منورعلی ملککی اکتوبر 2017 کیفیس بک پرپوسٹ
میرا میانوالی————————-–
ھمارے بچپن کے زمانے میں داؤدخیل میں صرف ایک ھی قتل ھؤا – بہرام خیل قبیلے کے ایک نوجوان نے ایک انزلے خیل نوجوان کو قتل کردیا – بندوق سے نہیں ، برچھے سے- برچھا بانس کی ایک آٹھ دس فٹ لمبی ڈانگ ھوتی تھی ، جس کے ایک سرے پر چھری سی لگی ھوتی تھی- یہ بھی بہت کم لوگوں کے گھر میں ھوتی تھی- اسی قسم کی ایک چیز سنگھولا کہلاتی تھی- ڈانگ کے سرے پر لوھے کی گول نوکدار سلاخ لگی ھوتی تھی- ھتھیاروں کی نمائش کا شوق نہیں ھوتا تھا- برچھا اور سنگھولا صرف لڑائی کے وقت نکالے جاتے تھے- بندوق کا استعمال بہت بعد میں شروع ھؤا- بندوقیں بہت کم لوگوں کے پاس ھوتی تھیں – ان بندوقوں کا ذکر انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں ھوگا-
لڑائی زیادہ تر ڈانگ سوٹے سے ھوتی تھی- لوگ زخمی ھو جاتے تھے ، مرتا کوئی نہ دیکھا ، نہ سنا-
لوگ بہت غریب تھے- تھانے کچہری کے خرچے اور بے عزتی سے بچنے کے لیے شہر کے معززین سے کہہ سن کر صلح صفائی کرلیتے تھے- ایسے کئی کیسز کے فیصلے ھماری چوک پر میرے دادا مولوی مبارک علی اور چاچا ھدایت اللہ خان نمبردار کردیا کرتے تھے-
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ھے کہ پرامن دور تھا- ھمارے میٹرک تک پہنچتے پہنچتے اس دور کی جگہ نسل در نسل دشمنیوں کا دور آگیا- بندوق پستول سے کئی لوگ قتل ھوئے ، ان کے بدلے میں دوسری طرف کے کئی لوگ قتل ھوتے رھے- مقدمات ، سزائیں، تھانے کچہریوں میں خواری، سب کچھ ھونے لگا- صبر145 تحمل 145 عقل کی جگہ “غیرت ” نے لے لی- یہ انوکھی غیرت اسلحے نے فراھم کی- بھائی کے ھاتھوں بھائی قتل ھونے لگا– اب تو جدید اسلحے اور پیسے نے یہ کام بہت آسان کردیا ھے- اللہ رحم کرے –
—- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک – 2 اکتوبر 2017
میرا میانوالی——————––
بندوق کا لائسنس بہت مشکل سے ملتا تھا- سرکاری ملازموں کو جان و مال کی حفاظت کے لیے بارہ بور بندوق کا لائسنس مل جاتا تھا- یہ Double Barrel (دونالی) اور Single Barrel (ایک نالی والی) بندوقیں برطانیہ ، جرمنی اور امریکہ کی بنی ھوئی ھوتی تھیں- لائسنس آسانی سے نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے گھروں میں بغیر لائسنس کی بندوقیں چوری چھپے رکھی ھوئی تھیں-
یہ بغیر لائسنس کی بارہ بور بنوقیں کوھاٹ کے علاقہ درہ آدم خیل میں بنتی تھیں- اس لیے انہیں درے وال بندوق کہتے تھے- عجیب چیز ھوتی تھی یہ درے وال بندوق- عام بندوق سے پانچ سات گنا بھاری – آج کل کی بارہ بور کی طرح اس کے دوحصے نہیں ھوتے تھے- بٹ کے نیچے ایک لیور لگا ھوتا تھا ، اس کو نیچے کی طرف کھینچتے تو بندوق کے درمیان میں چیمبر (کارتوس ڈالنے کی جگہ) کھلتا، کارتوس ڈال کرلیور کو کھینچ کر اپنی جگہ واپس لاتے تو بندوق لوڈ ھو جاتی تھی- ایسی بندوق تھی جسے اٹھانا بھی مشکل تھا ، چلانا بھی- اس لیے اکثر لوگ اس تکلف میں پڑنے کی بجائے غصہ پی لینا زیادہ مناسب سمجھتے تھے- بعض اوقات یوں بھی ھوتا تھا کہ کوئی آدمی کسی سے لڑ کر گھر آتا ، مگر بندوق اٹھانے لگتا تو گھر کے بزرگ ، بھائی بہنیں وغیرہ اس سے بندوق لے کر گھر سے باھر نہ جانے دیتے-
آج کل 30 بور پستول تو تقریبا ھر آدمی کی جیب میں ھوتا ھے- مرنا مارنا بہت آسان ھو گیا ھے-
ایک دوست سے میں نے کہا “یار یہ پستول ھروقت کیوں اٹھائے پھرتے ھو-”
کہنے لگا ” لالا ، چنگا ھوندا اے- کتھائیں اڑ پھس تھی ونجیں تاں کم آندا اے ”
میں نے کہا ” اڑ پھس تو کسی سے بھی ھو سکتی ھے – بس کے کرائے پر کنڈکٹر سے بھی ھوجاتی ھے”
ھنس کر کہنے لگا ” ایڈے کملے ناں ”
—- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 3 اکتوبر2017
میرا میانوالی——————–
کچھ دوستوں نے کل کی پوسٹ پر کمنٹس میں میانوالی کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا ،کہ یہاں کے لوگ صبروتحمل اور برداشت سے عاری ھیں- ذرا ذرا سی بات پر قتل کردیتے ھیں – افسوس کی بات ھے کہ ایسے کمنٹس دینے والوں میں کچھ میانوالی کے رھنے والے دوست بھی شامل ھیں-
میانوالی کے بارے میں یہ تآثر سو فی صد غلط ھے- یہ تاثر کسی زمانے میں کسی حد تک درست تھا، مگر اب نہیں- اس تاثر کی وجہ سے باھر کے لوگ میانوالی کے لوگوں کو جاھل اور وحشی سمجھ کر حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے- راولپنڈی اور لاھور میں تعلیم کے دوران ھمیں بھی اس حقارت کا سامنا کرنا پڑتا تھا- بہت دکھ ھوتا تھا لوگوں کی باتیں سن کر-
لیکن اب بحمداللہ صورت حال مختلف ھے- دفاع وطن سے لے کر گلوکاری تک ھرمیدان میں میانوالی کے لوگوں کی نمایاں خدمات اور عالمگیر شہرت نے میانوالی کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کر دیا ھے- اب ملک بھر ، بلکہ دنیا بھر میں یہاں کے لوگوں کو محبت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ھے- یہ انقلاب تعلیم اور وسائل روزگار کی فراوانی کا نتیجہ ھے- تعلیم یافتہ اور کاروبار سے وابستہ لوگوں کی تعداد چند ھی سال میں کئی گنا بڑھ گئی ھے- لوگوں کو لڑائی جھگڑے کا وقت ھی نہیں ملتا-
اچھے برے لوگ ھر جگہ ھوتے ھیں- یہاں بھی ھیں- لیکن برے لوگ دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں کم ھیں- یہاں خودکش دھماکے ، اغوا برائے تاوان، ڈاکے اور ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم نہیں ھوتے-خواتین کو زندہ جلانے کی کوئی واردات میں نے نہیں سنی- نسل در نسل اور قتل در قتل عداوتوں کا دور کب کا ختم ھو چکا- دور افتادہ دیہات میں ایک آدھ سلسلہ چل رھا ھو تو واللہ اعلم-
میں یہ نہیں کہتا کہ میانوالی جنت ھے ، مگر یہ بھی نہیں مانتا کہ یہ جہنم ھے- میں پورے یقین سے کہتا ھوں کہ میانوالی بحمداللہ تعالی خطہ امن ھے- اگر یہ بات نہ ھوتی تو میں اپنی پوسٹس کے اس سلسلے کو “میرا میانوالی ” کا عنوان نہ دیتا —منورعلی ملک – 4 اکتوبر 2017
میرا میانوالی
ضلع میانوالی کی ایک انفرادیت یہ ھے کہ ضلع کے شمال مغربی پہاڑی علاقے کی زبان اور کلچر پشتوھے- یہ علاقہ شمال میں صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوھاٹ / شکردرہ سے ملحق ھے- دلچسپ بات یہ ھے کہ ویسے تو عیسی خیل بھی خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت سے ملحق ھے، مگر عیسی خیل کی زبان اور کلچر ضلع میانوالی کے باقی علاقوں جیسا ھے-
ضلع میانوالی کا یہ پشتون علاقہ پشتو بیلٹ Pashto Belt کہلاتا ھے- لوگ بہت سادہ ، محنتی، ایماندار اور جفا کش ھیں- یہ علاقہ زندگی کی بیشتر سہولتوں سے محروم ھے- بہت سی جگہوں پر پینے کا پانی بھی میسر نہیں- لوگ جوھڑوں کا پانی پینے پر مجبور ھیں- اس علاقے کے لوگوں کی سیاسی وفاداریاں روایتی طور پر کالا باغ کے نواب خاندان سے وابستہ رھی ھیں- نواب صاحبان چاھتے تو اس علاقے کو جنت بنا سکتے تھے مگر – – – – – – !!!
تبی سر ، ٹولہ بانگی خیل , چابری ، کتکی بیرونی اور ٹولہ منگ علی اس علاقے کے مشہور قصبے ھیں- کالاباغ اس علاقے کا کاروباری مرکز ھے- کئی لوگ کاروبار کے سلسلے میں مستقل طور پر کالاباغ میں مقیم ھیں-
کھجور کے پتوں سے بنی ھوئی چٹائیاں ، مصلے اور دستی پنکھے یہاں کی مقبول گھریلو مصنوعات ھیں- کسی زمانے میں یہ مصنوعات کشتیوں کے ذریعے کراچی تک جاتی تھیں- دریا پر بیراج بننے سے کشتیوں کی آمدورفت کا سلسلہ ختم ھو گیا—- بے روزگاری بہت زیادہ ھے- فوج کی ملازمت بطور سپاھی یہاں کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش ھے- یہ بھی قسمت سے ملتی ھے-
لوگوں کی مادری زبان پشتو ھے- زیادہ تر پشتو ھی بولتے ھیں- ٹوٹی پھوٹی اردو اور سرائیکی بھی بول لیتے ھیں، مگر تلفظ پشتو ھی رھتا ھے—
پیلو، گرگرے، دیسی انجیر اور بیر یہاں کے خودرو جنگلی پھل ھیں جو کالا غ کی مارکیٹ میں اکثر دیکھنے میں آتے ھیں-
اس علاقے کی سب سے بڑی خوبی یہاں کے لوگوں کا حسن اخلاق ھے- بہت مخلص ، وفادار اور مہمان نواز لوگ ھیں- اللہ اس علاقے کو شادوآباد رکھے ، ھمیں اس پر فخر ھے- —– رھے نام اللہ کا –منورعلی ملک – 5 اکتوبر 2017
میرا میانوالی
ضلع میانوالی کی ایک انفرادیت یہ ھے کہ ضلع کے شمال مغربی پہاڑی علاقے کی زبان اور کلچر پشتوھے- یہ علاقہ شمال میں صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوھاٹ / شکردرہ سے ملحق ھے- دلچسپ بات یہ ھے کہ ویسے تو عیسی خیل بھی خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت سے ملحق ھے، مگر عیسی خیل کی زبان اور کلچر ضلع میانوالی کے باقی علاقوں جیسا ھے-
ضلع میانوالی کا یہ پشتون علاقہ پشتو بیلٹ Pashto Belt کہلاتا ھے- لوگ بہت سادہ ، محنتی، ایماندار اور جفا کش ھیں- یہ علاقہ زندگی کی بیشتر سہولتوں سے محروم ھے- بہت سی جگہوں پر پینے کا پانی بھی میسر نہیں- لوگ جوھڑوں کا پانی پینے پر مجبور ھیں- اس علاقے کے لوگوں کی سیاسی وفاداریاں روایتی طور پر کالا باغ کے نواب خاندان سے وابستہ رھی ھیں- نواب صاحبان چاھتے تو اس علاقے کو جنت بنا سکتے تھے مگر – – – – – – !!!
تبی سر ، ٹولہ بانگی خیل , چابری ، کتکی بیرونی اور ٹولہ منگ علی اس علاقے کے مشہور قصبے ھیں- کالاباغ اس علاقے کا کاروباری مرکز ھے- کئی لوگ کاروبار کے سلسلے میں مستقل طور پر کالاباغ میں مقیم ھیں-
کھجور کے پتوں سے بنی ھوئی چٹائیاں ، مصلے اور دستی پنکھے یہاں کی مقبول گھریلو مصنوعات ھیں- کسی زمانے میں یہ مصنوعات کشتیوں کے ذریعے کراچی تک جاتی تھیں- دریا پر بیراج بننے سے کشتیوں کی آمدورفت کا سلسلہ ختم ھو گیا—- بے روزگاری بہت زیادہ ھے- فوج کی ملازمت بطور سپاھی یہاں کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش ھے- یہ بھی قسمت سے ملتی ھے-
لوگوں کی مادری زبان پشتو ھے- زیادہ تر پشتو ھی بولتے ھیں- ٹوٹی پھوٹی اردو اور سرائیکی بھی بول لیتے ھیں، مگر تلفظ پشتو ھی رھتا ھے—
پیلو، گرگرے، دیسی انجیر اور بیر یہاں کے خودرو جنگلی پھل ھیں جو کالا غ کی مارکیٹ میں اکثر دیکھنے میں آتے ھیں-
اس علاقے کی سب سے بڑی خوبی یہاں کے لوگوں کا حسن اخلاق ھے- بہت مخلص ، وفادار اور مہمان نواز لوگ ھیں- اللہ اس علاقے کو شادوآباد رکھے ، ھمیں اس پر فخر ھے- ——– رھے نام اللہ کا —– منورعلی ملک –5 اکتوبر 2017
میرا میانوالی———————––
دریا کے بائیں کنارے، پہاڑ کے پار بستی بنی افغاناں ھے- یہ دریا کے بائیں کنارے پشتو زبان اور کلچر کی اکلوتی نمائندہ بستی ھے- لیکن پشتون بیلٹ کی طرح یہاں خالص زبان اور کلچر باقی نہیں رھا- آبادی میں بھی پشتو اور میانوالی کی زبان بولنے والوں کی تعداد تقریبا برابر ھے- یہ وھی جگہ ھے جس کے قریب کالاباغ ڈیم بن رھا تھا- ڈیم کے انفرا سٹرکچر کے کچھ باقیات اب تک موجود ھیں- سیاسی ڈراما بازی کا شکار ھو کر یہ منصوبہ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا-
بنی افغاناں کے جنوب میں مسان تک کالا باغ کی نواب فیملی کی عمل داری ھے- مسان میں ان کا ایک منیجر اس جاگیر کی دیکھ بھال کرتا ھے- یہاں ایک وسیع شکار گاہ (Conservatory) بھی ھے- جسے “رکھ” کہتے ھیں-
مسان سے لے کر ڈھوک علی خان / کنڈ تک کا علاقہ اعوان بیلٹ یا اعوان کاری کہلاتا ھے- تقریبا پچاس کلومیٹر لمبی اس پٹی میں تمام تر آبادی اعوان ھے- اس علاقے کی زبان اور کلچر ضلع اٹک والاھے- یہ پوٹھوھاری کلچر کی ایک شاخ ھے جسے”اتراھدی کلچر” کہتے ھیں – اتراھدی سے مراد ھے مشرقی- یہاں کے لوگ بہت سادہ، دلیر اور ذھین ھیں- اعوان قوم کی تمام خوبیوں خامیوں سے یہ لوگ مالامال ھیں ( میں خود بھی اعوان ھوں، اس لیے ، اعوانوں کی خوبیاں خامیاں مجھ سے بہتر کون جانتا ھوگا)-
اس علاقے میں دوتین چھوٹی چھوٹی جاگیرداریاں بھی ھیں- مگر یہاں کے جاگیردار وڈیروں کی طرح سفاک اور ظالم نہیں- زمینداری اور سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے علاقے کے وی آئی پی ھیں- ان میں تھمے والی ، ڈھوک علی خان اور کنڈ کے ملک بہت نمایاں ھیں-
چکڑالہ، رکھی ، کلری، بن حافظ جی ، ڈھرنکہ، ڈھوک علی خان اس علاقے کے مشہور قصبے ھیں- تمام علاقہ بارانی ھے- صرف بن حافظ جی کے قریب کچھ رقبہ نمل جھیل سے سیراب ھوتا ھے- غربت اور بے روزگاری بہت زیادہ ھے- کاشتکاری سے کچھ زیادہ آمدنی نہیں ھوتی- کچھ لوگ پاک فوج میں ملازم ھیں، کچھ اب ٹرانسپورٹ کے شعبے سے رزق کما رھے ھیں-
اللہ آباد رکھے، یہ علاقہ بھی میانوالی کا مان ھے- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 6 اکتوبر 2017
میرا میانوالی/
کلچر کی ورائیٹی کے لحاظ سے ضلع میانوالی اپنی مثال آپ ھے- تقریبا دوسال سے میں مختلف حوالوں سے اس کلچر کے نمایاں خدو خال بیان کر رھا ھوں- بہت سے علاقوں اور اھم شہروں کے بارے میں لکھ چکا ھوں- اس تمام بحث کو سمیٹیں تو میانوالی کے کلچر کی Outline کچھ یوں بنتی ھے-
1 ۔ پشتو (خٹک کلچر) —- کالاباغ کا شمال مغربی پہاڑی علاقہ
2 ۔ نیازی کلچر ——— عیسی خیل سے میانوالی ، مغرب میں موچھ کا علاقہ , اور مشرق میں سوانس، غنڈی ، بوری خیل، موسی خیل، چھدرو تک کا علاقہ- (بوری خیل میں پشتون کلچر کے کچھ آثار بھی ملتے ھیں) – میانوالی کے زیادہ تر حصے کا کلچر یہی ھے- اس کے بارے میں بہت کچھ لکھتا رھتا ھوں –
3 ۔ اعوان کلچر ———— پہاڑ کے مشرق میں مسان سے لے کر ڈھوک علی خان 247 کنڈ تک کا علاقہ ، اس کی سرحد مشرق میں ضلع اٹک اور جنوب میں وادی سون (ضلع خوشاب) سے ملتی ھے-
4 ۔ تھل کا کلچر (سرائیکی کلچر) ———— کندیاں سے جنوب میں تحصیل پپلاں کی جنوبی سرحد تک کا علاقہ
5 ۔ کچے کا کلچر ————- دریائے سندھ کے کنارے آباد بستیوں کا کلچر، جس پر پہلے بہت کچھ لکھ چکا ھوں-
6 ۔ کلچرل پاکٹس ( Cultural Pockets ) ———— یہ وہ شہر/ آبادیاں ھیں، جن کا کلچر ضلع میانوالی کے عمومی کلچر سے کچھ مختلف ھے- مثال کے طور پر کالاباغ شہر کی زبان اور روایات ھم سے خاصی مختلف ھیں- کالا باغ پر بھی پہلے کچھ پوسٹس لکھ چکا ھوں- یہ مکھڈی کلچر کہلا سکتا ھے، کیونکہ کالا باغ کی آباد ی کا بیشتر حصہ ضلع اٹک کے شہر مکھڈ سے ھجرت کر کے یہاں آباد ھؤا-
کندیاں بھی ایک الگ کلچرل پاکٹ ھے- یہاں کے کلچر میں کچھ اثرات کچہ کے ھیں، کچھ نیازی کلچر کے, کچھ سرائیکی کلچر کے ، اور کچھ پا کستان بھر سے آئے ھوئے ریلوے ملازمین کے ملے جلے اثرات-
تیسری کلچرل پاکٹ واں بھچراں کا علاقہ ھے- اس کلچر کے بارے میں انشاءاللہ کل لکھوں گا-
اسی قسم کی ایک کلچرل پاکٹ دریا کنارے سادات کی بستیوں کی بھی بنتی ھے- اس پہ الگ لکھوں گا-
+++++++ یاد رھے کہ میں یہ سب کچھ خالص علمی حوالے سے کر رھا ھوں- میرا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں – حقائق زمین پر موجود ھیں- اللہ کے فضل سے میرادامن تعصب اور نفرت سے ھمیشہ پاک رھا ھے- اگر پھر بھی آپ کو کوئی شک و شبہ ھو تو ھوتا رھے- میں اپنا فرض ادا کر رھا ھوں——- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 7 اکتوبر2017
میرا میانوالی–
لاھور سرگودھا روڈ پر میانوالی سے تقریبا 25 کلومیٹر جنوب میں واں بھچراں نام کا یہ ھنستا بستا شہر ایک اھم کاروباری مرکز ھے- اس کا امتیازی نشان پاکستان ائیر فورس کا وہ جنگی طیارہ ھے جو شہید ائیروائس مارشل میاں عبدالرزاق کی یادگار کے طور پر سڑک کے عین وسط میں نصب ھے- اس شہر کی تاریخی پہچان سولھویں صدی میں شہنشاہ شیر شاہ سوری کی تعمیر کی ھوئی “واں” ھے- “واں” کو اردو میں باؤلی کہتے ھیں- یہ ایسا کنؤاں ھوتا تھا جس کی ایک طرف سے سیڑھیاں پانی کی سطح تک جاتی تھیں- ان سیڑھیوں کے راستے شاھی افواج، اور ان کے گھوڑے، ھاتھی وغیرہ نیچے اتر کر پانی پیا کرتے تھے- فوجی مقاصد کے لیے شیر شاہ سوری نے سڑکوں کے کنارے ایسی کئی وائیں بنوائی تھیں-
واں بھچراں کی واں یہاں کے مشہورومعروف قبیلے بھچر کے نام سے منسوب ھے- اب یہ واں نہایت خستہ حالت میں ھے- محکمہ آثار قدیمہ کو اس تاریخی ورثے کے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاھیے-
واں بھچراں کا کلچر سو فی صد ضلع خوشاب کے جڑواں شہروں گنجیال بندیال جیسا ھے- زبان ، لباس ، رسم ورواج، سب کچھ ضلع خوشاب کے اس خطے جیسا ھے- یہ کلچرپہاڑ پار کے اعوان کلچر سے بالکل مختلف ھے-
واں بھچراں شہر تو سڑک سے کچھ فاصلے پر ھے، سڑک کے دونوں طرف یہاں کا لاری اڈہ بھی اب اچھا خاصا شہر بن چکا ھے- یہ چھدرو اور دوسرے بہت سے نواحی دیہات کا کاروباری مرکزھے- اس لیے یہاں ھروقت رونق لگی رھتی ھے- لوگ بہت ملنسار, زندہ دل اور خوش اخلاق ھیں- ان کے لہجے کی ملائمت سرائیکی کلچر سے ملتی جلتی ھے- اللہ آباد رکھے ، یہ علاقہ بھی میانوالی کا مان ھے———- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک –8 اکتوبر 2017
فیس بک سے دوستی ———————–
کل سہ پہر کو میں اپنے عزیز محمداحسن شاہ کے ساتھ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا – ایک بزرگ سائیکل پر تشریف لائے اور اپنا تعارف کراتے ھوئے کہا 147 میرا نام سید عطاءاللہ شاہ ھے- وانڈھی ارائیاں میں رھتا ھوں- آپ کی پوسٹس بڑے شوق سے پڑھتا ھوں – اس حوالے سے میں نے آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک نظم لکھی ھے ، یہی آپ کو دینے کے لیئے آیا ھوں- 147
یہ کہتے ھوئے انہوں نے خاکی رنگ کا ایک لفافہ مجھے تھما دیا- کھول کر دیکھا تو دس اشعار کی بہت خوبصورت نظم ، بہت دلکش انداز میں لکھی ھوئی تھی- نظم کے الفاظ اور بندش کا حسن اپنی جگہ، ان کا خوبصورت ھینڈ رائیٹنگ دیکھ کر دیکھتا ھی رہ گیا-
ان کی بہت منت سماجت کی کہ شاہ جی تشریف رکھیں ، چائے یا پانی پی لیں ، مگر اللہ کے اس فرشتہ سیرت بندے نے میری بات نہ مانی- فرمایا “میں نے اپنا فرض ادا کرنا تھا، کر لیا- آپ کو میری کاوش پسند آئی، یہی میرا چائے پانی سمجھ لیں- انشاءاللہ پھر کبھی ملاقات ھوگی تو کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤں گا “-
کھڑے کھڑے یہ کہا، اور مجھ سے گلےمل کر رخصت ھوگئے- ان کے اس احسان پر حیران سے زیادہ پریشان ھوں کہ اس احسان کا قرض کیسے اتاروں گا- رب کریم سے دعا ھے کہ سیدعطاءاللہ شاہ کو بے حساب عزت اور خوشیاں عطا فرمائے، اور میری سب صلاحیتیں ان کو بھی عطا فرمادے-
شاہ جی کی نظم تو پوسٹ نہیں کر سکتا، کہ اپنی تعریف پوسٹ کرنا اچھا نہیں لگتا- ان کے خوبصورت ھینڈرائیٹنگ کا نمونہ کچھ دیر بعد پوسٹ کر دوں گا– کمال کی خوشنویسی ھے-
انشاءاللہ پھر کبھی ان سے ملاقات ھوئی تو ان کی پکچر کے ساتھ ان کے بارے میں پوسٹ لکھوں گا٠ ایسے لوگ اس سرزمین کا حسن ھیں—رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –8 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
آج کا موضوع ھے ————— چھدرو
چھدرو کے بارے میں عام تاثر خوف اور دھشت کا ھے، مگر تصویر کا یہ رخ اب دھندلا ھوتا جا رھا ھے- تصویر کا دوسرا رخ چاند کی طرح روشن ھے- وہ رخ یہ ھے کہ چھدرو نامور ماھرین تعلیم کا علاقہ ھے- سیف اللہ خان بدری خیل ، حاجی سمند خان، لالا محمد شیرخآن، ممتاز خان اور سنٹرل ماڈل ھائی سکول کے سابق پرنسپل محمد اسلم خان نیازی کی خدمات ضلع میانوالی کی تعلیمی تاریخ کا ایک تابناک باب ھیں- یہ سب لوگ بہت اچھے ٹیچر بھی تھے ، کامیاب ایڈمنسٹریٹر بھی- ھم سب ایک ساتھ محکمہ تعلیم سے وابستہ ھوئے- ھمارے گروپ میں لالو نورخان قتالی خیل ، شیرعباس خان غورنی اور موسی خیل کے محمد عظیم خان بھی شامل تھے- ھم سب ایک دوسرے کو لالا کہتے تھے- ھمارا یہ بھایئوں جیسا پیار بحمداللہ آج بھی سلامت ھے-
چھدرو پہاڑ کے دامن میں واقع ھے- موسی خیل سے واں بھچراں جانے والی سڑک چھدرو سے ھو کر گذرتی ھے- چھدرو محض ایک شہر نہیں ، یہ پورا علاقہ چھدرو کہلاتا ھے- زیادہ تر علاقہ بارانی ھے- کچھ رقبہ ایک دو سرکاری ٹیوب ویلز سے سیراب ھوتا ھے- زندگی کی بیشتر سہولتوں سے یہ علاقہ محروم ھے- لوگ جفا کش ، سادہ ، مخلص اور دلیر ھیں- یاروں کے یار ھیں ، جس کو ایک دفعہ بھائی کہہ دیں اسے زندگی بھر بھائی ھی سمجھتے ھیں-
چھدرو کی تاریخ کے بارے میں کچھ معلومات انشاءاللہ کل صبح کی پوسٹ میں لکھوں گا- کچھ اور اھم باتیں بھی——- رھے نام اللہ کا – منورعلی ملک — 9 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
لفظ ” چھدرو” کی تاریخ کے بارے میں ایک تحقیق یہ ھے کہ لفظ چھدرو کے معنی ھیں سفید پتھر، آج سے 6000 سال پہلے جب یونانی باشاہ دائیو نیسس Dionysus نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو ھمارا پہاڑ کوہ ھمالیہ کی طرح برف سے ڈھکا ھؤا ھوتا تھا- برف کو سفید پتھر کا نام دے کر اس علاقے کو چھدرو کہا گیا-
تاریخ کی عمومی داستان تو یہ ھے کہ یونان کے سکندراعظم نے آج سے تقریبا 2400 سال قبل برصغیر پر حملہ کیا – اس سے پہلے یونان کا بر صغیر سے کوئی تعلق نہ تھا- مگر بعض مؤرخین نے مزید تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تقریبا 6000 سال پہلے بھی یہاں Dionysus خاندان کی حکومت تھی- اس علاقے کا مشہور شہر مرمنڈی (میں نے نہیں دیکھا) یونایوں کا قلعہ ھؤا کرتا تھا-
چھدرو کے بارے میں دوسری تحقیق یہ ھے کہ قریبی پہاڑ سے نکلنے والے 6 چشمے/ نالے اس علاقے سے گذرتے تھے- چھدرو کے معنی ھیں 6 دریا، ان چشموں / نالوں کی وجہ سے چھدرو کو یہ نام ملا- واللہ اعلم-
چھدرو کسی زمانے میں شعروادب کی سرزمین بھی تھا- وارث شاہ اور خواجہ فرید سائیں کی طرح اکبر چھدروی اس علاقے کے کلاسیکل شاعر تھے- ان کے بہت بڑے مداح حیات اللہ خان میرے سٹوڈنٹ تھے- کالج یونین کے صدر بھی رھے- حیات اللہ خان بہت عرصہ پہلے کہیں ٹیچر تھے ، اب ھیڈماسٹر یا پرنسپل ھوں گے-
کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں ظفر خان نیازی نے بتایا کہ محمدخان نام کے ایک ٹیچر کا ایک ناول بھی بہت عرصہ پہلے شائع ھؤا تھا- محمد خان جوانی ھی میں اس دنیا سے رخصت ھوگئے- اسی حوالے سے محمد خان نامی نوجوان نے بتایا کہ مرحوم محمد خان ان کے چچا تھے- اور میرا نام انہی کے نام پر رکھا گیا-م- ان کا ناول اب بھی ان کے ھاں موجود ھے-
— رھے نام اللہ کا –( پکچر، خورشید انور خان نیازی، بیورو چیف روزنامہ ڈان )– منورعلی ملک — 10 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
اپریل 1989 میں ایک دن میں منصورآفاق کے ھمراہ چشمہ بیراج کے نواح میں واقع خانقاہ سراجیہ پہنچا- اس سفر کا مقصد یہ تھا کہ میں نے انگریزی کے مشہور اخبار THE PAKISTAN TIMES کے لیے خانقاہ سراجیہ کی لائبریری پر فیچر لکھنا تھا٠ فیچر ایسا مضمون ھوتا ھے جس میں پکچرز بھی شامل ھوتی ھیں- منصور آفاق میرے کیمرہ مین بھی تھے گائیڈ بھی – گائیڈ کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس سے پہلے میں نے یہ خوبصورت بستی نہیں دیکھی تھی-
خانقاہ سراجیہ میں صاحبزادہ پروفیسر محمد حامد سراج سے میرا تعارف پہلے سے تھا- اھل قلم کی میٹنگزمیں , اور ناصر خان (ناصرفوٹوز) کے ھاں ان سے ملاقاتیں ھوتی رھتی تھیں- منصور نے انہیں ھمارے متوقع دورے کی اطلاع دے دی تھی- اس لیے وھی ھمارے میزبان تھے-
لائبریری دیکھی – قرآن مجید کے نادر نسخوں ، تفسیر، حدیث , فقہ اور دوسرے دینی امور وعلوم کے بارے میں مشہور زمانہ کتابوں کا ایسا جامع ذخیرہ کسی یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی شاید ھی ملے-
ھم نے قرآن حکیم کے چند نایاب قلمی نسخوں اور کچھ دوسری اھم کتابوں کی تصویریں بنائیں- کچھ معلومات پروفیسر سراج صاحب سے لیں ، ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا- پروفیسر محمد حامد سراج ملکی سطح پر معروف افسانہ نگار ھیں- ان کی افسانہ نگاری پر بھی گفتگو ھوئی- سراپا محبت شخصیت ھیں- اتنی محبت اور احترام دیتے ھیں کہ انسان پریشان ھوجاتا ھے- ایک عجیب سی دلکشی ھے ان کی شخصیت میں- ان کی مہربانی سے میرا مضمون باتوں باتوں ھی میں مکمل ھو گیا- گھر جا کر لکھ لیا- اخبار کے پورے ایک صفحے کا یہ مضمون بہت پسند کیا گیا- مضمون کا عنوان تھا-
A LIBRARY IN THE DESERT
خانقاہ سراجیہ کا مفصل تعارف انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں لکھوں گا- یہاں صرف اتنا بتا دیتا ھوں کہ تلوکرقبیلے کی اس گمنام سی بستی میں جب 1920-21 میں اللہ کے ایک نیک بندے نے خانقاہ قائم کی تو یہ بستی مرجع خلائق بن گئی- ——— رھے نام اللہ کا – منورعلی ملک — 11 اکتوبر 2017
میرا میانوالی—————————–
خانقاہ سراجیہ پاکستان کی قدیم ترین خانقاھوں میں شمار ھوتی ھے- روحانی تربیت کا یہ مرکز مولانا ابوسعداحمدخان نے 1920-21 میں کندیاں کے جنوب میں موضع کھولہ میں قائم کیا- ان کی وفات کے بعد خواجہ حاجی محمد سراج الدین اس خانقاہ کی سربراھی پر متمکن ھوئے- خانقاہ انہی کے نام سے منسوب ھے – وہ اس عالم فانی سے رخصت ھوئے تو 1956 میں خواجہ خان محمد نے اس تربیت گاہ کی قیادت سنبھالی –
1970 میں فتنہ قادیانیت کے خلاف تحریک چلی تو خواجہ خان محمد اس سے وابستہ ھو گئے- یہ ایک عالمگیر تحریک تھی- اپنے خلوص ، علم اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر خواجہ صاحب اس تحریک کے سربراہ مقرر ھوئے، اور زندگی بھر اس منصب پر فائز رھے-
حضرت خواجہ خان محمد بہت فعال شخصیت تھے- دنیا بھر میں تنظیم کو متحد ، منظم اور متحرک رکھا- تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بے شمار کانفرنسز منعقد کر کے رائے عامہ کو بیدار اور منظم کیا- ان کی مسلسل جدو جہد کا نتیجہ قادیانیوں (مرزائیوں) کو غیرمسلم قرار دینے کی صورت میں نمودار ھؤآ- آئین میں باقاعدہ ایک شق کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردے دیا گیا – – ناموس سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے ان کی مساعی جمیلہ نبی اکرم کو یقینا پسند آئی ھوں گی- اللہ نے اس کارخیر کے لیے انہیں عمر خضر عطا کردی- 98 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ھوئے-
خانقاہ سراجیہ ایک عالیشان مسجد ، مدرسہ ، خانقاہ اور لائبریری پر مشتمل ھے–
چلتے چلتے یہ بھی بتادوں کہ خانقاہ ھوتی کیا ھے- خانقاہ روحانی تربیت کا مرکز ھوتی ھے جہاں مجاھدہ اور ریاضت کے ذریعے تزکیہ نفس کی تربیت دی جاتی ھے- بڑی مشکل راہ ھے، مگر قرب الہی کا یقینی وسیلہ بھی ھے- یہ سلسلہ بھی سرورکائنات علیہ السلام نے مسجد نبوی سے شروع کیا تھا- اس مشکل راہ پر چل کر جولوگ درجہ کمال کو پہنچے ان میں داتا گنج بخش ، خواجہ نظام الدین چشتی اور خواجہ فرید شکر گنج جیسے برگزیدہ لوگ شامل ھیں-
سلوک و تصوف کے حوالے سے خانقاہ سراجیہ ایک تاریخ ساز ادارہ ھے- اس کا وجود سرزمین میانوالی کے لیے باعث فخر ھے- ملک بھر میں لاکھوں لوگ اس خانقاہ سے وابستہ ھیں ———- رھے نام اللہ کا-منورعلی ملک — 12 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
شجر راھوں کے کٹتے جا رھے ھیں
سروں سے سائے ھٹتے جا رھے ھیں
صبح اکرم بیٹے نے لاھور سے یہ المناک خبر دی کہ میرے محترم دوست سید سردارجاوید صاحب یہ دنیا چھوڑ کر خالق حقیقی کے ھاں جا بسے – صدمہ اتنا بڑا ھے کہ مرحوم کے صاحبزادے سید محمد علی جاوید سے فون پر تعزیت کرنے کی ھمت بھی نہیں ھو رھی- تیس سال پر محیط دوستی کی یادیں فلم کی طرح ذھن میں گھوم رھی ھیں-
سید سردار جاوید میرے محسن دوست تھے- یہ کہوں تو غلط نہ ھوگا کہ ھماری دوستی کو انہوں نے بھائی چارے کی حدود میں پہنچا دیا- ان کے گھر کے افراد بھی مجھے اپنی فیملی کا ممبر سمجھتے ھیں- میں انہیں شاہ جی کہتا تھا ، وہ مجھے ملک صاحب- مجھے زندگی گذارنے کا فن سکھانے میں شاہ جی نے بہت اھم کردار ادا کیا- بہت کام کی باتیں بتایا کرتے تھے-
مجھے ایم اے انگلش سے متعلقہ کتابوں کے مصنف کی حیثیت میں شاہ جی ھی نے پاکستان بھر میں متعارف کرایا- پھر مجھے اپنے ادارے کتاب محل کے بورڈ آف پروفیسرز کا چیئرمین مقرر کردیا-
شاہ جی نے ھمارے کاروباری تعلق کو بھائی چارہ بنا دیا- 1998 میں امجد بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے اپنے دونوں صاحبزادوں کے ھمراہ لاھور سے میانوالی / داؤدخیل پہنچے- یہ ان کا میانوالی کا پہلا اور آخری سفر تھا- میں بھی ان کے بچوں کی شادیوں میں شرکت کرتا رھا-
2010 میں اکرم بیٹے کے لاھور منتقل ھونے سے پہلے ، لاھور میں میرا گھر شاہ جی ھی کا گھر تھا- میں جب بھی لاھور آتا، انہی کے ھاں قیام کرتا تھا- بہت خیال رکھتے تھے میرا- کہتے تھے ملک صاحب کچھ کھایا پیا کریں- میں ناشتہ برائے نام کرتا ھوں ، شاہ جی مجھے اپنے سامنے بٹھا کر پر تکلف ناشتہ کرایا کرتے تھے-
دل کا بوجھ ھلکا کرنے کے لیے یہ یادیں آپ کے ساتھ شیئر کر رھا ھوں – کچھ باتیں انشاءاللہ کل چار بجے کی پوسٹ میں شیئر کروں گا- ————- رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک – 12 اکتوبر 2017
میرا میانوالی————————–
موچھ شہر اگرچہ ضلع میانوالی کے دوسرے اھم شہروں کی طرح میانوالی / عیسی خیل روڈ یا میانوالی / لاھور/ سرگودھا روڈ پر واقع نہیں، مگر اھمیت کے لحاظ سے موچھ ضلع کے کسی بھی شہر سے کم نہیں- خواتین کی تعلیم کے لحاظ سے موچھ ضلع بھر میں سب شہروں سے آگے رھا ھے- بچیوں کو تعلیم دلوانے کا سلسلہ سب سے پہلے موچھ ھی میں شروع ھؤا – ایک زمانہ تھا جب ضلع بھر کے بچیوں کے سکولوں میں ٹیچرز موچھ ھی کی ھوتی تھیں-
تعلیم کے میدان میں ویسے بھی موچھ ھمیشہ نمایاں رھا ھے- یہاں کا گورنمنٹ ھائر سیکنڈری سکول ضلع کے قدیم ترین سکولوں میں شمار ھوتا ھے- خان جی غلام عباس خان کے نام سے محلہ خان جی خیل میں عباسیہ سکول بھی ھؤا کرتا تھا- اپنے زمانے میں خاصا معیاری ادارہ تھا- اب پتہ نہیں کس حال میں ھوگا-
جب میں ٹھٹھی سکول میں تھا تو موچھ میں اکثر آمدورفت رھتی تھی- گورنمنٹ ھائی سکول کے ھیڈماسٹر مرحوم سید رسول شاہ میرے بڑے بھائی مرحوم ملک محمد انورعلی کے بہت قریبی دوست تھے-
اساتذہ کرام میں سے مرحوم عبدالغنی خان ، عبدالکریم خان تاج، امیر عبداللہ خان، عالم خان ، اور عطا محمد خان میرے بہت مہربان دوست تھے- ان میں سے جو موجود ھیں، انہیں اللہ خیروبرکت سے نوازے- جو گذر گئے، رب کریم ان کی مغفرت فرما کر اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے-
موچھ علاقے کا بہت بڑا کاروباری مرکز ھے- شمال میں داؤدخیل کچہ، بخارا، کوٹ بیلیاں، بستی شاہ گل محمد ،اتراء کلاں وغیرہ، مشرق میں محمد یار والا, پائی خیل ، مغرب میں کچہ کے کچھ دیہات ، جنوب میں مواز والا، دلیوالی ، دندی، خواجہ آباد شریف، تک کے وسیع و عریض علاقے کا کاروباری مرکز موچھ ھی ھؤا کرتا تھا-
موچھ کے کلچر میں کچے کے کلچر کی آمیزش اس کی منفرد خصوصیت ھے- سیاسی طور پر یہاں کے لوگ بہت حساس اور باخبر لوگ ھیں- میانوالی میں بھی موچھ کے پڑھے لکھے لوگوں کی ایک تنظیم ھے ،جو موچھ کے مسائل کی خاطر فعال رھتی ھے- میرے محترم بھائی مرحوم پروفیسر اقبال کاظمی کسی زمانے میں اس تنظیم کے سربراہ ھؤا کرتے تھے-
موچھ میں میرے بے شمار سٹوڈنٹس بھی ھیں- اللہ سب کو سلامت رکھے- سب میرا مان ھیں-
xxxx حنیف نیازی کے کمنٹ میں یہ پڑھ کر بہت دکھ ھؤا کہ موچھ میں قتل وغارت کے واقعات مسلسل ھورھے
ھیں – بہت افسوسناک بات ھے- اللہ رحم کرے-!!!
موچھ کے باشعور لیڈر صاحبان ادھر بھی توجہ دیں- یہ مسئلہ الیکشن سے زیادہ اھم ھے-
—– رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک – 13 اکتوبر 2017
میرا میانوالی-دوستی کا سفر ——————— 1
سید سردار جاوید کے بارے میں پوسٹس کا یہ سلسلہ شروع کرنے کی دو وجوہ ھیں- ایک تو یہ کہ ان کی موت کے صدمے کی شدت کو کم کرنا چاھتا ھوں، دوسری وجہ یہ کہ بہت زیادہ حق ھے میرے قلم پر اس مہربان دوست کا جس نے میرے قلم کو ملک بھر میں متعارف کرایا ، اور بھایئوں کی طرح ھر معاملے میں میری معاونت اور رھنمائی کرتے رھے- اس بات کا دکھ ھمیشہ رھے گا کہ میں نے یہ کام ان کی زندگی ھی میں کیوں نہ کردیا-
سید سردارجاوید سے میرا تعارف اس زمانے میں ھؤا جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی کے لائبریرین حاجی محمد اسلم خان نیازی کے ساتھ کالج لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے جایا کرتا تھا- شاہ جی کا ادارہ کتاب محل ھمارا ایک مستقل سٹاپ تھا — یہاں سے ھم انگریزی ادب کی کتابیں خریدتے تھے- شاہ جی بلا کے مہمان نواز تھے- ھمارے لیے دوپہر کے کھانے کا بندوبست اکثر وھی کیا کرتے تھے-
ایک دفعہ میں کتاب محل پہنچا تو شاہ جی نے کہا 147ملک صاحب ، آپ انگریزی اخبارات میں تو لکھتے رھتے ھیں، کچھ کام ھمارے لیے بھی کردیا کریں تو آپ کو مالی فائدہ بھی ھوگا، شہرت بھی ملے گی 147-
میں نے شاہ جی کی پیشکش قبول کر لی- شاہ جی نے مجھے ایم اے انگلش کے نصاب کی ایک کتاب دی — یہ Christopher Marlowe کا مشہور زمانہ ڈراما The Jew of Malta تھا – شاہ جی نے کہا آپ اس ڈرامے کا Paraphrase (سلیس نثر) کردیں ، اور اس سے متعلقہ اھم سوالات کے جوابات لکھ دیں- کتاب کے ساتھ شاہ جی نے مجھے ایک سفید لفافہ دیتے ھوئے مسکرا کر کہا 147 یہ لفافہ گھر جا کر کھولیں147
میں نے شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا 147شاہ جی، آپ یہ کام لاھور کے کسی پروفیسرصاحب سے کیوں نہیں لیتے-؟147
شاہ جی کہا 147 ملک صاحب ، لکھنا ھر آدمی کے بس کا روگ نہیں – یہاں جوچند سینیئر لوگ لکھ سکتے ھیں وہ اپنے ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈیمیز سے ھی فارغ نہیں ھوتے- اس لیے یہ زحمت آپ کو دے رھا ھوں147
اللہ کے فضل سے انگریزی میں لکھنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا- میں نے دوتین دن میں کام مکمل کر کے شاہ جی کو دے دیا – بہت خوش ھوئے———- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک -13 اکتوبر 2017
میرا میانوالی-وستی کا سفر ——————– 2
سید سردار جاوید قیام پاکستان کے وقت دہلی سے ھجرت کر کے لاھور میں کرشن نگر کے علاقے میں مقیم ھوئے- قدرت نے انہیں اعلی کاروباری صلاحیتوں سے نوازا تھا- فکر معاش کا حل انہوں نے ایم اے انگلش سے متعلقہ کتابوں کی اشاعت کی صورت میں نکالا- اس وقت یہ میدان بالکل خالی تھا- ایم اے انگش کی کلاسز صرف یونیورسٹیز اور دوتین بڑے کالجز میں ھوتی تھیں- اس لیے ابتدامیں کتابوں کی ڈیمانڈ محدود تھی- مگر شاہ جی کی نظر مستقبل پر تھی- کچھ عرصہ بعد ملک کے اکثر کالجز میں ایم اے انگلش کی کلاسز کا آغاز ھؤا تو شاہ جی کا کاروبار چمک اٹھا- ملک بھر سے بک سیلرز ان کی کتابیں خریدنے کے لیے آنے لگے-
شاہ جی نے دن رات محنت کی – اللہ تعالی نے ان کے کاروبار میں اتنی برکت دی کہ اردوبازار میں کرائے کی جس دکا ن میں کاروبار کرتے تھے، وہ دکان خرید لی- اپنا پریس بھی لگا لیا- ماڈل ٹاؤن میں کوٹھی بنا کر وھاں منتقل ھوگئے-
محنت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک دن کہنے لگے 147 ملک صاحب ، بہت عرصہ تک میں نے سال میں 362 دن کام کیا- صرف عیدالفطر، عیدالاضحی اور دس محرم کی ایک ایک چھٹی کرتا تھا- 147
دوپہر کا کھانا اپنے گھر سے منگواتے اور دکان کے چار پانچ ملازموں کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے- اردو بازار لاھور کی بہت معتبر و محترم شخصیت تھے- دوستی میں کاروبار کے نفع نقصان کی پروا نہیں کرتے تھے-
اللہ ان کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے- نہ بھولنے والی شخصیت تھے-
ان کی بیماری کے آخری دنوں میں ان سے ملنے کے لیے اکرم بیٹے کے ھمراہ ھسپتال گیا، مگر شاہ جی آئی سی یو میں تھے- ملاقات نہ ھو سکی- اس بات کا دکھ ھمیشہ رھے گا-
کتاب محل آج بھی میرا ھے- شاہ جی کے صاحبزادے علی صاحب مجھے اپنا سرپرست سمجھتے ھیں – اللہ اس ادارے کو سلامت رکھے – میرا اس ادارے سے تعلق عمر بھر کا ھے-
—————————————– رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 14 اکتوبر 2017
میرا میانوالی———————–
ریڈیو پاکستان میانوالی (FM 93 Mianwali) یہاں کے کلچر کے فروغ کا ایک معتبر وسیلہ ھے- تعلیم، تاریخ ، دینی معلومات ، صحت عامہ ، اور زراعت کے بارے میں اھم معلومات کی فراھمی کا بھی یہ ایک مقبول اور قابل اعتماد ذریعہ ھے- 5840 مربع کلومیٹر پر محیط ضلع میانوالی کے علاوہ گردونواح کے اضلاع میں بھی ریڈیو پاکستان میانوالی کی نشریات واضح سنائی بھی دیتی ھیں، پسند بھی کی جاتی ھیں-
دورافتادگی کے باعث میانوالی ایک سربستہ راز تھا- اس علاقے کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں تو ملک بھر میں مشہور تھیں، اس علاقے کی بے شمار خوبیوں کا کسی کو پتہ ھی نہ تھا- ریڈیو پاکستان میانوالی نے میانوالی کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کرنے اور یہاں کے لوگوں کی اعلی صلاحیتوں کو ملک بھر میں متعارف کرانے میں بہت اھم کردار ادا کیا- بحمداللہ اب پورے ملک میں میانوالی کے لوگوں کومحبت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتاھے، زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کی اعلی کارکردگی کو تسلیم کیا جاتا ھے-
ریڈیو پاکستان میانوالی کا قیام 2005 میں عمل میں آیا- محمد فیاض بلوچ یہاں پہلے سٹیشن ڈائریکٹر تھے- وہ ایک بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، بہت کامیاب براڈکاسٹربھی- انہوں نے محنت اور حسن تدبر سے اس ریڈیو سٹیشن کو بہت جلد ایک مقبول اور کامیاب ادارہ بنا دیا— ان کے دست راست احمد آفتاب نیازی نے سینیئر پروڈیوسر کی حیثیت میں فیاض بلوچ صاحب کی قائم کرد ہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ ان میں بہت قابل قدر اضافہ بھی کیا- آفتاب نیازی آج کل انچارج سٹیشن ڈائریکٹر ھیں- ان کے ساتھی پروڈیوسر سجاد سید بھی ریڈیو پاکستان میانوالی کے آغاز سے ھی یہاں کام کر رھے ھیں- ادبی سرگرمیوں کی کوریج میں وہ بھی بہت اھم کردار ادا کر رھے ھیں-
ریڈیو پاکستان میانوالی کے بارے میں کچھ اھم معلومات انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں لکھوں گا –
—- رھے نام اللہ کا—( پکچر—– آفتاب خان نیازی )– منورعلی ملک — 15 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
اس نظم کا پہلا شعر محمد محمود احمد ھاشمی کی نماز جنازہ سے چند منٹ پہلے ھؤا- جنازہ پڑھ کر گھر واپس آیا تو چند منٹ میں یہ نظم مکمل ھوگئی-
( پکچر و آرائش —– ذکاء ملک ، مری )
– منورعلی ملک –15 اکتوبر 2017
میرا میانوالی——————-
ریڈیو سے میانوالی کا تعلق تقریبا 80 سال پرانا ھے- قیام پاکستان سے پہلے میانوالی کے پنوں خیل قبیلہ کے نوجوان سجاد سرورخان نیازی پروڈیوسر کی حیثیت میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ھوئے- قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان میں اھم عہدوں پر فائزرھے- موسیقی سے انہیں خاص دلچسپی تھی- بہت اچھے موسیقار بھی تھے ، گلوکار بھی ، افسر بھی-
1955-56 میں جب ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے سٹیشن ڈائیریکٹر تھے تو وھاں سے مہینے میں دوبار شام پانچ بجے “میانوالی کے گیت ” کے عنوان سے ایک پروگرام نشر ھوتا تھا- اس میں میانوالی کے نامور گلوکارعیسی خیل کے استاد امتیاز خالق خان، داؤدخٰیل کے گلستان خان نیازی اور موسی خیل کے گل جہان خان میانوالی کے لوک گیت پیش کیا کرتے تھے- سجاد سرور نیازی جب ریڈیو پاکستان پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹر تھے، تو وھاں سے بھی یہ پروگرام نشر ھوتا رھا- گلوکاروں اور گیتوں کا انتخاب سجاد سرور نیازی صاحب خود کرتے تھے- گیتوں کی دھنیں بھی خود مرتب کرتے تھے-
ریڈیو سے میانوالی کا تعلق ٹوٹنے نہیں پایا- سجاد سرور نیازی کے بعد داؤدخیل کے ظفر خان نیازی نے ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کی حیثیت میں ملازمت کا آغاز کیا , سٹیشن ڈائریکٹر ریٹائر ھوئے- پروڈیوسر کی حیثیت میں افسروں سے زیادہ ، سامعین کی خواھشات کا احترام کرتے تھے- اس لیے ملک بھر کے سامعین میں مقبول تھے- ایسی محبت اور مقبولیت بہت کم پروڈیوسروں / اینکرز کو نصیب ھوتی ھے- ظفر خان ملکی سطح پر معروف شاعر اور افسانہ نگار بھی ھیں-
نورنگہ کے ستار سید نے بھی ریڈیو پروڈیوسر کی حیثیت میں سفر کا آغاز کیا ، اور سٹیشن ڈائریکٹر ریٹائر ھوئے- بہت اچھے شاعر بھی ھیں – پی ٹی وی پر بھی فن و ادب کے حوالے سے پروگراموں میں شرکت کرتے رھے-
یہ تو تھی ماضی میں ریڈیو سے میانوالی کے تعلق کی مختصر داستان- ریڈیو پاکستان میانوالی کے بارے میں کچھ مزید باتیں انشاءاللہ کل آپ سے شیئر کروں گا—— رھے نام اللہ کا –
– منورعلی ملک — 16 اکتوبر 2017
میرا میانوالی—————
ریڈٰیو پاکستان سے میانوالی کے تعلق کی مزید تفصیلات بتاتے ھوئے ، ریڈیو پاکستان کے محمد زبیر خان نیازی نے بتایا کہ داؤدخیل کے قبیلہ خضر خیل (خدرخٰیل) کے نوجوان محمد اعظم خان نیازی اور سینیئر براڈکاسٹ انجینیئر موسی خیل کے احمد نواز نیازی بھی ریڈیو پاکستان سے وابستہ ھیں-
داؤدخٰیل کے محمد اعظم خان نیازی آزاد کشمیر ریڈیو میں پروگرام مینیجر ھیں- یہ داؤخیل کے معروف قبیلے خضرخیل (خدر خیل ) کے چشم و چراغ ھیں- بہت سے خدر خیل میرے سٹوڈنٹ بھی رھے- روشن خان میرے کلاس فیلو تھے٠ محمد اعظم خان کا ریڈیومیں اھم عہدے پر فائز ھونا ھم داؤدخیل کے لوگوں کے لیے باعث فخر ھے- کتنے فخر کی بات ھے کہ داؤدخیل نے ریڈیو پاکستان کو تین بے مثال کارکن دیئے، ظفر خان نیازی، سٹیشن ڈائریکٹر ، گلستان خان نیازی سنگر اور محمد اعظم خان پروگرام مینیجر-
ریڈیو پاکستان میانوالی سے شاعر اور رائیٹر کی حیثیت میں میری وابستگی ھمیشہ رھی ھے- یہاں سے میرے دو انٹرویوز بھی نشر ھوئے- پہلا انٹرویو مرحوم پروفیسر محمد فیروزشاہ نے لیا تھا، دوسرا ڈاکٹر غفورشاہ قاسم نے-
تقریبا ایک سال تک میں میانوالی کے کلچر کے حوالے سے نیم مزاحیہ تمثیلچوں پر مبنی سکرپٹ بھی لکھتا رھا – اس میں “بالا بھرا” کا کردار بہت مقبول ھؤا- ایک دوست نے بالا بھرا سے کہا “یار تم ھر وقت مرغوں اور کبوتروں سے کیوں کھیلتے رھتے ھو؟”
بالا بھرا نے کہا ” بھائی، اے تہاڈے آر منافق نن ھوندے”
ریڈیو پاکستان میانوالی سے تقریبا تمام اھل علم و ادب کسی نہ کسی صورت میں وابستہ رھتے ھیں- ان میں سے پروفیسر سرور نیازی صاحب، مرحوم محمد محمود احمد اور زبیر حسین شاہ کے نام بہت نمایاں ھیں-
اھل علم و ادب کی ریٍٹیو پاکستان میانوالی سے وابستگی کا کریڈٹ آفتاب خان کو جاتا ھے- یہ اتنی محبت اور عزت دیتے ھیں، کہ جس کو بھی بلائیں ۔ انکار نہیں کر سکتا-
————————– رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 17 اکتوبر 2017
میرا میانوالی——————-
بہت خوبصورت سیرگاہ —- بہت سے لوگوں کی بہت حسین یادوں کا امین، چشمہ بیراج – میانوالی کے کئی خوش ذوق نوجوان اتوار کے دن کا زیادہ تر حصہ یہیں گذارتے ھیں-
کسی زمانے میں ھم پروفیسروں کا ایک گروپ بھی مہینے میں ایک آدھ بار یہاں سیروتفریح کے لیے آیا کرتا تھا- ھمار ے اس گروپ میں پروفیسرز کے علاوہ انجینیئر سرفراز شفیق اور ان کے کزن ڈاکٹر عبدالخالق بھی ھوتے تھے- پروفیسر حضرات کھانا بھی خود بناتے تھے- کھانا بننے تک باقی لوگ تاش کی بازی بھی کھیل لیا کرتے تھے- ھم ایک دو شاعر اور تو کسی کام کے نہ تھے، ھم جھیل کے کنارے گھوم پھر کر مرغابیوں کو آتے جاتے دیکھ کر دل پہلا لیا کرتے تھے- جھیل کے کنارے بند پر بیٹھ کر کھانا کھاتے- بند پر ایک مچھلی مارکیٹ ھے- کبھی کبھار وھاں سے اپنی پسند کی مچھلی بھی خرید لاتے تھے-
ایک چاندنی رات مرحوم پروفیسر محمد فیروز شاہ ، منصورآفاق اور میں نے نہر کے کنارے بیٹھ کر ایک دوسرے کو شعر سناتے گذار دی تھی- مرحوم محمد فیروز شاہ تو جب تک زندہ رھے ھراتوار کو دوتین مخصوص دوستوں کے ساتھ چشمہ بیراج کی سیر کو جایا کرتے تھے-
اب جب کبھی اکرم بیٹا لاھور سے آتے ھیں تو اپنی گاڑی میں پوری فیملی کو چشمہ بیراج کی سیر کرا لاتے ھیں-
یہاں کچھ بنیادی سہولتوں کی کمی محسوس ھوتی ھے- اگر محکمہ سیاحت ذرا سی توجہ دے کر یہاں ایک معیاری ھوٹل ، جنرل سٹور اور پٹرول پمپ وغیرہ فراھم کر دے تو یہاں کی رونق کئی گنا بڑھ سکتی ھے-
—————————————– رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –18 اکتوبر 2017
میرا میانوالی——————-
چشمہ کا دورہ تو کل ھوگیا ۔—– آئیے آج دریا کے پار کا ایک چکر لگاتے ھیں — دریا کے پار صوبہ کے پی کے کا علاقہ ضلع ڈی آئی خان (ڈیرہ اسمعیل خان ) ھے – صدر ایوب خان کے دور میں پورا مغربی پاکستان ایک صوبہ (ون یونٹ) بنا تو ضلع میانوالی ڈی آئی خان ڈویژن کا حصہ بن گیا- اس لیے ڈی آئی خان ھمیں آج بھی اپنا اپنا سا لگتا ھے-
ڈی آئی خان روڈ پر چشمہ سے تقریبا تیس کلومیٹر جنوب میں ڈھکی نام کا چھوٹا سا گاؤں ھر سال اگست ستمبر میں ھماری منزل ھؤا کرتا تھا — پروفیسر فاروق صاحب کی گاڑی میں ھم ڈھکی سے وھاں کی سپیشل کھجور لینے جایا کرتے تھے-
اس کھجور کا درخت عام کھجور کے درخت سے کچھ چھوٹا اور ڈھیلا ڈھالا سا ھوتا ھے– ان درختوں کی تعداد روز بروز کم ھو رھی ھے- حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینی چاھیے- یہ کھجور برآمد کر کے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ھے-
جن لوگوں نے یہ کھجور دیکھی اور کھائی ھے وہی جانتے ھیں کہ یہ رب کریم کی کتنی بڑی نعمت ھے- عام کھجور سے چار پانچ گنا بڑی، نرم ، رسیلی، شہد سے زیادہ میٹھی یہ کھجور ڈھکی میں ھی ملتی ھے- زیادہ تر تو بڑے شہروں کے بیوپاری آکر لے جاتے ھیں — کچھ میانوالی اور ڈی آئی خان کے بازاروں میں بھی دیکھنے میں آتی ھے، مگر یہ اصل کھجور سے ذرا چھوٹی اور کم میٹھی ھوتی ھے-
ڈھکی میں اصلی کھجور کھوڑیوں سے ملتی ھے- کھوڑٰی اس کھجور کی تیاری کا مرکز ھوتی ھے- بارش اور گردو غبار سے کجھور کو بچانے کے لیے ایک لمبا سا چھپر ھوتا ھے- کچی کھجور کھوڑی کے صحن میں چٹائیوں پر بچھا دی جاتی ھے- کئی دن بعد جو کجھور پک جاتی ھے، اسے چھپر کے سائے میں ڈھیر کر دیا جاتا ھے- ھم لوگ وھیں سے کھجور خریدا کرتے تھے- ایک دو کھوڑیوں والے ھمارے دوست بھی بن گئے تھے- ھمارے لیے چائے پانی کا بندوبست بھی کر دیتے تھے- ان دوروں کی خوبصورت یادیں ذھن کی کتاب کا ایک اھم باب ھیں———– رھےنام اللہ کا– منورعلی ملک — 19 اکتوبر 2017
میرا میانوالی-ایک بہت پیارے بھائی کی یاد میں ——————–
میں ان دنوں لاھور میں تھا، جب پروفیسر رئیس احمد عرشی صاحب کے ایک SMS نے یہ المناک خبر سنائی کہ ھمارے بہت محترم ، ھردلعزیز بھائی گورنمنٹ کالج میانوالی کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسر احمد خان نیازی راھئی ملک عدم ھو گئے— اللہ ان کی مغفرت فرما کر اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے، بہت دلآویز شخصیت تھے-ایک دلنشیں تبسم ان کے نورانی چہرے سے کبھی غائب ھوتے نہ دیکھا- سب دوستوں سے یکساں پیارکرتے تھے- اس لیے سب کے محبوب تھے- کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب کے اھم رکن تھے- خاموش طبع مگر بہت خوش اخلاق انسان تھے- سب دوستوں کا خیال رکھتے تھے- ان کے سٹوڈنٹس بھی ان سے بہت پیارکرتے تھے-
جناب احمد خان نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی سے ریٹائر ھونے کے بعد الصفہ کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ھو گئے- جب بھی ملاقات ھوتی بہت محبت سے ملتے تھے- ناقابل فراموش شخصیت تھے- ان کے بارے میں لکھنا چاھتا تھا، مگر ان کی کوئی پکچر نہ مل سکی- کل ایک عزیز نے پکچر بھیج دی، دوستی کے قرض کی ادائیگی آسان ھوتے ھی مرحوم کو خراج محبت ادا کر رھا ھوں – بہت نیک انسان تھے- ان کے لیے بے شماردعائیں-
—————————————— رھے نام اللہ کا – منورعلی ملک — 19 اکتوبر 2017
میرا میانوالی————————-
چشمہ سے ڈی آئی خان جانے والی سڑک پر ڈھکی سے کچھ پہلے مشہورومعروف قصبہ بلوٹ شریف آ تا ھے- بلوٹ شمال مغربی برصغیر میں بخاری سادات کی سب سے پہلی بستی ھے، بخاری خاندان کے بزرگ پیر شاہ عیسی یہاں آباد ھوئے- یہاں سے دریائے سندھ کے کنارے سادات کی بستیوں کا وہ سلسلہ شروع ھؤا جو کشمیرتک جاتا ھے-
ان بستیوں کے حوالے سے کبھی ایک الگ پوسٹ لکھوں گا- آج صرف بلوٹ کا ذکر ھوگا-
بلوٹ کی موجودہ شہرت تو پیرشاہ عیسی کے خاندان کی وجہ سے ھے- ویسے یہ بہت قدیم شہر ھے- تقریبا ایک ھزار سال پہلے جب اس علاقے میں کشمیری ھندو راجاؤں کی حکومت تھی ، تو راجہ بل نام کے ایک حکمران نے یہاں ایک قلعہ بنوایا تھا- قلعے کے آثار تقریبا مٹ چکے ھیں- البتہ قلعے کے اندر ھندوؤں نے عبادت کے لیے جو مندر بنائے تھے، ان میں سے کچھ ابھی باقی ھیں- اگرچہ شہر سڑک سے کچھ فاصلے پر ھے، مگر یہ مندر سڑک سے بھی دکھائی دیتے ھیں —
راجہ بل کے قلعے کی وجہ سے اس جگہ کا نام بل کوٹ تھا (کوٹ قلعے کو کہتے ھیں) – بعد میں یہ نام مختصر ھو کر بلوٹ رہ گیا-
آج سے تقریبا 35 سال پہلے لاھور سے میرے محترم دوست محمد سلیم الرحمن نے ایک خط میں کہا میں نے قدیم تاریخ کی ایک کتاب میں پڑھا ھے کہ بلوٹ کے قبرستان میں جنات کی قبریں بھی ھیں- بلوٹ میانوالی سے زیادہ دور نہیں- کیا آپ نے بھی یہ بات سنی ھے؟
میں نے یہ بات سنی تو نہیں تھی، مگر تحقیق کا ارادہ کرلیا- ایک دن پروفیسر محمد سلیم احسن اور کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ ڈھکی سے واپس آتے ھوئے ھم بلوٹ شہر میں داخل ھوئے- بلوٹ کے پیر گھرانے کے ایک صاحبزادے گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے- بہت لائق اور خوش اخلاق نوجوان تھے- انہوں نے ھماری بہت آؤبھگت کی- ھمیں شہر کے اھم مقامات دکھائے- جب ھم قبرستان پہنچے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی اس قبرستان میں جنات کی قبریں بھی ھیں- انہوں نے شمال کی جانب تقریبا ایک میل دور ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا، 147 سر ، وہ سامنے جو چند بہت بڑی قبریں نظر آرھی ھیں، ھم نے بزرگوں سے سنا ھے وہ جنات کی قبریں ھیں- مگر ھم خود وھاں کبھی نہیں گئے- بلکہ اس پراسرار ویران علاقے میں کوئی بھی نہیں جاتا-
بلوٹ شہر کے قبرستان میں کچھ بہت پرانی قبروں کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ یہ شاھی خاندان لودھی کے کچھ افراد کی قبریں ھیں- لودھی خاندان تقریبا 600 سال پہلے پورے برصغیر کا حکمران تھا—- واللہ اعلم———– رھے نام اللہ کا ———–
قلعہ بلوٹ میں 1000 سال پرانے مندروں کے آثار)– منورعلی ملک — 20 اکتوبر 2017
میرا میانوالی————————-
بلوٹ کے شمال میں چند میل کے فاصلے پر کڑی خسور (خیسور بھی لکھتے ھیں) واقع ھے- ادھر سے گذر تو کئی دفعہ ھؤا، شہر کے اندر جانے کا موقع کبھی نہ ملا- لیکن اب جانا پڑےگا، کیونکہ کڑی خسور کے بارے میں جو کچھ سنا، پڑھا، اس سے یہ پتہ چلا کہ یہ بہت اھم جگہ ھے- یہاں کے میرے کچھ سٹوڈنٹ بھی ھیں- ان میں سب سے نمایاں حافظ عماریاسر ھیں- جب گورنمنٹ کالج میانوالی میں پڑھتے تھے تو میرے بہت قریب رھے- فیس بک فرینڈز میں اسحاق خان ھیں ، ملائیشیا کی کسی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ھیں-
کڑی خسور میں بھی کھجور کے باغات اور کھوڑیاں ھیں – اسحاق خان بتاتے ھیں کہ اس کاروبار سے لوگ کروڑوں روپے کما رھے ھیں- یہ کھجور عام طور پر اگست سے فروری تک دستیاب ھوتی ھے- اسحاق خان بھی ایک کھوڑی کے مالک ھیں- اس پوسٹ میں کھوڑی کی جو پکچر شامل ھے، یہ بھی اسحاق خان نے بھیجی ھے-
کڑی خسور کے بارے میں ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ نیازی قبائل جب افغانستان سے ھجرت کر کے برصغیر میں آئے تو ان کا پہلا مسکن کڑی خسور ھی تھا- یہاں سے وہ شمال کی جانب پھیلتے ھوئے پنجاب کی حدود میں عیسی خیل کے قریب مسیت والا سے داخل ھوئے، وھاں سے کچھ خاندان آگے جاکر عیسی خیل میں آباد ھوگئے-کچھ اور آگے، کمر مشانی جا بسے، بہت بڑا قبیلہ تھا، عیسی خیل سے میانوالی تک پھیل گیا-
میں تاریخ کا عالم یا طالب علم نہیں ھوں- کڑی خسور کا ذکر چھڑا تو انگریزی اخبار پاکستان ٹائیمز میں اس علاقے کے بارے میں ایک انگریز کے لکھے ھوئے مضمون کے حوالے سے بات کر رھا ھوں – ضروری نہیں کہ یہ باتیں تاریخی اعتبار سے سو فی صد درست ھوں- اگر کچھ با تیں درست ھوں تو داد اس انگریز مصنف کو ملنی چاھیے-
کڑی خسور کے قریب کچھ صحابہ کرام کی قبریں بھی بتائی جاتی ھیں- ایک روایت یہ ھے کہ یہ صحابہ کرام جناب علی کرم اللہ وجہہ کے حکم پر بر صغیر میں اشاعت اسلام کے لیے یہاں تشریف لائے تھے- واللہ اعلم————– رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 21 اکتوبر 2017
میرا میانوالی————-
چشمہ بیراج سے دریا کے دائیں کنارے ایک سڑک شمال کی سمت جاتی ھے- اس سڑک پر چند میل آگے جائیں تو بائیں جانب ایک پہاڑی کی چوٹٰی پر ایک قلعے کے آثار نظر آتے ھیں- یہ قلعہ کافر کوٹ ھے- یہ قلعہ بلوٹ کے بانی راجہ بل کے بھائی راجہ ٹل نے بنوایا تھا- کہتے ھیں ٹل اتنا طاقت ور تھا کہ اس کا نام طاقت کی علامت بن گیا- راجہ ٹل تو ھزار سال پہلے گذر گیا، لیکن اس کا نام آج بھی ھماری زبان کا ایک معروف محاورہ ھے- یہ جو ھم کہتے ھیں 147لالا، پورا ٹل لائیم 147 یہاں لفظ 147ٹل147 کے معنی ھیں زور یا طاقت- اور یہ لفظ دراصل راجہ ٹل کانام تھا-
سنا ھے راجہ بل اور ٹل کا ایک تیسرا بھائی راجہ 147اکل147 بھی تھا- لکی مروت / ٹانک کے علاقے میں اس نے بھی ایک قلعہ بنوایا تھا- یہ قلعے افغان قبائلیوں کے حملوں کے خلاف مدافعت کے لیے بنائے گئے تھے-
کیا عجیب لوگ ھیں یہ قبائلی بھی- ایک ھزار سال پہلے کشمیری ھندوراجاؤں کے لیے درد سر بنے رھے، دوسوسال انگریزوں کے ناک میں دم کیے رکھا، پچھلے دس پندرہ سال سے امریکہ کو 147وخت147 ڈال رکھاھے،-
قلعہ کافر کوٹ ایک پراسرار ھیبت ناک سی جگہ ھے- اب تو سڑک کی وجہ سے اس کی ویرانی پہلی سی نہیں رھی- جب ھم پہلی بار وھاں گئے تو اس وقت یہ علاقہ بالکل سنسان تھا- اس دورے کے منتظم پروفیسر محمد سلیم احسن تھے- ھمارے چند اور پروفیسر دوستوں کے علاوہ کچھ سٹوڈنٹ بھی ھمارے ھمراہ تھے–
1989 میں میں نے اس قلعے کے بارے میں ایک مفصل مضمون بھی لکھا تھا، جو انگریزی کے اخبار پاکستان ٹائیمز میں شائع ھؤا تھا- اس میں میں نے یہ پکچرز بھی شامل کی تھیں جو اس پوسٹ میں آپ دیکھ رھے ھیں — اس مضمون کی ایک کاپی لاھور میوزیم (عجائب گھر) کے ریکارڈ میں بھی شامل ھے-
یہ قلعہ بلوٹ کے قلعے سے کچھ بہتر حالت میں ھے- شمال اور جنوب کی فصیل (دیوار) کا کچھ حصہ اور دو بڑے گیٹ بھی موجود ھیں ، احاطہ خاصا وسیع ھے ٠ فوجیوں کی بیرکوں (رھائش گاہ) کے کھنڈرات کے علاوہ کچھ مند ر بھی ھیں- جنوب مشرقی کونے پر ایک دومنزلہ حفاظتی چوکی کے کچھ آثار اوپر والی پکچر میں آپ بھی دیکھ سکتے ھیں——-
قلعے کے شمال مغربی کونے پر ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر بھی ھے————- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 22 اکتوبر 2017
میرا میانوالی—–
ڈھکی سے واپسی کے سفر میں ھمارا کارواں بلوٹ اور کڑی خسور سے ھوتا ھؤا کل قلعہ کافر کوٹ پہنچا تھا- آج اسی راستے پر آگے چلتے ھیں- خاصا ویران سنسان راستہ ھے-
قلعہ کافرکوٹ سے چند میل آگے مشہور گاؤں کنڈل آتا ھے- اس کی وجہ شہرت یہ ھے کہ یہاں دریائے کرم آکر شیر دل دریا سندھ کے سینے سے لگ جاتا ھے- یہ خوبصورت منظر الفاظ میں بیان نہیں ھوسکتا- اس کی پکچر نہیں مل سکی ، کسی دوست کے پاس ھوتو ان باکس کردیں- دریائے کرم کے پار پہاڑ پر قوس قزح کے رنگ بکھرے نظر آتے ھیں-
کنڈل کی دوسری خصوصیت یہ ھے کہ یہ تین اضلاع ( میانوالی ، ڈی آئی خان اور لکی مروت) کے سنگم پر واقع ھے- اسی وجہ سے یہاں کا کلچر بھی ان تین اضلاع کےکلچرز کا امتزاج ھے- دریائے کرم کے گردو نواح میں بہت سے برساتی پہاڑی نالے ھیں- ان نالوں پر پل نہ ھونے کی وجہ سے یہاں سےٹریفک بہت مشکل سے گذرتی ھے- گاڑی کو ریت میں دھنس جانے سے بچانےکے لیے بہت محتاط ڈرائیونگ کرنی پڑتی ھے-
یہاں کوئی خاص ذریعہ معاش میسر نہیں- دو وقت کی روٹی کے لیے کچھ لوگ لکڑیاں کاٹ کر بیچتے ھیں ، کچھ دریا کے کنارے تھوڑی بہت کاشتکاری کرلیتے ھیں٠ کھجور (مزیری) کے پتوں سے بنے ھوئے روٹیاں رکھنے کے ڈبے ( ھم دبہ کہتے ھیں – دیسی ھاٹ پاٹ سمجھ لیں) اور جھکور یہاں کی گھریلو مصنوعات ھیں-قمرالحسن صاحب بتاتے ھیں کہ کنڈل میں چائے کا کپ آج بھی 15 روپے میں ملتا ھے –
اس راستے پر ضلع میانوالی کا آغاز کنڈل سے ھوتا ھے- کنڈل کی شہرت کا بہت اھم سبب پیر میاں ملوک علی کا مزار ھے- پانچ سال پہلے طالبان نے مشین گن کے برسٹ مار کراس عمارت کو بہت نقصان پہنچایا تھا- اب نئی عمارت بن گئی ھے، جو سامنے پکچر میں آپ دیکھ رھے ھیں – اس مزار کے حوالے سے ایک دو دلچسپ واقعات و مشاھدات انشاءاللہ کل لکھوں گا-
—————————————- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 23اکتوبر 2017
میرا میانوالی————————-
تصوف کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا ، صوفی دوستوں سے جو کچھ سنا ، وہ یہ ھے کہ کچھ بزرگ جلالی مزاج کےھوتے ھیں- جلالی مزاج سے مراد ھے تیز مزاج ، بہت غصے والا ، جو اپنی مرضی کے خلاف ذرا سی بات بھی برداشت نہ کر سکے-
کنڈل کے پیر میاں ملوک علی بھی جلالی پیر سمجھے جاتے ھیں- اس حوالے سے ایک واقعہ ھمارے دوست ندیم صاحب نے سنایا – ندیم صاحب فیصل آباد کے تھے- 1970 -71 کے دوران عیسی خیل میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر AEO تھے- لالا عیسی خیلوی کے بھی دوست تھے- بہت سمارٹ اور خوش ذوق نوجوان تھے- اردو کے بہت اچھے شاعر بھی تھے-
اس زمانے میں ملک حبیب الرحمن ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر DEO مقرر ھوئے- وہ تصوف میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے- سنا ھے کشف کے عمل سے وہ قبروں میں مدفون شخصیات سے باتیں بھی کر لیتے تھے-
ایک دن موصوف عیسی خیل تشریف لائے- سخت گرمی تھی ، دوپہر کا وقت- انہوں نے ندیم صاحب سے کہا”کنڈل جانا ھے، پیرمیاں ملوک علی کے دربارمیں، ابھی ، اسی وقت”
سخت گرمی میں پانچ سات میل سائیکل چلانا بہت مشکل تھا، مگر باس کا حکم تھا، ندیم صاحب کو ماننا ھی پڑا-
کنڈل پہنچ کرDEO صاحب نے ندیم صاحب سے کہا آپ مزار کی حدود میں قدم نہ رکھیں کیونکہ آپ نے کافروں والا لباس (پینٹ شرٹ) پہن رکھا ھے- یہ کہہ کر صاحب مزار کی طرف روانہ ھوئے- دوچار منٹ بعد بہت پریشان حال ، پسینے میں شرابور واپس آئے اور ندیم صاحب سے کہا ” میں مکاشفہ کر کے جونہی پیر صاحب سے بات کرنے لگا ، انہوں نے کہا فورا دفع ھو جاؤ یہاں سے – اللہ جانے کیا بات ھے- جلالی پیر ھیں ، پتہ نہیں کس بات پہ ناراض ھوگئے”-
یہ کہہ کر صاحب نے ندیم صاحب سے کہا ” آئیے فی الحال واپس جاتے ھیں ، پھر کبھی آجائیں گے-“————- رھے نام اللہ کا ——– منورعلی ملک — 24 اکتوبر 2017
فیس بک سے دوستی ———————-
پچھلے سال میں نے ابتدائی دور کے فیس بک فرینڈز کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا تو معین سیالوی صاحب سے بھی رابطہ کیا- معین سیالوی میرے بالکل ابتدائی دوستوں ، حاجی اکرام اور ظفر نیازی وغیرہ کے ساتھ ھی میرے فیس بک فرینڈ بنے- میں نے انہیں میسیج بھیجا کہ آپ کےبارے میں لکھنا چاھتا ھوں ، پکچر اور کچھ اھم معلومات بھیج دیں- سیالوی صاحب نے شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا معلومات آپ سے ملاقات کے دوران دوں گا، اسی بہانے آپ سے ملاقات بھی ھو جائے گی-
میں لاھور میں تھا یہ صاحب میانوالی میں – اس کے بعد میری مصروفیات اتنی بڑھ گئیں کہ میانوالی آتا بھی رھا مگر ان سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا- اب سوچا ملاقات تو ھوتی رھے گی حق دوستی پہلے ادا کردوں-
سیالوی صاحب بہت پہلودار شخصیت ھیں- صاحب علم بھی ھیں ، صاحب قلم بھی- ان سے تعارف تین چار سال پہلے ایک مقامی اخبار میں ان کا کالم دیکھ کر ھؤا- تحریر مجھے پسند آئی- فون پہ میسیج بھیج کر داد دے دی- بہت خوش ھوئے- اب پتہ نہیں اخبارات میں کیوں نہیں لکھتے-؟ – سیالوی صاحب سے ادبی تقریبات میں کبھی کبھار ملاقات ھو جاتی تھی- ادب سے دلچسپی رکھنے کے علاوہ سیالوی صاحب ھمارے لالا عیسی خیلوی کے فین بھی ھیں-
معین سیالوی صاحب کی شخصیت کا سب سے دلکش پہلو ان کا والہانہ عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ھے- اس عشق میں کچھ دن اسلام آباد کے ایک تھانے کی حوالات میں بھی رھے- باھر نکلے تو کہا، کاش اس جرم میں مجھے سزائے موت ھو جاتی –
اللہ سلامت رکھے ، بہت محبت کرنے والے انسان ھیں-– منورعلی ملک — 24 اکتوبر 2017
میرا میانوالی—————————-
کنڈل اور عیسی خیل کے درمیان پانچ سات میل کے علاقے میں کئی چھوٹے بڑے دیہات ھیں- کچھ دریائے کرم اوردریائے سندھ کی زد میں آکر صفحہ ھستی سےمٹ گئے- کچھ باقی ھیں – بہت عرصہ سے ادھر جانے کا اتفاق نہیں ھؤا، پتہ نہیں کون کون سے گاؤں باقی ھیں ، کون سے بے نشاں ھو گئے-
اللہ کی شان دیکھیےکہ اتنے گمنام اور دور افتادہ علاقے نے کچھ ایسی نامور شخصیات کو جنم دیا جن کے نام پاکستانی سیاست اورادب کی تاریخ کے معتبرترین ناموں میں شمار ھوتے ھیں- دریائے کرم کے کنارے اٹک پنیالہ نامی گاؤں مجاھدملت مولانا عبدالستار خان نیازی کا مولد و مسکن تھا- دریائے سندھ کے کنارے گاجراں والا نام کے ایک گاؤں نے اردو ادب کو تلوک چند محروم جیسا بلند پایہ شاعر عطا کیا- گاجراں والا بہت عرصہ پہلے دریا برد ھو گیا تھا – انہی گردو نواح میں معروف و مقبول مترنم شاعر مجبورعیسی خیلوی کا گاؤں شیخ محمود بھی ھے-
ان دیہات میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ کھگلانوالہ ھے- یہ عیسی خیل سےتین چار کلومیٹر جنوب میں واقع ھے- کھگلاں والا ، جیسا کہ نام سے ظاھر ھے ، کھگل (رکھ) نام کے درختوں کا جنگل ھؤا کرتا تھا- جنگل جب آباد ھؤا تو اس حوالے سے کھگلانوالہ ھی کہلایا– ابتدا میں یہ گاؤں موجودہ جگہ سے جنوب مغرب میں تھا- دریائے کرم نے ادھر کارخ کیا تو گاؤں وھاں سے منتقل ھو کر موجودہ جگہ پہ آگیا-
کھگلانوالہ عام دیہات کی طرح بےترتیب اور الٹا سیدھا گاؤں نہیں ، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنا ھؤا گاؤں ھے- یہاں کی زیادہ تر آبادی مموں خیل اور سرورخیل قبیلے سے تعلق رکھتی ھے- میرے استاد محترم فیض محمد خان نیازی یہیں کے رھنے والے تھے- ھمارے بہت پیارے بھائی ، مقبول شاعر ناطق نیازی بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتےتھے- کھگلانوالہ میں ھمارے اور بھی بہت سے مہربان رھتے ھیں- جو موجود ھیں اللہ تبارک و تعالی انہیں خوش رکھے، جو گذر گئے، انہیں جواررحمت میں جگہ عطافرمائے-– منورعلی ملک –25 اکتوبر 2017
میرا میانوالی——–
عیسی خیل اور عیسی خیلوی کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ھوں، عیسی خیلوی پر تو 147 درد کا سفیر147 کے عنوان سے پوری کتاب لکھ دی تھی- اس کا تیسرا ایڈیشن ایک پبلشر کے پاس ھے ، میں دعا ھی کر سکتا ھوں کہ جلد شائع ھو جائے-
آج کھگلانوالہ سے نکلے ھیں تو چلتے چلتے ایک نظر عیسی خیل پر بھی ڈال لیں- یہ منظر جو اس پوسٹ میں آپ دیکھ رھے ھیں ‘ نواب غلام قادر خان کے باغ کی ایک ایک جھلک ھے- تقریبا ایک سو سال پہلے نواب صاحب نے یہ باغ لگوایا تھا- بہت خوش ذوق انسان تھے- ھرقسم کے پھول اور پھلدار درخت اور پودے اس باغ کی زینت تھے- جب میرے والد صاحب گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل میں ھیڈماسٹر تھے، اور میں یہاں ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا میں نے اس باغ میں کالی مرچ اورالائچی کے پودے بھی دیکھے تھے-
والد صاحب سکول کے عربی ماسٹر مولوی شیرمحمد خان کے ساتھ اس باغ میں کبوتر ، تلیئر وغیرہ کے شکار کو آیاکرتے تھے- دونوں بہت اچھے شکاری تھے- مولوی صاحب کہا کرتے تھے تلیئر اتنا بھولا بادشاہ پرندہ ھے کہ ایک کو فائر لگ جائے تو چار اور بھی گر پڑتے ھیں، وہ سمجھتے ھیں شاید ھمیں بھی گولی لگ گئی ھے- کیا خوبصورت زمانہ اور اچھے لوگ تھے- !!!
پکچرمیں جوتین منزلہ عمارت آپ دیکھ رھے ھیں ، یہ نواب صاحب کا بنگلہ ھے- اب تو بہت خستہ حال اور ویران بھوت بنگلہ بن چکا ھے- کسی زمانے میں اس علاقے کی سب سے عالیشان عمارت ھؤاکرتا تھا- جب میں عیسی خیل کالج میں لیکچرر تھا تو کبھی کبھی ھم لوگ ( لالا عیسی خیلوی ، ماسٹروزیر، چاچا احسن خاں ، میں اور کچھ دوسرے دوست ) ، اس بنگلے کی تیسری منزل کی چھت پر بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتے تھے- اس وقت بھی یہ بنگلہ اسی خستہ حالت میں تھا- چمگادڑوں سے مذاکرات کرکے اوپر جانے کی اجازت ملتی تھی—— یہاں سے پورا شہر ھاتھ کی ھتھیلی کی طرح صاف نظرآتا ھے- خاص طور پر غروب آفتاب کا منظر دیکھ کر انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ھے”سبحان اللہ”-
— رھے نام اللہ کا —– منورعلی ملک — 26 اکتوبر 2017
میرا میانوالی————–
چلتے چلتے ایک نظر اس علاقے کے ایک اور اھم گاؤں شیخ محمود والا کو بھی دیکھ لیں –
شیخ محمود والا عیسی خیل کے جنوب مغرب میں تقریبا پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ھے- یہ گاؤں ایک بزرگ شیخ محمود کے نام سے منسوب ھے- مجاھد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی بھی شیخ محمود کی دینی خدمات کے معترف تھے- شیخ محمود کے پوتے پیر حمیداللہ خان بھی معروف ولی اللہ تھے- ان کا مزار فن تعمیر کا ایک عمدہ نمونہ ھے-
شیخ محمود والا کی شہرت کی ایک اور اھم وجہ یہ ھے کہ یہ معروف و مقبول شاعر مجبورعیسی خیلوی کا گاؤں ھے- اپنے مدھر سریلے گیتوں کی وجہ سے مجبور صاحب کسی مزید تعارف کے محتاج نہیں- ان کے بارے میں ایک مفصل پوسٹ پچھلے سال لکھ چکا ھوں-
بریگیڈیئر غلام قادرخان ، میجر محمد شفیع خان , ڈاکٹر ظفرکمال اور پروفیسر مسرور جاوید شیخ محمود والا کی نمایاں شخصیات ھیں- ڈکٹر ظفر اور پروفیسر مسرور مجبورعیسی خیلوی کے صاحبزادے ھیں-
یہ سوگوار معصوم سی بستی تصوف اور ترنم کے بہت سے رازوں کی امین ھے-
—- رھے نام اللہ کا —– منورعلی ملک -27 اکتوبر 2017
میرا میانوالی— 2
عیسی خیل اور گردونواح میں آبپاشی کا سب سے قدیم ذریعہ دریائے کرم ھے- یہ دریا پاک افغان سرحد کے علاقے سے نکل کر , شمالی وزیرستان سے ھوتا ھؤا , عیسی خیل کے قریب کنڈل میں آکر , اپنا سب کچھ دریائے سندھ کی جھولی میں ڈال دیتا ھے-
عجیب دریا ھے ، عام دریاؤں کے برعکس اس میں سردی کے موسم میں پانی زیادہ آتا ھے- کس عمر خان نامی بند سے اس کا پانی عیسٰی خیل کے علاقے میں آتا ھے-
لفظ دریا مذکر ھے، مگر دریائے کرم کو عیسی خیل کے لوگ خدا جانے کیوں مؤنث بولتے ھیں-
“کرم واھندی پئی اے ”
مشہور شاعر تلوک چند محروم جب بنوں کے ایک سکول میں ٹیچر تھے تو ایک دفعہ دریائے کرم کے کنارے بیٹھ کر انہوں نے اپنے وطن عیسی خیل کی یاد میں ایک درد بھری نظم لکھی تھی ، جس میں دریائے کرم کو مخاطب کر کے کہا تھا ؛
اے رود کرم کیجیو پیغام رسانی
آجائے نظر دور سے جب سندھ کا پانی
کہنا کہ مسافر کوئی آوارہء غربت
دیتا تھا سلام اور یہ کہتا تھا بہ حسرت
– رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 27 اکتوبر 2017
میرا میانوالی————————
عیسی خیل سے میانوالی کی جانب نکلتے ھی سڑک کےبائیں جانب ایک اور باغ بھی آتا تھا- اس باغ کا ذکر پنجاب کےبارے میں ایک تقریبا سو سال پرانی کتاب میں بھی پڑھا تھا- پنجاب کے باغات کا ذکر کرتے ھوئے مصنف نے لکھا تھا کہ عیسی خیل میں ولی داد خان کا آبائی باغ بھی پنجاب کے اھم باغات میں شمار ھوتا ھے- یہ پھل دار درختوں کا باغ Orchard ھے، اس میں دوسرے پھل دار درختوں کے علاوہ 12 قسم کے مالٹے کے درخت بھی ھیں-
وہ باغ بھی دریائے کرم کے پانی سے سیراب ھوتا تھا- قدرت کی شان دیکھیے کہ دریائے کرم کے پانی کےساتھ مل کر عیسی خیل کی بنجر مٹی بھی سونا اگلنے لگتی ھے-
وہ باغ آج بھی موجود ھے- ملکیت ، نام اور نقشہ بدل چکا ھے- ولی داد خان کی وفات کے بعد نگہداشت کی کمی کے باعث یہ باغ رفتہ رفتہ ویران ھونے لگا تو لالا عیسی خیلوی نے خرید لیا- سڑک سے ملحق نصف حصے کو اپنی رھائش گاہ بنا لیا بقیہ نصف حصے میں باغ آج بھی زندہ وسلامت ھے- لالا کو باغبانی کا شوق بھی ھے – اب اس باغ میں کئی نئے پھل دار درخت اور پودے بھی آگئے ھیں- لالا یہاں آتا ھے تو بہت رونق لگی رھتی ھے-
آج ھم نے عیسی خیل سے باھر قدم رکھ دیا- کل کچھ دیر کلؤانوالہ رکیں گے- پھر کلورمیں ھمارے محترم بھائی پروفیسر اشرف علی کلیارکے ھاں چائے کا ایک ایک کپ پینے کے بعد آگے چلیں گے- میرا خیال ھے ترگ ، کمرمشانی ، مندہ خیل ، کوٹ چاندنہ اور کالاباغ کے بارے میں پوسٹس پچھلے سال لکھ چکا ھوں- اس لیے کلور سے نکل کر ھمارا اگلا سٹاپ ھوگا داؤدخیل – یہ درست ھے کہ داؤدخیل کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ھوں، لیکن یہ تو میر ا گھر ھے ، اس کے بارے میں جتنا بھی لکھوں کم ھے- سیدھی سی بات ھے، جو جگہ جتنی دیکھی , اتنا ھی اس کے بارے میں لکھ سکتا ھوں- زندگی کا زیادہ تر حصہ داؤد خیل اور میانوالی میں گذرا، اس لیے ان دونوں مقامات کا ذکر بھی زیادہ ھوگا ————— رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –28 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
عیسی خیل سے میانوالی کی جانب آتے ھوئے سڑک کے بائیں جانب ، ریلوے لائین کے پار ایک معصوم سا سہما سمٹا گاؤں نظر سے گذرتا ھے– یہ گاؤں کلؤانوالہ ھے– اب تو کلؤانوالہ سٹاپ کے قریب ایک آدھ ھوٹل بن گیا ھے- ورنہ تو یہاں سے گذرنے والے کلؤانوالہ کے وجود سے بے خبرھی رھتے تھے- گاؤں سڑک سے اتنا دور ھے کہ ادھر کسی کی نظر ھی نہیں جاتی-
کلؤانوالہ کی بیشتر آبادی عیسی خیل کے زمینداروں کے کاشتکاروں پر مشتمل ھے- لیکن اللہ جس کو جو چاھے دے دے- اس غریب اور گمنام سے گاؤں میں آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرل شمس الرحمن کلو جیسے بڑے فوجی افسسر بھی پیدا ھوئے- اس خاندان کے کچھ اور افراد بھی پاک فوج میں اعلی مناصب پر فائز رھے-
کلؤانوالہ کی ایک خاتون ایم پی اے بھی تھیں (نام یاد نہیں آرھا) – موصوفہ کراچی میں رھتی تھیں- ایم پی اے بھی وھیں سے منتخب ھوتی رھیں، لیکن سناھے وہ کلؤانوالہ کی تعمیر وترقی میں بھی خاصی دلچسپی رکھتی تھیں- انہوں نے کچھ رفاھی کام بھی یہاں شروع کیے تھے-
کلؤانوالہ کا ایک مشہورو معروف گھرانہ 147بحرین والے کلو147 کہلاتا ھے – اس خاندان کے زیادہ تر افراد بحرین میں رھتے ھیں – معروف سنگریونس کلو بھی اسی خاندان سے ھیں- اس خاندان کے ایک اور نامور فرد مظہر اقبال ملک ھیں- وہ بھی آج کل بحرین میں رھتے ھیں- جب پاکستان میں تھے تو کئی اخبارات کے پریس رپورٹر تھے- بعض اخبارات میں کالم بھی لکھتے تھے- بہت مقبول صحافی تھے-
کچھ اھم معلومات بحرین سے ملک انوار حسین کلو نے بھی اپنے کمنٹ میں فراھم کر دی ھیں- ان کا بھی بہت شکریہ-
مظہر اقبال ملک بتاتے ھیں کہ کلؤانوالہ بہت قدیم گاؤں ھے- مٹھہ موڑ یہاں کا مشہور کاروباری مرکز ھے- اس موڑ سے مٹھہ خٹک ، کلور شریف اور دوسرے نواحی دیہات کو راستے نکلتے ھیں، جن کے باعث اس علاقےکا ایک مخصؤص کلچر بن گیاھے-
ھمیں صرف ایک دفعہ کلؤانوالہ جانے کا اتفاق ھؤا- ایک دوست کے ھاں کھانے کی دعوت تھی- ھم پانچ سات دوست تھے- اپنی سواری کسی کی بھی نہ تھی- لالا عیسی خیلوی ایک دوست سے اونٹ گاڑی مانگ لائے- ڈرائیونگ لالا نے خود کی – گھر سے مفرور ھو کر لالا جن دنوں کراچی جابسے تھے ، وھاں روزی کمانے کے لیے اونٹ گاڑی کی ڈرئیونگ بھی سیکھنی پڑی تھی– چلو, اچھا ھؤا، ان کا یہ فن اس دن ھمارے کام آگیا، اور ھم سب لوگ کلؤانوالہ سے کھانا کھا کر اسی اونٹ گاڑی پر بخیروعافیت عیسی خیل واپس آگئے———– رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک – 29 اکتوبر 2017
میرا میانوالی
آج ھم کلور تو آپہنچے ھیں ، مگر یہاں چائے اب نہیں ملے گی، کیونکہ ھمارے میزبان، میرے محترم بھائی پروفیسراشرف علی کلیار تو ادھر دریا کے کنارے مرغابیوں کے پیچھے بھاگتے پھر رھے ھیں — اکتوبر سے اپریل تک یہ صاحب اپنے جیسے دوتین بزرگوں کے ساتھ دریا کے کنارے خیمہ زن رھتے ھیں- اور آخری مرغابی کو روس واپسی کے سفر پرروانہ کر کے ھی واپس آتے ھیں-
کلور عیسی خیل سے شمال میں تقریبا پانچ میل کے فاصلے ہر سڑک کے کنارے ایک ٹیلے پر واقع ھے- یہاں بھی میاں ملوک علی نام کے ایک بزرگ کا مزار ھے ، جس کی وجہ سے کلور، کلورشریف کہلاتا ھے- سیدھے سادے زندہ دل لوگوں کا شہر ھے- جب میں عیسی خیل کالج میں تھا، تو گورنمنٹ ھائی سکول کلور میں ٹھٹھی کے ملک عزیزاللہ نامی ٹیچر ھؤاکرتے تھے- میرے بہت پیارے دوست تھے- ان سے ملنے کے لیے میں کبھی کبھار یہاں آیا کرتا تھا-
جب میں عیسی خیل سکول میں پڑھتا تھا تو کلورسے محمداکرم ھرایا نام کے میرے ایک دوست بھی ھؤاکرتے تھے- ان کے بارے میں سناھے پاک فوج میں بھرتی ھوگئے تھے- ریٹائرمنٹ کے بعد جنوبی پنجاب کے کسی شہر میں منتقل ھو گئے – عیسی خیل کالج میں میرے بہت سے سٹوڈنٹ بھی کلور کے تھے- جہاں جہاں بھی ھیں ، اللہ سب کو سلامت رکھے-
میں نے چند دن پہلے اعلان تو کیا تھا کلور سے سیدھا داؤدخیل جانے کا ، لیکن اب یاد آیا کہ راستے میں ماڑی جیسے اھم شہر کو چھوڑ کر آگےنکل جانا زیادتی ھوگا ، اس لیے کل کادن ھم ماڑی میں گذاریں گے، انشاءاللہ- —
++++++ کمنٹس میں بعض دوست اپنے اپنے شہروں کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کرتے رھتے ھیں- بے شک ضلع میانوالی، بلکہ پاک سرزمین کا ھر شہر میرا اپنا شہر ھے، لیکن میں صرف ان شہروں کے بارے میں ھی لکھ سکتا ھوں، جہاں میں کچھ دن رھا، یا جہاں کسی حوالے سے میرا آنا جانا رھا- کیونکہ لکھنے کے لیے معلومات بھی درکار ھوتی ھیں- چکڑالہ اور پپلاں کے کچھ دوست اپنے اپنے شہروں کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کر رھے ھیں، حالانکہ ان دو شہروں کے بارے میں میں پچھلے سال لکھ چکا ھوں- میری وہ پوسٹس آپ 786mianwali.com پہ دیکھ سکتے ھیں-
———————————- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک – 30 اکتوبر 2017
میرا میانوالی–
ماڑی انڈس تو بہت مشہورو معروف جگہ ھے، مگر ماڑی شہر بہت کم لوگوں نے دیکھا ھوگا- ماڑی شہر یا پرانی ماڑی ، میانوالی / عیسی خیل روڈ کے مشرق میں دریا کے کنارے پہاڑ کی دو شاخوں کے درمیان ایک وادی میں واقع ھے- یہ شہر سڑک سے نظر نہیں آتا – البتہ دریا کے دوسرے کنارے پر کالاباغ سے اس شہر کے کچھ آثار دکھائی دیتے ھیں- سڑک کے راستے جائیں تو ماڑی انڈس کے قریب ایک بہت بڑا موڑ آتا ھے- اس موڑ سے مشرق میں پہاڑ کے دوحصوں کے درمیان ایک تنگ سا درہ ھے– درے میں سے گذریں تو سامنے ماڑی شہر ھے— یوں لگتا ھے جیسے یہ شہر ایک پیالے کے اندر واقع ھے-
ماڑی شہر ضلع میانوالی کی سب سے قدیم بستی ھے- بائیں جانب پہاڑی کی چوٹی پر ایک بہت قدیم مندر سا ھے- کہتے ھیں یہ مندر آج سے تقریبا 5000 سال پہلے ھندؤوں کے دو شاھی خاندانوں ، کورؤوں اور پانڈؤوں کے درمیان ھونے والی جنگ مہابھارت کے دور کا ھے- یہ جنگ پورے برصغیر میں کئی محاذوں پر لڑی گئی- جنگ کا ایک محاذ ماڑی شہر بھی تھا-
اس پہاڑی پر جابجا کنکریوں کی طرح ھیرے بکھرے نظرآتے ھیں- یہ اصلی ھیرے تو نہیں ، لیکن اسی نسل کی ایک چیز ضرورھیں- ان میں چمک بھی ھے، اوراصلی ھیرے کی طرح ان کے بھی 6 یا 8 کونے ھوتے ھیں- دونوں سرے نوکدار ھوتے ھیں- اس ھیرے سے شیشہ آسانی سے کاٹا جا سکتا ھے- ھیرے کی نوک سے شیسے پر لکیر لگا کر ذرا سا دبائیں تو شیشہ بڑی صفائی سے دو ٹکڑے ھو جاتا ھے-
ماڑی شہر کھڈی کی صنعت کا ایک بڑا مرکز ھؤا کرتا تھا- یہاں سے کھڈی کا کپڑا، لحافوں کے غلاف اور کھیس کسی زمانے میں کشتیوں کے ذریعے کراچی تک جاتے تھے- دوچار خاندان اب بھی کھڈی پر کپڑا بنانے کا کام کرتے ھیں- مجموعی لحاظ سے یہاں کے لوگ بہت غریب ھیں- سیاست میں سادات کا خاندان زیادہ نمایاں ھے- سید الفت حسین شاہ یہاں کی معروف سیاسی شخصیت ھیں- یہاں کی سیاست میں کالا باغ کا عمل دخل بہت زیادہ ھے-
ماڑی میں مرحوم سید محمد صادق شاہ ھیڈماسٹر اورمیجرنصیرصاحب میرے بہت مہربان دوست تھے- میجرصآحب داؤدخیل کے حاجی محمد حنیف خان نیازی کی معرفت ھمارے بھی دوست بن گئے تھے- نوجوان نسل میں سے معروف صحافی اور شاعر ناصر عباس ناصر میرے بہت عزیز دوست ھیں- ماڑی شہر کے میرے بہت سے سٹوڈنٹ بھی ھیں ، اللہ سب کو سلامت رکھے——– رھے نام اللہ کا
میرا میانوالی–
شھید ناموس رسالت غازی علم الدین شھید ————————-
آج کے دن 31 اکتوبر 1929 کو غازی علم الدین شھید اس عالم فانی سے جنت الفردوس منتقل ھوگئے- منتقلی کا یہ عمل میانوالی جیل کے پھانسی گھاٹ پر ھؤا- غازی علم الدین کو اس جرم میں سزائے موت دی گئی کہ اس نوجوان نے لاھور کے ایک گستاخ رسول ھندو پبلشر کو چھری کے وار کر کے جہنم واصل کیا تھا- سزائے موت دینے والوں کو کیا خبر کہ یہ سزا تو اس کے لیے حیات جاودالی ثابت ھوگی-
میانوالی کے لوگوں نے جب غازی علم الدین کی جان بچانے کے لیے جیل توڑ کر انہیں باھر لانے کا فیصلہ کیا تو علم الدین نے یہ کہہ کر انہیں منع کردیا کہ مجھے ناموس رسالتمآب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر جان قربان کرنے کے اعزاز سے محروم نہ کیا جائے-
پھانسی کے بعد جب شھید کے جسد خاکی کو جیل کی ڈیوڑھی میں لایا گیا تو لوگوں نے میت حاصل کرنے کے لیے جیل پرحملہ کردیا- پولیس کا ایک ڈی ایس پی زخمی بھی ھؤآ- جیل حکام نے جلدی سے جیل کے ایک کونے میں شھید کی نماز جنازہ ادا کرکے انہیں امانت کے طور پہ وھیں دفن کر دیا- 4 اکتوبرکوجب سے علم الدین شہید کو میانوالی جیل لایا گیا، یہاں کے لوگ مسلسل پرزور احتجاج کرتے رھے – علم الدین شہید کے لواحقین کی لوگوں نے بہت خدمت کی- اسی وجہ سے غازی علم الدین نے میانوالی کے لیے خصوصی دعا کی-
14 نومبر کو شہید کا جسد خاکی میانوالی کے بزرگوں کی نگرانی میں لاھور لے جایا گیا- علامہ اقبال نے انہیں قبر میں اتارا-
لاھور میں چوبرجی سے بہاولپورروڈ پر جائیں تو سڑک کے دونوں جانب قبرستان ھے- بائیں طرف کے قبرستان میں غازی علم الدین شھید کا مزار بہت نمایاں ھے- جب بھی ادھر سے گذر ھوتا ھے میں سلام اور ایصال ثواب کی سعادت حاصل کر لیتاھوں– رھے نام اللہ کا *** پکچرز—– علم الدین شہید ، اورمیانوالی جیل میں ان کی آرام گاہ– منورعلی ملک – 31 اکتوبر 2017
Mashallah,RAHHAY NAAM ALLAH,botht botht botht achaa laga apka ye andaza dekh kr, munawar ali malik apko salute krta hn,botht achy andaz mn miawali ko deeply byan kia hy,abb tau dosray cities ghoomanay k bajaay district mianwali ko ghoom ln tau kafi hy,botht khoob brother,ALLAH apko akhrat aur dunya mn kmyab karay….!Ameen
Mashallah,RAHHAY NAAM ALLAH,botht botht botht achaa laga apka ye andaza dekh kr, munawar ali malik apko salute krta hn,botht achy andaz mn miawali ko deeply byan kia hy,abb tau dosray cities ghoomanay k bajaay district mianwali ko ghoom ln tau kafi hy,botht khoob brother,ALLAH apko akhrat aur dunya mn kmyab karay….!Ameen