منور علی ملک کی فیس بک پر نومبر 2016کے مہینے کی پوسٹس
شعر میرا آرائش ، ذکاء ملک ، مری
میرامیانوالی ——
کل کی پوسٹ میں میں نے میانوالی میں تین ادبی گروپس کاذکر کیا تھا- ان کے علاوہ ایک چوتھا گروپ بھی اسی زمانے میں منظرعام پر آیا – یہ ترقی پسند گروپ تھا – اس گروپ کے بانی معروف ترقی پسند شاعر اور ادیب سید نصیر شاہ تھے- سید نصیر شاہ خود تو گوشہ نشین ھی رھے، ان کے شاگرد منصورآفاق اور فاروق روکھڑی قومی سطح پر معروف و مقبول ھوئے-
دلچسپ بات یہ ھے کہ نصیر شاہ کے قریبی رشتہ دار اور ھمسایہ ھونے کے باوجود محمد فیروز شاہ صاحب ترقی پسندی کیی طرف مائل نہ ھوئے اور اپنی الگ تخلیقی شناخت بنالی-
محمد فیروز شاہ بہت مخلص دوست تھے- میراشعری مجموعہ “جوتم سے کہہ نہ سکا“ شائع ھؤا تو یہاں کی کسی ادبی تنظیم کو تو اس کی تقریب رونمائی کی توفیق نصیب نہ ھوئی، مگر شاہ جی نے تمام ادبی تنظیموں کے نمائندوں کو دعوت دے کر اپنے گھر پہ تقریب منعقد کرلی- صرف تقریب ھی منعقد نہ کی، بلکہ اس تقریب میں پیش کیے گئے تمام مضامین ایک فائیل میں سجائے ، اور تقریب کی آڈیو ریکارڈ کیسیٹ کے ساتھ میرے گھر پہنچادیئے- دوستی کا یہ سلیقہ ان کے ساتھ ھی رخصت ھو گیا-
فیروز شاہ کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی- کہتے تھے والدہ ھی میرا سب کچھ ھیں- ان کی والدہ اس دنیا سے رخصتت ھوگئیں، تو شاہ جی اندر سےے ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئے- ان کی والدہ کی تعزیتی تقریب میں نے اہنے گھر پہ منعقد کی- شاہ جی بہت خوش ھوئے ،
اسی موقع پر میں نے یہ مشورہ دیا کہ شاہ جی، نظم ۔نثر کی کتابیں تو آپ بہت لکھ چکے، اب اپنی نعتوں کا مجموعہ بھی چھپوا لیں- شاہ جی نے کہا “ھاں , اب یہی مصروفیت میرے دکھ کا علاج ھو سکتی ھے- ایک دوماہ میں شاہ جی نے مجموعہ مکمل کر کے چھپوا دیا- کچھ باتیں ابھی باقی ھیں – وہ انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں لکھوں گا- 2نومبر 2016
میانوالی پہلے ضلع بنوں کی تحصٰیل ھؤا کرتا تھا، 1901 میں اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا- 2001 میں میانوالی کو ضلع بنے ھوئے سو سال مکمل ھو گئے تو اس حوالے سے بہت سی تقریبات منعقد ھوئیں- ھمارے انگلش ڈیارٹمنٹ کی تقریب میں بچوں نے میرا لکھا ھؤا ایک ترانہ بھی پیش کیا- اس میں سے ایک اقتباس- انتخاب و آرائش محمد شعبان کسر ، واں بھچراں-2نومبر 2016
میرا میانوالی ————————–
محمد فیروز شاہ صاحب کے شاعرانہ مزاج کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مرحوم ھراتوار کو اپنے قریب ترین دوستوںں عصمت اللہ شاہ , فیروزخان ترین ،، وغیرہ کے ساتھ چشمہ بیراج کی سیر کو جایا کرتے تھے- اور پورا دن وھیں گذارتے تھے- چشمہ بیراج قدرت اور انسان کے کمالات کا ایک حسین امتزاج ھے- شاہ جی اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے لیے انسپائریشن یہیں سے حاصل کرتے تھے- ان کی شاعری میں پرندوں اور پانیوں کا خوبصورت ذکر ان کے اسی مشاھدے پر مبنی ھے-
محمد فیروز شاہ جس ادارے میں بھی رھے، بچوں کے ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کرتے رھے- عصمت گل خٹک اور ملک عتیق الرحمان جیسے صاحب طرز صحافیوں نے قلم پکڑنا شاہ جی ھی سے سیکھا- گورنمنٹ کالج میانوالی کے بہت سے بچے ان کی رھنمائی سے معروف شاعر اور ادیب بن گئے- اس حوالے سے شاہ جی گورنمنٹ کالج میانوالی کے مقبول ترین ٹیچرز میں شمار ھوتے تھے-
شاہ جی ھروقت کچھ نہ کچھ لکھتے رھتے تھے- ملک بھر کے ادبی جرائد میں ان کی تحریریں شائع ھوتی رھتی تھیں- نظم ، نثرر دونوں میں ان کا انداز تحریرر منفرد تھا- ان کی نثر بھی شاعری کی طرح مترنم ھوتی تھی- آن کی تحریروں کا ایک اپنا ذائقہ اور اپنی خوشبوتھی- ابتدا میں ڈاکٹر اجمل نیازی کے انداز میں لکھتے رھے، بعد میں اپنا مخصوص انداز ایجاد کر لیا٠– آہ ! یہ انداز بھی ان کے ساتھ ھی رخصت ھوگیا-3نومبر 2016
شعر میرا
آرائش ، محمد شعیب شاہ ، پیل پیراں ، ضلع خوشاب
میرامیانوالی —-
داؤدخیل کے شہید جنرل ثنائاللہ خان نیازی اور کوئٹہ کے ڈی آئی جی پولیس رحمت اللہ خان نیازی کے والد مرحوم خلاص خان نیازی مثالی پولیس آفیسر تھے- کوئٹہ سے ایس ایس پی ریٹائر ھوئے- دلیری اور دیانت داری میں اپنی مثال آپ تھے-
جب نواب محمداکبر خان بگتی بلوچستان کے گورنر بنے، تو خلاص خان صاحب اس وقت ڈی ایس پی تھے- نواب بگتیی صاحب کے گورنر بنتے ھی خلاصص خان نے ملازمت سے استعفی دے دیا- آئی جی پولیس ایک دلیر اور دیانت دار پولیس افسر سے محروم نہیں ھونا چاھتے تھے- انہوں نے بہت سمجھایا مگر خلاص خان نہ مانے- بات گورنر صاحب تک جا پہنچی- انہوں نے خلاص خان کو طلب کر لیا، اور پوچھا کہ آپ ملازمت سے مستعفی کیوں ھونا چاھتے ھیں؟
خلاص خان صاءب نے کہا، سر جب میں انسپکٹر تھا تو ایک مقدمے میں میں نے آپ کو گرفتار کیا تھا- اب آپ گورنر بن گئےے ھیں تو عین ممکن ھےے کہ آپ مجھے ملازمت سے فارغ کردیں- اس لیے میں نے خود ھی املازمت چھوڑ دینا مناسب سمجھا-
گورنرصاحب نے مسکرا کرکہا “ نہیں ، خلاص خان، مجھے آپ جیسے پولیس آفسر چاھیئں جو مجھ جیسے آدمی پر بھی ھاتھھ ڈال سکیں- آج سے میں آپ کوو ترقی دے کر ایس پی بنا رھا ھوں- اپنی ترقی کے آرڈرز لے کر جائیں اور اطمینان سے اپنا کام کریں “ -4 نومبر 2016
میرا میانوالی —-
سیاست اور سیاسی شخصیات کے ذکر سے گریز کرتا ھوں- کیونکہ میں اپنی فیس بک کو سیاسی بحث کا اکھاڑہ اور خود کو متنازعہ نہیں بنانا چاھتا- میں ایک ٹیچر ھوں اور ٹیچر کے سٹوڈنٹس کی اپنی اپنی سیاسی ترجیحات ھوتی ھیں- مگر وہ ترجیحات کلاس روم میں لانے کی اجازت کوئی ٹیچر نہیں دے سکتا-
آج میں جس شخصیت کاذکر کر رھا ھوں ، وہ اگرچہ ایک معروف سیاسی شخصیت تھے، مگر میرا موضوع ان کی سیاستت نہیں ، ایک مخلص دوست، اچھےے انسان اور اچھے معالج کی حیثیت میں ان کا کردارھے –
ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی ھمارے بہت مہربان دوست تھے- سیاسی اختلاف کے باوجود ھم ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے – بلکہ ھمارے کہنے پر ڈاکٹر صآحب اپنے سیاسئ مخالفین کاکام بھی کر دیتے تھے- ایک دفعہ میرے کہنے پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین کے قریبی رشتہ دارکے کام کے لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو فون کرنے کے بعد کہا “ملک صاحب، یہ لوگ مجھے ووٹ توکبھی نہیں دے سکتے کیونکہ میرے مخالفین کے قریبی رشتہ دار ھیں- مگر آپ کے ساتھ میرے پاس آئے ھیں ، اس لیے انکار نہیں کرسکتا-
ڈاکٹر صاحب بہت ماھر سرجن تھے- نشتر میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے آخری سال کے دوران سرجری پر لیکچر بھی دیا کرتے تھے- جب وفاقی وزیر تھے تو ایک دن ایک بزرگ ان کے پاس آئے ، اور روتے ھوئے کہا “ ڈاکٹر صاحب ، میں کہاں جاؤں- اپنڈکس کا آپریشن کروانا ھے- اور میرے پاس نہ تو سرجن کی فیس کے پیسے ھیں ، نہ دواؤں کے-“
ڈاکٹر صاحب نے کہا “چاچا، اللہ خیر کرے گا، پیسوں کی فکر نہ کریں- آپ کا آپریشن میں خود ابھی کردیتا ھوں“
یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے خود اس بزرگ کا آپریشن کر دیا-
ایک دفعہ پروفیسر سلیم احسن اور میں ایک شادی میں کندیاں گئے- ڈاکٹر صاحب بھی وھاں موجود تھے- کہنے لگے “ پروفیسر صاحبان، واپسی پر آپ میری گاڑی میں میرے ساتھ چلیں- “ کندیاں سے روانہ ھوئے تو میں نے معلومات کے لیے دل کی بیماریوں کا ذکر چھیڑ دیا- اس کے بعد کندیاں سے میانوالی تک دل کے بارے میں ڈاکٹرصاحب نے وہ لیکچر دیا کہ ھم حیران رہ گئے- بے پناہ علم تھا اس شخص کے پاس- مذاق میں ھم کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب افسوس اس بات کا ھے کہ سیاست نے میانوالی سے ایک بہت اچھا ڈاکٹر چھین لیا- بات غلط نہ تھی-
اللہ ان کو مغفرت اور بلند درجات عطا فرمائے ، کچھ دنوں سے مسلسل یاد آرھے تھے- آج ان کی کچھ یادیں آپ سے بھی شیئر کرلیں –
میرا میانوالی
میرا شعر ،
آرائش ، سید محمد شعیب شاہ، پیل پیراں ، ضلع خوشاب
فیس بک سے دوستی —
اس پوسٹ میں پکچر تنویر شاہ کی ھے- تنویر شاہ فیس بک پر میرے مستقل ساتھی بھی ھیں- ایف ایس سی میں میرے سٹوڈنٹ بھی رھے- یہ ٹھٹھی ضلع میانوالی کے مشہورومعروف میانہ خاندان کے فرد ھیں- ان کے بزرگ بہت عرصہ پہلے ٹھٹھی سے میانوالی منتقل ھوگئے تھے- آن بزرگوں میں سے ان کے چچا مرحوم پروفیسر اطہر شاہ ھمارے بہت مخلص ساتھی تھے-
گورنمنٹ کالج میانوالی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد تنویر شاہ نے گورنمنٹ سائنس کالج ٹاؤن شپ، لاھور سےے BS Ed کیا- آج کل گورنمنٹٹ ھائرسیکنڈری سکول واں بھچراں میں سائنس پڑھاتے ھیں- میری اردو انگلش کی تمام پوسٹس بڑے شوق سے پڑھتے ، اور مجھے دعاؤں سے نوازتے رھتے ھیں-5نومبر 2016
میرا شعر
پیشکش ، سید محمد شعیب شاہ،
پیل پیراں ، ضلع خوشاب-5نومبر 2016
میرا میانوالی —–
سفر آپ نے بھی بہت کیے ھوں گے، لیکن ایسا سفر آج تک کسی نے نہیں کیا ھوگا-
عیدالفطر کا دن تھا- سفر داؤد خیل سے میانوالی تک کا تھا- عید الفطر کے دن سفر کی ضرورت یوں پیش آئی کہ عید کا اعلان کچھھ مشکوک سا ھؤا تھا– ٹی وی تو کیا، داؤدخیل میں اس زمانے میں بجلی بھی نہیں تھی- ٹیلیفون کا نام و نشان تک نہ تھا- گذشتہ شام چاند نظر آنا تھا٠ داؤدخیل کے علاقے میں کہیں نظر نہ آیا- ریڈیو پر بھی چاند کی کوئی خبر رات گئے تک نشر نہ ھوئی-
صبح سحری کے وقت اچانک ریڈیوسے سرکار کا یہ اعلان نشر ھؤا کہ آج عید ھے- باقی لوگوں نے تو عید کے لیے تیاریاں شروع کردیں، میں نہ مانا، اور سحری کھا کر باقاعدہ روزہ رکھ لیا- صبح اٹھ کر دیکھا تو ھر طرف عید تھی- گھر والوں نے کہا اب آپ بھی مان جائیں- میں نے کہا روزہ توڑنا بچوں کا کھیل نہیں- جب تک عید کی کسی معتبر ذریعے سے تصدیق نہیں ھوتی ، میرا روزہ ھی رھے گا-
لوگو ں کی باتوں سے تنگ آکر میں میانوالی سے عیدکی تصدیق کے لیے گھر سے نکلا- بسیں وغیرہ تو عید کے دن ھوتی نہیں ،، بس سٹاپ پر کھڑا تھا کہہ ایک ٹریکٹر آتا دکھائی دیا- اس کو روک کر پوچھا تو ڈرائیور نے کہا میں نے پائی خیل ریلوے سٹیشن تک جاناھے- میں اس خیال سے ٹریکٹر پہ بیٹھ گیا کہ پائی خیل سے دس بجے کی ٹرین مل جائے گی- کچھ آگے گئے تو پیچھے سے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا- ًمیں ٹرک رکوا کر اس پہ جابیٹھا- ٹرک روانہ ھؤا تو ڈرائیور نے بتایا کہ اس نے تو موچھ تک جاناھے- میں نے کہا مجھے پائی خیل سٹیشن پہ اتار دینا- پائی خیل سیتٰشن پہنچا تومعلوم ھؤا کہ آج ٹرین بھی نہیں ھے- وھاں سے پھر سڑک پہ آگیا- چند منٹ بعد ایک تانگہ ادھر آنکلا- کوچوان نے کہا میں کسی ذاتی کام سے میانوالی جا رھا ھوں- پانچ روپے دے دیں تو آپ کو بھی لے جاتا ھوں- اس زمانے میں بس کا کرایہ ایک روپیہ تھا- مگر آج کے دن پانچ روپے میں بھی یہ سفر بہت سستا لگا- کوچوان کو پیسے دے دیے اور اس نے مجھے میانوالی پہنچادیا- اس انوکھے ، بلکہ اوکھے سفر کی بقیہ داستان انشاءاللہ کل لکھوں گا- 6نومبر 2016
میرا داؤدخیل
ھمار ے بچپن کی سیرگاہ
داؤدخیل ریلوے سٹیشن-6نومبر 2016
میرا ایک پرانا شعر
آرائش ، ذکاء ملک ، مری
میرا میانوالی —
میانوالی شہر میں داخل ھؤا تو اپنے پرانے دوست شرافت خان نیازی شہباز خیل مل گئے- موصوف اس وقت ھیڈماسٹر تھے- انہوں نے پوچھا “ ملک صاحب ، آپ آج یہاں کیسے آگئے ؟“
میں نے بتایا کہ عید کے چاندکی تلاش میں آیاھوں ، ھنس کر بولے “ بھائی صاحب , یہاں تو ھم سب لوگ عیدد منارھے ھیں- سرکاری اعلان توو واقعی مشکوک تھا، اس لیے یہاں کے علمائےکرام نے فون پر لاھور کے ھر مکتب فکر کے علماء سے کنفرم کرنےکے بعد عید کا اعلان کیا-“
ایک قریبی ھوٹل پر چائے اور برفی کے ساتھ بھائی شرافت خان نے مجھے افطاری کرائی (دن کے گیارہ بجے) اور پھر میںں واپس گھر کو روانہ ھؤا-
ٹریفک کا مسئلہ بدستور تھا- مگر خوش قسمتی سے جہازچوک پہ داؤدخیل کے شہید کفایت اللہ خان نیازی ٹریفکک سارجنٹ ڈیوٹی دے رھے تھے- کفایتت اللہ میرے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے- میں نے بتایا کہ میں نے داؤدخیل واپس جاناھے-تو کفایت اللہ نے کہا “ سر، فکر نہ کریں- ادھر جانے والی جو بھی گاڑی آگئی، میں آپ کو اس پہ بٹھا دوں گا“-
اتنے میں عیسی خیل جانے والا ایک ٹرک آگیا- کفایت اللہ خان کے کہنے پر ٹرک کے ڈرائیور نے مجھے داؤدخیل میں اپنےے گھر پہنچا دیا-
سب لوگوں نے کہا ھماری بات مان لیتے تو اتنی زحمت سے تو بچ جاتے- مگر ھمارےمحلے کے ایک بزرگ نے کہا “ سچ کیی تلاش میں اتنی زحمت مہنگاا سودا نہیں- سرکاری اعلان پر عید تو ھم منا رھے تھے، مگر دل میں شک سا تھا کہ شاید اعلان غلط ھو- اس بہادر بچے نے زحمت اٹھا کر ھمارا شک دور کر دیا- اصل عید تو اب شروع ھوئی ھے“ –7نومبر 2016
شعر میرا
آرائش ، سید محمد شعیب شاہ ، پیل پیراں ، ضلع خوشاب-7نومبر 2016
میرا میانوالی —
جوانی کے زمانے کا ایک اور یادگار سفر لاھور سے میانوالی تک ٹرین کا سفر تھا — میرا ھمسفر ایک دوست تھا جسے وی آئی پی بننے کا بہت شوق تھا- کہنے لگا “یار، جاھلوں کی طرح عام لوگوں کے ڈبے میں سفر مجھ سے نہیں ھوتا- سلیپر ریزرو کروا کے مزے سے سفر کریں گے “-
ھمارا سلیپر دو برتھوں پر مشتمل بظآھر خاصا آرام دہ کمرہ تھا- نرم وملائم برتھوں پر دو آدمی آرام سے سو سکتے تھے-
دسمبر کا مہینہ تھا- شدید سردی کے علاوہ بارش بھی ھو رھی تھی- شام کے قریب جب ترین روانہ ھوئی تو ٹھنڈی یخ ھوا سے بچنے کے لیے ھم نے کھڑکی بند تو کردی مگر کھڑکی کا شیشہ ھی نہ تھا- سردی کے مارے برا حال ھونے لگا- پہلے سونے کی کوشش کرکے دیکھا۔ مگر یخ بستہ ھوا کے تیز جھونکوں میں نیند کہاں سے آتی- اٹھ کر بیٹھ گئے– بیٹھنا بھی مشکل ھو گیا تو اٹھ کر بغلوں میں ھاتھ دبا کر چلنا شروع کردیا– بمشکل پانچ قدم لمبے چوڑے کمرے میں چلنا پھرنا بھی مذاق تھا- اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ھؤا تو اگلے سٹیشن پر ٹرین سے اتر کر اچھے بچوں کی طرح آرام سے “جاھلوں“ والے ڈبے میں جا بیٹھے ، اور سوتے جاگتے مزے سے رات گذارلی-
چار گنا کرایہ دے کر ایسا سفر آپ میں سے کسی اور نے شاید ھی کیا ھو- 8نومبر 2016
میری نعت کا شعر
انتخاب و پیشکش ، سید محمد شعیب شاہ
پیل پیراں ، ضلع خوشاب
AT SUKHEKI STOP ON MOTORWAY
(NOVEMBER 9, 2016 (4.30 pmmm)
میرا میانوالی ——
الحمدللہ ، میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی کا تقرر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاھور میں ھوگیا ھے- اس سے پہلے وہ گورنمنٹ کالج ماڈل ٹاؤن لاھور میں پڑھاتے تھے –
اکرم بیٹے کا تقرر میری ایک دیرینہ خواھش کی تکمیل ھے- وہ اس لیے کہ آج سے تقریبا 95 سال پہلے، 1921 میں میرے والد محترم ملک محمد اکبرعلی نے گورنمنٹ کالج لاھور ھی سے بی اے کیا تھا- ریڈیو پاکستان کے اولیں ڈائریکٹرجنرل سجاد سرور خان نیازی ان کے کلاس فیلو تھے- ڈاکٹر نورمحمد خان نیازی بھی ان کے کالج فیلو تھے-
رب کریم نے دو سال پہلے اکرم بیٹے کو یہاں ایم فل کاسٹوڈنٹ ھونے کا اعزاز عطا کیا ، اور اب اسے وہیں پروفیسر بننے کا اعزاز بھی مرحمت فرمادیا- ایم فل کی تعلیم کے دوران ھی اکرم بیٹے نے اپنی قابلیت وھاں منوا لی تھی- اسی لیے بحمداللہ یونیورسٹی کی اپنی خواھش پر اس کا وھاں تقرر ھو گیا- یوں اس ادارے سے ھمارا تعلق تین نسلوں پر محیط ھو گیا ھے-
جس زمانے میں یہ یونیورسٹی کالج ھؤا کرتی تھی، اس وقت ڈاکٹر اجمل نیازی، پروفیسر گلزار بخاری اور ملک گل محمد بھی یہاں پڑھاتے رھے– اکرم بیٹے کا یہ تقرر بحمداللہ سراسر اس کی اپنی قابلیت، محنت اور شہرت کا ثمر ھے-10نومبر 2016
محترم احباب ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ –
میں اپنی آج ( 10 نومبر ) کی اردو انگلش کی دونوں پوسٹس، اور کل کی اپنی پکچر پر مخلصانہ لائیکس اور محبت بھرےے کمنٹس دینے والے تمام احباب کاا تہ دل سے ممنون ھوں، شکریہ ادا کرنے کو الفاظ نہیں مل رھے- میری دعا ھے کہ رب کریم آپ سب کو بے حساب عزت اور بے شمار خوشیاں عطا فرمائے تاکہ ھم خوشیاں ھی آپس میں شیئر کرتے رھیں- آمین ثم آمین- – آپ کا ممنون احسان ، منورعلی ملک –
میرا شعر-آرائش ، محمد شعیب شاہ
پیل پیراں ، ضلع خوشاب-1000 نومبر
میرا میانوالی —-
“میرا میانوالی“ کے عنوان سے میں اپنی زندگی کے ان واقعات اوراپنے جاننے والے ان لوگوں کے بارے میں لکھھ رھا ھوں جن سے آپ کچھ اچھیی باتیں سیکھ سکیں – الحمدللہ، میری پوسٹس کا یہ سلسلہ خاصا مقبول ثابت ھو رھا ھے-
“میرا میانوالی“ میری مکمل آپ بیتی نہیں- بلکہ میری آپ بیتی کے کچھ منتخب حصوں پر مشتمل داستان ھے- مکمل آپپ بیتی لکھنے میں وقت لگتا ھے– مگراتنا فارغ وقت مجھے میسر نہیں –
میں اپنی زندگی کے اھم واقعات ان پوسٹس کے علاوہ “کوئی ھے“ کے عنوان سے سہ ماھی ادبی جریدہ “سویرا“ میںں بھی لکھ رھا ھوں- ایک سلسلہہ اپریل سے میری انگلش پوسٹس کی صورت میں بھی چل رھا ھے-
آج سے میں اپنی زندگی کے ان چند ماہ کی داستان کا آغاز کر رھا ھوں جو میں نے گورنمنٹ ھائی سکول مکڑوال (ضلعع میانوالی) میں گذارے- اس سےے پہلے میں نے اس دور کا ذکر کبھی نہیں کیا- میرے قریبی لوگوں کو بھی میرے ان شب و روز کا علم نہیں- بہرحال قصہ خاصا دلچسپ بھی ھے- اور معلومات افروز بھی-
سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور سے بی ایڈ کا امتحان دے کر گھرآ گیا – اب امتحان کے ریزلٹ کا انتظارکرنا تھا– چند ماہ کا یہ فارغ وقت گذارنا خاصا مشکل لگ رھا تھا- انہی دنوں سنٹرل ماڈل ھائی سکول میانوالی کے نامور ٹیچر ، مرحوم سعید شاہ مجھ سے ملنے کے لیے داؤدخیل آئے- کہنے لگے، ملک صاحب ، مکڑوال سکول کو ایک انگلش ٹیچر کی ضرورت ھے-آپ وھاں جانا چاھیں تو میں ابھی آپ کے ساتھ جاکر وھاں آپ کا تقرر کروا دوں گا“-11نومبر 2016
میرا میانوالی–
مکڑوال سکول ، وزارت معدنیات کے ایک ذیلی ادارے کول مائینز لیبر ویلفیئر آرگنائیزیشن (CMLWO) نے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ملازمین کے بچوں کے لیے قائم کیا تھا- یہ مڈل سکول تھا- سکول میں ٹیچرز کا تقرر پہلے دو مہینے کے لیے مکڑوال کے چیف ماینیگ انجینیئر صاحب کرتے تھے- یہ یومیہ اجرت (Daily Wages) کی ملازمت ھوتی تھی- مہینے کی تنخواہ چار قسطوں میں ھر ھفتے ملتی تھی- پہلے دوماہ مکمل ھونے کے بعد مستقل تقرر محکمہ معدنیات کےسیکرٹری کرتے تھے-
سکول کے ھیڈماسٹر شفیق الرحمان منہاس صاحب آزاد کشمیر کے رھنے والے تھے- وھاں سے بعد میں راولپنڈی منتقل ھوگئے- بی ایس سی ، بی ایڈ تھے- بہت اچھے سائنس ٹیچر تھے- نماز روزے کے سخت پابند , دینی مزاج کے آدمی تھے- مگر شدت پسند نہ تھے- سب دوستوں کو اپنے برابر سمجھتے تھے-
بہت عرصہ بعد جب میں میانوالی کالج میں تھا، منہاس صاحب مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے- کہنے لگے،“میں اب برطانیہ میں رھتا ھوں- کچھ دنوں کے لیے گھر واپس آیا تو دل چاھا آپ سے مل لوں- پوچھ گچھ کرنےپر معلوم ھؤا کہ آپ ماشاءاللہ اب پروفیسرھیں- ادھر ادھر سے پوچھ پاچھ کر بالآخر آپ کا گھر ڈھونڈ ھی لیا -“
ذرااندازہ کیجیئے، کتنے مخلص انسان تھے- پچیس سال پہلے مکڑوال میں صرف چار مہینے کی سنگت کو بھی انہوں نے یاد رکھا، اور خدا جانے کہاں کہاں سے میرا پتہ پوچھ کر مجھ سے ملنے کے لیے آگئے- یہ خوبی بہت کم دیکھنے میں آتی ھے- اکثر لوگ تو سالہاسال کی دوستیاں بھی بھلا کر اپنی مستی میں مست رھتے ھیں- مگر ھر بندہ شفیق الرحمان منہاس تو نہیں ھوتا نا -13نومبر 2016
فیس بک سے دوستی —–
اس پوسٹ میں بائیں جانب کونے والی پکچر ھے اورنگذیب نیازی کی ، اور آن کے ساتھ والی پکچر اشفاق خان نیازی کی- دونوں میرے فیس بک کے اولیں ساتھیوں میں سے ھیں-
اورنگذیب نیازی میانوالی کے رھنے والے ھیں- حاجی اکرام للہ نیازی کے قریب ترین دوست بھی ھیں ، قریبیی رشتہ دار بھی- میونسپل ڈگری کالجج فیصل آباد کے سابق سٹوڈنٹ ھیں- یہ وھی کالج ھے جہاں سے لالا عیسی خیلوی نے ایف اے کیا- میانوالی سے اس کالج کا تعلق اس حوالے سے بھی ھے کہ پروفیسر محمد سلیم احسن بھی کچھ عرصہ اس کالج میں سیاسیات کے پروفیسر رھے-
اورنگذیب نیازی کچھ عرصہ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں بھی رھے ھیں- اللہ کے فضل سے وھاں حج کی سعادت بھی نصیب ھوئی – آج کل میانوالی میں بزنس کر رھے ھیں- یاروں کے یارھیں- میری ھر پوسٹ پڑھتے اور اکثر کمنٹ بھی دیتے رھتے ھیں- نہایت مخلص انسان ھیں-
اشفاق خان نیازی تری خیل ضلع میانوالی کے باشندے ھیں- فیس بک کی معروف شخصیت ھیں- اچھے شاعر بھی ھیں- نامور شاعر، ادیب اور دانشور ظفرخان نیازی سے شاعری میں اصلاح لیتے ھیں، اس لیے شاعری میں ان کا مستقبل انشاءاللہ تابناک ھوگا- شکوہ اور محرومیوں کا دکھ ان کی شاعری کے مستقل موضوعات ھیں- مختصر بحر میں بہت اچھے شعر کہہ لیتے ھیں- شعروں کی آرائش کا فن بھی جانتے ھیں-
اشفاق خان Mi-17 ھیلی کاپٹر کے فلائیٹ انجینیئر ھیں- ان دنوں کوئٹہ میں متعین ھیں- میانوالی سے فیس بک پر مسلسل رابطے میں رھتے ھیں- میری تمام پوسٹس بہت شوق سے پڑھتے، اور ان کے بارے میں اپنی رائے بھی دیتے رھتے ھیں- 14نومبر 2016
پچھلے سال کی میری سب سے مقبول پوسٹ
687 لائیکس 91 کمنٹس
شعر میرا آرائش ، شاھد انور خان نیازی، داؤدخیل
اس پوسٹ کے بعد تو میلہ لگ گیا- دوستوں کی تعداد بہت جلد 5000 ھوگئی , اور فیس بک نے ھاتھ کھڑے کرر دیئے -14نومبر 2016
میرا میانوالی —–
اس زمانے میں مکڑوال آمدورفت خاصی دشوار تھی- میانوالی سے دن میں صرف ایک ھی بس مکڑوال جاتی تھی، جوو رات وھیں گذار کر اگلی صبح واپسس میانوالی روانہ ھو جاتی تھی- اس صؤرت حال میں میرے لیے ھر ھفتے گھر آنا آسان نہ تھا- سنیچر کو داؤدخیل یا میانوالی جانے کے لیے سکول ٹائیم کے بعد کوئی ٹریفک میسر نہ تھی- بس تو صبح سویرے نکل جاتی تھی- بس پہ جانے کے لیے سنیچر کو چھٹی لینی پڑتی- چھٹی تو مل جاتی مگر اس دن کی تنخواہ نہیں ملتی تھی- Daily Wages پہ کام کرنے والوں کے کوئی حقوق نہ تھے- یوں سمجھ لیجیے کہ، یہ ملازمت ایک قسم کی مزدوری تھی- جس دن کام پہ جاتے اس دن کی تنخواہ ملتی تھی- اتوار کی تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی- خاصا تلخ تجربہ تھا، مگر برداشت کرنا تھا ، کر لیا-
سنیچر کی سہ پہر کو ایک کول ٹرین کوئلہ لے کر جاتی تھی- ھم نے اس ٹرین کے گارڈ سے دوستی بنالی- اس طرح ھم ھر سنیچر کو اس ٹرین کے گارڈ والے ڈبے میں بیٹھ کر ترگ ریلوے سٹیشن تک جاتے – وھاں عیسی خیل سےمیانوالی جانے والی کسی بس پہ بیٹھ کر داؤدخیل پہنچ جاتے- واپسی اتوار کے دن تین بجے میانوالی سے مکڑوال جانے والی اکلوتی بس کے ذریعے ھوتی تھی- ملازمت کے پہلے دو مہینے اسی حال میں گذرے-15نومبر 2016
شعر میرا -آرائش ، سید محمد شعیب شاہ
پیل پیراں ، ضلع خوشاب
میرا میانوالی
مکڑوال میں قیام کے دوران کھانے کا بندوبست کسی ھوٹل پہ ھی ممکن تھا- کالونی کی مختصر سی مارکیٹ سکول کے قریب ھی تھی – پہلی صبح میں مارکیٹ میں ایک ھوٹل پہ بیٹھا ناشتے کا انتظاز کر رھا تھا تو ماموں امیر قلم خان ادھر آنکلے- امیر قلم خان نیازی داؤدخیل کے معروف قبیلے امیرے خیل کے معززین میں شمار ھوتے تھے- ان کی بڑی بہن محترمہ عالم خاتوں میری والدہ کی منہ بولی بہن تھیں- بہت قریبی تعلق تھا اس گھرانے سے ھمارا- بحمداللہ یہ تعلق آج بھی قائم ھے- اس حوالے سے امیرقلم خان اور ان کے دوسرے دونوں بھائیوں کو ھم ماموں کہتے تھے- اور یہ بھی ھمیں اپنے بچے سمجھتے تھے-
ماموں امیر قلم خان مکڑوال ھی میں ملازم تھے- مجھے دیکھ کر پوچھا “تم یہاں کیسے ؟“
میں نے بتایا کہ سکول میں انگلش ٹیچر بن کر آیا ھوں تو برس پڑے- کہنے لگے “تمہیں شرم نہیں آتی کہ اپنا گھر ھوتےے ھوئے تم ھوٹلوں پہ دھکےے کھاتے پھرتے ھو ؟“
یہ کہہ کر فورا مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے- ناشتہ بھی وھہیں ھؤا- ان کی اھلیہ بخت ماء (اماں بخت) بھی مجھے دیکھ کرر بہت خوش ھوئیں- ماموںں نے اپنا حکم سنادیا “ تم سوسال بھی یہاں رھو، کھانا یہیں سے کھانا ھوگا-“
بے مثال لوگ تھے- بخت ماء مجھے اپنے بچوں امان اللہ خان اور ظفراللہ خان کے برابر سمجھتی تھیں ٠صبح ناشتے میںں مکھن، انڈے اور بہت کچھ اور بھیی ھوتا تھا- ماموں خوش خوراک آدمی تھے- بہت عمدہ کھانا ھوتا تھا ان کے گھر کا- میں جب تک مکڑوال میں رھا کھانا اسی گھر میں کھاتا رھا- ماموں نے تو رھائش کا بھی کہا، مگر میں نے بتایا کہ سکول میں مجھے رھائش کی ھر سہولت میسر ھے- خدمت کے لیے ملازم بھی موجود ھے- یہ سن کر مان گئے- کہنے لگے “پھر بھی کسی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے بتا دیا کرنا “ –16نومبر 2016
میرا شعر —آرائش ، مناظر گوندل –
چک سیدا، ملکوال-16نومبر 2016
میرا میانوالی —-
سنیچر کے دن دوپہر کا کھانا کھاتے ھوئے میں نے ماموں امیر قلم خان کو بتایا کہ آج میں گھر جا رھاھوں، کل واپس آؤں گا- توو ماموں نے کہا “ بسس تو صبح نکل گئی ھوگی ، جاؤگے کس طرح ؟ اور پھر جانے کی ضرورت ھی کیا ھے- مہینے میں ایک آدھ بار چلے جایا کرنا“
میں نے کہا “ جی ضرورت یوں ھے کہ ادھر پیچھے میرے تین بچے بھی ھیں- ان کے لیے کم ازکم ھفتے میں ایک دن تو گھر پہہ گذارنا ضروری ھے-“
کہنے لگے “ بالکل ٹھیک کہا تم نے ، بچوں کو جتنا وقت ممکن ھو، ضرور دینا چاھیے- مگر اس وقت بس تو ھے نہیں ، جاؤگےے کیسے؟‘
میں نے بتایا کہ میں نے کول ٹرین کے گارڈ سے بات کرلی ھے ، ھر ھفتے ترگ ریلوے سٹیشن تک ان کے ساتھ جاؤں گا– ترگ سے میانوالی جانےے والی کسی بس پہ بیٹھ جاؤں گا“
ماموں نے کہا “ ٹھیک ھے، گارڈ میرا بھی دوست ھے- میں بھی اس سے کہہ دوں گا- اور ھاں، یہاں سے خالی ھاتھھ نہیں جانا- بچوں کے لیے مکھنن لیتے جانا، گھر میں اپنی بھینس کھڑی ھے- یہ ھم نے اپنے بچوں کے لیے ھی تو رکھی ھوئی ھے“ – یہ کہہ کر مکھن کا تمبالو مجھے تھما دیا- ھر ھفتے یہ تمبالو بھی میر ا مستقل ھمسفر ھوتا تھا- ماموں کا حکم تھا کہ اس کے بغیر نہیں جانا–17نومبر 2016
میرا شعر–آرائش ، ذکاء ملک ،
مری-17نومبر 2016
میرا میانوالی —-
مکڑوال کالریز کے اکاؤنٹس مینیجر کا بیٹا میرے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لیے آیا- میں نے انگلش کاسبق پڑھا لیا تو وہ کہنے لگاا میرے ابو نے کہا ھے کہہ تمام سبجیکٹ آپ ھی پڑھائیں گے- مجھے اس لڑکے کا رویہ اچھا نہ لگا , میں نے کہا “ میں انگلش ٹیچر ھوں، صرف انگلش ھی پڑھا سکتا ھوں- اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھاؤں گا-
صاحبزادے نے گھر جا کر اپنے والد محترم کو بتایا تو انہوں نے ایک کلرک کی معرفت یہ حکم صادر فرمایا کہ تمام سبجیکٹ آپ ھی کو پڑھانا ھوں گے ورنہ —
میں نے اس حکم کے جواب میں کہا مجھے “ورنہ“ ھی قبول ھے- میں انگلش کے سوا اور کچھ نہیں پڑھاؤں گا-
میرے اس جواب سے ناراض ھو کر صاحب بہادر نے میری تنخواہ روک لی-
میں نے ماموں امیرقلم خان کو بتایا تو وہ مجھے ایڈمن آفیسر کے پاس لے گئے- ایڈمن آفیسر میجر ملک نورمحمد سکیسر کےے علاقے کے اعوان تھے- انہوںں نے فورا اکاؤنٹس مینیجر کو طلب کر لیا اور ان سے کہا “ ٰیہ کیا گھٹیا حرکت کی ھے تم نے؟ ایک ٹیچر کو انتقام کا نشانہ بنا رھے ھو؟ کل صبح ان کی تنخواہ نکلوا کر ان کے سکول میں پہنچا دو، ورنہ تم یہاں نہیں رہ سکتے-“
دوسرے دن صبح سویرے میری تنخواہ مجھے موصول ھو گئی-18نومبر 2016
شعر میرا -آرائش ، سید محمد شعیب شاہ
پیل پیراں ، ضلع خوشاب-18نومبر 2016
پیشکش ۔ سید محمد شعیب شاہ
پیل پیراں ، ضلع خوشاب-18نومبر 2016
میرا میانوالی —–
مکڑوال سکول میں میرا تقرر دوماہ کے لیے عارضی بندوبست کے طور پہ ھؤا تھا- اکتوبر میں اس پوسٹ پر مستقل تقرر کے لیے محکمہ معدنیات نے درخواستیں طلب کیں – میں نے بھی درخواست بھجوادی- اکتوبر کے آخری ھفتے میں سیکریٹری معدنیات نے انٹرویو کے لیے بلایا- ان کا آفس چوبرجی کے قریب پونچھ ھاؤس میں تھا- کچھ اور امیدوار بھی تھے، مگر اللہ کے فضل سے میں سیلیکٹ ھو گیا-
یہ ملازمت مستقل تو تھی، مگر محکمہ تعلیم کی ملازمت کے مقابلے میں یہاں تنخواہ بھی کم تھی ،مکڑوال تک آمدورفت کے مسائل بھی تھے- ان مسائل کے علاوہ ایک اور حوصلہ شکن مسئلہ یہ بھی تھا کہ کول مائینز لیبر ویلفیئر کے زیرانتظام صرف دو ھی سکول تھے- ایک مکڑوال میں دوسرا کوئٹہ میں- اس کا مطلب یہ ھؤا کہ یہاں سے ترقی یا شکایت کی صورت میں کوئٹہ جانا پڑتا-
بہر حال اب تو اسی ملازمت پہ گذارہ کرنا تھا- اس سے بہتر ملازمت کے لیے میں صرف دعا ھی کر سکتا تھا- اللہ تعالی کی طرف سے ھر کام کا وقت مقررہ ھوتا ھے- دوماہ بعد میری دعا قبول ھو گئی- محکمہ تعلیم نے مڈل سکولوں میں ھیڈماسٹر کی اسامیوں کے لیے درخواستیں طلب کر لیں- میں نے بھی درخواست دے دی ۔ اور انٹرویو کی کال کا انتظار کرنے لگا-
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —–
انشاءاللہ کل صبح ( 20 نومبر کو) میری بائیں آنکھ کا آپریشن ھوگا- اس لیے اگلی پوسٹ ڈاکٹر صاحب سے مشورےے کے بعد ھی لکھ سکوں گا- آپ سےے دعاؤں کی گذارش ھے- کمنٹ کی شکل میں ضروری نہیں- براہ راست ھی اللہ کریم کی بارگاہ میں آپریشن کی کامیابی اور میری صحت یابی کی درخواست کرتے رھیں –19نومبر 2016
عزیز دوستو ، السلام علیکم ورحمت اللہ —
آپ کی دعاؤں کےطفیل اللہ کے فضل سے آنکھ کا آپریشن کامیاب ھؤا- آپریشن کے بعد کل پہلا چیک اپ ھؤا- سرجنن صاحب بہت مطمئن ھیں– دوسرا چیک اپ جمعرات کو ھوگا- اس کے بعد امید ھے انشاءاللہ آزادانہ پڑھنے لکھنے کی اجازت مل جائے گی- اللہ آپ کو سلامت رکھے-22نومبر 2016
عزیز دوستو، السلام علیکم و رحمتہ اللہ ————-
آج آنکھ کا دوسرا چیک اپ ھؤا- الحمدللہ، سرجن صاحب نے آپریشن کو مکمل طور پر کامیاب قرار دیتے ھوئے- معمولل کے مطابق کام کرنے کی اجازتت دے دی- عینک کا نمبر بھی فی الحال وھئ رھے گا- دوا کا استعمال 14 دسمبر کو فائینل چیک اپ تک جاری رھے گا- اس کے بعد عینک کا نیا نمبر دے دیا جائے گا-
انشاءاللہ کل سے آپ کی محفل میں حاضری دوبارہ شروع ھو جائے گی- کل پہلی پوسٹ “میرا میانوالی / میرا لاھور““ کے عنوان سے آپریشن کے بارےے میں ھوگی- یہ ایک معلوماتی پوسٹ ھوگی جس سے آپ خود بھی مستفید ھو سکیں گے، اور دوسرے لوگوں کی رھنمائی بھی کر سکیں گے- آپ کی دعاؤں نے بہت حوصلہ افزائی کی- اللہ آپ کو سلامت رکھے-24نومبر 2016
میرا میانوالی / میرا لاھور
آپریشن آنکھوں کے مشہورومعروف کلینک THE EYES میں ھؤا- یہ کلینک لاھور میں شاہ جمالل کے علاقے میں واقع ھے- یہ لاھور کے چار نامورر آئی سرجنز کا مشترکہ کلینک ھے- اس کلینک سے مجھے میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک نے متعارف کرایا-
میری آنکھوں کا معائنہ سرجن احمد حسین صاحب نے کیا- انہوں نے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے-
آپریشن اتوار کو سرجن اطہر اکرم صاحب نے کیا- آپریشن سے پہلے انہوں نے مجھ سے کہا “ سر ، آپ کی عمر اور ٹیسٹٹ رپورٹس کے مطابق ھم نےے تمام ضروری انتظامات مکمل کر لیے ھیں- آپ بالکل فکر نہ کریں ، انشاءاللہ آپ کا آپریشن کامیاب ھو گا “
یہ کہہ کر انہوں نے میری بائیں آنکھ کے قریب ایک انچیکشن لگایا- جب آنکھ سن ھو گئی تو انہوں نے ایک سبزرنگ کیی چادر میرے سر سے پاؤنن تک لپیٹ کر آپریشن کا آغاز کر دیا- آپریشن کے دوران مجھے بس اپنی آنکھ کے گرد ان کے ھاتھ کی حرکت کا احساس ھوتا رھا- درد یا تکلیف کچھ بھی نہ ھؤا-
آپریشن کے دوران ڈاکٹر صاحب مسلسل مجھ سے باتیں بھی کرتے رھے- یہ باتیں کچھ تو ھدایات تھیں، کچھ آپریشنن کے مختلف مراحل کے بارے میںں معلومات- آپریشن کے اختتام پر صرف آدھ سیکنڈ کے قریب معمولی سا درد محسوس ھؤا-
ڈاکٹر صاحب نے کہا، “ اب میں آپ کی آنکھ میں لینز (lens) لگانے لگا ھوں- ان کے ھاتھ کی ذرا سی جنبشش محسوس ھوئی ، اور انہوں نے کہا لیجیےے لینز بھی لگ گیا- اب میں پٹی لگا کر آپ کو اٹھا دوں گا ” –
ایک آدھ منٹ بعد میں آپریشن تھیئیٹر سے باھر آگیا-
دوسرے دن پہلا معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا “الحمدللہ، آپ کا آپریشن کامیاب ھؤا- کچھ دوائیں میںں نے لکھ دی ھیں- یہ لیتے رھیں– پٹی اب صرف سوتے وقت لگانی ھے- ٹی وی، موبائیل فون- لیپ ٹاپ ، سب کچھ استعمال کر سکتے ھیں- آنکھ کو پانی اور دھوئیں سے بچانا ھے- اگلا چیک اپ جمعرات کو ھوگا “- ( کچھ باتیں انشاءاللہ کل بتاؤں گا) -25نومبر 2016
میرا میانوالی / میرا لاھور —
ویسے تو میرے لیے پاکستان کا ھر شہر میانوالی ھے- اسی لیے میں نے میانوالی کے بارے میں اپنی ایک نظم میں کہا تھا ——– “ھے پاکستانن میانوالی“
تاھم رھائش کے حساب سے داؤدخیل ، عیسی خیل اور میانوالی کے بعد میرا چوتھا گھر لاھور ھے- لاھور میں اپنے قیام کےے حوالے سے بہت سی دلچسپپ اور معلومات افزا باتیں میں اپنی آپ بیتی “کوئی ھے“ میں لکھ چکا ھوں- اپنی انگلش پوسٹس میں بھی میں نے لاھور میں قیام کی کچھ یادیں لکھ دی ھیں- انشاءاللہ کبھی صبح کی پوسٹس میں بھی لاھور کے حوالے سے بہت سی اچھی باتیں آپ کے ساتھ شیئر کروں گا- مگر فی الحال “میرا میانوالی “ کے عنوان سے داؤدخیل اور میانوالی کے لوگوں اور واقعات کا تذکرہ کچھ عرصہ جاری رھے گا-
بہت سے دوست مجھ سے “درد کا سفیر“ کا ذکر سننے کے منتظر ھیں- لالا عیسی خیلوی تو میری زندگی کا ایک حصہ ھے- اللہہ اسے سلامت رکھے، اس کاا ذکر تو باربار ھوتا رھے گا- مگر جب اور جہاں میں مناسب سمجھوں گا – کل اپنی کتاب “درد کا سفیر“ میں سے ایک اقتباس آپ کے ساتھ شیئر کروں گا- اس سے اگلی پوسٹ میں اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت کی صورت حال بتاؤں گا ، اور اس کے بعد داؤدخیل اور میانوالی کے حوالے سے باتیں ھوں گی- گذارش پھر یہی ھوگی کہ میں کسی کی انگلی پکڑ کر نہیں چل سکتا- بچپن میں والدہ محترمہ کی انگلی پکڑ کر زندگی بھر کےلیے چلنے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا- اب میں لوگوں کو چلنا (جینا) سکھا رھا ھوں- ان لوگوں میں آپ بھی شامل ھیں- بس میری انگلی پکڑ کر چلتے جائیے- یہ نہ کہنا کہ “سر ، ادھر نہیں ، ادھر چلیں“ -27نومبر 2016
Me, at Racecourse Park, LAHORE
November 27, 2016
میرا میانوالی —
(درد کا سفیر سے اقتباس)
لالا نے فون پر کہا فلاں تاریخ کو لاھور پہنچ جانا-
میں نے “ ٹھیک ھے“ تو کہہ دیا ، مگر جا نہ سکا- ایسا ایک دو دفعہ پہلے بھی ھو چکا تھا- اس لیے مجھے یقین تھا کہ اب کی بار لالا خاصاا ناراض ھؤاا ھوگا-
ادھر آزمائش یہ آ پڑی کہ ناصرٍفوٹوز والے ناصر خان نے مجھ سے یہ فرمائش کردی کہ ھمارے ادارے سٹی کلر لیب کاا افتتاح لالا کے ھاتھوں کرواا دیں- ناصر کی فرمائش رد کرنا میرے بس کی بات نہ تھا- اسے یہ بھی نہیں بتا سکتا ھا کہ لالا آج کل مجھ سے ناراض ھے ، کیونکہ
بات تو سچ تھی ، مگر بات تھی رسوائی کی
( الفاظ میں ردوبدل کے لیے پروین شاکر سے معذرت)
میں نے فون پر لالا سے رابطہ کیا ٠ لالا نے فون اٹینڈ کیا تو میں نے کہا “ لالا، بہوں ناراض ایں ڈھولے تے؟“
لالا نے ھنس کر کہا “ تیکوں جانڑدا نہ ھوواں ھا تاں ضرور ناراض تھیواں ھا- حکم ڈ سا ؟“
میں نے بتایا کہ ناصر کے سٹی کلر لیب کا افتتاح کرناھے ، تو لالا نے کہا ٹھیک ھے میں یکم کو ّ عصمت گل خٹک کی دعوت پر میانوالیی پریس کلب کیی ایک تقریب کے لیے آرھا ھوں- اس تقریب کے بعد سٹی کلر لیب کا افتتاح بھی کر لیں گے-“
تقریب بھی ھوئی ، افتتاح بھی ھؤا، مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج نہ سٹی کلر لیب موجود ھے ، نہ ھی اس موقع کی کوئیی پکچر- کل اس پوسٹٹ کے لیے ناصر اور عصمت گل خٹک سے پکچر کا مطالبہ کیا تو دونوں نے بڑے دکھ سے کہا “ جی ، افسوس کہ اس وقت اس موقع کی کوئی پکچر ھمارے پاس موجود نہیں “-
(اس پوسٹ میں شامل پکچر ایک اور تقریب کی ھے)- 28نومبر 2016
میرا شعر —آرائش ، ذکاء ملک
مری-28نومبر 2016
گیت میرا
آواز لالا عیسی خیلوی کی
آرائش ۔ وسیم سبطین , چکوال-28نومبر 2016
میرا میانوالی —
“درد کا سفیر“ کے تیسرے ایڈیشن کا مطالبہ تو بہت عرصے سے جاری ھے، شاید پہلےبھی کسی پوسٹ میں بتا چکا ھوں کہ میں نے تو تقریبا تین سال پہلے مسودہ مکمل کرلیا تھا- پبلشر نے جہلم سے کتاب چھپوانی تھی- ایک دن ھمارے ایک شاعر دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ میری شاعری کی کتاب بھی اسی پبلشر نے جہلم سے چھپوانی ھے- میں اپنی کتاب کا مسودہ لے کر جہلم جا رھا ھوں، آپ درد کا سفیر کا مسودہ بھی مجھے دے دیں ، میں جہلم والے پرنٹر کو دے دوں گا- ان کی بات سن کر میں نے مسودہ ان کو دے دیا، مگر اس کے بعد مسودہ بھی غائب ، وہ دوست بھی- رھتے وہ میانوالی میں ھیں ، مگر مجھے شرم آتی تھی اس لیے انہیں شرمندہ نہ کر سکا- تقریبات میں ان سے کئی بار ملاقات بھی ھوئی، مگر وہ آنکھیں جھکائے ِ“ السلام علیکم سر “ کہہ کر ادھر ادھر غائب ھو جاتے ھیں-
اللہ کے فضل سے اب صورت حال یہ ھے کہ میانوالی والے پبلشر کے علاوہ تین اور پبلشر بھی یہ کتاب چھپوانا چاھتےے ھیں- سب سے بات کرنےے کے بعد کتاب اس پبلشر کو دوں گا جو جلد ا ز جلد یہ کتاب چھپوا دے– یہی چاھتے ھیں نا آپ ؟؟؟ -29نومبر 2016
شعر میرا -انتخاب اور پیشکش ، ملک شعبان کسر
واں بھچراں ، ضلع میانوالی-29نومبر 2016
میری نعت-پیشکش ، محمد شعیب شاہ
پیل پیراں، ضلع خوشاب-30نومبر 2016