشن تو اپنی سب امیدیں پانامہ کیس سے وابستہ کر کے لمبی تان کرکسی معجزے کے خواب دیکھ رھی ھے- اس کیس کا فیصلہ یہ تو نہیں ھو سکتا کہ ایک جائے دوسرا آجائے- الیکشن تو پھر بھی لڑنا ھوگا-
ایک دوسال پہلے ، تو ایسی صورت حال میں ڈی سی او نے ھی متعلقہ حکام سے بات کر کے لوڈشیڈنگ کم کرادی تھی- کیا یہ مہربانی اب نہیں ھو سکتی ؟ خدانخواستہ صورت حال زیادہ بگڑ گئی تو law and order کے مسائل سے انتظامیہ ھی کو نمٹنا پڑے گا – —
کوئی تو کچھ کر کے دکھادے- !— منورعلی ملک-18 اپریل 2017
میرا میانوالی —–
ظفراقبال برق نے ھمارے لیے افغان مہاجرین کے ایک قبیلے کے سردار کے ھاں استقبالیہ کا بندوبست کیا تھا- منو بھائی کے ھمراہ جونہی ھمارا قافلہ سردار کے ھاں پہنچا دس افغان جوانوں نے بندوقوں کے ھوائی فائر کر کے ھمارا استقبال کیا- ملک (وہ لوگ قبائلی سردار کو ملک کہتے ھیں) بہت شریف اور معززانسان تھا- کہنے لگا مجھے افسوس ھے کہ آپ اس وقت ھمارے مہمان بن کر آئے ھیں، جب ھم لٹ پٹ کر مہاجرین کی حیثیت میں یہاں بیٹھے ھیں- اگرآپ افغانستان میں ھمارے ھاں آتے تو آپ دیکھتے کہ افغان اپنے مہمانوں کی خدمت کیسے کرتے ھیں— بہر حال ، اس حال میں بھی انہوں نے ھمیں بہت اچھا کھانا کھلایا-
منو بھائی نے افغان معاشرت اور افغانستان کی موجودہہ حالت کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے- انہوں نے ھمیں میانوالی ھی میں بتا دیا تھا کہ میں کلاشنکوف بھی دیکھنا چاھوں گا- اس زمانے میں کلاشنکوف کا نام تو مشہور ھو چکا تھا، مگر دیکھی بہت کم لوگوں نے تھی- یہ دراصل روس کی ایجاد ھے، جو روس سے جنگ کے دوران افغانوں کے ھاتھ لگ گئی– کلاشنکوف اس روسی فوجی جرنیل کا نام ھے جس نے یہ ایجاد کی تھی-
منو بھائی کو کلاشنکوف کی زیارت بھی کرادی گئی– کیمپ کے سکول اور ھسپتال کا دورہ کرنے کے بعد ھم واپس میانوالی آگئے- اسی شام منو بھائی واپس لاھورروانہ ھو گئے- کوٹ چاندنہ کیمپ کے بارے میں کچھ اور دلچسپ باتیں انشاءاللہ کل بتاؤں گا —- منورعلی ملک-19 اپریل 2017
میرا میانوالی ———
میانوالی سے ھرماہ میں , پروفیسر سلیم احسن، پروفیسر مقصود ملک ، پروفیسر لالا فاروق اور کچھ دوسرے دوست شاپنگ کے لیے کوٹ چاندنہ جایا کرتے تھے- وھاں روس اور ایران کی مصنوعات بہت کم قیمتوں پر مل جاتی تھیں-
اب تو افغان دکان دار بھی سیانے ھو گئے ھیں- اس زمانے میں یہ بہت بھولے بھالے لوگ ھوتے تھے- دکان دار کسی چیز کی قیمت سو روپے بتاتا تو ھم کہتے بیس روپ لے لو، وہ ھنس کر کہتا چلو، یہی دے دو-
کیمپ کے بازار میں، الیکٹرانکس کی روزمرہ ضرورت کی چیزیں، کاسمیٹکس ( شیمپو، صابن، کریم پاؤڈر وغیرہ ) اور کپڑا بہت اچھی کوالٹی کا ملتا تھا- ھم حسب توفیق کچھ نہ کچھ خرید لاتے تھے- اس موقع پر لالا فاروق کی پشتو بہت کام آتی تھی- ھم میں سے صرف وھی پشتو بول سکتے تھے- ویسے تو افغان دکاندار چوری چھپے اسلحہ بھی بیچتے تھے، لیکن ھمیں کبھی اسلحہ خریدنے کی ضرورت نہ پڑی-
دوپہر کا کھانا ھم ایک مشہور افغان ھوٹل پہ کھایا کرتے تھے- اس ھوٹل میں کوئی میز کرسی نہ تھی- تین چار فٹ اونچے وسیع و عریض پلیٹ فارم پر موٹے خوبصورت افغانی قالین بچھے ھوتے تھے- ان کے کناروں پر تکیے رکھے ھوتے تھے- انہی قالینوں پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھلایا جاتا تھا- یہاں کا سب سے مقبول کھانا تکے تھے- یہ تکے ھوتے تو گائے کے گوشت کے تھے، لیکن چکن سے بھی زیادہ لذیذ ھوتے تھے- ان کے ساتھ پولیس کے چھتر کی شکل کی تندوری روٹیاں ھوتی تھیں-
پہلے دن میں ھوٹل میں ایک حمام ( ٹونٹی والا ڈرم ) کی ٹوٹی کھول کر ھاتھ دھونے لگا، تو ھوٹل کا ملازم بھاگتا ھؤا آیا ، اور میرا ھاتھ روک کر بولا ‘ یخنئے دا ‘ (یہ یخنی ھے) گوشت کی یہ لذیذ یخنی بھی کھانے کے ساتھ ملتی تھی- اب پھر کبھی وھاں جانا ھؤا تو انشاءاللہ کیمپ کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی لکھوں گا- ——– منورعلی ملک-20 اپریل 2017
میرا میانوالی ——–
ھمارا آبائی گاؤں مندہ خیل تھا- میرے دادا کے والد اور چچا وھاں سے ڈھیرامید علی شاہ منتقل ھوگئے- 1929 کے سیلاب کے بعد میرے دادا اپنی فیملی سمیت ھجرت کرکے داؤدخیل آبسے – میں نے ھوش سنبھالا تو مندہ خیل میں ھماری ایک خالہ اورکچھ دوسرے رشتہ داررھتے تھے- میری دادی بھی مندہ خیل کے معزز قریشی خاندان سے تھیں- ان کے حوالے سے ھمارے بہت سے رشتہ دار مندہ خیل میں رھتے تھے- دوچار گھر اب بھی وھاں موجود ھیں-
مندہ خیل میں ھمارے رشتہ داروں کے کچھ گھر محلہہ گگڑخیل میں تھے- گگڑخیل مندہ خیل میں نیازی پٹھانوں کا سب سے بڑا قبیلہ تھا- بہت اچھے لوگ ھیں، ھمارے بزرگوں سے ان کے بہت قریبی برادرانہ مراسم تھے- ھمارے ایک ماموں محمد حسین محلہ گگڑخیل کی جامع مسجد کے خطیب بھی تھے- ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے بھائی احمددین نے یہ منصب سنبھالا- وہ سکول ٹیچر بھی تھے- انہیں کئی بار حج کی سعادت نصیب ھوئی- حج کے دوران ھی مدینہ منورہ میں انتقال ھؤا، اوراسی خاک طیبہ میں دفن ھوئے-
میرے خالو نورکمال کمر مشانی کے قریبی گاؤں اللہ خیلل کے پرائمری سکول میں ھیڈماسٹر تھے- ڈاکٹر ممتاز شاہ بھی ھمارے کزن تھے- کچھ عرصہ پہلے اس دنیا سے رخصت ھوگئے- بہت معروف اور ملنسار انسان تھے-
اس وقت مندہ خیل میں ڈاکٹر ممتاز شاہ کے صاحبزادےے اور ھمارے ایک اور کزن کے بیٹے محمدھاشم رھتے ھیں-
مندہ خیل میں میرے ایک دوست تو اللہ بخشے ماسٹر ربب نواز خان عربی ماسٹر تھے- دوسرے محمد گل ھاشم شاہ ھمدانی تھے- بہت عرصہ سے مندہ خیل نہیں جا سکا، اس لیے پتہ نہیں گل ھاشم شاہ صاحب اب کہاں ھیں-
میرے والد صاحب کے بہت اچھے دوست ماسٹر اگرخانن بھی تھے- ھمارے بہت زندہ دل دوست ماسٹر عبدالعزیز تھے , وہ بھی اس دنیا سے رخصت ھوگئے- میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے منہ بولے بھائی عالم خان گگڑ خیل بھی تھے- ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ، اب ھیں یا نہیں— جو لوگ یہ دنیا چھوڑ گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، جو موجود ھیں اللہ انہیں خوش رکھے-
دریا کی ایک شاخ مندہ خیل شہر سے لگ کر بہتی تھی- بچپن میں ھم وھیں دریا میں نہایا بھی کرتے تھے-
بہت سی اور یادیں مندہ خیل سے وابستہ تھیں ، سب خواب و خیال ھو گئیں – — رھے نام اللہ کا ——–21 اپریل 2017
میرا میانوالی ————
بچپن میں ، جب بھی میں کچھ دن کے لیے مندہ خیل آتا ” ماموں نور کمال کے ساتھ سائیکل پر کمر مشانی میلے پہ ضرور جایا کرتا تھا-
کمر مشانی کا میلہ ضلع میانوالی کا سب سے بڑا میلہ ھے جو صدیوں سے ھر سوموار کو منعقد ھوتا ھے- ویسے تو ھر ھفتے میانوالی میں بھی میلہ ھوتا ھے ، مگر چیزوں کی ورائیٹی، کوالٹی اور مناسب قیمتوں کے لحاظ سے کمر مشانی کا میلہ اس سے زیادہ اھم ھے-
یہ میلہ کمر مشانی کے بس سٹاپ کے دونوں طرف تقریباا آدھ کلومٰیٹر تک پھیلے ھوئے سٹالز (فرشی دکانوں) پرر مشتمل ھوتا ھے- تازہ سبزی، فروٹ، دیسی مرغی، انڈے،، خالص دیسی گھی ، کپڑا جوتے اور چھوٹا موٹا آرائشی سامان یہاں بہت مناسب قیمتوں پر دستیاب ھوتا ھے- ٹولہ کے شہد کی طرح میٹھے ، خوشبودار خربوزے بھی اسی میلے میں ملتے ھیں –
کالاباغ کی طرح کمر مشانی بھی اردگرد کے علاقے کاا شاپنگ سنٹر ھے- میلے کے دن پورے علاقے کے لوگ خریدوفروخت کے لیے یہاں پھرتے نظرآتے ھیں-
ھمارے بچپن کے زمانے میں غلام خواجہ خان کی دکانن کمر مشانی کا سب سے بڑا کریانہ سٹور ھؤا کرتی تھی- ماموں اپنے گھر کا تمام سودا وھیں سے خریدتے تھے- غلام خواجہ خان کے بھائی ماسٹر سیف اللہ خان بھی ماموں کے گہرے دوست تھے-
کمر مشانی میں میرے بہت مہربان دوست معروف شاعرر اظہر نیازی بھی رھتے ھیں- ان پر ایک مفصل پوسٹ پچھلے سال لکھ چکا ھوں– کمر مشانی میں میرے ایک فیس بک فرینڈ اسداللہ خان بھی ھیں- بہت دلچسپ پوسٹس لکھتے رھتے ھیں- پچھلے دنوں بیمار تھے- اللہ شفائے کاملہ عطا فرمائے-
کسی زمانے میں یہاں عطا محمد زرگر ( عطوسنارا) بھیی ھؤاکرتے تھے- بہت سریلے گلوکار تھے- جوانی ھی میں دنیا سے رخصت ھوگئے – اللہ مغفرت فرمائے-
جس شخصیت کی پکچر آپ اس پوسٹ میں دیکھ رھےے ھیں، یہ حسن خان کچھوخیل ھیں- ان سے لالا عیسی خیلوی کے ھاں ایک دو ملاقاتیں ھوئی تھیں- ھمارے دوست پروفیسر اشرف علی کلیار بھی ان کے بہت مداح ھیں- حسن خان کچھوخیل فخر کمرمشانی کہلاتے تھے- بہت نرالی شخصیت تھے- ایسی شخصیت ایک مکمل پوسٹ کی مستحق ھے- انشاءاللہ ان کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کر کے ان پر ایک جامع پوسٹ اگلے ھفتے لکھوں گا — پوسٹ میں شامل پکچرز کے لیے مندہ خیل کے ظفراللہ خان کا ممنون ھوں- گگڑ خیل ھمیشہ کی طرح آج بھی ھمارے کام آرھے ھیں – اللہ انہیں سلامت رکھے- ——- منورعلی ملک-22 اپریل 2017
میرا میانوالی ————
ھم داؤدخیل سے چلے تھے، کالاباغ، کندیاں ، پپلاں، ماڑی انڈس، کوٹ چاندنہ ، مندہ خیل سے ھوتے ھوئے کل کمر مشانی پہنچے تھے- ارادہ تویہاں سے واپسی کا تھا، پھر آپ کو کہیں اور لے جانا تھا- مگر کمرمشانی پہنچ کر یاد آیا کہ آگے تو ترگ ھے جہاں بہت سے دوستوں کی یادیں میری منتظر ھیں- اس لیے آج ترگ کا ذکر ھوگا-
ترگ، کمر مشانی اور عیسی خیل کے درمیان ایک مشہور قصبہ ھے- کسی زمانے میں ریلوے سٹیشن بھی تھا- میری ترگ میں آمدورفت سکول اور اڈے تک محدود رھی- ترگ اڈے پر ھر وقت رونق لگی رھتی ھے- اکثر دوست یہں مل جاتے تھے- سکول سے تعلق اس زمانے میں قائم ھؤا جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا- اس وقت ترگ میں ھائی سکول نہیں تھا- مڈل سکول تھا جس کے ھیڈماسٹر عمر حیات خان میرے بہت محترم دوست تھے- سکول کے ٹیچرز میں سے حاجی احمد خان، امان اللہ خان اور سردارعلی عباسی میرے بہت قریبی دوست تھے- جب یہاں ھائی سکول بنا تو عیسی خیل کے محمد اکرم شاہ یہاں ھیڈماسٹر مقرر ھوئے- وہ بھی ھمارے بہت محترم دوست تھے- ترگ کے نوجوانوں کی ادبی تربیت ماسٹر شیر رسول صاحب کرتے تھے- تحریر و تقریر کے ماھر تھے- ترگ کے لوگ آج بھی انہیں بہت عقیدت و احترام سے یاد کرتے ھیں-
ترگ کی شہرت کی ایک وجہ یہاں کا مشہورومعروف پیر گھرانہ ھے- اسی نسبت سے ترگ کو ترگ شریف بھی کہا جاتا ھے- اس گھرانے کے صا حبزادہ بشیرالدین صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے سٹوڈنٹ رھے– بہت اچھے سٹوڈنٹ تھے– میرے ایک بہت پیارے دوست خان امیرخان بھی تھے- ایم اے انگلش تھے- کمر مشانی سکول میں سبجیکٹ سپیشلسٹ تھے- ریٹائر ھو چکے ھوں گے-
ترگ میں میرے ایک اور بہت پیارے سٹوڈنٹ نیازاحمد بھمب بھی رھتے ھیں – ایم اے انگلش میں میرے سٹوڈنٹ رھے- بہت اچھے گلوکار بھی تھے- آج کل کسی سکول میں ٹیچر ھیں- میری پوسٹس پر اکثر کمنٹ دیتے رھتے ھیں-
ترگ کے امداد حسین خان بہت اچھے ناول نگار ھیں- میانوالی میں ایک دو ادبی تقریبات میں ان سے ملاقات ھوئی ، بہت اچھے قلمکار ھیں-
مرحوم عتیل عیسی خیلوی کا دفتر بھی ترگ میں تھا، ان کے ھاں آنے جانے میں باقی دوستوں سے بھی ملاقات ھو جاتی تھی- جوگذر گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، جو باقی ھیں انہیں شاد و آباد رکھے- بہت اچھا وقت گذرا ان لوگوں کے ساتھ- ——– منورعلی ملک-23 اپریل 2017
میرا میانوالی ——
ھم داؤدخیل سے چلے تھے، کالاباغ، کندیاں ، پپلاں، ماڑی انڈس، کوٹ چاندنہ ، مندہ خیل سے ھوتے ھوئے کل کمر مشانی پہنچے تھے- ارادہ تویہاں سے واپسی کا تھا، پھر آپ کو کہیں اور لے جانا تھا- مگر کمرمشانی پہنچ کر یاد آیا کہ آگے تو ترگ ھے جہاں بہت سے دوستوں کی یادیں میری منتظر ھیں- اس لیے آج ترگ کا ذکر ھوگا-
ترگ، کمر مشانی اور عیسی خیل کے درمیان ایک مشہور قصبہ ھے- کسی زمانے میں ریلوے سٹیشن بھی تھا- میری ترگ میں آمدورفت سکول اور اڈے تک محدود رھی- ترگ اڈے پر ھر وقت رونق لگی رھتی ھے- اکثر دوست یہں مل جاتے تھے- سکول سے تعلق اس زمانے میں قائم ھؤا جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا- اس وقت ترگ میں ھائی سکول نہیں تھا- مڈل سکول تھا جس کے ھیڈماسٹر عمر حیات خان میرے بہت محترم دوست تھے- سکول کے ٹیچرز میں سے حاجی احمد خان، امان اللہ خان اور سردارعلی عباسی میرے بہت قریبی دوست تھے- جب یہاں ھائی سکول بنا تو عیسی خیل کے محمد اکرم شاہ یہاں ھیڈماسٹر مقرر ھوئے- وہ بھی ھمارے بہت محترم دوست تھے- ترگ کے نوجوانوں کی ادبی تربیت ماسٹر شیر رسول صاحب کرتے تھے- تحریر و تقریر کے ماھر تھے- ترگ کے لوگ آج بھی انہیں بہت عقیدت و احترام سے یاد کرتے ھیں-
ترگ کی شہرت کی ایک وجہ یہاں کا مشہورومعروف پیر گھرانہ ھے- اسی نسبت سے ترگ کو ترگ شریف بھی کہا جاتا ھے- اس گھرانے کے صا حبزادہ بشیرالدین صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے سٹوڈنٹ رھے– بہت اچھے سٹوڈنٹ تھے– میرے ایک بہت پیارے دوست خان امیرخان بھی تھے- ایم اے انگلش تھے- کمر مشانی سکول میں سبجیکٹ سپیشلسٹ تھے- ریٹائر ھو چکے ھوں گے-
ترگ میں میرے ایک اور بہت پیارے سٹوڈنٹ نیازاحمد بھمب بھی رھتے ھیں – ایم اے انگلش میں میرے سٹوڈنٹ رھے- بہت اچھے گلوکار بھی تھے- آج کل کسی سکول میں ٹیچر ھیں- میری پوسٹس پر اکثر کمنٹ دیتے رھتے ھیں-
ترگ کے امداد حسین خان بہت اچھے ناول نگار ھیں- میانوالی میں ایک دو ادبی تقریبات میں ان سے ملاقات ھوئی ، بہت اچھے قلمکار ھیں-
مرحوم عتیل عیسی خیلوی کا دفتر بھی ترگ میں تھا، ان کے ھاں آنے جانے میں باقی دوستوں سے بھی ملاقات ھو جاتی تھی- جوگذر گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، جو باقی ھیں انہیں شاد و آباد رکھے- بہت اچھا وقت گذرا ان لوگوں کے ساتھ- ——– منورعلی ملک-23 اپریل 2017
میرا میانوالی/ میرا تلہ گنگ ——-
ترگ سے آپ کو تلہ گنگ لے آیا ھوں- تلہ گنگ کا دورہ میرے لیے بہت ضروری تھا کہ یہ میرے سسرال کا شہرھے-
مندیال قبیلہ تلہ گنگ کا خاصا بڑا اعوان قبیلہ ھے- میانوالی چکوال روڈ پر مسجد مندیال کے گردونواح میں مندیال محلہ ھے- یہی میرے سسرال کا علاقہ ھے- یہاں دس بارہ گھر ھمارے قریبی رشتہ داروں کے ھیں- ھم اعوانوں کی تمام خوبیاں خامیاں ھمارے مندیال رشتہ داروں میں بھی نمایاں ھیں –
تلہ گنگ پہلے ضلع اٹک کی تحصیل ھؤا کرتا تھا- چکوالل ضلع بنا تو تحصیل تلہ گنگ کو ضلع چکوال سے ملحق کردیا گیا- کوئی خاص فرق نہیں پڑا ، کیونکہ زبان اور کلچر چکوال کا بھی وھی ھے-
تلہ گنگ شہر کے ارد گرد بہت سے چھوٹے بڑے گاؤں دس پندرہ کلومیٹر کے فاصلے تک پھیلے ھوئے ھیں- ان سب کا شاپنگ سنٹر تلہ گنگ ھی ھے- یہاں کی مصنوعات میں کسی زمانے میں تلہ گنگ کا زری والا کھسہ پورے پاکستان میں مشہورتھا- اب اس معیار کا تو نہیں بہر حال مہنگا سستا مل جاتا ھے- شادی پر ایک جوڑا مجھے بھی پہنایا گیا تھا– یہ رئیس لوگوں کا پہناوا ھے، اس لیے بہت کم بنتا ھے-
عمرحیات بیکرز کے بنائے ھوئے ھلکے پھلکے لذیذ بسکٹ صرف تلہ گنگ ھی میں ملتے ھیں- مین بازار میں عمرحیات بیکرز کی دکان ھؤا کرتی تھی ، اب تو سنا ھے ان کا ماشآءاللہ بہت وسیع و عریض کاروبار ھے- ایک پلازا بھی ھے-
کپڑے دھونے کا صابن بھی تلہ گنگ میں بہت اچھا بنتا تھا- مین بازار میں نسوار کی ایک فیکٹری بھی ھے- صابن اور نسوار بنانے والے ملک صاحبان تین چار بھائی تھے، دو نے نسوار کی فیکٹری لگا لی، ایک نے صابن کی-
کسی زمانے میں ھم گرمی کی چھٹیاں تلہ گنگ گذارا کرتے تھے- میرا بڑا بیٹا مظہر علی ملک (علی عمران) تلہ گنگ ھی میں پیدا ھؤا-
تلہ گنگ کی اھمیت آپ کو شروع میں بتا دی تھی- اس لیے چپ چاپ میری انگلی پکڑ کر میرے ساتھ چلتے رھیں- ابھی ایک آدھ دن اور یہاں رھنا ھے – ——– منورعلی ملک —
(پکچرز، مرسلہ ملک طارق محمود اعوان، تلہ گنگ)24 اپریل 2017
یادیں ———-
میانوالی شہر کا محلہ گانگوی خاصا مردم خیز محلہ ھے- گانگوی مسجد کی عقبی گلی کئی نمایاں علمی وادبی شخصیات کا مسکن تھی، سب رخصت ھو گئے- سید نصیر شاہ اور پروفیسر محمد فیروز شاہ کے بارے میں پوسٹس کچھ عرصہ پہلے لکھ چکاھوں- نامور ماھر تعلیم سرفراز خان نیازی کے بارے میں بھی ایک پوسٹ لکھی تھی- سرفرازخان پچھلے ھفتے ملک عدم جا بسے ، اللہ بلند درجات عطا فرمائے- آج اسی گلی سےاپنے ایک اور صاحب علم و فکر دوست یاد آرھے ھیں –
مرحوم غلام جیلانی جاس میانوالی کی ایک معروفف شخصیت تھے- میرا ان سے تعارف اس وقت ھؤا جب ھم دونوں بی اے کا امتحان دے رھے تھے- اسی زمانے میں جاس صاحب نے کچہری روڈ پر مسجد ولیدھڑاں کے بالمقابل ایک بک ڈپو قائم کیاتھا- یہ بک ڈپو میانوالی کے شاعروں اور ادیبوں کی بیٹھک بھی تھا- سید نصیر شاہ سے میرا تعارف یہیں ھؤا- نصیر شاہ صاحب تو سارا دن اسی جگہ جاس صاحب کے ساتھ گذارتے تھے- محترم نصیر شاہ کی بے حساب ادبی صلاحیتوں کو منظر عام پر لا کر ملک بھر میں متعارف کرانے کا اعزاز جاس صاحب کے حصے میں آیا- اس مقصد کے لیے جاس صاحب نے میانوالی سے پہلا ماھوار ادبی رسالہ سوزوسازجاری کیا- سید نصیر شاہ اس رسالے کے ایڈیٹر تھے- ان کی شعری اور نثری تحریروں کو اسی رسالے نےشہرت اور مقبولیت کی شاھراہ پر گامزن کیا- اس رسالے کی اشاعت کے تمام اخراجات جاس صاحب اپنی جیب سے ادا کرتے تھے-
جاس صاحب کا دوسرا بڑا کارنامہ دوستوں کے تعاون سےے میانوالی میں مسلم کالج کا قیام تھا- یہ کالج اپنے دور میں ایک کامیاب تعلیمی ادارہ تھا- کئی دوسرے اچھے اداروں کی طرح وسائل کی کمی کا شکار ھو کر یہ ادارہ دوچار سال سے زیادہ نہ چل سکا- تاھم میانوالی کے لیے جاس صاحب کی خدمات ھمیشہ یاد رکھی جایئں گی- ———- منورعلی ملک-24 اپریل 2017
صلوا علیہ و آلہ
میرا میانوالی / میرا تلہ گنگ ——–
ھمارے تلہ گنگ کے رشتہ داروں میں سے بزرگ تو سب رخصت ھوگئے- میرے ھم عمروں میں سے ملک علیم اقبال المعروف حاجی، ان کے بھا ئی خالد، ھمارے ایک اور کزن ملک اختر اللہ کے فضل سے اس دنیا میں موجود ھیں- ملک اختر اور گل بہار شاعر بھی ھیں- اختر تو خاصے معروف شاعر ھیں ، اب بابا اختر کہلاتے ھیں- زیادہ تر نعتیں اور نوحے لکھتے ھیں- اور اپنے علاقے میں بہت مقبول و معروف ھیں-
گل بہار بیمار رھتے ھیں- اللہ رحم کرے-
تلہ گنگ کے شعراء میں سب سے سینیئر اور سب سے بڑے شاعر سید منظورحیدرشاہ تھے- درویش منش بزرگ تھے – چند سال پہلے عدم آباد جابسے- ان کا نام زندہ رکھنے کو ان کا یہ ایک شعر بھی کافی ھے:
قلم کے ٹکڑے سڑک پر بکھیر دینے تھے
کسی زباں میں سہی، احتجاج کرنا تھا
ایسے ھی کئی اور زندہ جاوید شعر ان کے اکلوتے مجموعہ کلام میں موجود ھیں- پروفیسر یحیی عیش اور پروفیسر شاکر اعوان بھی بہت اچھے شاعر تھے-
ھمارے داؤدخیل کے معروف ماھر تعلیم عبدالغفور خان نیازی بہت عرصہ سییئر انگلش ٹیچر کی حیثیت میں گورنمنٹ ھائی سکول تلہ گنگ میں رھے- عبدالغفور خان میرے بچپن کے کلاس فیلو بھی ھیں ، بہت اچھے دوست بھی-
میرے بچپن کے ایک اورکلاس فیلو، عیسی خیل کے پروفیسر مرحوم نجیب اللہ ھاشمی بھی بہت عرصہ گورنمنٹ کالج تلہ گنگ میں رھے- ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے بڑے بھائی پروفیسر محمد اکبر خان نیازی گورنمنٹ کالج تلہ گنگ کے شعبہ بیالوجی کے سربراہ رھے، پرنسپل بھی- رٰیٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پہ تلہ گنگ ھی میں مقیم ھوگئے- میانوالی سے جغرافیہ کے پروفیسر مرحوم ملک محمد اسلم بھی تلہ گنگ کالج میں چندسال رھے-
تلہ گنگ کے پروفیسر صاحبان میں سے پروفیسر فہیم صاحب، پروفیسر ڈاکٹر ملازم حسین صاحب اور انگلش کے ممتاز صاحب میرے بہت اچھے دوست ھیں- ٹمن کے معروف بزنس مین ملک لیاقت علی خاں بھی میرے بہت پیارے دوست ھیں- اب تو بہت عرصہ سے میں تلہ گنگ نہیں جاسکا- اللہ کرے سب دوست بخیریت ھوں
—— منورعلی ملک —-( پکچر مسجد مندیال کی ھے- جو ھمارے گھر کے عین سامنے واقع ھے )-25 اپریل 2017
میرا میانوالی —
دیکھتے ھی یکھتے دنیا کتنی بدل گئی- !!!
میانوالی ریلوے سٹیشن کی رونق کسی زمانے میں دیکھنے کے لائقق ھوتی تھی- مدتوں کے بچھڑے سجنوں سے اچانک ملاقاتیں یہیں ھوتی تھیں- سٹیشن کا اجڑنا تو بعد کی بات ھے، یہاں گھومنے پھرنے والے لوگ اس سے پہلے ھی غائب ھو گئے، جس طرح زلزلہ آنے سے پہلے پرندے اپنے نشیمن چھوڑ دیتے ھیں-
سلیم احسن صاحب اسلام آباد جا بسے، چوھدری مختار احمد یہ دنیا ھی چھوڑ گئے- صوفی حمیداللہ خان وولٹا بیٹریوں کے کاروبار اور صحافت میں اتنے مصروف ھو گئے کہ بہت عرصہ سے شہر میں کہیں نظر نہیں آئے- مہرزمان خان اور حیات اللہ خان بھی اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے- رٰیٹائرمنٹ کے بعد آزادی ملی تو میں بھی کبھی لاھور کبھی داؤدخیل آنے جانے لگا- کیا کرتا، ساتھی تو سب بکھر کر ادھر ادھر ھوگئے-
ایک زمانہ تھا جب ھرشام ھم سب لوگ حافظ سویٹ شاپ کے بالاخانے میں جمع ھوتے، ادب، سیاست، صحآفت پر دلچسپ گفتگو کے دوران چائے کا پہلا دور چلتا- گفتگو کے بعد ھم مزید چائے کے لیے ریلوے سٹیشن کے ٹی سٹال کا رخ کرتے- لیکن چائے سے پہلے پلیٹ فارم نمبر2 کے دوچار چکرضرور لگا تے- یہ واک چوھدری مختار کے گھٹنوں کے درد کا علاج تھی—
چائے پینے کے بعد کچھ دوست تو اپنے گھروں کو لوٹ جاتے، ھم چند لوگ تیسری چائے کے لیے ڈسٹرکٹ ھیڈکوارٹر ھسپتال کے سامنے، نہر کے کنارے ایک ھوٹل (سجناں دا ھوٹل) کا رخ کرتے- بڑی خوبصورت جگہ تھی- خاص طور پر چاندنی راتوں میں نہر کے کنارے بیٹھ کر چائے پینے کا ایک اپنا مزا تھا- رمضان المبارک میں ھمارا یہ پروگرام ذرا سا ًبدل جاتا تھا ——- منورعلی ملک
یادیں ——- محمد محمود احمد کی برسی — 2015
صدارت میری، مہمان خصوصی ، لالا عطاءاللہ خان عیسیی خیلوی-26 اپریل 2017
میرا میانوالی —-
رمضان المبارک میں ھم لوگ افطار حافظ سویٹ شاپ پہ کیا کرتےتھے- سویٹ شاپ کے مالک حافظ عبدالحلیم پروفیسر سلیم احسن کے بھائی ھیں- حافظ صاحب افطار کا خصؤصی اھتمام کرتے تھے- اب بھی یقینا کرتے ھوں گے- کھجور، پکوڑے ، شربت اور مٹھائی حافظ صاحب فراھم کرتے تھے- ھمارے دوست مرحوم محمد نواز سیاوی حافظ سویٹ شاپ کے سامنے پلاؤزردے کا کاروبار کرتے تھے- وہ بھی افطار میں اپنا حصہ ڈالتے تھے-
افطار کے بعد ھم لوگ ریلوے سٹیشن کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرکے، شام کا کھانا کھانے کے لیے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ھو جاتے تھے- عشاء کی نماز اور تراویح سٹیشن کی مسجد ھی میں ادا کرتے تھے- مسجد کے خطیب مولانا اللہ وسایا ارشد بہت خوش اخلاق نوجوان تھے- انہوں نے مسجد میں خوب رونق لگا رکھی تھی- بہت خوش الحان قاری تھے- ھر جمعرات کی رات عشاء کی نماز کے بعد ذکر و نعت کی محفل ھوتی تھی- پہلے رب کریم کے اسماءالحسنہ اور کلمہ طیبہ کا ورد، اس کے بعد نعت خوانی ھوتی تھی- اس محفل میں نعت خوانی کی سعادت مجھے بھی نصیب ھوتی رھی- مولانا ارشد، احمد رضا ، بھائی کلیم احسن اور ھمار ے دوست ، عربی کے پروفیسر نور محمد سیالوی صاحب اس محفل کے مستقل نعت خوان تھے-
نماز تراویح اور دوسرے معمولات سے فارغ ھو کر ھم پھر اوپر نیچے چائے کے کئی کپ پی کر دن کی چائے کی کمی پوری کیا کرتے تھے- پہلے سٹیشن کے ٹی سٹال پر، پھر نہر کنارے سجناں دا ھوٹل پر ، واپس آکر سٹی سٹریٹ کے ایک چائے خانے پر حاضری –
آدھی رات کے قریب میں تو گھر کی راہ لیتا، بھائی سلیم اور مہر زمان خان تمام رات چل پھر کر گذارتے تھے- سٹیشن کی مسجد میں تہجد کی نماز ادا کر کے سحری کے وقت گھر کا رخ کرتے تھے-ان کا یہ مستقل معمول تھا- ایک دفعہ مجھے بھی کہا کہ ادھر ھی رھو، صبح گھر چلے جانا- میں نے کہا حضرت کل کے روزے کا آدھا ثواب مجھے دے دیں تو آپ کاساتھ دے سکتا ھوں- کیونکہ رات بھر جاگنے کے بعد صبح روزہ رکھنا تو اس فقیر کے بس کی بات نہیں– صبح کالج جا کر تین کلاسز کو پڑھانا بھی ھوتا ھے —— کیازمانہ تھا – !!! —- رھے نام اللہ کا ——- منورعلی ملک-27 اپریل 2017
میرا میانوالی —–
کسی زمانے میں یہ TEA ROSE میری پہچان ھؤا کرتا تھا- یہ کوئی عام ٹی روز نہ تھا- 1982-83 میں میرے ایک کزن ملک سلیم اقبال سعودیہ سے لائے تھے- بڑی عجیب چیز تھی- خالص گلاب کی تروتازہ مہک دن بھر میرا ساتھ دیتی تھی- میں توصبح شرٹ کے گریبان پر ذرا سا سپرے کردیا کرتا تھا، لیکن یہی ذرا سا سپرے لوگوں کو میری طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی ھوتا تھا- اس زمانے کے میرے سٹوڈنٹ اب بھی ملیں تو یادیں تازہ کرتے ھوئے، میرے اس پرفیوم کا ذکر بھی کرتے ھیں- چند ایک نے تو میری پوسٹس پر کمنٹس میں بھی اس کا ذکر کیا ھے- مجھے اس خوشبو کے استعمال کا یہ فائدہ ھؤا کہ جب تک میں کلاس میں رھتا، پوری کلاس میری طرف متوجہ رھتی – ٹیچر کو اور کیا چاھیے- سٹوڈنٹس متوجہ ھوں تو ٹیچرکاکام آسان ھو جاتا ھے-
کالج میں اس پرفیوم کے سب سے بڑے شیدائی میرے محترم بھائی حاجی محمداسلم خان لائبریریئن تھے٠ ان کی فرمائش تھی کہ میں کلاسز سے فارغ ھو کر لائبریری کا ایک چکر ضرور لگایا کروں- میں ان کے حکم کی تعمیل باقاعدہ کرتا رھا- اگر یہ ٹی روز کہیں سے مل سکتا تو انہیں بھی لا دیتا ، مگر یہ کہیں بھی دستیاب نہ تھا- میرے پاس صرف 2 اونس کی بوتل تھی ، اس میں سے حاجی صاحب کو کیا دیتا-ایک دن میں میانوالی ھیڈپوسٹ آفس میں کسی کام سے گیا- باھر نکلا تو ایک صاحب میرے ساتھ ھو لیے- وہ مجھے جانتے بھی نہیں تھے- چند قدم چلنے کے بعد انہوں نے کہا ‘ بھائی صاحب، ناراض نہ ھوں تو ایک بات پوچھ سکتا ھوں ؛
میں نے کہا فرمائیے
کہنے لگے یہ بتائیں آپ نے خوشبو کون سی لگا رکھی ھے-
میں نے نام بتایا تو انہوں نے کہا، پلیز یہ نام مجھے لکھ کر دے دیں- — میں نے ان کی تسلی کے لیے نام لکھ کر دے دیا ، یہ بھی بتا دیا کہ ملے گا بیرون ملک سے-
آج آپ کو یہ باتیں شاید مبالغہ آمیز خودستائی لگ رھی ھوں ، لیکن بحمداللہ ابھی میرے اس دور کے بہت سے دوست اور ساتھی اس دنیا میں موجود ھیں ، جو ان باتوں کی تصدیق کر سکتے ھیں-
ذکر چھڑ ھی گیا تو آج گوگل سے چیک کر کے انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیا وہ کمپنی اب بھی موجود ھے، اور یہ خوشبو بنارھی ھے- یوں تو بازار میں بے شمار قسم کے TEA ROSE ھر جگہ موجود ھیں ، مگر وہ اور چیز ھیں –
خیال رھے کہ بالکل اسی پیکنگ میں بھی ھانگ کانگ کا بنا ھؤا دو نمبر مال بازار میں ملتا ھے- فرق خوشبو خود بتا دیتی ھے٠ منورعلی ملک-28 اپریل 2017
میرا میانوالی —–
یہ ٹی روز Perfumers Workshop New York نامم کی کمپنی بناتی ھے- یہ کمپنی 1970 میں ایک میاں بیوی نے قائم کی- بیوی کانام GUN تھا – (ایسے سچے نام ھمارے ھاں بھی ھونے چاھیئں)-
1970 میں اس کمپنی نے TEA ROSE بنانا شروع کیا تو جلد ھی دنیابھر میں یہ خوشبو مشہورومقبول ھو گئی- کمپنی کے خبر نامے میں لکھا ھے کہ اس کی 5 کروڑ 55 لاکھ سے زائد بوتلیں فروخت ھو چکی ھیں- دنیا بھر میں اس کے ڈسٹری بیوٹر موجود ھیں-
دلچسپ بات یہ ھے کہ اس کے کروڑوں شیدائیوں میں سے نصف خواتین ھیں- بہت بڑی بڑی شہزادیوں اور اداکاراؤں کے نام لکھے ھوئے ھیں- ان میں لیڈی ڈیانا کا نام بھی ھے- ( آپ لیڈی ڈیانا کو نہیں جانتے تو آپ کی قسمت )-
یہ کمپنی اب اور مصنوعات بھی بناتی ھے، لیکن مقبولیت میں TEA ROSE سب سے آگے ھے-
مجھے اس پرفیوم کی آخری بوتل داؤدخیل کے میرے ایک عزیز ملک عنایت اللہ نے عراق سے منگوا کر دی تھی- اللہ جنت نصیب کرے جوانی ھی میں دنیا سے رخصت ھو گئے-
میں نے تقریبا دس سال پہلے لاھور سے ایک بوتل خریدی تھی- پیکنگ اور کمپنی کانام اصلی لکھا ھؤا تھا ، پرفیوم ھانگ کانگ کا دو نمبر مال تھا-
کل کی پوسٹ پر کمنٹس میں بیرون ملک سے کئی دوستوں نے یہ پرفیوم بھجوانے کی آفر کی ھے- اللہ آپ سب کو بے حساب نعمتیں عطا فرمائے، اب وہ جوانی کا دورقصہ ماضی بن چکا- آپ کی محبت اور دعاؤں سے میرا ماحول ھروقت معطر ھی رھتا ھے- 29 اپریل 2017
ایک اچھی خبر ——
آج شام راحت امیر تری خیلوی صاحب اور موچھ کے عاقل خان صاحب نے فون پر ڈوھڑے کے بے مثال شاعر سید خورشید شاہ بخاری سے بات کرائی- شاہ جی نے بتایا کہ ان کی شاعری کا مجموعہ عنقریب راحت تری خیلوی صاحب اپنے ادارے سے شائع کر رھے ھیں-
شاہ جی نے اپنی کتاب کاعنوان تجویز کرنے اور اس کتابب کاتعارف لکھنے کی فرمائش کی- میں نے کتاب کا عنوان ‘ تساں کنڈ کیتی‘ تجویز کردیا ، جو شاہ صاحب، راحت اور عاقل خان کو بہت پسند آیا- یہ میرے لیے ایک اعزاز ھے- کتاب کا تعارف انشاءاللہ چند دن تک لکھ دوں گا-
کتاب کا عنوان، آپ لوگوں کو یاد ھوگا ‘ میں نے شاہ جیی کے ایک ڈوھڑے سے لیا ھے-
انشاءاللہ بدھ کے دن سید خورشید شاہ کے بارے میں پوسٹٹ بھی لکھوں گا –29 اپریل 2017
میرا میانوالی ———–
ایک دن میں کلاس میں کھڑا پڑھارھا تھا کہ دو آدمی کلاس روم کے دروازے پر آئے اور اندر آنے کی اجازت چاھی – میں نے انہیں اندر بلا لیا- انہوں نے کہا ھم ڈسٹرکٹ ھیڈکوارٹر ھسپتال میانوالی سے آئے ھیں – ھمارے ایک مریض کی جان بچانے کے لیے فلاں گروپ کے خون کی ضرورت ھے- آپ سٹوڈنٹس سے کہیں، اگر ان میں سے کوئی ھمارے مریض کو خون دے دے تو یہ ھم پہ بہت بڑااحسان ھوگا-
میں نے کلاس کو بتایا ، مگر سب نے آنکھیں نیچی کر لیں- میں ابھی کچھ کہنے ھی والا تھا کہ ایک لڑکا کھڑا ھو گیا- اس نے کہا ‘ سر، میرا خون اسی گروپ کا ھے، انہیں جتنا خون چاھیئے میں دے دیتا ھوں- یہ کہہ کر وہ ان آدمیوں کے ساتھ ڈسٹرکٹ ھیڈ کوارٹر ھسپتال روانہ ھو گیا-
وہ نیک دل لڑکا تھا آج کا معروف تاجر رھنما اور سیاسی لیڈر امیر خان سوانسی- اللہ کرے تجارت اور سیاست میں بھی اس کا خدمت خلق کا یہ جذبہ سلامت رھے- ایسے لوگ بہت کم ، مگر معاشرے کا بہت قیمتی سرمایہ ھوتے ھیں-
یہی کار خیر سٹوڈنٹس کے دائمی رھنما فضل الرحمن خان شہباز خیل بھی کرتے رھے ھیں- فضل الرحمن کے پاس سٹوڈنٹس کی ایک لسٹ ھؤا کرتی تھی، جس میں ھر سٹوڈنٹ کے نام کے ساتھ اس کے خون کا گروپ اور اس کا فون نمبر یا پتہ لکھا ھوتا تھا- ضرورت مند لوگ فضل الرحمن سے رابطہ کر کے اپنی ضرورت کا خون آسانی سے حاصل کر لیا کرتے تھے-
کیا یہ کار خیر میانوالی میں آج نہیں ھو سکتا ؟ – کیا کسی کے بچوں کو یتیم ھونے سے بچانے کے لیے، یا کسی کے سر پہ والدین کا سایہ برقرار رکھنے کے لیے میر ے آج کے نوجوان بیٹے خون کے عطیات کا ایک منظم پروگرام شروع نہیں کر سکتے ؟ منورعلی ملک-30 اپریل 2017